• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شریعت ،طریقت،معرفت کی حقیقت

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
عقیل بھائی!۔۔۔ میں نے اس ہی لئے کہا تھا وقعت سے مراد آپ نے کیا لیا؟؟؟۔۔۔
دیکھیں بات آپ اسلاف کی کرتے ہیں۔۔۔
اور خود کہتے ہیں کے یہ سلسلہ امرتسر سے شروع ہوا۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ منہج اہلحدیث کا ہے تو پھر سب سے زیادہ مزاحمت اہلحدیث حضرات ہی کیوں کررہے ہیں۔۔۔
اس تصوف کی آپ سے تزکیہ اور احسان کے تعلق سے اس کی تعریف پوچھی تھی وہ بھی آپ نے نہیں بتائی۔۔۔
دیکھیں آپ پہلے اپنے موقف کو پوری طرح پیش تو کیجئے۔۔۔ تصوف کے سلسلوں پر بھی آپ سے سوال ہوا آپ نے جواب نہیں دیا۔۔۔
یہ بھی کہا کہ ہر سلسلہ قدر مختلف ہے عقائد اور عمل میں دوسرے سے کیوں؟؟؟۔۔۔
آپ ہمیں پہلے ہمارے سوالوں کے تسلی بخش جواب تو دیں۔۔۔ بھائی۔۔۔
میرے دوست شاید میں نالائق ہوں جو اپنی بات سمجھا نہیں سکا،میری ہر گز یہ مراد نہیں تھی کہ یہ سلسلہ امرتسر سے شروع ہوا ۔
دوسرا سوال اہلحدیث کی مزحمت تو بھائی ان سے بہتر لوگوں کا تصوف سلوک آپ کے سامنے رکھا ہے اس پر مزید بات ہو گئی
تصوف کی تعریف اور سلاسل اور ہر سلسلہ کی مختلف اقدار۔۔۔۔۔۔ آپ ایک ایک کر کے سوال سامنے لے کر آئے تا کہ ہر بات پر ہر پہلو سے تفصیلی بات ہو سکے آپ تھریڈ کوئی اور یوز کریں۔یہ مولانا عمران اسلم صاحب کے لئے رہنے دے۔طریق اسلوک میں آپ ایک ایک کر کے بات سامنے لے کر آئے نیز وضاحت کریں کہ یہ کنفیوزا دور کرنے کے لئے پو چھا جا رہا ہے نہ کہ کوئی تنقید یا اعتراض ہے،کیونکہ جب اعتراض ہو تا تو جواب ہور ہوتا ہے اور سوال جب ہوگا تو اسکا جواب قدرے مختلف ہو گا۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
،میری ہر گز یہ مراد نہیں تھی کہ یہ سلسلہ امرتسر سے شروع ہوا ۔
چلیں پہلا سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کہاں شروع ہوا؟؟؟۔۔۔
اور اس کو متعارف کروانے والے کون تھے؟؟؟۔۔۔
اور اس کی وجہ کیا بنی یا تصوف کو کس لئے طریقے کے طور پر شروع کیا؟؟؟۔۔۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
چلیں پہلا سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کہاں شروع ہوا؟؟؟۔۔۔
اور اس کو متعارف کروانے والے کون تھے؟؟؟۔۔۔
اور اس کی وجہ کیا بنی یا تصوف کو کس لئے طریقے کے طور پر شروع کیا؟؟؟۔۔۔
یہاں آ جائیے۔http://www.kitabosunnat.com/forum/%D8%A7%DB%81%D9%84-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-153/%D8%B5%D9%88%D9%81%DB%8C%D8%A7%D8%A1-%D8%A7%DB%81%D9%84%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D8%B1%D8%AD%D9%85%D8%AA%DB%81-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%AA%D8%B9%D8%A7%D9%84%DB%8C%D9%B0-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%B7%D8%B1%DB%8C%D9%82-%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D9%88%DA%A9-10784/
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
ایک مرتبہ حضرت ابو موسی اشعری حضرت عبد اللہ بن مسعود کے گھر آئے اور ان سے کہا : میں نے ابھی مسجد میں ایک چیز دیکھی ہے جسے میں درست نہیں سمجھتا حالانکہ میں نے الحمد للہ خیر ہی کو دیکھا ہے ! اُنھوں نے کہا : وہ کیا ہے ؟

ابو موسی نے کہا : آپ خود جب مسجد میں جائیں گے تو آپ بھی دیکھ لیں گے ۔ میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ مختلف حلقوں میں بیٹھے نماز کا انتظار کر رہے ہیں ، ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں او رہر حلقہ میں ایک آدمی باقی لوگوں سے کہتا ہے کہ تم سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو ، تو وہ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ تم سو مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھو ، تو وہ سو مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اب تم سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو وہ سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھتے ہیں!

