• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوہر کا بیوی کو طلاق دینا

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ملا جی--ایک سوال پوچھنا ہے مگر ڈر لگتا ہے کہ آپ کوئی فتوی ہی نہ لگا دیں۔
پوچھو پوچھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! سوال پوچھنے پر کوئی فتوی نہیں۔
یہ بتائیں کہ اسلام مرد کو طلاق کا حق دیتا ہے، عورت کو کیوں نہیں دیتا۔۔۔۔؟؟کیا عورت انسان نہیں؟ کیا اس کے حقوق نہیں؟یہ کیا بات ہے کہ مرد تو جب جی چاہے عورت کو دوحرف کہہ کر فارغ کردے اور عورت ساری زندگی اس کے ظلم کی چکی میں پسنے کے باوجود بھی اپنی جان بخشی نہ کراسکے۔۔۔؟ کیا یہ ظلم نہیں؟؟؟؟؟
تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں، مگر پہلے تم مجھے ایک بات بتاؤ۔۔۔۔۔!!
جی ملا جی۔۔۔۔۔۔۔۔!!
یہ بتاؤ کہ تم ایک بس میں کہیں جانے کے لئے سوار ہوئے، بس والے کو کرایہ دیا، ٹکٹ لی، سیٹ پر بیٹھے، سفر شروع ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بس والا تمہیں منزل پر پہنچنے سے پہلے کہیں راستے میں، کسی جنگل، کسی ویرانے میں اتارنے کا حق رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟
بالکل نہیں۔
ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اب یہ بتاؤ کہ اگر تم راستے میں کہیں اترنا چاہو تو تمہیں اس کا حق حاصل ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟
بالکل ہے، میں جہاں چاہوں اتر سکتا ہوں۔وجہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
وجہ یہ ملا جی کہ وہ مجھ سے کرایہ لے چکا ہے، لہذا منزل سے پہلے کہیں نہیں اتار سکتا، اور مین جہاں چاہوں اتر سکتا ہوں، وہ مجھے نہیں روک سکتا، اس لئے کہ اس کا کام کرائے کے ساتھ تھا جو وہ مجھ سے لے چکا ہے۔
بالکل ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اب ایک اور بات بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!تم ایک مزدور کو لے کر آئے ایک دن کے کام کے لئے، اس نے کام شروع کیا، اینٹیں بھگوئیں، سیمنٹ بنایا، دیوار شروع کی، اور آٹھ دس اینٹیں لگا کر کام چھوڑ کر گھر کو چل دیا، تمہارا رد عمل کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
میں اسے پکڑ لوں گا، نہیں جانے دوں گا، کام پورا کرے گا تو اسے چھٹی ملے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اور اگر تم اسے کام کے درمیان میں فارغ کرنا چاہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
مجھے اس کی اجرت دینی ہوگی، اجرت دینے کے بعد میں اسے کسی بھی وقت فارغ کرسکتا ہوں۔اگر وہ کہے کہ میں اجرت لینے کے باوجود نہین جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟وہ ایسا نہیں کرسکتا، میں اسے لات مار کر نکال دوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔!!
بالکل ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اب اپنے سوال کا جواب سنو۔۔۔۔۔۔۔۔!!دنیا میں جس قدر بھی معاملات ہوتے ہیں، ان میں ایک فریق رقم خرچ کرنے والا ہوتا ہے تو دوسرا اس پیسے کے بدلے میں خدمت کرنے والا۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کا اصول یہ ہے کہ ہمیشہ پیسہ خرچ کرنے والے کا اختیار دوسرے سے زیادہ ہوتا ہے، کوئی معاملہ طے ہونے کے وقت تو دونوں فریقوں کی رضا ضروری ہے، لیکن معاملہ طے ہوجانے کے بعد اس کے انجام تک پہنچنے سے پہلے، رقم خرچ کرنے والا فرد تو واجبات کی ادائگی کے بعد خدمت کرنے والے کو فارغ کرسکتا ہے، مگر خدمت فراہم کرنے والا کام فریق درمیان میں چھوڑ کر خرچ کرنے والے کو فارغ نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔!!
اگر رقم کے بدلے میں خدمت فراہم کرنے والے فریق کو کسی بھی وقت پیسہ خرچ کرنے والے کو فارغ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو مزدور دوپہر کو ہی کام چھوڑ کر گھر چلے جائیں، ملازم عین ڈیوٹی کے درمیان غائب ہوجائیں، مالک مکان مہینے کے درمیان ہی کرائے دار کو گھر سے نکال دیں، درزی آپ کا سوٹ آدھا سلا اور آدھا کٹا ہوا آپ کے حوالے کرکے باقی کام کرنے سے انکار کردے، نائی آپ کے آدھے سر کی ٹنڈ کرکے آپ کو دوکان سے باہر نکال دے، دنیا کا سب نظام تلپٹ ہوجائے۔ کچھ سمجھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
