• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شعائر اسلام کا استہزا اور آزادی اظہار کی حدود

شمولیت
جولائی 31، 2011
پیغامات
67
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
71
شعائر اسلام کا استہزا اور آزادی اظہار کی حدود


بسم اللہ الرحمن الرحيم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گزشتہ کچھ سالوں سے دنيا بھر ميں اہانت مقدسات (blasphemy) كے افسوس ناك واقعات ايك تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں ، ان واقعات ميں خاص طور پر دين اسلام كے متعلق جرائم زيادہ نماياں ہیں۔ اس صورت حال ميں ہوناتو يہ چاہیے تھا كہ مسلمان اپنے دين متين كے ليے پہلے سے زيادہ حساس ہوجاتے اور اس كا جوانمردى سے دفاع كرتے مگر دكھ كى بات يہ ہے کہ بعض نام نہاد "تعليم يافتہ" مسلمان رفتہ رفتہ دينى حميت كى دولت سے محروم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
اگر آزادى اظہار كا يہ معنى ہے كہ انسان بلا سوچے سمجھے كچھ بھی کہہ سكے تو يہ آزادى معاشرے کے ليے زہر قاتل ہے۔
ايك مقولہ ہے کہ: " تمہیں چھڑی گھمانے کی آزادی ہے مگر جہاں كسى كى ناک شروع ہوتی ہے وہاں تمہاری آزادی ختم ہو جاتی ہے ۔" آزادى اظہار كے نام پر دوسروں كى ذاتيات ميں مخل ہونے ، ان كے مذہبى جذبات كو مجروح كرنے اور ان كى مقدسات كا مذاق اڑانے كى اجازت قطعا نہیں دى جا سكتى۔
بحيثيت ايك مسلمان اور پاكستانى ميرے ليے بہت دكھ كا مقام ہے كہ اسلام اور دوقومى نظريے کے حامى ہونے كا دعوى كرنے والے ايك نظرياتى اشاعتى گروپ کے ايك آرگن اخبار ميں 07 اگست سنہ 2011ء كو شائع ہونے والے ايك كالم ميں اركان اسلام ميں سرفہرست ركن "توحيد" اور توحيد كى تلقين كرنے والوں كا مذاق اڑايا گیا ۔
ايك فوت شدہ عالم دين كے الفاظ كا حوالہ دے كر جو بات کہی گئی ہے وہ اس قدر ركيك اور افسوس ناك ہے كہ ايك مسلمان كا قلم اس كو نقل كرنے كى جسارت نہیں كرسكتا ۔
اسلام كے پانچ بنيادى اركان ہیں۔ ان ميں سرفہرست توحيد ہے۔ اسلام ميں داخل ہونے والا شخص اقرار توحيد_"لا الہ الا اللہ ") كيے بغير مسلمان نہیں کہلا سكتا ۔
حضرت جبريل عليہ السلام نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائے اور صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كو تعليم دينے كى غرض سے نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استفسار كيا: مجھے بتائيے اسلام كيا ہے ؟ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: أن تؤمن بالله وملائکته وکتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره . ترجمہ: "اس بات کی شہادت دینا کہ اﷲکے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اﷲ کے رسول ہیں ۔نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور اگر استطاعت ہو تو بیت اﷲکا حج کرنا ۔" (متفق عليہ)
ہمارے معلم ، مربى و مرشد حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك فرمان مبارك ميں توحيد كو جہنم سے آزاد كردينے والا عمل بتايا ہے
:"فإن الله قد حرم على النار من قال "لا إله إلا الله" يبتغي بذلك وجه الله ۔ترجمہ: " اللہ تعالی اس انسان پر دوزخ حرام کردیتا ہے جو لا الہ الا اللہ كہے اور اس كى نيت صرف اللہ كى خوشنودى حاصل كرنا ہو۔"
جب كہ دوسرى طرف توحيد كى ضد شرك ہے جس كے متعلق كلام حكيم ميں صراحت سے مذكور ہے کہ يہ تمام اعمال كا غارت گر ہے ۔
ارشاد بارى تعالى ہے:
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ترجمہ: یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا ۔ (سورة الزمر: آيت 65)
