• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوال کے 6 روزے :

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
شوال کے چھ روزے صحیح وصریح احادیث سے ثابت ہیں
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، - رضى الله عنه - أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ ‏''
جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے (کے ثواب)کی طرح ہیں "
صحیح مسلم :1164 ،دارالسلام 2758، صحیح ابن خزیمہ:2114،صحیح ابن حبان :3626/3634،صحیح ابی عوانہ :القسم المفقود صفحہ :94/95، سنن الترمزی : 759 وقال :''حدیث حسن صحیح '' شرح السنتہ للبغوی 6/331 حاشیہ 1780 ، وقال :''ھذا حدیث صحیح ''
اس حدیث کو درج ذیل اماموں نے صحیح قرار دیا ہے :
1ـ امام مسلم ، 2ـ امام ابن خزیمہ ، 3ـ امام ترمذی ، 4 ـ حافظ ابوعوانہ ، 5ـ حافظ ابوعوانہ ، 5ـ حافظ ابن حبان ، 6ـ حافظ حسین بن مسعود البغوی رحمہم اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کی تفسیر خود نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے کہ:
" من صام ستة أيام بعد الفطر كان تمام السنة : (من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها ) . " وفي رواية : " جعل الله الحسنة بعشر أمثالها فشهر بعشرة أشهر وصيام ستة أيام تمام السنة " النسائي وابن ماجة وهو في صحيح الترغيب والترهيب 1/421 ورواه ابن خزيمة بلفظ : " صيام شهر رمضان بعشرة أمثالها وصيام ستة أيام بشهرين فذلك صيام السنة " .
ترجمہ :نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :جس نےعید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے اس کے پورے سال کے روزے ہیں۔کیونکہ (قرآن میں اصول بتایا گیا کہ )
( جو کوئي نیکی کرتا ہے اسے اس کا اجر دس گنا ملے گا )
اورایک روایت میں ہے کہ :
اللہ تعالی نے ایک نیکی کو دس گنا کرتا ہے لھذا رمضان المبارک کا مہینہ دس مہینوں کے برابر ہوا اورچھ دنوں کے روزے سال کو پورا کرتے ہيں ۔
سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، دیکھیں صحیح الترغیب والترھیب ( 1 / 421 ) ۔
اورابن خزیمہ نے مندرجہ ذيل الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے :
( رمضان المبارک کےروزے دس گنا اورشوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تواس طرح کہ پورے سال کے روزے ہوئے )​
ــــــــــــــــــــــــــ
دوسری حدیث سیدنا ژوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا :
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْحَارِثِ الذِّمَارِيُّ، عَنِ ابِي، أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال‏:‏ صِيَامُ شَهْرٍ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ وَسِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَهُنَّ بِشَهْرَيْنِ فَذَلِكَ تَمَامُ سَنَةٍ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ وَسِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَهُ
" رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں ، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں ''
(السنن الدارمی : 1762 و سندہ صحیح ، سنن ابن ماجہ : 1715 ، صحیح ابن خزیمہ : 2115 ، صحیح ابن حبان : 3635 ، السنن الکبری للنسائی : 2861 ، مسندہ احمد 280/5 ، وغیرہ )
اس حدیث کو ابن خزیمہ اور ابن حبان وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے ـ​
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
شوال کے روزے مسلسل اور متفرق دونوں طرح رکھنا جائز ہے

علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لا يشترط التتابع في صيام ست شوال
س هل يلزم في صيام الست من شوال أن تكون متتابعة أم لا بأس من صيامها متفرقة خلال الشهر؟.
ج صيام ست من شوال سُنة ثابتة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ويجوز صيامها متتابعة ومتفرقة لأن الرسول صلى الله عليه وسلم أطلق صيامها ولم يذكر تتابعاً ولا تفريقا حيث قال صلى الله عليه وسلم ((من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر)) . أخرجه الإمام مسلم في صحيحه وبالله التوفيق.
الشيخ ابن باز
***

ترجمہ :
سوال: کیا شوال کے چھ روزوں کے لیے یہ لازمی ہے کہ مسلسل رکھے جائیں یا پورے مہینے میں الگ الگ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: شوال کے چھ روزے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہیں، ان کو مسلسل اور متفرق دونوں طرح رکھنا جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روزوں کا مطلقاً ذکر فرمایا ہے اور اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ انہیں مسلسل رکھا جائے یا الگ الگ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کافرمان ہے:
” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَ تْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال، کَانَ کَصِیَامِ الدَّھَر”۔(صحیح مسلم/١١٦٤)
”جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ اس طرح ہے جیسے سال بھر کے روزے رکھے ہوں”۔
(شیخ ابن بازرحمہ اللہ، فتاویٰ اسلامیہ/٢٢٦)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
شوال کے 6 روزے

رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا واجب نہيں بلکہ مستحب ہیں اورمسلمان کے لیے مشروع ہے کہ وہ شوال کے چھ روزے رکھے جس میں فضل عظیم اوربہت بڑا اجر و ثواب ہے ، کیونکہ جو شخص بھی رمضان المبارک کے روزے رکھنے کےبعد شوال میں چھ روزے بھی رکھے تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت ہے کہ اسے پورے سال کا اجر ملتا ہے ۔
ابوایوب انصاری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من صام رمضان، ثم اتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر (رواه مسلم ، كتاب الصيام ، رقم الحديث1164 )
’’ جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے ہوں ‘‘
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شرح اورتفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے کہ :
جس نےعید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے اس کے پورے سال کے روزے ہیں۔
اورایک روایت میں ہے کہ :
’’اللہ تعالی نے ایک نیکی کو دس گنا کرتا ہے لھذا رمضان المبارک کا مہینہ دس مہینوں کے برابر ہوا اورچھ دنوں کے روزے سال کو پورا کرتے ہيں ‘‘
سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دیکھیں صحیح الترغیب والترھیب ( 1 / 421 )
اورابن خزیمہ نے مندرجہ ذيل الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے :’’رمضان المبارک کےروزے دس گنا اورشوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تواس طرح یہ پورے سال کے روزے ہوئے ‘‘
حنابلہ اورشوافع فقھاء کرام نے تصریح کی ہے کہ :
’’رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا پورے ایک سال کے فرضی روزوں کے برابر ہے ، وگرنہ تو عمومی طور پر نفلی روزوں کا اجروثواب بھی زيادہ ہونا ثابت ہے ، کیونکہ ایک نیکی دس کے برابر ہے ‘‘
پھر شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائدمیں یہ شامل ہے کہ یہ روزے رمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی وبیشی اورنقص کو پورا کرتے ہیں اوراس کے عوض میں ہیں ، کیونکہ روزہ دار سے کمی بیشی ہوجاتی ہے اورگناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے جوکہ اس کے روزوں میں سلبی پہلو رکھتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Top