• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

*شیخ البانی کے متعلق تقی عثمانی صاحب کی رائے

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مندرجہ ذیل رائے پر اصحاب علم کی رائے درکار ہے (ی ث)
------------------------------------------------------------------
سوال:نبی کریم کی قبر کی زیارت کے سلسلے میں جتنی احادیث ہیں شیخ ناصر الدین البانی نے ان سب پر ضعیف کا حکم لگایا ہے اسکا کیا جواب ہے؟
جواب: شیخ ناصرالدین البانی صاحب (اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے) تصحیح وتضعیف کے بارے میں حجت نہیں ہیں،
چنانچہ انہوں نے بخاری اور مسلم کی بعض احادیث کو ضعیف کہہ دیا، اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک حدیث کے بارے میں بڑی شدو مد سے کہہ دیا کہ یہ ضعیف ہے، ناقابل اعتبار ہے، مجروح ہے، ساقط الاعتبار ہے، اور پانچ سال بعد وہی حدیث آئی، اس پر گفتگو کرنے کےلیے کہا گیا تو کہا: کہ یہ بڑی پکی اور صحیح حدیث ہے.......... یعنی جس حدیث پر بڑی شدومد سے نکیر کی تھی آگے جاکر بھول گئے کہ میں نے کیا کہا تھا،
تو ایسے تناقضات ایک دو نہیں بیسیوں ہیں، اور کہا جارہا ہے کہ یہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کے بارے میں مجدد ھذہ المأۃ ہیں.......... بہرحال عالم ہیں، عالم کے لئے ثقل لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے، لیکن انکے انداز گفتگو میں سلف صالحین کی جو بے ادبی ہے اور انکے طریقہ تحقیق میں جو یک رخا پن ہے جس کے نتیجے میں صحیح حدیثوں کو بھی ضعیف قرار دے دیتے ہیں اور جہاں اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے وہاں ضعیف کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں، اس لئے ان کا کوئی اعتبار نہیں، حدیث کی تصحیح وتضعیف کوئی آسان کام نہیں ہے
نہ ہر کہ سر بترا شد قلندری داند
علماء کرام نے فرمایا کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد کسی آدمی کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ سلف کی تصحیح و تضعیف سے قطع نظر کر کے خود تصحیح و تضعیف کا حکم لگائے کہ میرے نزدیک یہ صحیح ہے اور یہ ضعیف ہے، یہاں تک حافظ ابن حجر جیسا شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ حدیث صحیح ہے یاضعیف ہے
بلکہ کہتا ہے کہ رجالہ رجال الصحیح، رجالہ ثقات
یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، اپنی طرف سے تصحیح کا حکم نہیں لگاتے، کہتے ہیں کہ میرا یہ مقام نہیں ہے کہ تصحیح کا حکم لگاؤں
آج جو لوگ کہتے ہیں کہ ھذا عندی ضعیف اس کا جواب وہی جو پہلے ایک شعر بتایا تھا کہ
یقولون ھذا عندنا غیر جائز
ومن انتم حتی یکون لکم عند
باقی حدیث من زار قبری وجبت لہ شفاعتی کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ محدثین نے اسکوحسن قرار دیاہے، باقی حدیثوں کی اسناد بے شک ضعیف ہیں، لیکن ایک تو تعدد طرق و شواہد کی بناء پر، دوسرا تعامل امت کی بناء پر مؤید ہوکر قابل استدلال ہیں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انعام الباری( جلد: 4، صفحہ: 346،347)​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہ تحریر پہلے بھی کچھ ماہ پہلے سوشل میڈیا پر نظر آئی تھی ، اسی وقت میں نے بطور ریکارڈ یہاں فورم پر لگادیا تھا ، لیکن چونکہ اس میں قابل جواب کوئی بات تھی ہی نہیں ، اس لیے جواب لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
آج پھر ایک جگہ پر یہ پوسٹ نظر آئی ، اور فورم پر آپ نے لگادی ، تو کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
سوال:نبی کریم کی قبر کی زیارت کے سلسلے میں جتنی احادیث ہیں شیخ ناصر الدین البانی نے ان سب پر ضعیف کا حکم لگایا ہے اسکا کیا جواب ہے؟
یہ مفتی صاحب سے کیا گیا ، سوال ہے ۔ اس سوال کا براہ راست جواب مفتی صاحب کی پوری گفتگو میں یہ ہے :
باقی حدیث من زار قبری وجبت لہ شفاعتی کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ محدثین نے اسکوحسن قرار دیاہے، باقی حدیثوں کی اسناد بے شک ضعیف ہیں، لیکن ایک تو تعدد طرق و شواہد کی بناء پر، دوسرا تعامل امت کی بناء پر مؤید ہوکر قابل استدلال ہیں
اب مفتی صاحب کی یہ گفتگو لے لیں ، اور شیخ البانی نے جو احادیث کی تحقیق پیش کی ہے ، اسے پڑھ لیں ، جو درست بات لگتی ہے ، اس پر عمل کرلیں ۔