عبد اللہ بن مسعود نے کہا : آپ نے یہ سب کچھ دیکھ کر اُن سے کیا کہا ؟

اُنھوں نے جواب دیا : میں نے آپ کی رائے کے انتظار میں انھیں کچھ بھی نہیں کہا ۔

عبد اللہ بن مسعود نے کہا : آپ نے انھیں یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنے گناہوں کو شمار کریں ( نہ کہ نیکیوں کو) اور آپ انھیں ضمانت دیتے کہ تمھاری نیکیوں میں سے کوئی نیکی ضائع نہیں ہو گی!

پھر عبد اللہ بن مسعود مسجد میں آئے اور اُن حلقوں میں سے ایک حلقہ کے پاس جا کر فرمایا : یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ لوگوں نے کہا : ابو عبد الرحمٰن ! یہ کنکریاں ہیں جن کے ذریعے ہم اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کی تسبیحات شمار کر رہے ہیں !

عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا : تم اپنی برائیاں شمار کرو اور میں تمھیں ضمانت دیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی ۔ پھر فرمایا :

«وَیْحَکُمْ یَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَکَتُکُمْ، هٰؤلاَءِ صَحَابَةُ نَبِیِّکُمْ مُتَوَافِرُوْنَ وَهٰذِه ثِیَابُهُ لَمْ تَبْلُ وَآنِیَتُهُ لَمْ تُکْسَرْ، وَالَّذِيْ نَفْسِي بِیَدِه إِنَّکُمْ لَعَلى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدٰی مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ أَوْ مُفْتَتِحُو بَابَ ضَلاَلَةٍ؟»
'' افسوس ہے تم پر اے امتِ محمدﷺ ، تم کتنی جلدی ہلاکت کی طرف چل دئیے! یہ تمھارے نبیﷺ کے صحابہ ابھی بکثرت موجود ہیں ، اور آپ ﷺ کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ کے برتن ابھی ٹوٹے ہیں ، اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم محمد ﷺ کے طرز ِعمل سے بہتر طرزِ عمل پر ہو یا تم گمراہی کا ایک دروزاہ کھول رہے ہو! ''
لوگوں نے کہا : وَاللهِ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَیْرَ
ابو عبد الرحمٰن ! اللہ کی قسم ہم نے تو خیر کا ہی ارادہ کیا تھا ۔
اُنھوں نے فرمایا : وَکَمْ مِنْ مُرِیْدٍ لِلْخَیْرِ لَن یُّصِیْبَهُ
"کتنے لوگ ہیں جو خیر کا ارادہ کرتے ہیں لیکن وہ خیر کو ہرگز نہیں پا سکیں گے ۔"
[سنن الدارمی : 206]
عقیل بھائی ان لوگوں کا کہنا’’ اللہ کی قسم ہم نے تو خیر کا ہی ارادہ کیا تھا۔‘‘ ان کا یہ ’اجتہاد‘ درست تھا یا غلط؟ اگر غلط تھا تو اس کی وجہ بتا دیجئے۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
ایک مرتبہ حضرت ابو موسی اشعری حضرت عبد اللہ بن مسعود کے گھر آئے اور ان سے کہا : میں نے ابھی مسجد میں ایک چیز دیکھی ہے جسے میں درست نہیں سمجھتا حالانکہ میں نے الحمد للہ خیر ہی کو دیکھا ہے ! اُنھوں نے کہا : وہ کیا ہے ؟

ابو موسی نے کہا : آپ خود جب مسجد میں جائیں گے تو آپ بھی دیکھ لیں گے ۔ میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ مختلف حلقوں میں بیٹھے نماز کا انتظار کر رہے ہیں ، ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں او رہر حلقہ میں ایک آدمی باقی لوگوں سے کہتا ہے کہ تم سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو ، تو وہ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ تم سو مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھو ، تو وہ سو مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اب تم سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو وہ سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھتے ہیں!