ہاں ہاں ملا جی سمجھ رہا ہوں، مگر میں تو وہ طلاق والی بات۔۔۔۔۔۔۔!!وہی سمجھا رہا ہوں۔اب سن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
ایک مرد اور ایک عورت میں جب نکاح کا پاکیزہ، محبت، پیار اور اعتماد والا رشتہ ہوتا ہے تو یہ کوئی کاروباری یا جزوقتی معاملہ نہیں ہوتا، یہ دلوں کا سودا، اور ساری زندگی کا سودا ہے، مگر اس میں بھی اسلام ہمیں کچھ اصول اور ضوابط دیتا ہے۔
اس معاملے اور معاہدے میں ایک فریق مرد ہے، اسلام اس کے اوپر اس کی بیوی کا سارا خرچ، کھانا پینا، رہن سہن، علاج معالجہ، کپڑا زیور، لین دین، اور زندگی کی ہر ضرورت کا بوجھ ڈالتا ہے،
اب اس عورت کی ساری زندگی کی ہر ذمہ داری اس مرد پر ہے،
یہی اس کی حفاظت اور عزت کا ذمہ دار ہے،
یہی اس کی ہر ضرورت کا مسئول ہے،
یہاں تک کہ اس عورت کے مرنے کے بعد اس کے کفن دفن کا بندوبست بھی اسی مرد کو کرنا ہے،
اور مرد کے مرنے کی صورت میں اس مرد کی بہت سی وراثت بھی اسی عورت کو ملنی ہے۔
ان دونوں میاں بیوی سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ یوں تو دونوں ہی کے ہیں، مگر اسلام ان بچوں کی مکمل مالی ذمہ داری بھی صرف اور صرف مرد پر ڈالتا ہے،
ان بچوں کی رہائش، کھانا پینا، کپڑے، علاج معالجہ، تعلیم اور کھیل کے تمام مالی اخراجات بھی مرد اور صرف مرد کے ذمہ ہیں۔ اسلام عورت کو ان تمام ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آزاد رکھتا ہے۔
ان سب ذمہ داریوں سے پہلے، عقد نکاح کے وقت ہی مرد نے مہر کے عنوان سے ایک بھاری رقم بھی عورت کو ادا کرنی ہے۔
ان سب کے علاوہ اسلام مرد کو اس کی بیوی کے بارے میں حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے، وہ اسے "من قتل دون عرضه فهو شهيد" کی خوش خبری سنا کر اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کے لئے جان تک دے دینے کی ترغیب دیتا ہے،
اور "حتي اللقمة ترفعها الي في امرأتك" کہ کر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے پر بھی ثواب کی نوید سناتا ہے،
وہ اسے "اتقوا الله في النساء" کہہ کر بیوی کو تنگ کرنے، ستانے، بلا وجہ مارنے، دھمکانے اور پریشان کرنے پر اللہ کی ناراضگی اور عذاب کی وعید سناتا ہے تو "خيركم خيركم لاهله وانا خيركم لاهلي" کہ کر گھر والوں کو محبت، پیار، سکون دینے، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اور انہیں جائز حد میں رہ کر خوش رکھنے پر اللہ کی رضا کی نوید سناتا اور ایسے لوگوں کو بہترین انسان قرار دیتا ہے۔
مرد پر اس قدر ذمہ داریاں عائد کرنے کے بعد وہ بیوی پر اپنے شوہر کی خدمت، اطاعت، اس کے ساتھ وفا داری، اس کے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔
مرد اور عورت کے اس معاہدے میں عورت کی ساری زندگی کی ہر مالی ذمہ داری مرد پر ہے، تو تم خود بتاؤ کہ طلاق کا حق ان دونوں میں سے کس کے پاس ہونا چاہئے؟
ویسے ہونا تو مرد کے پاس ہی چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے اگر عورت کو بھی یہ حق دے دیا جائے تو آخر اس میں حرج کیا ہے؟حرج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
بھئی فرض کرو تم نے ایک خوبصورت عورت کا رشتہ پسند کیا، رشتہ بھیجا، بات چلی، رشتہ طے ہوگیا، انہوں نے ایک لاکھ مہر کا مطالبہ کیا، تم نے منظور کیا، نکاح ہوگیا، تم نے جونہی مہر اس کے حوالے کیا، اس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔"میں تمہیں طلاق دینی ہوں، طلاق طلاق۔۔"۔۔۔ اور شام کو کسی اور سے شادی کرلی، اس سے مہر وصول کرکے تیسرے، پھر چوتھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تمہارے دل پر کیا بیتے گی مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اوہ ملا جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! آپ نے تو میرے ہوش اڑا دئیے، یہ تو بہت خوفناک بات ہے۔
