• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرک کیا ہے؟ اور اس کی حقیقت از مفتی اکمل بریلوی

شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شرک کیا ہے ؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے اہل حدیث علماء سے تو شرک کی یہی تعریف سنی ہے کہ اللہ کی ربوبیت الوہیت،اسماء وصفات میں،یا ان میں سے کسی ایک میں کسی غیر اللہ کو اللہ کا شریک بنانا شرک ہے لیکن میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ بریلوی شرک کی کیا تعریف کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے برصغیر میں بہت شرک پھیلایا ہے اور بہت سے غلط عقائد کو اسلام میں شامل کر دیا ہے اسی سلسلے میں ،میں نے سوچا کہ بریلوی علماء جو دن رات اپنے کفریہ عقائد کو قرآن و احادیث کی غلط تفاسیر سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں آخر انہی کی زبانی شرک کی تعریف سنی جائے اسی طرح یو ٹیوب پر سرچنگ کے دوران مجھے ایک کلپ ملا جو کیو ٹی وی (QTV)کے مشہور و معروف مفتی اکمل جو کہ بریلویوں کا مستند عالم دین ہے کی ویڈیو دیکھی جس کا موضوع شرک کیا ہے بائے مرشد جان مفتی اکمل قادری ہے،انہیں کی زبانی میں نے اس پوری تقریر کو لکھ کر آپ سب کے سامنے پیش کیا ہے اُمید ہے اہل علم حضرات مفتی صاحب کی گئی شرک کی تعریف ، اور ان کے شبہات کا ازالہ کریں گے ہیں شرک کے بارے میں ان کےغلط تصور کا علمی رد کریں گے اور ان کی غلط فہمی کو دور کریں گےکیوونکہ ان کا زعم باطل ہے کہ اُمت محمدیہ شرک نہیں کر سکتی
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
شرک کسے کہتے ہیں؟
شرک کالغوی معنی ہے شریک کرنا،شریک ٹھہرانا،اور شرعی طور پر شرک کا مطلب یہ ہوتا ہےکہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات،یا اس کی صفات کے ساتھ کسی غیر کو شریک کر دینا
جو ذات کے ساتھ شرکت ثابت ہوگی اسکو شرک فی الذات کہا جاتا ہے اگر کوئی صفات میں شرکت کرے گا تو اسے شرک فی الصفات کا نام دیا جاتا ہے اسطرح شرک کی دو قسمیں بن گئیں۔

(۱) شرک فی الذات
(۲) شرک فی الصفات
شرک فی الذات:-
شرک فی الذات کیا ہے؟ اس کی کیا صورت ہو گی؟ اس کی کم ازکم تین صورتیں لے لیں۔
(1) جس طرح اللہ تبارک وتعالی ہمیشہ سے ہے ایسا کسی اور کو تصور کرلینا کہ وہ ہمیشہ سے ہے جس کو آپ کہتے ہیں قدیم ، اللہ سبحانہ و تعالی ہمیشہ سے ہے کبھی ایسا نہیں تھا کہ وہ پہلے نہیں تھا پھر دنیا میں آیا، جسطرح ہم پہلے نہیں تھے بعد میں معرض وجود میں آئے
اب اگرکوئی اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی اور کو کہے یہ قدیم ہے تو وہ مشرک ہو جا ئیگا جیسے فلاسفہ نے کہا زمانہ ازلی بھی ہے ابدی بھی ہے یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا تو انھوں نے زمانے کو بھی اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ ملا کر قدیم کہہ دیا اور شرک کے مرتکب ہو گئے شرک فی الذات یہ ہے کہ کسی کو اللہ سبحانہ وتعالی کی طرح قدیم تصور کرنا کہ وہ ہمیشہ سے ہے کبھی ایسا نہیں تھا کہ پہلے نہیں تھا پھر ہوا بلکہ ہمیشہ سے ہے تو یہ شرک فی الذات کی ایک صورت بنے گی۔
(2) جیسے اللہ تبارک وتعالی لائق عبادت ہے اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی بھی مخلوق کو لائق عبادت تصور کرنا جیسے بت پرست،آتش پرست،سورج کو پوجنے والے یہ سب کے سب اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ بھی کسی اور کو معبود مان رہے ہیں اس کو عبادت کے لائق سمجھ رہے ہیں یہ بھی شرک فی الذات ہے۔
(3) اللہ تبارک وتعالی کیلئے اولاد کا تصور رکھنا کہ اس کی اولاد ہے یہ بھی شرک فی الذات کے زمرے میں آئےگی جیسے کرسچن عیسی علیہ السلام کو اللہ سبحانہ وتعالی کا بیٹا کہتے ہیں اور یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا کہتے ہیں یہ بھی شرک ہے یہ تین صورتیں شرک فی الذات کی ہوئیں۔

· اللہ تبارک وتعالی کی مثل کسی کو قدیم تصور کرنا
· اللہ تبارک وتعالی کی مثل کسی کو معبود عبادت کے لائق سمجھنا
· اللہ تبارک وتعالی کیلئے اولاد کاتصور رکھنا
اسکا بیان قرآن مجید کے اندر موجود ہے بعض چیزوں کا ہے بعض کا صراحتاً نہیں ہے لیکن بہرحال ہے

شرک فی الصفات:-
شرک فی الصفات یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی جتنی بھی صفات ہیں وہ جن خوبیوں سے متصف ہیں یا ان صفات میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں کسی مخلوق میں وہ ہی صفت ان تمام خوبیوں کے ساتھ مان لینا یہ شرک فی الصفات ہے جیسے اللہ سبحانہ و تعالی کی صفتیں ہیں ہر صفت اللہ تبارک وتعالی کی کم از کم چار خوبیوں سے ضرور متصف ہو گی تو مخلوق کے اندر وہ ہی صفت مان کر اور اسے انھی چار خوبیوں سے متصف مان لینا یہ شرک فی الصفات ہے مثال کے طور پر پہلےہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات کون کون سی خصوصیات سے متصف ہیں۔
اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات قدیم ہیں ہمیشہ سے ہیں ہمیشہ رہیں گی ہمیشہ سے اسلئے مانا گیا ہے کہ عقلی لحاظ سے عقیدہ ثابت ہوا ،قرآن اس میں نہیں بولے گاحدیث اس پر بالکل خاموش ہےیہ اکابرین نے معتزلہ کا جواب دیتے ہوئے
فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی کی ذات جیسے قدیم ہے اسکی صفات بھی قدیم ہے کیوں؟ اسلئے کہ اگر آپ صفات کو قدیم نہ مانیں اور یہ کہیں کہ یہ پہلے نہیں تھیں بعد میں پیدا ہوئیں تو یہ ضرور ماننا پڑے گاکہ اللہ تبارک وتعالی ایک وقت میں معاذاللہ نابینا بھی تھا دیکھ نہیں سکتا تھا وہ سن نہیں سکتا تھا وہ کلام پر قدرت نہیں رکھتا تھاوہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتا تھاوہ کسی کو زندہ نہیں کر سکتا تھا کسی کو مار نہیں سکتا تھااسلئے کہ یہ تمام اللہ سبحانہ وتعالی کی صفات ہیں دیکھنا ایک صفت،سننا ایک صفت،کلام کرنا،ارادہ کرنا،مارنا،زندہ کرنا،پیدا کرنا،پیدائش،تخلیق یہ سب اللہ تباک وتعالی کی صفات ہیں تو اگر آپ یہ کہیں کہ یہ صفات ہمیشہ سے نہیں بعد میں ہوئیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات ایک وقت میں ان صفات کے بغیر تھی تو اللہ تعالی کاعیب دار ہونا لازم آئیگاتویہ عقلاً محال ہے دوسری بات اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ صفات بعد میں اللہ تبارک وتعالی کے پاس آئیں ہمیشہ سے نہیں ہیں تو کس نے دیں، لازمی بات ہے دوسری ذات کا تصور پیدا ہوگاکیونکہ جب اللہ سبحانہ و تعالی پیدا کرنے پر قادر ہی نہیں تھا اسکے پاس یہ صفت پیدا کرنے کی تھی نہیں تو صفات کو کس نے پیدا کیا اللہ تعالی کے پاس تو صفت تھی نہیں تو ماننا پڑے گا کہ کسی اور ذات نےپیدا کرکے اسے اللہ تبارک وتعالی کو دیا تو پھر اس ذات کااللہ سبحانہ و تعالی سے زیادہ طاقتور ہونا لازم آئیگا تو اس طریقے سے ہزاروں خرابیاں لازم آئیں گی۔
· اللہ تبارک وتعالی کی صفات قدیم ہیں یعنی ہمیشہ سے ہیں۔
· اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات ذاتی ہیں اُسے کسی نے عطا نہیں کیں خودبخود اُس کی ہیں اب اگر کوئی اُس کو عطا کرتا تو وہ صفات عطائی کہلاتی تو اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات ذاتی ہوئیں۔
· لامحدود،اُن کی کوئی حد نہیں وہ کہاں تک دیکھ سکتا ہے کہاں تک کی آواز سُن سکتا ہے وہ کتنے ارادے کر سکتا ہے کتنوں کو مار سکتا ہے کس حد تک زندہ کر سکتا ہے کوئی حد مقرر نہیں کر سکتا اُس کی صفات لامحدود ہیں، علم اللہ سبحانہ وتعالی کی صفت ہے اُس کی کوئی حد نہیں ،کوئی کنارہ نہیں۔
· غیرفانی، اللہ تبارک وتعالی کی کسی صفت پر فناء نہیں یعنی کبھی بھی فناء نہیں ہوں گی تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ تبارک وتعالی کی ہرخوبی چار صفات سے ضرور مُتصف ہو گی
(1) قدیم

(2) ذاتی
(3) لامحدود
(4) غیرفانی
اب اگر کوئی مخلوق کی صفت کے اندر ان چار خوبیوں کو مان لے گا وہ مشرک ہو جائیگا اور بعض اوقات ان میں سے ایک کو بھی مان لے گا تو مشرک ہو جا ئیگا ۔

· مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں ولی کا علم قدیم ہے ہمیشہ سے ہے فوراً مشرک ہو جائیگا کیونکہ علم قدیم نہیں ہو سکتااللہ سبحانہ وتعالی کا علم قدیم ہےجب اللہ تبارک وتعالی نے اُسے دیا تواُسکے پاس پہلے علم نہیں تھااللہ تبارک وتعالی کے دینے سے ہوا تو علم اُسکا قدیم نہ رہا شرک ہو جائیگا۔
· مخلوق کی جتنی صفات ہیں وہ ہیں عطائی اگر کوئی کسی مخلوق کی کسی بھی صفت کو کہے گا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اُسے نہیں دی خودبخود اُسکی ہیں مشرک ہو جائیگا فلاں ولی مدد کر سکتا ہے اللہ سبحانہ وتعالی کی عطا ء کے بغیر فوراً مشرک ہو جائیگا اسلئے کہ کوئی اللہ تبارک وتعالی کے بغیر ایک تنکا بھی کسی کو نہیں دے سکتا یہ مسلمان کا عقیدہ ہے الحمدللہ تو مخلوق کی صفات کیا ہوئیں غیر قدیم اور غیر ذاتی یا عطائی۔
· اگر کوئی یہ کہے کہ کسی مخلوق کی صفت لامحدود ہے اُس کی کوئی حد نہیں شرک ہو جائیگا،ایک ہے کسی مخلوق کی صفت کو لا محدود ماننا ایک ہے حد نہ جان پانا دونوں میں فرق ہے ہمارے نبی علیہ السلام کا علم کتنا ہے آپ بتا سکتے ہیں کہ نہیں ؟اُس کی کوئی حد آپ قائم نہیں کر سکتےلیکن یہ ماننا پڑے گا کہ نبی کا علم محدود ضرور ہے اُس کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہےیہ ماننا پڑے گا،لیکن کتنی حدہےاُس پر آپ اور میں مطلع نہیں ہو سکتےاسلئے کہ علماء نے ارشاد فرمایاکہ دنیا کا سمندرآپ ایک علم کی مانند تصورکر لیں اس میں سے اگر ایک چڑیا ایک قطرہ پانی پئیے منہ اُٹھائے اس کی چونچ سے جوقطرہ گرے گاتو یہ علوم کی مثال ہےنبی کا علم تمام سمندر کی مثل ہےاور اُس چڑیا کی چونچ سے گرنے والاجو قطرہ ہےگویا کہ تمام مخلوق کا علم ہےکوئی تقابل ہے کوئی موازنہ کر سکتا ہےاتنا عظیم علم ہے ہمارے نبی کا،توایک ہےکسی مخلوق کی صفت کو لامحدود تصور کرنایہ ممنوع ہےاور ایک ہےکہ اُس کی حد قائم کرنے سے عاجز آ جاناکہ میں نہیں کر سکتا، ہے تو محدود لیکن کہاں تک وہ ہمیں بھی نہیں پتہ چل رہی یہ بالکل جائز ہے۔
اگر کوئی کہے کہ مخلوق کی کوئی صفت کبھی فناء نہیں ہو سکتی تویہ غلط ہےہر شے فناء ہونےوالی ہےاللہ سبحانہ وتعالی کی صفات فناء نہیں ہو سکتیں مخلوق کی صفات فناء ہوں گی اب یہاں پر بھی دو باتیں ہیں ایک ہے کہ مخلوق کی صفت کو فانی تصور کرنایہ ہم پر فرض ہےکہ تمام مخلوق کی صفات فانی ہیں دوسرا یہ کہ ضروری نہیں کہ فانی ہو تو فناء بھی ہو جائےجیسے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفات کہ اللہ تبارک وتعالی نے جو عطا فرمایااب وہ اس پر فناء نہیں ہو سکتی ہاں وہ ہم فانی مانیں گےفناء ہو سکتی ہیں لیکن کیا ہوں گی اُن پر کبھی ایسا نہیں ہوگامثال کے طور پر کیا یہ ممکن ہےکہ نہیں کہ میں گلاس اُٹھا کرآپ کے سر پر دے ماروں بھئی ممکن توہے نا میرا دماغ گھوم جائے میں مار دوں لیکن کیا میں ماروں گا؟ نہیں میں آپ کا ادب کروں گاایک چیز ممکن ہوتی ہےلیکن ضروری نہیں کہ وہ ممکن وقوع پذیر بھی ہو جائےتو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفات کو ہم فانی تصور کریں گےتاکہ اللہ تبارک وتعالی کی صفات سے فرق ہو جائےلیکن کیا یہ فناء ہونا واقع بھی ہوا ہےایسا نہیں ہو گاکیونکہ اللہ تبارک وتعالی نےقرآن میں ارشاد فرما دیا : ولاخرۃ خیر لك من الاولی (الضحی آیت ۴) اے حبیب ہرآنے والی گھڑی آپ کے حق میں پہلی سے بہتر ہے جو صفات اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو عطا فرمائیں اُس میں روز بروز ترقی ہوتی جائے گی فضائل وکمالات و برکات کے اندر ترقی ہو گی اُس میں کبھی کمی نہیں ہو گی لیکن یہ عقیدہ رکھناپھر بھی ہم پر لازم ہو گا کہ ہاں اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ مخلوق کی صفات پر فناء ممکن ہے لیکن ممکن معرض وجود میں بھی آ جائےیہ ضروری نہیں ممکن ہے کہ اللہ تبارک وتعالی اس مکان کو سونے کا بنا دے لیکن شائد یہ وقوع پذیر قیامت تک نہ ہوتو ممکن ہونا اور وقوع پذیر ہونا یہ کوئی لازم ملزوم نہیں تو اب دیکھئے اللہ تبارک وتعالی کی ہر صفت چار صفتوں سے متصف ہے قدیم،ذاتی،لامحدود اور غیرفانی اسی طرح مخلوق کی صفت بھی چار صفتوں سے مُتصف ہے غیر قدیم اس کو حادث بھی کہتے ہیں تمام مخلوق کی صفات غیر قدیم،عطائی،محدود اور فانی یہ فرق آپ کے ذہن میں آ گیا یہ فرق اگر آپ ملحوظ نہ رکھیں تو کائنات میں کوئی شرک سے بچ ہی نہیں سکتا مثال کے طور پر آپ سب نے جو لباس پہن رکھا ہےاس کا مالک کون ہے آپ کہیں گے میں ہوں بھئی آپ نے جو لباس پہن رکھا ہے آپ اس کے مالک ہیں کہ نہیں حالانکہ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہےکہ :له مافی السموات ومافی الارض اللہ تبارک وتعالی ہی کی ملکیت میں ہے جوکچھ آسمانوں میں ہے جو کچھ زمین میں ہے وہ تمام چیزوں کا مالک ہے اب بتائیے آپ مشرک ہو گئے کہ نہیں ؟ اللہ تبارک وتعالی کہہ رہا ہے کہ میں مالک آپ کہہ رہے ہیں اس لباس کا میں مالک ،دومالک ہو گئے وصف مالکیت میں شرکت ثابت ہو گئی کہ نہیں؟ آپ کیسے اس شرک کے الزام سے بری الذمہ ہوں گےآپ کہیں گے کہ اللہ تبارک وتعالی کا مالک ہونا قدیم میرا غیر قدیم ،اُس کا ذاتی میرا عطائی، اُس کا غیر فانی میرا فانی، اُس کا لا محدود میرا محدود شرک ختم ہو گیا میں مانوں گا بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ، دوسری مثال آپ دیکھ رہے ہیں دیکھنا ایک صفت ہے اللہ سبحانہ وتعالی بھی دیکھ رہا ہے،ہے کہ نہیں بتاؤ یہ شرک ہو گیا کہ نہیں آپ کہیں گے کہ نہیں مفتی صاحب یہ شرک نہیں ہوا اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی کا دیکھنا قدیم میرا غیر قدیم،اُس کا ذاتی میرا عطائی،اُس کا لامحدود میرا محدود،اُس کا غیرفانی میرا فانی شرک کہاں سے ہواٹھیک ہے میں تسلیم کروں گااب آ جائیے دوسری طرف اللہ تبارک وتعالی کیلئے علم غیب ہے کہ نہیں، بالکل ثابت ہے میں کہتا ہوں نبی کیلئے بھی ثابت ہے آپ کہیں گے مفتی صاحب یہ تو شرک ہو گیا میں کہوں گا کہ نہیں اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی کا علم غیب قدیم نبی کا علم غیب غیر قدیم، اللہ سبحانہ وتعالی کاذاتی نبی کا عطائی، اللہ سبحانہ وتعالی کا لامحدود نبی کا محدود، اللہ سبحانہ وتعالی کا غیر فانی نبی کے علم پر فناءممکن ہےاگرچہ وقوع پذیر نہیں ہو گی اگر ہر چیز میں آپ ان چار دلیلوں کو دے کر شرک سے بچ گئےتو علم غیب مصطفی میں شرک کہاں سے ثابت ہو گیا بعض حضرات تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں جی میلاد منانا شرک ہے لاحول ولا قو‌‌‌ۃ الا باللہ میں کہتا ہوں جتنا شرک کو ختم کرنے والا میلاد مصطفی ہے اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی اس لئے کہ میلاد ولادت سے ہےاور خدا پیدا نہیں ہوتا مخلوق ہی پیدا ہوتی ہےتو شرکت کا احتمال ہی نہیں ہے میلاد میں لیکن پھر بھی جی میلاد شرک ہے اب آپ خود بتائیے بچگانہ بات ہے کہ نہیں میلاد کو شرک کہتے ہیں کہ یہ شرک کرنا ہےلا حول ولاقوۃ الا باللہ کیسے شرک ہو جائے گا؟
اسی طرح ایک اور وسوسہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دُور سے پکارنا شرک ہے اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی دُور کی آواز سن سکتا ہےآپ نبی کیلئے بھی ثابت کر رہے ہیں انتہائی احمقانہ الزام ہے انتہائی احمقانہ وہ کیوں؟ وہ اس لئے کہ ہمارا رب تو دُور کی آواز سُنتا ہی نہیں ہے آپ کہیں گے مفتی صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں میں بالکل صحیح کہہ رہا ہوں پہلے اُس چیز کا نام بتائیےکہ اللہ سبحانہ وتعالی جس سے دُور ہےلائیے وہ چیز میرے سامنےکہ اللہ سبحانہ وتعالی اس سے دُور ہے بتائیے،اللہ تبارک وتعالی اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے پوری کائنات کو محیط ہےوہ ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہےاللہ تبارک وتعالی تو قریب کی آواز سنتا ہےاگر دُور کی آواز سنناکسی کا خاصہ ہو سکتا ہے تو وہ ہمارے نبی کاخاصہ ہو سکتا ہےشرکت کہاں سے ہو جائے گی یہ احمقانہ خیالات پبلک کے اندر ڈال کر اور لوگوں کو انتشار میں مبتلا کرنا یہ بے وقوفی ہے یہ نادانی ہے پہلے سمجھئے شرک کسے کہتے ہیں؟ اُس کی حقیقت کیا ہے؟پھر اُس کے بعد کلام کرنا چاہیے
ایک اور وسوسہ جی غیراللہ سے استمداد،اُس سے مدد طلب کرنا،نبی سے مدد مانگنا،ولی سے مدد مانگنا شرک ہے کیسے شرک ہے؟ مدد کرنا بھی ایک وصف ہےاگر آپ کہتے ہیں کہ مدد صرف اللہ سبحانہ وتعالی سے مانگنی چاہیے مخلوق سے نہیں مخلوق سے مانگو گے تو شرک ہو جائے گا تو ہم پہلے تو اسی ضابطے کے تحت اُسے دیکھیں گےاللہ سبحانہ وتعالی کے مدد کرنے کی صفت قدیم یعنی ہمیشہ سے مدد کرتا چلا آرہا ہے اگر کوئی مخلوق مدد کرے گی تو پھر بعد میں کر سکتی ہے ہمیشہ سے تو نہیں جب اُس کو یہ مدد کی قوت ملی اُس کے بعد، اللہ سبحانہ وتعالی کا مدد کرنا ذاتی اُسے کسی نے وصف نہیں دیا لیکن ہمارے بڑے سے بڑا ولی، بڑے سے بڑا نبی بشمول ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہم مسلمانوں کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی عطا کرتا ہے تونبی آگے عطا کریں گے اللہ سبحانہ وتعالی کی عطا کے بغیر کچھ بھی نہیں دیں گے۔ اللہ سبحانہ وتعالی کی وصف امداد ذاتی اور نبی کا عطائی، اُس کا لامحدودنبی کا یا کوئی بھی غیر نبی مخلوق ہو اُس کا محدود،اللہ سبحانہ وتعالی کا غیر فانی اور مخلوق کی صفت امداد پر فناء ممکن ہےان چار چیزوں کو اگر آپ ذہن میں رکھ لیں تو ان شاءاللہ بالکل شرک سے پاک وصاف رہیں گےہر چیز کا آپ اچھی طرح مشاہدہ کر سکتے ہیں اُس کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور پھر آپ فیصلہ کر سکتے ہیں اب آپ کہیں گے کہ قرآن نے تو شروع میں کہہ دیا اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ اے اللہ سبحانہ وتعالی ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں اب یہاں تو خاص اللہ تبارک وتعالی سے مدد طلب کرنے کا حکم ہےلیکن میرے پیارے بھائی کسی سے کوئی چیز یا کسی چیز کو کسی کی طرف منسوب کردینا یہ دوسرے کی طرف منسوب کرنے کی نفی کوثابت نہیں کرتامثلاً میں کہتا ہوں ”میں خاص اجمل بھائی سے ہی پیسے مانگتا ہوں “ تو اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ دوسرے سے پیسے مانگنا منع ہےمانگ تو اُس سے بھی سکتا ہوں لیکن یہاں کچھ بھائیوں کو مغالطہ لگا ہے کہ دوسروں سے نہیں مانگ سکتے دوسروں سے مانگیں گے تو مشرک ہو جائیں گے تو یہ مسئلہ ہے اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ‏ کا، سابقہ قرینہ خود بتا رہا ہےاے اللہ تبارک وتعالی ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اُس طرح عبادت نہیں کر تے جس طرح مشرک کر رہے ہیں اللہ سبحانہ وتعالی کے وجود کو وہ بھی مانتے تھےاللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے”ان سے پوچھو کہ تمہارا خالق کون ہےوہ کہیں گے اللہ سبحانہ وتعالی ان سے پوچھو تمہیں رزق کون دیتا ہےوہ یہی کہیں گے اللہ سبحانہ وتعالی“ لیکن مشرک کہتے کیا تھےوہ یہ کہتے تھے کہ ہم بُتوں کی عبادت اس لئے کر رہے ہیں تاکہ یہ بُت ہمیں اللہ تبارک وتعالی کے قریب کر دیں گویااُنھوں نے اللہ تبارک وتعالی کے قُرب کا وسیلہ بُتوں کی عبادت کو قرار دیا اسی لئے اللہ تبارک وتعالی نے بھی انھی مشرک قرار دیا ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا بالکل غلط ہےایسا نہیں کرنا چاہیےتو اب اگرآج کوئی شخص کسی غیر اللہ سے مدد طلب کر رہا ہےتو وہ اس کے زمرے میں نہیں آئےگا۔ کیونکہ اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ اے اللہ عزوجل! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں مشرکین کی طرح کسی اور کی عبادت کو تیرے قُرب کا وسیلہ نہیں بناتے وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ اورخاص تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں،مشرکین کی طرح نہیں کہ بُتوں سے مدد طلب کرتے ہیں موازانہ کیجئے نا جو سیاق وسباق ہے اُس کے اعتبار سےآیات کے معنی متعین ہوتے ہیں لہذا یہاں پر غیر اللہ سے استمداد کی نفی نہیں ہے مدد مانگ سکتے ہیں سب سے بڑی دلیل میں آپ کو قرآن سے ہی دیتا ہوں پہلے ایک بات سمجھ لیجئےکہ جتنے بھی عربی حروف ہوتے ہیں یہ دو طرح کے ہوتے ہیں ان کے آخر میں کبھی کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی اگر ہو تو اسے مورب کہتے ہیں۔اگرنہ ہو تو اسے مبنی کہتے ہیں اور جتنے مورب کلمات ہوتے ہیں کم از کم تین حروف سے ضرورمرکب ہوتے ہیں انہیں حروف اصلیہ بھی کہتے ہیں اور مادہ بھی کہا جاتا ہےتولفظ نستعین کا مادہ ہے ”عون“ ع،و،ن اس سے بنا ہے یہ نستعین اب آگے آئیےقرآن میں اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ یہ وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بھی ”عون“ مادے سے ہی بنا ہےجس سے نَسۡتَعِيۡنُؕ بنا ہے تو ایک طرف ہےاِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕاے اللہ عزوجل! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں اور دوسری طرف اللہ تبارک وتعالی انہی حروف اصلیہ کے ساتھ بیان فرما رہا ہےوَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕصبراورنمازسے مددطلب کرو”صبر“ خدا نہیں ”نماز“خدا نہیں یہ غیراللہ ہیں غیر خدا ہیں اور آپ کا رب آپ سے فرما رہا ہےوَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕنماز اور صبر سے مدد طلب کرو بتائیے کہ قرآن شرک مٹانے کیلئے آیا ہے کہ شرک کی ترغیب دینے کیلئے آیا ہےظاہرسی بات ہے کہ مٹانے کیلئے آیا ہےاور اللہ تبارک وتعالی کی حکمت پر قُربان جائیے اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕجس حروف اصلیہ سے نستعینکوبیان فرمایا آگے اسی خیال کے رد کیلئے وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بیان فرمایا انہی حروف اصلیہ کے ساتھ تاکہ وسوسہ (شبہ)پیدا نہ ہو جائے یہ حکمت ہو سکتی ہےاللہ سبحانہ وتعالی کی،لہذاغیراللہ سےمددمانگنااگرصحیح عقیدے کے ساتھ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں اس سے کوئی شرک ثابت نہیں ہوتا۔صحیح نظریہ بس یہ ذہن میں رکھیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی سے مدد کرنا افضل ہےاُولی ہےاللہ تبارک وتعالی مدد کرنے والا ہےاُسی کے دست قدرت میں پوری کائنات کے خزانے ہیں وہ ہی سب کا ملجا ہےوہی ماوا ہےوہ ہی سب پر کرم نوازی فرماتا ہےپوری کائنات میں خزانے رزق کےوہ ہی تقسیم کر رہا ہے لیکن اُس کی ایک عادت کریمہ ہےکہ جب بھی کسی کو کچھ دیتا ہے تو بغیر وسیلے کے نہیں دیتا، میں ہمیشہ ایک سوال کرتا ہوں مجھے ایک ایسی چیز کا نام بتادیں جو براہ راست اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو مل رہی ہواللہ تبارک وتعالی نے اُس کو آپ کو عطاکرنے کیلئےکوئی وسیلہ مقرر نہ کیا ہوکوئی ایک چیز کا نام بتائیں ہر چیز کیلئے دوسری چیز وسیلہ بن رہی ہےآپ کائنات میں آئے ماں باپ وسیلہ بن گئےآپ کی پرورش ہوئی ماں کا دودھ وسیلہ بناپھر روٹی،غذا دیگر وسیلہ بن گئے ہر چیز کیلئے اللہ تبارک وتعالی نےایک وسیلہ قائم کیا ہے ویسےتو اللہ تبارک وتعالی کسی وسیلے کا محتاج نہیں لیکن اُس کی عادت کریمہ ہےکہ وہ وسیلے قائم فرماتا ہےتو وہ غیر محتاج ہو کر وسیلہ قائم کرےاور ہم تو خود محتاج ہیں اگر ہم سنت الہیہ کی نیت سے کوئی وسیلہ قائم کریں تو یہ شرعاً کیسے غلط ہو سکتا ہےاسلئے یہ عقیدہ ہونا چاہیےکہ دینے والی ذات اللہ تبارک وتعالی کی ہےاور انبیاء علیھم السلام ، صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اُولیاء اکرام رحمھم اللہ ،اُس اللہ تبارک وتعالی کی عطا کی راہ میں ایک وسیلہ ہیں اور وہ ہمیں عطافرما رہے ہیں اس عقیدے کے ساتھ اگر کوئی طلب امداد کرتا ہےاس میں کوئی شرک کا شائبہ نہیں کیونکہ وہ اس مخلوق سے حقیقتاً نہیں مانگ رہا بلکہ اُس مخلوق کو وسیلہ بناتے ہوئےاپنے رب سے طلب کر رہا ہے تو جو اپنے رب سے مانگ رہا ہو وہ مشرک کیسے ہو سکتا ہے؟