عبد اللہ بن مسعود نے کہا : آپ نے یہ سب کچھ دیکھ کر اُن سے کیا کہا ؟

اُنھوں نے جواب دیا : میں نے آپ کی رائے کے انتظار میں انھیں کچھ بھی نہیں کہا ۔

عبد اللہ بن مسعود نے کہا : آپ نے انھیں یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنے گناہوں کو شمار کریں ( نہ کہ نیکیوں کو) اور آپ انھیں ضمانت دیتے کہ تمھاری نیکیوں میں سے کوئی نیکی ضائع نہیں ہو گی!

پھر عبد اللہ بن مسعود مسجد میں آئے اور اُن حلقوں میں سے ایک حلقہ کے پاس جا کر فرمایا : یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ لوگوں نے کہا : ابو عبد الرحمٰن ! یہ کنکریاں ہیں جن کے ذریعے ہم اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کی تسبیحات شمار کر رہے ہیں !

عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا : تم اپنی برائیاں شمار کرو اور میں تمھیں ضمانت دیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی ۔ پھر فرمایا :

«وَیْحَکُمْ یَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَکَتُکُمْ، هٰؤلاَءِ صَحَابَةُ نَبِیِّکُمْ مُتَوَافِرُوْنَ وَهٰذِه ثِیَابُهُ لَمْ تَبْلُ وَآنِیَتُهُ لَمْ تُکْسَرْ، وَالَّذِيْ نَفْسِي بِیَدِه إِنَّکُمْ لَعَلى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدٰی مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ أَوْ مُفْتَتِحُو بَابَ ضَلاَلَةٍ؟»

لوگوں نے کہا : وَاللهِ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَیْرَ

اُنھوں نے فرمایا : وَکَمْ مِنْ مُرِیْدٍ لِلْخَیْرِ لَن یُّصِیْبَهُ [سنن الدارمی : 206]
عقیل بھائی ان لوگوں کا کہنا’’ اللہ کی قسم ہم نے تو خیر کا ہی ارادہ کیا تھا۔‘‘ ان کا یہ ’اجتہاد‘ درست تھا یا غلط؟ اگر غلط تھا تو اس کی وجہ بتا دیجئے۔
محترم جناب مولانا عمران اسلم صاحب آپ نے بہت اچھا کیا جو یہ حدیث یہاں نقل کر دی،کیونکہ بہت سارے احباب اس حدیث کی بنیاد پرحلقہ ذکر ،اور گنتی کرکے ذکر کرنے کو (یعنی تسبح یا کا ونٹر سے) بد عت میں شمار کرتے ہیں۔آپ بس اس حدیث سے جو جو نتائج اخذ کر رہے ہیں وہ بیان فرما دے۔پھر دیکھتے ہیں کیا حلقہ ذکر و مجالس،اور ذکر اللہ ،تسبیحات وغیرہ گنتی کر کے پڑ ھنے کا کسی صیح حدیث سے بھی ثابت ہے اور یہ بھی تلاش کریں گے کہ صحابہ رضوان اللہ تسبیحات کو گنتی کر کے کیسے پڑھتے تھے۔اگر حلقہ ذکر اور تسبیحات وغیرہ گنتی کر کے پڑھنا صیح حدیث سے ثابت ہو جائے تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ آپ کی طرف سے یہ پیش کردہ حدیث کیا درجہ رکھتی ہے۔لہذا آپ جو کچھ بھی اس حدیث ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ ہمیں بتا دیجئے ۔کیونکہ بدعات کی تعریفات پر بھی آپ نے آپنے آشکال سے ہمیں آگا ہ نہیں فرمایا۔
جی ایک بات آخر میں یاد آ گئی کے یہ حدیث مکمل عربی متن کیساتھ پیش کریں۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
نتائج کو چھوڑیے آپ صرف اتنا کیجئے کہ ہائی لائٹ کردہ الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے میرے سوال کا جواب دے دیجئے بس!!
حضرت میری سمجھ کے مطابق یہ حدیث مکمل نہیں لکھی گئی ہے ،آپ عربی متن کیساتھ مکمل حدیث لکھے۔تا کہ حدیث کی سند تو دیکھی جا سکے،کیونکہ حلقہ ذکر اور گنتی کر کے تسبیحات پڑھنے پر کوئی اختلاف نہیں۔
 