صرف یہی نہیں مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اس سے آگے چلو، اب جو مرد کھلے دل سے بیوی پر اپنا مال جان دل سب کچھ لٹاتا ہے، اس کے نخرے اٹھاتا ہے، صرف اس لئے کہ وہ اسے ہمیشہ کے لئے اپنی سمجھتا ہے۔۔۔۔ اگر اس کے دل میں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ یہ کسی بھی وقت اسے لات مار کر کسی دوسرے آشیانے کو روانہ ہوسکتی ہے، تو وہ اسے گندم کا ایک دانہ بھی دیتے وقت سو مرتبہ سوچے گا، اور صرف اس مرد کی نہیں بلکہ اس عورت کی زندگی بھی ہمیشہ کے لئے جہنم بن جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
سمجھ گیا سمجھ گیا۔۔۔۔۔۔!! انتہائی خوفناک۔۔۔۔۔!! بہت ہی خطرناک سچوئشن۔۔۔۔!!مگر ایک بات ملا جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! کہ کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے، اور اب تو بہت سے گھرانوں میں ہورہا ہے، کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ نہ تو انصاف کرتا ہے، اور نہ اس کی جان چھوڑتا ہے۔ اس صورت میں کیا کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
آہ کیا دل دکھانے والا سوال پوچھ لیا تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔!
کیوں ملا جی۔۔۔۔۔؟؟ اس میں دل دکھانے والی کیا بات ہے۔۔؟
دیکھو مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!ان تمام مسائل کا حل اور مکمل حل اسلامی نطام ہے، وہی اسلامی نظام جس کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے تم جیسے لوگ ساڑھے چوبیس گھنٹے پھرتیاں دکھاتے رہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اگر مکمل طور پر اسلامی نظام قائم ہو ہر طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے فرامین کی عزت، اہمیت اور بالادستی ہو تو ایک طرف تو سب لوگوں میں اللہ کا خوف، تقوی، نیکی کے شوق اور برائی سے دوری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر سطح پر ظلم، زیادتی اور گناہ کو روکنے کے لئے وہ کردار ادا کرنی ہیں جو پولیس، فوج اور عدالت بھی نہیں کرسکتی۔۔۔
مگر افسوس کہ تم لوگ پوری توانائی اسی خوف خدا اور دینداری کو ملیامیٹ کرنے پر صرف کرتے ہو، اپنے آشیانے کو خود آگ لگاتے ہو اور پھر اسے بجھانے کے لئے دوڑے دوڑے ہمارے پاس آتے ہو، اپنے بچوں کو اللہ، رسول، قرآن، دین اسلام کا سبق دینے کی بجائے فلموں اور ڈراموں کا سبق دیتے ہو اور جب وہ اس سبق پر عمل کرتے ہوئے تمہیں جوتے لگاتے ہیں تو روتے روتے ہمارے پاس آکر تعویذوں کی درخواست کرتے ہو۔۔۔
سن میرے مسٹر بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!اگر مکمل طور پر صحیح معنوں میں اسلامی نظام نافذ ہو تو اول تو ایسے واقعات پیش آئیں گے نہیں،
اگر اکا دکا ایسا ہو بھی جائے تو بیوی فورا اسلامی عدالت میں جاکر قاضی کو شوہر کی زیادتی کی شکایت کرے گی اور قاضی سالوں تک اس مقدمے کو لٹکانے یا وکیلوں کے ہاتھوں اس کی کھال اتروانے کے بجائے دونوں کا مؤقف سن کر فوری طور پر عورت کو اس کے شوہر سے اس کا حق دلوائے گا،
اگر شوہر کسی صورت اس کا حق نہیں دیتا، یا دینے پر قادر ہی نہیں ہے، تو اس سے عورت کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا جائے گا اور اگر وہ طلاق بھی نہیں دیتا، تو عدالت اسے جیل میں بند کردے گی، تھانے جائے گا، پولیس والوں کے چھتر کھائے گا، تنہائی اور بے بسی کا مزہ چکھے گا تو خود ہی دوسرے کی بے بسی کا احساس پیدا ہوگا، ورنہ جب تک اس کی بیوی عذاب میں رہے گی، وہ بھی اسی دائمی عذاب میں مبتلا رہے گا۔
تحریر و ترتیب : احسن خدامی
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
ماشاء اللہ بہت عمدہ تحریر ہے۔
یوں تو ”بائی ڈیفالٹ“ طلاق دینے کا حق شوہر کو ہے۔ لیکن اگر بوقت نکاح عورت یہ حق خود طلب کرے اور مرد اس بات پر راضی ہوجائے تو ایسی صورت میں یہ حق بیوی کو بھی مل سکتا ہے۔ (ڈاکٹر ذاکر نائیک)
 

