• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوہر فوت شدہ بیوی کو اور بیوی شوہر کو غسل دے سکتی ہے ؟

ابو شحمہ

مبتدی
شمولیت
نومبر 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
11
Assalamu Alaikum Warahmatullahi Wabarakatuhu

Kya Shohar Apni Biwi Ko Marne Ke Baad Gusl De Sakta Hai.
Ya Biwi Apne Shohar Ko Marne Ke Baad Gusl De Sakti Hai.

Kya Is Talluq Se Kuchh Sahabi RaziAllahu Anhuma Ka Bhi Asar Milta Hai.

Quran o Hadees Ki Roshni Me Wajahat Kar Dijye
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سنن ابن ماجہ میں اس مسئلہ پر مستقل باب باندھ کر حدیث نبوی لائے ہیں کہ :
بَابُ: مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَغُسْلِ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا
باب: شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو غسل دے اس کا بیان۔

عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَقِيعِ، فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِي رَأْسِي، وَأَنَا أَقُولُ وَا رَأْسَاهُ، فَقَالَ: " بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي، فَقُمْتُ عَلَيْكِ فَغَسَّلْتُكِ، وَكَفَّنْتُكِ، وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ، وَدَفَنْتُكِ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع سے لوٹے تو مجھے اس حال میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا، اور میں کہہ رہی تھی: ”ہائے سر!“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ اے عائشہ! میں ہائے سر کہتا ہوں“ ۱؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا نقصان ہو گا اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوگئی تو تمہارے سارے کام میں انجام دوں گا، تمہیں غسل دلاؤں گا، تمہاری تکفین کروں گا، تمہاری نماز جنازہ پڑھاؤں گا، اور تمہیں دفن کروں گا“۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۱۳، ومصباح الزجاجة: ۵۲۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۲۸)، سنن الدارمی/المقدمة ۱۴ (۸۱) (حسن)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حدیث نمبر: 1464
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الذَّهَبِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " لَوْ كُنْتُ اسْتَقْبَلْتُ مِنَ الأَمْرِ، مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا غَسَّلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ نِسَائِهِ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر مجھے اپنی اس بات کا علم پہلے ہی ہو گیا ہوتا جو بعد میں ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیویاں ہی غسل دیتیں ۱؎۔

ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۸۲، ومصباح الزجاجة: ۵۱۹)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجنائز ۳۲ (۳۱۴۱)، مسند احمد (۶/۲۶۷) (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن منتقی ابن الجارو د، صحیح ابن حبان اور مستدرک الحاکم میں تحد یث کی صراحت ہے، دفاع عن الحدیث النبوی ۵۳-۵۴، والإرواء: ۷۰۰)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے کیونکہ بیوی محرم راز ہوتی ہے، اور اس سے ستر بھی نہیں ہوتا، پس اس کا غسل دینا شوہر کو بہ نسبت دوسروں کے اولیٰ اور بہتر ہے، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا، اور کسی صحابی نے اس پر نکیر نہیں کی، اور یہ مسئلہ اتفاقی ہے، نیز ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل نہ دے سکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اگر یہ جائز نہ ہوتا تو وہ افسوس کا اظہار نہ کرتیں، جیسا کہ امام بیہقی فرماتے ہیں: «فتلهفت على ذلك ولا يتلهف إلا على ما يجوز» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
محدث میگزین (شمارہ 45 ) نومبر 1975ء ۔میں اس سوال کے جواب میں مفتی صاحب نے بہت مفید تفصیلی معلومات دی ہیں
ــــــــــــــــــــــــــ
خاوند بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا:
اس مسئلہ پر تو اجماع ہےکہ جب شوہر مرجائے تو عورت اس کو غسل دے سکتی ہے۔

نقل ابن المنذر وغیرہ الإجماع علی جواز غسل المرأة زوجھا (التعلیق الممجدہ :ص129)

قال الشاه ولی اللہ، واتفقوا علی جواز غسل المرأة زوجھا (مسوی شرح مؤطا: ص191؍1)

حضرت صدیق اکبرؓ جب فوت ہوئے تو آپ کی زوجہ محترمہ (حضرت اسماء بنت عمیس ) نے صحابہ کی موجودگی میں غسل دیا۔

