• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوقیہ یا مزے کے لیے سفر

شمولیت
اپریل 25، 2016
پیغامات
45
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
36

السلام علیکم ..
یہ حدیث کسی نے شیر کی تھی ..
کیا یہ حدیث صحیح ہے اور کیا enjoyment کے لیے جو سفر کیا جاتا ہے وہ کس زمرے میں آئے گا؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791

السلام علیکم ..
یہ حدیث کسی نے شیر کی تھی ..
کیا یہ حدیث صحیح ہے اور کیا enjoyment کے لیے جو سفر کیا جاتا ہے وہ کس زمرے میں آئے گا؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ حدیث صحیح بخاری (1804 )اور صحیح مسلم کی ہے ،اس کا عربی متن یہ ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «السَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنَ العَذَابِ، يَمْنَعُ أَحَدَكُمْ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَنَوْمَهُ، فَإِذَا قَضَى نَهْمَتَهُ، فَلْيُعَجِّلْ إِلَى أَهْلِهِ»
(ترجمہ آپ کی پوسٹ میں موجود ہے )
اور سفر کے عذاب ہونے سے مراد سفر کی مشقتیں اور مشکلات ہیں ، نہ کہ گناہوں کی پاداش میں ملنے والا عذاب،
مسافر اپنے پیاروں سے دور اور ،گھر کے آرام و سکون سے محروم ،اور دوران سفر جان و مال کے متعلق عدم تحفظ وغیرہ مسائل کو عذاب کا ٹکڑا کہا ہے ،(مزید کیلئے فتح الباری اور شرح مسلم للنووی )
اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سیر و تفریح کیلئے سفر اگر دینی فرائض اور عائلی زندگی کی ذمہ داریوں میں جس درجہ رکاوٹ ہو ، اس درجہ غلط ہے ،
اور یاد رہے اس امت کے عوام وخواص کے مختلف نوعیت کے سفروں سے دین اسلام کی دعوت دنیا کے ہر کونے تک پہنچی، کیوکہ وہ سب زبان حال و قال سے اسلام کے بے لوث مبلغ تھے ،
 
Last edited:

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
یا شیخ محترم ہم لوگ جو صرف گھومنے پھرنے کے لئے یا تاریخی مقامات دیکھنے کے لئے یا موسم انجوائے کرنے کے لئے دوسرے شھر جاتے ہیں اس کا کیا حکم ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سب سے افضل سفر دین اسلام کی تبلیغ اور نشر اشاعت اور دینی علم حاصل کرنے کیلئے کیا جانا والا سفر ہے،
اس کے بعد رزق حلال کیلئے کیا جانے والا سفر ہے ،
یا پھر اللہ کی قدرت کے مطالعہ کیلئے سفر جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ :
( قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّهُ يُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‘‘ العنکبوت
ترجمہ :
آپ ان سے کہئے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا ہے۔ پھر اللہ ہی دوسری بار پیدا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ یقینا ہر چیز پر قادر ہے ‘‘
پھر دنیوی ضروریات و اغراض کیلئے سفر ہے جو مباح ہے ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس میں کوئی دینی نقصان نہ ہو،
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس موضوع پر ایک فتوی ملاحظہ فرمالیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سياحتى سفر كا حكم
كيا اگر ميں اپنے بيوى بچوں كو تفريح كى غرض سے ليكر كسى اسلامى ملك جاؤں تو مجھے اجروثواب حاصل ہو گا ؟
Published Date: 2009-07-05
الحمد للہ:

ان اسلامى ممالك كى طرف سفر كرنا جائز ہے جہاں اسلامى شريعت كا نفاذ ہے، اور يہ سفر برائى اور فحاشى سے خالى ہو، جن ممالك كے باشندے مسلمان تو ہيں، ليكن وہاں شريعت اسلاميہ نافذ نہيں تو ان ممالك ميں سير و سياحت كى غرض سے جانا صحيح نہيں، اور كفار كے ممالك جانا تو بالاولى حرام ہو گا، اور ان ممالك كى طرف سفر كرنا جائز نہيں، صرف مجبور شخص مثلا علاج كى غرض سے مريض، يا كسى صحيح غرض مثلا تجارت يا دعوت دين كى غرض سے جانے والا جا سكتا ہے.

شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

غير اسلامى ممالك مثلا عيسائى يا لادين ممالك كا سفر كرنے كا حكم كيا ہے ؟

اور كيا سير و سياحت اور علاج اور تعليم كى غرض سے سفر ميں كوئى فرق پايا جاتا ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" كفريہ ممالك كى جانب سفر كرنا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں عقيدہ اور اخلاق كو خطرہ لاحق ہوتا ہے، اور پھر كفار كے ساتھ ميل جول اور اختلاط اور ان كے مابين رہنا پڑتا ہے، ليكن اگر كوئى ضرورت پيش آجائے اور سفر كى غرض صحيح ہو مثلا كسى ايسے مرض كا علاج كراونے كى غرض سے جس كا علاج مسلمان ممالك ميں نہيں ہے، يا تجارت، يا كوئى ايسى تعليم جو مسلمان ممالك ميں ممكن نہيں، تو يہ مقصد اور غرض صحيح ہيں ان كى بنا پر سفر كيا جا سكتا ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہاں جانے والا شخص اپنے اسلامى شعار كى پابندى اور حفاظت كرے، اور ان كے ملك ميں رہتے ہوئے دين اسلام كى پابندى كرے، اور يہ سفر صرف ضرورت كے مطابق ہو، اور ضرورت ختم ہونے كے بعد وہ مسلمان ملك ميں واپس لوٹ آئے.

ليكن سير و سياحت كى غرض سےكفار ممالك كا سفر كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ مسلمان شخص كو اس كى كوئى ضرورت نہيں، اور نہ ہى اس ميں اسے كوئى مصلحت اور فائدہ حاصل ہوتا ہے، جس سے دين اور عقيدہ كو پيش آنے والے خطرات سے بچايا جا سكتا ہو.

اور شيخ حفظہ اللہ سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

جن اسلامى ممالك ميں كثرت سے برائى اور كبيرہ گناہ مثلا زنا اور شراب نوشى وغيرہ كا ارتكاب كيا جاتا ہے، ان ممالك كا سفر كرنے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" اسلامى ممالك سے مراد وہ ملك ہيں جہاں حكومت نے اسلامى شريعت كا نفاذ كر ركھا ہے، نہ كہ وہ ملك مراد ہيں جہاں مسلمان تو بستے ہيں ليكن وہاں كى حكومت اسلامى شريعت نافذ نہيں كرتى بلكہ اس نے دوسرے قوانين نافذ كر ركھے ہيں تو يہ اسلامى ملك نہيں.

اور اگر پہلے معنى كے اسلامى ملك ( يعنى جہاں شريعت كا نفاذ تو ہے ) ميں بھى برائى اور منكرات كا ارتكاب ہوتا ہے تو فساد و برائى سے متاثر ہونے كے پيش نظر وہاں كا سفر كرنا جائز نہيں، ليكن جو اسلامى ممالك دوسرے معنى كے ہيں ـ يعنى غير اسلامى ملك ـ تو ہم اس كا حكم پہلے جواب ميں بيان كر چكے ہيں "

اور شيخ حفظہ اللہ سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

گرميوں كى چھٹيوں ميں اپنے بچوں كو انگلش سيكھنے يا سير و سياحت كى غرض سے باہر روانہ كرنے والے والدين كے متعلق آپ كيا نصيحت كرتے ہيں، اور باہر كا سفر كرنے والوں كو آپ كى كيا نصيحت ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" ان والدين كو ميرى نصيحت يہ ہے كہ وہ اپنى اولاد كے متعلق اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈريں، كيونكہ يہ ان كى گردنوں ميں امانت ہے، اور روز قيامت ان سے اس كے متعلق جواب دينا ہو گا، تو ان كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنے بچوں كو كفار ممالك كا سفر كرا كر تباہ كريں، اس خدشہ كے پيش نظر كہ وہ منحرف ہو كر اپنے دين سے ہى ہاتھ نہ دھو بيٹھيں، اور ـ اگر وہ اس كى ضرورت محسوس كرتے ہيں ـ انگلش كى تعليم تو كفار ممالك كا سفر كيے بغير اپنے ملك ميں ہى رہ كر حاصل كى جا سكتى ہے، اور اس سے بھى زيادہ خطرناك چيز تو انہيں سير و سياحت كى غرض سے كفار ممالك كا سفر كرانا ہے، جيسا كہ پہلے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے كہ سير و سياحت كى غرض سے كفار ممالك كا سفر كرنا حرام ہے.