ام ثمامہ

مبتدی
شمولیت
جنوری 02، 2016
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
23
اسی پوری تحریر سے ایک سوال زہن میں آیا ہے۔۔
کیا عورت طلاق کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتی؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اسی پوری تحریر سے ایک سوال زہن میں آیا ہے۔۔
کیا عورت طلاق کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتی؟
حرام خور سے طلاق کا مطالبہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کسی عورت کا شوہر سود کھاتا ہو یا سودی کاموں میں ملوث ہو تو کیا وہ طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
١۔ عورت کے لیے بلاوجہ طلاق لینا حرام ہے اور ایسی عورت پر جنت کی خوشبو کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

٢۔ ایک عورت اپنے شوہر سے مختلف اسباب کی بنیاد پر طلاق لے سکتی ہے مثلا شوہر اسے نان نفقہ نہ دیتا ہو یا شوہر محرمات کا مرتکب ہو یا شوہر کے اخلاق عمدہ نہ ہوں یاشوہر میں کچھ جسمانی عیوب یا بیماریاں ہوں وغیرہ ۔ آپ کی بیان کردہ صورت میں عورت کے لیے طلاق کے مطالبہ کا حق شرعی حق ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کو صرف اس بنیاد پر علیحدگی کا اختیار دے دیا تھا کہ انہیں اپنا شوہر پسند نہیں تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ اندیشہ تھا کہ وہ اس کے حقوق پورے نہ کر سکیں گی۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی
فتوی کمیٹی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عورت کے مطالبہ طلاق کیلئے درج ذیل تفصیل ہے :

الأحوال التي يباح فيها للمرأة طلب الطلاق

رقم الفتوى: 116133
التصنيف: أحكام أخرى
السؤال
ما هي الأسباب الشرعية الدينية والدنيوية لكي تطلب المرأة الطلاق؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

الإجابــۃ
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:

فالأصل أنه لا يجوز للمرأة أن تطلب الطلاق إلا إذا وجد سبب لذلك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة سألت زوجها الطلاق من غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة.رواه أبو داود والترمذي وغيرهما وصححه الألباني.

