• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ القراء قاری اِظہار احمد تھانوی﷫

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت کی اہلیہ محترمہ فرماتی تھیں کہ اسی کمرہ میں قاری عبد الوہاب مکی صاحب، قاری صدیق احمدلکھنوی صاحب، حتی کہ قاری عبدالمالک صاحب بھی یہاں تشریف لاتے رہے۔ قاری اظہارصاحب شروع اوئل میں مفتی محمد حسن کے کہنے پر جامعہ اشرفیہ میں تدریس کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رہائش کے قریب مقدس مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض ادا کرتے رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عملی زندگی
قاری صاحب نے ۱۹۵۲ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ’’منشی فاضل‘‘ اور ۱۹۵۴ء میں ’’ مولوی فاضل ‘‘ کا امتحان پاس کیا۔ اور کچھ عرصہ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے۔ قاری صاحب نے پرانی انار کلی چرچ روڈ پر دار العلوم اسلامیہ کی بنیاد رکھی، پھر اسی مدرسہ میں حضرت قاری عبد المالک سے تحصیل فن تجوید وقراء ت کے بعد المقری قاری اظہار احمد تھانوی بن گئے۔
استاد القراء مولانا قاری عبد المالک صاحب سے تھانہ بھون میں قاری صاحب کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ قاری اظہارصاحب تا عمر قاری عبد المالک صاحب کے عربی لہجے اور حسن قراء ت کو نہ بھول سکے ۔ دونوں حضرات ایک دوسرے سے بہت محبت رکھتے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے تقریباً ایک طرح کے حالات میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔ دونوں کی وفات کا وقت ایک تھا اسکے علاوہ دونوں کی نماز جنازہ دو دفعہ پڑھی گئی۔
اک گل کے مرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام مچا
اک چہرہ کمھلا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے​
قاری صاحب کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ انہوں نے تدریس کے پیشے کیلئے کسی فرقہ کی تخصیص نہیں کی۔ ۱۹۵۸ ء سے ۱۹۶۳ء تک مدرسہ اہل حدیث چینیانوالی مسجد میں بطور صدر مدرس کام کیا۔ ۱۹۶۳ء میں چینیانوالی میں مسجد سے علیحدگی اختیار کی اور جامع مسجد اور مدرسہ تجوید القرآن کے شعبہ تجوید کو رونق بخشی۔
قاری اظہار صاحب نے اپنی بقیہ عمر اسی مدرسہ میں تجوید القرآن ہی میں گزاری آپ کی آمد اس مدرسہ کے لئے بہت با برکت ثابت ہوئی اور آپ سے کسب فیض کرنے والوں نے بہت نام کمایا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو شخص علم کی دولت سے مالا مال تھا وہ شخص خانگی امور میں انتہائی پریشان رہا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جامع مسجد چوبرجی کوارٹر میں امامت وخطابت
ستمبر ۱۹۶۱ء میں حضرت قاری صاحب جامع مسجد چو برجی گورنمنٹ کواٹر ملتان روڈ لاہور تشریف لائے۔ قاری صاحب نے تیس سال کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد آخری جمعہ پڑھایا اور یہیں پر وفات پائی۔
کرو اللہ کی ہی صرف تم بڑائی
کہ دنیا میں ہے اسی کی بادشاہی
سانحہ ہوا یہ جہان علم وفن میں