جب اقرار توحيد اس قدر عظيم وسعيد عمل ہے اور شرك اس قدر تباہ كن تو كيا وجہ ہے كہ ايك مسلمان دوسرے انسانوں كو درد مندى سے توحيد كى دعوت نہ دے اور شرك نامى قبيح عمل سے بچانے كى كوشش نہ كرے جب كہ يہ حبيب مكرم حضرت محمد مصطفى صلى اللہ عليہ وسلم كى وصيت بھی ہو؟
بنى آدم كو توحيد كى دعوت دينے كے متعلق نبي آخر الزماں حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے واضح الفاظ ميں بار بار وصيت فرمائی ہے،
حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ جب حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضي اللہ عنہ كو يمن روانہ فرمايا تو حكم ديا : " تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔(فليكن أول ما تدعوهم إليه أن يوحدو الله) تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی گواہی کی طرف دعوت دینا وہ اللہ تعالی کی توحید کا اقرار کرلیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو اہل ثروت سے لے کر کے فقرا اور مساكين میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو ان کے عمدہ اور قیمتی اموال (بطور زكوة) لینے سے احتیاط کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ۔ ( متفق عليہ)
اس حديث شريف سے يہ بات واضح ہے کہ دعوت اسلام ميں دعوت توحيد پہلا بنيادى فريضہ ہے۔ اگر كوئى اس كو قبول كرتا ہے تو وہ مسلمان ہے اور اس كے بعد ہی اسے باقى اسلامى اعمال بجا لانے كى دعوت دى جائے گی ۔
اگر قرآن مجيد كى سورة الأنبياء كا مطالعہ كيا جائے تو معلوم ہوتا ہے كہ دعوت توحيد صرف امت اسلام كا فريضہ ہی نہیں بلكہ اللہ سبحانہ وتعالى كے مبعوث كردہ تمام رسل كرام اپنے اپنے وقت ميں اقرار توحيد كرتے رہے اور دعوت توحيد كى اس عظيم ذمہ دارى كو نبھاتے رہے ہیں،
فرمان رب كريم ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو ۔(سورة الأنبياء : 21)
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
ترجمہ: ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ (سورة النحل : آيت 36)
قائين كرام يہ توحيد ، شرك اور دعوت توحيد كے متعلق دين اسلام كى واضح تعليمات كا صرف ايك حصہ ہے جو مختصرا ذكر كرنے كى كوشش كى گئی ہے۔ اب ملاحظہ فرمائيے كہ توحيد كى دعوت كس قدر نيك افضل اور اعلى عمل ہے،كہ يہ تمام رسولوں كى دعوت كا تسلسل ہے۔ اس كے بعد بھی اگر ايك مسلمان قلم كار اپنے قلم سے وہ بات لكھتا ہے جو اس تحرير کے آخر ميں موجود اميج ميں واضح ہے تو كس قدر تكليف دہ اور شرم ناك بات ہے ؟
وہ سعادت مند انسان جو دعوت توحيد ميں اپنی تمام تر صلاحيتيں شب وروز آزما رہے ہیں وہ ان شيطانى فقروں سے دل گیر نہ ہوں۔ سچائى كى دعوت کا ہر عہد ميں مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور يہ استہزا دعوت حق كے حاميوں کے اجرو ثواب ميں ہميشہ اضافے كا باعث ہی بنا ہے قرآن كريم كى يہ خوب صورت آيات كريمہ داعيان حق كى ہمت افزائى كے ليے كافى ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ
گنہگار لوگ ایمان والوں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے
وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ
اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھ کےاشارے کرتے تھے
وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ
اور جب اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگی کرتے تھے
وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ
اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراه ہیں
وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ
یہ ان پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجے گئے
فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ
آج ایمان والے ان کافروں پر ہنسیں گے
سورة المطففين: 29 تا 34
ان ركيك الفاظ كے ليے جن عالم دين كا حوالہ ديا گیا ہے وہ دارالعلوم ديوبندکے فارغ التحصيل تھے ، اب اس جہان ميں ہیں جہاں انسان اپنے اعمال كا حساب صاف صاف چكاتا ہے اور كوئى تاويل كام آتى ہے نہ كوئى كمك پہنچتى ہے لہذا ان سے تصديق اب ممكن نہیں، ليكن ان كے اولاد واحفاد كا فرض ہے كہ وہ اس قول تصديق يا ترديد كريں ، جب کہ مذكورہ كالم نگار سے ہمارى دردمندانہ درخواست ہے کہ اپنے الفاظ پر غور كريں اور اس رب سے ڈریں جس نے انسان كو پيدا كيا اور اس كو " بيان " سكھايا ۔ يہ قوت نطق ، يہ قوت تحرير اس كى دى ہوئى نعمتيں ہیں ان كو اس قادر مطلق كى شكر گزارى ميں استعمال كيا جائے تو نجات كا ذريعہ ، اور اس كے نازل كردہ دين كے استہزا كے ليے رو بہ عمل لايا جائے تو اعمال نامے كا سياہ باب ۔مقام حيرت ہے كہ معيارى صحافت كا دعويدار روزنامہ ، مسلمانوں کے ايك مقدس مہینے ميں ايسى دل آزار سطور كو شائع كرنے كى اجازت كيسے دے سكتا ہے؟
اللہ سبحانہ وتعالى ہميں ان اعمال كى توفيق دے جس سے وہ راضى ہوتا ہے اور ان اعمال سے محفوظ فرمائے جن سے اس كا غضب نازل ہوتا ہے۔



معذرت خواہ ہوں مذكورہ كالم كا یہ اميج تحرير كے ساتھ شئير كرنا تھا مگر اٹیچمنٹس ميں ايرر كی وجہ سے ممكن نہ ہو سكا ، اب حاضر ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
معذرت خواہ ہوں مذكورہ كالم كا یہ اميج تحرير كے ساتھ شئير كرنا تھا مگر اٹیچمنٹس ميں ايرر كی وجہ سے ممكن نہ ہو سكا ، اب حاضر ہے۔
جزاکم اللہ خیرا کثیرا بہن۔ آپ کی پہلی پوسٹ میں بھی متعلقہ امیج ترمیم کر کے شامل کر دی ہے۔ دراصل فورم کا اٹیچ منٹ فیچر شروع ہی سے خراب ہے اور کوئی اتنی خاص توجہ اب تک کر نہیں پائے۔ یہ ایڈیٹر والے مسئلے مسائل سے فراغت ہو تو ان شاءاللہ یہ اٹیچ منٹس پر بھی کام کرتے ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ایک غلط فہمی :کہ آزا دیٔ فکر کا تقاضا ہے کہ لوگوں کو کافر نہ کہاجائے

حمود بن عقلاء الشعبي رحمہ اللہ

ہمارے سامنے ایک سوال آیا ہے جس میں استدعاکی گئی ہے کہ بعض منحرفین ایسے ہیں کہ ان کی عزت کی جانے چاہئے ۔ان کا استقبال کیاجائے انہیں مواقع دئیے جائیں کہ وہ اپنے خیالات ،جدیدادب اور متعفن خیالات پھیلاسکیں ۔مثلاً:
۱) محموددرویش فلسطینی جوکہ اسرائیل میں ایک قومی پارٹی کا رکن ہے ۔اپنے ایک دیوان میں کہتا ہے کہ :اﷲکی آنکھ سوئی ہوئی ہے۔
۲) سمیح القاسم الدرزی فلسطینی(پارٹی ممبر)یہ اپنے کسی دیوان میں کہتاہے ۔اﷲتعالیٰ کس ہتھیلی سے مٹی ۔غبار اور د ھواں اڑائے گااور چنگاریاں پھینکے گا؟۔
۳) ایساری السعودی۔
۴) ترکی محمد جنہوں نے اﷲکی شان میں گستاخیاں کی ہیں۔
اس طرح ہم سے اس بات کی بھی وضاحت کی استدعا کی گئی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ادبی تحریروں یا تقریروں کی بناپر کسی پر فتوی یا کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا یا جولوگ کہتے ہیں آزاد یٔ فکر کا تقاضایہ ہے کہ ہم کسی پر کفر کا فتوی نہ لگائیں بلکہ ان کا معاملہ اﷲکے سپرد کردیں ۔
