• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریعت ،طریقت،معرفت کی حقیقت

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
بھائی آپ کو یہ دونوں تعریفات تسلیم ہیں؟
حالانکہ ان دونوں تعریفات کو ہی درست کہا جائے تو بہت سارے مسائل کی حلت و حرمت میں اختلاف ہو گا۔
اس لیے اس تعریف کی طرف اشارہ کر دیجئے جس کو آپ درست سمجھتے ہیں۔ اور ان تعریفات کا حوالہ بھی دے دیجئے۔
جناب عمران اسلم صاحب ،آپ کو دونوں تعریفوں میں جو فرق نظر آرہا ہے اسکو بیان فرمائے۔نیز جو اصل بات ہماری اشغال صوفیاء پر ہو رہی ہے ،اسکو پیش نظر رکھیے گا۔
اور آپ میری بیان کردہ تعریف کو چھوڑے کیونکہ میں سلفی ہوں ،اور اس سے باہر نہیں جا سکتا ،ہم اپنے اسلاف کو پیش مظر رکھ کر چلتے ہیں۔آپ کا سلاف سے کوئی تعلق نہیں ،جب آپ کے نزدیک اسلاف کی کوئی اہمیت ہی نہیں ، اور پھر ابن تیمیہ اور ؒ اور امام نویؒ نے تصوف کے اثبات میں لکھا ہے ،تو پھر آپ کو حوالحہ جات سے غرض نہیں ہونی چاہے۔میں کوئی بات جب لکھتا ہوں اور مجھ سے بہتر میرے اسلاف نے لکھا ہوتا ہے،تو مجبوراً مجھے انکے الفاظ لکھنے پڑھتے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ تھریڈ میں میں نے اپنے بزرگ و رہنماء سید ابوبکر غزنوی ؒ کے حوالے دئے تھے ۔مگر آپ کو کیا لگے کس کا لکھا ہوا ہے،لہذا اسلاف کی باتوں کو میری پیش کردہ بات سمجھ کر جائزہ لیں ۔
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
جناب عمران اسلم صاحب ،آپ کو دونوں تعریفوں میں جو فرق نظر آرہا ہے اسکو بیان فرمائے
عقیل صاحب آپ کو ان دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آ رہا ہے؟؟
اگر ان دونوں تعریفات میں کوئی فرق نہیں ہے تو پھر آپ نے دو تعریفیں کیوں لکھیں ایک ہی سے کام چل جاتا۔
اور آپ میری بیان کردہ تعریف کو چھوڑے کیونکہ میں سلفی ہوں ،اور اس سے باہر نہیں جا سکتا
میں نے یہ کب کہا کہ آپ بدعت کی نئی تعریف گھڑئیے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ آپ اس ایک تعریف کی طرف اشارہ کر دیجئے جس کو آپ درست سمجھتے ہیں۔
آپ کا سلاف سے کوئی تعلق نہیں ،جب آپ کے نزدیک اسلاف کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
میرے خیال سے آپ نے فقط خانقاہوں اور آستانوں ہی سےكسب فيض کیاہے۔ علم کی حقیقی کی دنیا سے آپ کا واسطہ نہیں رہا۔ آپ ہمیں جتنا وقت خانقاہوں میں ہمیں دینے کامشورہ دے رہے ہیں اس سے کم وقت کسی مدرسے میں گزارئیے جس سے آپ کو دین کی مبادیات کے ساتھ ساتھ اسلاف بارے اہل حدیث کے منہج کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔
ہمارے اسلاف کی شروعات حضرت ابوبکر صدیق سے ہوتی ہے اور ہمارے اسلاف میں وہ حضرت علی بھی شامل ہیں جنھوں نے ان کو خدا کا درجہ دینے والے صوفیا کو جہنم واصل کر دیا تھا۔
لیکن آپ کے اسلاف کی شروعات برصغیر میں ایک سو سال قبل ہوتی ہے اور وہیں پر اختتام پذیر ہو جاتی ہے اور آپ کا تکیہ بھی ان علما کی صرف ایسی باتوں پر ہے جو ان کے تفردات کہے جا سکتے ہیں۔
ابن تیمیہ اور ؒ اور امام نویؒ نے تصوف کے اثبات میں لکھا ہے ،تو پھر آپ کو حوالحہ جات سے غرض نہیں ہونی چاہے۔
بالفرض ان شخصیات نے تصوف کے اثبات میں لکھا ہو تو حوالے سے غرض نہ ہونے کی کیا منطق نکال لی آپ نے؟ حوالے کے انتظار رہے گا۔
ویسے ابن تیمیہؒ نے جس قدر تصوف کے رد میں لکھا ہے اگر میں وہ یہاں لکھنا شروع کر دوں تو فورم کے صفحات کم پڑ جائیں۔ ان کے فتاویٰ سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں پڑھ لیجئے افاقہ ہوگا اور اگر سمجھ نہ آئے تو کسی صاحب شریعت سے مدد لے لیجئے گا۔
( ومنهم ) من لا يعرف ابتداء إلا طريقة الرياضة، والتجرد والتصوف، ككثير من الصوفية والفقراء الذين وقعوا في الاتحاد، والتأله المطلق، مثل‏:‏ عبد الله الفارسي، والعفيف التلمساني ونحوهما‏.‏