اس طرح آپ کئی معمولات لیتے جائیے ان شاء اللہ آپ یہ دیکھیں گےکہ وہ شرک کے زمرے میں نہیں آتےاب یہ دیکھئے میں آپ سے پوچھتا ہوں انگوٹھے چومنا شرک ہےکہ نہیں اب آپ سوچیں گے اس میں شرک کا شائبہ کیا ہےاگر اللہ تبارک وتعالی کا نام سُن کریا اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ کوئی خاص ہوتااس کیلئے انگوٹھے چومے جاتے پھرنبی کیلئے ہوتا تو پھر وسوسہ بھی آتااب کہاں انگوٹھے چومناصرف نبی کیلئے خاص اس میں کونسا شرک کا شائبہ ہے بتائیےکوئی شرک فی الذات ثابت ہو رہا ہےکوئی شرک فی الصفات ثابت ہو رہا ہےنبی کیلئے اگر کوئی انگوٹھے چوم کرآنکھوں کو لگاتا ہےتو کیا نبی کو معبود سمجھ رہا ہے،قدیم سمجھ رہا ہے،خالق ومالک سمجھ رہا ہے؟نہیں۔۔!کیا وہ کسی صفت کے اندر کوئی شرکت کر رہا ہے جو اللہ تبارک وتعالی کی صفات ہیں جن خوبیوں سے متصف ہیں وہ یہاں ثابت ہو رہی ہیں ؟نہیں۔۔۔!تو انگوٹھے چومنا شرک کیسے ہو سکتا ہےخود سوچئے بالکل بچگانہ بات ہے جسے میں کہوں یہ موبائل بچھو ہےدلیل دیجئے تو مجھے پتہ نہیں کہ کہ بچھو ہےارے بھائی کہاں موبائل اور کہاں بچھوآپ بلکل اُلٹی سیدھی بات کر رہے ہوتو یہ ذرا سوچنے والی باتیں ہیں کہ شرک اتنا آسان نہیں جتنا ہم کہہ دیتے ہیں مشرک بننا اتنا اسان نہیں جسے ہم بنا دیتے ہیں الحمدللہ ہم مسلمان ہیں،مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہمیں شرک سے شدید نفرت ہےمشرک قطعی جہنمی ہے ہم مانتے ہیں بالکل جہنم میں جائے گااگر توبہ کئے بغیر مر گیا تو کبھی اُسے باہر نکلنا نصیب نہیں ہو گا لیکن واقعی مشرک ہو مسلمان کو نہیں یاد رکھئے کسی مسلمان کو مشرک کہہ دیا تو نبی مکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں مسلم کی روایت ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو کافر کہا اور وہ کافر نہ ہو تو یہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا یعنی وہ خود کافر ہو جائے گا علماء نے فرمایا ہے اس حدیث کو اس کے ظاہر پر محمول کرنا واجب ہے اگرآپ نے کسی (مسلمان)کو کافر کہا توآپ بھی کافر ہو جائیں گے کیوں ہو جائیں گے اُس کی لاجک بھی آپ کو بتا دیتے ہیں اگر ذہن میں رہے تو بہت اچھا ہے مسلمان اور کافر یہ جو دو لفظ آپ کسی پر بولتے ہیں اُس کے عقیدے کے اعتبار سے بولتے ہیں اگر آپ کسی کے عقیدے کو درست پاتے ہیں تو آپ اُسے مسلمان کہتے ہیں اور اگر کسی کے عقیدے میں بگاڑ یا فساد ہے تو آپ اُسے کافر کہتے ہیں،ہے کہ نہیں ایسا ہوتا ہے نا تو معلوم ہوا کہ مسلمان یا کافر کہنا اصل میں عقیدے کے صحیح ہونے یا غلط ہونے کے اعتبار سے ہے یہ رد المختار میں علامہ ابن عابدین شامی ؒ نے علت لکھی ہے جو میں آپ کو بتا رہا ہوں اب اگر آپ کسی مسلمان کوکہتے ہیں تم کافر ہو اور وہ کافر نہیں تو ہم اُسے کافر کب بولیں گےجب اُس کے عقیدے کفریہ ہوں گےحالانکہ اُس کے عقیدے کفریہ نہیں ہیں مسلمانوں والے ہیں تو گویا کہ ہم نےاُسے کافر کہہ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہےکہ اس کے تمام اسلامی عقائد کفریہ ہیں تو اُسےکافر کہنے کی وجہ سےہم کافر نہیں ہوئے بلکہ اُس کے اسلامی عقائد کوکفریہ عقائد قرار دینے کی بناء پراللہ تعالی نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ہے یہ ہے اصل علت۔ اب مسلمان کو مشرک کہنا کتنی بُری بات ہے بولتے ہیں کہ داتا صاحب کا مزار شرک کا اڈا ہ ہے شرک ہو رہا ہے لوگ سجدے کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ میں ایک نفیس بات کرتا ہوں ذرا سی توجہ کیجئے گااپنی سابقہ زندگی پر نظر دوڑائیں دیانتداری کے ساتھ،آپ اگر کبھی کسی مزار پر گئے ہیں آپ نے اپنی آنکھوں سےکسی آدمی کوخاص سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے قبر کو خود سوچئے گا مجھے نہ کہیں خود سوچئے گاجو سجدے کی ہیئت ہے کبھی آپ نے زندگی میں کسی ایک شخص کو بھی قبر پر اس طرح سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے دیانتداری سے سوچئے گا میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں سینکڑوں مزاروں پر گیا ہوں آج تک اپنی زندگی میں کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا خداکی قسم کھا کے کہتا ہوں اور آپ بھی اب سوچیں گے آنکھیں بند کر کے تو آپ کہیں گے واقعی صحیح کہہ رہے ہیں ہم نے تو خالی سُنا ہے جی قبر پرستی ہوتی ہے لوگ قبر کو سجدہ کر رہے ہیں نہیں کوئی سجدہ نہیں کرتا بالفرض اگر سجدہ بھی کر رہا ہو تو ہمیں کیا پتہ کہ وہ کس نیت سے کر رہا ہے کیونکہ سجدہ بھی دو طرح کا ہوتا ہے اور بھی بڑی قسمیں ہوتی ہیں لیکن ہم بڑی دو لیتے ہیں
(1) سجدہ عبادت
(2) سجدہ تعظیمی
سجدہ عبادت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو عبادت کے لائق سمجھ کراُسےسجدہ کرنا اور سجدہ تعظیمی کامطلب اُسے لائق عبادت تو نہ سمجھا جائےقابل تعظیم سمجھتے ہوئے سجدہ کرنا سجدہ تعظیمی ہےہمارے مذہب اسلام کی تعلیمات کے مطابق سجدہ عبادت کفروشرک اور سجدہ تعظیمی حرام و گناہ کبیرہ ہے لیکن آدمی کافر نہیں ہوتا اب دیانتداری سے بتائیے اگر ایک گاؤں کا دیہاتی بھی کسی صاحب مزار کی قبر پر سجدہ کر رہا ہو تو کیا وہ اسے معبود سمجھ کر سجدہ کر سکتا ہے میرے خیال میں کبھی بھی نہیں وہ اسے اللہ تبارک وتعالی کا ولی سمجھ کر قابل تعظیم سمجھ کر ہی سجدہ کرے گا کوئی بھی ایسا نہیں ہو گاکہ اُسے (قبر والےکو) لائق عبادت سمجھ کر سجدہ کرے میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان کے ساتھ یہ بد گمانی بالکل غلط ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا مسلمان یہ سمجھے کہ یہ لائق عبادت ہے اسے سجدہ کرو بھئ ایسا نہیں ہو سکتا لہذازیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حرام اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اب بھی اُسے کافرکہنا کیسا ہےغلط ہے کہ نہیں اب وہی مسلم کی روایت اگر وہ سجدہ تعظیمی کررہا ہے اور آپ نے اُسے کافر کہہ دیا وہ تو کافر نہ ہوا آپ جو تقوی کے پیکر بنے ہوئے ہیں اور آپ کو تقوی کا ہیضہ ہو گیا ملیریا ہو گیا ،آپ کافر ہو جائیں گے اب بعض کہتے ہیں ہم نہیں مانتے یہ تقسیم بس ہم نہیں اس کو لیتے بس جو سجدہ کر رہا ہو گا وہ ضرور کافر ہو گا ہمیں کیا پتہ سجدہ تعظیمی کر رہا ہے یا سجدہ عبادت کر رہا ہےبس ہم اُسے کافر کہیں گےمشرک کہیں گےایسا نہیں ہے آپ کو پہلے معلوم کرنا ہو گا اگر آپ اس تقسیم کونظر انداز کر دیں گے تو کائنات میں کوئی بھی شرک سے نہیں بچ سکے گا ہر مسلمان مشرک ہو جائے گا وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ ایک جگہ جمعے کی نماز ختم ہوئی ایک آدمی کھڑا ہوگیا کہنے لگا سب کلمہ پڑھو
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ اسلئے کہ تم سب مشرک ہو گئے ہولوگوں نے کہا لاحول ولا قوۃ الا باللہ اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں سجدہ کرتے مشرک ہو گئے کم بخت یہ کیا کہہ رہا ہے کہنے لگا میں نے یہ دیکھا امام صاحب قبلے کی دیوار کو سجدہ کر رہے تھے پچھلے والی صف امام کو سجدہ کر رہی تھی سکینڈ صف پہلی کو اسی طرح تیسری دوسری کو، چوتھی تیسری کو سبھی ایک دوسرے کو سجدہ کر رہے تھے تم کافر ہو گئے ہو مشرک ہو گئے ہوکلمہ پڑھو،کلمہ پڑھولوگوں نے کہا بے وقوف انسان! بظاہر ہم ایک دوسرے کے سامنےجھکے ہوئے تھے لیکن اصل نیت تو اللہ سبحانہ وتعالی کو سجدہ کرنے کی تھی نا، تو معلوم ہوا نیت کا اعتبار ہے جھکنے کا نہیں اگر جھکنے کا اعتبار ہو تو گھر کی عورت کو دیکھئے گا کبھی جوتی تلاش کرنے کیلئے بستر کے نیچے جھکتی ہے جسے جھکے گی آپ بولیں گے مُشرکہ ہو گئی کم بخت کیوں جھک گئی بستر کے سامنے ،اسی طرح گاڑی ٹھیک کرنے والے کے پاس گئے وہ جھکا ہوا ہے کار والا آ گیا آگے سے تم مشرک ہو گئےکیوں کیونکہ تم جھکے ہوئے تھے ارے نہیں بھائی خالی جھکنے سے تھوڑا ہی بندہ مشرک ہوتا ہے نیت درکار ہے نیت اگر آپ نا مانیں گے تو کوئی مسجد کے اندر شرک سے نہیں بچے گا جب نیت ہی اصل ہوئی اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جو شخص صاحب مزار کے سامنے بالفرض اگر جھکا بھی ہوا ہےتو اُس کی نیت پر مطلع ہونے کیلئے آپ کے پاس کیا پیمانہ ہے بتائیے؟ نبی ﷺ کیلئے تو آپ کہیں کہ نبی ﷺ کو تو دیوار کے کا پیچھےبھی علم نہیں ہے اور خود آپ کسی شخص کو جھکا ہوا دیکھیں تو آپ تصور کریں کہ ضرور اس کی نیت عبادت کی ہے سبحان اللہ نبی ﷺ کیلئے تو دیوار کے پیچھے کا علم نہ مانا جائے اور اپنے لئے ماشاء اللہ اتنی وسعت علمی کہ کسی کے قلب میں جھانک کر آپ نے دیکھ لیا کہ کس نیت سے سجدہ کر رہا ہے انتہائی غلط چیز ہے بالکل غلط مسلمان مشرک نہیں ہے بس سمجھنے کی ضرورت ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
بریلویوں کا ایک پوسٹر ملاحظہ کیجئے جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ شرک کا اصل معیاروکسوٹی اللہ کے سوا کسی کو معبود بنانا ہے سب اہل علم بھائیوں سے گزارش ہے کہ عامۃ الناس کو گمراہ کرنے والے ان بریلویوں مفتیوں اور پوسٹروں کا علمی رد کریں
ahmed - 1.jpg
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
بریلویوں کا ایک پوسٹر ملاحظہ کیجئے جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ شرک کا اصل معیاروکسوٹی اللہ کے سوا کسی کو معبود بنانا ہے سب اہل علم بھائیوں سے گزارش ہے کہ عامۃ الناس کو گمراہ کرنے والے ان بریلویوں مفتیوں اور پوسٹروں کا علمی رد کریں
10659 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا اقرار کرتے تھے ،اسے خالق و مالک ،سورج و چاند مسخر کرنے والا ،روزی رساں اور موت وحیات کا مالک قرار دیتے تھے ،جیسا کہ ارشاد بای تعالیٰ ہے:
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿31﴾
ترجمہ: کہو تمہیں آسمان اور زمین سے کون روزی دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور زندہ کو مردہ سے کون نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے کون نکلتا ہے اور سب کاموں کا کون انتظام کرتا ہے سو کہیں گے کہ اللہ تو کہہ دو کہ پھر (اللہ)سے کیوں نہیں ڈرتے (سورۃ یونس،آیت 31)
ایک اور مقام پر فرمایا:
قُل لِّمَنِ ٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهَآ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿84﴾ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿85﴾ قُلْ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ ٱلسَّبْعِ وَرَبُّ ٱلْعَرْشِ ٱلْعَظِيمِ ﴿86﴾ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿87﴾ قُلْ مَنۢ بِيَدِهِۦ مَلَكُوتُ كُلِّ شَىْءٍۢ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿88﴾ سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ ﴿89﴾
ترجمہ: ان سے پوچھو یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے کس کا ہے اگر تم جانتے ہو وہ فوراً کہیں گے الله کاہے کہہ دو پھر تم کیوں نہیں سمجھتے ان سے پوچھو کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے وہ فوراً کہیں گے الله ہے کہہ دوکیاپھر تم الله سے نہیں ڈرتے ان سے پوچھو کہ ہر چیز کی حکومت کس کے ہاتھ میں ہے اور وہ بچا لیتا ہے اور اسے کوئی نہیں بچا سکتا اگر تم جانتے ہو وہ فوراً کہیں گے الله ہی کے ہاتھ میں ہے کہہ دو پھرتم کیسے دیوانے ہو رہے ہو (سورۃ المومنون،آیت 84-89)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿61﴾ ٱللَّهُ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ وَيَقْدِرُ لَهُۥٓ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌۭ ﴿62﴾ وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ فَأَحْيَا بِهِ ٱلْأَرْضَ مِنۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۚ قُلِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿63﴾
ترجمہ: اور البتہ اگر تو اان سے پوچھے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے کام میں لگایا تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہاں الٹے جا رہے ہیں الله ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کر دیتا ہے اورتنگ کر دیتا ہے بے شک الله ہر چیز کا جاننے والا ہے اور البتہ اگر تو ان سے پوچھے آسمان سے کس نے پانی اتارا پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا کہیں گے الله نے کہہ دو سب تعریف الله ہی کے لیے ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے (سورۃ العنکبوت،آیت 61-63)
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۚ قُلِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿25﴾
ترجمہ: اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا ہے تو ضرور کہیں گے کہ الله نے کہہ دو الحمدُلله بلکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے (سورۃ لقمان،آیت 25)
اسی طر ح فرمایا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۚ قُلْ أَفَرَءَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ إِنْ أَرَادَنِىَ ٱللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَٰشِفَٰتُ ضُرِّهِۦٓ أَوْ أَرَادَنِى بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَٰتُ رَحْمَتِهِۦ ۚ قُلْ حَسْبِىَ ٱللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ ٱلْمُتَوَكِّلُونَ ﴿38﴾
ترجمہ: او راگر آپ ان سے پوچھیں آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے الله نے کہہ دو بھلا دیکھو تو سہی جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو اگر الله مجھے تکلیف دینا چاہے تو کیا وہ اس کی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں یا وہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا وہ اس مہربانی کو روک سکتے ہیں کہہ دو مجھے الله کافی ہے توکل کرنے والے اسی پر توکل کیا کرتے ہیں (سورۃ الزمر،آیت 38)
اسی طرح فرمایا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿87﴾
ترجمہ: اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہا ں بہکے جا رہے ہیں (سورۃ الزخرف،آیت 87)
(کلمہ گو مشرک از مبشر احمد ربانی،صفحہ 52تا55)
مشرکین عرب بتکدوں اور خانقاہوں میں اپنے بزرگوں اور اولیائے کرام کے بتوں کے سامنے جو مراسم عبودیت بجا لاتے تھے ان میں درج ذیل رسول شامل تھیں،بتکدوں میں مجاور بن کے بیٹھنا،بتوں سے پناہ طلب کرنا،انہیں زور زور سے پکارنا ،حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے ان سے فریادیں اور التجائیں کرنا،اللہ تعالیٰ کے یہاں انہیں اپنا سفارشی سمجھ کر مرادیں طلب کرنا،حج اور طواف کرنا،ان کے سامنے عجز و نیاز سے پیش آنا،انہیں سجدہ کرنا،ان کے نام کے نذرانے اور قربانیا دینا،جانوروں کو کبھی بتکدوں پر لے جا کر ذبح کرنا کبھی کسی بھی جگہ ذبح کر لینا،(ملاحظہ ہو الرحیق المختوم،از صفی الرحمن مبارکپوری،صفحہ48/49)یہ تمام رسومات تب بھی شرک تھیں اور اب بھی شرک ہیں۔​
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
شرک کسے کہتے ہیں؟
شرک کالغوی معنی ہے شریک کرنا،شریک ٹھہرانا،اور شرعی طور پر شرک کا مطلب یہ ہوتا ہےکہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات،یا اس کی صفات کے ساتھ کسی غیر کو شریک کر دینا
جو ذات کے ساتھ شرکت ثابت ہوگی اسکو شرک فی الذات کہا جاتا ہے اگر کوئی صفات میں شرکت کرے گا تو اسے شرک فی الصفات کا نام دیا جاتا ہے اسطرح شرک کی دو قسمیں بن گئیں۔