جواب: پہلی بات کہ ان لوگوں کو اپنے خیالات ونظریات کی ا شاعت کا موقعہ دینا چاہیے تو یہ بہت بری اور ناپسندیدہ ومنکربات ہے بلکہ حرام ہے ۔ان کے خیالات کو پھیلنے سے روکنا )جبکہ یہ لوگ اﷲورسول صلی اﷲعلیہ وسلم کے گستاخی کرتے ہیں(دینی فریضہ ہے جو ہر عالم پر لازم ہے اور حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے بلکہ تمام مسلمانوں کا فرض ہے ۔اہل علم کا ہما ری اس بات پر اتفاق ہے ۔ہر شخص جانتا ہے کہ جس شخص نے زبان سے کفریہ کلمہ نکالا ۔اﷲ کو یا اس کے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کو گالی دی یا دین اسلام کو برابھلا کہا تو ایسے شخص پر توبہ کرائے بغیر فوراً مرتد کی حد جاری کی جائے گی جیسا کہ حدیث لایحل دم امریٔ مسلم اور قصہ معاذ بن جبل رضی اﷲعنہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک آدمی مسلمان ہونے کے بعد یہودی تھا تومعاذ رضی اﷲعنہ نے کہا تھا کہ میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اس آدمی کو قتل نہ کردیا جائے یہ اﷲاور اس کے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کافیصلہ ہے ۔اس طرح دیگر احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے ۔
جب اکثر علماء کی رائے ایسے لوگوں کے بارے میں اس طرح کی ہے تو پھر ان کی عزت کیسے جائز ہوسکتی ہے انہیں گمراہی پھیلانے کی اجازت کس طرح د ی جاسکتی ہے اگر ان کی عزت کی جائے تو انہیں اپنے گمراہ کن اور اﷲورسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی گستاخی پرمبنی خیالات پھیلانے کی اجازت دی جائے تو یہ اﷲاور اس کی شریعت کے ساتھ مقابلہ شمار ہوگااﷲاور اس کے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی توہین وتحقیر ہو گی ۔دوسری بات یہ ہے کہ کفر بدعت گمراہی اور فسق پر مبنی کلمات کی مذمت اور انہیں روکنا علماء کی رائے میں لازم اور واجب ہے چاہے کہنے والے کو کافر قرار دیا جاچکا ہو یا نہیں ان کلمات کی مذمت ہرحال میں لازم اور ضروری ہے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ باتیں ادب سے متعلق ہیں اور ادبیات کی بناپر کسی پر فتوی نہیں لگایا جاتا۔ یہ بات کہنے والے کے بارے میں اگر بہتر سے بہتر تبصرہ کریں تو یہی کہیں گے کہ یہ شخص شریعت سے لاعلم ہے لہٰذا اسے اﷲاور شریعت کے بارے میں بات ہی نہیں کرنی چاہیے ۔ خاص کر اتنے اہم اور خطرناک مسائل کو تو چھیڑنا ہی ایسے شخص کے لئے جائز نہیں ہے ۔جو شخص اس طرح کی باتیں کرتا ہے اور اسے ادب کانام دیتا ہے جو کہ کفر پر مبنی ہوتی ہیں تو ایسے شخص سے متعلق ہم یہ کہیں گے کہ یا تو اس کا عقیدہ بھی وہی ہے جو اس نے لکھا ہے یا اس نے اس وجہ ایسی باتیں اس نے لکھی ہیں کہ اس کے دل میں خلجان شکوک وشبہات ہیں شعوری یالاشعوری طور پر بدعت پر مبنی باتیں لکھی ہیں۔اگر پہلی بات ہے تو دلائل شرعیہ اور علماء کے اجماع کے مدنظر یہ شخص بلاشک وشبہ مرتد ہے بغیر توبہ کرائے قتل کیاجائے گا جیساکہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں اورکتب عقائد میں تفصیلات موجود ہیں ۔لہٰذا ان باتوں کو ادب کہہ کر جائز قراردینے والوں کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ کوئی رائے دینے سے قبل علماء سے رابطہ کیا کریں ۔اگر بات دوسری ہے یعنی لکھنے والے نے صرف ادب برائے ادب لکھاہے تو پھر ان کے بارے میں قرآن کا حکم ہے کہ ان باتوں کی بناپر انہیں کافر قرار دیا جائے کہ انہوں نے مذاق اورکھیل میں شریعت اور اﷲ کا مذاق اڑایا ہے ۔قرآن میں ارشاد ہے۔
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (٦٥)لا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (توبۃ )
