• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیطان اِنسان کا سب سے بڑا دشمن :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم


شیطان کا انسان کی اولاد میں شریک ہونا :


کیا یہ صحیح ہے کہ اگر جماع سے قبل بسم اللہ نہ پڑھی جاۓ تواس میں شیطان شریک ہوجاتا ہے ؟


الحمد للہ :

بسم اللہ نہ پڑھنے سے شیطان کی مشارکت کے متعلق اللہ تعالی نےارشاد فرمایا ہے :

{ اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا }

قرطبی رحمہ اللہ کا قول ہے : یعنی اس میں اپنے لیے شراکت بنا لے ۔۔

{ اور اولاد } سے مراد یہ کہا گيا ہے کہ :

مجاھد ، ضحاک ، رحمہما اللہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کا قول ہے کہ اس سے مراد اولاد زنا ہے ،

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما یہ بھی مروی ہے : اس سے مراد وہ اولاد ہے جو انہوں نے قتل کردی اور ان میں جرائم کے مرتکب ہوۓ ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما یہ بھی مروی ہے : اس سے یہ مراد ہے کہ اولاد کے نام عبدالعزی ، عبدالشمس ، عبدالحارث ، عبدالات وغیرہ ہے ۔

اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ اس سے مراد اولاد کوکفر میں رنگنا حتی کہ انہیں یھودی ، عیسائ بنا ڈالا جیسا کہ عیسائ‏ اولاد کواپنے خاص پانی میں ڈبوتے ہیں ، یہ قول قتادۃ رحمہ اللہ تعالی سے منقول ہے ۔

اورمجاھدرحمہ اللہ تعالی سے پانچواں قول یہ ہے کہ :

جب آدمی بسم اللہ پڑھے بغیر جماع کرتا ہے تو جن اس کی بیوی سے لپٹ کروہ بھی اس کے ساتھ مل کرجماع کرتا ہے تو اللہ تعالی کا قول بھی یہی ہے :

{ ان کو ان سے قبل نہ توانسانوں اور نہ ہی جنوں نے ہاتھ لگایاہے } تفسیر قرطبی ( 10 / 289 ) ۔

ابن کثيررحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

اللہ تعالی کا فرمان
{ اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا }

اللہ تعالی کا قول { اور اولاد میں } عوفی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ مجاھداور ضحاک رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ یعنی اولاد زنا ۔

علی ابن ابی طلحہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے وہ اولاد مراد ہے جنہیں وہ بے علمی اوربیوقوفی کی بناپر قتل کردیتےتھے۔

اورقتادہ رحمہ اللہ نے حسن بصری رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ ، اللہ کی قسم وہ یقینی طورپر اموال اور اولاد میں شریک ہے انہیں یھودی ، عیسائ ، اورمجوسی بنادیا اور اسلام کی علاوہ دوسرے رنگوں میں رنگا ، اور ان کےاموال میں سے شیطان کا حصہ رکھا ، اورقتادہ رحمہ اللہ نے بھی ایسے ہی کہا ہے ۔

اور صالح رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی اولاد کے نام عبدالحارث ، عبدالشمس ، اور فلاں کا بندہ وغیرہ رکھنا ۔

ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

ان اقوال میں سے اقرب الی الصواب یہ ہے کہ ہروہ مولود جس کے نام میں اللہ تعالی کی معصیت ہو اوراللہ تعالی کوناپسند ہو ، یاپھراسے اللہ تعالی کے پسندیدہ دین کوچھوڑ کرکسی اوردین میں داخل کردے ، یا اس کی ماں سے زنا کرکے ، یا اسے قتل اور زندہ درگورکرکے، یاان کے علاوہ دوسرے کاموں کے ساتھ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جاۓ ۔

توجس سے وہ بچہ پیداہوا یا جس کا وہ ہے اس کی وجہ سے وہ ابلیس کی مشارکت میں داخل ہوگیا ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول { اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا } میں شرکت کےکسی معنی کوخاص نہیں کیا تو وہ کسی بھی لحاظ سے ہوسکتی ہے ، توجس میں اللہ تعالی کی نافرمانی ہو یااس کے ساتھ نافرمانی کی جاۓ ، یا اس کام میں شیطان کی بات مانی جاۓ ، یا اس کام سے شیطان کی اطاعت ہوتی ہو تواس میں شیطان کی مشارکت ہے ۔

متجہ کابھی یہی قول ہے اورسلف رحمہ اللہ نے مشارکت کی کچھ تفسیربھی بیان کی ہے ، اورصحیح مسلم میں ہے کہ :

