• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرک اکبر کی پہلی قسم شرک دعا !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شرک اکبر کی پہلی قسم - شرکِ دُعاء

امام محمد التمیمی رحمہ اللہ رسالہ ’’انواعِ شرک‘‘ کے متن میں لکھتے ہیں:

شركِ اكبر كی پہلی قسم:

دُعاء وپکار میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا۔ اس کے شرک ہونے کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے:

فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (العنکبوت: ٦٥)

جس وقت یہ بیڑی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے بالکل خاص کرکے اللہ کو پکارتے ہیں۔ پھر جب وہ اِنہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں۔

شرح :

شرک کی اِس صنف میں دعاء ومناجات کا محض ایک فعل نہیں بلکہ معروف معنوں میں ’شعائرِ عبادت‘ (rituals) سب کے سب آجاتے ہیں، جیساکہ ہم آگے چل کر دیکھیں گے۔ تاہم مناسکِ عبادت کا ’’دعاء‘‘ کے تحت درج ہونا ایک عظیم معنیٰ رکھتا ہے۔ ’’تعبد‘‘ کے معنیٰ کو جاننے کے لیے یہ حقیقت نہایت اہم اور قابل غور ہے۔

اوپر کی آیت میں غیر اللہ کو مدد اور استعانت کےلیے پکارنا شرک قرار دیا گیا ہے۔ درج بالا آیت کے تحت امام ابن کثیر رحمہ اللہ (اپنی تفسیر میں) لکھتے ہیں:

اسی کی نظیر قرآن مجید کا ایک دوسرا مقام ہے:

وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلاَّ إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الإِنْسَانُ كَفُورًا(الاسراء:67)

’’جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اُس ایک کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارا کرتے ہو وہ سب گم ہو جاتے ہیں، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اُس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان بڑا ہی کفران کرنے والا ہے

چنانچہ یہاں فرمایا:

فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ

’’پھر جب وہ اِنہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں‘'

بیان کیا محمد بن اسحاق نے عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل سے، کہ جب رسول اللہﷺ نے مکہ فتح کیا تو عکرمہ وہاں سے بھاگ لیا اور سمندر پار کرکے حبشہ جاپہنچنا چاہا۔ جس بیڑی پر عکرمہ سوار ہوا وہ سمندر کے بیج جاکر ڈولنے لگی۔ تب جہاز کے مسافر ایک دوسرے سےگویا ہوئے : اب ایک اللہ کو پکارو؛ یہاں کوئی نہیں جو اُس کے سوا ہماری بیڑی پار لگا ئے۔ تب عکرمہ سوچنے لگا: اگر سمندر میں دستگیر اُس ایک کے سوا کوئی نہیں تو خشکی میں دستگیر بھی اُس ایک کے سوا کوئی نہیں، خدایا میرا یہ تیرے ساتھ عہد ٹھہرا کہ اگر میں یہاں سے بچ نکلوں تو سیدھا محمد(ﷺ) کے پاس جاؤں اور اپنا ہاتھ آپﷺ کے ہاتھ میں دے دوں، اور میں یقیناً آپﷺ کو مہربان کرم فرما پاؤں گا۔ اور آخر ایسا ہی ہوا۔

جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دعاء... عبادت کی جان

کسی سے دستگیری چاہنا... حاجت روائی اور مشکل کشائی کےلیے کسی سے ملتجی ہونا اور اُس کے آگے اپنے فقر وفاقہ کا بند کھولنا... ’’عبادت‘‘ کی خالص ترین صورتوں میں سے ایک ہے۔ کسی ہستی کو طبعی اسباب سے بےنیاز جانتے ہوئے

(۱) ... اُس کے آگے اپنی فریاد رکھنا، اُس کے کرم کی بھیک مانگنا اور اُس کے آگے اپنے فقر اور ذلت کا اظہار کرنا ’’عبدیت‘‘ کا ایک نہایت اہم مضمون اور ’’عبادت‘‘ کی ایک مرکزی ترین حقیقت ہے۔ کسی ہستی کے آگے دستِ ذلت درازا کرنا اُس کی خدائی ماننے کا ایک بےساختہ پیرایہ ہے۔ یہ کائنات کے ذرے ذرے پر اُس کے اقتدار کی جے جپنا ہے۔ اُس کے فرماں روائے ہستی ہونے کا معترف ہونا ہے۔ اُس کے کرم کی امید رکھنا اور اُس کی مہربانی کا اقراری ہونا ہے۔ اُس کے سمیع وبصیر ہونے کا معتقد ہونا ہے۔ غرض دعاء میں ’’عبادت‘‘ کے اِتنے معانی بیک وقت سموئے جاتے ہیں کہ ’’دعاء‘‘ عبادت کی جان ٹھہرتی ہے۔ یہاں تک کہ... فرمایا: ’’دعاء ہی عبادت ہے‘‘۔ پس اِس فعل کو غیراللہ کی جانب پھیرنا شرک ہے اور اِس کو ایک اللہ کے لیے خالص کردینا اسلام۔ توحید کا یہ دل آویز مضمون سورہ مومن کی آیت نیز حدیث میں وارِد اس آیت کی تفسیر میں یوں کھول کر لایا جاتا ہے:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (المؤمن: ٦٠)

تمہارا رب کہتا ہے ''مجھے پکارو میں تمہاری سنوں گا، جو لوگ میری عبادت سے خودسر ہوتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