(۱) شرک فی الذات
(۲) شرک فی الصفات
شرک فی الذات:-
شرک فی الذات کیا ہے؟ اس کی کیا صورت ہو گی؟ اس کی کم ازکم تین صورتیں لے لیں۔
(1) جس طرح اللہ تبارک وتعالی ہمیشہ سے ہے ایسا کسی اور کو تصور کرلینا کہ وہ ہمیشہ سے ہے جس کو آپ کہتے ہیں قدیم ، اللہ سبحانہ و تعالی ہمیشہ سے ہے کبھی ایسا نہیں تھا کہ وہ پہلے نہیں تھا پھر دنیا میں آیا، جسطرح ہم پہلے نہیں تھے بعد میں معرض وجود میں آئے
اب اگرکوئی اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی اور کو کہے یہ قدیم ہے تو وہ مشرک ہو جا ئیگا جیسے فلاسفہ نے کہا زمانہ ازلی بھی ہے ابدی بھی ہے یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا تو انھوں نے زمانے کو بھی اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ ملا کر قدیم کہہ دیا اور شرک کے مرتکب ہو گئے شرک فی الذات یہ ہے کہ کسی کو اللہ سبحانہ وتعالی کی طرح قدیم تصور کرنا کہ وہ ہمیشہ سے ہے کبھی ایسا نہیں تھا کہ پہلے نہیں تھا پھر ہوا بلکہ ہمیشہ سے ہے تو یہ شرک فی الذات کی ایک صورت بنے گی۔
(2) جیسے اللہ تبارک وتعالی لائق عبادت ہے اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی بھی مخلوق کو لائق عبادت تصور کرنا جیسے بت پرست،آتش پرست،سورج کو پوجنے والے یہ سب کے سب اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ بھی کسی اور کو معبود مان رہے ہیں اس کو عبادت کے لائق سمجھ رہے ہیں یہ بھی شرک فی الذات ہے۔
(3) اللہ تبارک وتعالی کیلئے اولاد کا تصور رکھنا کہ اس کی اولاد ہے یہ بھی شرک فی الذات کے زمرے میں آئےگی جیسے کرسچن عیسی علیہ السلام کو اللہ سبحانہ وتعالی کا بیٹا کہتے ہیں اور یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا کہتے ہیں یہ بھی شرک ہے یہ تین صورتیں شرک فی الذات کی ہوئیں۔