عیاض بن حماررضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالی فرماتا ہے " بیشک میں نے اپنے بندوں کوحنفاء توحید والا بنایا توان کے پاس شیطان آیا اور انہیں ان کے دین سے علیحدہ کردیا اورمیں نے جو اشیاء ان پرحلال کی تھیں اس نے ان کے لیے حرام کردیا ۔

صحیح مسلم ( 2865 )


اور صحیحین میں ہے کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ان میں سے اگرکوئ اپنی بیوی کے پاس جانے سے پہلے یہ دعا پڑھے اور اللہ تعالی انہیں اولاد دے تو شیطان کبھی بھی اسے نقصان نہیں دے سکےگا (بسم اللہ جنبنا الشیطان وجنب الشیطان مارزقتنا ) اللہ تعالی کے نام سے اے اللہ ہمیں شیطان سے بچا اورہمیں جو (اولاد ) عطا کرے اسے بھی شیطان سے بچا کررکھ ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3271 ) صحیح مسلم ( 1434 ) ۔

دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 3 / 50 - 51 ) ۔

اور امام طبری رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

ان اقوال میں سے اقرب الی الصواب یہ ہے کہ ہروہ مولود جس کے نام میں اللہ تعالی کی معصیت ہو اوراللہ تعالی کوناپسند ہو ، یاپھراسے اللہ تعالی کے پسندیدہ دین کوچھوڑ کرکسی اوردین میں داخل کردے ، یا اس کی ماں سے زنا کرکے ، یا اسے قتل اور زندہ درگورکرکے، یاان کے علاوہ دوسرے کاموں کے ساتھ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جاۓ ۔

توجس سے وہ بچہ پیداہوا یا جس کا وہ ہے اس کی وجہ سے وہ ابلیس کی مشارکت میں داخل ہوگیا ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول { اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا } میں شرکت کےکسی معنی کوخاص نہیں کیا تو وہ کسی بھی لحاظ سے ہوسکتی ہے ، توجس میں اللہ تعالی کی نافرمانی ہو یااس کے ساتھ نافرمانی کی جاۓ ، یا اس کام میں شیطان کی بات مانی جاۓ ، یا اس کام سے شیطان کی اطاعت ہوتی ہو تواس میں شیطان کی مشارکت ہے ۔ تفسیر طبری ( 15 / 120 - 121 ) ۔

شیخ عبدالرحمن السعدی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :

{ اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا } اس فرمان میں ہرقسم کی وہ معصیت جو اموال اوراولاد کے متعلق ہے شامل ہوتی ہے ، چاہے وہ زکاۃ کی ادائیگی نہ کرکے کی جاۓ ، اوریاپھر کفارات اورواجب حقوق کی ادائیگی نہ کی جاۓ ، اوریا اولاد کو ادب اورخیروبھلائ کی تعلیم نہ دے کرہو اور یا انہیں شرسے بچنا نہ سکھایا جاۓ ، اورلوگوں کا مال ناحق چھینا جانا یا اموال کو ناحق جگہ پرخرچ کرنا ، اور یا پھر ردی قسم کے کام کرنا ۔

بلکہ اکثر مفسرین نے اولاد و اموال میں شیطان کی مشارکت کا ذکر کرتے ہوۓ کہا ہے کہ کھانے پینے اورجماع کے وقت بسم اللہ نہ پڑھنا بھی مشارکت میں داخل ہے ، اس لیے کہ جب بسم اللہ نہ پڑھی جاۓ تو اس میں شیطان شرکت کرتا ہے جیسا کہ یہ حدیث میں بھی بیان کیا گيا ہے ۔ تیسیر الکریم الرحمن ( 414 )۔

میرا کہنا ہے کہ : جماع میں بسم اللہ نہ پڑھنے والے کے جماع میں شیطان کی مشارکت کے متعلق حدیث کا ذکرہوچکا ہے جو کہ ابن کثیر رحمہ اللہ کے حوالہ سے بیان کی جاچکی ہے ، اور اسی طرح مجاھد رحمہ اللہ تعالی کی کلام بھی بیا ن کی جاچکی ہے ۔

خلاصہ :

اس آیت کی تفسیرمیں صحیح قول یہ ہے کہ اسے ان وجوھات پرمحمول کیا جاۓ جواوپربیان کی جا چکی ہیں ، جب کہ ان کے معانی میں کسی قسم کی کوئ منافات نہیں ، اورسلف نے ان میں سے ہرایک معنی کوانفرادی طور پرذکر کیا ہے ، اور ان معانی کے درمیان کوئ تضاد بھی نہیں ہے ۔

تو اس جیسی حالت میں قاعدہ یہ ہے کہ آیۃ کواس کے سب معانی پر محمول کیا جاۓ ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

