• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ ان روایات کی کیا حیثیت ہے ، ( جماعت ہوتے ہوئے سنتیں پڑھنا )

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
پہلی روایت دراصل مصنف عبد الرزق اور المعجم الکبیر طبرانی میں منقول ہے، درج ذیل الفاظ سے
(( حدثنا إسحاق بن إبراهيم، عن عبد الرزاق، عن الثوري، عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن أبي موسى، قال: «جاء ابن مسعود، والإمام يصلي الصبح فصلى ركعتين إلى سارية، ولم يكن صلى ركعتي الفجر»
اس میں " ابو اسحاق السبیعی" راوی مدلس ہے (طبقات المدلسین ابن حجر ملاحظہ فرمائیں ) ، جس نے یہاں عنعنہ سے کام لیا ہے ، سماع کی تصریح نہیں کی
لہذا یہ روایت ضعیف ہے ، قابل استدلال نہیں ۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
دوسری روایت جسے امام طحاوی نے روایت کیا ہے وہ یہ ہے:
طحاوی شرح معانی الآثار میں فرماتے ہیں :
حدثنا أبو بكرة، قال: ثنا أبو عمر الضرير، قال: ثنا عبد العزيز بن مسلم، قال: أنا مطرف بن طريف، عن أبي عثمان الأنصاري، قال: «جاء عبد الله بن عباس والإمام في صلاة الغداة , ولم يكن صلى الركعتين فصلى عبد الله بن عباس رضي الله عنهما الركعتين خلف الإمام , ثم دخل معهم»
یہ روایت منقطع ہے ، کیونکہ ابو عثمان انصاری کی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات اور سماع نہیں ،
حافظ ابن حجر تھذیب التہذیب میں لکھتے ہیں :
سعيد" بن كثير بن عفير بن مسلم بن يزيد بن الأسود الأنصاري مولاهم أبو عثمان المصري وقد ينسب إلى جده روى عن الليث ومالك بن أبي لهيعة وسليمان بن بلال وكهمس بن المنهال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وعنه البخاري وروى له هو في الأدب ومسلم وأبو داود في القدر۔۔ الخ

یعنی ابو عثمان سعید بن کثیر نے امام مالک اور لیث بن سعد اور ابن لہیعہ سے روایت کی ہے ، یعنی ان کے شاگرد ہیں
اور ابو عثمان سے امام بخاریؒ امام مسلم امام ابو داود نے حدیث سنی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو واضح ہے کہ امام مالک کا شاگرد ۔ابن عباس سے کیسے سن سکتا ہے ، لہذا یہ روایت منقطع ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
تیسری روایت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بتائی ہے ، لیکن وہ روایت لکھی نہیں ،
اور اسلئے نہیں لکھی کہ اس میں صاف صاف مروی ہے کہ جناب عبداللہ نے یہ دو رکعتیں مسجد سے باہر پڑھی تھیں
امام طحاوی لکھتے ہیں :
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: «خَرَجَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا مِنْ بَيْتِهِ , فَأُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ , فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ الْمَسْجِدَ وَهُوَ فِي الطَّرِيقِ , ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى الصُّبْحَ مَعَ النَّاسِ»
ترجمہ : محمد بن کعب فرماتے ہیں کہ :۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (صبح کی نماز کیلئے ) گھر سے نکلے ، اس وقت اقامت کہی جا چکی تھی ، تو انہوں نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے رستہ ہی میں دو رکعتیں پڑھیں ، اور پھر مسجد میں داخل ہوئے ، اور جماعت میں شامل ہوئے ،،

اور مصنف عبد الرزاق میں صحیح سند سے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا عمل اس طرح منقول ہے :
عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَالْقَوْمُ فِي الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَكُنْ صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَدَخَلَ مَعَ الْقَوْمِ فِي صَلَاتِهِمْ، ثُمَّ قَعَدَ، حَتَّى إِذَا أَشْرَقَتْ لَهُ الشَّمْسُ قَضَاهَا قَالَ: «وَكَانَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَهُوَ فِي الطُّرُقِ صَلَّاهُمَا فِي الطَّرِيقِ»
(نیز دیکھئے : الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف )
یعنی :۔
عبداللہ رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کیلئے مسجد پہنچے تو جماعت کھڑی تھی ، اور عبداللہ بن عمر ابھی سنتیں بھی نہیں پڑھی تھیں ، تاہم وہ ( سنتیں پڑھے بغیر ) جماعت میں شامل ہوگئے ، پھر با جماعت نماز کے بعد (وہیں ) بیٹھے رہے ،
جب سورج خوب روشن ہوگیا ، تو اس وقت صبح کی سنتیں قضا کیں ، اور عبداللہ کا عمل یہ تھا کہ اگر جماعت کھڑی ہوجاتی اور وہ ابھی رستے میں ہی ہوتے تو سنتیں راستہ میں پڑھ لیتے »
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
نبی اکرم ﷺ کا واضح فرمان عالی شان ہے کہ :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: «إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ»
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب جماعت کھڑی ہو جائے
تو فرض نماز کے سوا کوئی نماز (جائز) نہیں“