’’قاری اظہار احمد تھانوی کی جدائی‘‘​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عالمی مقابل حسن قراء ت منعقدہ کوالالمپور ملائیشیا میں منصفی کے فرائض
۱۹۶۹ء میں حضرت قاری صاحب عالمی مقابلہ حسن قراء ت منعقدہ کوالالمپور ملائیشیا میں پاکستان کی طرف سے جج نامزد کر دیئے گئے ، نیز دو قاری صاحبان بھی شرکت کے لئے بھیجے گئے۔ ۱۹۷۴ء میں حضرت قاری صاحب حج بیت اللہ کے لئے سعودی عرب گئے وہاں لوگوں نے فرمائش کی کہ تلاوت سنائیں تو انہوں نے الحمد شریف سنائی لیکن ضعیف العمری کی وجہ سے سانس پھول گیا۔
مارچ ۱۹۸۴ء میں عالمی مقابلہ حسن قراء ت منعقدہ مکہ مکرمہ میں حضرت قاری صاحب کو پھر جج بنا کر پاکستان کی نمائندگی کے لئے بھیجا گیا۔ جہاں قاری صاحب کو واپسی پر غلاف کعبہ کا ٹکڑا ہدیہ کے طور پر دیا گیا، جو کہ قاری صاحب کی وفات پر آدھا کاٹ کر آپ کے سینے پر رکھ دیا گیا۔
۱۹۸۵ میں جنرل ضیاء الحق مرحوم نے جب اسلامی علوم وفنون کو فروغ دینے کے لئے اسلام آباد یونیورسٹی قائم کی تو قاری صاحب کو شعبۂ قراء ت کے لئے منتخب کیا ۔آپ مسلم شریف اور ہدایہ کی کلاسیں بھی لیتے رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تمغۂ حسن کار کردگی
۱۴ اگست ۱۹۸۷ میں حکومت پاکستان نے خدمات کے اعتراف کے طور پر قاری اظہار صاحب کو تمغۂ حسن کارکردگی کے لئے نامزد کیا اور ۲۳ اگست ۱۹۸۸ء کو صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق مرحوم نے حضرت قاری صاحب کو اس تمغہ سے نوازا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت قاری صاحب کی وفات حسرتِ آیات
قاری صاحب نے ۱۶ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز سوموار حسب معمول یونیورسٹی میں پڑھایا پھر ان کے شاگرد آ گئے۔ شاگردوں کو رخصت کر کے اپنے پرچے بنانے بیٹھ گئے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے آرام کی غرض سے لیٹے۔
۱۷ دسمبر صبح ان کے بیٹے اور بہو سمجھے کہ شاید تھکاوٹ ہو گئی ہے اس لیے فجر کی نماز پڑھ کر دوبارہ لیٹ گئے ہیں۔ ناشتے کے لئے بھائی اٹھانے گئے تو یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ حضرت قاری صاحب جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں، چونکہ بظاہر موت کے اثرات نہیں نظر آ رہے تھے اس لیے بیٹے نے فون پر ڈاکٹر کو بلایا توڈاکٹر نے وفات کی تصدیق کر دی۔ فوراً لال مسجد کے خطیب اور جامع مسجد فر یدیہ کے مہتمم کو اطلاع کی گئی جنہوں نے غسل دیا او رکفن پہنایا ان کی پہلی نماز جنازہ یونیورسٹی کے سامنے سبزہ زار میں ہوئی۔ پھر لاہور میں چوبرجی کوارٹر کے بڑے گرائونڈ میں دوبارہ نمازہ جنازہ ہوئی۔ لوگوں کا بہت بڑا اژدہام تھا۔ چوک چوبرجی کے نزدیکلاہور کے قدیم اور مشہور قبرستان(میانی صاحب) میں قاری صاحب کی آخری آرام گاہ بنی۔حضرت مولانا ادریس عاصم لاہوری اور مولانا قاری ظہور الحسن نے حضرت قاری صاحب کے جسدِ خاکی کو قبر میں اتا را۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رنج وغم کی چھا گئی قراء ات کی دنیا میں گھٹا
ہر طرف آہ وفغاں کی آ رہی ہے یہ صدا
کر گئے اظہار احمد جہاں سے بھی انتقال