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
حضرت میری سمجھ کے مطابق یہ حدیث مکمل نہیں لکھی گئی ہے ،آپ عربی متن کیساتھ مکمل حدیث لکھے۔تا کہ حدیث کی سند تو دیکھی جا سکے،کیونکہ حلقہ ذکر اور گنتی کر کے تسبیحات پڑھنے پر کوئی اختلاف نہیں۔
أخبرنا الحكم بن المبارك انا عمر بن يحيى قال سمعت أبي يحدث عن أبيه قال : كنا نجلس على باب عبد الله بن مسعود قبل صلاة الغداة فإذا خرج مشينا معه إلى المسجد فجاءنا أبو موسى الأشعري فقال أخرج إليكم أبو عبد الرحمن بعد قلنا لا فجلس معنا حتى خرج فلما خرج قمنا إليه جميعا فقال له أبو موسى يا أبا عبد الرحمن اني رأيت في المسجد أنفا أمرا أنكرته ولم أر والحمد لله الا خيرا قال فما هو فقال ان عشت فستراه قال رأيت في المسجد قوما حلقا جلوسا ينتظرون الصلاة في كل حلقة رجل وفي أيديهم حصا فيقول كبروا مائة فيكبرون مائة فيقول هللوا مائة فيهللون مائة ويقول سبحوا مائة فيسبحون مائة قال فماذا قلت لهم قال ما قلت لهم شيئا انتظار رأيك أو انتظار أمرك قال أفلا أمرتهم ان يعدوا سيئاتهم وضمنت لهم ان لا يضيع من حسناتهم ثم مضى ومضينا معه حتى أتى حلقة من تلك الحلق فوقف عليهم فقال ما هذا الذي أراكم تصنعون قالوا يا أبا عبد الله حصا نعد به التكبير والتهليل والتسبيح قال فعدوا سيئاتكم فأنا ضامن ان لا يضيع من حسناتكم شيء ويحكم يا أمة محمد ما أسرع هلكتكم هؤلاء صحابة نبيكم صلى الله عليه و سلم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل وأنيته لم تكسر والذي نفسي بيده انكم لعلي ملة هي أهدي من ملة محمد أو مفتتحوا باب ضلالة قالوا والله يا أبا عبد الرحمن ما أردنا الا الخير قال وكم من مريد للخير لن يصيبه ان رسول الله صلى الله عليه و سلم حدثنا أن قوما يقرؤون القرآن لا يجاوز تراقيهم وأيم الله ما أدري لعل أكثرهم منكم ثم تولى عنهم فقال عمرو بن سلمة رأينا عامة أولئك الحلق يطاعنونا يوم النهروان مع الخوارج
قال حسين سليم أسد : إسناده جيد

علامہ البانی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ : 2005)
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
کیونکہ حلقہ ذکر اور گنتی کر کے تسبیحات پڑھنے پر کوئی اختلاف نہیں۔
حلقہ ذکر کی ذرا تعریف کر دیجئے؟؟؟۔۔۔ اور
گنتی کر کے تسبیحات پڑھنے پر دلیل پیش کیجئے!
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
أخبرنا الحكم بن المبارك انا عمر بن يحيى قال سمعت أبي يحدث عن أبيه قال : كنا نجلس على باب عبد الله بن مسعود قبل صلاة الغداة فإذا خرج مشينا معه إلى المسجد فجاءنا أبو موسى الأشعري فقال أخرج إليكم أبو عبد الرحمن بعد قلنا لا فجلس معنا حتى خرج فلما خرج قمنا إليه جميعا فقال له أبو موسى يا أبا عبد الرحمن اني رأيت في المسجد أنفا أمرا أنكرته ولم أر والحمد لله الا خيرا قال فما هو فقال ان عشت فستراه قال رأيت في المسجد قوما حلقا جلوسا ينتظرون الصلاة في كل حلقة رجل وفي أيديهم حصا فيقول كبروا مائة فيكبرون مائة فيقول هللوا مائة فيهللون مائة ويقول سبحوا مائة فيسبحون مائة قال فماذا قلت لهم قال ما قلت لهم شيئا انتظار رأيك أو انتظار أمرك قال أفلا أمرتهم ان يعدوا سيئاتهم وضمنت لهم ان لا يضيع من حسناتهم ثم مضى ومضينا معه حتى أتى حلقة من تلك الحلق فوقف عليهم فقال ما هذا الذي أراكم تصنعون قالوا يا أبا عبد الله حصا نعد به التكبير والتهليل والتسبيح قال فعدوا سيئاتكم فأنا ضامن ان لا يضيع من حسناتكم شيء ويحكم يا أمة محمد ما أسرع هلكتكم هؤلاء صحابة نبيكم صلى الله عليه و سلم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل وأنيته لم تكسر والذي نفسي بيده انكم لعلي ملة هي أهدي من ملة محمد أو مفتتحوا باب ضلالة قالوا والله يا أبا عبد الرحمن ما أردنا الا الخير قال وكم من مريد للخير لن يصيبه ان رسول الله صلى الله عليه و سلم حدثنا أن قوما يقرؤون القرآن لا يجاوز تراقيهم وأيم الله ما أدري لعل أكثرهم منكم ثم تولى عنهم فقال عمرو بن سلمة رأينا عامة أولئك الحلق يطاعنونا يوم النهروان مع الخوارج
قال حسين سليم أسد : إسناده جيد

