بندوں کو اﷲکا جزء یا بیٹا قرار دینے پر اﷲتعالیٰ کے اس شدید غصہ اور ناراضگی کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کسی کو اﷲکاجزء قرار دینے کا زلازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس بندے میں اﷲتعالیٰ کی صفات تسلیم کی جائیں مثلاً یہ کہ وہ حاجت روا اور اختیارات اور قوتوں کا مالک ہے یعنی شرک فی الذات کا لازمی نتیجہ شرک فی الصفات ہے اور جب کسی انسان میں اﷲکی صفات تسلیم کرلی جائیں تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی رضاحاصل کی جائے ‘جس کے لئے بندہ تمام مراسم عبودیت ‘رکوع وسجود ‘نذرونیاز ‘اطاعت او رفرمانبرداری‘بجالاتا ہے یعنی شرک فی الفات کا لازمی نتیجہ ہے شرک فی العبادت ‘گویا شرک فی الذات ہی سب سے بڑا دروازہ ہے دوسری انواع شرک کا‘جیسے ہی یہ دروازہ کھلتا ہے ہر نوع کے شرک کا آغاز ہونے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ شرک فی الذات پر اﷲتعالیٰ کا غیض وغضب اس قدر بھڑکتا ہے کہ ممکن ہے آسمان پھٹ جائے ‘زمین دولخت ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں ۔
فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کا یہ کھلم کھلا اور عریاں تصادم ہے عقیدہ توحید کے ساتھ جس میں بے شمار مخلوق خدا پیری مریدی کے چکر میں آکر پھنسی ہوئی ہے ۔دینِ اسلام کی باقی تعلیمات پر‘وحدت الوجود اور حلول کے کیااثرات ہیں یہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے جو ہماری کتاب کے موضوع سے ہٹ کر ہے اس لئے ہم مختصراً چند باتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔
(۱) رسالت
صوفیاء کے نزدیک ولایت ‘ نبوت اور رسالت دونوں سے افضل ہے
(۱) شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں ’’نبوت کا مقام درمیانی درج ہے ولی سے نیچے اور رسالت سے اوپر
(۲)بایزید بسطامی کا ارشاد ہے ’’میں نے سمندر میں غوطہ لگایا جبکہ انبیاء اس کے ساحل پرہی کھڑے ہیں ‘‘نیز فرماتے ہیں ’’میرا جھنڈا قیامت کے روز محمدﷺ کے جھنڈے سے بلند ہوگا‘‘
(۳) (حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ اﷲ فرماتے ہیں ’’پیر کا فرمان رسول اﷲکے فرمان کی طرح ہے ‘‘
(۴)حافظ شیرازی کا ارشاد ہے ’’اگر تجھے بزرگ پیر اپنے مصلے کو شرا ب میں رنگین کرنے کا حکم دے تو ضرور ایسا کرکہ سالک (سلوک کی )منزلوں کے آداب سے ناواقف نہیں ہوتا،
۱۔اہل تشیع کے نزدیک بھی ولایت علی (یا امامت علی)نبوت سے افضل ہے یہ ثابت کرنے کے لئے بعض روایات بھی وضع کی گئی ہیں لو لا علی لما خلقت (یعنی اگر علی نہ ہوتے تو اے محمد ؐ میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا) اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش صفحہ ۸۳) اس سے قبل جنگ احد میں ناد علی کی روایت آپ پڑھ ہی چکے ہیں ‘یہ عجیب اتفاق ہے کہ اہل تشیع اور اہل تصوف کے بنیادی عقائد بالکل یکساں ہیں دونوں فرقے حلول کو تسلیم کرتے ہیں دونوں کی عقیدت کا مرکز حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں ‘دونوں کے نزدیک ولایت نبوت سے افضل ہے اہل تشیع کے ائمہ معصومین کائنات کے ذرہ ذرہ کے مالک ومختار ہیں ‘جبکہ اہل تصوف کے اولیاء کرام مافوق الفطرت قوت اور اختیارات کے مالک سمجھے جاتے ہیں۔ ۲۔ شریعت وطریقت صفحہ ۱۱۸، ۳۔شریعت وطریقت صفحہ ۱۲۰، ۴۔تصوف کی تین اہم کتابیں صفحہ ۶۹۔ ۵۔شریعت وطریقت صفحہ ۱۵۲
(ب) قرآن وحدیث
دین اسلام کی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے لیکن صوفیاء کے نزدیک ان دونوں کا مقام اور مرتبہ کیا ہے اس کا اندازہ ایک مشہور صوفی عفیف الدین تلمسانی کے اس ارشاد سے لگائیے ۔’’قرآن میںتوحید ہے کہاں ؟وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا ہوا ہے جو شخص اس کی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے پر نہیں پہنچ سکتا ‘‘(۱) (امام ابن تیمیہ از کوکن عمری صفحہ ۳۲۱) حدیث شریف کے بارے میں جناب بایزید بسطامی کا یہ تبصرہ پڑھ لینا کافی ہوگا’’تم (اہل شریعت )نے اپنا علم فوت شدہ لوگوں (یعنی محدثین)سے حاصل کیا ہے اور ہم نے اپنا علم اسی ذات سے حاصل کیا ہے جو ہمیشہ زندہ ہے (یعنی براہ راست اﷲتعالیٰ سے )ہم لوگ کہتے ہیں میرے دل نے اپنے رب سے روایت کیا اور تم کہتے ہو فلاں (راوی)نے مجھ سے روایت کیا (اور اگر سوال کیا جائے کہ )وہ راوی کہاں ہے ؟جواب ملتا ہے مرگیا(اور اگر پوچھا جائے کہ )اس فلاں (راوی)نے فلاں (راوی)سے بیان کیا تو وہ کہاں ہے ؟جواب وہی کہ مرگیا ہے (۳)قرآن وحدیث کا یہ استہزاء اور تمسخر اور اس کے ساتھ ہوائے نفس کی اتباع کے لئے ’’حدثنی قلبی عن ربی ‘‘(میرے دل نے میرے رب سے روایت کیا )(۴) کاپرفریب جواز کس قدر جسارت ہے اﷲاوراس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں ؟امام ابن الجوزی اس باطل دعویٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جس نے ۔حَدَّثَنِیْ قَلْبِی عَنْ رَبِّیْ کہا اس نے درپردہ اس بات کا اقرار کیا وہ رسول اﷲﷺ سے مستغنی ہے‘پس جو شخص ایسا دعوی کرے وہ کافر ہے ‘‘ (۵)
(ج) عبادت اور ریاضت
صوفیاء کے ہاںنماز روزہ زکاۃ حج وغیرہ کا جس قدر احترام پایا جاتا ہے اس کا تذکرہ اس سے قبل دین خانقاہی میں گزر چکا ہے یہاں ہم صوفیاء کی عبادت اور ریاضت کے بعض ایسے خود ساختہ طریقوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنہیں صوفیاء کے ہاں بڑی قدرومنزلت سے دیکھا جاتا ہے لیکن کتاب وسنت میں ان کا جواز تو
۱۔شریعت وطریقت صفحہ ۱۵۲۔ ۲۔بحوالہ سابق ۳۔بحوالہ سابق ۴۔ فتوحات مکیہ از ابن العربی صفحہ ۵۷جلد اول ، ۵۔تلبیس ابلیس صفحہ ۳۷۴
کیا شدید مخالفت پائی جاتی ہے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