’’اگر آپ ان سے پوچھیں تویہ کہیں گے کہ ہم باتوں میں مشغول تھے اور کھیل میں مصروف تھے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ کیا اﷲ۔اس کی آیات اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کامذاق اڑاتے ہو؟بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو‘‘۔
یہ آیت اس بات پر واضح دلیل ہے کہ کھیل ،مذاق میں بھی اﷲاس کے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم اور شریعت کی توہین کرنے والاکافر ہے۔لہٰذا ایسے لوگ کس طرح معذرت کرتے ہیںیابہانے بناتے ہیں جو اﷲاور اس کے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں یا دین کے شعائر میں سے کسی کامذاق اڑاتے ہیں اور پھر اسے تصورات ۔خیالات یا ادب کانام دیتے ہیں؟۔تیسری بات کہ آزادیٔ فکر کا تقاضاہے.تو اس کاجواب یہ ہے کہ قرآن ،سنت اور اجماع سے ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ کلمہ کفریہ منہ سے نکالنا کفر ہے ۔لہٰذا آزادی رائے کا یا آزادی فکر کا مطلب یہ نہیں کہ کفر کہنے کی اجازت دی جائے کتب شرع اس بات پر دال ہیں کہ اگر ذمی بھی اﷲکو یا رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کوگالی دے تو اس کا قتل واجب ہے یہ اکثر ا ہل علم کی رائے ہے ۔جو لوگ کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کا معاملہ اﷲپر چھوڑدینا چاہیے توہم اس بات کی تائید اس وقت کریں گے جب ان لوگوں کی طرف سے ایسی کوئی بات سامنے نہ آجائے جو قابل اعتراض ہو اس وقت تک انہیں کچھ نہیں کہاجاسکتا اس لیے کہ لوگوں کی نیتوں یاان کے ارادوں کی ٹوہ میں لگنا جائز نہیں ہے ہمیں شریعت کا حکم ہے کہ لوگوں کا ظاہر دیکھیں ۔ظاہری اقوال ۔افعال کے مطابق ان پر حکم لگائیں اگر ان کے افعال یا اقوال خلاف شرع ہیں تو ان کی مذمت کرنا ہماری ذمہ دا ری ہے ان سے توبہ کروانا اور نہ کرنے کی صورت میں ان پر حد قائم کرنا مسلمانوں کا فرض ہے ۔اگر اس کا قول یا عمل ایسا نہ ہوکہ دنیا میں اس سے تو بہ کروانا ضروری ہو تو پھر ایسے شخص کامعاملہ اﷲ کے سپرد ہے ۔یہ ہے اکثر اہل علم کی رائے ۔
جزاک اللہ خیرا
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحيم​

السلام عليكم ورحمت اللہ وبركاتہ

گزشتہ کچھ سالوں سے دنيا بھر ميں اہانت مقدسات (blasphemy) كے افسوس ناك واقعات ايك تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں ، ان واقعات ميں خاص طور پر دين اسلام كے متعلق جرائم زيادہ نماياں ہیں۔ اس صورت حال ميں ہوناتو يہ چاہیے تھا كہ مسلمان اپنے دين متين كے ليے پہلے سے زيادہ حساس ہوجاتے اور اس كا جوانمردى سے دفاع كرتے مگر دكھ كى بات يہ ہے کہ بعض نام نہاد "تعليم يافتہ" مسلمان رفتہ رفتہ دينى حميت كى دولت سے محروم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اگر آزادى اظہار كا يہ معنى ہے كہ انسان بلا سوچے سمجھے كچھ بھی کہہ سكے تو يہ آزادى معاشرے کے ليے زہر قاتل ہے۔ ايك مقولہ ہے کہ: " تمہیں چھڑی گھمانے کی آزادی ہے مگر جہاں كسى كى ناک شروع ہوتی ہے وہاں تمہاری آزادی ختم ہو جاتی ہے ۔" آزادى اظہار كے نام پر دوسروں كى ذاتيات ميں مخل ہونے ، ان كے مذہبى جذبات كو مجروح كرنے اور ان كى مقدسات كا مذاق اڑانے كى اجازت قطعا نہیں دى جا سكتى۔
بحيثيت ايك مسلمان اور پاكستانى ميرے ليے بہت دكھ كا مقام ہے كہ اسلام اور دوقومى نظريے کے حامى ہونے كا دعوى كرنے والے ايك نظرياتى اشاعتى گروپ کے ايك آرگن اخبار ميں 07 اگست سنہ 2011ء كو شائع ہونے والے ايك كالم ميں اركان اسلام ميں سرفہرست ركن "توحيد" اور توحيد كى تلقين كرنے والوں كا مذاق اڑايا گیا ۔ ايك فوت شدہ عالم دين كے الفاظ كا حوالہ دے كر جو بات کہی گئی ہے وہ اس قدر ركيك اور افسوس ناك ہے كہ ايك مسلمان كا قلم اس كو نقل كرنے كى جسارت نہیں كرسكتا ۔
