• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریعت ،طریقت،معرفت کی حقیقت

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اس لیے میری انتظامیہ سے گزارش ہے کہ ایسا کوئی پینل بنائیں کہ جس میں تمام موضوعات کو چیک کرنے کے بعد اس کو پبلش کیا جائے ۔پبلش ہونے کے بعد اس سے چھیڑ چھاڑ کرنا مناسب نہیں ہے موصوف کبھی مرحوم مغفور اعتراض کر رہے ہیں کبھی کچھ کبھی کچھ حالانکہ کہ سب کا جواب ہے مگر میں کسی کی انگلیوں پر ناچنے والا نہیں ہوں ۔میں کسی کو بھی کسی طرح کا جواب نہین دوں گا انتظامیہ میری تمام پوسٹ کو ڈلیٹ کردے مجھے نہ دکھ ہوگا اور نہ ہی کوئی اعتراض ۔ جو بھی آتا ہے نصیحت کرنا شروع کردیتا ہے کوئی کسی رنگ میں بات کرتا ہے کوئی کسی انداز میں ۔ اس لیے بھائی لوگو اللہ حافظ السلام علیکم
جس کسی کو مجھ سے تکلیف پہنچی ہو معاف کرنا
محترم عابدالرحمٰن بھائی،
آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ جہاں اختلاف ہوتا ہے وہاں ایسی باتیں ہو جایا کرتی ہیں۔
یہاں فورم پر سب سے بڑا "مسئلہ" یہ ہے کہ ہر شخص کو دلیل چاہئے، چاہے وہ کوئی عامی ہو یا علامہ۔
یہی وجہ ہے کہ آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں، ادارے کے علمائے کرام کی جانب سے دئے جانے والے فتاویٰ جات میں بھی عموماً دلیل کا التزام کیا جاتا ہے۔

خدانخواستہ یہاں کسی کو آپ سے کوئی دشمنی نہیں کہ جان بوجھ کر آپ کو تکلیف پہنچائیں اور تنگ کریں۔
دیگر کی بات نہیں کرتا، آپ چونکہ عالم دین ہیں، لہٰذا میں آپ کی پوسٹس بغور پڑھتا ہوں۔ اور آپ کی محنت اور خلوص سے متاثر ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہان میں خوش رکھیں!

آپ تنگ نہ ہوں اور نہ ناراض ہوں۔ جس کی بات کا جواب دینا چاہیں دیجئے، جس کو جواب نہ دینا چاہیں نہ دیجئے۔
فورم کا مسئلہ ایسا ہے کہ ہر پوسٹ یا دھاگے کو کنٹرول کرنا ناممکن ہے۔ ہم نے یہ فورم شروع ہی اس لئے کیا تھا کہ مختلف الخیال، مختلف العقیدہ لوگوں سے بات چیت رہے گی اور درست و غلط کی تمیز اور تبلیغ دین کا مؤثر پلیٹ فارم ہوگا۔ صحت مندانہ بحث ہوا کرے گی اور ہمیشہ و ہمہ وقت اخلاقیات کا خیال رکھا جائے گا۔ ہم نے ہرگز نہیں سوچا تھا کہ اپنے ہم عقیدہ لوگوں کی بلاوجہ و غیر ضروری تحسین کی جائے گی اور مخالفین کی عزت کی دھجیاں بکھیری جائیں گی۔ نہ ہمارا تب یہ مقصد تھا اور نہ ہم اب یہ چاہتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی یوزر کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہوئی ہو تو معذرت۔ لیکن یہ مسئلہ ہمیشہ رہے گا کہ یہاں پر یوزرز بلا دلیل باتوں کو قبول نہیں کریں گے۔ اور فکری مخالفین ہونے کے ناطے آپ کی پوسٹس پر اعتراضات بھی ہوتے رہیں گے۔ آپ کو جو اعتراضات وزنی محسوس ہوں ان سے تعرض کریں اور باقیوں کو اگنور کر دیا کریں۔
امید ہے کہ آپ وسیع تر تصویر کے تناظر میں اس پر ضرور غور کریں گے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
عمران اسلم صاحب مجبورا! جواب دے رہا ہوں جواب تو بیشک لکھ دیا لیکن میرے طبیعت بہت خراب رہی سر میں چکر آرہے تھے اور جواب لکھ رہا کہاں کہاں اب بھی غلطی کی ہوں گی معلوم نہیں کیوں کہ بار بار سر کو دبا رہا تھا اور لکھ رہا تھا چلئے اللہ مالک ہے:

اس پورے عمل میں اصل کارستانی تو ابلیس کی تھی لیکن ابلیس اچھی طرح جانتا تھا کہ آدم علیہ السلام بوجہ نبوت اس کے چکر میں نہیں آئیں گے تو اس نے حضرت حوّا علیہا السلام کو بہکا لیا اور حضرت آدم علیہ السلام بوجہ انسیت اور محبت کے اپنی بیوی کے کہنے میں آگئے اور فرمان الٰہی سے چوک ہوگئی ،اور قیامت تک کے لیے انسان کو ایک امتحان گاہ میں لے آئے،اس ذرا سی چوک اور انسیت نے انسان کوکہاں سے کہاں پہونچا دیا۔
میں نے انسان کی دو صفت بتانے کی کوشش کی ہیں ملاحظہ فرمائیں’ ’انسان ‘‘ نسیان اور اُنس(محبت)بیک وقت دونوں سے متصف ہے ۔یعنی انسان میں (بوجہ جہالت’’ انہ کان ظلموما جھولاً‘‘) نسیان بھی ہے نسیان کی مثال ’’وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۝۱۱۵ۧ [٢٠:١١٥]
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
نسیان کی چند مثالیں اور ملاحظہ فرمالیں:
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِہِمَا نَسِيَا حُوْتَہُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَہٗ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا۝۶۱ [١٨:٦١]
جب ان کے ملنے کے مقام پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول گئے تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنالیا
اور یہ بھی:
قَالَ اَرَءَيْتَ اِذْ اَوَيْنَآ اِلَى الصَّخْرَۃِ فَاِنِّىْ نَسِيْتُ الْحُوْتَ۝۰ۡوَمَآ اَنْسٰنِيْہُ اِلَّا الشَّيْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَہٗ۝۰ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيْلَہٗ فِي الْبَحْرِ۝۰ۤۖ عَجَـــبًا۝۶۳ [١٨:٦٣]
(اس نے) کہا کہ بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم نے پتھر کے ساتھ آرام کیا تھا تو میں مچھلی (وہیں) بھول گیا۔ اور مجھے (آپ سے) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔ اور اس نے عجب طرح سے دریا میں اپنا رستہ لیا
اور بوجہ اُنسیت کے محبت بھی ہےآپ کے خیال میں حضرت آدمؑ کی بھول کی وجہ سے انسان کو جنت زمین میں لے آیا گیا اور انھی کی وجہ سے انسان کو دنیا کی صورت میں امتحان گاہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان بہشت میں مزے لوٹ رہا ہوتا۔
اور آپ کا ارشاد بھول کا لفظ میں نے نہیں استعمال کیا یہ آپ کا میرے اوپر اتہام ہے میں نے لفظ ’’چوک‘‘ استعمال کیا ہے اور اس کی طرف بطور خاص نشان دہی بھی کی ہے اگر بھول کا لفظ ہم استعمال کریں تو مناسب نہیں کیوں کہ انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ والسلام اکمل ترین انسان ہوتے ہیں اس لیے بھول کی نسبت نبی کی طرف کرنا بے ادبی ہے واضح رہے بھول غفلت کی وجہ سے ہوتی ہے اور نبی غافل نہیں ہوتا نبی کی غفلت جرم ہے اس لیے بھول نبی کے علاوہ ہرانسان سے ہوتی ہے
مزہ لوٹنا بھی آپ کی طرف سے اضافہ ہے میں نے مزہ لوٹنے والئے الفاظ استعمال نہیں کئے
اس حوالے سے عرض ہے کہ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو جو جنت سے اترنے کا حکم دیا گیا تھا وہ کسی گناہ کی سزا کے طور پر نہ تھا بلکہ اس حکم الٰہی سے اس اعلیٰ مقصد کی تکمیل تھی جس کے لیے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِذْ قَالَ رَ‌بُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْ‌ضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" انہوں نے عرض کیا: "کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں" فرمایا: "میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے صرف آدم کی ہی تخلیق نہیں فرمائی بلکہ ان سے پہلے زمین کی تخلیق فرمائی تھی اپنئ مقصد کی تکمیل کے لیے اور آدم علیہ السلام سے پہلے جنات کو آباد کیا تھا جنہوں نے زمین میں فساد پھیلایا ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پیدا فرمایا ۔اور اور تکمیل مقاصد کی بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ پورہ قرآن پاک ہی اسی پس منظر میں نازل ہوا اور کسی نہ کسی واقعہ کے تحت نزول قرآن ہوا ۔اب اس بارے میں آپ کیا فرمائیں گے جن کو آیات کے نزول کے بعد سزائیں دی گئیں کیوں کہ ماحول تو اللہ تعالیٰ نے ہی بنایا تھا ( نعوذ باللہ من ذالک) قرآن کی تکمیل کے لیے پھر لوگوں کو سزائیں کس بات کی جب کہ قرآن پاک لوح محفوظ میں بعینہ محفوظ تھا ۔ اللہ تعالیٰ حالات پیدا کرتے چلے گئے اور لوگوں کو سزائیں ملتی رہی اور ملزم انسان کو ہی ٹھہرایا گیا ۔ اور اگر یہی بات تسلیم کرلی جائے تو پھر ابلیس کو مردود کیوں قراردیا گیایہ تو اللہ تعالیٰ کو کرنا ہی تھا یہ اللہ تعالیٰ کےمنشاء کی تکمیل تھی اور جیسا آپ نے مولانا مودودی کا حوالہ دیا ( جب کہ مولانا کی بات تو ویسے بھی قابل قبول نہیں کیوںکہ وہ مستند مولانا نہیں تھے بلکہ عالم کی صحبت یا فتہ تھے ۔ جس طرح محدچین حضرات کسی عیب والے شخص کی حدیث نہیں لیتے تھے اسی طرح ان کا قول بھی قابل التفات نہیں)
دوسرا حوالہ آپ نے مولانا شفیع صاحب کا دیا جو آپ کے یہاں معتبر نہیں
آپ کے بقول ایک پری پلان کے تحت یہ سب کام طے پارہے ہیں تو پھر یہ جزا سزا کا معاملہ انسان کے ساتھ کیوں لگا ہوا ہے اس کوآپ مجھے سمجھائیں گے۔