سلف کاتفسیرمیں اختلاف بہت ہی کم ہے ، اوران کا احکام میں جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ تفسیر کی نسبت بہت ہی زیادہ ہے ، اورپھروہ اختلاف غالب طورپر نوع کا اختلاف ہے نا کہ اختلاف تضاد ، اوراس کی دوقسمیں ہیں :

پہلی قسم :

ان میں سے ہرایک اس کی مراد دوسرے کی عبارت سے علاوہ کرے جو مسمی میں پاۓ جانے والے معنی پردلالت کررہی ہو اور یہ معنی دوسرے معنی کے علاوہ ہو لیکن مسمی ایک ہی رہے ، ان اسماء کی جگہ جومترادف اور متباین کے درمیان ہیں ، جیسا کہ تلوار کے نام میں کہا جاتا کہ : الصارم ، المھند ؛ کاٹنے والی تلوار کو کہا جاتا ہے ۔

اور یہ اللہ تعالی کے اسماء حسنی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں اور قرآن کے ناموں کی طرح ہے ، کیونکہ سب کے سب اسماء حسنی ایک ہی مسمی پردلالت کرتے ہیں ، تو ان میں کسی ایک اسم کے ساتھ پکارنا دوسرے اسم کے مخالف ہیں ، بلکہ معاملہ اس طرح ہی ہے جس طرح کہ اللہ تبارکہ وتعالی نے فرمایا ہے :

{ کہہ دیجۓ کہ تم اللہ تعالی کویا رحمن کوپکارو جس کوبھی پکارواللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں }

تو اللہ تعالی کے اسماء میں سے ہراسم مسمی ذات اور اس اسم میں پائ جانے والی صفت پردلالت کرتا ہے ، مثلا العلیم ، اللہ تعالی کی ذات اورعلم اور القدیر اللہ تعالی کی ذات اور قدرت ، اور الرحیم اللہ تعالی کی ذات اور رحمت پر دلالت کرتا ہے ۔

دوسری قسم :

یہ کہ ان میں سے ہرایک عمومی اسم کی کچھ انواع کو بطور مثال اور نوع کوسننے والے کی تنبیہ کے لیے بیان کرے نہ کہ تعریف کے طریقے پر جوکہ عموم وخصوص میں تعریف کی گئ چیز کے مطابق ہو ، مثلا کسی عجمی نے سوال کیا کہ خبز کیا ہے تو اس سے روٹی دکھا کراسے کہا یہ ہے ، تو یہ اشارہ اس کی نوع کی طرف ہے نہ کہ اس اکیلی روٹی کی طرف ۔

مجموع الفتاوی ( 13 / 333 - 337 ) ۔


واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/21946
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم

لوگوں کے اموال میں شیطان کی شراکت


{ اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا }

الحمد للہ :

شیطان کی اموال میں شراکت :

حسن رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے کہ : معصیت والے کاموں میں مال خرچ کرنا یہ شیطان کی مال میں شراکت بنتی ہے ۔

اورامام مجاھد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ :

یہ وہ مال ہے جو انہوں نے حلال طریقے سے حاصل نہیں کیا ۔

اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کا قول ہے :

وہ جن جانوروں کوبحیرہ سائبہ ، وصیلہ اور حام ( یہ سب جانوربتوں کے لیے چھوڑے جاتے تھے ) بنا کرحرام کرتے تھے ، اور قتادۃ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ اور ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہےکہ : وہ جانورجنہیں وہ اپنے معبودوں کے لیے ذبح کرتے تھے ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما اور مجاھد رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے کہ :

اس سے مراد وہ مال ہے جوشیطان نے انہیں اللہ تعالی کی معصیت میں خرچ کرنے کا حکم دیا تھا ۔

اور عطاء کا کہنا ہے کہ وہ سود ہے ، اور حسن کہتے ہیں کہ وہ غلط اور گندے طریقے سے جمع کرکے حرام جگہ پر خرچ کرنا ہے ، اورقتادہ کا بھی یہی قول ہے ، اور عوفی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ شیطان کی ان کے اموال میں مشارکت یہ ہے کہ جو انہوں نے اپنے جانوربحیرہ سائبہ وغیرہ بنا کر حرام کررکھے تھے ، ضحاک اور قتادہ نے بھی اسی طرح کہا ہے ۔

امام طبری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

ان سب اقوال میں اقرب الی الصواب قول اس کا ہے جو یہ کہے کہ : اس آیت سے مراد ہر وہ مال ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی کی معصیت کا ارتکاب کیا جاۓ چاہے وہ حرام میں خرچ کرکے یا حرام طریقے سے کما کر ہو یا جانورغیراللہ کے لیے ذبح کرے ، یا پھرانہیں بتوں اورغیر اللہ کے لیے چھوڑ دے یا اس کے علاوہ اس مال سے کوئ اورمعصیت کرے اور اس کے بارہ میں ہی اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