· اللہ تبارک وتعالی کی مثل کسی کو قدیم تصور کرنا
· اللہ تبارک وتعالی کی مثل کسی کو معبود عبادت کے لائق سمجھنا
· اللہ تبارک وتعالی کیلئے اولاد کاتصور رکھنا
اسکا بیان قرآن مجید کے اندر موجود ہے بعض چیزوں کا ہے بعض کا صراحتاً نہیں ہے لیکن بہرحال ہے

شرک فی الصفات:-
شرک فی الصفات یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی جتنی بھی صفات ہیں وہ جن خوبیوں سے متصف ہیں یا ان صفات میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں کسی مخلوق میں وہ ہی صفت ان تمام خوبیوں کے ساتھ مان لینا یہ شرک فی الصفات ہے جیسے اللہ سبحانہ و تعالی کی صفتیں ہیں ہر صفت اللہ تبارک وتعالی کی کم از کم چار خوبیوں سے ضرور متصف ہو گی تو مخلوق کے اندر وہ ہی صفت مان کر اور اسے انھی چار خوبیوں سے متصف مان لینا یہ شرک فی الصفات ہے مثال کے طور پر پہلےہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات کون کون سی خصوصیات سے متصف ہیں۔
اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات قدیم ہیں ہمیشہ سے ہیں ہمیشہ رہیں گی ہمیشہ سے اسلئے مانا گیا ہے کہ عقلی لحاظ سے عقیدہ ثابت ہوا ،قرآن اس میں نہیں بولے گاحدیث اس پر بالکل خاموش ہےیہ اکابرین نے معتزلہ کا جواب دیتے ہوئے
فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی کی ذات جیسے قدیم ہے اسکی صفات بھی قدیم ہے کیوں؟ اسلئے کہ اگر آپ صفات کو قدیم نہ مانیں اور یہ کہیں کہ یہ پہلے نہیں تھیں بعد میں پیدا ہوئیں تو یہ ضرور ماننا پڑے گاکہ اللہ تبارک وتعالی ایک وقت میں معاذاللہ نابینا بھی تھا دیکھ نہیں سکتا تھا وہ سن نہیں سکتا تھا وہ کلام پر قدرت نہیں رکھتا تھاوہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتا تھاوہ کسی کو زندہ نہیں کر سکتا تھا کسی کو مار نہیں سکتا تھااسلئے کہ یہ تمام اللہ سبحانہ وتعالی کی صفات ہیں دیکھنا ایک صفت،سننا ایک صفت،کلام کرنا،ارادہ کرنا،مارنا،زندہ کرنا،پیدا کرنا،پیدائش،تخلیق یہ سب اللہ تباک وتعالی کی صفات ہیں تو اگر آپ یہ کہیں کہ یہ صفات ہمیشہ سے نہیں بعد میں ہوئیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات ایک وقت میں ان صفات کے بغیر تھی تو اللہ تعالی کاعیب دار ہونا لازم آئیگاتویہ عقلاً محال ہے دوسری بات اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ صفات بعد میں اللہ تبارک وتعالی کے پاس آئیں ہمیشہ سے نہیں ہیں تو کس نے دیں، لازمی بات ہے دوسری ذات کا تصور پیدا ہوگاکیونکہ جب اللہ سبحانہ و تعالی پیدا کرنے پر قادر ہی نہیں تھا اسکے پاس یہ صفت پیدا کرنے کی تھی نہیں تو صفات کو کس نے پیدا کیا اللہ تعالی کے پاس تو صفت تھی نہیں تو ماننا پڑے گا کہ کسی اور ذات نےپیدا کرکے اسے اللہ تبارک وتعالی کو دیا تو پھر اس ذات کااللہ سبحانہ و تعالی سے زیادہ طاقتور ہونا لازم آئیگا تو اس طریقے سے ہزاروں خرابیاں لازم آئیں گی۔
· اللہ تبارک وتعالی کی صفات قدیم ہیں یعنی ہمیشہ سے ہیں۔
· اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات ذاتی ہیں اُسے کسی نے عطا نہیں کیں خودبخود اُس کی ہیں اب اگر کوئی اُس کو عطا کرتا تو وہ صفات عطائی کہلاتی تو اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات ذاتی ہوئیں۔
· لامحدود،اُن کی کوئی حد نہیں وہ کہاں تک دیکھ سکتا ہے کہاں تک کی آواز سُن سکتا ہے وہ کتنے ارادے کر سکتا ہے کتنوں کو مار سکتا ہے کس حد تک زندہ کر سکتا ہے کوئی حد مقرر نہیں کر سکتا اُس کی صفات لامحدود ہیں، علم اللہ سبحانہ وتعالی کی صفت ہے اُس کی کوئی حد نہیں ،کوئی کنارہ نہیں۔
· غیرفانی، اللہ تبارک وتعالی کی کسی صفت پر فناء نہیں یعنی کبھی بھی فناء نہیں ہوں گی تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ تبارک وتعالی کی ہرخوبی چار صفات سے ضرور مُتصف ہو گی
(1) قدیم

(2) ذاتی
(3) لامحدود
(4) غیرفانی
اب اگر کوئی مخلوق کی صفت کے اندر ان چار خوبیوں کو مان لے گا وہ مشرک ہو جائیگا اور بعض اوقات ان میں سے ایک کو بھی مان لے گا تو مشرک ہو جا ئیگا ۔

· مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں ولی کا علم قدیم ہے ہمیشہ سے ہے فوراً مشرک ہو جائیگا کیونکہ علم قدیم نہیں ہو سکتااللہ سبحانہ وتعالی کا علم قدیم ہےجب اللہ تبارک وتعالی نے اُسے دیا تواُسکے پاس پہلے علم نہیں تھااللہ تبارک وتعالی کے دینے سے ہوا تو علم اُسکا قدیم نہ رہا شرک ہو جائیگا۔
· مخلوق کی جتنی صفات ہیں وہ ہیں عطائی اگر کوئی کسی مخلوق کی کسی بھی صفت کو کہے گا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اُسے نہیں دی خودبخود اُسکی ہیں مشرک ہو جائیگا فلاں ولی مدد کر سکتا ہے اللہ سبحانہ وتعالی کی عطا ء کے بغیر فوراً مشرک ہو جائیگا اسلئے کہ کوئی اللہ تبارک وتعالی کے بغیر ایک تنکا بھی کسی کو نہیں دے سکتا یہ مسلمان کا عقیدہ ہے الحمدللہ تو مخلوق کی صفات کیا ہوئیں غیر قدیم اور غیر ذاتی یا عطائی۔
· اگر کوئی یہ کہے کہ کسی مخلوق کی صفت لامحدود ہے اُس کی کوئی حد نہیں شرک ہو جائیگا،ایک ہے کسی مخلوق کی صفت کو لا محدود ماننا ایک ہے حد نہ جان پانا دونوں میں فرق ہے ہمارے نبی علیہ السلام کا علم کتنا ہے آپ بتا سکتے ہیں کہ نہیں ؟اُس کی کوئی حد آپ قائم نہیں کر سکتےلیکن یہ ماننا پڑے گا کہ نبی کا علم محدود ضرور ہے اُس کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہےیہ ماننا پڑے گا،لیکن کتنی حدہےاُس پر آپ اور میں مطلع نہیں ہو سکتےاسلئے کہ علماء نے ارشاد فرمایاکہ دنیا کا سمندرآپ ایک علم کی مانند تصورکر لیں اس میں سے اگر ایک چڑیا ایک قطرہ پانی پئیے منہ اُٹھائے اس کی چونچ سے جوقطرہ گرے گاتو یہ علوم کی مثال ہےنبی کا علم تمام سمندر کی مثل ہےاور اُس چڑیا کی چونچ سے گرنے والاجو قطرہ ہےگویا کہ تمام مخلوق کا علم ہےکوئی تقابل ہے کوئی موازنہ کر سکتا ہےاتنا عظیم علم ہے ہمارے نبی کا،توایک ہےکسی مخلوق کی صفت کو لامحدود تصور کرنایہ ممنوع ہےاور ایک ہےکہ اُس کی حد قائم کرنے سے عاجز آ جاناکہ میں نہیں کر سکتا، ہے تو محدود لیکن کہاں تک وہ ہمیں بھی نہیں پتہ چل رہی یہ بالکل جائز ہے۔
اگر کوئی کہے کہ مخلوق کی کوئی صفت کبھی فناء نہیں ہو سکتی تویہ غلط ہےہر شے فناء ہونےوالی ہےاللہ سبحانہ وتعالی کی صفات فناء نہیں ہو سکتیں مخلوق کی صفات فناء ہوں گی اب یہاں پر بھی دو باتیں ہیں ایک ہے کہ مخلوق کی صفت کو فانی تصور کرنایہ ہم پر فرض ہےکہ تمام مخلوق کی صفات فانی ہیں دوسرا یہ کہ ضروری نہیں کہ فانی ہو تو فناء بھی ہو جائےجیسے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفات کہ اللہ تبارک وتعالی نے جو عطا فرمایااب وہ اس پر فناء نہیں ہو سکتی ہاں وہ ہم فانی مانیں گےفناء ہو سکتی ہیں لیکن کیا ہوں گی اُن پر کبھی ایسا نہیں ہوگامثال کے طور پر کیا یہ ممکن ہےکہ نہیں کہ میں گلاس اُٹھا کرآپ کے سر پر دے ماروں بھئی ممکن توہے نا میرا دماغ گھوم جائے میں مار دوں لیکن کیا میں ماروں گا؟ نہیں میں آپ کا ادب کروں گاایک چیز ممکن ہوتی ہےلیکن ضروری نہیں کہ وہ ممکن وقوع پذیر بھی ہو جائےتو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفات کو ہم فانی تصور کریں گےتاکہ اللہ تبارک وتعالی کی صفات سے فرق ہو جائےلیکن کیا یہ فناء ہونا واقع بھی ہوا ہےایسا نہیں ہو گاکیونکہ اللہ تبارک وتعالی نےقرآن میں ارشاد فرما دیا : ولاخرۃ خیر لك من الاولی (الضحی آیت ۴) اے حبیب ہرآنے والی گھڑی آپ کے حق میں پہلی سے بہتر ہے جو صفات اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو عطا فرمائیں اُس میں روز بروز ترقی ہوتی جائے گی فضائل وکمالات و برکات کے اندر ترقی ہو گی اُس میں کبھی کمی نہیں ہو گی لیکن یہ عقیدہ رکھناپھر بھی ہم پر لازم ہو گا کہ ہاں اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ مخلوق کی صفات پر فناء ممکن ہے لیکن ممکن معرض وجود میں بھی آ جائےیہ ضروری نہیں ممکن ہے کہ اللہ تبارک وتعالی اس مکان کو سونے کا بنا دے لیکن شائد یہ وقوع پذیر قیامت تک نہ ہوتو ممکن ہونا اور وقوع پذیر ہونا یہ کوئی لازم ملزوم نہیں تو اب دیکھئے اللہ تبارک وتعالی کی ہر صفت چار صفتوں سے متصف ہے قدیم،ذاتی،لامحدود اور غیرفانی اسی طرح مخلوق کی صفت بھی چار صفتوں سے مُتصف ہے غیر قدیم اس کو حادث بھی کہتے ہیں تمام مخلوق کی صفات غیر قدیم،عطائی،محدود اور فانی یہ فرق آپ کے ذہن میں آ گیا یہ فرق اگر آپ ملحوظ نہ رکھیں تو کائنات میں کوئی شرک سے بچ ہی نہیں سکتا مثال کے طور پر آپ سب نے جو لباس پہن رکھا ہےاس کا مالک کون ہے آپ کہیں گے میں ہوں بھئی آپ نے جو لباس پہن رکھا ہے آپ اس کے مالک ہیں کہ نہیں حالانکہ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہےکہ :له مافی السموات ومافی الارض اللہ تبارک وتعالی ہی کی ملکیت میں ہے جوکچھ آسمانوں میں ہے جو کچھ زمین میں ہے وہ تمام چیزوں کا مالک ہے اب بتائیے آپ مشرک ہو گئے کہ نہیں ؟ اللہ تبارک وتعالی کہہ رہا ہے کہ میں مالک آپ کہہ رہے ہیں اس لباس کا میں مالک ،دومالک ہو گئے وصف مالکیت میں شرکت ثابت ہو گئی کہ نہیں؟ آپ کیسے اس شرک کے الزام سے بری الذمہ ہوں گےآپ کہیں گے کہ اللہ تبارک وتعالی کا مالک ہونا قدیم میرا غیر قدیم ،اُس کا ذاتی میرا عطائی، اُس کا غیر فانی میرا فانی، اُس کا لا محدود میرا محدود شرک ختم ہو گیا میں مانوں گا بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ، دوسری مثال آپ دیکھ رہے ہیں دیکھنا ایک صفت ہے اللہ سبحانہ وتعالی بھی دیکھ رہا ہے،ہے کہ نہیں بتاؤ یہ شرک ہو گیا کہ نہیں آپ کہیں گے کہ نہیں مفتی صاحب یہ شرک نہیں ہوا اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی کا دیکھنا قدیم میرا غیر قدیم،اُس کا ذاتی میرا عطائی،اُس کا لامحدود میرا محدود،اُس کا غیرفانی میرا فانی شرک کہاں سے ہواٹھیک ہے میں تسلیم کروں گااب آ جائیے دوسری طرف اللہ تبارک وتعالی کیلئے علم غیب ہے کہ نہیں، بالکل ثابت ہے میں کہتا ہوں نبی کیلئے بھی ثابت ہے آپ کہیں گے مفتی صاحب یہ تو شرک ہو گیا میں کہوں گا کہ نہیں اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی کا علم غیب قدیم نبی کا علم غیب غیر قدیم، اللہ سبحانہ وتعالی کاذاتی نبی کا عطائی، اللہ سبحانہ وتعالی کا لامحدود نبی کا محدود، اللہ سبحانہ وتعالی کا غیر فانی نبی کے علم پر فناءممکن ہےاگرچہ وقوع پذیر نہیں ہو گی اگر ہر چیز میں آپ ان چار دلیلوں کو دے کر شرک سے بچ گئےتو علم غیب مصطفی میں شرک کہاں سے ثابت ہو گیا بعض حضرات تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں جی میلاد منانا شرک ہے لاحول ولا قو‌‌‌ۃ الا باللہ میں کہتا ہوں جتنا شرک کو ختم کرنے والا میلاد مصطفی ہے اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی اس لئے کہ میلاد ولادت سے ہےاور خدا پیدا نہیں ہوتا مخلوق ہی پیدا ہوتی ہےتو شرکت کا احتمال ہی نہیں ہے میلاد میں لیکن پھر بھی جی میلاد شرک ہے اب آپ خود بتائیے بچگانہ بات ہے کہ نہیں میلاد کو شرک کہتے ہیں کہ یہ شرک کرنا ہےلا حول ولاقوۃ الا باللہ کیسے شرک ہو جائے گا؟
اسی طرح ایک اور وسوسہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دُور سے پکارنا شرک ہے اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی دُور کی آواز سن سکتا ہےآپ نبی کیلئے بھی ثابت کر رہے ہیں انتہائی احمقانہ الزام ہے انتہائی احمقانہ وہ کیوں؟ وہ اس لئے کہ ہمارا رب تو دُور کی آواز سُنتا ہی نہیں ہے آپ کہیں گے مفتی صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں میں بالکل صحیح کہہ رہا ہوں پہلے اُس چیز کا نام بتائیےکہ اللہ سبحانہ وتعالی جس سے دُور ہےلائیے وہ چیز میرے سامنےکہ اللہ سبحانہ وتعالی اس سے دُور ہے بتائیے،اللہ تبارک وتعالی اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے پوری کائنات کو محیط ہےوہ ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہےاللہ تبارک وتعالی تو قریب کی آواز سنتا ہےاگر دُور کی آواز سنناکسی کا خاصہ ہو سکتا ہے تو وہ ہمارے نبی کاخاصہ ہو سکتا ہےشرکت کہاں سے ہو جائے گی یہ احمقانہ خیالات پبلک کے اندر ڈال کر اور لوگوں کو انتشار میں مبتلا کرنا یہ بے وقوفی ہے یہ نادانی ہے پہلے سمجھئے شرک کسے کہتے ہیں؟ اُس کی حقیقت کیا ہے؟پھر اُس کے بعد کلام کرنا چاہیے
ایک اور وسوسہ جی غیراللہ سے استمداد،اُس سے مدد طلب کرنا،نبی سے مدد مانگنا،ولی سے مدد مانگنا شرک ہے کیسے شرک ہے؟ مدد کرنا بھی ایک وصف ہےاگر آپ کہتے ہیں کہ مدد صرف اللہ سبحانہ وتعالی سے مانگنی چاہیے مخلوق سے نہیں مخلوق سے مانگو گے تو شرک ہو جائے گا تو ہم پہلے تو اسی ضابطے کے تحت اُسے دیکھیں گےاللہ سبحانہ وتعالی کے مدد کرنے کی صفت قدیم یعنی ہمیشہ سے مدد کرتا چلا آرہا ہے اگر کوئی مخلوق مدد کرے گی تو پھر بعد میں کر سکتی ہے ہمیشہ سے تو نہیں جب اُس کو یہ مدد کی قوت ملی اُس کے بعد، اللہ سبحانہ وتعالی کا مدد کرنا ذاتی اُسے کسی نے وصف نہیں دیا لیکن ہمارے بڑے سے بڑا ولی، بڑے سے بڑا نبی بشمول ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہم مسلمانوں کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی عطا کرتا ہے تونبی آگے عطا کریں گے اللہ سبحانہ وتعالی کی عطا کے بغیر کچھ بھی نہیں دیں گے۔ اللہ سبحانہ وتعالی کی وصف امداد ذاتی اور نبی کا عطائی، اُس کا لامحدودنبی کا یا کوئی بھی غیر نبی مخلوق ہو اُس کا محدود،اللہ سبحانہ وتعالی کا غیر فانی اور مخلوق کی صفت امداد پر فناء ممکن ہےان چار چیزوں کو اگر آپ ذہن میں رکھ لیں تو ان شاءاللہ بالکل شرک سے پاک وصاف رہیں گےہر چیز کا آپ اچھی طرح مشاہدہ کر سکتے ہیں اُس کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور پھر آپ فیصلہ کر سکتے ہیں اب آپ کہیں گے کہ قرآن نے تو شروع میں کہہ دیا اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ اے اللہ سبحانہ وتعالی ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں اب یہاں تو خاص اللہ تبارک وتعالی سے مدد طلب کرنے کا حکم ہےلیکن میرے پیارے بھائی کسی سے کوئی چیز یا کسی چیز کو کسی کی طرف منسوب کردینا یہ دوسرے کی طرف منسوب کرنے کی نفی کوثابت نہیں کرتامثلاً میں کہتا ہوں ”میں خاص اجمل بھائی سے ہی پیسے مانگتا ہوں “ تو اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ دوسرے سے پیسے مانگنا منع ہےمانگ تو اُس سے بھی سکتا ہوں لیکن یہاں کچھ بھائیوں کو مغالطہ لگا ہے کہ دوسروں سے نہیں مانگ سکتے دوسروں سے مانگیں گے تو مشرک ہو جائیں گے تو یہ مسئلہ ہے اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ‏ کا، سابقہ قرینہ خود بتا رہا ہےاے اللہ تبارک وتعالی ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اُس طرح عبادت نہیں کر تے جس طرح مشرک کر رہے ہیں اللہ سبحانہ وتعالی کے وجود کو وہ بھی مانتے تھےاللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے”ان سے پوچھو کہ تمہارا خالق کون ہےوہ کہیں گے اللہ سبحانہ وتعالی ان سے پوچھو تمہیں رزق کون دیتا ہےوہ یہی کہیں گے اللہ سبحانہ وتعالی“ لیکن مشرک کہتے کیا تھےوہ یہ کہتے تھے کہ ہم بُتوں کی عبادت اس لئے کر رہے ہیں تاکہ یہ بُت ہمیں اللہ تبارک وتعالی کے قریب کر دیں گویااُنھوں نے اللہ تبارک وتعالی کے قُرب کا وسیلہ بُتوں کی عبادت کو قرار دیا اسی لئے اللہ تبارک وتعالی نے بھی انھی مشرک قرار دیا ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا بالکل غلط ہےایسا نہیں کرنا چاہیےتو اب اگرآج کوئی شخص کسی غیر اللہ سے مدد طلب کر رہا ہےتو وہ اس کے زمرے میں نہیں آئےگا۔ کیونکہ اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ اے اللہ عزوجل! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں مشرکین کی طرح کسی اور کی عبادت کو تیرے قُرب کا وسیلہ نہیں بناتے وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ اورخاص تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں،مشرکین کی طرح نہیں کہ بُتوں سے مدد طلب کرتے ہیں موازانہ کیجئے نا جو سیاق وسباق ہے اُس کے اعتبار سےآیات کے معنی متعین ہوتے ہیں لہذا یہاں پر غیر اللہ سے استمداد کی نفی نہیں ہے مدد مانگ سکتے ہیں سب سے بڑی دلیل میں آپ کو قرآن سے ہی دیتا ہوں پہلے ایک بات سمجھ لیجئےکہ جتنے بھی عربی حروف ہوتے ہیں یہ دو طرح کے ہوتے ہیں ان کے آخر میں کبھی کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی اگر ہو تو اسے مورب کہتے ہیں۔اگرنہ ہو تو اسے مبنی کہتے ہیں اور جتنے مورب کلمات ہوتے ہیں کم از کم تین حروف سے ضرورمرکب ہوتے ہیں انہیں حروف اصلیہ بھی کہتے ہیں اور مادہ بھی کہا جاتا ہےتولفظ نستعین کا مادہ ہے ”عون“ ع،و،ن اس سے بنا ہے یہ نستعین اب آگے آئیےقرآن میں اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ یہ وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بھی ”عون“ مادے سے ہی بنا ہےجس سے نَسۡتَعِيۡنُؕ بنا ہے تو ایک طرف ہےاِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕاے اللہ عزوجل! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں اور دوسری طرف اللہ تبارک وتعالی انہی حروف اصلیہ کے ساتھ بیان فرما رہا ہےوَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕصبراورنمازسے مددطلب کرو”صبر“ خدا نہیں ”نماز“خدا نہیں یہ غیراللہ ہیں غیر خدا ہیں اور آپ کا رب آپ سے فرما رہا ہےوَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕنماز اور صبر سے مدد طلب کرو بتائیے کہ قرآن شرک مٹانے کیلئے آیا ہے کہ شرک کی ترغیب دینے کیلئے آیا ہےظاہرسی بات ہے کہ مٹانے کیلئے آیا ہےاور اللہ تبارک وتعالی کی حکمت پر قُربان جائیے اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕجس حروف اصلیہ سے نستعینکوبیان فرمایا آگے اسی خیال کے رد کیلئے وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بیان فرمایا انہی حروف اصلیہ کے ساتھ تاکہ وسوسہ (شبہ)پیدا نہ ہو جائے یہ حکمت ہو سکتی ہےاللہ سبحانہ وتعالی کی،لہذاغیراللہ سےمددمانگنااگرصحیح عقیدے کے ساتھ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں اس سے کوئی شرک ثابت نہیں ہوتا۔صحیح نظریہ بس یہ ذہن میں رکھیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی سے مدد کرنا افضل ہےاُولی ہےاللہ تبارک وتعالی مدد کرنے والا ہےاُسی کے دست قدرت میں پوری کائنات کے خزانے ہیں وہ ہی سب کا ملجا ہےوہی ماوا ہےوہ ہی سب پر کرم نوازی فرماتا ہےپوری کائنات میں خزانے رزق کےوہ ہی تقسیم کر رہا ہے لیکن اُس کی ایک عادت کریمہ ہےکہ جب بھی کسی کو کچھ دیتا ہے تو بغیر وسیلے کے نہیں دیتا، میں ہمیشہ ایک سوال کرتا ہوں مجھے ایک ایسی چیز کا نام بتادیں جو براہ راست اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو مل رہی ہواللہ تبارک وتعالی نے اُس کو آپ کو عطاکرنے کیلئےکوئی وسیلہ مقرر نہ کیا ہوکوئی ایک چیز کا نام بتائیں ہر چیز کیلئے دوسری چیز وسیلہ بن رہی ہےآپ کائنات میں آئے ماں باپ وسیلہ بن گئےآپ کی پرورش ہوئی ماں کا دودھ وسیلہ بناپھر روٹی،غذا دیگر وسیلہ بن گئے ہر چیز کیلئے اللہ تبارک وتعالی نےایک وسیلہ قائم کیا ہے ویسےتو اللہ تبارک وتعالی کسی وسیلے کا محتاج نہیں لیکن اُس کی عادت کریمہ ہےکہ وہ وسیلے قائم فرماتا ہےتو وہ غیر محتاج ہو کر وسیلہ قائم کرےاور ہم تو خود محتاج ہیں اگر ہم سنت الہیہ کی نیت سے کوئی وسیلہ قائم کریں تو یہ شرعاً کیسے غلط ہو سکتا ہےاسلئے یہ عقیدہ ہونا چاہیےکہ دینے والی ذات اللہ تبارک وتعالی کی ہےاور انبیاء علیھم السلام ، صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اُولیاء اکرام رحمھم اللہ ،اُس اللہ تبارک وتعالی کی عطا کی راہ میں ایک وسیلہ ہیں اور وہ ہمیں عطافرما رہے ہیں اس عقیدے کے ساتھ اگر کوئی طلب امداد کرتا ہےاس میں کوئی شرک کا شائبہ نہیں کیونکہ وہ اس مخلوق سے حقیقتاً نہیں مانگ رہا بلکہ اُس مخلوق کو وسیلہ بناتے ہوئےاپنے رب سے طلب کر رہا ہے تو جو اپنے رب سے مانگ رہا ہو وہ مشرک کیسے ہو سکتا ہے؟اس طرح آپ کئی معمولات لیتے جائیے ان شاء اللہ آپ یہ دیکھیں گےکہ وہ شرک کے زمرے میں نہیں آتےاب یہ دیکھئے میں آپ سے پوچھتا ہوں انگوٹھے چومنا شرک ہےکہ نہیں اب آپ سوچیں گے اس میں شرک کا شائبہ کیا ہےاگر اللہ تبارک وتعالی کا نام سُن کریا اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ کوئی خاص ہوتااس کیلئے انگوٹھے چومے جاتے پھرنبی کیلئے ہوتا تو پھر وسوسہ بھی آتااب کہاں انگوٹھے چومناصرف نبی کیلئے خاص اس میں کونسا شرک کا شائبہ ہے بتائیےکوئی شرک فی الذات ثابت ہو رہا ہےکوئی شرک فی الصفات ثابت ہو رہا ہےنبی کیلئے اگر کوئی انگوٹھے چوم کرآنکھوں کو لگاتا ہےتو کیا نبی کو معبود سمجھ رہا ہے،قدیم سمجھ رہا ہے،خالق ومالک سمجھ رہا ہے؟نہیں۔۔!کیا وہ کسی صفت کے اندر کوئی شرکت کر رہا ہے جو اللہ تبارک وتعالی کی صفات ہیں جن خوبیوں سے متصف ہیں وہ یہاں ثابت ہو رہی ہیں ؟نہیں۔۔۔!تو انگوٹھے چومنا شرک کیسے ہو سکتا ہےخود سوچئے بالکل بچگانہ بات ہے جسے میں کہوں یہ موبائل بچھو ہےدلیل دیجئے تو مجھے پتہ نہیں کہ کہ بچھو ہےارے بھائی کہاں موبائل اور کہاں بچھوآپ بلکل اُلٹی سیدھی بات کر رہے ہوتو یہ ذرا سوچنے والی باتیں ہیں کہ شرک اتنا آسان نہیں جتنا ہم کہہ دیتے ہیں مشرک بننا اتنا اسان نہیں جسے ہم بنا دیتے ہیں الحمدللہ ہم مسلمان ہیں،مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہمیں شرک سے شدید نفرت ہےمشرک قطعی جہنمی ہے ہم مانتے ہیں بالکل جہنم میں جائے گااگر توبہ کئے بغیر مر گیا تو کبھی اُسے باہر نکلنا نصیب نہیں ہو گا لیکن واقعی مشرک ہو مسلمان کو نہیں یاد رکھئے کسی مسلمان کو مشرک کہہ دیا تو نبی مکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں مسلم کی روایت ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو کافر کہا اور وہ کافر نہ ہو تو یہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا یعنی وہ خود کافر ہو جائے گا علماء نے فرمایا ہے اس حدیث کو اس کے ظاہر پر محمول کرنا واجب ہے اگرآپ نے کسی (مسلمان)کو کافر کہا توآپ بھی کافر ہو جائیں گے کیوں ہو جائیں گے اُس کی لاجک بھی آپ کو بتا دیتے ہیں اگر ذہن میں رہے تو بہت اچھا ہے مسلمان اور کافر یہ جو دو لفظ آپ کسی پر بولتے ہیں اُس کے عقیدے کے اعتبار سے بولتے ہیں اگر آپ کسی کے عقیدے کو درست پاتے ہیں تو آپ اُسے مسلمان کہتے ہیں اور اگر کسی کے عقیدے میں بگاڑ یا فساد ہے تو آپ اُسے کافر کہتے ہیں،ہے کہ نہیں ایسا ہوتا ہے نا تو معلوم ہوا کہ مسلمان یا کافر کہنا اصل میں عقیدے کے صحیح ہونے یا غلط ہونے کے اعتبار سے ہے یہ رد المختار میں علامہ ابن عابدین شامی ؒ نے علت لکھی ہے جو میں آپ کو بتا رہا ہوں اب اگر آپ کسی مسلمان کوکہتے ہیں تم کافر ہو اور وہ کافر نہیں تو ہم اُسے کافر کب بولیں گےجب اُس کے عقیدے کفریہ ہوں گےحالانکہ اُس کے عقیدے کفریہ نہیں ہیں مسلمانوں والے ہیں تو گویا کہ ہم نےاُسے کافر کہہ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہےکہ اس کے تمام اسلامی عقائد کفریہ ہیں تو اُسےکافر کہنے کی وجہ سےہم کافر نہیں ہوئے بلکہ اُس کے اسلامی عقائد کوکفریہ عقائد قرار دینے کی بناء پراللہ تعالی نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ہے یہ ہے اصل علت۔ اب مسلمان کو مشرک کہنا کتنی بُری بات ہے بولتے ہیں کہ داتا صاحب کا مزار شرک کا اڈا ہ ہے شرک ہو رہا ہے لوگ سجدے کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ میں ایک نفیس بات کرتا ہوں ذرا سی توجہ کیجئے گااپنی سابقہ زندگی پر نظر دوڑائیں دیانتداری کے ساتھ،آپ اگر کبھی کسی مزار پر گئے ہیں آپ نے اپنی آنکھوں سےکسی آدمی کوخاص سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے قبر کو خود سوچئے گا مجھے نہ کہیں خود سوچئے گاجو سجدے کی ہیئت ہے کبھی آپ نے زندگی میں کسی ایک شخص کو بھی قبر پر اس طرح سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے دیانتداری سے سوچئے گا میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں سینکڑوں مزاروں پر گیا ہوں آج تک اپنی زندگی میں کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا خداکی قسم کھا کے کہتا ہوں اور آپ بھی اب سوچیں گے آنکھیں بند کر کے تو آپ کہیں گے واقعی صحیح کہہ رہے ہیں ہم نے تو خالی سُنا ہے جی قبر پرستی ہوتی ہے لوگ قبر کو سجدہ کر رہے ہیں نہیں کوئی سجدہ نہیں کرتا بالفرض اگر سجدہ بھی کر رہا ہو تو ہمیں کیا پتہ کہ وہ کس نیت سے کر رہا ہے کیونکہ سجدہ بھی دو طرح کا ہوتا ہے اور بھی بڑی قسمیں ہوتی ہیں لیکن ہم بڑی دو لیتے ہیں
(1) سجدہ عبادت
(2) سجدہ تعظیمی
سجدہ عبادت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو عبادت کے لائق سمجھ کراُسےسجدہ کرنا اور سجدہ تعظیمی کامطلب اُسے لائق عبادت تو نہ سمجھا جائےقابل تعظیم سمجھتے ہوئے سجدہ کرنا سجدہ تعظیمی ہےہمارے مذہب اسلام کی تعلیمات کے مطابق سجدہ عبادت کفروشرک اور سجدہ تعظیمی حرام و گناہ کبیرہ ہے لیکن آدمی کافر نہیں ہوتا اب دیانتداری سے بتائیے اگر ایک گاؤں کا دیہاتی بھی کسی صاحب مزار کی قبر پر سجدہ کر رہا ہو تو کیا وہ اسے معبود سمجھ کر سجدہ کر سکتا ہے میرے خیال میں کبھی بھی نہیں وہ اسے اللہ تبارک وتعالی کا ولی سمجھ کر قابل تعظیم سمجھ کر ہی سجدہ کرے گا کوئی بھی ایسا نہیں ہو گاکہ اُسے (قبر والےکو) لائق عبادت سمجھ کر سجدہ کرے میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان کے ساتھ یہ بد گمانی بالکل غلط ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا مسلمان یہ سمجھے کہ یہ لائق عبادت ہے اسے سجدہ کرو بھئ ایسا نہیں ہو سکتا لہذازیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حرام اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اب بھی اُسے کافرکہنا کیسا ہےغلط ہے کہ نہیں اب وہی مسلم کی روایت اگر وہ سجدہ تعظیمی کررہا ہے اور آپ نے اُسے کافر کہہ دیا وہ تو کافر نہ ہوا آپ جو تقوی کے پیکر بنے ہوئے ہیں اور آپ کو تقوی کا ہیضہ ہو گیا ملیریا ہو گیا ،آپ کافر ہو جائیں گے اب بعض کہتے ہیں ہم نہیں مانتے یہ تقسیم بس ہم نہیں اس کو لیتے بس جو سجدہ کر رہا ہو گا وہ ضرور کافر ہو گا ہمیں کیا پتہ سجدہ تعظیمی کر رہا ہے یا سجدہ عبادت کر رہا ہےبس ہم اُسے کافر کہیں گےمشرک کہیں گےایسا نہیں ہے آپ کو پہلے معلوم کرنا ہو گا اگر آپ اس تقسیم کونظر انداز کر دیں گے تو کائنات میں کوئی بھی شرک سے نہیں بچ سکے گا ہر مسلمان مشرک ہو جائے گا وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ ایک جگہ جمعے کی نماز ختم ہوئی ایک آدمی کھڑا ہوگیا کہنے لگا سب کلمہ پڑھو
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ اسلئے کہ تم سب مشرک ہو گئے ہولوگوں نے کہا لاحول ولا قوۃ الا باللہ اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں سجدہ کرتے مشرک ہو گئے کم بخت یہ کیا کہہ رہا ہے کہنے لگا میں نے یہ دیکھا امام صاحب قبلے کی دیوار کو سجدہ کر رہے تھے پچھلے والی صف امام کو سجدہ کر رہی تھی سکینڈ صف پہلی کو اسی طرح تیسری دوسری کو، چوتھی تیسری کو سبھی ایک دوسرے کو سجدہ کر رہے تھے تم کافر ہو گئے ہو مشرک ہو گئے ہوکلمہ پڑھو،کلمہ پڑھولوگوں نے کہا بے وقوف انسان! بظاہر ہم ایک دوسرے کے سامنےجھکے ہوئے تھے لیکن اصل نیت تو اللہ سبحانہ وتعالی کو سجدہ کرنے کی تھی نا، تو معلوم ہوا نیت کا اعتبار ہے جھکنے کا نہیں اگر جھکنے کا اعتبار ہو تو گھر کی عورت کو دیکھئے گا کبھی جوتی تلاش کرنے کیلئے بستر کے نیچے جھکتی ہے جسے جھکے گی آپ بولیں گے مُشرکہ ہو گئی کم بخت کیوں جھک گئی بستر کے سامنے ،اسی طرح گاڑی ٹھیک کرنے والے کے پاس گئے وہ جھکا ہوا ہے کار والا آ گیا آگے سے تم مشرک ہو گئےکیوں کیونکہ تم جھکے ہوئے تھے ارے نہیں بھائی خالی جھکنے سے تھوڑا ہی بندہ مشرک ہوتا ہے نیت درکار ہے نیت اگر آپ نا مانیں گے تو کوئی مسجد کے اندر شرک سے نہیں بچے گا جب نیت ہی اصل ہوئی اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جو شخص صاحب مزار کے سامنے بالفرض اگر جھکا بھی ہوا ہےتو اُس کی نیت پر مطلع ہونے کیلئے آپ کے پاس کیا پیمانہ ہے بتائیے؟ نبی ﷺ کیلئے تو آپ کہیں کہ نبی ﷺ کو تو دیوار کے کا پیچھےبھی علم نہیں ہے اور خود آپ کسی شخص کو جھکا ہوا دیکھیں تو آپ تصور کریں کہ ضرور اس کی نیت عبادت کی ہے سبحان اللہ نبی ﷺ کیلئے تو دیوار کے پیچھے کا علم نہ مانا جائے اور اپنے لئے ماشاء اللہ اتنی وسعت علمی کہ کسی کے قلب میں جھانک کر آپ نے دیکھ لیا کہ کس نیت سے سجدہ کر رہا ہے انتہائی غلط چیز ہے بالکل غلط مسلمان مشرک نہیں ہے بس سمجھنے کی ضرورت ہے۔
السلام علیکم !
”طبقہء خاص“
اپنے مخصوص نظریات کو ”بار بار“ مختلف انداز میں ”بیان“ کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کے ”باطل“ نظریات کا ابھی تک کسی نے ”علمی رد“ نہیں کیا بلکہ جس وجہ سے ”چپ“ہونا پڑتا ہے وہ ہے انکا”ضدی پن“ اور ”علمی رد“ پر غور نہ کرنا۔ چونکہ ”شرک“ ایک اہم مسئلہ ہے اور ہم ”ہرگز “ نہیں چاہتے کہ آپ کسی ”مشکل “کا شکار ہوں اس لیےپھر بھی آپ کی ”تسلی“ کےلیے مندرجہ ذیل ”کتاب“نہایت مفید رہے گی۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو ”توحید“ کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے ، آمین یا رب العالمین !
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
شرک کسے کہتے ہیں؟
شرک کالغوی معنی ہے شریک کرنا،شریک ٹھہرانا،اور شرعی طور پر شرک کا مطلب یہ ہوتا ہےکہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات،یا اس کی صفات کے ساتھ کسی غیر کو شریک کر دینا
جو ذات کے ساتھ شرکت ثابت ہوگی اسکو شرک فی الذات کہا جاتا ہے اگر کوئی صفات میں شرکت کرے گا تو اسے شرک فی الصفات کا نام دیا جاتا ہے اسطرح شرک کی دو قسمیں بن گئیں۔