۱۔ پیران پیر (حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی )پندرہ سال تک نماز عشاء کے بعد طلوع صبح سے پہلے ایک قرآن شریف ختم کرتے آپ نے یہ سارے قرآن پاک ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر ختم کئے (۱) نیز خود فرماتے ہیں ’’میں پچیس سال تک عراق کے جنگلوں تنہا پھرتا رہا ایک سال تک ساگ گھانس اور پھینکی ہوئی چیزوں پر گزاراکرتا رہا اور پانی مطلقا نہ پیا پھر ایک سال تک پانی بھی پیتا رہا پھر تیسرے سال صرف پانی پر گزارہ کرتا رہا پھر ایک سال تک نہ کچھ کھایا نہ پیا نہ سویا ‘‘ (۱) (غوث الثقلین صفحہ ۸۳)
۲۔حضرت بایزید بسطامی تیس سال تک شام کے جنگلوں میں ریاضت ومجاہدہ کرتے رہے ایک سال آپ حج کو گئے تو ہر قدم پر دوگانہ ادا کرتے یہاں تک کہ بارہ سال میں مکہ معظمہ پہنچے (۲)(صوفیاء نقشبندی صفحہ ۱۵۵)
۳۔حضرت معین الدین چشتی اجمیری کثیر المجاہدہ تھے ستر برس تک رات بھر نہیں سوئے (۳) (تاریخ مشائخ چشت صفحہ ۱۵۵)
۴۔ حضرت فرید الدین گنج شکر نے چالیس روز کنویں میں بیٹھ کر چلہ کشی کی (۴)(تاریخ مشائخ چشت صفحہ۱۷۸)
۵۔ حضرت جنید بغدادی کامل تین سال تک عشاء ی نماز پڑھنے کے بعد ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر اﷲ اﷲکرتے رہے(۵)(صوفیاء نقشبند صفحہ ۷۹)
۶۔ خواجہ محمد چشتی نے اپنے مکان میں ایک گہر کنواں کھدوارکھا تھا جس میں الٹے لٹک کر عبادت الٰہی میں مصروف رہتے (۶)(سیرالاولیاء صفحہ ۴۶)
۷۔حضرت ملا شاہ قادری فرمایا کرتے تھے ’’تمام عمر ہم کو غسلِ جنابت اور احتلام کی حاجت نہیں ہوئی کیونکہ یہ دونوں غسل ‘نکاح اور نیند سے متعلق ہیں ہم نے نہ نکاح کیا ہے نہ سوتے ہیں (۷)(حدیقۃ الاولیاء صفحہ ۵۷)
۱۔شریعت وطریقت صفحہ ۴۳۱، ۲۔ بحوالہ سابق صفحہ ۵۹۱ ۳۔ بحوالہ سابق صفحہ ۵۹۱، ۴بحوالہ سابق صفحہ ۳۴۰ ، ۵۔بحوالہ سابق صفحہ ۴۹۱ ، ۶۔بحوالہ سابق صفحہ ۴۳۱ ، ۷۔بحوالہ سابق صفحہ ۲۷۱
عبادت اور ریاضت کے یہ تمام طریقے کتاب وسنت سے تو دور ہی ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جس قدر یہ طریقے کتاب وسنت سے دور ہیں اسی قدر ہندو مذہب کی عبادت اور ریاضت کے طریقوں سے قریب ہیں ‘آئندہ صفحات میں ہندو مذہب کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ دونوں مذاہب میں کس کس قدر ناقابل یقین حد تک یگانت اور مماثلت پائی جاتی ہے ۔
(د) جزا وسزا
فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کے مطابق چونکہ انسان خود تو کچھ بھی نہیں بلکہ وہی ذات برحق کائنات کی ہر چیز (بشمول انسان )میں جلوہ گر ہے لہٰذا انسان وہی کرتا ہے جو ذات برحق چاہتی ہے انسان اسی راستے پر چلتا ہے جس پر وہ ذات برحق چلانا چاہتی ہے۔
’’انسان کا اپنا کوئی ارادہ ہے نہ اختیار‘‘اس نظریے نے اہل تصوف کے نزدیک نیکی اور برائی ‘حلال اور حرام اطاعت اور نافرمانی ‘ثواب وعذاب ‘جزا ء وسزا کا تصور ہی ختم کردیا ہے ‘یہی وجہ ہے کہ اکثر صوفیاء حضرات نے اپنی تحریروں میں جنت اور دوزخ کا تمسخر اور مذاق اڑایا ہے ۔