{ اور ان کے اموال میں شراکت اختیار کر }

تو ہروہ جس مال میں شیطان کی اطاعت اور اللہ تعالی کی معصیت کی جاۓ توفاعل نے اس میں ابلیس کوبھی شریک کرلیا ہے ، توبعض کو بعض سے خاص کرنے کی کوئ وجہ نہيں ۔انتہی ۔

اورکھانے پینے اوربالاضافہ گھروں میں رہائش جو کہ اموال میں سے ہے میں شیطان کی شراکت اس طرح ہوگی کہ بسم اللہ ترک کردی جاۓ توشیطان شریک ہوجاتا ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے ۔

جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :

اگرآدمی اپنے گھرمیں داخل ہوتے اور کھانےکھاتےوقت اللہ تعالی کا ذکر ( گھرمیں داخل ہونےاورکھانے کی دعا پڑھتا ہے ) کرتا ہے توشیطان کہتا ہے تمہارے لیے نہ توگھرمیں رات گزارنے کی جگہ اور نہ ہی رات کا کھانا ہے ، اوراگر داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکرنہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے رات گزارنے کے لیے تمہیں جگہ مل گئ اوراگرکھاتے وقت بھی دعانہیں پڑھتا تو شیطان کہتا ہے تم نے رات گزارنے کی جگہ اور کھانابھی حاصل کرلیا ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2018 ) ۔

حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی بھی کھانے میں حاضرہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کی ابتدا کرنے سے پہلے اپنے ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابتدا کرتے ۔

ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے میں حاضرتھے تو ایک لونڈی آئ گویا کہ اسے دھکیلاجارہا ہوتو وہ سیدھی کھانے میں جاکرہاتھ ڈالنے لگی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ، پھر ایک اعرابی آیا اور گویا کہ اسے بھی دھکیلاجارہا تھا وہ بھی سیدھاجاکر کھانے میں ہاتھ ڈالنے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اورفرمانے لگے :

بیشک شیطان یہ چاہتا ہے کہ کھانے پربسم اللہ نہ پڑھی جاۓ تاکہ وہ کھانا اس کے لیے حلال ہوجاۓ ، وہی شیطان اس لونڈی کولایا تاکہ اس کی وجہ سے کھانا حلال کرسکے تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ، تو اس اعرابی کولایا تاکہ اس کے ساتھ کھانا حلال کرے تومیں نے اس کا بھی ہاتھ پکڑلیا ، اوراس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس (شیطان ) کا ہاتھ اس کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے ۔


صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2017 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :

پھردرست اور صحیح جس پرسلف اورخلف میں سے جمہورعلماء کرام محدثين ، متکلمین ، فقہاء اور محدثین ہیں کہ یہ حدیث اور اس طرح کی وہ دوسری احادیث جو شیطان کے کھانے کے متعلق ہیں انہیں ظاہرپر محمول کیا جاۓ گا ۔

اور یہ کہ شیطان حقیقتا کھاتا ہے ، جب کہ عقل انکار نہیں کرتی اور نہ ہی شرع نے اس کا انکار کیا ہے بلکہ شریعت تو اس کا اثبات کرتی ہے ، تو اس کا قبول کرنا اور اعتقاد رکھنا واجب اور ضروری ہوا ۔

واللہ تعالی اعلم ، شرح صحیح مسلم ( 13 / 190 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/21904
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
15171225_1126884064046528_4527533356856897999_n.jpg


جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونے کے متعلق


پچھلے دنوں جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونے کا معاملہ پھیلا ہوا تھا اور یہ عقلی طور پر ناممکن ہے۔ اسکا سبب یہ ہے کہ ان کا پیدائشی طور پر آپس میں فرق ہے۔ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا جبکہ جن آگ سے پیدا ہوا ہے۔ اور یہ کہ شیطان صرف وسوسے ڈالنے پر قادر ہیں اور اللہ تعالی نے انہیں انسان پر کوئی سلطہ نہیں دیا کہ وہ انسان پر مسلط ہوسکیں۔ اور جو کیسٹیں لوگوں کے پاس چل رہی ہیں وہ کوئی دلیل نہیں۔

تو آپ کا اس پر کیا رد ہے؟


Published Date: 2004-05-16

الحمدللہ :

جن کا انسان کے بدن میں داخل ہونا یقینی طور پر کتاب وسنت اور بااتفاق اہل وسنت والجماعت اور حسی اور مشاہداتی طور پر ثابت ہے اور اس معاملہ میں سوائے معتزلہ کے جنہوں نے اپنے عقلی دلائل کو کتاب وسنت پر مقدم کیا ہے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا اور ہم دلائل میں جو آسان ہو ذکر کریں گے۔