(۱) شرک فی الذات
(۲) شرک فی الصفات
شرک فی الذات:-
شرک فی الذات کیا ہے؟ اس کی کیا صورت ہو گی؟ اس کی کم ازکم تین صورتیں لے لیں۔
(1) جس طرح اللہ تبارک وتعالی ہمیشہ سے ہے ایسا کسی اور کو تصور کرلینا کہ وہ ہمیشہ سے ہے جس کو آپ کہتے ہیں قدیم ، اللہ سبحانہ و تعالی ہمیشہ سے ہے کبھی ایسا نہیں تھا کہ وہ پہلے نہیں تھا پھر دنیا میں آیا، جسطرح ہم پہلے نہیں تھے بعد میں معرض وجود میں آئے
اب اگرکوئی اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی اور کو کہے یہ قدیم ہے تو وہ مشرک ہو جا ئیگا جیسے فلاسفہ نے کہا زمانہ ازلی بھی ہے ابدی بھی ہے یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا تو انھوں نے زمانے کو بھی اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ ملا کر قدیم کہہ دیا اور شرک کے مرتکب ہو گئے شرک فی الذات یہ ہے کہ کسی کو اللہ سبحانہ وتعالی کی طرح قدیم تصور کرنا کہ وہ ہمیشہ سے ہے کبھی ایسا نہیں تھا کہ پہلے نہیں تھا پھر ہوا بلکہ ہمیشہ سے ہے تو یہ شرک فی الذات کی ایک صورت بنے گی۔
(2) جیسے اللہ تبارک وتعالی لائق عبادت ہے اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ کسی بھی مخلوق کو لائق عبادت تصور کرنا جیسے بت پرست،آتش پرست،سورج کو پوجنے والے یہ سب کے سب اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ بھی کسی اور کو معبود مان رہے ہیں اس کو عبادت کے لائق سمجھ رہے ہیں یہ بھی شرک فی الذات ہے۔
(3) اللہ تبارک وتعالی کیلئے اولاد کا تصور رکھنا کہ اس کی اولاد ہے یہ بھی شرک فی الذات کے زمرے میں آئےگی جیسے کرسچن عیسی علیہ السلام کو اللہ سبحانہ وتعالی کا بیٹا کہتے ہیں اور یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا کہتے ہیں یہ بھی شرک ہے یہ تین صورتیں شرک فی الذات کی ہوئیں۔

· اللہ تبارک وتعالی کی مثل کسی کو قدیم تصور کرنا
· اللہ تبارک وتعالی کی مثل کسی کو معبود عبادت کے لائق سمجھنا
· اللہ تبارک وتعالی کیلئے اولاد کاتصور رکھنا
اسکا بیان قرآن مجید کے اندر موجود ہے بعض چیزوں کا ہے بعض کا صراحتاً نہیں ہے لیکن بہرحال ہے

شرک فی الصفات:-
شرک فی الصفات یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی جتنی بھی صفات ہیں وہ جن خوبیوں سے متصف ہیں یا ان صفات میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں کسی مخلوق میں وہ ہی صفت ان تمام خوبیوں کے ساتھ مان لینا یہ شرک فی الصفات ہے جیسے اللہ سبحانہ و تعالی کی صفتیں ہیں ہر صفت اللہ تبارک وتعالی کی کم از کم چار خوبیوں سے ضرور متصف ہو گی تو مخلوق کے اندر وہ ہی صفت مان کر اور اسے انھی چار خوبیوں سے متصف مان لینا یہ شرک فی الصفات ہے مثال کے طور پر پہلےہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات کون کون سی خصوصیات سے متصف ہیں۔
اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات قدیم ہیں ہمیشہ سے ہیں ہمیشہ رہیں گی ہمیشہ سے اسلئے مانا گیا ہے کہ عقلی لحاظ سے عقیدہ ثابت ہوا ،قرآن اس میں نہیں بولے گاحدیث اس پر بالکل خاموش ہےیہ اکابرین نے معتزلہ کا جواب دیتے ہوئے
فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی کی ذات جیسے قدیم ہے اسکی صفات بھی قدیم ہے کیوں؟ اسلئے کہ اگر آپ صفات کو قدیم نہ مانیں اور یہ کہیں کہ یہ پہلے نہیں تھیں بعد میں پیدا ہوئیں تو یہ ضرور ماننا پڑے گاکہ اللہ تبارک وتعالی ایک وقت میں معاذاللہ نابینا بھی تھا دیکھ نہیں سکتا تھا وہ سن نہیں سکتا تھا وہ کلام پر قدرت نہیں رکھتا تھاوہ کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتا تھاوہ کسی کو زندہ نہیں کر سکتا تھا کسی کو مار نہیں سکتا تھااسلئے کہ یہ تمام اللہ سبحانہ وتعالی کی صفات ہیں دیکھنا ایک صفت،سننا ایک صفت،کلام کرنا،ارادہ کرنا،مارنا،زندہ کرنا،پیدا کرنا،پیدائش،تخلیق یہ سب اللہ تباک وتعالی کی صفات ہیں تو اگر آپ یہ کہیں کہ یہ صفات ہمیشہ سے نہیں بعد میں ہوئیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات ایک وقت میں ان صفات کے بغیر تھی تو اللہ تعالی کاعیب دار ہونا لازم آئیگاتویہ عقلاً محال ہے دوسری بات اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ صفات بعد میں اللہ تبارک وتعالی کے پاس آئیں ہمیشہ سے نہیں ہیں تو کس نے دیں، لازمی بات ہے دوسری ذات کا تصور پیدا ہوگاکیونکہ جب اللہ سبحانہ و تعالی پیدا کرنے پر قادر ہی نہیں تھا اسکے پاس یہ صفت پیدا کرنے کی تھی نہیں تو صفات کو کس نے پیدا کیا اللہ تعالی کے پاس تو صفت تھی نہیں تو ماننا پڑے گا کہ کسی اور ذات نےپیدا کرکے اسے اللہ تبارک وتعالی کو دیا تو پھر اس ذات کااللہ سبحانہ و تعالی سے زیادہ طاقتور ہونا لازم آئیگا تو اس طریقے سے ہزاروں خرابیاں لازم آئیں گی۔
· اللہ تبارک وتعالی کی صفات قدیم ہیں یعنی ہمیشہ سے ہیں۔
· اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات ذاتی ہیں اُسے کسی نے عطا نہیں کیں خودبخود اُس کی ہیں اب اگر کوئی اُس کو عطا کرتا تو وہ صفات عطائی کہلاتی تو اللہ تبارک وتعالی کی تمام صفات ذاتی ہوئیں۔
· لامحدود،اُن کی کوئی حد نہیں وہ کہاں تک دیکھ سکتا ہے کہاں تک کی آواز سُن سکتا ہے وہ کتنے ارادے کر سکتا ہے کتنوں کو مار سکتا ہے کس حد تک زندہ کر سکتا ہے کوئی حد مقرر نہیں کر سکتا اُس کی صفات لامحدود ہیں، علم اللہ سبحانہ وتعالی کی صفت ہے اُس کی کوئی حد نہیں ،کوئی کنارہ نہیں۔
· غیرفانی، اللہ تبارک وتعالی کی کسی صفت پر فناء نہیں یعنی کبھی بھی فناء نہیں ہوں گی تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ تبارک وتعالی کی ہرخوبی چار صفات سے ضرور مُتصف ہو گی
(1) قدیم

(2) ذاتی
(3) لامحدود
(4) غیرفانی
اب اگر کوئی مخلوق کی صفت کے اندر ان چار خوبیوں کو مان لے گا وہ مشرک ہو جائیگا اور بعض اوقات ان میں سے ایک کو بھی مان لے گا تو مشرک ہو جا ئیگا ۔

· مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں ولی کا علم قدیم ہے ہمیشہ سے ہے فوراً مشرک ہو جائیگا کیونکہ علم قدیم نہیں ہو سکتااللہ سبحانہ وتعالی کا علم قدیم ہےجب اللہ تبارک وتعالی نے اُسے دیا تواُسکے پاس پہلے علم نہیں تھااللہ تبارک وتعالی کے دینے سے ہوا تو علم اُسکا قدیم نہ رہا شرک ہو جائیگا۔
· مخلوق کی جتنی صفات ہیں وہ ہیں عطائی اگر کوئی کسی مخلوق کی کسی بھی صفت کو کہے گا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اُسے نہیں دی خودبخود اُسکی ہیں مشرک ہو جائیگا فلاں ولی مدد کر سکتا ہے اللہ سبحانہ وتعالی کی عطا ء کے بغیر فوراً مشرک ہو جائیگا اسلئے کہ کوئی اللہ تبارک وتعالی کے بغیر ایک تنکا بھی کسی کو نہیں دے سکتا یہ مسلمان کا عقیدہ ہے الحمدللہ تو مخلوق کی صفات کیا ہوئیں غیر قدیم اور غیر ذاتی یا عطائی۔
· اگر کوئی یہ کہے کہ کسی مخلوق کی صفت لامحدود ہے اُس کی کوئی حد نہیں شرک ہو جائیگا،ایک ہے کسی مخلوق کی صفت کو لا محدود ماننا ایک ہے حد نہ جان پانا دونوں میں فرق ہے ہمارے نبی علیہ السلام کا علم کتنا ہے آپ بتا سکتے ہیں کہ نہیں ؟اُس کی کوئی حد آپ قائم نہیں کر سکتےلیکن یہ ماننا پڑے گا کہ نبی کا علم محدود ضرور ہے اُس کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہےیہ ماننا پڑے گا،لیکن کتنی حدہےاُس پر آپ اور میں مطلع نہیں ہو سکتےاسلئے کہ علماء نے ارشاد فرمایاکہ دنیا کا سمندرآپ ایک علم کی مانند تصورکر لیں اس میں سے اگر ایک چڑیا ایک قطرہ پانی پئیے منہ اُٹھائے اس کی چونچ سے جوقطرہ گرے گاتو یہ علوم کی مثال ہےنبی کا علم تمام سمندر کی مثل ہےاور اُس چڑیا کی چونچ سے گرنے والاجو قطرہ ہےگویا کہ تمام مخلوق کا علم ہےکوئی تقابل ہے کوئی موازنہ کر سکتا ہےاتنا عظیم علم ہے ہمارے نبی کا،توایک ہےکسی مخلوق کی صفت کو لامحدود تصور کرنایہ ممنوع ہےاور ایک ہےکہ اُس کی حد قائم کرنے سے عاجز آ جاناکہ میں نہیں کر سکتا، ہے تو محدود لیکن کہاں تک وہ ہمیں بھی نہیں پتہ چل رہی یہ بالکل جائز ہے۔
اگر کوئی کہے کہ مخلوق کی کوئی صفت کبھی فناء نہیں ہو سکتی تویہ غلط ہےہر شے فناء ہونےوالی ہےاللہ سبحانہ وتعالی کی صفات فناء نہیں ہو سکتیں مخلوق کی صفات فناء ہوں گی اب یہاں پر بھی دو باتیں ہیں ایک ہے کہ مخلوق کی صفت کو فانی تصور کرنایہ ہم پر فرض ہےکہ تمام مخلوق کی صفات فانی ہیں دوسرا یہ کہ ضروری نہیں کہ فانی ہو تو فناء بھی ہو جائےجیسے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفات کہ اللہ تبارک وتعالی نے جو عطا فرمایااب وہ اس پر فناء نہیں ہو سکتی ہاں وہ ہم فانی مانیں گےفناء ہو سکتی ہیں لیکن کیا ہوں گی اُن پر کبھی ایسا نہیں ہوگامثال کے طور پر کیا یہ ممکن ہےکہ نہیں کہ میں گلاس اُٹھا کرآپ کے سر پر دے ماروں بھئی ممکن توہے نا میرا دماغ گھوم جائے میں مار دوں لیکن کیا میں ماروں گا؟ نہیں میں آپ کا ادب کروں گاایک چیز ممکن ہوتی ہےلیکن ضروری نہیں کہ وہ ممکن وقوع پذیر بھی ہو جائےتو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صفات کو ہم فانی تصور کریں گےتاکہ اللہ تبارک وتعالی کی صفات سے فرق ہو جائےلیکن کیا یہ فناء ہونا واقع بھی ہوا ہےایسا نہیں ہو گاکیونکہ اللہ تبارک وتعالی نےقرآن میں ارشاد فرما دیا : ولاخرۃ خیر لك من الاولی (الضحی آیت ۴) اے حبیب ہرآنے والی گھڑی آپ کے حق میں پہلی سے بہتر ہے جو صفات اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو عطا فرمائیں اُس میں روز بروز ترقی ہوتی جائے گی فضائل وکمالات و برکات کے اندر ترقی ہو گی اُس میں کبھی کمی نہیں ہو گی لیکن یہ عقیدہ رکھناپھر بھی ہم پر لازم ہو گا کہ ہاں اللہ سبحانہ وتعالی کے علاوہ مخلوق کی صفات پر فناء ممکن ہے لیکن ممکن معرض وجود میں بھی آ جائےیہ ضروری نہیں ممکن ہے کہ اللہ تبارک وتعالی اس مکان کو سونے کا بنا دے لیکن شائد یہ وقوع پذیر قیامت تک نہ ہوتو ممکن ہونا اور وقوع پذیر ہونا یہ کوئی لازم ملزوم نہیں تو اب دیکھئے اللہ تبارک وتعالی کی ہر صفت چار صفتوں سے متصف ہے قدیم،ذاتی،لامحدود اور غیرفانی اسی طرح مخلوق کی صفت بھی چار صفتوں سے مُتصف ہے غیر قدیم اس کو حادث بھی کہتے ہیں تمام مخلوق کی صفات غیر قدیم،عطائی،محدود اور فانی یہ فرق آپ کے ذہن میں آ گیا یہ فرق اگر آپ ملحوظ نہ رکھیں تو کائنات میں کوئی شرک سے بچ ہی نہیں سکتا مثال کے طور پر آپ سب نے جو لباس پہن رکھا ہےاس کا مالک کون ہے آپ کہیں گے میں ہوں بھئی آپ نے جو لباس پہن رکھا ہے آپ اس کے مالک ہیں کہ نہیں حالانکہ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہےکہ :له مافی السموات ومافی الارض اللہ تبارک وتعالی ہی کی ملکیت میں ہے جوکچھ آسمانوں میں ہے جو کچھ زمین میں ہے وہ تمام چیزوں کا مالک ہے اب بتائیے آپ مشرک ہو گئے کہ نہیں ؟ اللہ تبارک وتعالی کہہ رہا ہے کہ میں مالک آپ کہہ رہے ہیں اس لباس کا میں مالک ،دومالک ہو گئے وصف مالکیت میں شرکت ثابت ہو گئی کہ نہیں؟ آپ کیسے اس شرک کے الزام سے بری الذمہ ہوں گےآپ کہیں گے کہ اللہ تبارک وتعالی کا مالک ہونا قدیم میرا غیر قدیم ،اُس کا ذاتی میرا عطائی، اُس کا غیر فانی میرا فانی، اُس کا لا محدود میرا محدود شرک ختم ہو گیا میں مانوں گا بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ، دوسری مثال آپ دیکھ رہے ہیں دیکھنا ایک صفت ہے اللہ سبحانہ وتعالی بھی دیکھ رہا ہے،ہے کہ نہیں بتاؤ یہ شرک ہو گیا کہ نہیں آپ کہیں گے کہ نہیں مفتی صاحب یہ شرک نہیں ہوا اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی کا دیکھنا قدیم میرا غیر قدیم،اُس کا ذاتی میرا عطائی،اُس کا لامحدود میرا محدود،اُس کا غیرفانی میرا فانی شرک کہاں سے ہواٹھیک ہے میں تسلیم کروں گااب آ جائیے دوسری طرف اللہ تبارک وتعالی کیلئے علم غیب ہے کہ نہیں، بالکل ثابت ہے میں کہتا ہوں نبی کیلئے بھی ثابت ہے آپ کہیں گے مفتی صاحب یہ تو شرک ہو گیا میں کہوں گا کہ نہیں اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی کا علم غیب قدیم نبی کا علم غیب غیر قدیم، اللہ سبحانہ وتعالی کاذاتی نبی کا عطائی، اللہ سبحانہ وتعالی کا لامحدود نبی کا محدود، اللہ سبحانہ وتعالی کا غیر فانی نبی کے علم پر فناءممکن ہےاگرچہ وقوع پذیر نہیں ہو گی اگر ہر چیز میں آپ ان چار دلیلوں کو دے کر شرک سے بچ گئےتو علم غیب مصطفی میں شرک کہاں سے ثابت ہو گیا بعض حضرات تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں جی میلاد منانا شرک ہے لاحول ولا قو‌‌‌ۃ الا باللہ میں کہتا ہوں جتنا شرک کو ختم کرنے والا میلاد مصطفی ہے اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی اس لئے کہ میلاد ولادت سے ہےاور خدا پیدا نہیں ہوتا مخلوق ہی پیدا ہوتی ہےتو شرکت کا احتمال ہی نہیں ہے میلاد میں لیکن پھر بھی جی میلاد شرک ہے اب آپ خود بتائیے بچگانہ بات ہے کہ نہیں میلاد کو شرک کہتے ہیں کہ یہ شرک کرنا ہےلا حول ولاقوۃ الا باللہ کیسے شرک ہو جائے گا؟
اسی طرح ایک اور وسوسہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دُور سے پکارنا شرک ہے اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی دُور کی آواز سن سکتا ہےآپ نبی کیلئے بھی ثابت کر رہے ہیں انتہائی احمقانہ الزام ہے انتہائی احمقانہ وہ کیوں؟ وہ اس لئے کہ ہمارا رب تو دُور کی آواز سُنتا ہی نہیں ہے آپ کہیں گے مفتی صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں میں بالکل صحیح کہہ رہا ہوں پہلے اُس چیز کا نام بتائیےکہ اللہ سبحانہ وتعالی جس سے دُور ہےلائیے وہ چیز میرے سامنےکہ اللہ سبحانہ وتعالی اس سے دُور ہے بتائیے،اللہ تبارک وتعالی اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے پوری کائنات کو محیط ہےوہ ہماری شہ رگ سے زیادہ قریب ہےاللہ تبارک وتعالی تو قریب کی آواز سنتا ہےاگر دُور کی آواز سنناکسی کا خاصہ ہو سکتا ہے تو وہ ہمارے نبی کاخاصہ ہو سکتا ہےشرکت کہاں سے ہو جائے گی یہ احمقانہ خیالات پبلک کے اندر ڈال کر اور لوگوں کو انتشار میں مبتلا کرنا یہ بے وقوفی ہے یہ نادانی ہے پہلے سمجھئے شرک کسے کہتے ہیں؟ اُس کی حقیقت کیا ہے؟پھر اُس کے بعد کلام کرنا چاہیے
ایک اور وسوسہ جی غیراللہ سے استمداد،اُس سے مدد طلب کرنا،نبی سے مدد مانگنا،ولی سے مدد مانگنا شرک ہے کیسے شرک ہے؟ مدد کرنا بھی ایک وصف ہےاگر آپ کہتے ہیں کہ مدد صرف اللہ سبحانہ وتعالی سے مانگنی چاہیے مخلوق سے نہیں مخلوق سے مانگو گے تو شرک ہو جائے گا تو ہم پہلے تو اسی ضابطے کے تحت اُسے دیکھیں گےاللہ سبحانہ وتعالی کے مدد کرنے کی صفت قدیم یعنی ہمیشہ سے مدد کرتا چلا آرہا ہے اگر کوئی مخلوق مدد کرے گی تو پھر بعد میں کر سکتی ہے ہمیشہ سے تو نہیں جب اُس کو یہ مدد کی قوت ملی اُس کے بعد، اللہ سبحانہ وتعالی کا مدد کرنا ذاتی اُسے کسی نے وصف نہیں دیا لیکن ہمارے بڑے سے بڑا ولی، بڑے سے بڑا نبی بشمول ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہم مسلمانوں کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی عطا کرتا ہے تونبی آگے عطا کریں گے اللہ سبحانہ وتعالی کی عطا کے بغیر کچھ بھی نہیں دیں گے۔ اللہ سبحانہ وتعالی کی وصف امداد ذاتی اور نبی کا عطائی، اُس کا لامحدودنبی کا یا کوئی بھی غیر نبی مخلوق ہو اُس کا محدود،اللہ سبحانہ وتعالی کا غیر فانی اور مخلوق کی صفت امداد پر فناء ممکن ہےان چار چیزوں کو اگر آپ ذہن میں رکھ لیں تو ان شاءاللہ بالکل شرک سے پاک وصاف رہیں گےہر چیز کا آپ اچھی طرح مشاہدہ کر سکتے ہیں اُس کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور پھر آپ فیصلہ کر سکتے ہیں اب آپ کہیں گے کہ قرآن نے تو شروع میں کہہ دیا اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ اے اللہ سبحانہ وتعالی ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں اب یہاں تو خاص اللہ تبارک وتعالی سے مدد طلب کرنے کا حکم ہےلیکن میرے پیارے بھائی کسی سے کوئی چیز یا کسی چیز کو کسی کی طرف منسوب کردینا یہ دوسرے کی طرف منسوب کرنے کی نفی کوثابت نہیں کرتامثلاً میں کہتا ہوں ”میں خاص اجمل بھائی سے ہی پیسے مانگتا ہوں “ تو اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ دوسرے سے پیسے مانگنا منع ہےمانگ تو اُس سے بھی سکتا ہوں لیکن یہاں کچھ بھائیوں کو مغالطہ لگا ہے کہ دوسروں سے نہیں مانگ سکتے دوسروں سے مانگیں گے تو مشرک ہو جائیں گے تو یہ مسئلہ ہے اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ‏ کا، سابقہ قرینہ خود بتا رہا ہےاے اللہ تبارک وتعالی ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اُس طرح عبادت نہیں کر تے جس طرح مشرک کر رہے ہیں اللہ سبحانہ وتعالی کے وجود کو وہ بھی مانتے تھےاللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے”ان سے پوچھو کہ تمہارا خالق کون ہےوہ کہیں گے اللہ سبحانہ وتعالی ان سے پوچھو تمہیں رزق کون دیتا ہےوہ یہی کہیں گے اللہ سبحانہ وتعالی“ لیکن مشرک کہتے کیا تھےوہ یہ کہتے تھے کہ ہم بُتوں کی عبادت اس لئے کر رہے ہیں تاکہ یہ بُت ہمیں اللہ تبارک وتعالی کے قریب کر دیں گویااُنھوں نے اللہ تبارک وتعالی کے قُرب کا وسیلہ بُتوں کی عبادت کو قرار دیا اسی لئے اللہ تبارک وتعالی نے بھی انھی مشرک قرار دیا ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ایسا کرنا بالکل غلط ہےایسا نہیں کرنا چاہیےتو اب اگرآج کوئی شخص کسی غیر اللہ سے مدد طلب کر رہا ہےتو وہ اس کے زمرے میں نہیں آئےگا۔ کیونکہ اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ اے اللہ عزوجل! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں مشرکین کی طرح کسی اور کی عبادت کو تیرے قُرب کا وسیلہ نہیں بناتے وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕ اورخاص تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں،مشرکین کی طرح نہیں کہ بُتوں سے مدد طلب کرتے ہیں موازانہ کیجئے نا جو سیاق وسباق ہے اُس کے اعتبار سےآیات کے معنی متعین ہوتے ہیں لہذا یہاں پر غیر اللہ سے استمداد کی نفی نہیں ہے مدد مانگ سکتے ہیں سب سے بڑی دلیل میں آپ کو قرآن سے ہی دیتا ہوں پہلے ایک بات سمجھ لیجئےکہ جتنے بھی عربی حروف ہوتے ہیں یہ دو طرح کے ہوتے ہیں ان کے آخر میں کبھی کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی اگر ہو تو اسے مورب کہتے ہیں۔اگرنہ ہو تو اسے مبنی کہتے ہیں اور جتنے مورب کلمات ہوتے ہیں کم از کم تین حروف سے ضرورمرکب ہوتے ہیں انہیں حروف اصلیہ بھی کہتے ہیں اور مادہ بھی کہا جاتا ہےتولفظ نستعین کا مادہ ہے ”عون“ ع،و،ن اس سے بنا ہے یہ نستعین اب آگے آئیےقرآن میں اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ یہ وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بھی ”عون“ مادے سے ہی بنا ہےجس سے نَسۡتَعِيۡنُؕ بنا ہے تو ایک طرف ہےاِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕاے اللہ عزوجل! ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں اور دوسری طرف اللہ تبارک وتعالی انہی حروف اصلیہ کے ساتھ بیان فرما رہا ہےوَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕصبراورنمازسے مددطلب کرو”صبر“ خدا نہیں ”نماز“خدا نہیں یہ غیراللہ ہیں غیر خدا ہیں اور آپ کا رب آپ سے فرما رہا ہےوَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕنماز اور صبر سے مدد طلب کرو بتائیے کہ قرآن شرک مٹانے کیلئے آیا ہے کہ شرک کی ترغیب دینے کیلئے آیا ہےظاہرسی بات ہے کہ مٹانے کیلئے آیا ہےاور اللہ تبارک وتعالی کی حکمت پر قُربان جائیے اِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَاِيَّاكَ نَسۡتَعِيۡنُؕجس حروف اصلیہ سے نستعینکوبیان فرمایا آگے اسی خیال کے رد کیلئے وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بیان فرمایا انہی حروف اصلیہ کے ساتھ تاکہ وسوسہ (شبہ)پیدا نہ ہو جائے یہ حکمت ہو سکتی ہےاللہ سبحانہ وتعالی کی،لہذاغیراللہ سےمددمانگنااگرصحیح عقیدے کے ساتھ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں اس سے کوئی شرک ثابت نہیں ہوتا۔صحیح نظریہ بس یہ ذہن میں رکھیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی سے مدد کرنا افضل ہےاُولی ہےاللہ تبارک وتعالی مدد کرنے والا ہےاُسی کے دست قدرت میں پوری کائنات کے خزانے ہیں وہ ہی سب کا ملجا ہےوہی ماوا ہےوہ ہی سب پر کرم نوازی فرماتا ہےپوری کائنات میں خزانے رزق کےوہ ہی تقسیم کر رہا ہے لیکن اُس کی ایک عادت کریمہ ہےکہ جب بھی کسی کو کچھ دیتا ہے تو بغیر وسیلے کے نہیں دیتا، میں ہمیشہ ایک سوال کرتا ہوں مجھے ایک ایسی چیز کا نام بتادیں جو براہ راست اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو مل رہی ہواللہ تبارک وتعالی نے اُس کو آپ کو عطاکرنے کیلئےکوئی وسیلہ مقرر نہ کیا ہوکوئی ایک چیز کا نام بتائیں ہر چیز کیلئے دوسری چیز وسیلہ بن رہی ہےآپ کائنات میں آئے ماں باپ وسیلہ بن گئےآپ کی پرورش ہوئی ماں کا دودھ وسیلہ بناپھر روٹی،غذا دیگر وسیلہ بن گئے ہر چیز کیلئے اللہ تبارک وتعالی نےایک وسیلہ قائم کیا ہے ویسےتو اللہ تبارک وتعالی کسی وسیلے کا محتاج نہیں لیکن اُس کی عادت کریمہ ہےکہ وہ وسیلے قائم فرماتا ہےتو وہ غیر محتاج ہو کر وسیلہ قائم کرےاور ہم تو خود محتاج ہیں اگر ہم سنت الہیہ کی نیت سے کوئی وسیلہ قائم کریں تو یہ شرعاً کیسے غلط ہو سکتا ہےاسلئے یہ عقیدہ ہونا چاہیےکہ دینے والی ذات اللہ تبارک وتعالی کی ہےاور انبیاء علیھم السلام ، صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اُولیاء اکرام رحمھم اللہ ،اُس اللہ تبارک وتعالی کی عطا کی راہ میں ایک وسیلہ ہیں اور وہ ہمیں عطافرما رہے ہیں اس عقیدے کے ساتھ اگر کوئی طلب امداد کرتا ہےاس میں کوئی شرک کا شائبہ نہیں کیونکہ وہ اس مخلوق سے حقیقتاً نہیں مانگ رہا بلکہ اُس مخلوق کو وسیلہ بناتے ہوئےاپنے رب سے طلب کر رہا ہے تو جو اپنے رب سے مانگ رہا ہو وہ مشرک کیسے ہو سکتا ہے؟اس طرح آپ کئی معمولات لیتے جائیے ان شاء اللہ آپ یہ دیکھیں گےکہ وہ شرک کے زمرے میں نہیں آتےاب یہ دیکھئے میں آپ سے پوچھتا ہوں انگوٹھے چومنا شرک ہےکہ نہیں اب آپ سوچیں گے اس میں شرک کا شائبہ کیا ہےاگر اللہ تبارک وتعالی کا نام سُن کریا اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ کوئی خاص ہوتااس کیلئے انگوٹھے چومے جاتے پھرنبی کیلئے ہوتا تو پھر وسوسہ بھی آتااب کہاں انگوٹھے چومناصرف نبی کیلئے خاص اس میں کونسا شرک کا شائبہ ہے بتائیےکوئی شرک فی الذات ثابت ہو رہا ہےکوئی شرک فی الصفات ثابت ہو رہا ہےنبی کیلئے اگر کوئی انگوٹھے چوم کرآنکھوں کو لگاتا ہےتو کیا نبی کو معبود سمجھ رہا ہے،قدیم سمجھ رہا ہے،خالق ومالک سمجھ رہا ہے؟نہیں۔۔!کیا وہ کسی صفت کے اندر کوئی شرکت کر رہا ہے جو اللہ تبارک وتعالی کی صفات ہیں جن خوبیوں سے متصف ہیں وہ یہاں ثابت ہو رہی ہیں ؟نہیں۔۔۔!تو انگوٹھے چومنا شرک کیسے ہو سکتا ہےخود سوچئے بالکل بچگانہ بات ہے جسے میں کہوں یہ موبائل بچھو ہےدلیل دیجئے تو مجھے پتہ نہیں کہ کہ بچھو ہےارے بھائی کہاں موبائل اور کہاں بچھوآپ بلکل اُلٹی سیدھی بات کر رہے ہوتو یہ ذرا سوچنے والی باتیں ہیں کہ شرک اتنا آسان نہیں جتنا ہم کہہ دیتے ہیں مشرک بننا اتنا اسان نہیں جسے ہم بنا دیتے ہیں الحمدللہ ہم مسلمان ہیں،مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہمیں شرک سے شدید نفرت ہےمشرک قطعی جہنمی ہے ہم مانتے ہیں بالکل جہنم میں جائے گااگر توبہ کئے بغیر مر گیا تو کبھی اُسے باہر نکلنا نصیب نہیں ہو گا لیکن واقعی مشرک ہو مسلمان کو نہیں یاد رکھئے کسی مسلمان کو مشرک کہہ دیا تو نبی مکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں مسلم کی روایت ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو کافر کہا اور وہ کافر نہ ہو تو یہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آئے گا یعنی وہ خود کافر ہو جائے گا علماء نے فرمایا ہے اس حدیث کو اس کے ظاہر پر محمول کرنا واجب ہے اگرآپ نے کسی (مسلمان)کو کافر کہا توآپ بھی کافر ہو جائیں گے کیوں ہو جائیں گے اُس کی لاجک بھی آپ کو بتا دیتے ہیں اگر ذہن میں رہے تو بہت اچھا ہے مسلمان اور کافر یہ جو دو لفظ آپ کسی پر بولتے ہیں اُس کے عقیدے کے اعتبار سے بولتے ہیں اگر آپ کسی کے عقیدے کو درست پاتے ہیں تو آپ اُسے مسلمان کہتے ہیں اور اگر کسی کے عقیدے میں بگاڑ یا فساد ہے تو آپ اُسے کافر کہتے ہیں،ہے کہ نہیں ایسا ہوتا ہے نا تو معلوم ہوا کہ مسلمان یا کافر کہنا اصل میں عقیدے کے صحیح ہونے یا غلط ہونے کے اعتبار سے ہے یہ رد المختار میں علامہ ابن عابدین شامی ؒ نے علت لکھی ہے جو میں آپ کو بتا رہا ہوں اب اگر آپ کسی مسلمان کوکہتے ہیں تم کافر ہو اور وہ کافر نہیں تو ہم اُسے کافر کب بولیں گےجب اُس کے عقیدے کفریہ ہوں گےحالانکہ اُس کے عقیدے کفریہ نہیں ہیں مسلمانوں والے ہیں تو گویا کہ ہم نےاُسے کافر کہہ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہےکہ اس کے تمام اسلامی عقائد کفریہ ہیں تو اُسےکافر کہنے کی وجہ سےہم کافر نہیں ہوئے بلکہ اُس کے اسلامی عقائد کوکفریہ عقائد قرار دینے کی بناء پراللہ تعالی نے انہیں دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ہے یہ ہے اصل علت۔ اب مسلمان کو مشرک کہنا کتنی بُری بات ہے بولتے ہیں کہ داتا صاحب کا مزار شرک کا اڈا ہ ہے شرک ہو رہا ہے لوگ سجدے کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ میں ایک نفیس بات کرتا ہوں ذرا سی توجہ کیجئے گااپنی سابقہ زندگی پر نظر دوڑائیں دیانتداری کے ساتھ،آپ اگر کبھی کسی مزار پر گئے ہیں آپ نے اپنی آنکھوں سےکسی آدمی کوخاص سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے قبر کو خود سوچئے گا مجھے نہ کہیں خود سوچئے گاجو سجدے کی ہیئت ہے کبھی آپ نے زندگی میں کسی ایک شخص کو بھی قبر پر اس طرح سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے دیانتداری سے سوچئے گا میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں سینکڑوں مزاروں پر گیا ہوں آج تک اپنی زندگی میں کسی قبر کو سجدہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا خداکی قسم کھا کے کہتا ہوں اور آپ بھی اب سوچیں گے آنکھیں بند کر کے تو آپ کہیں گے واقعی صحیح کہہ رہے ہیں ہم نے تو خالی سُنا ہے جی قبر پرستی ہوتی ہے لوگ قبر کو سجدہ کر رہے ہیں نہیں کوئی سجدہ نہیں کرتا بالفرض اگر سجدہ بھی کر رہا ہو تو ہمیں کیا پتہ کہ وہ کس نیت سے کر رہا ہے کیونکہ سجدہ بھی دو طرح کا ہوتا ہے اور بھی بڑی قسمیں ہوتی ہیں لیکن ہم بڑی دو لیتے ہیں
(1) سجدہ عبادت
(2) سجدہ تعظیمی
سجدہ عبادت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو عبادت کے لائق سمجھ کراُسےسجدہ کرنا اور سجدہ تعظیمی کامطلب اُسے لائق عبادت تو نہ سمجھا جائےقابل تعظیم سمجھتے ہوئے سجدہ کرنا سجدہ تعظیمی ہےہمارے مذہب اسلام کی تعلیمات کے مطابق سجدہ عبادت کفروشرک اور سجدہ تعظیمی حرام و گناہ کبیرہ ہے لیکن آدمی کافر نہیں ہوتا اب دیانتداری سے بتائیے اگر ایک گاؤں کا دیہاتی بھی کسی صاحب مزار کی قبر پر سجدہ کر رہا ہو تو کیا وہ اسے معبود سمجھ کر سجدہ کر سکتا ہے میرے خیال میں کبھی بھی نہیں وہ اسے اللہ تبارک وتعالی کا ولی سمجھ کر قابل تعظیم سمجھ کر ہی سجدہ کرے گا کوئی بھی ایسا نہیں ہو گاکہ اُسے (قبر والےکو) لائق عبادت سمجھ کر سجدہ کرے میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان کے ساتھ یہ بد گمانی بالکل غلط ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا مسلمان یہ سمجھے کہ یہ لائق عبادت ہے اسے سجدہ کرو بھئ ایسا نہیں ہو سکتا لہذازیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حرام اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اب بھی اُسے کافرکہنا کیسا ہےغلط ہے کہ نہیں اب وہی مسلم کی روایت اگر وہ سجدہ تعظیمی کررہا ہے اور آپ نے اُسے کافر کہہ دیا وہ تو کافر نہ ہوا آپ جو تقوی کے پیکر بنے ہوئے ہیں اور آپ کو تقوی کا ہیضہ ہو گیا ملیریا ہو گیا ،آپ کافر ہو جائیں گے اب بعض کہتے ہیں ہم نہیں مانتے یہ تقسیم بس ہم نہیں اس کو لیتے بس جو سجدہ کر رہا ہو گا وہ ضرور کافر ہو گا ہمیں کیا پتہ سجدہ تعظیمی کر رہا ہے یا سجدہ عبادت کر رہا ہےبس ہم اُسے کافر کہیں گےمشرک کہیں گےایسا نہیں ہے آپ کو پہلے معلوم کرنا ہو گا اگر آپ اس تقسیم کونظر انداز کر دیں گے تو کائنات میں کوئی بھی شرک سے نہیں بچ سکے گا ہر مسلمان مشرک ہو جائے گا وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ ایک جگہ جمعے کی نماز ختم ہوئی ایک آدمی کھڑا ہوگیا کہنے لگا سب کلمہ پڑھو
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ اسلئے کہ تم سب مشرک ہو گئے ہولوگوں نے کہا لاحول ولا قوۃ الا باللہ اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں سجدہ کرتے مشرک ہو گئے کم بخت یہ کیا کہہ رہا ہے کہنے لگا میں نے یہ دیکھا امام صاحب قبلے کی دیوار کو سجدہ کر رہے تھے پچھلے والی صف امام کو سجدہ کر رہی تھی سکینڈ صف پہلی کو اسی طرح تیسری دوسری کو، چوتھی تیسری کو سبھی ایک دوسرے کو سجدہ کر رہے تھے تم کافر ہو گئے ہو مشرک ہو گئے ہوکلمہ پڑھو،کلمہ پڑھولوگوں نے کہا بے وقوف انسان! بظاہر ہم ایک دوسرے کے سامنےجھکے ہوئے تھے لیکن اصل نیت تو اللہ سبحانہ وتعالی کو سجدہ کرنے کی تھی نا، تو معلوم ہوا نیت کا اعتبار ہے جھکنے کا نہیں اگر جھکنے کا اعتبار ہو تو گھر کی عورت کو دیکھئے گا کبھی جوتی تلاش کرنے کیلئے بستر کے نیچے جھکتی ہے جسے جھکے گی آپ بولیں گے مُشرکہ ہو گئی کم بخت کیوں جھک گئی بستر کے سامنے ،اسی طرح گاڑی ٹھیک کرنے والے کے پاس گئے وہ جھکا ہوا ہے کار والا آ گیا آگے سے تم مشرک ہو گئےکیوں کیونکہ تم جھکے ہوئے تھے ارے نہیں بھائی خالی جھکنے سے تھوڑا ہی بندہ مشرک ہوتا ہے نیت درکار ہے نیت اگر آپ نا مانیں گے تو کوئی مسجد کے اندر شرک سے نہیں بچے گا جب نیت ہی اصل ہوئی اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جو شخص صاحب مزار کے سامنے بالفرض اگر جھکا بھی ہوا ہےتو اُس کی نیت پر مطلع ہونے کیلئے آپ کے پاس کیا پیمانہ ہے بتائیے؟ نبی ﷺ کیلئے تو آپ کہیں کہ نبی ﷺ کو تو دیوار کے کا پیچھےبھی علم نہیں ہے اور خود آپ کسی شخص کو جھکا ہوا دیکھیں تو آپ تصور کریں کہ ضرور اس کی نیت عبادت کی ہے سبحان اللہ نبی ﷺ کیلئے تو دیوار کے پیچھے کا علم نہ مانا جائے اور اپنے لئے ماشاء اللہ اتنی وسعت علمی کہ کسی کے قلب میں جھانک کر آپ نے دیکھ لیا کہ کس نیت سے سجدہ کر رہا ہے انتہائی غلط چیز ہے بالکل غلط مسلمان مشرک نہیں ہے بس سمجھنے کی ضرورت ہے۔
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ
کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں۔
قرآن، سورت الشورٰی ، آیت نمبر 11
لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٦٣﴾
جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہو۔
قرآن، سورت الانعام ، آیت نمبر 163
اگر آپ فقط انہی آیات پر ”غورو فکر“کر لیں تو مندرجہ بالا”تمام“ شکوک وشبہات کا ”ازالہ“ ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالٰی !
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ
کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں۔
قرآن، سورت الشورٰی ، آیت نمبر 11
لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٦٣﴾
جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہو۔
قرآن، سورت الانعام ، آیت نمبر 163
اگر آپ فقط انہی آیات پر ”غورو فکر“کر لیں تو مندرجہ بالا”تمام“ شکوک وشبہات کا ”ازالہ“ ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالٰی !
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
ان مفتی صاحب کو سوچنا چاہیے تھا کہ رسول اللہ صلی علیہ و علی آلہ وسلم اور کفار مکہ کے بیچ محلِ نزاع کیا یہی بات تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خود میں وہ عطائی صفات تسلیم کرانا چاہتے تھے جو مفتی صاحب نے ذکر کی ہیں یا سارا جھگڑا صرف اس بات پر تھا کہ بل ھو اللہ الواحد القھار۔
والسلام علیکم
 
Top