یہ ہے وہ مقام جہاں سے اہل توحید اور اہل شرک کے کانٹے جدا ہوتے ہیں:
• اہل توحید ’’دعاء‘‘ کے مفہوم کو اس کے اصل سے توسیع دیتے ہوئے باقی شعائرِعبادت کو بھی اس میں شامل یا اس سے ملحق کرتے ہیں۔
• جبکہ داعیانِ شرک ’’دعاء‘‘ کے مفہوم کو اس کے اصل سے ہٹاتے ہوئے اس کو ’غیرعبادت‘ کا مفہوم پہناتے ہیں۔ اس طرح یہ دعاء کو ’’عبادت‘‘ اور ’’غیرعبادت‘‘ میں بانٹ کر غیراللہ سے دعاء اور فریاد کے تمام پھاٹک کھول دیتے ہیں۔
یہاں سے؛ زمین میں دفن ’سرکاروں‘ سے ہی زندگی، صحت، عافیت، اولاد، رزق، شادمانی، برکت، بارش، دھوپ ہر چیز مانگنا جائز کردیا جاتا ہے اور ہر قسم کی مصیبتوں، بلاؤں اور آفتوں کو ٹال دینے کےلیے ان ہستیوں سے دعاگو ہونا مباح ٹھہرادیا جاتا ہے! نہ صرف مباح، بلکہ خدا سے براہِ راست مانگنے کی نسبت اِن مردہ سرکاروں سے مانگنا افضل اور قبولیت کے لائق تر ٹھہرایا جاتا ہے۔ صاف ظاہر ہے، خدا سے براہِ راست مانگنے سے بھی مرادیں اُتنی ہی بر آتی ہوں جتنی کسی قبر والے سے مانگ کر، تو کیا ضروری ہے کہ آدمی قبر والے کے آگے ہی ذلیل ہو؟ وہ اپنی یہ ذلت اور فقر خدا کے ہی آگے کیوں نہ رکھے جو ہر ایک سے بڑھ کر سنتا اور ہر ایک سے بڑھ کر مہربان ہے؟! لہٰذا اگر یہ چھوٹ دے دی گئی، اور لوگوں کو یہ اعتقاد رکھنے دیا گیا کہ خدا بھی کم از کم اِس قبر والے جتنی ضرور سن لیتا ہے، تو ڈر ہے کہ ایک بڑی خلقت خدا سے ہی براہِ راست مانگے! اِس صورت میں بھی ’بزرگ‘ کچھ غیرضروری ہوجاتے ہیں اور ان کے در کی خاک چھاننے کا امکان قدرے گھٹ جاتا ہے؛ اور ابلیس کے بہت سے چاؤ تب بھی پورے ہونے سے رہ جاتے ہیں! لہٰذا ضروری ہے کہ فوت شدہ ہستیوں سے مانگنا صرف جائز نہ ہو بلکہ خدا سے براہِ راست مانگنے کی نسبت افضل ہو! بلکہ بس چلے تو واجب کردیا جائے اور خدا کو براہِ راست آواز دینا اور بلاواسطہ پکارنا اور تنہا اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانا حرام ہی ٹھہرا دیا جائے، مگر اس کے لیے قرآن سے ذرا اور بڑے درجے کی جنگ کرنا پڑے گی، گو تاویلات کرنے والے زندہ رہے تو بعید نہیں کوئی دن امت کو ایسے ’علمی اقوال‘ بھی سننے کو ملیں!
جاری ہے