من زار قبری وجبت لہ شفاعتی کے متعلق شیخ البانی کی گفتگو
حقیقت یہ ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے تحقیق حدیث کے حوالے سے اتنا کام کردیا ہے ، جس طرح بخاری و مسلم اور دیگر علما سب کے سانجھے ہو گئے ہیں ، کسی فرقے یا مذہب کے خاص نہیں رہے ، اسی طرح شیخ البانی کی تحقیق بھی اب اسی انداز سے دیکھی جاتی ہے ۔
کیونکہ مجبوری ہے ، نہیں دیکھیں گے ، تو کیا کرلیں گے ؟ وہی کچھ جو مفتی صاحب نے تین سطروں میں کردکھایا ہے ، جب کہ شیخ البانی نے اس پر جلدوں کی جلدیں تحریر کرڈالی ہیں ۔
جواب: شیخ ناصرالدین البانی صاحب (اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے) تصحیح وتضعیف کے بارے میں حجت نہیں ہیں،
جس معنی میں شیخ البانی حجت نہیں ، اس معنی میں تو کوئی بھی حجت نہیں ۔ مفتی صاحب کو چاہیے تھا کہ شیخ البانی حجت نہیں ، تو بتادیتے کہ فلاں عالم دین حجت ہیں ۔ جسے اللہ تعالی نے قبول عام سے نواز دیا ہے ، مفتی صاحب اس کو ’ حجت نہیں ہے ‘ کہہ کر اس کا کیا بگاڑ لیں گے ؟ حرمین کے خطبات تک میں ’ صححہ الالبانی ‘ بطور سند بولا جاتا ہے ۔ البتہ دلائل سے اختلاف ہر جگہ پر ہی ان سے کیا جاتا ہے ۔
چنانچہ انہوں نے بخاری اور مسلم کی بعض احادیث کو ضعیف کہہ دیا
جی شیخ کے موازین حسنات کے ساتھ ساتھ ، یہ ایک چیز بھی موجود ہے ، لیکن شیخ کا انداز منکرین حدیث وغیرہ والا نہیں ہے ، قواعد محدثین کے مطابق انہوں نے چند ایک احادیث پر کلام کیا ہے ، جس پر ان سے اتفاق بھی نہیں ، لیکن ہم انہیں صحیح احادیث کے رد کا الزام بھی نہیں دیتے ۔
اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک حدیث کے بارے میں بڑی شدو مد سے کہہ دیا کہ یہ ضعیف ہے، ناقابل اعتبار ہے، مجروح ہے، ساقط الاعتبار ہے، اور پانچ سال بعد وہی حدیث آئی، اس پر گفتگو کرنے کےلیے کہا گیا تو کہا: کہ یہ بڑی پکی اور صحیح حدیث ہے.......... یعنی جس حدیث پر بڑی شدومد سے نکیر کی تھی آگے جاکر بھول گئے کہ میں نے کیا کہا تھا،
تو ایسے تناقضات ایک دو نہیں بیسیوں ہیں،
یہ مفتی صاحب کی طرف سے مبالغہ آرائی ہی ہے ۔ ہزاروں احادیث پر انہوں نے کام کیا ہے ، کچھ احادیث کے متعلق ان کا موقف تبدیل ہوا ہے
تراجعات الالبانی کے عنوان سے کتاب مطبوع ہے
، لیکن وہ اختلاف اس نوعیت کا بھی نہیں کہ پہلے ایک حدیث کو بالکل صحیح کہا ، اور پھر بعد میں اسے موضوع و ساقط کہہ دیا ہو ۔ مفتی صاحب اگر اتنا بڑا حکم لگا رہے تھے، تو ہمت کرکے اس کے ثبوت بھی لکھ دینے چاہییں تھے ۔
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ، شیخ کے متعلق ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں :
’حدیث و سنت کے باب میں ان کی سب سے بڑی کاوش یہ ہے کہ انہوں نے اس رجحان کی آبیاری کی کہ اَحکام و مسائل میں صحیح اور حسن حدیث کا ہی اہتمام کیا جائے ، ضعیف پر قطعاً عمل نہ کیا جائے ۔ اسی طرح فضائل و مستحبات میں بھی ضعیف پر اعتماد نہ کیا جائے۔ اسی بنا پر انہوں نے ذخیرئہ احادیث میں سے صحیح اور ضعیف روایات کو چھانٹ کر رکھ دیا۔سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ، صحیح جامع الصغیر، ضعیف جامع الصغیر کے علاوہ صحیح ابی داود، ضعیف ابی داود، صحیح الترمذی، ضعیف الترمذی، صحیح النسائی، ضعیف النسائی، صحیح ابن ماجۃ، ضعیف ابن ماجۃ، صحیح الترغیب و الترھیب، ضعیف الترغیب والترھیب، صحیح الأدب المفرد، ضعیف الأدب المفرد اور صحیح الکلم الطیب وغیرہ اسی سلسلۃ الذھب کی کڑیاں ہیں۔ ان کے صحت و ضعف کے حکم پر نقد و تبصرہ اہل علم کا حق ہے۔ کیونکہ شیخ البانی بھی انسان ہیں اور سہو و خطا سے کون انسان ہے جو محفوظ رہا ہو۔ خود راقم الحروف ناچیزبھی کئی مقامات پر شیخ مرحوم سے متفق نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ ان کی چند ایسی خطائوں کی بنا پر ان کی خدمات ِجلیلہ کو ہدفِ تنقید بنالیا جائے اور محض معاصرانہ چشمک میں بات کا بتنگڑ بنا دیا جائے۔ مثلا ً یہی دیکھئے کہ شیخ ابوغدہ، شیخ ابو عوامۃ وغیرہ کو الصحیحۃ اور الضعیفۃ کی تقسیم و تفریق ہی نہیں بھاتی۔ جس کی تفصیل ’’أثر الحدیث الشریف فی إختلاف الأئمۃ الفقھاء لأبی عوامۃ اورحواشی ظفر الأمانی لأبی غدۃ میں دیکھی جاسکتی ہے۔‘
حوالہ

اور کہا جارہا ہے کہ یہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کے بارے میں مجدد ھذہ المأۃ ہیں..........
