• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرعی خلافت وامارت

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
کیا سفرمیں بھی امیر بنانا ضروری ہے؟

حدثنا علي بن بحر بن بري ثنا حاتم بن إسماعيل ثنا محمد بن عجلان عن نافع عن أبي سلمة عن أبي سعيد الخدري : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال " إذا خرج ثلاثة في سفر فليؤمروا أحدهم " [سنن أبي داود: 2/ 42 رقم2608 ]۔
صحابی رسول ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تین لوگ سفر پر نکلیں تو یہ لوگ اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنالیں۔
یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند میں ابن عجلان ہے جس نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ مدلس راوی ہے ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اسے مدلسین کے تیسرے طبقہ میں رکھتے ہوئے کہا:
محمد بن عجلان المدني تابعي صغير مشهور من شيوخ مالك وصفه بن حبان بالتدليس[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 44]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
کیا امیر کے بغیر موت جاہلیت کی موت ہوگی؟

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بن مُحَمَّدِ بن عِرْقٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بن الضَّحَّاكِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بن عَيَّاشٍ، عَنْ ضَمْضَمِ بن زُرْعَةَ، عَنْ شُرَيْحِ بن عُبَيْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ مَاتَ بِغَيْرِ إِمَامٍ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً"[المعجم الكبير للطبراني 14/ 316، ]۔
معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس حال میں فوت ہوا کہ وہ جماعت کے امام کے ساتھ نہ تھا تواس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔
یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے اس میں کئی علتیں ہیں:
إبراهيم بن محمد بن عرق الحمصي۔
یہ امام طبرانی کا استاذ ہے اور مجہول ہے اس کی توثیق نہیں ملتی ۔
عبد الوهاب بن الضحاک السلمي۔
یہ کذاب و وضاع راوی ہے ۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
كان يكذب [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 74]۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
عبد الوهاب بن الضحاك العرضي من أهل حمص كنيته أبو الحارث السلمي يروي عن إسماعيل بن عياش والشاميين أخبرنا عنه شيوخنا كان يسرق الحديث ويرويه ويجيب فيما يسأل ويحدث بما يقرأ عليه لا يحل الاحتجاج به ولا الذكر عنه[المجروحين لابن حبان: 2/ 148]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عبد الوهاب بن الضحاك بن أبان العرضي بضم المهملة وسكون الراء بعدها معجمة أبو الحارث الحمصي نزيل سلمية متروك كذبه أبو حاتم من العاشرة مات سنة خمس وأربعين ق[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 4257 ]۔
امام ابن العراق الکناني رحمه الله (المتوفي:963):
عبد الوهاب بن الضحاك أبو الحارث السلمى متهم بالوضع والكذب[تنزيه الشريعة المرفوعة 1/ 82]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
روایت گذشتہ کا ایک اورطریق

