عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
السلام علیکم
قارئین کرام یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس سلسلے کےکچھ مضامین اس فورم پر شائع ہوچکے ہیں لیکن ان میں کچھ دوسری جھلک ہوتی ہے اعتدال مزاج کی وجہ سے میرا یہ مضمون کسی مخصوص جھلک سے عاری ہےاور کچھ ہٹ کر ہے چنانچہ تمام قارئین کرام سے ملتمس ہوں کہ میری اس کاوش کو بنظر غائر ملاحظہ فرمائیں اور غلطی سے آگاہ فرمائیں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شریعت طریقت معرفت کی حقیقت
از :مفتی عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری
حامدا ومصلیا امابعد!
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {ومن یتبع غیر الاسلام دیناًفلن یقبل منہ }
اور جو کوئی دین اسلام کے علاوہ اور کوئی دین چاہے ،تو اس کو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔
بازار عشق وسُوقِ محبت کے جاں فروش۔۔۔ لپکیں کہ چل چلاؤہے دنیائے دون کا
سیکھیں طریق وصل ولقائے خدائے پاک۔۔۔ دل بیچ کے خرید لیں سودا جنون کا
سیکھیں طریق وصل ولقائے خدائے پاک۔۔۔ دل بیچ کے خرید لیں سودا جنون کا
’’انسان ‘‘ نسیان اور اُنس(محبت)بیک وقت دونوں سے متصف ہے ۔یعنی انسان میں (بوجہ جہالت) نسیان بھی ہے اور بوجہ اُنسیت کے محبت بھی ہے ۔چنانچہ یہی محبت اور انسیت ہے کہ نبینا حضرت آدم علیہ السلام بوجہ انسیت حضرت حواّ علیہا الصلوٰۃ والسلام کی طرف مائل ہوئے ۔یہ تو تھا انیس مونس اور انسیت والا معاملہ ۔اب دیکھئے انسان کا دوسرا پہلو یعنی نسیان والا معاملہ ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۱۱۵ۧ [٢٠:١١٥]
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
باوجود عہدوپیمان کے حضرت آدم علیہ السلام نے بوجہ غلبہ نسیان (جس کو ہم چوک کہیں تو زیادہ مناسب رہیگا کیونکہ نبی کا معاملہ ہے) اور انسیت کے شجرہ ممنوعہ کے پھل کو کھا لیا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ[٢٠:١٢٣]
فرمایا کہ تم دونوں یہاں سے نیچے اتر جاؤ۔ تم میں بعض بعض کے دشمن (ہوں گے)
اس پورے عمل میں اصل کارستانی تو ابلیس کی تھی لیکن ابلیس اچھی طرح جانتا تھا کہ آدم علیہ السلام بوجہ نبوت اس کے چکر میں نہیں آئیں گے تو اس نے حضرت حوّا علیہا السلام کو بہکا لیا اور حضرت آدم علیہ السلام بوجہ انسیت اور محبت کے اپنی بیوی کے کہنے میں آگئے اور فرمان الٰہی سے چوک ہوگئی ،اور قیامت تک کے لیے انسان کو ایک امتحان گاہ میںلے آئے،اس ذرا سی چوک اور انسیت نے انسان کوکہاں سے کہاں پہونچا دیا۔
یہیں سے ایک بات اور مترشح ہوتی ہے کہ’’ بڑوں کی بھول چوک کا خمیازہ چھوٹوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ‘‘۔اور یہ بات بھی معلوم ہورہی ہے کہ ’’ بڑوں کی نافرمانی بھی نہیں کرنی چاہئےاور بڑوں کی باتوں میں اپنی عقل کو بھی دخیل نہیںکرناچاہیے‘‘یاد رہے بڑوں کی بات دیر سے سمجھ میں آتی ہے،خیر کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس عمل کو کرنا چاہیے،جیسا کہ مثال گزر چکی یہ تو تھی عالم بالا کی مثال ۔
ایک ارضی مثال اور پیش کرتا ہوں :
جاری ہے۔۔۔۔۔۔