أن أماء بنت عمیس امرأة أبي بکر الصدیق غسلت أبابکر الصدیق حین توفي ثم خرجت فسألت من حضرھا من المھاجرین فقالت إنی صائمةوإن ھذا یوم شدید البر وقالوا: لا (موطا مالک :ص191؍1 و موطا محمد: ص129)

اس کی بھی وصیت حضرت صدیق اکبرؓ نے کی تھی۔

عن ابن أبی ملیکة: أن أبابکر الصدیق حین حضره الوفاة أوصی أسماء بنت عمیس أن تغسله وکذا قال ابن شداد (مصنف: ص249؍3 ،ابن ابی شیبۃ باب في المرأۃ تغسل زوجھا)

حضرت جابر بن زید نے اپنی بیوی کو وصیت کی تھی کہ وہ ان کوغسل دے۔

أنه أوصیٰ أن تغسله امرأة (ابن ابی شیبۃ: ص249؍3)

حضرت ابوموسیٰ کو اس کی اہلیہ نے غسل دیا تھا۔ (ایضاً :ص250؍3)

عن إبراهیم بن مهاجرأن أبا موسیٰ غسلته امرأته(ایضاً ص250؍3)

حضرت عبدالرحمان بن عوف کے صاحبزادے حضرت ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ اگرعورتوں میں مرد مرجائے تو اس کی اہلیہ اس کو غسل دے۔

في الرجال یموت مع النساء قال تغسله امرأته(ایضاً)

حضرت عطافرماتے ہیں کہ اس کی بیوی اسے غسل دے۔

تغسل المرأة زوجھا (ایضاً)

ہاں اس امر میں اختلاف ہے کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دے یا نہ؟ احناف اس کو جائز نہیں سمجھتے۔مگر یہ بات محل نظر ہے کیونکہ یہ بات صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ حضور نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا کہ اگر آپ کا مجھ سے پہلے انتقال ہوگیا توآپ کو غسل بھی میں دوں گا اور کفن بھی میں پہناؤں گا۔

لو مت قبلي لغسلتك و کفنتك (أحمد و الدارمی و ابن ماجہ و ابن حبان والدارقطني والبیهقي۔ تلخیص الجیر : ص154)

امام بیہقی فرماتے ہیں، محمد بن اسحاق مدلس ہے، یہاں غعنہ ہے، امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس روایت میں محمد بن اسحاق منفرد نہیں ہے بلکہ صالح بن کیسان اس کا متابع ہے کما رواہ أحمد و النسائي (تلخیص : ص154) فرماتے ہیں لغسلتك غلط ہے فغسلتك صحیح ہے (ایضاً)

علامہ سندھی لکھتے ہیں: مجمع الزوائد والے فرماتے ہیں کہ اس کے راوی سب ثقہ ہیں۔

وفي الزوائد إسناد رجاله ثقات (حاشیہ سندھی علی ابن ماجہ : ص447؍1)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اگر وہ بات مجھے پہلے معلوم ہوجاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو حضورﷺ کو ان کی بیویاں ہی غسل دیتیں:

لو کنت استقبلت من أمری ما استدبرت ما غسل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غير نسائه(ابن ماجہ: ص446؍1)

سندھی فرماتے ہیں کہ :محمد بن اسحاق کی تدلیس کا اندیشہ بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ حاکم وغیرہ کی روایت میں سماع کی تصریح آگئی ہے۔

ومع ذلك ذکرہ صاحب الزوائد أیضاً فقال إسنادہ صحیح و رجاله ثقات لأن محمد بن إسحاق دون کان مدلسا لکن قد جاء عنه التصریح بالتحدیث في روایة الحاکم وغیرہ (حاشیہ علی ابن ماجہ: ص447؍1)

حضرت علیؓ نے حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو غسل دیا تھا۔

أن علیا غسل فاطمة رواہ الشافعي والدارقطني و أبونعیم في الحلیة والبیهقي(تلخیص الجیر :ص170 وقال و إسنادہ حسن)

اور اس سلسلے میں جو اعتراض کیے گئے ہیں، اس کا بھی جواب دیا (تلخیص ص170) درمختار میں اس پر بعض صحابہ کا انکار لکھا ہے۔مگر وہ کون ہیں اور کس کتاب میں ہے؟ اس کاکچھ پتہ نہیں!