فرمان باری تعالی ہے:

"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے یہ اس لئے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود کی طرح ہے۔" البقرہ275

قرطبی نے اپنی تفسیر میں (ج3ص355) میں کہا ہے کہ (یہ آیت اس انکار کو فاسد کرنے کی دلیل ہے جو کہتا ہے کہ دورے جن کی طرف سے نہیں اور وہ یہ گمان کرتا ہے کا یہ طبیعتوں کا فعل ہے اور شیطان انسان کے اندر نہیں چلتا اور نہ ہی اسے چمٹا ہے۔)

اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر (ج1ص32) میں مذکورہ آیت ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ (یعنی وہ قیامت کے دن اپنی قبروں سے ایسے کھڑے ہونگے جس طرح کہ مرگی والے کو دورے کی حالت ہوتی ہے اور شیطان اسے خبطی بنا دیتا ہے اور اس لئے کہ وہ منکر کام کیا کرتا تھا: اور ابن عباس (رضی اللہ عنہما) کا فرمان ہے کہ سود خور قیامت کے دن مجنون اور گلا گھونٹا ہوا اٹھے گا)

اور صحیح حدیث میں جسے نسائی نے ابو الیسر سے روایت کیا ہے وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے

(اے اللہ میں گرنے اور بہت زیادہ بڑھاپے اور غرق ہونے اور جل جانے سے پناہ مانگتا ہوں اور تیری پناہ میں آتا ہوں کہ مجھے شیطان موت کے وقت خبطی بنادے ۔)

مناوی نے اپنی کتاب فیض (ج2ص148) میں عبارت کی شرح میں کہا ہے (اور میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت خبطی کردے) کہ وہ مجھ سے چمٹ جائے اور میرے ساتھ کھیلنا شروع کردے اور میرے دین یا عقل میں فساد بپا کردے۔ (موت کے وقت) یعنی نزع کے وقت جس وقت پاؤں ڈگمگا جاتے اور عقلیں کام کرنا چھوڑ دیتی اور حواس جواب دے جاتے ہیں۔ اور بعض اوقات شیطان انسان پر دنیا کو چھوڑتے وقت غلبہ پالیتا ہے تو اسے گمراہ کردیتا یا پھر اسے توبہ سے روک دیتا ہے۔۔۔) الخ

اور ابن تیمیہ نے (مجموع الفتاوی 24/276) میں کہا ہے کہ جنوں کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بالاتفاق آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ سے ثابت ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے" البقرہ 275

اور صحیح (بخاری) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ (کہ شیطان ابن آدم کے اندر اس طرح دوڑتا ہے کہ جس طرح خون)1ھ

اور عبداللہ بن امام احمد کا قول ہے کہ۔ میں نے اپنے باپ سے کہا کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جن انسان کے بدن میں داخل نہیں ہوتا تو انہوں نے فرمایا (اے میرے بیٹے وہ جھوٹے ہیں حالانکہ وہ اسکی زبان سے بول رہا ہے۔)

تو ابن تیمیہ نے اس پر تعلیق لگاتے ہوئے فرمایا:

(یہ جو انہوں نے کہا وہ مشہور ہے کیونکہ جب آدمی کو دورہ پڑتا ہے تو زبان سے ایسی باتیں کرتا ہے جن کا معنی بھی نہیں جانتا اور اسکے بدن پر بہت زیادہ مارا جاتا ہے اگر اس طرح کی مار اونٹ کو ماری جائے تو وہ بھی متاثر ہو۔

اور جن چمٹے ہوئے شخص کو یہ مار محسوس بھی نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے وہ کلام جو کہ وہ کرتا ہے محسوس ہوتا ہے اور بعض اوقات دورے والا اور بغیر دورے کے شخص کو کھینچا جاتا ہے اور بستر یا چٹائی جس پر وہ بیٹھا ہوتا ہے کھینچی جاتی ہے اور آلات واشیاء بدل جاتی ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل ہوتا اور اسکے علاوہ اور کئی امور واقع ہوتے ہیں جس نے یہ دیکھیں ہوں اسے یہ یقینی علم ہوجاتا ہے کہ انسان کی زبان پر بولنے والا اور ان جسموں کو حرکات دینے والا انسان کے علاوہ کسی اور جنس سے ہے)

حتی کہ رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا (اور آئمہ مسلمین کے اندر کوئی ایسا امام نہیں جو کہ جن کا انسان کے جسم میں داخل ہونے کا منکر ہو اور جو اسکا انکار کرے اور یہ دعوی کرے کہ شرع جھوٹ بول رہی ہے تو اس نے شرع پر جھوٹ بولا اور شرعی دلائل میں کوئی دلیل اس کی نفی نہیں کرتی)

