• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شيخ الحدیث مولانا محمد اسماعيل سلفی رحمہ اللہ

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
شيخ الحديث مولانا محمد اسماعيل سلفي رحمہ اللہ

از عبدالرشيدعراقي




کائنات نے اپني بقا کيلئے کبھي اشخاص کے سامنے ہاتھ نہيں پھيلائے مگريہ حقيقت اپني جگہ مسلّم ہے کہ اس عالم رنگ وبو ميں جو زندگي بھي نظر آتي ہے وہ چند باہمت اشخاص کي جدوجہد کا نتيجہ ہے يہ شخصيتيں اگرچہ دنيا سے اٹھ جاتي ہيں مگر ان کي ياد ہميشہ تازہ رہتي ہے۔ موت ان کے جسموں کو فنا کردينے پر قدرت رکھتي ہے مگر ان کي عظمت اس کي دستبرد سے ہميشہ محفوظ رہتي ہے ۔يہ لوگ اپنے پيراہن خاکي ميں زندہ نہ سہي مگر اپنے اعمال وافعال ، خيالات وتصورات ميں ہميشہ ہميشہ کيلئے جيتے ہيں۔ اپنے رفيق اعليٰ کي قربت انہيں اس دنيا سے دور نہيں کرتي۔ انسانيت کے قافلے ان کے نقش پا کو ديکھ کر فوراً پکار اٹھتے ہيں ۔

ابھي اس راہ سے کوئي گيا ہے

مرحوم شيخ الحديث مولانا محمد اسماعيل سلفي کاشمار بھي انہي چند خوش نصيب لوگوں ميں شمار ہوتاہے وہ ايک فرد نہيں تھے ، بلکہ اپني ذات ميں ايک تحريک ، ايک انجمن تھے اس لئے ان کي موت ايک فرد کي موت نہيں ، بلکہ ايک ادارہ کي موت ہے۔ ايسي باکمال شخصيتيں صديوں بعد پيداہوتي ہيں۔ اور ايسي شخصيتوں کے بارے ميں شاعر مشرق نے فرمايا تھا۔

ہزاروں سال نرگس اپني بے نوري پہ روتي ہے

بڑي مشکل سے ہوتاہے چمن ميں ديدہ ور پيدا
مولانا سلفي مرحوم بيک وقت ايک جيد عالم دين بھي تھے اور مجتہد بھي ، مفسر قرآن بھي اور محدث بھي ، مؤرخ بھي اور محقق بھي ، خطيب بھي اور مقرر بھي ، معلم بھي اور متکلم بھي ، اديب بھي اور نقاد بھي ، دانشور بھي اور مبصر بھي مصنف بھي اور سياستدان بھي ۔ تمام علوم اسلاميہ پر ان کو يکساں قدرت حاصل تھي : تفسير قرآن ، حديث ، اسماء الرجال ، تاريخ وسير اور فقہ پر ان کو عبور کامل حاصل تھا ۔ حديث اور تعليقات حديث پر ان کا مطالعہ بہت وسيع تھا حديث کے معاملہ ميں معمولي سي مداہنت بھي برداشت نہيں کرتے تھے۔ مولانا محمد عطاء اللہ حنيف رحمہ اللہ مرحوم فرمايا کرتے تھے کہ :

’’برصغير (پاک وہند) ميں علمائے اہلحديث ميں شيخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امر تسري رحمہ اللہ اور شيخ الحديث مولانا محمد اسماعيل سلفي رحمہ اللہ ايسي دوشخصيتيں گزري ہيں جنہوں نے حديث کي مدافعت ، نصرت اور حمايت ميں اپني زندگياں وقف کررکھي تھيں۔ جب بھي کسي طرف سے حديث پر ناروا قسم کي تنقيد کي گئي تو مولانا امر تسري اور مولانا سلفي رحمہما اللہ تعاليٰ فوراً اس کا نوٹس ليتے تھے اور معترضين کا دلائل سے جواب ديتے تھے۔ اللہ تعاليٰ ان کو جزائے خير دے اوران کي قبروں کو روشن رکھے۔ اب يہ ڈيوٹي محترم حافظ عبد القادر روپڑي اور خاکسار( عطاء اللہ حنيف) انجام دے رہا ہے۔ جب بھي حديث کے خلاف کوئي مضمون يا رسالہ ، کتاب وغيرہ شائع ہوتي ہے۔ تو حافظ روپڑي صاحب اور خاکساراس کا فوراً نوٹس ليتے ہيں۔

