• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو حنبلی کیوں کہا جاتا ہے؟

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
تقلید کرنے والے، ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کو حنبلی کیوں کہتے ہیں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
تقلید کرنے والے، ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کو حنبلی کیوں کہتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امام ابن تیمیہؒ اور تقلید
آٹھویں صدی کے عظیم عالم زین الدین عبدالرحمن ابن رجب رحمہ اللہ(المتوفی 795ھ )
فرماتے ہیں :
أَحْمَد بْن عَبْد الحليم بْن عَبْد السَّلام بْن عَبْد اللَّهِ بْن أَبِي القاسم بْن الخضر بن محمد ابن تيمية الحراني، ثُمَّ الدمشقي، الإِمَام الفقيه، المجتهد المحدث، الحافظ المفسر، الأصولي الزاهد. تقي الدين أَبُو الْعَبَّاس، شيخ الإِسْلام وعلم الأعلام،
یعنی شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ امام اور فقیہ اور، مجتہد اور محدث تھے ،لاکھوں احادیث نبویہ کے حافظ تھے ،قرآن کے مفسر اور اصول کے امام تھے ،زہد وتقوی کا پیکر اور شیخ الاسلام تھے ۔((ذیل طبقات الحنابلہ 4/493 )
https://archive.org/stream/FP62515/04_62518#page/n491/mode/2up

اور آپ یہ تو جانتے ہی ہونگے کہ کسی مقلد کو "مجتہد ،فقیہ " نہیں کہا جاتا ،
ملا علی قاری حنفی (علی بن سلطان ،وفات: 1014ھ بمطابق 1606ء) نے لکھا ہے:
" ومن طالع شرح منازل السائرين، تبين له أنهما كانا من أكابر أهل السنة والجماعة، ومن أولياء هذه الأمة "
جس نے منازل السائرین کی شرح کا مطالعہ کیا تو اس پر واضح ہو گیا کہ وہ دونوں (ابن القيم وشيخه ابن تيمية رحمہما اللہ ) اہلِ سنت والجماعت کے اکابر میں سے اور اس اُمت کے اولیاء میں سے تھے۔ (جمع الوسائل فی شرح الشمائل ج۱ص ۲۰۷)

تقلید اور اتباع دلیل کے معاملہ میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :
" اتفق أهل العلم - أهل الكتاب والسنة - على أن كل شخص سوى الرسول فإنه يؤخذ من قوله ويترك ، إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فإنه يجب تصديقه في كل ما أخبر ، وطاعته في كل ما أمر ، فإنه المعصوم الذي لا ينطق عن الهوى ، إن هو إلا وحي يوحى
انتهى من " منهاج السنة " ( 6 / 190 – 191 )
https://archive.org/stream/WAQ94871/msn6#page/n189/mode/2up
یعنی کتاب و سنت سے واقف تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہر خبر کی تصدیق، اور ہر حکم کی تعمیل کرنا ضروری ہے، کیونکہ آپ ہی وہ شخصیت ہیں کہ جو بھی آپ کی زبان سے لفظ نکلتا ہے وہ انسانی خواہش نہیں ہوتی بلکہ وہ وحی ہوتی ہے" انتہی
" منهاج السنة " ( 6 / 190 – 191 )