حضرت نظام الدین اولیاء اپنے ملفوظات فوائد الفوائد میں فرماتے ہیں قیامت کے روز حضرت معروف کرخی کو حکم ہوگا بہشت میں چلو وہ کہیں گے ’’میں نہیں جاتا میں نے تیری بہشت کے لئے عبادت نہیں کی تھی ‘‘چنانچہ فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ انہیں نور کی زنجیروں میں جکڑ کر کھینچتے کھینچتے بہشت میں لے جاؤ(۱)
حضرت رابعہ بصری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک روز داہنے ہاتھ میں پانی کا پیالہ اور بائیں ہاتھ میں آگ کا انگارہ لیا اور فرمایا یہ جنت ہے اور یہ جہنم ہے ‘اس جنت کو جہنم پر انڈیلتی ہوں تاکہ نہ رہے جنت نہ رہے جہنم اور خالص اﷲکی عبادت کریں
(ھ)کرامات
صوفیاء کرام‘وحدت الوجود او رحلول کے قائل ہونے کی وجہ سے خدائی اختیارات رکھتے ہیں‘اس
۱۔شریعت وطریقت ص ۵۰۰
لئے زندوں کو مارسکتے ہیں ‘مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں ‘ہوامیں اڑ سکتے ہیں ‘قسمتیں بدل سکتے ہیں ۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
۱۔ایک دفعہ پیران پیر عبدالقادر جیلانی نے مرغی کا سالن کھاکر ہڈیاں ایک طرف رکھ دیں ‘ان ہڈیوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا قُمْ بِاِذْنِ اﷲِ تو وہ مرغی زندہ ہوگئی ۔(سیرت غوث صفحہ ۱۹۱)
۲۔ایک گوئیے کی قبر پرپیران پیر نے قُمْ بِاِذْنی کہا قبر پھٹی اور مردہ گاتا ہوا نکل آیا ‘‘ (تفریح الخاطر صفحہ ۱۹)
۳۔خواجہ ابواسحاق چشتی جب سفر کا ارادہ فرماتے تو دوسو آدمیوں کے ساتھ آنکھ بند کر فوراً منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے ‘‘۔ (تاریخ مشائخ چشت از مولانا زکریا صفحہ ۱۹۲)
۴۔’’سید مودود چشتی کی وفات ۹۷سال کی عمر میں ہوئی آپ کی نماز جنازہ اول رجال الغیب (فوت شدہ بزرگ)نے پڑھی پھر عام آدمی نے ‘اس کے بعدجنازہ خود بخود اڑنے لگا اس کرامت سے بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیا ‘‘ ۔(تاریخ مشائخ چشت صفحہ ۱۶۰)
۵۔خواجہ عثمان ہارونی نے وضو کا دوگانہ ادا کیا اور ایک کمسن بچے کو گود میں لے کر آگ میں چلے گئے اور دوگھنٹے اس میں رہے آگ نے دونوں پر کوئی اثر نہ کیا اس پر بہت سے آتش پرست مسلمان ہوگئے ‘‘۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ ۱۲۴)
۶۔ایک عورت خواجہ فریدالدین گنج شکر کے پاس روتی ہوئی آئی اور کہا بادشاہ نے میرے بے گناہ بچے کو تختہ دارپر لٹکوادیا ہے چنانچہ آپ اصحاب سمیت وہاں پہنچے اور کہا ’’الٰہی اگر یہ بے گناہ تو اسے زندہ کر دے ‘‘لڑکا زندہ ہوگیا اور ساتھ چلنے لگا یہ کرامت دیکھ کر (ایک)ہزار ہندو مسلمان ہوگئے ۔(اسرار الاولیاء صفحہ ۱۱۱۔۱۱۰)
۷۔ایک شخص نے بارگاہ غوثیہ میں لڑکے کی درخواست کی آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی اتفاق سے لڑکی پیدا ہوگئی آپ نے فرمایا اسے گھر لے جاؤ اور قدرت کا کرشمہ دیکھو جب گھر آیا تو اسے لڑکی کے بجائے لڑکا پایا ‘‘(سفینہ الاولیاء صفحہ ۱۷)
