محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اگر شوہر گھر آتا ہے اور اپنی بیوی سے ٹھنڈا پانی یا اچھا کھانا کھانے کی خواہش کااظہار کرتاہے اور عورت انکار کر دیتی ہے تو وہ خود کو لر کے پاس جاکر پی سکتا ہے یاکسی بہترین ریسٹورینٹ میں جاکر بہترین و لذیذ کھانا تناول کر سکتا ہے ۔شوہر کے مطالبے پر بیوی مباشرت سے نہ بھاگے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر شوہر بیوی سے ہم بستری اور مباشرت کی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور بیوی انکارکر دیتی ہے توپھر شوہر کہاں جائے گا؟ ہوسکتا کہ باہر جاکر کسی حرام زنا کامرتکب ہویابیوی سے اسکا دل اچاٹ ہوجائے اور وہ کچھ اور سوچنے لگے۔جب بیویاں مباشرت سے زیادہ منع کرنے لگیں گی توشوہر بھی حرام زنا کے زیادہ مرتکب ہونے لگیں گے پھر اس طرح سے معاشرہ آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہونا شروع ہوجائے گا۔
اسی وجہ سے شریعت نے اس قسم کی عورتوں کے شدید مذمت و عید سنائی ہے ۔چنانچہ حدیث میں آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں اگر مرد عورت کو بستر پر بلائے اور وہ منع کر دے توصبح ہونے تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں ۔(۱) بخاری کتاب النکاح باب اذا باتت لمراۃ مھاجرۃ فراش زوجہا۔
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ فرماتے ہیں :اگر عورت ایسی حالت میں رات گذارے کہ وہ اپنے شوہر کے بستر پر نہ ہوتو فرشتے اس وقت تک اس پر لعنت کرتے ہیں جب تک وہ بستر پر واپس نہیں آجاتی۔(۲) ایضاً۔
نیز آپ ﷺ فرماتے ہیں :قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کسی عورت کو ا س کاشوہر بستر پر بلائے اور وہ اسے منع کردے تو جب تک وہ عورت راضی نہیں ہوجاتا اللہ اس سے ناراض رہتا ہے ۔(۱) مسلم۔
اس لئے عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ شوہر کے بلانے پر اسے منع کرے سوائے اس کے کہ اس کا کوئی شرعی عذر نہ ہو۔امام ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں اس حدیث میں یہ فائدہ ہے کہ مباشرت پر مرد کا صبر عورت سے زیادہ کمزور ہے ۔
آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں آدمی کے سب سے زیادہ پریشان کرنے والے چیز اس کی نکاح کی خواہش ہے اسی لئے شریعت نے عورتوں کو اس معاملے میں مردوں کی مدد کا حکم دیا ہے ۔(۲) فتح الباری شرح صحیح البخاری ج۹ ص۴۰۶۔