یہ تھا حضرت آدمؑ کو پیدا کرنے کا منشا و مقصد۔ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی نص موجود نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ عالم ارضی حضرت آدمؑ کے لیے دار العذاب تھا نیز قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس امر کی تصریح بھی کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول کر کے ان کی لغزش کو معاف فرما دیا تھا اور انھیں دوبارہ اپنی رحمت و توجہ و تقرب کا مستحق بنا کر نبوت و رسالت کا مقام بلند عطا فرمایا تھا۔
چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَ‌بُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ
پھر اُس کے رب نے اُسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔
مولانا مودودیؒ آیت ’قلنا اهبطوا منها جميعا‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے۔ اوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدمؑ نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کر لی، اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدمؑ اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے گناہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا نہ ان کی نسل کے دامن پر..... اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دہرایا گیا تو اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قبول توبہ کا یہ مقتضیٰ نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اتارا جاتا۔ زمین ان کے لیے دارالعذاب نہ تھی، وہ یہاں سزا کےطور نہیں اتارے گئے بلکہ انھیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ جنت ان کی اصل جائے قیام نہ تھی۔ وہاں سے نکلنے کا حکم ان کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اتارنے کی تھی، البتہ اس سے پہلے ان کو اس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا۔ [تفہیم القرآن: ج1 ص 68، 69]
اسی طرح سورۃ اعراف کی آیت ’قال اهبطوا بعضكم لبعض عدو‘ کی شرح میں مولانا مودودی فرماتے ہیں:
یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدمؑ کو جنت سے اتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور انھیں معاف کر دیا لہٰذا اس حکم میں سزا کا پہلو نہیں ہے بلکہ اس منشا کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان ک پیدا کیا گیا تھا۔ [تفہیم القرآن : ج2 ص 18]
اسی طرح مفتی محمد شفیع صاحب نے ’معارف القرآن‘ میں سورۃ بقرۃ کی تفسیر فرماتے ہوئے ایک عنوان اس طرح قائم کیا ہے:
آدم کا زمین پر اترنا سزا کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقصد کی تکمیل کے لیےتھا۔ [معارف القرآن : ج1 ص 142]
فلہٰذا حضرت آدمؑ کی خطا کی وجہ سے انسان کا دنیا میں آنا قرار دینا قرین انصاف نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت آدم کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ زمین میں انسانوں کی تخلیق کا اعلان کر چکے تھے۔ اور اگر انسان کو بطور سزا ہی زمین پر بھیجا گیا ہے تو پھر حضرت آدم کی توبہ قبول ہونے کا کیا معنی ہے؟ یہ سزا تو تب دی جائے جب اللہ تعالیٰ نےتوبہ قبول نہ کی ہو۔ ایسے میں
توبہ قبول ہونا اور توبہ کرنا یہ خود اس بات پر دال ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ غلطی ہوئی ۔اس کا آدم علیہ السلام کو احساس ہوا اور زمیں پر آنے کے بعد برسوں تک روتے رہے تب کہیں جا کر معافی تلافی ہوئی ان سب واقعات سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگاہ کرنے کے بعد بھی چوک ہوگئی اب اس کو کچھ بھی کہہ لیں حیلہ کہہ لیں یا پری پلان کہہ لیں ۔نہ آدم علیہ السلام ایسا کرتے اور نہ ایسا ہوتا
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: عابدالرحمٰن پیغام دیکھیے
’’ بڑوں کی بھول چوک کا خمیازہ چھوٹوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ‘‘
جیسے جملے بولنا اور اس کا انطباق حضرت آدمؑ جیسی بزرگ ہستی پر کرنا سراسر ظلم ہے۔ اس ضمن میں قرآن نے تو ہمیں یہ اصول دیا ہے:
وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ‌ وَازِرَ‌ةٌ وِزْرَ‌ أُخْرَ‌ىٰ
ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔
اس بات کو بھی میں نہیں کہہ رہا لیجیے ملاحظہ فرمائیں
مستند احاديث سے ثابت ہے كہ حضرت حواء عليہا السلام نے حضرت آدم عليہ السلام كو غلط مشورہ ديا ۔
لولا بنو إسرائيل لم يخنز اللحم ولولا حواء لم تخن أنثى زوجها يہ متفق عليہ حديث كے الفاظ ہیں :" اگر حوا نہ ہوتیں تو كوئى عورت اپنے شوہر كى خيانت نہ كرتى "۔ اس خيانت كا معنى ہے كانت خيانتها في دعوتها آدم عليه السلام إلى الأكل من الشجرة التي نهي عن الأكل منها
حضرت آدم عليہ السلام كو ممنوعہ درخت سے پھل كھانے کا کہنا ۔
صحيح البخارى : كتاب الانبياء، باب قول اللہ تعالى ، حديث نمبر 3152
صحيح مسلم : كتاب الرضاع، باب لولا حواء لم تخن أنثى زوجها الدهر، حديث نمبر 3723،3724،
مزید آپ نے اسی پوسٹ میں لکھا:
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: عابدالرحمٰن پیغام دیکھیے
’’ بڑوں کی نافرمانی بھی نہیں کرنی چاہئےاور بڑوں کی باتوں میں اپنی عقل کو بھی دخیل نہیںکرناچاہیے‘‘