اِس آیت کی تفسیر رسول اللہﷺ اپنی زبان مبارک سے یوں فرماتے ہیں:

عن النعمان بن بشیر قال: سمعت النبیﷺ یقول: الدُّعَاءُ ھُوَ الۡعِبَادَۃُ ثم
قرأ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

(الترمذی، مسند احمد، ابن ماجة، وصححه الألبانی)

نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہا: میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’دُعا ہی تو اصل عبادت ہے‘‘ اور تب آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

’’تمہارا رب کہتا ہے: مجھے پکارو۔ میں تمہاری سنوں گا، جو لوگ میری عبادت سے خودسر ہوتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کرجہنم میں داخل ہوں گے‘'

دُعاء جب عبادت ہے اور عبادت کی جان ہے تو پھر اس کو غیر اللہ کے لیے روا رکھنا غیر اللہ کی عبادت ہوئی اور غیراللہ کی عبادت کرنا شرکِ اکبر۔

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَومِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَوَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاء وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ(الاحقاف: ۵،۶)

آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کو پکارے جو قیامت تک اس کی دُعا قبول نہ کرسکیں بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں اور جب تمام انسان جمع کئے جائیں گے، اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہو جائیں گے اور ان کی عبادت سے صاف انکار کر جائیں گے''۔

آیت کے الفاظ ] أَعْدَاء وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ[ سے واضح ہوا کہ اللہ کے سوا ’’پکاری جانے‘‘ والی ہستیاں قیامت کے روز اپنے ’’پوجے جانے‘‘ کے اس فعل سے براءت کریں گی۔ چنانچہ (سورہ مومن کی گزشتہ آیت کی موافقت میں سورۃ الاحقاف کی اِس آیت کے اندر) ان ہستیوں کے ’’پکارا جانے‘‘ کو ’’انکی عبادت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔

بنا بریں عیسائیوں کا 'یسوع' کو پکارنا شرک ہے۔ ('یسوع' سے مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں جو کہ اللہ کے ایک رسول ہیں)۔ عیسیٰ علیہ السلام کو مدد کے لیے پکارنا شرک اکبر ہے توعلی رضی اللہ عنہ کو مدد کے لیے پکارنا شرک اکبر کیوں نہ ہوگا؟ مالک الملک کو چھوڑ کر کسی بھی ’غوث‘، کسی بھی 'پنجتن پاک'، کسی بھی ’غریب نواز‘ یا کسی بھی ’دست گیر‘ کو مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لیے پکارنا عین یہی حکم رکھتا ہے۔ کوئی کسی مخلوق'داتا' یا ’لجپال‘ یا کسی بھی قبر والے کو پکارے اور اس سے صحت، رزق یا اولاد کا سوالی ہو، شرکِ اکبر کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایسے واقعات کے خلاف اُمت کا وہی ردعمل ہونا چاہیے جو کہ کاٹھ یا پتھر کے بتوں کو پوجنے کے خلاف۔ کیونکہ وہ بھی شرکِ اکبر ہے اور یہ بھی۔

امام محمد التمیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

ہمارے اِس دور کے بعض مشرک رسول اللہ ﷺ کے دور کے مشرکوں سے بھی بدتر ہیں اور وہ اس طرح کہ قرآن میں اُن کی بابت ذکر ہوا ہے کہ وہ عام حالات میں تو ضرور مخلوق ہستیوں کو پکارتے لیکن جب منجدھار میں کشتی ڈولنے لگتی تو وہ ایک خدا کو ہی خالصتاً مدد کے لیے پکارتے، جیساکہ اِس فصل کی شروع آیت میں بھی یہ مذکور ہے۔ البتہ آج کے مشرک کڑے سے کڑے وقت میں بھی پکاریں گے تو اپنی ان خاص ہستیوں کو ہی۔ دعاء بمعنیٰ عبادت

جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
دعاء بمعنیٰ استعانت:

قرآنی استعمال میں دعاء کا ایک وسیع تر معنیٰ ہے اور ایک خصوصی۔ وسیع تر معنیٰ میں دعاء ’’عبادت‘‘ کی ہم معنیٰ ہے۔ جبکہ خصوصی معنیٰ میں دعاء کا لفظ خاص ’’پکار‘‘ (فریاد برائے دستگیری و حاجت روائی)(۲) پر بولا جاتا ہے، گو ہے یہ بھی عبادت۔ اصطلاح میں، اول الذکر کو کہا جاتا ہے: دعاءُ العبادۃ۔ اور ثانی الذکر کو: دعاءُ المسألۃ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ولفظ الدعاء في القرآن يتناول هذا وهذا۔ هو الدعاء بمعنى العبادة، والدعاء بمعنى المسألة، وإن كان كلٌ منهما يستلزم الآخر.. (۳)

قرآن میں لفظِ ’’دعاء‘‘ کے تحت یہ معنیٰ بھی آتا ہے اور یہ معنیٰ بھی: یعنی دعاء بمعنیٰ عبادت اور دعاء بمعنیٰ فریادِ حاجت روائی۔ گو یہ دونوں معنے باہم لازم و ملزوم ہیں۔

اب یہاں ہم دو اہم مبحث بیان کریں گے:

اول :