تو جنوں کا انسان کے جسم میں داخل ہونا کتاب عزیز اور سنت مطہرہ اور اہل سنت والجماعۃ کے اتفاق سے ثابت ہے جنکے ہم نے بعض دلائل ذکر کئے ہیں۔

اور اللہ تعالی کا یہ ارشاد مبارک:

" اور دراصل وہ اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے"

تو یہ بلاشک اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جن اللہ تعالی کے حکم کے بغیر یہ طاقت ہی نہیں رکھتے کہ وہ کسی کو جادو یا اس سے چمٹ کر یا اسی طرح کسی اور قسم کی ایذا دے سکیں یا اسے گمراہ کرسکیں۔

جیسا کہ حسن بصری کا قول ہے کہ:

اللہ تعالی جس پر چاہے انہیں مسلط کردیتا ہے اور جس پر نہ چاہے اس پر مسلط نہیں کرتا اور وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی پر طاقت نہیں رکھتے ۔

جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔

تو شیطان (اور وہ کافر جن ہے) بعض اوقات مومنوں پر انکے گناہوں کی وجہ اور اللہ تعالی کے ذکر اور اسکی توحید اور اسکی عبادت میں اخلاص سے دور ہونے کے سبب سے ان پر انہیں مسلط کردیتا ہے۔

لیکن جو اللہ تعالی کے نیک اور صالح بندے ہیں ان اسکی کوئی قدرت نہیں ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے۔

"میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نھیں اور تیرا رب کارسازی کرنے والا کافی ہے" الاسراء 65

اور اسے دور جاہلیت میں عرب بھی اچھی طرح جانتے اور اپنے اشعار میں اسکا تذکرہ کرتے تھے تو اسی لئے اعشی نے اپنی اونٹنی کو چستی کے لحاظ سے جنون کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اس کا قول ہے:

وہ کچھ دنوں کو رات کو چلنے کے بعد ایسے ہو جاتی ہے کہ اسے جنوں کی طرف سے کوئی جنون پہنچا ہے۔

اور الاولق جنون کی تشبیہ کو کہتے ہیں۔

اور جن چمٹنے کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے ابن تیمیہ نے (مجموع فتاوی 19/39) کہا ہے کہ۔

(بعض اوقات جن انسان کو شہوت اور خواہش اور عشق کی بنا پر چمٹتے ہیں جس طرح کہ انسان انسان کے سے متفق ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور بعض اوقات بغض اور سزا کے طور پر اور یہ کثرت سے ہے۔ مثلا انسانوں میں سے کوئی انہیں ایذا اور تکلیف دیتا ہے یا پھر وہ گمان کرتے ہیں کہ انسانوں نے جان بوجھ کر تکلیف دی ہے یہ تو کسی پر پیشاب کردینا اور یا پھر کسی جن پر گرم پانی بہا دینا اور یا کسی کو قتل کردینا اگرچہ انسان کو اسکا علم بھی نہیں ہوتا اور جنوں میں جہالت اور ظلم ہے تو وہ اسکی سزا کئے گئے فعل سے بھی زیادہ دیتے ہیں۔

اور بعض اوقات بطور کھیل کود اور مذاق اور یا پھر شر کی بنا پر بے وقوف جنوں کی طرف سے یہ حاصل ہوتا ہے۔) انتہی۔

میں کہتا ہوں، امید ہے کہ ان سب چیزوں سے نجات اس وقت مل سکتی ہے جبکہ اللہ تعالی کا ذکر اور ہر کام شروع کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ بہت سے کاموں کے وقت اللہ تعالی کا ذکر اور بسم اللہ پڑھنا مثلا کھانا کھاتے اور پانی پیتے اور جانور پر سوار ہوتے وقت اور ضرورت کے وقت کپڑے اتارتے وقت اور بیوی سے جماع کرتے وقت وغیرہ۔

اور اسکے علاج کے متعلق ابن تیمیہ (مجموع الفتاوی 19/42) میں فرماتے ہیں کہ:

(اور مقصد یہ ہے کہ اگر جن انسانوں پر زیادتی کریں تو انہیں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بتایا جائے اور ان پر حجت قائم کی جائے اور انہیں نیکی کا حکم اور برائی سے روکا جائے جس طرح کہ انسان کے ساتھ کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

"ہم کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک کہ رسول کو نہ بھیج دیں"

پھر اسکے بعد فرماتے ہیں کہ اگر جن امر اور نہی اور یہ سب بیان کرنے کے بعد بھی باز نہ آئے تو پھر اسے ڈانٹ ڈپٹ اور لعنت ملامت اور برا بھلا اور دھمکی وغیرہ دینا جائز ہے جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کے ساتھ کیا جب وہ آپ پر انگارہ لے کر حملہ آور ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (میں تجھ سے اللہ تعالی کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ پر تین بار اللہ تعالی کی لعنت کرتا ہوں۔) اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