حق بات مذاہب اربعہ میں محصور نہیں ہے، بلکہ حق بات وہی ہے جس پر شرعی نصوص ہوں۔

امام ابن تيمية رحمه الله تعالى فرماتے ہیں :
" أهل السنة لم يقل أحد منهم إن إجماع الأئمة الأربعة حجة معصومة ، ولا قال: إن الحق منحصر فيها ، وإن ما خرج عنها باطل ، بل إذا قال: من ليس من أتباع الأئمة ، كسفيان الثوري والأوزاعي والليث بن سعد ومن قبلهم ومن بعدهم من المجتهدين قولا يخالف قول الأئمة الأربعة ، رد ما تنازعوا فيه إلى الله ورسوله ، وكان القول الراجح هو القول الذي قام عليه الدليل " انتهى من " منهاج السنة " (3 / 412)
https://archive.org/stream/WAQ94871/msn3#page/n411/mode/2up
یعنی:
"اہل سنت میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ ائمہ اربعہ کا اجماع حجت اور غلطی سے پاک ہے، بلکہ کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ حق بات انہی چار مذاہب میں ہے، چنانچہ جو ان چاروں کی مخالفت کریگا وہ باطل ہے، لہذا اگر کوئی فقیہ جو ان چاروں ائمہ کرام کے پیرو کاروں میں سے نہیں ہے مثلاً: امام سفیانؒ ثوری، امام اوزاعیؒ،امام لیثؒ بن سعد، یا ان سے پہلے اور بعد کا کوئی مجتہد ائمہ اربعہؒ کی مخالفت میں کوئی بات کہہ دے تو اس بات کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں دیکھا جائے گا، اس لیے راجح صرف وہی بات ہوگی جو دلیل کی بنیاد پر کہی جائے گی" انتہی
" منهاج السنة " (3 / 412)
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
امام ابنِ تیمیہؒ کو حنبلی کہنے وجہ یہ ہے کہ وہ حنبلی مقلدین اور حنبلی گھرانے میں پلے بڑھے تھے ،اسی لئے طبقات الحنابلہ میں ان کا تذکرہ ہے جیسا کہ اوپر علامہ ابن رجب ؒ کے حوالہ سے گزرا ۔
◈ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
ولقد أنكر بعض المقلدين على شيخ الاسلام فى تدريسه بمدرسة ابن الحنبلي وهى وقف على الحنابلة، والمجتهد ليس منهم، فقال : إنما أتناول ما أتناوله منها على معرفتي بمذهب أحمد، لا عليٰ تقليدي له (اعلام الموقعین ، جلد 2 ص170 )

”اور بعض مقلدین نے شیخ الاسلام (ابن تیمیہؒ) پر اعتراض کیا کہ وہ مدرسہ ابن الحنبلی میں پڑھاتے ہیں حالانکہ یہ مدرسہ حنابلہ پر وقف ہے اور مجتہدان (حنبلیوں و مقلدین) میں نہیں ہوتا، تو انہوں نے فرمایا : میں اسے امام احمدؒؒ (بن حنبل) کے مذہب کی معرفت پر استعمال کرتا ہوں، میں امام احمدؒ کی تقلید نہیں کرتا۔“ [إعلام الموقعين عن رب العالمين ،المجلد الثالث ص543 مطبوعه دارابن الجوزی ،الدمام السعودیۃ )

اور کچھ لوگ یہ کہتے رہتے ہیں کہ عوام پر فلاں (مثلاً امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) یا فلاں کی تقلید واجب ہے۔ ان لوگوں کی تردید کرتے ہوئے :
◈ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ :
وأما أن يقول قائل : إنه يجب على العامة تقليد فلان أو فلان فهذا لا يقوله مسلم
”اور اگر کوئی کہنے والا کہے کہ عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے، تو ایسی بات کوئی مسلم نہیں کہتا۔“ [مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ 249/22]

اور ان کے نامور شاگرد حافظ ابن القیمؒ الجوزیہ تقلید کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :
“وإنما حدثت ھذہ البدعۃ فی القرن الرابع المذموم علی لسان رسول اللہ ﷺ“
اور یہ بدعت تو چوتھی صدی (ہجری) میں پیدا ہوئی، جس کی مذمت رسول اللہ ﷺ نے اپنی (مبارک) زبان سے بیان فرمائی ہے ۔(اعلام الموقعین 187/2)
معلوم ہوا کہ مروجہ تقلید امام بن القیم کے نزدیک بدعت مذمومہ ہے ۔ لہذا ثابت ہوا کہ وہ بذاتِ خود حنبلی مقلد ہرگز نہیں تھے بلکہ مجتہد و متبع کتاب و سنت تھے، والحمدللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Last edited:
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
یہ بہت مدلل جواب ہے.

حق بات مذاہب اربعہ میں محصور نہیں ہے، بلکہ حق بات وہی ہے جس پر شرعی نصوص ہوں۔
کچھ سوالات ہیں. کچھ ماہ قبل ایک خاتون نے کافی تضحیک کا نشانہ بنایا. سکرین شارٹس موجود ہیں. لیکن میں انہی کے الفاظ یہاں لکھ رہی ہوں.

