• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوہر کی حددرجہ خدمت

محبوب حسن

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
228
پوائنٹ
0
 شوہر کی حددرجہ اطاعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ خاتون اس کی خدمت گزار بیوی بن کر رہے۔

 شادی کے بعد مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی خدمت گزاربن جائے ۔ اس کے کھانے پینے ، سونے جاگنے ، اٹھنے کا شیڈول اس کی بیوی کے پاس ہو۔ باوقت اسے لباس ملے، وقت پرکھانا اس کے سامنے حاضر ہو، اسے خود جو تے پالش کرنے، اور لباس استری کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو ۔ ظاہر ہے جو بیوی خدمت گزار ی کا جذبہ لے کر ا س کے گھر آئی ہو وہ مرتے دم تک اس کے ساتھ رہے گی، اس کے بغیر خاوند کا ایک دن گزارنا بھی مشکل ہو جائے گا اور یہی ایک عورت کی کامیابی ہے کہ اس کا خاوند اس کے بغیر ایک دن بھی گزارنے سے عاجز ہو جائے اور یہ درجہ خدمت گزاری کے بغیر نہیں مل سکتا۔

صحابیات اپنے شوہروں کی خدمت گزاری کا کس قدر جذبہ رکھتی تھیں، اس بارے میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا درج ذیل بیان قابل غور ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ”زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کو ئی مال، کو ئی غلام اور کوئی چیز نہ تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، اسے پانی پلاتی، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی تھی، میں اچھی طرح روٹی پکانا نہیں جانتی تھی چنانچہ کچھ انصاری لڑکیاں جو بڑی سچی تھیں، میری روٹیاں پکا جاتی تھیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی ، اس زمین سے میں کھجور کی گھٹلیاں سر پر لاد کر لایا کر تی تھی جبکہ یہ زمین گھر سے دومیل دور تھی۔

 اس کے بعد میرے والد (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ) نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا جو گھوڑے کی دیکھ بھال کا سب کا م کرنے لگا اور میں بے فکر ہوگئی۔ گویا والد ماجد نے (غلام بھیج کر )مجھ کو آزاد کر دیا۔“ 

(صحیح بخاری : کتاب النکاح :باب الغیرة۔۔۔(حدیث۵۲۲۴)صحیح مسلم : کتاب السلام (حدیث ۲۱۸۲)احمد (ج۴ص۵۲۲) 
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
خرابی در اصل تب پیدا ہوتی ہے جب فریقین (زوجین) میں سے ہر کوئی اپنے حقوق کا تقاضا کرے کہ میرے تو فلاں فلاں حقوق ہیں جو مجھے اسلام نے دئیے ہیں، جو مدِ مقابل مجھے ادا نہیں کر رہا۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف ہر انسان کے حقوق ہی ہیں اسلام میں؟ کسی کا کوئی فرض، کوئی ذمہ داری نہیں؟!!

حقوق کا یہ جھگڑا ہمیں مغرب نے سکھایا ہے۔ اس سے کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ہر ایک کی نظر اپنے فوائد پر ہوتی ہے جو وہ دین کے نام پر کشید کرنا چاہتا ہے، ویسے وہ دین پر کتنا عمل کرتا ہے، اس کی کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔ ممکن ہے کہ ایک طرف وہ سود کھاتا ہو یعنی اللہ ورسول سے جنگ کرتا ہو اور دوسری طرف اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہا ہو جو اسلام نے اسے دئیے ہیں۔

شوہر کو بیوی سے شکوہ ہے کہ اسلام نے تو مجھے اتنے حقوق دئیے ہیں کہ اگر کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو وہ شوہر کو جائز ہوتا۔
دوسری طرف بیوی کو شوہر سے شکوہ ہے کہ اسلام کا حکم ہے کہ تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہترین ہے، اور نبی کریمﷺ گھر میں گھر کے کاموں میں اپنی بیوی کا حصّہ بٹاتے رہتے تھے۔ وغیرو غیرہ

حکمرانوں کو یہ شکوہ ہے کہ عوام دل سے ہماری اطاعت نہیں کرتے حالانکہ ہماری اطاعت تو رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔
دوسری طرف عوام کو شکوہ ہے کہ حکمران ہمارے حقوق کا دھیان کیوں نہیں رکھتے اور جو حکمران عوام کے حقوق کا دھیان نہ رکھے اس پر جنّت حرام ہوجاتی ہے۔
وعلیٰ ہذا القیاس!

اسلام فرائض پر زور دیتا ہے، ہر شخص اپنے فرائض پر نظر رکھے، ان کو اللہ کی عبادت سمجھ کر ادا کرے، اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک سے اس کے فرائض کے متعلق حساب وکتاب ہوگا۔ جب یہ سوچ پیدا ہو جائے تو سب کے حقوق بدرجۂ اتمّ پورے ہوتے رہیں گے۔

نبی کریمﷺ کا فرمان ہے، سیدنا ابن عمر﷜ راوی ہیں: « ألا كلكم راع. وكلكم مسئول عن رعيته. فالأمير الذي على الناس راع، وهو مسئول عن رعيته. والرجل راع على أهل بيته، وهو مسئول عنهم. والمرأة راعية على بيت بعلها وولده، وهي مسئولة عنهم. والعبد راع على مال سيده، وهو مسئول عنه. ألا فكلكم راع. وكلكم مسئول عن رعيته ۔۔۔ صحيح مسلم
کہ خبردار تم سب ذمہ دار ہو، اور ہر اک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا، حکمران لوگوں پر ذمہ دار ہوتا ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہوتا ہے، اس سے ان کے متعلق سوال ہوگا۔ عورت شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ غلام اپنے آقا کے مال پر ذمہ دار ہوتا ہے، اور اس سے اس کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔ خبردار! تم سب ذمہ دار ہو، اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داریوں (فرائض) کے سوال ہوگا۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اور اسے خیال رکھنے والا شوہر عطا فرمائے! آمین (ابتسامہ)
آمین ثم آمین
خیال تو ہم اپنی جان سے بھی زیادہ رکھیں گے ان شاءاللہ
اگر پسند کی ہوئی تو (ابتسامہ)
 

allahkabanda

رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
174
ری ایکشن اسکور
568
پوائنٹ
69
خیال تو ہم اپنی جان سے بھی زیادہ رکھیں گے ان شاءاللہ
نہیں یار اتنا زیادہ نہ رکھنا
اور نہ ہی بالکل چھوڑ دینا کہ آپکی اہلیہ کو یہ کہنا پڑے
 

محبوب حسن

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2011
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
228
پوائنٹ
0
خیال تو ہم اپنی جان سے بھی زیادہ رکھیں گے ان شاءاللہ
اگر پسند کی ہوئی تو (ابتسامہ)
آپ کے اس جملے میں مجھے "آئیڈلزم" کی پراسرار مہک آ رہی ہے۔۔۔۔ اللہ کرے میرا اندازہ غلط ہو۔۔۔۔۔ اللہ مالک الملک ہمیں اس نظریے سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین۔
 
Top