اور دلائل سے معترض کے اعتراضات کا جواب شائع کرتے ہيں ۔ اللہ تعاليٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماري محنت کو قبول فرمائے۔

مولانا محمد اسماعيل سلفي مرحوم قدرت کي طرف سے بڑے اچھے دل ودماغ لے کر پيدا ہوئے تھے نيزغير معمولي حافظہ سے قدرت نے نوازا تھا۔ ٹھوس اور قيمتي مطالعہ ان کا سرمايہ علم تھا تاريخ پر گہري اور تنقيدي نظر رکھتے تھے۔ ملکي سياسيات سے نہ صرف يہ کہ باخبر تھے بلکہ اس پر اپني ناقدانہ رائے بھي رکھتے تھے ۔ برصغير کي سياسي وغير سياسي تحريکات کے پس منظر سے واقف تھے۔ عالم اسلام کي تحريکات سے بھي مکمل واقفيت رکھتے تھے۔

ان کي علمي وديني خدمات کے علاوہ سياسي تحريکات ميں بھي ان کي خدمات قدرکے قابل ہيں۔ تحريک استخلاص وطن کے سلسلہ ميں کئي بار اسير زندان بھي رہے۔

علم وفضل اور اخلاق وعادات کے اعتبار سے مولانا محمد اسماعيل سلفي مرحوم جامع الکمالات تھے بہت زيادہ کريم النفس اور شريف الطبع انسان تھے ۔اپنے پہلو ميں ايک درد مند دل رکھتے تھے ۔کريمانہ اخلاق اور صفات کے حامل تھے يہ طبيعت ميں قناعت تھي۔ جاہ ورياست کے طالب نہ تھے۔ مردم شناس تھے خودپسندي اور نخوت سے نفرت تھي بہت سادہ طبيعت کے مالک تھے ۔سادہ لباس پہنتے تھے اور سادہ لباس ميں جمعيت اہلحديث کے اجلاسوں ميں شرکت کرتے تھے ۔ جمعيت اہلحديث پاکستان کے ناظم اعليٰ تھے ۔ايک دفعہ ايک اجلاس ميں تہمد پہنے شريک اجلاس ہوئے تو مولانا سيد محمد داؤد غزنوي رحمہ اللہ امير جمعيت اہلحديث جو اجلاس کي صدارت فرما رہے تھے نے فرمايا کہ

’’ميں بحيثيت امير جمعيت اہلحديث پاکستان ناظم اعليٰ صاحب کو حکم ديتاہوں کہ آئندہ اس لباس ميں اجلاس ميں شرکت نہ کيا کريں بلکہ شلوار اور شيرواني پہن کر آيا کريں۔‘‘

مولانا محمد اسماعيل سلفي مرحوم ايک کامياب مصنف بھي تھے ۔ان کي اکثر تصانيف حديث کي تائيد وحمايت اور نصرت ومدافعت ميں ہيں۔ آپ کي تصانيف کي اجمالي فہرست درج ذيل ہے:


1۔مشکوۃ المصابيح مترجم

2۔امام بخاري کا مسلک

3۔واقعہ افک

4۔مسئلہ حيات النبي ﷺ

5۔رسول اکرم صلي اللہ عليہ وسلم کي نماز

6۔زيارۃ القبور

7۔ سنت قرآن کے آئينہ ميں

8۔مقام حديث 9۔حديث کي تشريعي اہميت

10۔حجيت حديث آنحضرت ﷺ کي سيرت کي روشني ميں 11۔جماعت اسلامي کا نظريہ حديث

12۔شرح المعلقات السبع

13۔اسلام کي حکومت صالحہ اور اس کي ذمہ دارياں

14۔اسلامي نظام حکومت کے ضروري اجزاء

15۔اسلامي حکومت کا مختصر خاکہ

16۔تحريک آزادي فکر اور شاہ ولي اللہ دہلوي کي تجديدي مساعي 17۔خطبات سلفيہ

18۔مقالات مولانا محمد اسماعيل سلفي مرحوم

مولانا سلفي رحمہ اللہ کي تصانيف کے عربي تراجم

1۔موقف الجماعۃ الاسلاميہ من الحديث النبوي ، دراسۃ نقديۃ ومسلک الاعتدال للشيخ المودودي،(جماعت اسلامي کا نظريہ حديث اور مسلک اعتدال)