مفتی تقی عثمانی صاحب کی اس ناگواری کے مقابلے میں ہم
مفتی اعظم سعودیہ شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ؒ کا قول پیش کردیتے ہیں ہے ، فرماتے ہیں :
«ما رأیت تحت أدیم السماء عالماً بالحدیث في العصر الحدیث مثل العلامة محمد ناصر الدین الألباني»
’’آسمان کے سائباں کے نیچے میں نے اس زمانے میں شیخ محمد ناصر الدین البانی سے زیادہ حدیث ِنبوی (علی صاحبہا الصلوات والتسلیم) کا عالم نہیں دیکھا‘‘
حوالہ
بہرحال عالم ہیں، عالم کے لئے ثقل لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے، لیکن انکے انداز گفتگو میں سلف صالحین کی جو بے ادبی ہے اور انکے طریقہ تحقیق میں جو یک رخا پن ہے جس کے نتیجے میں صحیح حدیثوں کو بھی ضعیف قرار دے دیتے ہیں اور جہاں اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے وہاں ضعیف کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں
یہی سوء ظن مفتی صاحب کے متعلق کئی لوگوں کو ہوسکتا ہے۔ لہذا بلا دلیل ایسی باتوں کوئی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہیے۔
حدیث کی تصحیح وتضعیف کوئی آسان کام نہیں ہے
نہ ہر کہ سر بترا شد قلندری داند
علماء کرام نے فرمایا کہ چوتھی صدی ہجری کے بعد کسی آدمی کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ سلف کی تصحیح و تضعیف سے قطع نظر کر کے خود تصحیح و تضعیف کا حکم لگائے کہ میرے نزدیک یہ صحیح ہے اور یہ ضعیف ہے
ماقبل علما کو نظر انداز کرتے ہوئے ، نہ چوتھی صدی سے پہلے یہ کام جائز تھا ، نہ اس کے بعد درست رویہ ہے ۔ اور نہ محدثین و محققین نے ایسا کیا ہے ۔ البتہ سابق علما کی کوششوں اور کاوشوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، احادیث کی تحقیق و تنقیح کا کام آج تک جاری ہے ، درمیان میں کسی وقت میں یہ تحریک سست بھی ہوگئی ۔ ابن القطان الفاسی ، علامہ زکی الدین المنذری ، ضیاء الدین المقدسی ، ابن دقیق العید ، حافظ عراقی ، ہیثمی ، ابن حجر ، سخاوی ، سیوطی اس کے بعدعلامہ معلمی ، غماری علما اور پھر شیخ البانی وغیرہ سب نے یہ کام سر انجام دیا ہے ۔
حدیث کی تصحیح و تضعیف بھی اتنا آسان کام نہیں ، اور کسی تصحیح و تضعیف کرنے والا پختہ عالم دین کو چیلنج کرنا بھی اتنا آسان کام نہیں ، جتنی آسانی سے مفتی صاحب نے کرنے کی کوشش کی ہے ۔
یہاں تک حافظ ابن حجر جیسا شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ حدیث صحیح ہے یاضعیف ہے
بلکہ کہتا ہے کہ رجالہ رجال الصحیح، رجالہ ثقات
یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں، اپنی طرف سے تصحیح کا حکم نہیں لگاتے، کہتے ہیں کہ میرا یہ مقام نہیں ہے کہ تصحیح کا حکم لگاؤں
آج جو لوگ کہتے ہیں کہ ھذا عندی ضعیف اس کا جواب وہی جو پہلے ایک شعر بتایا تھا کہ
یقولون ھذا عندنا غیر جائز
ومن انتم حتی یکون لکم عند
حافظ ابن حجر نے فرمایا، میں فتح الباری میں تمام احادیث ’ صحیح یا حسن ‘ درجےکی ذکر کروں گا ، یہ حکم ہے کہ نہیں ؟
حافظ عراقی کی تخریج الاحیاء دیکھیں ، انہوں نے ضعیف کیا ’ لا اصل لہ ‘ جیسے بڑے بڑے احکامات لگائے ہوئے ہیں ۔

 
Last edited:
Top