اور اسکے خلاف قرآن پڑھ کر اور اللہ تعالی کا ذکر کرکے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ اور خاص کر آیۃ الکرسی پڑھ کے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(بیشک جو اسے پڑھے گا اس پر اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ صبح تک کے لئے مقرر کردیا جائے گا اور شیطان اسکے قریب بھی نہیں بھٹک سکے گا۔) اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔

اور اسی طرح معوذ تین (قل اعوذ برب الفلق۔۔ اور قل اعوذ برب الناس) دونوں سورتیں پڑھنا۔

اور لیکن نفسیاتی ڈاکٹر جن چمٹے ہوئے کے علاج میں ان چیزوں پر اعتماد نہیں کرتا کیونکہ وہ اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔

اور یہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ تفصیل کا محتاج ہے لیکن جو ہم نے ذکر کیا ہے اس میں ان شاء اللہ سنت کی پیروی کرنے والے کےلئے کفایت ہے۔

والحمدللہ رب العالمین۔ .

المرجع۔۔ : مسائل ورسائل ۔ تالیف۔ محمد الحمود النجدی ص23

https://islamqa.info/ur/1819
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیاابلیس کو اختیار دیاگیا ہے ؟ اوروہ لوگوں کو گمراہ کرنے پر حریص کیوں ہے ؟

ہت سوچ بچارکے بعد میں شیطان کے متعلق یہ سوچتا ہوں کہ ، جب وہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے تو پھر وہ شر والے افعال کيوں کرتا ہے ؟ ۔

انسان کو تو شیطان برے کام کرنے کا وسوسہ ڈالتا ہے تو پھر شیطان کو شر کا وسوسہ کون اور کیوں ڈالتا ہے ؟

کیا اسے اس بات کا علم نہیں کہ وہ آگ کااندھن بنے گا ؟

کیا وہ انسان کو ناپسند کرتا ہے ؟

اور کیا اسے معصیت اور احسان کرنے کا اختیار حاصل نہیں ؟


Published Date: 2008-03-04

الحمد اللہ :

ابلیس اور اس کے علاوہ دوسرے سب جن وانس کو اختیار اور مشیئت حاصل ہے کہ وہ اطاعت کریں یا کہ معصیت جیسا کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ اب جو چاہے ایمان لاۓ اور جو چاہے کفر کرے } الکھف ( 29 )

اور دوسری جگہ پر فرمان باری تعالی ہے :

{ ہم نے تو اسے راہ دکھائ تو اب وہ خواہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا } الدھر ( 3 )

اللہ تعالی نے ابلیس کو یہ حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کوسجدہ کرے تو اس نے تکبر کرتے ہوۓ سجدہ کرنے سے انکار کر کے کافروں میں سے ہوا تو اللہ تعالی نے اسے اپنی رحمت سے دور کردیا اور تاقیامت اس پر لعنت فرمادی ۔

اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہو‎ۓ اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا :

{ اور جب ہم نے فرشتوں سے آدم ( علیہ السلام ) کو سجدہ کرنے کا کہا تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا اس نے انکار اور تکبر کر کے کافروں میں سے ہوگیا } البقرۃ ( 34 )

اور دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے کچھ اس طرح فرمایا :

{ چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کرلیا ، مگرابلیس نے نہ کیا اور اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت سے صاف انکار کردیا ، (اللہ تعالی نے ) فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہے کہ تو نے سجدہ کرنے والوں می‍ں شمولیت نہیں کی ، وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئ کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے ، اللہ تعالی نے فرمایا اب تو اس جنت سے نکل جا کیونکہ تو راندۂ درگاہ ہے ،اور تجھ پر قیامت تک میری لعنت رہے گی } الحجر ( 30 - 35 )

تو اس وقت ابلیس نےاللہ تبارک وتعالی سے مہلت اور تاخیر طلب کی کہ اسے قیامت تک مہلت دی جاۓ تو اللہ تعالی نے یہ مہلت دیتے ہوۓ فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ کہنے لگا اے میرے رب ! مجھے اس دن تک ڈھیل دے کہ جس دن لوگ دوبارہ اٹھاۓ جائيں گے ، اللہ تعالی نے فرمایا کہ اچھا تو ان ميں سے ہے جنہیں ڈھیل دی گئ ہے ایک وقت مقررہ دن تک } الحجر ( 36 - 38 )