: دعاء اپنے عمومی معنیٰ کے لحاظ سے چونکہ پوری عبادت کا مفہوم دیتی ہے... تو اس اعتبار سے تمام شعائرِ عبادت rituals (سجدہ، رکوع، قیام، تحیات، طواف، دعاء، ذبیحہ، نذر، اعتکاف، حمد، تسبیح، تقدیس، صیام، حج وغیرہ ایسے تمام افعال) ہی ’’دعاء‘‘ میں آجاتے ہیں۔ یعنی خدا کی جانب متوجہ ہونے اور خدا کا التفات چاہنے کے تمام پیرائے اور تمام مظاہر ایک وسیع تر معنیٰ میں ’’دعاء‘‘ ہی گنے جائیں گے۔

شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

دعائے عبادت کی مثال ہے:

روزہ، نماز اور دیگر عبادات۔ چنانچہ جو شخص نماز پڑھتا ہے یا روزہ رکھتا ہے تو زبانِ حال سے دراصل وہ خدا کے حضور اپنی بخش کے لیے ملتجی ہورہا ہوتا ہے اور اس بات کا ملتمس کہ خدا اس کو اپنے عذاب سے پناہ میں رکھے اور اپنی بخشیش سے اس کو نوازتا رہے۔ نماز کی اصل حقیقت یہی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ، نماز میں آدمی بزبانِ قال بھی دعاء کررہا ہوتا ہے۔

اِسی معنیٰ میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول مشہور ہے:

إن ترك الذنوب هو الدعاء ’’گناہوں سے کنارہ کش ہوجانا دعاء ہی ہے‘‘۔ (جامع العلوم والحِکَم ج 1 ص 276)

بہت سے قرآنی مقامات پر دعاء اپنے اِس توسیعی مفہوم میں آتی ہے۔

مثلاً الیاس علیہ السلام کا اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمانا:

أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَچنانچہ یہاںأَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ(۵)

(کیا تم بعل کو پوجتے ہو؟) کا مفہوم بھی دیتے ہیں۔ یعنی الیاس علیہ السلام بعل (معبود) کیلئے بجالائے جانے والے اُنکے جملہ مراسمِ عبادت کو مذموم ٹھہرا رہے ہیں ۔

اِسی طرح یہ آیت:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۔ (۶)

یہاں تَدْعُونَ کا لفظ تَعْبُدُونَ کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے۔ غرض اِسی طرح کے بہت سے مقامات جہاں ’’پکارنا‘‘ اپنے وسیع تر معنیٰ میں استعمال ہوتے ہوئے ’’پوجنے‘‘ کا ایک وسیع تر معنیٰ بھی دیتا ہے۔

اِسی دستور کے مطابق... ہمارے اِس میں ’’شرکِ دعاء‘‘ بیان ہوا ہے۔

’’دعاء‘‘ کو اسکے توسیعی مفہوم میں نہ لیا جاتا تو لامحالہ ہم ’’سجدہ ورکوع‘‘ کا شرک الگ سے بیان کرتے، ’’ذبیحہ‘‘ کا الگ، ’’طواف‘‘ کا الگ، ’’نذر ونیاز‘‘ کا الگ، ’’دعاء‘‘ کا الگ... علیٰ ھٰذا القیاس، اِس صورت میں شرکِ اکبر کو ہم بےشمار اقسام میں بیان کرتے اور کُل چار اقسام میں اس کا احاطہ نہ ہو پاتا۔ پس دستور یہ ہے کہ ’’شرکِ دعاء‘‘ کے زیرِعنوان جملہ شعائرِعبادت میں واقع ہونے والا شرک ہی مراد لے لیا جاتا ہے۔

یہ ہے لفظِ دعاء کے ہردو استعمال کی اصل حقیقت۔ مختصر یہ کہ عبادت اور استعانت باہم مختلف چیزیں نہیں۔ دعاء کا خصوصی مفہوم (استعانت) دعاء کے وسیع تر مفہوم (عبادت) کا ہی ایک حصہ ہے نہ کہ اس سے الگ کوئی چیز۔

دوم:

لفظِ دعاء کے ہردو استعمال کی جو حقیقت ہے وہ ہم اوپر بیان کر آئے: استعانت عبادت ہی کی ایک صورت ہے اور عبادت کا حصہ ہے نہ کہ عبادت سے خارج کوئی چیز۔ البتہ کچھ لوگوں نے یہاں سے ایک نقب لگانے کی کوشش کی اور پھر اِس نقب کو وسیع کرتے کرتے وہ یہاں شرک کے ڈھیر لگانے لگے۔ ایک منصف مزاج آدمی پہلی نظر دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ یہ وہ دین نہیں جو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اپنے پیچھے چھوڑا ہے...

یہ واردات جو شرک کی اِن درآمدات کا ذریعہ بنتی چلی گئی... اِس ایک نکتہ سے عمل میں آئی کہ:

'صاحب! دعاء کا لفظ قرآن میں کوئی ایک ہی معنیٰ میں تھوڑی آیا ہے جو آپ ہمیں غیراللہ سے دعاء کرتا دیکھ کر یوں غضب ناک ہوئے جاتے ہیں! قرآن میں جس دعاء کو شرک کہا گیا وہ دعاء بمعنیٰ عبادت ہے اور اُس میں تو پکارنا اور حاجت روائی کروانا سرے سے نہیں آتا'!!!