یہ تسلیم کہ بڑوں کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن بڑوں کی باتوں میں عقل کو دخل ہی نہ دیا جائے یہ بات ماننے میں نہیں آتی۔ پھر اس کے متصل بعد ہی آپ نے لکھ مارا :
یہ لکھ مارا کون سی اصطلاح ہے یہ تو بہت ہی گھٹیا قسم کے الفاظ ہیں بالکل بازاری زبان ہے اور اپنے سے کم ترآدمی کے لیے استعمال ہوتے ہیں ایک طرف تو آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ’’آپ مفتی ہیں تو آپ کی عمر پچاس سال کے آس پاس ہوگی’’ لکھ مارا ‘‘یہ آپنے پہلا ہی اصول توڑ دیا یہی تو باتیں ہیں جو دل کو کاٹتی ہیں
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: عابدالرحمٰن پیغام دیکھیے
یاد رہے بڑوں کی بات دیر سے سمجھ میں آتی ہے،خیر کی بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے اس عمل کو کرنا چاہیے۔
جب بڑوں کی باتوں پر عقل کا استعمال ہی نہیں کرنا تو یہ اندازہ کیسے ہو کہ یہ خیر کی بات ہے یہ شر کی؟؟
یہ بڑوں کی باتیں ہی تو ہیں جن کی تشریح آج تک کی جارہے کیا انبیاء ورسل علیہم السلام اور صحابہ کرام علماء کرام بڑے نہیں ہوتے کیا ان کی باتیں قابل قبول نہیں ہوتی اور کیا والدین کے ساتھ بھی زبان چلانے اجازت ہے اگرکوئی بچہ اپنے باپ کو ہی سمجھانے لگے تو کیسا لگے گا جب کہ اب تو یہ چلن نکل پڑا ہے کہ بچے ماں باپ کو سمجھانے لگے ہیں یہ شاید آپ ان کی ہی حمایت فرمارہے ہیں
ویسے ہمارے صاحبانِ طریقت آپ کے پہلے جملے پر بخوبی عمل پیرا نظر آتے ہیں۔
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خوددکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
اپنی دوسری پوسٹ میں آپ نےحضرت خضرؑ کے صاحب طریقت ہونے پر جو نگارشات اور ’بیچارے‘ حضرت موسیؑ کے ’صاحب شریعت ‘ہونے سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کا جائزہ میں اگلی پوسٹ میں لوں گا۔
ارے بھائی دوسری پوسٹ میں کیوں خبر لیں سب باتیں ایک دفعہ ہی نبٹا لیں
کیا حضرت خضر علیہ لسلام علم لدنی عطا نہیں ہوا تھا ۔ میں واضح کرکرے چلا ہوں کہ طریقت اور شیریعت ایک ہی چیز ہے
البتہ اتنا ضرور ہے کہ جو علم حضرت خضر علیہ السلام کے ہاس تھا وہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے کچھ مخصوص علم حضرت علیہ السلام کو دیا تھا جس کو باطنی علم یا چھپا ہوا علم کہتے ہیں اور اسی باطنی علم کو علم کا ایک طریقہ کہا جا تا ہے اسی طریقہ کو طریقت سے تشبیہ دے دی گئی اس مین کون سے پہاڑ ٹوٹ گئے اور کون سا شریعت کا اصول ٹوٹ گیا کیا صراط المستقیم قرآن پاک میں استعمال نہیں ہے اور کیا طریق کا لفظ قرآن پاک میں استعمال نہیں ہوا ۔ اسی طریق ھدایت کو طریقت کہا جا تا یعنی شریعت کا راستہ جسکو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ ہم تک پہنچایا۔
اور یہ کھلی بات ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی بات پر عمل کرتے رہتے تو ان کو اور بھی عجائبات معلوم پڑتے۔
اور ’قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْساً زَكِيّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لّقَدْ جِئْتَ شَيْئاً نّكْراً سے کیاسمجھیں گے آپ موسیٰ علیہ السلام کیوں کہ صاحب شریعت تھے اس لیئے کہ ان کی شریعت میں قتل جائز نہیں تھا اس لیے انہوں نے شرعی قانون کے مطابق ٹوکا اب آپ مجھے اس وقعہ کی روشنی میں واضح فرمادیں کہ خضر علیہ السلام کے ہاس کون سا علم تھا ۔
اس کے علاوہ کچھ یہ بھی ملاحظہ فرمالیں:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۝۶۵ [١٨:٦٥]
(وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا
اور یہ بھی:
قَالَ لَہٗ مُوْسٰي ہَلْ اَتَّبِعُكَ عَلٰٓي اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا۝۶۶ [١٨:٦٦]
موسیٰ نے ان سے (جن کا نام خضر تھا) کہا کہ جو علم (خدا کی طرف سے) آپ کو سکھایا گیا ہے اگر آپ اس میں سے مجھے کچھ بھلائی (کی باتیں) سکھائیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں
اور یہ بھی:
وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلٰي مَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا۝۶۸ [١٨:٦٨]
اور جس بات کی تمہیں خبر ہی نہیں اس پر صبر کر بھی کیوں کرسکتے ہو
اور تفسیر ابن کثیر کی یہ عبارات ملاحظہ فرمائیں:
وقوله تعالى: {رحمة من ربك وما فعلته عن أمري} أي هذا الذي فعلته في هذه الأحوال الثلاثة, إنما هو من رحمة الله بمن ذكرنا من أصحاب السفينة, ووالدي الغلام وولدي الرجل الصالح, وما فعلته عن أمري أي لكني أمرت به ووقفت عليه, وفيه دلالة لمن قال بنبوة الخضر عليه السلام مع ما تقدم من قوله: {فوجدا عبداً من عبادنا آتيناه رحمة من عندنا وعلمناه من لدنا علماً} وقال آخرون: كان رسولاً. وقيل: بل كان ملكاً, نقله الماوردي في تفسيره, وذهب كثيرون إلى أنه لم يكن نبياً, بل كان ولياً, فالله أعلم.
أَمّا السّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدتّ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَآءَهُم مّلِكٌ يَأْخُذُ كُلّ سَفِينَةٍ غَصْباً
هذا تفسير ما أشكل أمره على موسى عليه السلام, وما كان أنكر ظاهره, وقد أظهر الله الخضر عليه السلام على حكمة باطنة, فقال:

وقوله: {وكان أبوهما صالحاً} فيه دليل على أن الرجل الصالح يحفظ في ذريته وتشمل بركة عبادته لهم في الدنيا والاَخرة بشفاعته فيهم, ورفع درجتهم إلى أعلى درجة في الجنة, لتقر عينه بهم, كما جاء في القرآن ووردت به السنة. قال سعيد بن جبير عن ابن عباس: حفظا بصلاح أبيهما, ولم يذكر لهما صلاحاً, وتقدم أنه كان الأب السابق, فالله أعلم. وقوله: {فأراد ربك أن يبلغا أشدهما ويستخرجا كنزهما} ههنا أسند الإرادة إلى الله تعالى, لأن بلوغهما الحلم لا يقدر عليه إلا الله, وقال في الغلام {فأردنا أن يبدلهما ربهما خيراً منه زكاة} وقال في السفينة {فأردت أن أعيبها} فالله أعلم

ان سب کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم لدنی عظافرمایا تھا جس کا القاء رجل صالح کے قلب سلیم پر ہوتا ہے جس کو ابن کثیرؒ نے باطنی علم وحکمت سے تعبیر کیا ہے
حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ وہ ولی تھے یا نبی ابن کثیر ؒ ولی کا لفظ استعمال فرمایا ہے بہرحال اگر سورہ کہف کا باریکی سے مطالعہ کیا جائے تو معلومات کا خزانہ ہے۔
ہمیں سوال جواب سے انکار نہیں لیکن طریقہ سوال پر اعتراض ہے سائلین کا طریقہ الگ ہوتا ہے اور معترضین کا الگ سائل کو مطمئن کیا جا سکتا ہے معترض کو نہیں اور اس کا اندازہ سائل کی عبارت سے ہوجاتا ہے اس لیے مجبوراً ہمیں شیخ عطار( فریدالدین) کے پند نامہ کی نصیحتوں پر عمل کرنے میں عافیت نظر آتی ہے۔ استفادہ کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی (عالم)کسی بات کو بیان کررہا ہے تو پہلے اس کی اپنے طور پر تطبیق کرنی چاہئے کتا بوں سے رجوع کرنا چاہئے پھر بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو متعلقہ عالم سے رجوع بہت عمدگی سے کرنا چاہئے بعض طبائع بہت حساس اور نازک ہوتی ہیں کسی کو پانی بوند گرنے سے ہی تکلیف ہوتی ہے یا گھڑے کا ڈھکن غلط رکھا ہوا ہونے کی وجہ سے ہی سر میں درد ہونے لگتا ہے اور کسی کے سر ڈھول بجائے جاؤ کوئی فرق نہیں پڑتا یہی وجہ ہے کہ میں پہلے ہی سوچ سمجھ کر لکھتا ہوں اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کس فورم پر کام کررہا ہوں اس لیے میں ائمہ اربعہ کے حوالوں سے گریز کرتا ہوں اور قرآن وحدیث تک ہی محدود رہنے کی کوشش کرتا ہوں ۔شخصیات سے میں مرعوب نہیں ہوتا سب اپنے اپنے حساب سے بات بیان کرتے ہیں غلط بھی ہوتی ہیں اور صحیح بھی ۔ لوگوں کے اذہان بھی الگ ہوتے ہیں کسی کو مولانا مودودی پسند ہیں تو کسی کو ڈاکٹر ذاکر نائک کسی وؤکو طاہر القادری تو کسی کوعلامہ البانی اسی طرح کوئی رشدی کو پسند کرتا ہے تو کوئی کسی کو تو سب کو کوئی مطمئن نہیں کرسکتا ۔ ہم نے اپنی تحقیق کے مطابق بات پیش کردی جو ہمیں اچھی لگتی تھی میں اپنی سوچ کا پابند ہوں دوسروں کا نہیں فقط واللہ اعلم بالصواب
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
پہلے بات اللہ رب العالمین نے حضرت آدم علیہ السلام کو کلمات سکھائے پھرزمین پراتار۔۔۔
دوسری چیز اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس درخت کا پھل کھانے کو منع کیا تھا۔۔۔ بی بی حوا کو نہیں۔۔۔
لہذا اگر درخت سے پھل کھانے کی بات اماں حوا نے کی توکیااُن کے علم میں تھا؟؟؟۔۔۔
اگر یہ بات اماں حوا کو بھی معلوم ہوتی تو کیا وہ حضرت آدم سے درخت کا پھل کھانے کو کہتیں؟؟؟۔۔۔
شایدقرآن میں اسی لئے یہ بھی ارشاد ہواکے نفس کی پیروی دراصل شیطان کی اتباع ہے۔۔۔
اس پر آپ کیا کہنا پسندفرمائیں گے؟؟؟۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
پہلے بات اللہ رب العالمین نے حضرت آدم علیہ السلام کو کلمات سکھائے پھرزمین پراتار۔۔۔
دوسری چیز اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس درخت کا پھل کھانے کو منع کیا تھا۔۔۔ بی بی حوا کو نہیں۔۔۔
لہذا اگر درخت سے پھل کھانے کی بات اماں حوا نے کی توکیااُن کے علم میں تھا؟؟؟۔۔۔
اگر یہ بات اماں حوا کو بھی معلوم ہوتی تو کیا وہ حضرت آدم سے درخت کا پھل کھانے کو کہتیں؟؟؟۔۔۔
شایدقرآن میں اسی لئے یہ بھی ارشاد ہواکے نفس کی پیروی دراصل شیطان کی اتباع ہے۔۔۔
اس پر آپ کیا کہنا پسندفرمائیں گے؟؟؟۔۔۔
آپ صحیح فرمارہے ہیں
اب ملاحظہ فرمائیں اس سے کئی باتیں معلوم ہوں گی
ایک تو یہی کہ عورت ناقص العقل ہوتی
دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے ہے کہ خلافت کی اہلیت مرد میں ہوتی ہے عورت میں نہیں
تیسری بات عورت مرد کے تابع ہوتی
یہ بات محل نظر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ہی آگاہ فرمایا تھا خطاب اگرچہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہی ہے مگر مکلف اماں حوا بھی ہیں
اب میں یہاں آپ کی بات روک کر کہتا ہوں کہ شیطان کو کیسے معلو ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو کسی بات سے روکا ہے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خطاب سب کے سامنے کیا تھا جس کو سبھی نے سنا تبھی تو شیطان کو شیطانیت کی سوجھی۔
لیکن ایک بات صاف طور سے معلوم ہورہی ہے کہ’’ امیر ‘‘آدم علیہ السلام تھے
دوسری چیز اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس درخت کا پھل کھانے کو منع کیا تھا۔۔۔ بی بی حوا کو نہیں۔۔۔
لہذا اگر درخت سے پھل کھانے کی بات اماں حوا نے کی توکیااُن کے علم میں تھا؟؟؟۔۔۔
اگر یہ بات اماں حوا کو بھی معلوم ہوتی تو کیا وہ حضرت آدم سے درخت کا پھل کھانے کو کہتیں
اور محترم اگر آپ کی بات کو تسلیم کرلیا جائے تو اس بات کو کیا فرمائیں گے
کہ جب اللہ تعالیٰ نے سجدہ کا حکم بظاہر فرشتوں کو دیا تھا تو آپ کے بقول تو شیطان بچ جائےگا کیوں کہ جنات میں سے تھا ’’ وکان من الجن‘‘ لیکن خطاب عام تھا
اسی طرح شجر ممنوعہ سے روکنا خطاب آدم علیہ السلام کو ہے لیکن پابند دونوں ہیں جیسا کہ اس آیت سے وضاحت ہورہی ہے ( فأزلهما الشيطان عنها فأخرجهما مما كانا فيه)
یہی وجہ شجرے ممنوعہ کو استعمال کرنے بعد دونوں ہی بے لباس ہوگئے تھے۔ جب کہ آپ کے قول کے مطابق صرف حضرت آدم علیہ السلام کو بے لباس ہونا چاہیے تھا
تو معلوم یہ ہوا چوک ہورہی ہے آدم علیہ السلام سے اور’’ سزا‘‘ مل رہی ہے (اس کے لیے ابھی میرے پاس الفاظ نہیں ہے) ساتھ میں اماں حوا کو بھی
معلوم یہ ہوا امیر کی بھول چوک سے ماتحت بھی نقصان اٹھاتے ہیں اس طرح کے سیکڑوں واقعات مل جائیں گے ۔
اور یہ بات معلوم رہنی چاہئے کہ نبی نفس کی پیروی نہیں کرتا ان کا نفس نفس مطمئنہ ہوتا ہے اگر اس کو مان لیا جائے معاملہ گڑ بڑ ہوجائے گا
اس بارے میں کیا فرمائیں گے ذرا ادھر بھی توجہ فرمائیں
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ عَنْ نَّفْسِہٖ۝۰ۭ قُلْنَ حَاشَ لِلہِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْہِ مِنْ سُوْۗءٍ۝۰ۭ قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ۝۰ۡاَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝۵۱ [١٢:٥١]
بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا کہ بھلا اس وقت کیا ہوا تھا جب تم نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ سب بول اٹھیں کہ حاش َللهِ ہم نے اس میں کوئی برائی معلوم نہیں کی۔ عزیز کی عورت نے کہا اب سچی بات تو ظاہر ہو ہی گئی ہے۔ (اصل یہ ہے کہ) میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور بےشک وہ سچا ہے
ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْہُ بِالْغَيْبِ وَاَنَّ اللہَ لَا يَہْدِيْ كَيْدَ الْخَاۗىِٕنِيْنَ۝۵۲ [١٢:٥٢]
(یوسف نے کہا کہ میں نے) یہ بات اس لیے (پوچھی ہے) کہ عزیز کو یقین ہوجائے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی (امانت میں خیانت نہیں کی) اور خدا خیانت کرنے والوں کے
(13) ۞ وَمَآاُبَرِّئُ نَفْسِيْ۝۰ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوْۗءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ۝۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۵۳ [١٢:٥٣]
اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ (انسان کو) برائی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے گا۔ بےشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِيْ۝۰ۚ فَلَمَّا كَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ۝۵۴ [١٢:٥٤]

بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لاؤ میں اسے اپنا مصاحب خاص بناؤں گا۔ پھر جب ان سے گفتگو کی تو کہا کہ آج سے تم ہمارے ہاں صاحب منزلت اور صاحبِ اعتبار ہو
قَالَ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ۝۰ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ۝۵۵ [١٢:٥٥]
(یوسف نے) کہا مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیئے کیونکہ میں حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں
ان تمام آیتوں کا بغور ملاحظہ فرمائیں کہ یہاں نفس امارہ والا قول حضرات یوسف علیہ السلام کا ہے یا ملکہ کا ہے یہاں سیاق وسباق پر نظر دوڑائیں یہ سارے کلمات ملکہ کے ہیں (زلیخا) یوسف علیہ السلام کے نہیں ہیں
تو عرض یہ ہے کہ نبی کا نفس مطمئنہ ہوتا ہے نفس امارہ نہیں ان پر شیطان کو جا دو نہیں چلتا۔ جیسا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معاملہ ہے ۔نبی کا نفس بچپن سے ہی مطمئنہ ہوتا ہے جیسا حضرت اسماعیل علیہ السلام کا معاملہ ہے ۔ باقی بات بعد میں کروں گا ٹھوڑا آرام کرلوں ۔
 
شمولیت
نومبر 10، 2012
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
237
پوائنٹ
49
ماشا ء اللہ حضرت اللہ اپکے علم میں اضافہ فرمائیں۔
ہمیں سوال جواب سے انکار نہیں لیکن طریقہ سوال پر اعتراض ہے سائلین کا طریقہ الگ ہوتا ہے اور معترضین کا الگ سائل کو مطمئن کیا جا سکتا ہے معترض کو نہیں اور اس کا اندازہ سائل کی عبارت سے ہوجاتا ہے اس لیے مجبوراً ہمیں شیخ عطار( فریدالدین) کے پند نامہ کی نصیحتوں پر عمل کرنے میں عافیت نظر آتی ہے۔ استفادہ کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی (عالم)کسی بات کو بیان کررہا ہے تو پہلے اس کی اپنے طور پر تطبیق کرنی چاہئے کتا بوں سے رجوع کرنا چاہئے پھر بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو متعلقہ عالم سے رجوع بہت عمدگی سے کرنا چاہئے بعض طبائع بہت حساس اور نازک ہوتی ہیں کسی کو پانی بوند گرنے سے ہی تکلیف ہوتی ہے یا گھڑے کا ڈھکن غلط رکھا ہوا ہونے کی وجہ سے ہی سر میں درد ہونے لگتا ہے اور کسی کے سر ڈھول بجائے جاؤ کوئی فرق نہیں پڑتا
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
یہ لکھ مارا کون سی اصطلاح ہے یہ تو بہت ہی گھٹیا قسم کے الفاظ ہیں بالکل بازاری زبان ہے اور اپنے سے کم ترآدمی کے لیے استعمال ہوتے ہیں ایک طرف تو آپ یہ فرما رہے ہیں کہ ’’آپ مفتی ہیں تو آپ کی عمر پچاس سال کے آس پاس ہوگی’’ لکھ مارا ‘‘یہ آپنے پہلا ہی اصول توڑ دیا یہی تو باتیں ہیں جو دل کو کاٹتی ہیں
مفتی صاحب اگر میرے کسی جملے کی وجہ سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں آپ سے معذرت خوا ہوں۔ اس طرح کی ڈسکشن میں تھوڑی بہت تلخی آ ہی جاتی ہےبہر حال میری معذرت قبول کیجئے۔ آپ نے لکھا کہ میری طبیعت بہت خراب ہے تو اللہ تعالیٰ تعالیٰ آپ کو صحت و عافیت سے نوازے اور آپ کی بیماری دور کرے۔ ویسے آپ کا یہ مراسلہ پڑھ کر اندازا ہو رہا ہے کہ آپ کی طبیعت واقعی کافی خراب ہے۔ آپ ہمارے محترم اور بڑے ہیں۔ میں آپ سے تقریباًآدھی عمر کا مالک ہوں۔ میں آپ کے پاس ہوتا تو آپ کا سر دبا دیتا اور یقین مانیے صرف ’سر‘ ہی دباتا۔
میں اب تک آپ کے بارے میں جو سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کی شرح و وضاحت اپنے فہم سے کرتے ہیں۔ ہو سکے تو آپ ایک دفعہ تفسیر قرآن کےاصولوں پرنظر ڈال لیجئے۔ اسی وجہ سے آپ کے مضمون میں بہت سارے تضادات نظر آ رہے ہیں۔
مثلاً آپ نے مجھے انبیا کے بارے میں بھول کا لفظ استعمال کرنے کے بارے میں ان الفاظ میں تلقین کی:
بھول کی نسبت نبی کی طرف کرنا بے ادبی ہے واضح رہے بھول غفلت کی وجہ سے ہوتی ہے اور نبی غافل نہیں ہوتا نبی کی غفلت جرم ہے اس لیے بھول نبی کے علاوہ ہرانسان سے ہوتی ہے
جبکہ اس سے کچھ ہی سطور اوپر آپ نے قرآنی آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں کیاہے:
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
اور شروع میں حضرت آدمؑ کی ’چوک‘ کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے لکھا:
بڑوں کی بھول چوک کا خمیازہ چھوٹوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے
جب آپ کی طبیعت سنبھلے تو مجھے اس آیت میں بھول کا مطلب اور ہو سکے تو بھول اور چوک میں فرق سمجھا دیجئے گا اپنے فہم سے نہیں کسی معتبر حوالے سے۔کیونکہ آپ نے کہا ہے کہ میں نے لفظ ’’چوک‘‘ استعمال کیا ہے

آپ نے ایک جگہ لکھا:
طریقت اور شریعت ایک ہی چیز ہے
مزید فرمایا:
اسی طریق ھدایت کو طریقت کہا جا تا یعنی شریعت کا راستہ جسکو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ ہم تک پہنچایا۔
حالانکہ اس سے قبل آپ لکھ چکےتھے:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کیونکہ صاحب’’ شریعت ‘‘تھےاور خضر علیہ السلام صاحب’’ طریقت ‘‘ اس لیے صاحب طریقت اور صاحب شریعت کی بات نہ بن سکی اور دونو ںمیں جدائی ہوگئی
اوپر آپ نے شریعت اور طریقت کو ایک ہی چیز قرار دے دیا اور پھر حضرت موسیٰؑ کے صاحب شریعت اور حضرت خضرؑ کے صاحب طریقت ہونے پر ایک دوسرے سے جدائی بھی کرا دی۔ اگر شریعت اور طریقت ایک ہی چیز ہے تو پھر ان کی بات کیوں نہ ’بن‘ سکی؟

ایک جگہ آپ نے کہا
اس کا تعلق باطن سے ہے جس کو صرف اہل باطن ہی سمجھ سکتے ہیں ،اہل ظاہر کواس سے دور تک کا واسطہ نہیں ہو سکتا
پھر آپ نے لکھ دیا:
الحاصل شریعت تمام افعال واعمال ظاہری وباطنی کے مجموعہ کا نام ہے جن کو دو الگ الگ نام دیدیا گیا۔
اگر اعمال ظاہری و باطنی کے مجموعہ کا نام شریعت ہے تو پھر آپ نے اوپر والی عبارت میں اہل باطن اور اہل ظاہر میں جو فرق کیا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟؟

مفتی صاحب براہ کرم مجھے اس عبارت کا سلیس کا ترجمہ کر دیجئے:
یہ حضرات چونکہ تربیت یافتہ از علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے اوران کا ماحول بھی خیر القرون تھا اس لئے اس وقت بھٹکے ہوؤں کو صرف’’ الطریق الطریق‘‘ کہدینا ہی کا فی تھا اور بس ،لیکن جوں جوںزمانہ رسالت سے بعد ہوتا گیا ویسے ہی ماحول پر طغیانی وعصیانی بادل چھاتے گئے اور طاغوتیت کی مسموم ہوائیں چلنے لگیں لہٰذا اس ماحول میں جو بھی طاغوتیت کے قریب ہوا برباد ہوگیا لیکن جس نے صالح ہاتھوں میں تربیت پائی اور جو علوم نبوت کی نگرانی میں رہا اس کے لئے وہی فطری راہ کھلی رہی‘‘جس کو ہم شریعت کہتے ہیں۔
آپ نے لکھا:
میں ائمہ اربعہ کے حوالوں سے گریز کرتا ہوں اور قرآن وحدیث تک ہی محدود رہنے کی کوشش کرتا ہوں ۔شخصیات سے میں مرعوب نہیں ہوتا سب اپنے اپنے حساب سے بات بیان کرتے ہیں غلط بھی ہوتی ہیں اور صحیح بھی
اور آپ نے اس سے قبل جن شخصیات کے حوالے دئیے ہیں ان کا کیا مطلب ہے؟ آپ اس سے قبل یہ حوالے دے چکے ہیں:
(۱)تصوف طبیعت کی پاکیزگی ہے کہ انسان میں چھپی رہتی ہے۔ (ابن عطاؒ)
(۲)تصوف نام ہے خدائے تعالیٰ کے ساتھ ہونے کا مگر اس طرح کہ اس معیت کو بجز خدا کے کوئی اور نہ جانتا ہو۔ (سہیلؒ،جنیدؒ)
(۳)دل کی صفائی حاصل کرنے کا نام احسان اور یہی تصوف کا مقصد ہے ،تصوف کا مقصد کوئی نئی چیز نہیں ہے ،حدیث جبرئیل میں جو کچھ ہے وہی سچ ہے ۔ (حضرت مدنیؒ)
(۴)فطرت انسانی کو جس طرح بھی شریعت کے مطابق کرلیا جائے اسی کا نام سلوک ہے۔ (حضرت والدجناب مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ)
مفتی صاحب اب میں ان تضادات کے بارے میں کچھ کہوں گا تو آپ کہیں گے یہ بے ادبی کے جملے ہیں۔ لیکن مجھے یہ بتائیے کہ اپنی ہی لکھی ہوئی عبارات میں اس قدر تضادات کا ہونا کس طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ابھی تو میں آپ کے بیسیوں جملے ایسے پیش کر سکتا ہوں جو نہ شریعت کی میزان پر پورا اترتے ہیں اور نہ ہی عقل کی میزان پر۔
جہاں تک بات ہے مولانا مودودی اور مفتی شفیع صاحب کے حوالوں کی۔ تو میں نے ان کے حوالے اس لیے دیے تھے کہ وہ آپ کے ہم مسلک ہیں۔ ورنہ اس ضمن میں بہت سارے مفسرین کی ان سے ملتی جلتی آرا پیش کی جا سکتی ہیں۔ اگر آپ مولانا مودودی کی رائے کو معتبر نہیں سمجھتے تو مفتی شفیع صاحب کی رائے کو تو معتبر سمجھتے ہیں ان کی بات مان لیجئے۔
دوسری بات یہ کہ ان شخصیات کی آرا کو ہم کبھی بھی حتمی دلیل نہیں کہتے۔ ان کی جو رائے کتاب و سنت سے ہم آہنگ ہیں وہ قابل قبول ہے اور جو متصادم ہے اس سے ہم اعتنا نہیں کرتے ہیں۔
مفتی صاحب شریعت کے سیدھے سادے عقائد کے ساتھ طریقت کے عقائد و نظریات میل نہیں کھاتے۔ طریقت شریعت سے متوازی اور اس سے متصادم ایک الگ دین ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم بزرگان کرام اور ان کی کرامات کے سرے سے قائل ہی نہیں بلکہ ہماری مخالفت وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے کتاب و سنت سے ٹکراؤ شروع ہوتا ہے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
مفتی صاحب اگر میرے کسی جملے کی وجہ سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں آپ سے معذرت خوا ہوں۔ اس طرح کی ڈسکشن میں تھوڑی بہت تلخی آ ہی جاتی ہےبہر حال میری معذرت قبول کیجئے۔
بھول کی نسبت نبی کی طرف کرنا بے ادبی ہے واضح رہے بھول غفلت کی وجہ سے ہوتی ہے اور نبی غافل نہیں ہوتا نبی کی غفلت جرم ہے اس لیے بھول نبی کے علاوہ ہرانسان سے ہوتی ہے
جبکہ اس سے کچھ ہی سطور اوپر آپ نے قرآنی آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں کیاہے:
اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا
اور شروع میں حضرت آدمؑ کی ’چوک‘ کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے لکھا:
صرف ان دو باتوں کو لیتے ہیں
زیادہ سوالوں کا جوب خلط مبحث کردیتا ہے
(۱) یہ ترجمہ میں نے نہیں کیا یہ حفیظ جالندھری ہے یہ میں ذکر سافٹ ویر سے کاپی پیسٹ کیا ہے ۔اس کے علاوہ اگر میں بھی ترجمہ کروں تو اس ترجمہ وہی ہوگا جوبیان کیا گیا ہے ذاتی ترجمہ تحریف کہلاتا ہے
اللہ تعالیٰ کے بیان میں اور انسان کے بیان میں فرق ہے اللہ تعا لیٰ نبی کو نام لےکر بھی پکارتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی اسی طرح خطاب کریں ہم ان کے ساتھ (ﷺ) علیہ السلام وغیرہ لگا تے ہیں
اس لیے ہم جب نسیان کی تعبیر کسی نبی کے بارے میں کریں گے تو اس کو میں اور میرے والد صاحبؒ چوک سے ہی تعبیر کرتے تھے باقی بھول کے بارے میں کلام کرچکا ہوں۔نبی پر غفلت طاری نہیں ہوتی کسی سے ڈسکشن فرمالیں اس کے بعد مجھے بھی ان کے جواب سے نوازیں
میرے سر دبانے والا درد نہیں ہے میرے سر میں ٹیومر ہے طبیعت حساس ہے اس لیے اس طرح کی باتوں سے دماغ میں تناؤ پیدا ہوجا تا ہے اس لیے سر دبانے کا شکریہ اگر اس بات سے مطمئن ہوگئے ہوں تو آگے چلاتے ہیں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
وہ جو اوپر سوالات تھے وہ میری اپنی سوچ ہے۔۔۔ اس کا قرآن وحدیث سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔ ہر پیش کی جانے والی تحریر میں تینوں چیزیں ہوتی ہیں، پہلی چیز اتفاق، دوسری چیز اعتراض، تیسری چیز سوالات۔۔۔ اس ہی تناطر میں اگر ہم تحریر کو لیکر چلیں تو میں نے ابتدائی دو پہلو چھوڑ دئے اور تیسرے پہلو کو استعمال کیا۔۔۔ اب جیسا کے آپ نے کہا!۔
اب میں یہاں آپ کی بات روک کر کہتا ہوں کہ شیطان کو کیسے معلو ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو کسی بات سے روکا ہے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خطاب سب کے سامنے کیا تھا جس کو سبھی نے سنا تبھی تو شیطان کو شیطانیت کی سوجھی۔

اگر خطاب سب کے سامنے تھا۔۔۔ تو میں نہ اتفاق کرتا ہوں یا اعتراض، بس سوال پوچھوں گا۔۔۔
١۔ جب خطاب سامنے تھا تو پھر اماں حوا نے کیوں شیطاں کے بہکاوے میں آنا گوارہ کیا؟؟؟۔۔۔
٢۔ شیطان کو اس بات کا علم کیسے ہوا کے میں اماں حوا کو اللہ کا حکم جاننےکےبعد بہکاؤں گا تو وہ بہک جائیں گی؟؟؟۔۔۔
٣۔ شیطان کو کیسے یہ تھا کے اماں حوا بہک کر حضرت آدم سے یہ پھل کے تعلق سے اللہ کے حکم سے نافرمانی کروا سکیں گی؟؟؟۔۔۔
٤۔ شیطان کو کیسے اس بات کا علم تھا کے حوا کی بات مان کر آدم یہ پھل کھا لیں گے؟؟؟۔۔۔