غیر مقلدین کا تھوڑا سا فرقہ ہے باقی سب مقلد ہیں اور آئمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہیں.
سب آئمہ جھاد مقلد تھے، کسی نہ کسی کی تقلید کرتے تھے فقہی لحاظ سے.
(عرب سے تعلق رکھنے والے قائدین اور مجاہدین کے بارے میں یہ بات)
سلفی اور غیر مقلد دو الگ الگ چیزیں ہیں. سلفی آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے پیروکار اور غیر مقلد اپنی رائے اور نظر کا پیروکار ہے.

http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Taqleed--Fighi-Schools/1191

صحابہ نے نبی کریم ﷺ کی تقلید کی تھی، تابعین نے صحابہ کی اور تبع تابعین نے تابعین کی.
غیر مقلدین انگریز کی پیداوار.....


عربی زبان میں تقلید کا لفظ کسی اور معنی میں استعمال ہوتا ہے. پتہ نہیں ایسی کیا ضرورت پڑ گئی تقلید کی.
ان سب متعصب باتوں کی مختصر وضاحت کیجئے.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
غیر مقلدین کا تھوڑا سا فرقہ ہے باقی سب مقلد ہیں اور آئمہ اربعہ کی تقلید کرتے ہیں.
کثرتِ تعداد کسی کے حق پر ہونے کے لئے دلیل نہیں بن سکتی۔
بلکہ حق پرست ہمیشہ کم اور باطل پرست زیادہ ہوتے ہیں۔​
٭ یاد رکھیں ہر دور میں تمام مُنکرینِ حق ، باطل پرست تقلیدی فِرق والے یعنی اہل البدعہ جب اہل حق متبعین سنت ( اہل حدیث ) اولیاء الرحمن کے مقابلے میں اپنی بدعیہ و شرکیہ عقائد و اعمال کی اثبات کے لئے کتاب وسنت ( قرآن کریم و صحیح آحادیث رسول ﷺ) سے کوئی ٹھوس، واضح اور روشن دلیل یا ثبوت نہ پیش کر سکے، تو پھر یہ مبتدعین اشرار لوگ اپنی من گھڑت گندے شرکیہ و بدعیہ اعتقادات و اعمال کو صحیح ثابت کرنے کے لئے جھوٹ، کذب بیانی، دجل وفریب اور مکر سے کام لے کر صحیح دینی علوم سے ناخبر عام سادہ مسلمانوں یعنی عوام الناس کو یہ دھوکہ اور فریب دے کر ورغلاتے ہیں کہ دیکھو! ہم ان کتاب وسنت ( قرآن کریم وصحیح آحادیث ﷺ ) پر منہج نبوی کے مطابق عمل کرنے والوں یعنی اہل السنة والجماعة ( اھل الحدیث ) حضرات سے تعداد میں زیادہ ہیں۔
لیکن افسوس اگر یہ اہل بدعت قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت کریمہ پر غور کرتے جس میں اللہ تعالی نے کثیر تعداد میں علماء و مشائخ کو لوگوں کی اموال ناجائز طریقے سے کھانے والے اور اللہ تعالی کی دین اسلام ( کتاب وسنت ) کی صحیح احکام و تعلیمات سے لوگوں کو منع کرنے والے بتائے ہیں۔ یہ کام یہود و نصاری کے علمائے سوء نے بھی کیا تھا اور اس امت کے اہل البدعہ علمائے سوء اور گمراہ مبلغین و مشائخ بھی ان کی نقش قدم و طریقے پر چل کر کر رہے ہیں جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی صحیح آحادیث میں پیشن گوئی کی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے :
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ.. ﴾ٍ [ التوبة 34:9 ]
اے ایمان والو! اکثر علماء اور صوفی وزاہد لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور (ان) کو اللہ تعالی کی راہ سے روک دیتے ہیں.."
اور قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ [ الأنعام 116 ]
" (اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اگر آپ زمین میں بسنے والوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دیں گے۔ وہ تو محض ظن کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور صرف قیاس آرائیاں کرتے ہیں"