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ دعاء کی اصل: کسی عظیم ہستی کےآگے ''اظہارِ ذلت وحاجت'' ہی ہے۔ لغت بھی اِس پر شاہد ہے اور شرع بھی اور قرونِ اولیٰ کا عمل بھی۔ ''دعاء'' کو یہ شان ملی ہی اس لیے کہ ''عبادت'' کی وہ پوری روح اور ''عبادت'' کی وہ اصل تصویر اِسی ''دعاء'' میں پائی جاتی اور اِسی سے پھوٹتی ہے۔ کیونکہ دعاء: مانگنے والے کے فقر کا بیان ہے، اور جس سے مانگا گیا اُس کے غِنیٰ اور اس کے اقتدارِپادشاہی کا اقرار، نیز اُس کے روبرو ذلت و گدائی کا اظہار؛ جوکہ ''عبادت'' اور ''عبدیت'' کی اصل ہے۔ ''دعاء'' کا مفہوم بعدازاں جتنا بھی وسیع ہوتا چلا گیا ہو، اس کا محلِ اساس یہی ہے؛ یعنی کسی کی عظمتِ شان کو نگاہ میں لا کر اُس کے آگے اپنے فقر کا بند کھولنا اور اُس کے سامنے ذلیل و پست ہو کر اُس کی بخشیش کا سوالی ہونا۔ اب سوال یہ ہے کہ ''دعاء'' اپنے اِس اصل محل (اظہارِ ذلت و فقر) سے ہٹ کیسے گئی؟ یہ تو ماننے والی بات ہے کہ ''دعاء'' کا لفظ اپنے اصل محل سے وسعت اختیار کرتے کرتے کسی وقت عبادت کی دیگر اصناف کو بھی محیط ہوجائے اور یوں دعاء کے مفہوم میں رکوع، سجود، تسبیح، قیام، نذر، ذبیحہ، طواف، صیام، حج (زیارت)، اعتکاف، صدقہ، زکات سب کچھ شامل مانا جائے۔ مگر یہ کہ دعاء کا مفہوم اپنے اصل محل (اظہارِذلت وحاجت) سے ہی ہٹ جائے، یہ کہاں سے ہوگیا؟؟؟ یہ ہے وہ واردات جس نے عقیدہ کا سب بالاحصار چھید ڈالا اور شرک کے در آنے کو اَن گنت راستے فراہم کردیے۔

جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یہ ہے وہ مقام جہاں سے اہل توحید اور اہل شرک کے کانٹے جدا ہوتے ہیں:

• اہل توحید ’’دعاء‘‘ کے مفہوم کو اس کے اصل سے توسیع دیتے ہوئے باقی شعائرِعبادت کو بھی اس میں شامل یا اس سے ملحق کرتے ہیں۔

• جبکہ داعیانِ شرک ’’دعاء‘‘ کے مفہوم کو اس کے اصل سے ہٹاتے ہوئے اس کو ’غیرعبادت‘ کا مفہوم پہناتے ہیں۔ اس طرح یہ دعاء کو ’’عبادت‘‘ اور ’’غیرعبادت‘‘ میں بانٹ کر غیراللہ سے دعاء اور فریاد کے تمام پھاٹک کھول دیتے ہیں۔

یہاں سے؛ زمین میں دفن ’سرکاروں‘ سے ہی زندگی، صحت، عافیت، اولاد، رزق، شادمانی، برکت، بارش، دھوپ ہر چیز مانگنا جائز کردیا جاتا ہے اور ہر قسم کی مصیبتوں، بلاؤں اور آفتوں کو ٹال دینے کےلیے ان ہستیوں سے دعاگو ہونا مباح ٹھہرادیا جاتا ہے! نہ صرف مباح، بلکہ خدا سے براہِ راست مانگنے کی نسبت اِن مردہ سرکاروں سے مانگنا افضل اور قبولیت کے لائق تر ٹھہرایا جاتا ہے۔ صاف ظاہر ہے، خدا سے براہِ راست مانگنے سے بھی مرادیں اُتنی ہی بر آتی ہوں جتنی کسی قبر والے سے مانگ کر، تو کیا ضروری ہے کہ آدمی قبر والے کے آگے ہی ذلیل ہو؟ وہ اپنی یہ ذلت اور فقر خدا کے ہی آگے کیوں نہ رکھے جو ہر ایک سے بڑھ کر سنتا اور ہر ایک سے بڑھ کر مہربان ہے؟! لہٰذا اگر یہ چھوٹ دے دی گئی، اور لوگوں کو یہ اعتقاد رکھنے دیا گیا کہ خدا بھی کم از کم اِس قبر والے جتنی ضرور سن لیتا ہے، تو ڈر ہے کہ ایک بڑی خلقت خدا سے ہی براہِ راست مانگے! اِس صورت میں بھی ’بزرگ‘ کچھ غیرضروری ہوجاتے ہیں اور ان کے در کی خاک چھاننے کا امکان قدرے گھٹ جاتا ہے؛ اور ابلیس کے بہت سے چاؤ تب بھی پورے ہونے سے رہ جاتے ہیں! لہٰذا ضروری ہے کہ فوت شدہ ہستیوں سے مانگنا صرف جائز نہ ہو بلکہ خدا سے براہِ راست مانگنے کی نسبت افضل ہو! بلکہ بس چلے تو واجب کردیا جائے اور خدا کو براہِ راست آواز دینا اور بلاواسطہ پکارنا اور تنہا اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانا حرام ہی ٹھہرا دیا جائے، مگر اس کے لیے قرآن سے ذرا اور بڑے درجے کی جنگ کرنا پڑے گی، گو تاویلات کرنے والے زندہ رہے تو بعید نہیں کوئی دن امت کو ایسے ’علمی اقوال‘ بھی سننے کو ملیں!