اسلام كے پانچ بنيادى اركان ہیں۔ ان ميں سرفہرست توحيد ہے۔ اسلام ميں داخل ہونے والا شخص اقرار توحيد_"لا الہ الا اللہ ") كيے بغير مسلمان نہیں کہلا سكتا ۔حضرت جبريل عليہ السلام نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائے اور صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كو تعليم دينے كى غرض سے نبي كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استفسار كيا: مجھے بتائيے اسلام كيا ہے ؟ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: أن تؤمن بالله وملائکته وکتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره . ترجمہ: "اس بات کی شہادت دینا کہ اﷲکے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اﷲ کے رسول ہیں ۔نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور اگر استطاعت ہو تو بیت اﷲکا حج کرنا ۔" (متفق عليہ)
ہمارے معلم ، مربى و مرشد حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك فرمان مبارك ميں توحيد كو جہنم سے آزاد كردينے والا عمل بتايا ہے :"فإن الله قد حرم على النار من قال "لا إله إلا الله" يبتغي بذلك وجه الله ۔ترجمہ: " اللہ تعالی اس انسان پر دوزخ حرام کردیتا ہے جو لا الہ الا اللہ كہے اور اس كى نيت صرف اللہ كى خوشنودى حاصل كرنا ہو۔"
جب كہ دوسرى طرف توحيد كى ضد شرك ہے جس كے متعلق كلام حكيم ميں صراحت سے مذكور ہے کہ يہ تمام اعمال كا غارت گر ہے ۔ ارشاد بارى تعالى ہے:
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ترجمہ: یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہوجائے گا ۔ (سورة الزمر: آيت 65)
جب اقرار توحيد اس قدر عظيم وسعيد عمل ہے اور شرك اس قدر تباہ كن تو كيا وجہ ہے كہ ايك مسلمان دوسرے انسانوں كو درد مندى سے توحيد كى دعوت نہ دے اور شرك نامى قبيح عمل سے بچانے كى كوشش نہ كرے جب كہ يہ حبيب مكرم حضرت محمد مصطفى صلى اللہ عليہ وسلم كى وصيت بھی ہو؟
بنى آدم كو توحيد كى دعوت دينے كے متعلق نبي آخر الزماں حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے واضح الفاظ ميں بار بار وصيت فرمائی ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ جب حضرت محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضي اللہ عنہ كو يمن روانہ فرمايا تو حكم ديا : " تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔(فليكن أول ما تدعوهم إليه أن يوحدو الله) تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی گواہی کی طرف دعوت دینا وہ اللہ تعالی کی توحید کا اقرار کرلیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو اہل ثروت سے لے کر کے فقرا اور مساكين میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو ان کے عمدہ اور قیمتی اموال (بطور زكوة) لینے سے احتیاط کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ۔ ( متفق عليہ)
اس حديث شريف سے يہ بات واضح ہے کہ دعوت اسلام ميں دعوت توحيد پہلا بنيادى فريضہ ہے۔ اگر كوئى اس كو قبول كرتا ہے تو وہ مسلمان ہے اور اس كے بعد ہی اسے باقى اسلامى اعمال بجا لانے كى دعوت دى جائے گی ۔
اگر قرآن مجيد كى سورة الأنبياء كا مطالعہ كيا جائے تو معلوم ہوتا ہے كہ دعوت توحيد صرف امت اسلام كا فريضہ ہی نہیں بلكہ اللہ سبحانہ وتعالى كے مبعوث كردہ تمام رسل كرام اپنے اپنے وقت ميں اقرار توحيد كرتے رہے اور دعوت توحيد كى اس عظيم ذمہ دارى كو نبھاتے رہے ہیں، فرمان رب كريم ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو ۔(سورة الأنبياء : 21)