تو جب ابلیس کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ وہ ھلاک ہوجانے والوں میں سے ہے تو اس نے اپنے تکبر اور اپنے رب کے ساتھ کفر کے باوجود اس بات کا عزم کرلیا کہ وہ اللہ تعالی کے بندوں میں سے جس پر وہ طاقت رکھے اسے گمراہ کرکے اپنے ساتھ جہنم میں شریک کرے گا ۔

تو اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے ابلیس کا قول نقل کرتے ہوۓ فرمایا :

{ ابلیس کہنے لگا اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لۓ معاصی اور گناہوں کو مزین اور خوب بنا کر پیش کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی ، سواۓ تیرے ان بندوں کو جو کہ منتخب کر لۓ گۓ ہیں } الحجر ( 39 - 40 )

تو شیطان لوگوں کوگمراہ کرنے اورخراب کرنے پر حریص ہے تا کہ اس کے پیروکار اور اس کی عبادت کرنے والے زیاد سے زیادہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہوں جو اس کے ساتھ اس کے ٹھکانہ ( جہنم ) تک جائيں ، تو ابلیس کو اس بات کا علم ہے کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے تو وہ حسد وبغض اور بغاوت اورکفر عناد کی وجہ سے اس بات پر حریص ہے کہ سب کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جاۓ ۔

اور وہ آدم علیہ السلام کی اولاد انسان کو ناپسند کرتا اور ان سے دشمنی کرتا ہے اس لۓ کہ اسے اللہ تعالی کی رحمت سے دھتکارا اور اس پر لعنت ہی اس لۓ کی گئ ہے کہ اس نے انسانوں کے بات آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا تو اسی لۓ اللہ تعالی نےاپنے بندوں کو اس سے ڈراتے ہوۓ فرمایا ہے :

{ یاد رکھو ! شیطان تمہارا دشمن ہے ، تم اسے دشمن ہی جانو وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لۓ ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم میں جائيں } فاطر ( 6 )

اور ابلیس اس بات کا محتاج ہی نہيں کہ اسے کوئ وسوسہ ڈالے کیونکہ وہ تو خود ہی ہرشر اور برائ کی جڑ اور منبہ ہے ۔

تو مومن شخص اپنے رب کی اطاعت اور اس کے دین پر استقامت اختیار کرکے شیطان کے شر اور ہتھکنڈوں سے نجات پا سکتا ہے کیونکہ شیطان ان لوگوں پر کوئ طاقت اور سلطہ نہیں رکھتا جو کہ مومن ہيں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :

{ جب آّپ قرآن پڑھیں تو راندے ہوۓ شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو ، ایمان والوں اور اپنے رب پر توکل کرنے والوں پر اس کا مطلقا کوئ زور اور طاقت نہیں چلتی ، ہاں اس کا غلبہ اس کا غلبہ اور زور ان پر تو یقینا چلتاہے جو اسی سے رفاقت کریں اور دوستی لگائيں اورا سےاللہ تعالی کا شریک ٹھرائيں } النحل ( 98 - 100)

واللہ تعالی اعلم .

الاسلام سوال وجواب

https://islamqa.info/ur/20105
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
15726314_1167957296605871_8554019976355983298_n (1).jpg

کہیں ہم بھی اُس کا شکار تو نہیں؟

---------------------------------

شیطان کے ہتھیاروں میں سے ایک بہت بڑا ہتھیار جس کے ساتھ وہ لوگوں پر حملہ آور ہوتا ہے یہ ہے کہ وہ یہ خیال دل میں ڈالتا ہے کہ کوئی بات نہیں ، گناہ کرلو پھر توبہ کرلینا ، ابھی بڑی لمبی عمر باقی ہے ، اس طرح وہ نافرمان لوگوں کے دلوں میں توبہ سے غفلت ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو نے اب توبہ کرلی اور پھر کوئی گناہ کا ارتکاب کیا تو تیری توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور تو جہنمی بن جائے گا ، دل میں مزید وسوسہ یہ ڈال دے گا کہ جب تیری عمر پچاس یا ساٹھ سال ہوجائے گی تو پھر توبہ کرکے مسجد میں بیٹھ جانا اور کثرت سے عبادت کرنا ، ابھی تو جوانی کی عمر ہے اور اسی عمر میں دنیا کی رنگینیاں اور بہاریں دیکھی جاتی ہیں ، اپنے نفس کو خوب من مانی کرنے دے اور عبادت و ریاضت کر کے ابھی سے اس پر سختی نہ کر ، انسان کو توبہ سے محروم رکھنے کے لئے اس طرح کے کئی اور بھی شیطانی مکر و فریب ہوتے ہیں ، کہیں ہم ان شیطانی حربوں اور ہتھکنڈوں کا شکار تو نہیں ؟
 
Top