جاری ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ایک اور نقب:

’عطائی‘ اختیار مان کر غیراللہ سے دعاء!

ایک شبہ یہاں کے داعیانِ شرک کی جانب سے اٹھایا جارہا ہے کہ:

مخلوق ہستیوں کو ’غیرمستقل بالذات‘ حیثیت میں اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے جیسے چاہیں پکاریں، اور ان سے رزق، روزی، اولاد، صحت اور شادمانی جیسے مرضی مانگتے رہیں، یہ شرک نہیں ہے! بعض فوت شدہ ہستیوں کو عطائی اختیارات کا مالک جان کر پکارنا اور اِس حیثیت میں ان کے حضور صحت، روزی، اولاد اور عافیت وغیرہ کا سوالی ہونااِن داعیانِ شرک کے نزدیک نہ صرف جائز ہے بلکہ ایک نہایت اعلیٰ وارفع کام ہے! ان کا کہنا ہے شرک تو یہ تب ہوگا اگر ہم ان میں ذاتی اختیارات کا اعتقاد رکھیں جبکہ ہم ان ہستیوں کو عطائی اختیارات کا مالک مان کر ان کے آگے دستِ سوال دراز کرتے ہیں! پھر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں غیراللہ سے جس ’’مانگنے ‘‘کو شرک کہاگیا ہے یہ تو وہ ہے جو ان ہستیوں کے ’’عطائی‘‘ نہیں بلکہ ’’ذاتی‘‘ اختیارات کا اعتقاد رکھتے تھے۔ مطلب یہ کہ ان ہستیوں کا ’ذاتی وازلی‘ اختیار مت مانو، پھر جس طرح مرضی ان کے آگے اپنی فریادیں رکھو، کسی فوت شدہ سرکار سے بیٹا مانگو، کسی سے زندگی، کسی سے رزق، کسی سے بارش... نہ اس سے کوئی شرک لازم آئے گا اور نہ کوئی گناہ، بلکہ اگر آپ خدا کے اِن پیاروں سے ہی بیٹا یا زندگی یا رزق مانگتے ہیں تو یہ خدا سے براہِ راست مانگنے کی نسبت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ باعثِ ثواب ہے! تعالی اللہ عما یشرکون۔

اول تو ان داعیانِ شرک کا یہ دعویٰ بلادلیل ہے کہ انبیاء کی مخاطب قومیں خدا کے ماسوا ہستیوں کے اُس نام نہاد اختیار کو ان کا ازلی و ذاتی اختیار مانتی تھیں۔ اس کے برعکس ہم حج میں مشرکین کا تلبیہ جانتے ہیں جوکہ صحیح مسلم میں نقل ہوا ہے: ]لبيك لا شريك لك، إلا شريكاً هو لك، تملكه وما ملك ’’لبیک۔ تیرا کوئی شریک نہیں سوائے ایسے شریک کے جوکہ تیرا اپنا ہی ہے، تو اُس کا بھی مالک ہے اور جو چیز اُسکے اختیار میں ہے تو اسکا بھی مالک ہے‘


آپ اندازہ کرسکتے ہیں، مشرکینِ عرب ’توحید‘ میں ہمارے اِن داعیانِ شرک سے کم نہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی ہوں گے!

جبکہ انبیاء کی زبان پر کوئی چیز آئی ہے تو وہ غیر اللہ کو پکارنے کی مطلق ممانعت ہے۔ کسی بھی نبی سے یہ منقول نہیں کہ اس نے اپنی قوم کو یہ تعلیم دی ہو کہ ’غیر ذاتی‘ کا سابقہ یا لاحقہ لگا کر وہ مخلوق ہستیوں سے زندگی، صحت یا اولاد مانگ لیا کریں! یہ نکتہ آفرینی جو قربِ قیامت دیکھنے میں آرہی ہے... اتنا ’اہم‘ اور ’کام کا نکتہ‘ انبیاء سے بیان ہوئے بغیر رہ جانا بجائے خود قابل غور ہے۔ مردہ ہستیوں سے مانگنے کو اپنے ’مسنون وماثور‘ اعمال میں شامل کروائے بغیر اور اصحاب کو اِن ’مناسک‘ پر تربیت دیے بغیر دنیا سے چلے جانا انبیاء کے حق میں کچھ عجیب سی بات نہیں؟ اور یہ تو ماننا چاہئے کہ یہ ’نکتہ‘ اگر بیان ہوجاتا تو وہ اُن کی قوموں کے لیے بھی بڑے کام کا تھا! خود نبیﷺ نے کسی ایک آدھ نبی کو پکارنے کی تو ٹریننگ دی ہوتی! (معاذاللہ ثم معاذاللہ) گویا انبیاء اپنی قوموں کی اتنی بڑی ضرورت کی چیز ان کو بتائے اور سکھائے بغیر ہی چلے گئے!!؟