﴿ وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ ﴾ [یوسف 103 ]
"اور آپ کے چاہنے کے باوجوداکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا بھی، واقعہ کے طور پر ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (سورہ یوسف، ١٠٣) آپ کی خوہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان والے نہیں، اس سے معلوم ہوا، حق اور صداقت کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ جس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حق وباطل کا معیار، دلائل وبراہین ہیں، لوگوں کی اکثریت و اقلیت نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو اکثریت نے اختیار کیا ہوا ہو، وہ حق ہو اور اقلیت میں رہنے والے باطل پر ہوں۔ بلکہ مذکورہ حقیقت قرآنی کی رو سے یہ زیادہ ممکن ہے کہ اہل حق تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہوں اور اہل باطل اکثریت میں۔
جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ :
«ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي»
رواه الترمذي ،مشکوٰۃ المصابیح
" میری امت پر ایسا دور بھی آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا ،جو بعنیہ ان جیسا ہوگا جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے جیسا ہوتا ہے ،حتی کہ ان میں سے کسی بدبخت نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تو اس امت میں بھی ایسا بدبخت ہوگا ،اور بنی اسرائیل کےبہتر فرقوں ہوگئے تھے اورمیری امت ٧٣ فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، باقی سب جہنمی۔ اور اس جنتی فرقے کی نشانی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان فرمائی کہ جو ما انا علیہ واصحابی میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔"

یہ حدیث اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ دور زوال میں اس امت کی اکثریت گمراہی پر ہوگی
اور بہتر ایک کے تناسب سے اہل حق کا وجود بھی غنیمت ہوگا ،
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سب آئمہ جھاد مقلد تھے، کسی نہ کسی کی تقلید کرتے تھے فقہی لحاظ سے. (عرب سے تعلق رکھنے والے قائدین اور مجاہدین کے بارے میں یہ بات)
سلفی اور غیر مقلد دو الگ الگ چیزیں ہیں. سلفی آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے پیروکار اور غیر مقلد اپنی رائے اور نظر کا پیروکار ہے.
ائمہ جہاد کون ہیں اس کا تو مجھے علم نہیں ،شاید ان کا مطلب وہ " مولوی " ہے جوایک مسجد میں مورچہ زن تھا ،پھر ایک رات اپنی طالبات کے جھنڈ میں برقعہ اوڑھ کر بھاگنے کی مشق کرتے پکڑا گیا تھا ، میں تو اسی مقلد مجاہد مولوی کو جانتا ہوں کیونکہ مجھے اس کا جہاد قریب سے دیکھنے کو ملا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس تقلید کی اتنی اہمیت و افادیت منوانے کی تگ و دو کی جاتی ہے اس
تقلید کی حقیقت کیا ہے ،یہ ہم بتاتے ہیں۔
تقلید کی واضح اور آسان تعریف ایک حنفی امام ابن ہمام حنفی (امام کمال ابن الہمام المتوفی 861ھ) نے یوں کی ہے :
" الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إِحْدَى الْحُجَجِ بِلَا حُجَّةٍ"
اس تعریف ترجمہ یہ ہے :
ایسے شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا جس کا قول دلائل شرعیہ میں سے نہ ہو۔
دیکھئے تيسير التحرير شرح التحریر لامیر بادشاہ المتوفی 879ھ (جلد 4 ص241 )
https://archive.org/stream/FP30586/04_30589#page/n239/mode/2up
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس تعریف کو ذرا غور سے سمجھیں کہ ایسے شخص کا قول مان لیا جائے جس کا قول قرآن یا حدیث نہ ہو یعنی اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کا قول مان لیا جائے اور پھر اسکے قول پر کوئی دلیل بھی نہ ہو ۔ یعنی اس نے جو بات کہی ہے اسکی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہ ہو ۔ اگر اسکی بات کی دلیل کتاب وسنت میں موجود ہو گی تو وہ تقلید نہیں کہلائے گی ۔
تو غور فرمائیے کہ جس شخص کی بات نہ تو قرآن وحدیث ہو اور نہ ہی قرآن وحدیث کی کوئی دلیل اس کے قول پر موجود ہو تو پھر وہ قول کیا ہوگا ؟
اس کی ایک مثال پیش ہے جس سے تقلید کی حقیقت سمجھی جاسکتی ہے ،
قال محمد: السنة أن تقرأ في الفريضة في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة، وفي الأخريين بفاتحة الكتاب، وإن لم تقرأ فيهما أجزأك، وإن سبحت فيهما أجزأك، وهو قول أبي حنيفة رحمه الله
موطاء ،بَابُ الرَّجُلِ يَقْرَأُ السُّورَ فِي الرَّكْعَةِ الْوَاحِدَةِ مِنَ الْفَرِيضَةِ