ابھی میں نے آپ کی پوری تحریر نہیں پڑھی ہے بس اس پیرگراف تک ہی پڑھا تو ان سوالوں نے ذہن میں جم لیا۔۔۔
ساتھ ہی ایک سوال اور کہ جب اللہ رب العالمین نے جب فرشتوں سے آدم کے وجود کا ذکر کیا تو فرشتوں کو کیسے علم ہوا کے یہ زمین پر فساد کریں گےِ؟؟؟۔۔۔
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
صرف ان دو باتوں کو لیتے ہیں
زیادہ سوالوں کا جوب خلط مبحث کردیتا ہے
(۱) یہ ترجمہ میں نے نہیں کیا یہ حفیظ جالندھری ہے یہ میں ذکر سافٹ ویر سے کاپی پیسٹ کیا ہے ۔اس کے علاوہ اگر میں بھی ترجمہ کروں تو اس ترجمہ وہی ہوگا جوبیان کیا گیا ہے ذاتی ترجمہ تحریف کہلاتا ہے
اللہ تعالیٰ کے بیان میں اور انسان کے بیان میں فرق ہے اللہ تعا لیٰ نبی کو نام لےکر بھی پکارتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی اسی طرح خطاب کریں ہم ان کے ساتھ (ﷺ) علیہ السلام وغیرہ لگا تے ہیں
اس لیے ہم جب نسیان کی تعبیر کسی نبی کے بارے میں کریں گے تو اس کو میں اور میرے والد صاحبؒ چوک سے ہی تعبیر کرتے تھے باقی بھول کے بارے میں کلام کرچکا ہوں۔نبی پر غفلت طاری نہیں ہوتی کسی سے ڈسکشن فرمالیں اس کے بعد مجھے بھی ان کے جواب سے نوازیں
میرے سر دبانے والا درد نہیں ہے میرے سر میں ٹیومر ہے طبیعت حساس ہے اس لیے اس طرح کی باتوں سے دماغ میں تناؤ پیدا ہوجا تا ہے اس لیے سر دبانے کا شکریہ اگر اس بات سے مطمئن ہوگئے ہوں تو آگے چلاتے ہیں
محترم عابد صاحب آپ نے اوپر کہا تھا کہ
بھول کی نسبت نبی کی طرف کرنا بے ادبی ہے واضح رہے بھول غفلت کی وجہ سے ہوتی ہے اور نبی غافل نہیں ہوتا نبی کی غفلت جرم ہے
چلیں آپ کہتے ہیں تو آپ کی یہ بات مان لیتے ہیں کہ اللہ حضرت آدمؑ کے لیے بھول کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں اگر ہم کریں گے تو بے ادبی ہوگی اس لیے چوک کا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔ میں نے آپ سے پوچھا تھا مجھے بھول اور چوک میں فرق سمجھا دیجئے۔
اور دوسرا آپ نے خود بھی ان کے لیے بھول کا لفظ استعمال کیا ہے۔ آپ کے الفاظ تھے:
بڑوں کی بھول چوک کا خمیازہ چھوٹوں کو بھی بھگتنا پڑتا ہے
دوسرا آپ نے کہا کہ
’ذاتی ترجمہ تحریف کہلاتا ہے۔‘
تو کیا جن لوگوں نے قرآن کریم کے ترجمے کیے ہیں ان کو الہام ہوتا تھا؟؟
براہِ کرم اپنے اس جملے کی بھی تھوڑی وضاحت کر دیجئے کہ نبی پر غفلت طاری نہیں ہوتی۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
بھائی عمران بھائی ہم تصوف والے آدمی ہیں اور آپ تصوف کے مخالف ہیں اس لیے آپ کی اور ہماری بات نہیں بن سکتی میں غیر مقلد نہیں ہو سکتا اور آپ صوفی نہیں ہو سکتے ۔میں ابھی تک آپ کا نقظہ نظر نہیں سمجھ سکا آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ اپنا نظریہ پیش کرئے آپ ہمارے نظریہ کی تردید کیجئے اور اس کے دلائل دیجئے اگر ہماری سمجھ میں آگئی تو ہو سکتا ہے ہم راہ راست پر آجائیں ابھی تک تو میں یہی سمجھ رہا ہوں کہ زبر دستی مخالفت کررہے ہیں ۔
چوک بھول سے کمتر درجہ کا ہوتا ہے اور اس میں غفلت نہیں ہوتی اس کی مثال اس طرح سے سمجھ لیجیے ایک آدمی گاڑی چلا رہا ہے اس کا دھیان ڈرایئونگ پر ہے ایک لمحے کے لیے اس کی نگاہ ہٹتی ہے اور گاڑی کو حادثہ لاحق ہوجاتا ہے۔ یہ تو ہےچوک
اور بھول کی مثال سنئے ڈرایئور گاڑی چلا رہا ہے کوئی فون آتا ہے کوئی خوشی کی اطلاع ملتی ہے یا کوئی شاکنگ نیوز ملتی ہے ایک لمحہ کے لیے اس کا دماغ ڈرایئونگ سے غافل ہوجا تا ہے اور حادثہ ہوجا تا ہے یہ ہے بھول بوجہ غفلت (اور اتنے نادان آپ بھی نہیں ہیں کہ بھول اور چوک نہ سمجھتے ہوں۔
بڑوں کی غلطی کی مثال سن لیں
امام نماز پڑھا رہا ہے نماز میں ایسی غلطی کرجاتا ہے جو مفسد نماز ہو تو کیا مقتدی کی نماز ہوجائے گی
کسی کا والد چوری کرتا ہے تو کیا اس کی سزا دنیاوی اعتبار سے چھوٹوں کو نہیں ملتی پہلے تو پولس ہی اٹھا لےجا تی ہے
گناہ کا اثر کئی نسل تک چلتا ہے یہ آپ کو بھی معلوم ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
’ذاتی ترجمہ تحریف کہلاتا ہے۔‘
تو کیا جن لوگوں نے قرآن کریم کے ترجمے کیے ہیں ان کو الہام ہوتا تھا؟؟
براہِ کرم اپنے اس جملے کی بھی تھوڑی وضاحت کر دیجئے کہ نبی پر غفلت طاری نہیں ہوتی۔
اب آپ کا یہ سوال میری سمجھ سے باہر ہے کہ یہ سوال آپ کیوں کرہے ہیں دنیا جانتی ہے کہ قرآن شریف کا صرف لفظی ترجمہ کیا جاتا ہے اور وہ الہام نہیں ہوتا کوئی اگر ترجمہ میں اپنا دماغ کا دخل دے گا تو وہ تحریف ہی کہلائے گا
یہ جتنے بھی سوالات آپ نے کئے ہیں صرف اور صرف آپ نے میری پوسٹ کو بے معنیٰ کرنے کے لیے کئے ہیں کوئی بھی سوال ایسا نہیں کیا جس میں میری بات شریعت سے تضاد رکھتی ہو ۔ بھائی میں یہ مان کر چل رہا ہوں کہ میں غلط ہوں آپ کا فرض بنتا ہے مجھے سیدھا راستہ دکھائیں ۔بہرت تو یہ تھا کہ آپ کوئی نیا تھریڈ بنا لیتے اور کھل کر تصوف کی مخالفت کرتے آپ نے زبردستی میری پوسٹ مشکوک بنادی ۔ آپ اپنی قابلیت میرے مضمون پر دکھا رہیں کچھ کر کے دکھائیں تاکہ ہمیں بھی فائدہ ہو اور سن لیں اب تک تو میں نے تصوف پر کچھ لکھا نہیں تھا لیکن اب ان شا ءاللہ لکھوں گا چاہے کسی کے موافق ہو یا نہ ہو آپ ہماری معلومات پر دربان نہیں بٹھا سکتے ہم بھی آزاد اور آپ بھی آزاد ۔ آپ مخالفت کریں کریں ہم پر فرق نہیں پڑتا میں غالباً اپنی بات پوری کرچکا ہوں میں آپ کے نظریہ کو قبول نہیں کروں گا فقط والسلام
 
Top