۸۔پیران پیر غوث اعظم مدینہ سے ھاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد آرہے تھے راستے میں ایک چور ملا جو لوٹنا چاہتا تھا ‘جب چور کو علم ہوا کہ آپ غوث اعظم ہیں تو قدموں پر گرپڑا اور زبان پر ’’یا سیدی عبدالقادر شیئا ﷲ‘‘جاری ہوگیا آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا اس کی اصلاح کے لئے بارگاہ الٰہی میں متوجہ ہوئے غیب سے ندا آئی ’’چور کو ہدایت کی رہنمائی کرتے ہوئے قطب بنادو چنانچہ آپ کی اک نگاہ فیض سے وہ قطب کے درجہ پر فائز ہوگیا ۔‘‘ (سیرت غوثیہ صفحہ ۶۴۰)
۹۔میاں اسماعیل لاہور المعروف میاں کلاں نے صبح کی نماز کے بعد سلام پھیرتے وقت جب نگاہ کرم ڈالی تو دائیں طرف کیء مقتدی سب کے سب حافظ قرآن بن گئے اور بائیں طرف کے ناظرہ پڑھنے والے‘‘۔(حدیقہ الاولیاء صفحہ ۱۷۶)
۱۰۔خواجہ علاؤالدین صابر کلیری کوخواجہ فریدالدین گنج شکر نے کلیر بھیجا ایک روزخواجہ صاحب امام کے مصلے پر بیٹھ گئے لوگوں نے منع کیا تو فرمایا ’’قطب کا رتبہ قاضی سے بڑھ کر ہے‘‘لوگوں نے زبردستی مصلی سے اٹھادیا حضرت کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جگہ نہ ملی تو مسجد کو مخاطب کرکے فرمایا ’’لوگ سجدہ کرتے ہیں تو بھی سجدہ کر‘‘یہ بات سنتے ہی مسجد مع چھت اور دیوار کے لوگوں پر گرپڑی اور سب لوگ ہلاک ہوگئے ۔(حدیقہ الاولیاء صفحہ ۷۰)
(و)باطنیت
کتاب وسنت سے براہ راست متصادم عقائدد وافکار پر پردہ ڈالنے کے لئے اہل تصوف نے باطنیت کا سہارا بھی لیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ قرآن وحدیث کے الفاظ کے دو دومعانی ہیں ‘ایک ظاہری دوسرے باطنی (یاحقیقی)یہ عقیدہ باطنیت کہلاتا ہے ‘اہل تصوف کے نزدیک دونوں معانی کو آپس میں وہی نسبت ہے جو چھلکے کو مغز سے ہوتی ہے ‘یعنی باطنی معنی ظاہری معنی سے افضل اور مقدم ہیں ۔ظاہری معانی سے تو علماء واقف ہیں لیکن باطنی معانی کو صرف اہل اسرار وروموز ہی جانتے ہیں اس اسرار ورموز کا منبع اولیاء کرام کے مکاشفے ‘مراقبے ‘مشاہدے اور الہام یا پر بزرگوں کا فیض اور توجہ قرار دیا گیا جس کے ذریعے شریعت مطہرہ کی من مانی تاویلیں کی گئیں مثلاً قرآن مجید کی آیت وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ کا ترجمہ یہ ہے کہ اپنے رب کی عبادت اس آخری گھڑی تک کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے (یعنی موت) (سورہ حجرات آیت ۹۹) اہل تصوف کے نزدیک یہ علماء (اہل ظاہر)کا ترجمہ ہے اس کا باطنی یاحقیقی ترجمہ یہ ہے کہ ’’صرف اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرو جب تک تمہیں یقین (معرفت )حاصل نہ ہوجائے ’’یقین یا معرفت سے مراد معرفت الٰہی ہے یعنی جب اﷲکی پہچان ہوجائے تو صوفیاء کے نزدیک نماز ‘روزہ ‘ زکوۃ حج اور تلاوت وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ‘اسی طرح سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۲۳وَقَضَی رَبُّکَ أَ لَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا أَیَّاہُیعنی تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی ’’یہ علماء کا ترجمہ ہے اور اہل اسرار ورموز کا ترجمہ یہ ہے ’’تم نہ عبادت کروگے مگر وہ اسی (یعنی اﷲ)کی ہوگی جس چیز کی بھی عبادت کروگے‘‘جس کا مطلب یہ ہے کہ تم خواہ کسی انسان کو سجدہ کرو یا قبر کو یاکسی مجسمے اور بت کو وہ درحقیقت اﷲہی کی عبادت ہوگی ،کلمہ توحید لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲ کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ’’اﷲکے سوا کوئی الٰہ نہیں‘‘صوفیاء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے لا موجود الا اﷲ یعنی دنیا میں اﷲکے سوا کوئی چیز موجود نہیں -- اِلٰہ کا ترجمہ موجود کرکے اہل تصوف نے کلمہ توحید سے اپنا نظریہ وحدت الوجود تا ثابت کردیا لیکن ساتھ ہی کلمہ توحید کی کلمہ شرک میں بدل ڈالا فَبَدَّلَ الَّذِ یْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ ترجمہ جو بات ان سے کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا ۔ (سورہ بقرہ آیت ۵۹)
باطنیت کے پردے میں کتاب وسنت کے احکامات اور عقائد کی من مانی تاویلوں کے علاوہ اہل تصوف نے کیف ‘جذب ‘مستی ‘استغراق ‘سکر ‘(بے ہوشی)اور صحو(ہوش)جیسی اصطلاحات وضع کرکے جسے چاہا حلال قرار دے دیا جسے چاہا حرام ٹھہرادیا ‘ایمان کی تعریف یہ کی گئی کہ یہ دراصل عشق حقیقی (عشق الٰہی )دوسرا نام ہے اس کے ساتھ ہی یہ فلسفہ تراشا گیا کی عشق حقیقی کا حصول عشق مجازی کے بغیر ممکن ہی نہیں چنانچہ عشق مجازی کے لوازمات ‘غنا ‘موسیقی‘رقص وسرور ‘سماع ‘وجد ‘حال وغیرہ اور حسن وعشق کی داستانوں اورجام وسبو کی باتوں سے لبریز شاعری مباح ٹہری ۔شیخ حسین لاہوری جن کے ایک برہمن لڑکے کے ساتھ عشق کا قصہ سن کر ہم ’’دین خانقاہی‘‘میں بیان کرچکے ہیں ‘کے بارے میں ’’خزینۃ الاصفیاء ‘‘میں لکھا ہے کہ ’’وہ بہلول دریائی کے خلیفہ تھے چھتیس سال ویرانے میں ریاضت ومجاہدہ کیا رات کو داتا گنج بخش کے مزار پر اعتکاف بیٹھتے ۔آپ نے طریقہ ملامتیہ اختیار کیا چار ابرو کا صفایا ‘ہاتھ میں شراب کا پیالہ ‘سرور ونغمہ ‘چنگ ورباب ‘تمام قیود شرعی سے آزاد جس طرف چاہتے نکل جاتے ‘‘(شریعت وطریقت :۲۰۴) یہ ہے وہ باطنیت کے جس کے خوشنما پردے میں اہل ہوا وہوس دین اسلام کے عقائد ہی نہیں اخلاق اور شرم وحیا کا دامن بھی تارتار کرتے رہے اور پھر بھی بقول مولانا الطاف حسین حالی رحمہ اﷲ ؎
’’نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے ‘‘
قارئین کرام! فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گمراہی کا یہ مختصر سا تعارف ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو الحاد اور کفر وشرک کے راستہ پر ڈالنے میں اس باطل فلسفہ کا کتنا بڑا حصہ ہے ؟