امام محمد فرماتے ہیں کہ : سنت یہ ہے کہ فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ساتھ کوئی اور سورۃ پڑھو،
اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحہ پڑھو ، اور اگر ان آخری دو رکعتوں میں کچھ بھی نہ پڑھا توبھی جائز ہے ، اور اگر ان دو میں صرف سبحان اللہ کہہ دے تو بھی جائز ہے ، امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے مؤطا مترجم خواجہ عبدالوحید
مقدمہ : مولوی زاہد الکوثری ، مولوی عبدالرشید
https://archive.org/details/MOUTTAIMAMMUHAMMADHASSANBINSHAYBANIUrdu/page/n201
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دیوبندیوں کے ایک مولوی ۔۔محمود الحسن ۔۔صاحب گزرے ہیں ، یہ لوگ انہیں ’’ شیخ الہند ‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں ؛
انہوں ’’ سنن الترمذی ‘‘ پر اپنی املائی تقریر میں بلا جھجک ،یعنی تکلف برطرف ،رکھ کر واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ :

"فالحاصل: أن مسألة الخيار من مهمات المسائل، وخالف أبو حنيفة فيه الجمهور وكثيراً من الناس المتقدمين والمتأخرين، وصنفوا رسائل في ترديد مذهبه في هذه المسألة، ورجّح مولانا الشاه ولي الله المحدث الدهلوي قدس سره في رسالته مذهب الشافعي من جهة الأحاديث والنصوص، وكذلك قال شيخنا مدّ ظله بترجيح مذهبه، وقال: الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي في هذه المسألة. ونحن مقلدون يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة".(التقریر للترمذی )
یعنی ’’ بیع خیار ‘‘ کے مسئلہ میں جو کہ اہم مسائل میں ایک ہے ، اس میں ابو حنیفہ نے جمہور امت کے خلاف فتوی دیا ہے ؛
اور بہت سارے علماء نے اس مسئلہ پر ان کے مذہب کی تردید میں رسائل و کتب لکھی ہیں ؛
اور ہمارے ’’ مولا ‘‘ شاہ ولی اللہ نے شرعی دلائل اور احادیث کی بناء پر امام شافعی ؒ کے قول کو ترجیح دی ہے ؛
اور ہمارے شیخ مد ظلہ نے بھی نصوص کے حوالے سے انہی کے مذہب کو ترجیح دی ہے ،،اور فرمایا ہے کہ :
حق اور انصاف تو یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کا قول و مذہب لائق ترجیح ہے۔۔۔۔لیکن ہم ٹھہرے امام ابو حنیفہ کے مقلد ۔۔
ہم پر ( ان کا مقلد ہونے کے ناطے ۔۔دلیل کی نہیں بلکہ ) اپنے امام کی تقلید واجب ہے؛؛



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقام عبرت ہے کہ ۔۔۔۔ہر طرح کی ۔۔۔بالائے طاق رکھ کر ۔۔۔صاف ہی کہہ دیا کہ ہم دلیل کو جانتے بوجھتے بھی نہ مانے گے ۔۔
بلکہ شرعی دلائل کے خلاف ہونے کے باوجود اپنے امام کی بات ہی مانیں گے ۔۔اور تقلید کی لاج رکھیں گے؛؛