ومنهم من قد يجمع كالصدر القوْنَوِي ونحوه‏.‏ والغالب عليهم عالم التوهم‏.‏ فتارة يتوهمون ما له حقيقة، وتارة يتوهمون ما لا حقيقة له ،كتوهم إلهية البشر ،وتوهم النصارى ،وتوهم المنتظر ،وتوهم الغوث المقيم بمكة أنه بواسطته يدبر أمر السماء والأرض، ولهذا يقول التلمساني ‏:‏
ثبت عندنا بطريق الكشف ما يناقض صريح العقل‏.‏

ولهذا أصيب صاحب الخلوة بثلاث توهمات‏ :‏

أحدها‏ :
‏ أن يعتقد في نفسه أنه أكمل الناس استعداداً‏.‏

والثاني‏ :‏
أن يتوهم في شيخه أنه أكمل من على وجه الأرض‏.‏

والثالث ‏:‏
أنه يتوهم أنه يصل إلى مطلوبه بدون سبب ،وأكثر اعتماده على القوة الوهمية فقد تعمل الأوهام أعمالا لكنها باطلة ،كالمشيخة الذين لم يسلكوا الطرق الشرعية النبوية نظراً أو عملاً ،بل سلكوا الصابئية‏.‏

ويشبه هؤلاء من بعض الوجوه‏ :‏

أكثر الأحمدية، واليونسية، والحريرية، وكثير من العدوية، وأصحاب الأوحد الكرماني، وخلق كثير من المتصوفة والمتفقرة بأرض المشرق؛ ولهذا تغلب عليهم الإباحة ،فلا يؤمنون بواجبات الشريعة ومحرماتها‏.‏ وهم إذا تألهوا في تألهٍ مطلقٍ ،لا يعرفون من هو إلههم بالمعرفة القلبية، وإن حققه عارفوهم الزنادقة، جعلوه الوجود المطلق ‏.‏

ومنهم من يتأله الصالحين من البشر، وقبورهم ونحو ذلك‏.‏

فتارة
يضاهئون المشركين
وتارة
يضاهئون النصارى
وتارة
يضاهئون الصابئين
وتارة
يضاهئون المعطلة الفرعونية
ونحوهم من الدهرية ،وهم من الصابئين ،لكن كفار في الأصل‏.‏

والخالص منهم
يعبد الله وحده، لكن أكثر ما يعبده بغير الشريعة القرآنية المحمدية
فهم منحرفون
إما عن شهادة أن لا إله إلا الله
وإما عن شهادة

أن محمداً رسول الله
وقد كتبته في غير هذا‏ . (المجموع : 2/57، 58)

 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
عمران اسلم;73982]عقیل صاحب آپ کو ان دونوں میں کوئی فرق نظر نہیں آ رہا ہے؟؟
اگر ان دونوں تعریفات میں کوئی فرق نہیں ہے تو پھر آپ نے دو تعریفیں کیوں لکھیں ایک ہی سے کام چل جاتا۔
محترم ! میری تعریفات غلط ہیں ،اور آپ صاحب شریعت ہیں ، لہذا آپ کے نزدیک جو درست تعریفات ہیں۔ان درست تعریفات کی روشنی میں ذرا ثابت کی جئے کہ صوفیاء اہلحدیث ٌ بدعتی ہیں ؟ اور جن صوفیاء اہلحدیث نے تصوف کی حمایت کی اور بالخصوص اشغال صوفیاء کی حمایت کی یا اختیار کیا ، بدعتی ہیں؟
لیونکہ اصل میں آپکے نزدیک یہ اشغال بدعت ہیں ،لہذا جو بات یہ مفسرین اور محدثین صوفیاء اہلحدیث ٌ نہیں سمجھ سکے اور ماشاءاللہ "صاحب شریعت مولانا عمران اسلم صاحب" سمجھ گئے وہ ہمیں بھی سمجھا دیجئے۔آپ کا یہ عظیم احسان ہو گا،کیونکہ آپ جیسا صاحب علم وعرفان نہ پہلے گزرا ہے اور نہ ہی کوئی شاید قیامت تک کوئی پیدا ہو گا۔