اور (اِن حضرات کے بتائے ہوئے طریقے پر) ’غیرذاتی‘ کی نیت کرکے صحابہ رضی اللہ عنہہ تو گویا اپنے لیے رزق، روزی، اولاد، بارش اور فتح وغیرہ سب کچھ غیراللہ سے مانگ لیا کرتے تھے: صحابہ رضی اللہ عنہہ میں سے کوئی اپنی حاجتیں پوری کرانے اور اپنی مصیبتیں دور کرانے کے لیے ابراہیم علیہ السلام کو پکارا کرتا تھا اور کسی کا ’قلب‘ اسماعیل علیہ السلام سے مانگنے کی جانب لپکتا تھا!؟

صحابہ رضی اللہ عنہہ میں سے کسی کا میلان نوح علیہ السلام کو آوازیں دےدےکر اپنی مرادیں پوری کروانے کی جانب تھا تو کسی کا آدم علیہ السلام تو کسی کا موسیٰ علیہ السلام کی جانب؟! عیسی علیہ السلام کو پکارنے والوں کو بھی یہی نسخہ بتایا گیا کہ بھائی مانگتے بےشک عیسی علیہ السلام سے رہو بس ’غیرذاتی‘ کی نیت کرلو!؟

اور رسول اللہﷺ سے تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہہ ہی دعاء کیا کرتے تھے؟! پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو صحابہ رضی اللہ عنہہ نے فی الفور ابوبکررضی اللہ عنہ کا مزار بنایا اور ابوبکررضی اللہ عنہ سے ہی رزق، اولاد اور بارش کی دعائیں ہونے لگیں؟

! تھوڑی دیر بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ سے دعائیں مانگی جانے لگیں؟

! پھر صحابہ رضی اللہ عنہہ اور تابعین رحمہ اللہ اپنی حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پکارنے لگے؟

! اور ’یا علی مدد‘ تو شروع ہی صحابہ رضی اللہ عنہہ اور تابعین رحمہ اللہ نے کیا تھا؟


! جیسے جیسے کبار صحابہ رضی اللہ عنہہ وفات پاتے گئے خلافتِ راشدہ کا ’محکمۂ اوقاف‘ ہر صحابیؓ کے شایانِ شان مزار تعمیر کرتا اور لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ ان کے عرس پر آتے اور دور و نزدیک سے سب ان کو اپنی حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے پکارتے... ’صرف اللہ کو پکارنے اور اس کے سوا کسی سے حاجت روائی نہ کروانے‘ کا تو عقیدہ ہی کہیں آج جاکر ایجاد ہوگیا اور چند ’ولیوں کے گستاخوں‘ کا چھوڑا ہوا ایک شوشہ ہے!!!؟

آپ اندازہ کرسکتے ہیں، اسلام کی حقیقت، اسلام کی فطرت اور اسلام کی تاریخ کس شدت کے ساتھ ایسے کسی بیہودہ تصور کو قبول کرنے سے اِباء کرتی ہے؛ یعنی ’غیر ذاتی‘ کی واوین لگا ئیے اور اس کے بعد مخلوق ہستیوں سے حاجت روائی کروانے کی گنجائش ہی گنجائش!!! بلکہ فضیلت!!! آپ سوچ سکتے ہیں انبیاء علیہ السلام اور صحابہ رضی اللہ عنہہ کی زندگیاں اور ان سے ماثور دین اِس اندازِ فکر سے کس قدر بیگانہ ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہہکے یہاں قبروں والوں سے (کسی نہ کسی حیثیت میں) اپنی مرادیں پوری کروالی جاتی ہوں گی، یہ مفروضہ سوچ کر ہی آدمی کو کیسی جھرجھری آتی ہے۔

کیا شک ہے انبیاء کی اپنی قومیں اِس ’نکتۂ رسا‘ کی سب سے بڑھ کر ضرورت مند تھیں (کہ ’عطائی‘ کی نیت کرکے سب کچھ غیراللہ سے مانگتے رہو)!