جن کے غم میں آج ہے ہر فرد ملت پر ملال
تھے فن تجوید وقراء ت کے بلاشک جو امام
جن کے دم سے جاری وساری رہا یہ فیض عام
حافظوں میں، قاریوں میں، جو تھا موتی آبدار
ذات جن کی تھی حقیقت میں سلف کی یادگار
دولت علم وعمل سے جن کا دل تاباں رہا
جب تلک زندہ رہا تو بے گماں شاداں رہا
کیوں نہ دیں اہل وطن تجھ کو عقیدت کا خراج
سبھی تو سبھی کے واسطے لاریب تھا ہنس مزاج
آؤ سبحانی کریں مرحوم کے حق میں دعا
جنت الفردوس میں دے جگہ ان کو خدا
(مولانانذیر احمد سبحانی)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تھانوی صاحب کے اخلاق وعادات
قاری کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ آج ہمارے والد محترم کو ہم سے جدا ہوئے تقریباً ۲ سال ہو گئے ہیں۔ ۱۷ دسمبر ۱۹۹۱ء بروز منگل کا وہ دن ہم سے ہماری محبوب ہستی چھین کر لے گیا۔ قاری صاحب سچے، کھرے اور انتہائی سادہ فطرت کے مالک تھے۔ جیسا کہ کسی فلسفی نے کہا ہے:
’’وہ عمر بھر کیوٹ کے درخت کی مانند خوشبو لٹاتا اور اپنے ماحول میں اجالا کرتا رہا اور اسے اس کی خبر تک نہ تھی۔‘‘
اللہ تعالی آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بقول قاری نجم الصبیح تھانوی قاری صاحب﷫ کے حالات
حضرت قاری صاحب کے عادات واطوار کے متعلق ایک بات سب سے پہلے عرض کروں کہ ہر شے اور ہر بات کی اچھائی کو قرآن وسنت سے تعبیر دیتے۔
قاری صاحب ایک اچھے عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے باپ بھی تھے جنہوں نے تمام عمر اپنے بچوں کی مالی ضرورتوں اور اخلاقی تربیت کا خیال رکھا۔ بقول قاری نجم الصبیح، قاری صاحب کو قرآن پاک کی تلاوت سے عشق تھا اور حسن قراء ت کے لئے ہر وقت د وسروں کی اصلاح کرتے رہتے ۔ اس کے علاوہ نماز انتہائی مجبوری کے عالم میں بھی ترک نہ کی۔ مطالعہ کے بے حد شوقین تھے۔ انداز خطابت نہایت اعلی تھا۔
حکیم محمد رمضان الحسن صاحب قاری اظہار احمد تھانوی صاحب کے متعلق لکھتے ہیں کہ وہ علم کے ایک نایاب خزانے کے مالک تھے۔ جس کی کمی اب شائد ہی پوری ہو سکے۔ قاری صاحب کو قرآن پڑھنے سے اس قدر لگائو تھا کہ اچھی قراء ت والے لوگوں سے ملنے کے لئے بے چین رہتے۔ ہمیشہ دھیمے لہجے میں بات کرتے اور کھل کر اظہار کرتے تھے گویا اسم با مسمی تھے۔ قاری صاحب خود بھی علم کا سمندر تھے اور ان سے سیکھنے والوں نے بھی بہت نام کمایا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاری محمد فاروق عبالی کے الفاظ
قاری محمد فاروق(قاری اظہار صاحب کے شاگرد) بتاتے ہیں کہ انہیں بہت سے اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا، مگر قاری صاحب اپنے مخصوص عادات وخصوصیات کی بناء پر سب سے بھاری رہے اور اگر آپ کے تلامذہ پر نظر ڈالیں تو ہر مکتبہ فکر کے حامل قراء نظر آتے ہیں جن میں دیوبندی ، اہل حدیث ، بریلوی اور اہل تشیع تمام نمایاں ہیں۔
آخر میں وہ فرماتے ہیں کہ اللہ وحدہ لا شریک سے دعا ہے کہ وہ آپ کی خدماتِ عالیہ کو قبول و منظور فرمائے۔ اور ہمیں آپ کے انداز واطوار پر خدمتِ قرآن کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے​
 
Top