اور جن كے ليے باہر كا سفر كرنا شرعا جائز ہے، انہيں ميرى يہ نصيحت ہے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنے دين كى حفاظت كريں اور وہاں جا كر دين كا اظہار كريں، اور اس سے عزت حاصل كريں، اور دين كى دعوت ديں، اور دين لوگوں تك پہنچائيں.

اور وہ ايك اچھا قدوہ اور نمونہ بن كر مسلمانوں كے ليے صحيح مثال بنيں، اور ضرورت سے زيادہ كفريہ ممالك ميں نہ رہيں، جيسے ہى ضرورت ختم ہو واپس آ جائيں, واللہ تعالى اعلم "

ديكھيں: المنتقى ( 2 / 253 - 255 ).

اور محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

باہر كے ممالك يعنى اسلامى ممالك كا فيملى كے ساتھ سفر كرنے كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں رہے كہ اس كے ليے پاسپورٹ كى ضرورت ہوتى ہے اور اس ميں عورتوں كى تصاوير كو مرد ديكھتے ہيں، اور بعض اوقات مرد عورت كو اپنا چہرہ ننگا كرنے كا بھى كہتا ہے، تا كہ اس كى شخصيت اور پاسپورٹ كا ثبوت حاصل ہو، تو كيا بغير كسى ضرورت كے ايسا كرنا جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

اول:

ہم تو بغير كسى اشد ضرورت اور حاجت يا راجح مصلحت كے باہر كے ممالك كا سفر كرنا جائز نہيں سمجھتے؛ اس ليے كہ باہر كے ممالك كا سفر كرنے كے ليے بہت زيادہ خرچ دركار ہوتا ہے، جس كى كوئى ضرورت نہيں، تو اس طرح يہ مال كے ضياع كا باعث بنتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مال ضائع كرنے سے منع فرمايا ہے.

دوم:

يہ سفر انہيں ہو سكتا ہے بعض ان امور سے مشغول كر كے ركھ دے جن ميں وہ اپنے ملك كے اندر رہ كر مشغول ہو سكتے تھے، مثلا صلہ رحمى اور طلب علم، اگر وہ تعليم حاصل كر رہے تھے، وغيرہ اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ كسى نفع مند چيز كو چھوڑ كر كسى اور بغير نفع كے كام ميں مشغول ہونا انسان كى عمر كا خسارہ شمار ہوتا ہے.

سوم:

جن ممالك كا يہ لوگ سفر كرتے ہيں ہو سكتا ہے وہ ممالك اخلاقى اور فكرى طور پر كسى دوسرے كے ماتحت ہوں اور ان كا قبضہ ہو، تو اس سے انسان كے اخلاق اور افكار كو ضرر و نقصان پہنچتا ہے، اور باہر كا سفر كرنے ميں سب سے شديد ترين خطرناك امر يہى ہے.

اس ليے ميں سائل اور دوسروں كو يہى كہتا ہوں كہ: الحمد للہ ہمارے پاس ہمارے ملك ميں بہت سارى جگہيں ايسى ہيں جو باہر جا كر سير و سياحت كرنے سے كفائت كرتى ہيں، اور پھر اس ميں خرچ بھى كم ہوتا ہے اور اپنے ملك كے شہريوں كو بھى فائد پہنچتا ہے "

ديكھيں: لقاء الباب المفتوح سوال نمبر ( 810 ).

آپ مزيد معلومات كے حصول كے ليے سوال نمبر ( 13342 ) كےجواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
جزاک اللہ خیرا
اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا کرے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

یہاں لکھا ہے "بلا ضرورت سفر کرنا یا سفر کو طویل کرنا" اور عنوان میں لکھ دیا "شوقیہ یا مزے کے لئے سفر"؟ عنوان وہی رہنا چاہئے تھا اور شوقیہ سفر کو سوال میں اگر پیش کیا جاتا تو یہ بہتر ہوتا۔

والسلام
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
سب سے بهتر سفر ، حج بیت اللہ ہے اور اللہ ہر مسلمان کو توفیق اور استطاعت دے ۔ آمین
 
Top