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دینے کازیادہ حق رکھتا ہے۔

عن ابن عباس قال: الرجل أحق بغسل امرأته (ابن ابی شیبۃ: ص250؍3)

عبدالرحمٰن بن الاسود فرماتے ہیں کہ اپنی بیوی کو میں نے غسل دیا تھا۔

أبت أم امرأتي و أختھا أن تغسلھا فولیت غسلھا بنفسي (ص250؍3 ،ایضاً)

حضرت عبدالرحمٰن حضرت عائشہؓ کے شاگرد ہیں، اسّی (80)حج اور اسّی (80) عمرے کئے ہیں۔( خلاصۃ تذہیب الکمال :ص190)

حضرت سلیمان بن یسارفرماتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کو غسل دےسکتا ہے۔

یغسل الرجال امرأته(مصنف ابن ابی شیبۃ : ص250؍3)

حضرت عون بن ابی جمیلہ (تبع تابعین میں سے) فرماتے ہیں کہ میں حضرت قسامۃ او ران شیوخ کے پاس موجود تھا جنہوں نے حضرت عمرؓ کو پایا تھا، فرماتے ہیں ایک شخص نے اپنی بیوی کو غسل دینے کا ان سے ذکر کیا تو کسی نے ان پراعتراض نہ کیا۔

شھد قسامةبن زھیر و أشیا خا أدرکوا عمر بن الخطاب وقد أتاھم رجل فأخبرھم أن امرأته ماتت فأمرته أن لا یغسلھا غیرہ فغسلھا فما منھم أحداأنکرذلك (محلی ابن حزم : ص180؍5 و ابن ابی شیبۃ طویلا: ص251؍3)

حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دینے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔

الرجل أحق أن یغسل امرأته من أخیھا (محلی :ص179؍5)

حضرت جابر، حضرت ابن عباس، حضرت معاویہ اور حضرت ابن عمر جیسے جلیل القدر صحابہ کے شاگرد ہیں، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے وہ علماء میں سے ہیں۔

ھو من العلماء (خلاصہ تذھیب الکمال: ص50)

عبدالرحمان بن الاسود فرماتے ہیں کہ:

اپنی بیویوں کو میں نے خود غسل دیا کرتا ہوں، ان کی ماؤں اور بہنوں کو روک دیتا ہوں۔

إني لأ غسل نسائي و أحول بینھن و بین أمھاتین و بناتھن وأخواتھن (محلی: ص179؍5)

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔

یغسل کل واحد صاحبه(محلی: ص179؍5 و ابن ابی شیبۃ :ص250؍3)

حضرت حسن بصری تمام شیوخ صوفیہ کی آخری کڑی ہیں، ان کے بعد حضرت علی کاسلسلہ چلتا ہے۔ آپ حضرت جندب، حضرت انس، حضرت عبدالرحمٰن بن سمرۃ، حضرت معقل بن یسار، حضرت ابوبکرہ اور حضرت سمرۃ جیسے عظیم صحابہ کے شاگرد ہیں۔ (خلاصہ:ص66)

حضر ت امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ جس صحابی کامخالف کوئی صحابی نہ ہو، حنفی اس سے خلاف کرنے کو عظیم جرم تصور کرتے ہیں، حضرت ابن عباس کی یہ روایت ہے، کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی مگر یہ خود اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

والحنفیون یعظمون خلاف الصاحب الذین لا یعرف له منھم فخالف وھذه روایةعن ابن عباس لا یعرف له من الصحابة مخالف وقد خالفوہ (محلی: ص180؍5))
 

ابو شحمہ

مبتدی
شمولیت
نومبر 18، 2017
پیغامات
42
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
11
محدث میگزین (شمارہ 45 ) نومبر 1975ء ۔میں اس سوال کے جواب میں مفتی صاحب نے بہت مفید تفصیلی معلومات دی ہیں
ــــــــــــــــــــــــــ
خاوند بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا:
اس مسئلہ پر تو اجماع ہےکہ جب شوہر مرجائے تو عورت اس کو غسل دے سکتی ہے۔