علامہ البانی نے بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ : 2005)
اگر ہو سکے تو جلد نمبر اور صفحہ نمبر بھی بتا دے۔
حضرت میں اس فن کا آدمی نہیں ہوں ۔علماء کے دامن سے جو خوشہ چینی کی وہ یہ ہے۔
علامہ غلام رسول صاحب (کتاب ذکر بالجہر )اس اثر کی سند پر گفتگو کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔
اس میں ایک راوی ہے عمر بن یحیٰی جس کو حافظ ابو نعیم نے متروک الحدیث لکھا ہے اور حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ شخص شعبیہ سے مشابہ بالموضوعات احادیث روایت کرتا تھایعنی من گھڑت ، اور دار قطنی نے بھی اسے ضعیف لکھا ہے ۔ لسان المیزان ج 4 ص337
اور اگر فرض کیا یہ حدیث صیح بھی ہو تو حضرت صوفیا ء کا موقف یہ ہے
پروفیسر سید ابو بکر غزنوی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے ان (یعنی اپنے والد محترم حضرت سید داؤ غزنوی ؒ ) کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ جو صوفیاء کے لطائف کی مشق ہے،نفی اثبات کا مخصوص طریقہ ہے ،یا حبس دم کا شغل ہے،کیا یہ بدعات ہیں ،تو حضرت نے فرمایا:۔
’’یہ بزرگان کرام کا اجتہاد ہے‘‘
میں نے عرض کیا: اس اجتہاد کی علت کیا ہے؟
فرمانے لگے:۔
’’ نزولِ انوار دفع وسواس ہوتا ہے،پھر انوارِ رسالت بالخصوص انوار رسالت محمدّیہ بدرجہ اتّم دافع وسواس تھے۔جب انواررسالت منقطع ہوگئے،تو وسواس ابھرنے لگے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی باقی نہ رہی۔قران کے اس حکم پر عمل مشکل ہوا کہ اٹھتے بیٹھتے پہلو بدلتے ہوئے اللہ کا ذکر کرو۔حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ واسلام ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے، انواراتِ رسالت کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے دوام ذکر ممکن العمل نہ رہا۔پس دوامِ ذکر حاصل کرنے کے لئے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی پیدا کرنے کے لئے بزرگانِ اکرام نے اجتہاد کیا۔‘
اور یہ ایسے ہی جیسے ضرورت پڑھنے پر قرآن کو لکھ گیا پھر زیر زبر، اور یوں قرآن حفظ کرنے کا طریقہ ،سبق سبقی منزل،اور دیگر دینی علوم حاصل کرنے کے طریقے ،اسی طرح اصطلاحات فقہا ومحدثین وغیرہ وغیرہ ۔پس یہ بھی ضرورت کے تحت ہے۔اور آپ کا اس حدیث کا طریق ذکر پر انطباق کرنا بے محل ثابت ہو تا ہے۔
اور مطلق اجتماعی ذکر کا انکار تو ہو نہیں سکتا اس پر تو قرآن و حدیث سے صریح دلائل ہیں اور آخری میں یہ بھی واضح ہے۔
فقال عمرو بن سلمة رأينا عامة أولئك الحلق يطاعنونا يوم النهروان مع الخوارج
اور حقیقت وہی ہے جو علامہ صاحب نے بیان کی ہے۔
 
Top