صحیح مسلم/المسافرین ۹ (۷۲۰) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۹۴ (۱۲۶۶) ، سنن النسائی/الإمامة ۶۰ (۸۶۶) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۰۳ (۱۱۵۱) ، مسند احمد (۲/۳۵۲، ۴۵۵) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۴۹ (۱۱۸۸)
امام ترمذی ؒ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ :
امام سفیان ثوریؒ، ابن مبارکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ( کہ جب فرض نماز کی جماعت کھڑی ہوجائے ، تو اور کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیئے )
اور امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ :
" عن سويد بن غفلة، قال: كان عمر بن الخطاب يضرب على صلاة بعد الإقامة "
یعنی : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اقامت کہے جانے کے بعد کوئی اورنماز پڑھنے پر مارتے تھے "
( الأوسط في السنن والإجماع )
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
فجر کی جماعت کے دوران سنتیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگوں فجر کی جماعت کے دوران سنتیں پڑھتے رہتے ہیں ۔ منع کرنے پر کہتے ہیں کہ فجر کی سنتیں ہر صورت جماعت سے پہلے ادا کرنی چاہئیں۔قرآن و سنت کی رو سے اس کا کیا حکم ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب جماعت کھڑی ہو جائے گی اس وقت سوائے فرض نما کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا:
(( إذا أقيمت الصلاة فلا صلوة إلا المكتوبة ))

'' جب جماعت کی نماز کھڑی ہو جائے تو اس وقت سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی ''
اس حدیث کو مسلم ، ترمذی ، ابو داؤد، نسائی احمد بن جنبل اور ابن حبان نے بیان کیا ہے اور امام بخاری اسے ترجمہ باب میں لائے ہیں ۔ امام ابن عدی سند حسن یہ روایت بھی لئے ہیں کہ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ فجر کی سنت بھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اقامت کہی جائے تو سنت فجر بھی نہ پڑھی جائے۔ عبداللہ بن سر جس سے صحیح مسلم، ابو داؤد، نسائی ، ابن ماجہ میں یوں مروی ہے کہ :
((دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِي جَانِبِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «يَا فُلَانُ بِأَيِّ الصَّلَاتَيْنِ اعْتَدَدْتَ؟ أَبِصَلَاتِكَ وَحْدَكَ، أَمْ بِصَلَاتِكَ مَعَنَا؟))

'' عبداللہ بن سر جس نے کہا کہ ایک آدمی مسجد میں اس وقت داخل ہوا جب رسول اللہ صبح کی نماز میں تھے۔ اس آدمی نے دو رکعت ( سنت فجر ) کی مسجد کے ایک کونے میں ادا کی پھر آپ کے ساتھ جماعت میں شامل ہو گیا جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا اے فلان ان دو نمازوں میں سے کونسی نماز کو تونے فرض میں شمار کیا ۔ جو نماز تو نے تنہا ادا کی یا ہمارے ساتھ والی ''۔
اس حدیث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جب فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے تو اس وقت فجر کی سنت پڑھنا مکروہ و ممنوع ہے اس پر رسول اللہ نے سر زنش فرمائی ہے۔
جب فجر کی جماعت کھڑی ہو جائے اور کسی آدمی نے فجر کی سنتیں ابھی تک نہ پڑھی ہو تو جماعت سے فارغ ہو نے کے بعد ادا کر لے جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہے : آپ نے صبح کی فرض نماز کے بعد ایک شخص کو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: (صلوة الصبح رکعتین رکعتین)صبح کی نماز ( فرض ) کی دو رکعت ہیں ۔ دو رکعت ہیں تو اس نے جواب دیا '' ان لم اکن صلیت ارکعتین اللتین فبلھما فصلیتھما الان'' میں نے دور کعتیں سنت جو فرض سے پہلے نہیں پڑھی تھیں ان کو اب پڑھتا ہے، فسکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسکا جواب سن کر آپ خاموش ہو گئے۔ ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارقطنی، ابن خزیمہ ، مستدرک حاکم، ابن حبان، بیہقی)
خاموشی آپ کی رضا مندی کی دلیل ہے جسے محدثین کی اصطلاح میں تقریری حدیث کہتے ہیں ۔ لہٰذا جب فجر کی جماعت کھڑی ہو اس وقت سنت پڑھنا ممنوع ہے انہیں فرض نماز کے بعد ادا کر لینا چاہئے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج 1​

محدث فتویٰ​
 
Top