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
ترجمہ: ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ (سورة النحل : آيت 36)
قائين كرام يہ توحيد ، شرك اور دعوت توحيد كے متعلق دين اسلام كى واضح تعليمات كا صرف ايك حصہ ہے جو مختصرا ذكر كرنے كى كوشش كى گئی ہے۔ اب ملاحظہ فرمائيے كہ توحيد كى دعوت كس قدر نيك افضل اور اعلى عمل ہے،كہ يہ تمام رسولوں كى دعوت كا تسلسل ہے۔ اس كے بعد بھی اگر ايك مسلمان قلم كار اپنے قلم سے وہ بات لكھتا ہے جو اس تحرير کے آخر ميں موجود اميج ميں واضح ہے تو كس قدر تكليف دہ اور شرم ناك بات ہے ؟
وہ سعادت مند انسان جو دعوت توحيد ميں اپنی تمام تر صلاحيتيں شب وروز آزما رہے ہیں وہ ان شيطانى فقروں سے دل گیر نہ ہوں۔ سچائى كى دعوت کا ہر عہد ميں مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور يہ استہزا دعوت حق كے حاميوں کے اجرو ثواب ميں ہميشہ اضافے كا باعث ہی بنا ہے قرآن كريم كى يہ خوب صورت آيات كريمہ داعيان حق كى ہمت افزائى كے ليے كافى ہیں:
إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ
گنہگار لوگ ایمان والوں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے
وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ
اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھ کےاشارے کرتے تھے
وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ
اور جب اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگی کرتے تھے
وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَضَالُّونَ
اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراه ہیں
وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ
یہ ان پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجے گئے
فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ
آج ایمان والے ان کافروں پر ہنسیں گے
سورة المطففين: 29 تا 34
ان ركيك الفاظ كے ليے جن عالم دين كا حوالہ ديا گیا ہے وہ دارالعلوم ديوبندکے فارغ التحصيل تھے ، اب اس جہان ميں ہیں جہاں انسان اپنے اعمال كا حساب صاف صاف چكاتا ہے اور كوئى تاويل كام آتى ہے نہ كوئى كمك پہنچتى ہے لہذا ان سے تصديق اب ممكن نہیں، ليكن ان كے اولاد واحفاد كا فرض ہے كہ وہ اس قول تصديق يا ترديد كريں ، جب کہ مذكورہ كالم نگار سے ہمارى دردمندانہ درخواست ہے کہ اپنے الفاظ پر غور كريں اور اس رب سے ڈریں جس نے انسان كو پيدا كيا اور اس كو " بيان " سكھايا ۔ يہ قوت نطق ، يہ قوت تحرير اس كى دى ہوئى نعمتيں ہیں ان كو اس قادر مطلق كى شكر گزارى ميں استعمال كيا جائے تو نجات كا ذريعہ ، اور اس كے نازل كردہ دين كے استہزا كے ليے رو بہ عمل لايا جائے تو اعمال نامے كا سياہ باب ۔مقام حيرت ہے كہ معيارى صحافت كا دعويدار روزنامہ ، مسلمانوں کے ايك مقدس مہینے ميں ايسى دل آزار سطور كو شائع كرنے كى اجازت كيسے دے سكتا ہے؟
اللہ سبحانہ وتعالى ہميں ان اعمال كى توفيق دے جس سے وہ راضى ہوتا ہے اور ان اعمال سے محفوظ فرمائے جن سے اس كا غضب نازل ہوتا ہے۔



معذرت خواہ ہوں مذكورہ كالم كا یہ اميج تحرير كے ساتھ شئير كرنا تھا مگر اٹیچمنٹس ميں ايرر كی وجہ سے ممكن نہ ہو سكا ، اب حاضر ہے۔
السلام علیکم
جزاک اللہ خیرا
اس تھریڈ میں تو توحید پر بہت اچھا لکھا گیا ہے۔
مزید مفید شئیرنگ کا انتظار رہے گا۔
 
Top