نقل ابن المنذر وغیرہ الإجماع علی جواز غسل المرأة زوجھا (التعلیق الممجدہ :ص129)

قال الشاه ولی اللہ، واتفقوا علی جواز غسل المرأة زوجھا (مسوی شرح مؤطا: ص191؍1)

حضرت صدیق اکبرؓ جب فوت ہوئے تو آپ کی زوجہ محترمہ (حضرت اسماء بنت عمیس ) نے صحابہ کی موجودگی میں غسل دیا۔

أن أماء بنت عمیس امرأة أبي بکر الصدیق غسلت أبابکر الصدیق حین توفي ثم خرجت فسألت من حضرھا من المھاجرین فقالت إنی صائمةوإن ھذا یوم شدید البر وقالوا: لا (موطا مالک :ص191؍1 و موطا محمد: ص129)

اس کی بھی وصیت حضرت صدیق اکبرؓ نے کی تھی۔

عن ابن أبی ملیکة: أن أبابکر الصدیق حین حضره الوفاة أوصی أسماء بنت عمیس أن تغسله وکذا قال ابن شداد (مصنف: ص249؍3 ،ابن ابی شیبۃ باب في المرأۃ تغسل زوجھا)

حضرت جابر بن زید نے اپنی بیوی کو وصیت کی تھی کہ وہ ان کوغسل دے۔

أنه أوصیٰ أن تغسله امرأة (ابن ابی شیبۃ: ص249؍3)

حضرت ابوموسیٰ کو اس کی اہلیہ نے غسل دیا تھا۔ (ایضاً :ص250؍3)

عن إبراهیم بن مهاجرأن أبا موسیٰ غسلته امرأته(ایضاً ص250؍3)

حضرت عبدالرحمان بن عوف کے صاحبزادے حضرت ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ اگرعورتوں میں مرد مرجائے تو اس کی اہلیہ اس کو غسل دے۔

في الرجال یموت مع النساء قال تغسله امرأته(ایضاً)

حضرت عطافرماتے ہیں کہ اس کی بیوی اسے غسل دے۔

تغسل المرأة زوجھا (ایضاً)

ہاں اس امر میں اختلاف ہے کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دے یا نہ؟ احناف اس کو جائز نہیں سمجھتے۔مگر یہ بات محل نظر ہے کیونکہ یہ بات صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ حضور نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا کہ اگر آپ کا مجھ سے پہلے انتقال ہوگیا توآپ کو غسل بھی میں دوں گا اور کفن بھی میں پہناؤں گا۔

لو مت قبلي لغسلتك و کفنتك (أحمد و الدارمی و ابن ماجہ و ابن حبان والدارقطني والبیهقي۔ تلخیص الجیر : ص154)

امام بیہقی فرماتے ہیں، محمد بن اسحاق مدلس ہے، یہاں غعنہ ہے، امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس روایت میں محمد بن اسحاق منفرد نہیں ہے بلکہ صالح بن کیسان اس کا متابع ہے کما رواہ أحمد و النسائي (تلخیص : ص154) فرماتے ہیں لغسلتك غلط ہے فغسلتك صحیح ہے (ایضاً)

علامہ سندھی لکھتے ہیں: مجمع الزوائد والے فرماتے ہیں کہ اس کے راوی سب ثقہ ہیں۔

وفي الزوائد إسناد رجاله ثقات (حاشیہ سندھی علی ابن ماجہ : ص447؍1)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اگر وہ بات مجھے پہلے معلوم ہوجاتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو حضورﷺ کو ان کی بیویاں ہی غسل دیتیں:

لو کنت استقبلت من أمری ما استدبرت ما غسل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غير نسائه(ابن ماجہ: ص446؍1)

سندھی فرماتے ہیں کہ :محمد بن اسحاق کی تدلیس کا اندیشہ بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ حاکم وغیرہ کی روایت میں سماع کی تصریح آگئی ہے۔

ومع ذلك ذکرہ صاحب الزوائد أیضاً فقال إسنادہ صحیح و رجاله ثقات لأن محمد بن إسحاق دون کان مدلسا لکن قد جاء عنه التصریح بالتحدیث في روایة الحاکم وغیرہ (حاشیہ علی ابن ماجہ: ص447؍1)

حضرت علیؓ نے حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو غسل دیا تھا۔

أن علیا غسل فاطمة رواہ الشافعي والدارقطني و أبونعیم في الحلیة والبیهقي(تلخیص الجیر :ص170 وقال و إسنادہ حسن)

اور اس سلسلے میں جو اعتراض کیے گئے ہیں، اس کا بھی جواب دیا (تلخیص ص170) درمختار میں اس پر بعض صحابہ کا انکار لکھا ہے۔مگر وہ کون ہیں اور کس کتاب میں ہے؟ اس کاکچھ پتہ نہیں!