میرے خیال سے آپ نے فقط خانقاہوں اور آستانوں ہی سےكسب فيض کیاہے۔ علم کی حقیقی کی دنیا سے آپ کا واسطہ نہیں رہا۔ آپ ہمیں جتنا وقت خانقاہوں میں ہمیں دینے کامشورہ دے رہے ہیں اس سے کم وقت کسی مدرسے میں گزارئیے جس سے آپ کو دین کی مبادیات کے ساتھ ساتھ اسلاف بارے اہل حدیث کے منہج کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔
جی " درست ہے آپکا فرمایا ہوا"اسلاف کا منہج اہلحدیث آپکے ذیل اقتباس سے واضح ہو گیا ہے،
ہمارے اسلاف کی شروعات حضرت ابوبکر صدیق سے ہوتی ہے اور ہمارے اسلاف میں وہ حضرت علی بھی شامل ہیں جنھوں نے ان کو خدا کا درجہ دینے والے صوفیا کو جہنم واصل کر دیا تھا۔
لیکن آپ کے اسلاف کی شروعات برصغیر میں ایک سو سال قبل ہوتی ہے اور وہیں پر اختتام پذیر ہو جاتی ہے اور آپ کا تکیہ بھی ان علما کی صرف ایسی باتوں پر ہے جو ان کے تفردات کہے جا سکتے ہیں۔
جی میرے اسلاف کی سند ایک سو سال ہی بنتی ہے" آپکے علم اور تحقیق کیا کہنے" میرے اسلاف کی سند ذرا میرے اسلاف کی زبانی سنئے
مولانا سید داؤد غزنوی ٌ فرماتے ہیں۔ ( مفہوم پیش کر رہا ہوں)
میرا سلسلہ نقشبندیہ ہے،میں اپنے والد صاحبٌ سے بیعت تھا اور میرے والد سید عبد الجبارٌغزنویٌ اپنے سید عبداللہٌ سے اور سید عبد اللہ ملا ں حبیب اللہ ٌ سے اور وہ سید احمد سیدٌ سے اور وہ شاہ عبد العزیز محدث دہلویٌ سے اور وہ شاہ ولی ٌ سے اور کبھی آپکو فرصت ہو تو شاہ ولی ٌ کی سند دیکھ لینا اگر نہ سمجھ آئے تو انکے نواسے شاہ اسحاق ٌ کے ایک شاہ گرد جن کو دنیا شیخ الکل ٌ کے لقب سے یا د کرتی ہے اور ان کا نام بھی آپ کو بتا دو ۔جی !سید نذیر حسین دہلویٌ ذرا انکی سند دیکھ کر بتا نا کہ کیا یہ ہندوستاں تک ہے ؟
ہمارے اسلاف کی شروعات حضرت ابوبکر صدیق سے ہوتی ہے اور ہمارے اسلاف میں وہ حضرت علی بھی شامل ہیں جنھوں نے ان کو خدا کا درجہ دینے والے صوفیا کو جہنم واصل کر دیا تھا
۔جی آ پکی منطق سے آپکے مدرسہ کی سمجھ بھی آ گئی ہے کہ کبھی تو منکرین تصوف کو صوفی خیر القرون کے بعد کے نظر آتے ہیں اور کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ انکو قتل کر رہے ،چلو وہ تو کوئی جھوٹا صوفی ہوا ہو گا ،جیسے آجکل نام نہاد اہلھدیث بھی ہیں جن کو تصوف شرک اور بدعت نظر آتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک گرو ضرور تھا ،جو اپنی من مانی تشریات کو دین کہتا تھا اور صحابہ کو کافر کہتا تھا انکو حضرت علی رضی اللہ عنہ نیست نابو دکیا ،اور اس باطل گرو کی باقیات آج بھی سلف اور حلف کو چھوڑ اپنی من مانی تحقیق پر امت کو بدعتی اور مشرک کہتے ہیں،اور انکی خارجیوں کی طرح اپنی بات کو اللہ رسول کی اطاعت کا نام دیتے ہیں۔