واقعہ یہ ہے کہ تاریخ انسانی کی کسی بدترین سے بدترین مشرک قوم نے بھی یہ اعتقاد نہیں رکھا کہ: }ان کی کارساز ہستیاں اپنے اِن اختیارات کی آپ سے آپ مالک ہیں اور یہ کہ یہ اختیارات کہیں ازل سے ان ہستیوں کے پاس ہیں نہ کہ کسی ازلی سرچشمہ سے حاصل کردہ۔{
حقیقت یہ ہے کہ مشرکین کے ہاں خداؤں اور دیوتاؤں کے جتنے بھی شجرے اور خانوادے آج تک پائے گئے ان کے اختیارات تو کیا ان کے وجود میں ہی ’’ازلیت‘‘ یا ’’قائم بالذات‘‘ ہونے کا معنیٰ کبھی نہیں پایا گیا۔ بلکہ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں یہ سب کسی ازلی ہستی سے ہی جاکر جڑتے۔ (اور وہ ازلی ہستی جو آپ اپنی قوت سے اور ازل سے اِن اختیارات اوراِن قوتوں کی مالک ہےان تمام مشرکین کے نزدیک خدا کی ذات رہی ہے؛ دنیا کی کوئی مشرک قوم ’ایک بڑی ہستی‘ کے تصور سے بیگانہ نہیں رہی جو آگے چھوٹی چھوٹی ہستیوں کو تھوڑے تھوڑے اختیارات تفویض کردیتی رہی ہے۔ تعالی اللہ عما یقولون علواً کبیراً) چنانچہ قدیم مشرکین جن ہستیوں کو پکارتے تھے ان کے اختیارات تو کیا ان کا اپنا وجود ہی کسی نہ کسی ’’سرچشمہ‘‘ سے پھوٹتا تھا۔ اور یہ ’’ازلی سرچشمہ‘‘ جس سے ان چھوٹی چھوٹی ہستیوں کا وجود اور اختیارات برآمد ہوتے تھے – الفاظ و تعبیرات کے فرق کے ساتھ – وہی موجدِاول ہستی ہے جس کا انکار نہ تو قدیم فلاسفہ نے کیا اور نہ اجرام واصنام کے پجاریوں نے۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ غیرہستیوں کے لیے مافوق الفطری اختیارات Mata-Physical powers تسلیم کرنے میں ایک فطری شرم اور ججھک کسی کے ہاں زیادہ رہی اور کسی کے ہاں نہ ہونے کے برابر۔ اور یہ بھی ماننا چاہئے کہ ہماری اس امت سے منسوب مشرکین بڑی کوشش کرکے بھی خدا کے ماسوا ہستیوں کو کارساز ٹھہرانے میں قومِ عاد و ثمود اور قوم ابراہیم کے مشرکین جتنے بےججھک اور نڈر نہیں ہوسکے۔ پس یہ فرق ڈگری کا ضرور ہے نہ کہ ماہیت کا۔ خدا کے سوا کسی ہستی سے جب آپ نے صحت، اولاد یا رزق مانگ ہی لیا، شفا یا اولاد کے لیے کسی غیر ہستی کے آگے ہاتھ پھیلا ہی دیا، خواہ اس کو کیسے ہی اختیارات کا مالک سمجھ کر ہو، اپنی حقیقت وماہیت میں ہے یہ شرکِ اکبر اور دینِ انبیا علیہ السلام کے ساتھ صاف تصادم۔ ہاں کوئی قوم اِس شرکِ اکبر کا ارتکاب کرنے اور بایں صورت دینِ انبیا علیہ السلام کے ساتھ تصادم روا رکھنے میں بہت بہت آگے بڑھ جاتی رہی ہے اور کوئی طبقہ اس روش میں بہت آگے نہیں جاسکا اور الٰہ واحد کو پوجنے کی وہ فطرت جو خدا نے ہر بشر میں ودیعت کررکھی ہے ایک دھڑکا سا بن کر اِس راستے میں بگٹٹ ہوجانے سے اُس کو روک دیتی رہی ہے، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ روش یہ شرکِ اکبر ہی کی ہے، کسی کو اس میں خوب ترقی ملی اور کسی کو کم۔ کسی کو بہت بڑا دھکا پڑا اور کسی کو نسبتاً کم۔ ہاں اِس معنیٰ میں شرکِ اکبر میں گرفتار طبقوں کے مابین تفاوت (درجات کا فرق) تسلیم کرنا غلط نہیں۔

علاوہ ازیں، قرآن غیراللہ کو پکارنے کی مطلق ممانعت سے پر ہے۔ انبیاء کے تذکروں میں قدم قدم پر غیراللہ کو پکارنے کی یہ ممانعت مذکور ہے۔ آج کے داعیانِ شرک کے بیان کردہ اِس ’نکتے‘ میں کچھ بھی حقیقت ہوتی تو انبیا علیہ السلام جن کی زندگیاں اپنی قوموں کو غیراللہ کو پکارنے سے روکنے اور ان ہستیوں کے در سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کروانے پر تنبیہات کرنے اور اس پر اِنذار اور عذاب کی وعیدیں سنانے میں گزری... کتنا آسان ہوتا کہ یہ انبیا علیہ السلام اپنی قوموں کو ایک چیز سے مطلق ممانعت کرنے کی بجائے یہ ’آپشن‘ سجھاتے کہ خدا کے بندو اِن ہستیوں کوپکارنا ہی چاہتے ہو تو ہم نے بھی ان کو پکارنے سے مطلق طور پر کب روکا ہے، بس یہ نیت کرلو کہ تم ان کو غیرمستقل بالذات حیثیت میں، اور عطائی اختیارات کی مالک ہستیاں مان کر، اِن کے آگے اپنی فریادیں رکھتے ہو۔ انبیاء کا کام کتنا آسان ہوجاتا اگر وہ ’عطائی‘ کی بریکٹ لگوا کر اپنی قوموں کو ان ہستیوں سے صحت، روزی، رزق، اولاد، شادمانی سب کچھ مانگنے دیتے! خصوصاً جبکہ بعض قوموں کی بابت ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ وہ ہستیاں جن کو وہ پکارتی تھیں کچھ اولیاء اور صالحین ہوگزری ہیں، جیساکہ ازروئے تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ وہ نیک ہستیاں جن کو قومِ نوح پکارتی تھی یعنی ودّ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر۔ علاوہ ازیں، مشرکینِ عرب کے بعض معبودوں کے صالح اور مقرب ہونے کا ذکر خود قرآن نے کیا ہے:

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ (بنی اسرائیل: 56، 57)’