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دینے کازیادہ حق رکھتا ہے۔

عن ابن عباس قال: الرجل أحق بغسل امرأته (ابن ابی شیبۃ: ص250؍3)

عبدالرحمٰن بن الاسود فرماتے ہیں کہ اپنی بیوی کو میں نے غسل دیا تھا۔

أبت أم امرأتي و أختھا أن تغسلھا فولیت غسلھا بنفسي (ص250؍3 ،ایضاً)

حضرت عبدالرحمٰن حضرت عائشہؓ کے شاگرد ہیں، اسّی (80)حج اور اسّی (80) عمرے کئے ہیں۔( خلاصۃ تذہیب الکمال :ص190)

حضرت سلیمان بن یسارفرماتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کو غسل دےسکتا ہے۔

یغسل الرجال امرأته(مصنف ابن ابی شیبۃ : ص250؍3)

حضرت عون بن ابی جمیلہ (تبع تابعین میں سے) فرماتے ہیں کہ میں حضرت قسامۃ او ران شیوخ کے پاس موجود تھا جنہوں نے حضرت عمرؓ کو پایا تھا، فرماتے ہیں ایک شخص نے اپنی بیوی کو غسل دینے کا ان سے ذکر کیا تو کسی نے ان پراعتراض نہ کیا۔

شھد قسامةبن زھیر و أشیا خا أدرکوا عمر بن الخطاب وقد أتاھم رجل فأخبرھم أن امرأته ماتت فأمرته أن لا یغسلھا غیرہ فغسلھا فما منھم أحداأنکرذلك (محلی ابن حزم : ص180؍5 و ابن ابی شیبۃ طویلا: ص251؍3)

حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دینے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔

الرجل أحق أن یغسل امرأته من أخیھا (محلی :ص179؍5)

حضرت جابر، حضرت ابن عباس، حضرت معاویہ اور حضرت ابن عمر جیسے جلیل القدر صحابہ کے شاگرد ہیں، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے وہ علماء میں سے ہیں۔

ھو من العلماء (خلاصہ تذھیب الکمال: ص50)

عبدالرحمان بن الاسود فرماتے ہیں کہ:

اپنی بیویوں کو میں نے خود غسل دیا کرتا ہوں، ان کی ماؤں اور بہنوں کو روک دیتا ہوں۔

إني لأ غسل نسائي و أحول بینھن و بین أمھاتین و بناتھن وأخواتھن (محلی: ص179؍5)

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔

یغسل کل واحد صاحبه(محلی: ص179؍5 و ابن ابی شیبۃ :ص250؍3)

حضرت حسن بصری تمام شیوخ صوفیہ کی آخری کڑی ہیں، ان کے بعد حضرت علی کاسلسلہ چلتا ہے۔ آپ حضرت جندب، حضرت انس، حضرت عبدالرحمٰن بن سمرۃ، حضرت معقل بن یسار، حضرت ابوبکرہ اور حضرت سمرۃ جیسے عظیم صحابہ کے شاگرد ہیں۔ (خلاصہ:ص66)

حضر ت امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ جس صحابی کامخالف کوئی صحابی نہ ہو، حنفی اس سے خلاف کرنے کو عظیم جرم تصور کرتے ہیں، حضرت ابن عباس کی یہ روایت ہے، کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی مگر یہ خود اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

والحنفیون یعظمون خلاف الصاحب الذین لا یعرف له منھم فخالف وھذه روایةعن ابن عباس لا یعرف له من الصحابة مخالف وقد خالفوہ (محلی: ص180؍5))
جزاک اللّہ
یہ سب حدیث صحیح ہے؟ کسی محدث کا حکم لگا دیں پلیز۔
 