بالفرض ان شخصیات نے تصوف کے اثبات میں لکھا ہو تو حوالے سے غرض نہ ہونے کی کیا منطق نکال لی آپ نے؟ حوالے کے انتظار رہے گا۔
ویسے ابن تیمیہؒ نے جس قدر تصوف کے رد میں لکھا ہے اگر میں وہ یہاں لکھنا شروع کر دوں تو فورم کے صفحات کم پڑ جائیں۔ ان کے فتاویٰ سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں پڑھ لیجئے افاقہ ہوگا اور اگر سمجھ نہ آئے تو کسی صاحب شریعت سے مدد لے لیجئے گا۔
آپ سے بڑا بھلا کوئی صاحب شریعت ہے۔ بھلا جس صاحب شریعت کی تحقیق کے سامنے اکابرین اہلحدیث ؒ بدعتی ثابت ہو جائے اس بڑا اس زمانے میں کوئی صاحب شریعت نہیں ہو سکتا۔رہی ابن تیمیہ ٌ کے فتوی تو اس قبل میں تصوف پر انکے حوالے میں نقل کر چکا ہوں آپ ذرا نکے دیکھ لے امید ہے کہ آپکو آفاقہ ہو جائے گا۔
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
ان درست تعریفات کی روشنی میں ذرا ثابت کی جئے کہ صوفیاء اہلحدیث ٌ بدعتی ہیں ؟ اور جن صوفیاء اہلحدیث نے تصوف کی حمایت کی اور بالخصوص اشغال صوفیاء کی حمایت کی یا اختیار کیا ، بدعتی ہیں؟
بھائی یا تو آپ کے پاس ہماری پوسٹس پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا اس لیے ایک ہی بات بار بار دہرائے جاتے ہیں یا پھر بلاوجہ بات کو طول دینے میں آپ لطف محسوس کرتے ہیں۔ میں دوسرے تھریڈ میں یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ
’’کسی عمل کے بدعت ہونے اور کسی شخص کے فی نفسہ بدعتی ہونے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ جس طرح ہر کفریہ عمل پر آپ کسی کو کافر نہیں کہہ سکتے اسی طرح کسی شخص سے اگر غیر شرعی فعل کا صدور ہونے پر فوراً بدعتی ہونے کا ٹھپہ نہیں لگا سکتے۔ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے تو یقیناً جھوٹ بولنے والا لعنتیوں والا کام کرتا ہے لیکن آپ اس کو لعنتی نہیں کہہ سکتے۔‘‘
اس لیے اکابر اہل حدیث یا کسی کے لیے بھی بدعتی ہونے کا فتوٰی درکار ہے تو ہم اس سے معذرت خوا ہیں۔
لیونکہ اصل میں آپکے نزدیک یہ اشغال بدعت ہیں
میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ صوفیا کے تمام اشغال بدعت ہیں۔ بلکہ میں شروع سے یہی کہہ رہا ہوں کہ ہمارا صوفیا کے ساتھ وہاں سے اختلاف شروع ہوتا ہے جہاں ان کی باتوں کا کتاب و سنت کے ساتھ ٹکراؤ شروع ہوتا ہے اور اس قدر سادہ سی بات پتہ نہیں آپ کیوں نہیں سمجھ پا رہے۔ چلیں آپ ہی کی بات کے تناظر میں طریقہ پاس انفاس کو لیتے ہیں۔ آپ نے بدعت کی ایک تعریف یہ لکھی ہے، جس کو یقیناً آپ درست سمجھتے ہوں گے:
امام نووی لکھتے ہیں: "بدعت سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جو عہدِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہو"۔