’کہو، پکار دیکھو ان ہستیوں کو جنہیں تم خدا کے ماسوا کچھ سمجھتے ہو، چنانچہ یہ تم سے تکلیف دور کرسکتے ہیں اور نہ ٹال سکتے ہیں۔ وہ ہستیاں جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے رب کے ہاں تقرب پانے کا ذریعہ ڈھونڈتی ہیں کہ کون اس سے قریب تر ہوجائے، وہ اُسی کی رحمت کی امیدوار ہوتی اور اسی کے عذاب کا خوف کھاتی ہیں


یعنی یہ نیک ہستیاں ہی تھیں جن کو عرب کے وہ مشرکین پکارتے تھے۔ یہ خدا کے کچھ ولی تھے۔ پاکیزہ ارواح تھیں۔ مقرب ملائکہ تھے۔ مگر قرآن کے ایک ادنیٰ طالبعلم سے بھی یہ بات اوجھل نہیں کہ انبیاء نے خدا کے ماسوا ہستیوں کو پکارنے سے مطلق ممانعت کی۔ حالانکہ ’عطائی‘ کی بریکٹ لگا لینا کم از کم ایک مطلق ممانعت کی نسبت ان کا کام آسان ضرور کرسکتا تھا۔

واضح بات ہے، جب بھی کسی آسمانی امت میں ابلیس نے غیراللہ کو پکارنے کا چلن کروایا، وہاں اس کو اچھی خاصی موشگافیوں کا سہارا لینا پڑا۔ شرک عام کروانے کے لیے چوردروازوں سے گزرے بغیر کبھی بات نہیں بنی۔ ابتداء ہمیشہ ’بےضرر‘ نظر آنے والے کچھ ’اشکالات‘ سے کروائی گئی۔ ’حوصلہ‘ یکلخت کبھی نہیں کھلا۔ شرک کی شاہراہ پر چڑھانے سے پہلے خاصی خاصی دیر تک قوموں کو نہایت چھوٹی چھوٹی اور تنگ بل کھاتی پگڈنڈیوں پر ہی چلایا گیا۔ وہ دھڑکا جو ایک نبی سے نسبت یافتہ قوم کو شرک کی شاہراہ پہ جا چڑھنے میں حائل ہوتا ہے کبھی یک دم نہیں گیا، اس کے لیے راستہ ہموار کرنے کی خاطر ابلیس نے بڑے بڑے طویل پاپڑ بیلے ہیں۔

*****
پس یہ واضح رہے، شرکِ اکبر کی یہ جو پہلی قسم یہاں ذکر ہوئی ہے، اور جس کو ’’دعاء کا شرک‘‘ کہا گیا ہے، اس میں غیر اللہ سے صرف' دُعا کرنا' ہی نہیں بلکہ وہ تمام عبادات آجاتی ہیں جو ’جوارح‘ کے ذریعے غیراللہ کے حضور بجا لائی جائیں۔ یعنی تمام کے تمام شعائر (rituals)۔


جاری ہے _______________
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
’’طبعی اسباب‘‘ physical means جیسےڈاکٹر کا علاج، روزمرہ زندگی میں انسانوں کا ایک دوسرے کے کام آنا، مادہ کے طبعی خواص سے برآمد ہونے والے فوائد کو اختیار کرنا، وغیرہ۔ یہ سب شریعت میں نہ تو منع ہے اور نہ معیوب، اور نہ ’’دعاء‘‘ و ’’توکل‘‘ کے منافی۔ ’’دعاء‘‘ کا جو دائرہ ہے وہ ہے ہی طبعی اسباب سے بالاتر ایک دائرہ۔ یعنی کسی ہستی میں مافوق الطبیعی اختیارات Mata-physical powers کا اعتقاد رکھتے ہوئے اُس سے اپنی مدد اور دستگیری کے لیے ملتجی ہونا۔

(۱)یہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔ یعنی یہ سرے سے محتاجِ ثبوت نہیں۔ اِس موضوع پر انبیاء کے بیان کردہ مضامین میں خوامخواہ الجھاؤ پیدا کرنا کہ ’صاحب غیراللہ سے مانگنا شرک ہے تو کیا میرا آپ سے پانی کا گلاس مانگ لینا شرک ہے، یا آپ کا ڈاکٹر کے پاس چلے جانا شرک ہے؟‘ دعوتِ انبیاء کے مقابلے پر عناد اور سینہ زوری کے سوا کچھ نہیں۔ اسباب میں طبعی و مافوق الطبیعی کا فرق عقول میں آپ سے آپ واضح ہے۔ انبیاء کا دین اس سے جلی تر ہے کہ ایسی کسی موشگافی کو ہم ’اشکال‘ کا درجہ تک دیں۔

(۲)اسی کو استعانت کہتے ہیں (اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ) اور جوکہ خالص اللہ کا حق ہے۔

(۳)اقتضاء الصراط المستقم مخالفة أصحاب الجحيم ص 787. (طبع مكتبة الرشد، الرياض، مع تحقيق وتعليق د. ناصر العقل)

(۴)القول المفید علیٰ کتاب التوحیدباب: الخوف من الشرک، حدیث ’’من مات وہو یدعو من دون الله نداً، دخل النار‘‘

(۵)(الصافات: 123 ۔ 125) ’’ کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو؟‘‘

(۶)(الحج: 73) ’’لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے، ذرا کان لگا کر سنو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وه ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں‘‘

(۷)صحيح مسلم، كتاب الحج، باب التلبية وصفتها ووقتها،
اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ سب کو دین کی صحیح سمجھ دیں - آمین
 
Top