شمولیت
فروری 05، 2019
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
30
السلام علیکم و رحمة الله تعالٰى و بركاته

کیا ایک شخص کے فوت ہونے کے بعد اس کی چیزیں اور پہننے کے کپڑے اس کے گھر والے استعمال کر سکتے ہیں یا ان چیزوں کو صدقہ کر دینا چاہیئے.
براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمة الله تعالٰى و بركاته
کیا ایک شخص کے فوت ہونے کے بعد اس کی چیزیں اور پہننے کے کپڑے اس کے گھر والے استعمال کر سکتے ہیں یا ان چیزوں کو صدقہ کر دینا چاہیئے.
براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس سوال کا جواب سعودی عرب کے جید علماء کے قلم سے پیش ہے ؛
ــــــــــــــــــ
هل يجب التصدق بملابس الميت
عنوان : کیا میت کے زیر استعمال کپڑے (اور دیگر اشیاء ) صدقہ کردینا ضروری ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السؤال
هل صحيح ما يقوله الناس إذا توفي الميت يجب التصدق بجميع ملابسه ومستلزماته قبل اليوم الثالث من موته ؟ وماذا نفعل بملابس الميت وأدواته اليومية ؟

سوال : کیا یہ صحیح ہے کہ میت کے زیر استعمال کپڑے اور اس کے پہننے کی دیگر اشیاء اس کے مرنے کے بعدتین دن پورے ہونے سے پہلےصدقہ کرنا ضروری ہیں ؟
اور میت کے روز مرہ زیر استعمال چیزوں کا صحیح مصرف کیا ہے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نص الجواب
الحمد لله
هذا القول غير صحيح ، بل ملابس الميت ومستلزماته تدخل في جملة تركته ، ويستحقها ورثته ، ولهم استعمالها أو بيعها ، ولا يجب عليهم التصدق بها ، لكن إن اختاروا أن يتصدقوا بها ابتغاء الأجر ، فهذا لهم ، بشرط أن يكونوا بالغين راشدين ، وأما الصغير فليس لأحد أن يتصدق بنصيبه من هذه الأشياء أو غيرها

اللہ تعالی کی حمد و ثناء کے بعد واضح ہو کہ :
" میت کے زیر استعمال کپڑے اور دیگر روز مرہ کی اشیاء اس کے مجموعی ترکہ کا حصہ ہوتی ہیں ، ان اشیاء کے اصل مستحق میت کے شرعی ورثاء ہیں ، یہ متروکہ اشیاء جن ورثاء کے حصہ میں آئیں وہ انہیں جس طرح چاہیں استعمال کریں ،یا بیچ دیں ان کی مرضی پر منحصر ہے ، ان چیزوں کو صدقہ کرنا ضروری نہیں ، ہاں اگر وہ خود اپنی مرضی سے ان اشیاء کو اجر و ثواب کی غرض سے صدقہ میں دے دیں تو یہ ان کا اختیار ہے ، ان پر کوئی قدغن نہیں ،لیکن شرط یہ ہے ترکہ میں آئی اشیاء کو صدقہ کرنے والے بالغ ہوں ، نابالغ بچے ان چیزوں کو صدقہ نہیں کرسکتے ،

وقد سئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : هل يجوز لأهل الميت أن يستخدموا ملابس الميت؟
مشہور مفتی شیخ محمد صالح العثیمینؒ سے سوال کیا گیا کہ کیا میت کے ورثاء میت کے زیر استعمال کپڑے اور دیگر روز مرہ کی اشیاء خود استعمال کرسکتے ہیں ؟
فأجاب رحمه الله تعالى: نعم إذا مات الميت فجميع ما يملكه ملك للورثة من ثياب وفرش وكتب وأدوات كتابة وماصة ( منضدة ) وكرسي كل شيء حتى شماغه وغترته التي عليه ، تنتقل إلى الورثة ، وإذا انتقلت إلى الورثة فهم يتصرفون فيها كما يتصرفون بأموالهم ، فلو قالوا - أي الورثة - وهم مرشدون : ثياب الميت لواحد منهم ، ولبسها ، فلا بأس . ولو اتفقوا على أن يتصدقوا بها فلا بأس ، ولو اتفقوا على أن يبيعوها فلا بأس ، هي ملكهم يتصرفون فيها تصرف الملاك في أملاكهم " انتهى من "فتاوى نور على الدرب".