اب آپ بتائیے کیا اللہ کے رسولﷺ کے دور میں پاس انفاس کے ذریعے ذکر کیا جاتا تھا؟
اگر کیا جاتا تھا تو اس کی کوئی دلیل دے دیجئے اور اگر دلیل نہیں ہے تو آپ ہی کی پیش کردہ تعریف کو سامنے رکھتے آپ اس طریقہ ذکر کو کیا کہیں گے؟
بحث کو مزید الجھانے کی بجائے اور ہمارے ہاں بدعت کی کیا تعریف ہے اس کو چھوڑ کر براہِ راست جواب دینے کی کوشش کیجئے گا۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یہ ہی وجہ ہے جو میں نے یہ بہتر سمجھا کے اس بحث سے علیحدہ ہوجاؤں۔۔۔
دوسرے کی پوسٹ پڑھنے کی بجائے اپنے ملطب کا جملہ پڑھا اور جواب لکھنا شروع کردیا۔۔۔
دیکھیں بھائی جن اسلاف کی بات آپ کرتے ہیں اُن کی تو خود ابتداء امرتسر سے ہوئی۔۔۔
اس لئے امام ابن تیمیہ یا ابن القیم کی تصوف کے حوالے سے بات آپ کرتے ہیں تو ذرا یہ بھی سمجھا دیں وہ بھی صوفی تھے؟؟؟۔۔۔
اگر وہ صوفی تھے تو یہ بات ہم کو کیوں نہیں معلوم؟؟؟۔۔۔ اور اگر نہیں تھے تو پھر ان کی کہی ہوئی بات سے یہ جواز کیونکر بننے گا کہ وہ صوفیت کے حامی تھے حالانکہ خود اُن کا اپنا طریقہ طریقیت کے بالکل مخالف ہے۔۔۔یہ سوچنے والی باتیں ہیں۔۔۔فتدبر!
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
اس لئے امام ابن تیمیہ یا ابن القیم کی تصوف کے حوالے سے بات آپ کرتے ہیں تو ذرا یہ بھی سمجھا دیں وہ بھی صوفی تھے؟؟؟۔۔۔
میرے بھائی ابن تیمیہٌ اور ابن قیم صوفی تھے یا نہیں؟مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مطکق تصوف کے مخالف نہیں تھے۔
اگر وہ صوفی تھے تو یہ بات ہم کو کیوں نہیں معلوم؟؟؟۔۔۔ اور اگر نہیں تھے تو پھر ان کی کہی ہوئی بات سے یہ جواز کیونکر بننے گا کہ وہ صوفیت کے حامی تھے حالانکہ خود اُن کا اپنا طریقہ طریقیت کے بالکل مخالف ہے۔۔۔یہ سوچنے والی باتیں ہیں۔۔۔فتدبر!
جو بات آپ کو معلوم نہ کیا وہ حقیقت میں ہو ہی نہیں سکتی ۔ابن قیم ابن تیمیہ، امام آحمد بن حنبل ،ابن کثیر اور محمد بن عبد الو ہاب کے مکل حوالے تصوف پر پیش کر دوں گا ،اگر آپ یا آپ کا دوست کتاب کے اردو ترجمعہ کے لئے مدد کر سکتا ہے تو آپ کو بیجھ دیتا ہوں تا کہ یہ کام جلدی ہو جائے،فیصلہ خود کر لینا۔
بھائی کوئی بھی عالم جو صیح معانی میں محقق ہو وہ مطلق تصوف کا مخالف نہیں ہوگا۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
=عمران اسلم;74439]بھائی یا تو آپ کے پاس ہماری پوسٹس پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا اس لیے ایک ہی بات بار بار دہرائے جاتے ہیں یا پھر بلاوجہ بات کو طول دینے میں آپ لطف محسوس کرتے ہیں۔ میں دوسرے تھریڈ میں یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ

اس لیے اکابر اہل حدیث یا کسی کے لیے بھی بدعتی ہونے کا فتوٰی درکار ہے تو ہم اس سے معذرت خوا ہیں۔

میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ صوفیا کے تمام اشغال بدعت ہیں۔ بلکہ میں شروع سے یہی کہہ رہا ہوں کہ ہمارا صوفیا کے ساتھ وہاں سے اختلاف شروع ہوتا ہے جہاں ان کی باتوں کا کتاب و سنت کے ساتھ ٹکراؤ شروع ہوتا ہے اور اس قدر سادہ سی بات پتہ نہیں آپ کیوں نہیں سمجھ پا رہے۔ چلیں آپ ہی کی بات کے تناظر میں طریقہ پاس انفاس کو لیتے ہیں۔ آپ نے بدعت کی ایک تعریف یہ لکھی ہے، جس کو یقیناً آپ درست سمجھتے ہوں گے
:
بحث کا رخ تبدیل ہونے سے بچنے کے لئے آپکے اصل سوال کی طرف آتا ہوں
اب آپ بتائیے کیا اللہ کے رسولﷺ کے دور میں پاس انفاس کے ذریعے ذکر کیا جاتا تھا؟
اگر کیا جاتا تھا تو اس کی کوئی دلیل دے دیجئے اور اگر دلیل نہیں ہے تو آپ ہی کی پیش کردہ تعریف کو سامنے رکھتے آپ اس طریقہ ذکر کو کیا کہیں گے؟
بحث کو مزید الجھانے کی بجائے اور ہمارے ہاں بدعت کی کیا تعریف ہے اس کو چھوڑ کر براہِ راست جواب دینے کی کوشش کیجئے گا۔
مولانا صاحب! میں آپکو یہ نہیں کہتا کہ آپکے پاس میری بات پڑھنے یا سمجھنے کا ٹائم نہیں ہے ،یہ پاس انفاس بدعت کیسے ہو گیا ؟ اس پر میری طرف سے یہ مختصر سا مقالہ پہلے بھی پیش کیا تھا پھر کیے دیتا ہوں،مجھے بتانا بھائی اس میں آپکو کیا اعتراض ہے؟ دوسرا اگر آپ ان اشغال کو بدعت نہیں سمجھتے تو بات ختم۔اور ان صاحب کو سامنے آنے دے جو کہتے کے تصوفف مطلق شرک وبدعت ہے۔اور یہ ایک نیا دین ہے۔
پروفیسر سید ابو بکر غزنوی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے ان (یعنی اپنے والد محترم حضرت سید داؤ غزنوی ؒ ) کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ جو صوفیاء کے لطائف کی مشق ہے،نفی اثبات کا مخصوص طریقہ ہے ،یا حبس دم کا شغل ہے،کیا یہ بدعات ہیں ،تو حضرت نے فرمایا:۔
’’یہ بزرگان کرام کا اجتہاد ہے‘‘
میں نے عرض کیا: اس اجتہاد کی علت کیا ہے؟
فرمانے لگے:۔
’’ نزولِ انوار دفع وسواس ہوتا ہے،پھر انوارِ رسالت بالخصوص انوار رسالت محمدّیہ بدرجہ اتّم دافع وسواس تھے۔جب انواررسالت منقطع ہوگئے،تو وسواس ابھرنے لگے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی باقی نہ رہی۔قران کے اس حکم پر عمل مشکل ہوا کہ اٹھتے بیٹھتے پہلو بدلتے ہوئے اللہ کا ذکر کرو۔حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ واسلام ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے، انواراتِ رسالت کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے دوام ذکر ممکن العمل نہ رہا۔پس دوامِ ذکر حاصل کرنے کے لئے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی پیدا کرنے کے لئے بزرگانِ اکرام نے اجتہاد کیا۔‘‘
فریایا
’’ اگر معاملات میں اجتہاد ہو سکتا ہے،تو عبادت میں میں جمعیت خاطر پیدا کرنے کے لئے اجتہاد کیوں نہیں ہو سکتا‘‘۔
پھر ایک اور شام بندہ عاجزان کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں بتا یا کہ بعض علماء سے اشغال صوفیہ پر مجھے گفتگو کا اتفاق ہوا ہے،اور وہ انہیں بدعات اور محدثات قرار دیتے ہیں۔
حضرت والد علیہ الرحمہ کی پیشانی پر شکن پڑ گئی اور فرمانے لگے:۔