2۔رسالہ في مسألۃ حيات النبي ﷺ (مسئلہ حيات النبي ﷺ )

3۔مسألۃ زيارۃ القبور في ضوء الکتاب و السنۃ (زيارۃ القبور )

4۔حرکۃ الانطلاق الفکري وجہود الشاہ ولي اللہ دہلوي في التجديد (تحريک آزادي فکر اور شاہ ولي اللہ دہلوي کي تجديدي مساعي )

5۔السنۃ في ضوء القرآن (سنت قرآن کے آئينہ ميں)

6۔مکانۃ السنۃ في التشريع الاسلامي (حديث کي تشريعي اہميت)

7۔صفۃ صلوۃ النبي ﷺ (رسول اکرم ﷺ کي نماز )

8۔تخطيط وجيز للحکومۃ الاسلاميہ (اسلامي حکومت کا مختصر خاکہ )

9۔مذہب الامام البخاري (امام بخاري کا مسلک)

جماعتي خدمات

مولانا محمد اسماعيل سلفي مرحوم قيام پاکستان سے پہلے آل انڈيا اہلحديث کانفرنس کي مجلس عامہ کے رکن تھے۔ قيام پاکستان کے بعد مولانا سيد محمد داؤد غزنوي رحمہ اللہ نے مغربي پاکستان جمعيت اہلحديث کي بنياد رکھي۔ تو مولانا سلفي کو ناظم اعليٰ بنايا گيا۔ 1963ئ؁ ميں مولانا غزنوي نے انتقال کيا تو مولانا سلفي جمعيت اہلحديث پاکستان کے امير منتخب ہوئے ۔جامعہ سلفيہ کے قيام ميں بھي مولانا سلفي کي خدمات قابل قدر ہيں۔

ولادت


مولانا محمد اسماعيل سلفي مرحوم 1895ء؁ مطابق 1314ھ؁ ميں قصبہ ڈہونيکي تحصيل وزير آباد ميں پيدا ہوئے۔ والد محترم کا نام مولوي کليم محمد ابراہيم تھا جو حازق طبيب ہونے کے علاوہ بہترين کاتب بھي تھے ۔ مولانا عبد الرحمان محدث مبارکپوري رحمہ اللہ کي تحفۃ الاحوذي في شرح جامع ترمذي (عربي) اور مولانا وحيد الزمان رحمہ اللہ کا مترجم قرآن مجيد (طبع لاہور) آپ ہي کے فن خوشنويسي کے شاہکار ہيں۔

تعليم


مولانا محمد اسماعيل سلفي مرحوم نے مختلف علوم اسلاميہ کي تحصيل جن اساتذہ کرام سے کي ۔ان کے اسمائے گرامي درج ذيل ہيں۔

1۔والد محترم مولوي کليم محمد ابراہيم

2۔مولانا عبدالستار بن استاد پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزير آبادي

3۔مولانا عمر الدين وزير آبادي

4۔مولانا عبد الجبار عمر پوري

5۔مولانا مفتي محمد حسن امرتسري

6۔مولانا سيد عبد الغفور غزنوي

7۔مولوي حکيم محمد عالم امر تسري

8۔مولانا حافظ محمد ابراہيم مير سيالکوٹي رحمہم اللہ اجمعين

دہلي ميں مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازي پوري رحمہ اللہ کے درس قرآن ميں بھي شريک ہوتے رہے۔

وفات


تاريخ وفات 20 فروري 1968؁ءبمطابق ذي قعدہ 1387 ھ؁گوجرانوالہ ميں انتقال کيا عمر (73) سال تھي۔
انا للہ وإنا إليہ راجعون

مقالہ نگار: عبدالرشيدعراق
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ ۔
12۔شرح المعلقات السبع

یہ کتاب مطبوع ہے یا غیر مطبوع ؟
اگر کوئی بھائی اس بارے میں معلومات رکھتا ہے تو اس کا تعارف ضرور کروائے ۔۔۔
 
Top