جواب :
تو شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ ہاں میت کے ورثا میت کی ملکیت تمام چیزیں جو اس نے ورثاء کیلئے چھوڑی ہیں ،خواہ کپڑے ہوں ،کتب ہوں یا میز کرسی حتی کہ اس کے زیر استعمال کپڑے رومال اور دیگر روز مرہ کی اشیاء ان چتمام چیزوں کی ملکیت ورثاء کو منتقل ہوجاتی ہے ، کیونکہ میت کی چھوڑی ہوئی ساری چیزیں مجموعی ترکہ کا حصہ ہوتی ہیں ، ان اشیاء کے مستحق میت کے شرعی ورثاء جنہیں یہ اشیاء اپنے شرعی حصہ کے طور پر ملی ہوں وہ ان اشیاء میں تصرف کا پورا اختیار رکھتے ہیں، میت کے ترکہ کے یہ شرعی ورثاء ان چیزوں کو صدقہ میں دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں ،اور اگر خود استعمال کرنے کی بجائے انہیں بیچنا چاہیں تو بیچ بھی سکتے ہیں ،کیونکہ وہ اشیاء ان کی ملکیت ہیں وہ انہیں جس طرح چاہیں استعمال کریں ۔
اور مشہور معتبر عالم شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے سوال ہوا کہ :
وسئل الشيخ صالح الفوزان حفظه الله : هل يجوز الاحتفاظ بملابس الميت وإن لم يكن ذلك جائزًا فما هو الأفضل أن يفعل بها ؟
سوال : کیا میت کے زیر استعمال لباس کو محفوظ کرکے رکھ لینا (یادگار کے طور پر ) جائز ہے ؟
اگر ایسا کرنا جائز نہیں تو کون سی صورت افضل ہے ؟
فأجاب : " يجوز الانتفاع بملابس الميت لمن يلبسها من أسرته ، أو أن تعطى لمن يلبسها من المحتاجين ولا تهدر ، وعلى كل حال هي من التركة إذا كانت ذات قيمة فإنها تصبح من التركة تلحق بتركته وتكون للورثة
شیخ حفظہ اللہ نے جواب دیا کہ :
میت کے زیر استعمال لباس کو استعمال کرنا اس کے گھر والوں کیلئے جائز ہے ،اور ان کیلئے یہ بھی جائز ہے کہ یہ کپڑے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو دے دیں ،اور میت کی چھوڑی ہوئی کوئی بھی چیز جس کی کوئی قیمت ہو وہ اس میت کے ترکہ کا حصہ ہوتی ہے ،اور میت کے ورثآء کے حصہ میں آتی ہے (وہ اس چیز کا جو استعمال کرنا چاہیں کرسکتے ہیں )
والاحتفاظ بها للذكرى لا يجوز ولا ينبغي ، وقد يحرم إذا كان القصد منها التبرك بهذه الثياب ، وما أشبه ذلك ، ثم أيضًا هذا إهدار للمال ، لأن المال ينتفع به ، ولا يجعل محبوسًا لا ينتفع به " انتهى من "المنتقى" (2/271).
میت کی چھوڑی ہوئی ان اشیاء کو محض یادگار بناکر محفوظ کرلینا جائز نہیں ، اور ان چیزوں کو تبرک کے طور پر (یعنی حصول برکت کیلئے ) سنبھال کر رکھنا یا ایسے کسی اور غیر شرعی قصد سے محفوظ کرنا تو حرام ہے ،میت کی چھوڑی ہوئی کسی قابل استعمال چیز کواستعمال کرنے کی بجائےمحض یادگار بنا کر رکھ چھوڑنا اس کو ضائع ،رائیگاں کرنا ہے جبکہ اس دنیا میں حاصل ہونے والا کسی بھی صورت کا مال انسانی فائدہ کیلئے ہوتا ہے اس سے فائدہ اٹھائے بغیر اسے رکھ چھوڑنا ٹھیک نہیں ۔
والله أعلم .
المصدر: الإسلام سؤال وجواب
https://islamqa.info/ar/answers/102403/
 
Last edited:
Top