’’ ان علماء کا ذہین صاف ہونا چاہئے۔جب وہ ان اشگال کو بدعات قرار دیتے ہیں ،تو دوسرے لفظوں میں وہ معاذاللہ۔۔۔۔۔
خاکم بدہن یہ کہتے ہیں کہ حضرت شاہ ولی اللہ بدعتی تھے ،حضرت مجدّد الف ثانی ؒ بدعتی تھے۔حضرت شاہ عبد العزیزؒ بدعتی تھے ،حضرت
مرزا جان جاناں ؒ اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ بدعتی سب تھے۔ایک طرف تو یہی علماۂندوستان میں اپنی تاریخ کا آغازان ہی بزرگوں سے کرتے ہیں ،اور انکے ساتھ نسبت ملاتے ہیں۔دوسری طرف ن بزرگوں کے اجتہاد ات کو بدعت قرار دیتے ہیں۔اس منطقی تضاد سے انہیں نجات پانی چاہئے۔
معارف اللّطائف میں یو ں رقم طراز ہیں :۔
صوفیائے کرام کے اشغال کو بعض حضرات اسلئے پسند نہیں کرتے کہ یہ صحابہ رضوان اللہ اجماعلیہم اجمعین سے منقول نہیں ،لیکن اگر ذرا دقّت نظر سے یہ حضرات دیکھتے تو ان پر واضح ہو جاتاکہ صحابہ کرامؓ کو اشغال و مراقبات کی ضرورت ہی نہ تھی،کیونکہ انکو سید الانبیاالمرسلین کی صحبت کے فیض سے بہرہ ور اور آپ کے انفاس طیبّہ کی برکات سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل تھی،اور اس فیضان کی وجہ سے صحابہ کرام کے قلوب اذہان ایسی قوی اور کامل استعداد کے مالک تھے کہ ان کو ان اشغال و مراقبات کو واسطہ مقصود بنانے کی ضرورت نہ تھی۔فرائض وسنن کی بجا آوری ، مخرمات بلکہ مشتبہات سے اجتناب ہی ان اشغال وغیرہ کے ثمرات کے حصول کیلئے کافی تھے۔اسکی مثال یوں سمجھئے کہ علوم مروّجہ ( صرفونحو اور فقہ واصول فقہ) صحابہ کرام کے عہد مبارک میں مدوّن نہیں ہوئے تھے،کیونکہ عرب ہونے کی وجہ سے وہ قوعد وصرف ونحو کے محتاج نہ تھے،اور عام مسائل دریافت کرنے میں آپ کی ذات بابرکات ہی کافی تھی،لیکن بعد میں جب اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم میں پہنچا اور آپ کی ذات اقدس سے بعد ہوتا چلا گیا،ہر قسم کی ظاہری اور باطنی ضروریات اور حل مشکلات کے لئے تدوین علوم کی ضرورتوں کا احساس ہوتا گیا،علماء اکرام اور آئمہ ہدیٰ نے بہت جلد باحسنوجوہ ان ضرورتوں کو پورا کیا ۔محدّثین جمع وتدوین حدیث اور فقہ الحدیث کے مرتب کرنے ،فقہاء فقہا قانونِ اسلام کے مدون کرنے اور اصول حکام کے مرتب کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے اور بعض اہل علم نے امانتِ باطنی کی حفاظت اور اسکی اصلاح کی طرف اپنی توجہات کو منعطف کیا،جن کی برکت سے اصلاح نفس،تزکیہ نفس اور مجاھدہ نفس کے قواعد مرتّب ہوئے اور دنیا ان کے فیضات وبرکاتِ روحانی سے مستفید ہوئی۔جزاھم اللہ عنّا وعن سائر المسلمین احسن الجزاء(ص۱۸،۱۹)
یہ میں نے بہت مختصر لکھا ہے اور آپ صاحب شریعت ہیں
اس کو بغور پڑھیے اور اگر پھر بھی تسلی نہ ہو سکے تو کسی صاحب شریعت وطریقت سے رہنمائی لے۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
میرے بھائی ابن تیمیہٌ اور ابن قیم صوفی تھے یا نہیں؟مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مطکق تصوف کے مخالف نہیں تھے۔
عقیل بھائی غلط مجھ سمجھئے گا۔۔۔