ولكن يجوز للمرأة طلب الطلاق إذا وقع عليها ضرر من زوجها، وهذا الضرر له صور متعددة منها:

1- عجز الزوج عن القيام بحقوق الزوجة كالنفقة والمعاشرة والسكن المستقل ونحوها، جاء في المغني لابن قدامة: وجملته أن الرجل إذا منع امرأته النفقة لعسرته وعدم ما ينفقه، فالمرأة مخيرة بين الصبر عليه وبين فراقه. انتهى.

ويلحق بذلك بخله الشديد وتقتيره في النفقة بحيث يمنعها الحاجيات.

2- إهانة الزوج لزوجته بالضرب -لغير سبب شرعي- واللعن والسب ونحو ذلك، ولو لم يتكرر بمعنى أنه يجوز لها طلب الطلاق ولو حدث هذا من الزوج مرة واحدة،.

قال خليل: ولها التطليق بالضرر البين ولو لم تشهد البينة بتكرره. انتهى.

وقال الدردير في الشرح الكبير، فقال: ولها أي للزوجة التطليق بالضرر، وهو ما لا يجوز شرعاً، كهجرها بلا موجب شرعي، وضربها كذلك وسبها وسب أبيها نحو: يا بنت الكلب، يا بنت الكافر، يا بنت الملعون، كما يقع كثيراً من رعاع الناس، ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق، كما هو ظاهر وكوطئها في دبرها. انتهى.

3- إذا تضررت بسفر زوجها كأن سافر الزوج أكثر من ستة أشهر وخافت على نفسها الفتنة، قال ابن قدامة رحمه الله في المغني: وسئل أحمد أي ابن حنبل رحمه الله: كم للرجل أن يغيب عن أهله؟ قال: يروى ستة أشهر.

4- إذا حُبس زوجها مدة طويلة وتضررت بفراقه، على ما ذهب إليه المالكية، جاء في الموسوعة الفقهية الكويتية: وذهب المالكية إلى جواز التفريق على المحبوس إذا طلبت زوجته ذلك وادعت الضرر، وذلك بعد سنة من حبسه، لأن الحبس غياب، وهم يقولون بالتفريق للغيبة مع عدم العذر، كما يقولون بها مع العذر على سواء كما تقدم. انتهى من الموسوعة.

5- إذا رأت المرأة بزوجها عيباً مستحكماً كالعقم، أو عدم القدرة على الوطء، أو مرضاً خطيراً منفراً ونحو ذلك.

6- فسوق الزوج أو فجوره بفعل الكبائر والموبقات، أو عدم أدائه العبادات المفروضة -ما لم يأت بما يوجب كفره وإلا انفسخ عقد النكاح- وقد صبرت عليه زوجته ونصحته فلم يستجب، وأخذته العزة بالإثم، فللزوجة حينئذ أن تسأله الطلاق، فإن أبى فلها أن ترفع أمرها للقضاء ليفرق بينهما.

وقد سئل الشيخ محمد بن عثيمين رحمه الله: ما حكم طلب المرأة للطلاق من زوجها الذي يستعمل المخدرات؟ وما حكم بقائها معه؟ علماً بأنه لا يوجد أحد يعولها وأولادها سواه.. فأجاب: طلب المرأة من زوجها المدمن على المخدرات الطلاق جائز، لأن حال زوجها غير مرضية، وفي هذه الحال إذا طلبت منه الطلاق فإن الأولاد يتبعونها إذا كانوا دون سبع سنين، ويلزم الوالد بالإنفاق عليهم وإذا أمكن بقاؤها معه لتصلح من حاله بالنصيحة فهذا خير. انتهى.

7- إذا وجدت في نفسها نفرة منه وبغضاً شديداً في قلبها ولو لم تعرف سبب ذلك فإنها معذورة في طلب الطلاق، وفي مثل هذه الحالة يقول ابن جبرين حفظه الله: وفي هذه الحالة يستحب لزوجها أن يطلقها إذا رأى منها عدم التحمل والصبر بحيث يعوزها ذلك إلى الافتداء والخلع، فإن في طلبها الطلاق تفريجا لما هي فيه من الكربات ولا إثم عليها في ذلك.

8- منع الزوجة مطلقاً من رؤية أهلها خصوصاً والديها، وللفائدة في ذلك تراجع الفتاوى ذات الأرقام التالية: 105891، 45085، 69158، 113458.

والله أعلم.


 
Last edited:
Top