یہ ہے تقلید ۔۔۔کہ مقلد کو یہ اقرار ہے کہ دلائل میرے امام کے خلاف ہیں لیکن میں ان دلائل کو اس لئے قبول نہیں کرتاکہ
میں مقلد ہوں اور مقلد کو ہر حال میں اپنے امام کی ماننی ہوتی ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایسی تقلید کو دور سے سلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سلفی اور غیر مقلد دو الگ الگ چیزیں ہیں. سلفی آئمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے پیروکار اور غیر مقلد اپنی رائے اور نظر کا پیروکار ہے.
یہ بات محض بہتان ہے اورہمارے بارے بے خبری کا نتیجہ ہے ، خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ :
ہم غیر مقلد نہیں ،بلکہ اہل الحدیث ہیں ،عقیدہ و عمل میں ہم قرآن و حدیث کو سب سے مقدم رکھتے ہیں ،
اور قرآن وحدیث کو سمجھنے کیلئے منہج سلف کے پابند ہیں ،اسی لئے ہم سلفی ہیں ؛
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
مبتدعین اشرار لوگ اپنی من گھڑت گندے شرکیہ و بدعیہ اعتقادات و اعمال کو صحیح ثابت کرنے کے لئے جھوٹ، کذب بیانی، دجل وفریب اور مکر سے کام لے کر صحیح دینی علوم سے ناخبر عام سادہ مسلمانوں یعنی عوام الناس کو یہ دھوکہ اور فریب دے کر ورغلاتے ہیں کہ دیکھو! ہم ان کتاب وسنت ( قرآن کریم وصحیح آحادیث ﷺ ) پر منہج نبوی کے مطابق عمل کرنے والوں یعنی اہل السنة والجماعة ( اھل الحدیث ) حضرات سے تعداد میں زیادہ ہیں۔
یہ بات میں نے بھی مشاہدہ کی تھی جب علم و عمل کے رستے پر اللہ تعالیٰ نے ڈالا. اب بھی دیکھتی ہوں کہ لوگوں کی اکثریت اپنے دین کو متعصب مولویوں کے ترازو میں رکھتے لیکن دنیا کے لیے زندگیاں کھپاتے ہیں. وہی پاپائیت کا تصور

ائمہ جہاد کون ہیں اس کا تو مجھے علم نہیں ،شاید ان کا مطلب وہ " مولوی " ہے جوایک مسجد میں مورچہ زن تھا ،پھر ایک رات اپنی طالبات کے جھنڈ میں برقعہ اوڑھ کر بھاگنے کی مشق کرتے پکڑا گیا تھا ، میں تو اسی مقلد مجاہد مولوی کو جانتا ہوں کیونکہ مجھے اس کا جہاد قریب سے دیکھنے کو ملا ۔
عرب قائدین و مجاہدین جو افغانستان ہجرت کر کے آئے، انکے بارے میں حنفی انصار نے خود سے ہی گمان کیے تقلید کے.
میں تو معصومیت سے کہا تھا کہ ملا عمر مجاھد، شیخ اسامہ کی معیت میں سلفی اہل الحدیث ہو گئے تھے. اور اب افغانستان جھاد پر سلفیت گھِر چکی ہے. بس پھر......
حالانکہ میں نے نہیں دیکھا کہ عرب لوگ تقلید کرتے ہیں. بلکہ شیخ صالح المنجد نے اہل الحدیث کے بارے میں اتنی زبردست وضاحت کے ساتھ فتوی دیا ہوا ہے. اور شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے بھی اپنے ایک درس میں بتایا کہ بنو تمیم، خالص اہل الحدیث ہیں. جو دجال کے مقابلے پر سخت ہوں گے.

یہ لوگ حرمین کی بیس تراویح کو دلیل بناتے ہیں اپنے تحفظ کے لیے، لیکن حرمین میں آمین بالجھر اور رفع یدین سے چِڑتے ہیں. بالکل ایسے ہی اپنے تحفظ کے لئے صحابہ کو بھی مقلد کی گالی دینے سے باز نہیں رہتے.

دیوبندیوں کے ایک مولوی ۔۔محمود الحسن ۔۔صاحب گزرے ہیں ، یہ لوگ انہیں ’’ شیخ الہند ‘‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں ؛
اسلامی تاریخ کا اتنا مطالعہ تو نہیں لیکن ایک بات جو سمجھی.
برصغیر میں 1857 کی جنگ آزادی کے بعد، یہ تحریکیں اٹھیں دیوبند، بریلوی، قادیانی اور شاید آغا خانی ٹائپ بھی. تو دیوبندی جو کہ خود انگریز کے دور کی پیداوار ہیں، اہل الحدیث پر تبرا کرتے ہیں.

ایک سوال اور؛
صرف آئمہ اربعہ کیوں؟ حالانکہ انہی اماموں کے اساتذہ بھی تو ان سے علم میں آگے ہوں گے، یا انکے شاگردوں میں؟ تو چار فقہی مذاہب ہی کیوں؟
 
Top