لیکن کیا وہ آپ کی طرح اس کے حامی تھے؟؟؟۔۔۔ میں نے آپ کو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ کے اقوال اس ہی لئے پیش کئے تھے مطلق کوئی بھی مخالف نہیں تھا مگر وہ اس کے دور رس نتائج دیکھ رہے تھے۔۔۔ جو آپ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔۔۔ آپ کے سرسے لیکر پیر تک کے دیئے گئے دلائل کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ اس بدعت کی ایجاد ہوئی امرتسر سے یہ لہذا یہ کہنا کے یہ اسلاف کا منہج تھا تو یہ اُن پر سنگین الزام ہے۔۔۔ قادیانی اُس دور میں موجود نہ تھے اس پر ابن تیمیہ اور ابن القیم کا کوئی قول یا فتوٰی نہیں ملے مگر ایسا ہرگز نہیں کے وہ مسلمان ہیں۔۔۔ اُن کی ہی کی تعلیمات اور دلائل سے ہم اس بات میں فرق کرسکتے ہیں کہ وہ کافر ہیں۔۔۔ اسی طرح آئمہ کرام کا کسی معاملے میں مطلق مخالف ہونا یہ سند نہیں ہے کہ بعد والے اس کے نام پر نفس کی تقلید شروع کردیں۔۔۔ اس لئے آپ سے درخواست ہے اپنا اور ہمارا قیمتی وقت بچائیں اور اس کو کسی تعمیری کام میں صرف کیجئے ایک بندے نے اپنے عقل سے شریعت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہنے دیں میں نہیں چاہتا کے بدکلامی ہوجائے اس لئے شیخ اپنی اپنی دیکھ۔۔۔ والسلام۔۔۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
عقیل بھائی غلط مجھ سمجھئے گا۔۔۔
لیکن کیا وہ آپ کی طرح اس کے حامی تھے؟؟؟۔۔۔ میں نے آپ کو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ کے اقوال اس ہی لئے پیش کئے تھے مطلق کوئی بھی مخالف نہیں تھا مگر وہ اس کے دور رس نتائج دیکھ رہے تھے۔۔۔ جو آپ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔۔۔ آپ کے سرسے لیکر پیر تک کے دیئے گئے دلائل کی کوئی وقعت نہیں کیونکہ اس بدعت کی ایجاد ہوئی امرتسر سے یہ لہذا یہ کہنا کے یہ اسلاف کا منہج تھا تو یہ اُن پر سنگین الزام ہے۔۔۔ قادیانی اُس دور میں موجود نہ تھے اس پر ابن تیمیہ اور ابن القیم کا کوئی قول یا فتوٰی نہیں ملے مگر ایسا ہرگز نہیں کے وہ مسلمان ہیں۔۔۔ اُن کی ہی کی تعلیمات اور دلائل سے ہم اس بات میں فرق کرسکتے ہیں کہ وہ کافر ہیں۔۔۔ اسی طرح آئمہ کرام کا کسی معاملے میں مطلق مخالف ہونا یہ سند نہیں ہے کہ بعد والے اس کے نام پر نفس کی تقلید شروع کردیں۔۔۔ اس لئے آپ سے درخواست ہے اپنا اور ہمارا قیمتی وقت بچائیں اور اس کو کسی تعمیری کام میں صرف کیجئے ایک بندے نے اپنے عقل سے شریعت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہنے دیں میں نہیں چاہتا کے بدکلامی ہوجائے اس لئے شیخ اپنی اپنی دیکھ۔۔۔ والسلام۔۔۔
میرے بھائی میرے دلائل کی کوئی وقعت نہیں آپکی مان لیتےہیں۔اللہ آپکو خوش وخرم رکھیں۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
میرے بھائی میرے دلائل کی کوئی وقعت نہیں آپکی مان لیتےہیں۔اللہ آپکو خوش وخرم رکھیں۔
عقیل بھائی!۔۔۔ میں نے اس ہی لئے کہا تھا وقعت سے مراد آپ نے کیا لیا؟؟؟۔۔۔
دیکھیں بات آپ اسلاف کی کرتے ہیں۔۔۔
اور خود کہتے ہیں کے یہ سلسلہ امرتسر سے شروع ہوا۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ منہج اہلحدیث کا ہے تو پھر سب سے زیادہ مزاحمت اہلحدیث حضرات ہی کیوں کررہے ہیں۔۔۔
اس تصوف کی آپ سے تزکیہ اور احسان کے تعلق سے اس کی تعریف پوچھی تھی وہ بھی آپ نے نہیں بتائی۔۔۔
دیکھیں آپ پہلے اپنے موقف کو پوری طرح پیش تو کیجئے۔۔۔ تصوف کے سلسلوں پر بھی آپ سے سوال ہوا آپ نے جواب نہیں دیا۔۔۔
یہ بھی کہا کہ ہر سلسلہ قدر مختلف ہے عقائد اور عمل میں دوسرے سے کیوں؟؟؟۔۔۔
آپ ہمیں پہلے ہمارے سوالوں کے تسلی بخش جواب تو دیں۔۔۔ بھائی۔۔۔
 
Top