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
أَخْبَرْنَاهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَّارُ، ثنا أَبُو إِسْمَاعِيلَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثنا أَبُو صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ خَالِدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَةِ قِيدَ شِبْرٍ، فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ حَتَّى يُرَاجِعَهُ» وَقَالَ: «مَنْ مَاتَ وَلَيْسَ عَلَيْهِ إِمَامُ جَمَاعَةٍ، فَإِنَّ مَوْتَتَهُ مَوْتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ» . [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 1/ 203]۔
دوسرے مقام پر کہا:
حَدَّثَنِي أَبُو مَنْصُورٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْعَتَكِيُّ، ثنا أَبُو سَهْلٍ حَسَنُ بْنُ سَهْلٍ اللَّبَّادُ، ثنا أَبُو صَالِحٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، ثنا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَةِ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ حَتَّى يُرَاجِعَهُ» قَالَ: «وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ عَلَيْهِ إِمَامُ جَمَاعَةٍ فَإِنَّ مَوْتَتَهُ مَوْتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ» وَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَإِنَّ سَعَتَهُ مَا بَيْنَ الْكُوفَةِ إِلَى الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ، وَآنِيَتُهُ كَعَدَدِ النُّجُومِ، وَإِنِّي رَأَيْتُ أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِي لَمَّا دَنَوْا مِنِّي خَرَجَ عَلَيْهِمْ رَجُلٌ قَالَ: بِهِمْ عَنِّي، ثُمَّ أَقْبَلَتْ زُمْرَةٌ أُخْرَى فَفَعَلَ بِهِمْ كَذَلِكَ، فَلَمْ يَفْلِتْ مِنْهُمْ إِلَّا كَمَثَلِ النَّعَمِ " فَقَالَ: أَبُو بَكْرٍ لِعَلِّي مِنْهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: «لَا وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَخْرُجُونَ بَعْدَكُمْ وَيَمْشُونَ الْقَهْقَرَى»[المستدرك على الصحيحين للحاكم: 1/ 150]۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس حال میں فوت ہوا کہ وہ جماعت کے امام کے ساتھ نہ تھا تواس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔
یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند میں عبد الله بن صالح الجهني ہے اس کے بارے میں ناقدین کے اقول ملاحظہ ہوں:
عبد الرحمن بن أحمد بن يونس الصدفي، أبو سعيد (المتوفی 347 ) نے کہا:
عبد الله بن صالح بن محمد بن مسلم الجهنىّ مولاهم المصرى: يكنى أبا صالح. روى عن الليث مناكير، ولم يكن أحمد بن شعيب يرضاه. توفى يوم الأربعاء لتسع خلون من محرم سنة ثلاث وعشرين ومائتين، ودفن يوم الخميس «يوم عاشوراء». وكان مولده سنة سبع وثلاثين ومائة.[تاريخ ابن يونس المصرى 1/ 273]۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
عبد الله بن صالح كاتب الليث المصري يروي عن بن لهيعة ومعاوية بن صالح مات سنة ثنتين أو ثلاث وعشرين ومائتين منكر الحديث جدا يروي عن الأثبات مالا يشبه حديث الثقات [المجروحين لابن حبان: 2/ 40]۔
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى290)نے کہا:
سَأَلت عَن عبد الله بن صَالح كَاتب اللَّيْث فَقَالَ كَانَ أول أمره متماسك ثمَّ فسد بِآخِرهِ وَلَيْسَ هُوَ بِشَيْء[العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله 3/ 212]
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
عبد الله بن صَالح صَاحب اللَّيْث لَيْسَ بِثِقَة[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 63]۔
امام ابن خزیمہ (المتوفى 311 )نے کہا:
كان له جار بينه وبينه عداوة فكان يضع الحديث على شيخ عبد الله بن صالح ويكتب في قرطاس بخط يشبه خط عبد الله بن صالح ويطرح في داره في وسط كتبه فيجده عبد للله فيحدث به فيتوهم أنه خطه وسماعه فمن ناحيته وقع المناكير في أخباره[المجروحين لابن حبان: 2/ 40]۔
امام صالح بن محمد جزرة رحمه الله (المتوفى293)نے کہا:
عندي كان يكذب في الحديث[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 11/ 155]۔
امام أحمد بن صالح المصرى (المتوفى248)نے کہا:
متهم ليس بشيء[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 11/ 155]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
كان صاحب حديث فيه لين[الكاشف للذهبي: 1/ 562]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
فَمُقْتَضى ذَلِك أَن مَا يَجِيء من رِوَايَته عَن أهل الحذق كيحيى بن معِين وَالْبُخَارِيّ وَأبي زرْعَة وَأبي حَاتِم فَهُوَ من صَحِيح حَدِيثه وَمَا يَجِيء من رِوَايَة الشُّيُوخ عَنهُ فَيتَوَقَّف فِيهِ [فتح الباري لابن حجر: 1/ 414]۔
معلوم ہوا کہ یہ راوی متکلم فیہ ہے اور اس کی مرویات میں شدید نکارت ہوتی ہے ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق اگر کسی سند میں اس سے نقل کرنے والے پائے کہ محدثین مثلا ابن معین ، امام بخاری ، امام ابوزرعی ، امام ابوحاتم وغیرہ نہ ہوں تو وہ حدیث غیرمقبول ہوگی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
خلاصہ کلام

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ شرعی خلافت وامارت وہی ہے جو شرعی اصولوں کے موافق ہو اور عصر حاضر میں ایسی خلافت و امارت کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے۔
ہردور میں یا عصر حاضر میں بھی پائی جانے والی امارت کو شرعی امارت ثابت کرنے کے لئے جن احادیث سے دلیل لی جاتی ہے ان سے استدلال درست نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں پیش کی جانے والی اکثر احادیث ضعیف ومردود ہیں ، اس لئے جو روایات ضعیف ہیں ان سے استدلال کی کمزوری واضح کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جب وہ ثابت ہی نہیں تو پھر ان سے استدلال بھی درست نہیں ۔
 
Top