• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیطان کن لوگوں پر اترتا ہے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شیطان کن لوگوں پر اترتا ہے

اپنے دشمنوں کے متعلق فرمایا:
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُہُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا۰ۭ (الانعام:۶/۱۱۳)
''اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیاطین جن و انس کو دشمن بتایا۔ دھوکا دینے کے لیے ان میں سے ایک دوسرے کو چکنی چیڑی باتیں وحی کرتا ہے۔''
اور فرمایا:
وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــہِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ (الانعام: ۶؍۱۲۱)
''بے شک شیطان اپنے دوستوں کی طرف وحی بھیجتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔''
اور فرمایا:
ہَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ۲۲۱ۭ تَنَزَّلُ عَلٰي كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِـيْمٍ۲۲۲ۙ يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَكْثَرُہُمْ كٰذِبُوْنَ۲۲۳ۭ وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُہُمُ الْغَاوٗنَ۲۲۴ۭ اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِيْ كُلِّ وَادٍ يَّہِيْمُوْنَ۲۲۵ۙ وَاَنَّہُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ۲۲۶ۙ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللہَ كَثِيْرًا وَّانْتَصَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا۰ۭ وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۲۲۷ۧ (الشعراء: ۲۶؍۲۲۱،۲۲۷)
''اے پیغمبر ان لوگوں سے کہو کہ میں تمہیں بتائوں کہ کس پر شیطان اترا کرتے ہیں وہ ہر جھوٹے بدکار پراترا کرتے ہیں، سنی سنائی بات کانوں میں ڈال دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر تو جھوٹے ہیں اور شاعروں کی پیروی تو گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ اے مخاطب کیا تو نے اس پر نظر نہیں کی کہ شاعر لوگ ہر خیالی وادی میں سرگرداں پھرا کرتے ہیں اور ایسی باتیں کہا کرتے ہیں جو خود نہیں کرتے مگر ہاں جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور مظلوم ہونے کے بعد بدلہ لیا (ایسے شاعر مورد الزام نہیں)۔ اور جن لوگوں نے ظلم کیا ہے، ان کو جلد ہی معلوم ہوجائے گا کہ کیسی جگہ ان کو لوٹ کر جانا ہے۔''
اور فرمایا:
فَلَآ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ۳۸ۙ وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَ۳۹ۙ اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ۴۰ۙۚ وَّمَا ہُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍ۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ۴۱ۙ وَلَا بِقَوْلِ كَاہِنٍ۰ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ۴۲ۭ تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۴۳ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ۴۴ۙ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ۴۵ۙ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ۴۶ۡۖ فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِـزِيْنَ۴۷ وَاِنَّہٗ لَتَذْكِرَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۴۸ وَاِنَّا لَنَعْلَمُ اَنَّ مِنْكُمْ مُّكَذِّبِيْنَ۴۹ وَاِنَّہٗ لَحَسْرَۃٌ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۵۰ وَاِنَّہٗ لَحَقُّ الْيَقِيْنِ۵۱ فَسَبِّــحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ۵۲ۧ
(الحاقہ: ۶۹؍۳۸،۵۲)
''تو جو چیز تم کو دکھائی دیتی ہے اور جو چیز تم کو نہیں دکھائی دیتی ہم کو سب کی قسم کہ یہ قرآن کلام ہے ایک معزز فرشتے کا اور یہ کسی شاعر کی بات نہیں ہے۔ تم لوگ بہت ہی کم یقین کرتے ہو اور نہ کسی کاہن کے تکے ہیں۔ تم لوگ بہت ہی کم غور کرتے ہو۔ یہ کلام پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے اور اگر پیغمبر زبردستی کوئی بات ہمارے اوپر کہہ دیتا تو ہم نے اس کا داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی گردن اڑا دی ہوتی اور تم میں سے کوئی بھی ہم کو اس سے روک نہیں سکتا اور کچھ شک نہیں کہ یہ قرآن پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے اور ہم کو خوب معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اس کے جھٹلانے والے بھی ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ کافروں کے لیے موجبِ حسرت ہے اور اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ یہ یقینا برحق ہے تو اے پیغمبر! تم اپنے پروردگار عالی شان کے نام کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہو۔''
اور فرمایا:
فَذَكِّرْ فَمَآ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاہِنٍ وَّلَا مَجْنُوْنٍ۲۹ۭ اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِہٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ۳۰ قُلْ تَرَبَّصُوْا فَاِنِّىْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُتَرَبِّصِيْنَ۳۱ۭ اَمْ تَاْمُرُہُمْ اَحْلَامُہُمْ بِھٰذَآ اَمْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ۳۲ۚ اَمْ يَقُوْلُوْنَ تَـقَوَّلَہٗ۰ۚ بَلْ لَّا يُؤْمِنُوْنَ۳۳ۚ فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ۳۴ۭ (الطور: ۵۲؍۲۹تا ۳۴)
''تو نصیحت کیے جائو کہ اپنے پروردگار کے فضل سے نہ تو تم کاہن ہو اور نہ مجنون ہو۔ کیا لوگ تمہاری نسبت کہتے ہیں کہ شاعر ہے اور ہم اس کے بارے میں زمانے کی گردش کا انتظار کرتے ہیں۔ تم ان سے کہو کہ بہت اچھا تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں کیا ان کی عقلیں ان کو یہ سکھاتی ہیں یا یہ لوگ شریر ہیں یا کہتے ہیں کہ اس نے قرآن از خود بنا لیا ہے بلکہ یہ ایمان ہی لانا نہیں چاہتے سو اگر سچے ہیں تو اس طرح کا کلام یہ بھی بنا کر لائیں۔''
اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبیﷺکو ان لوگوں سے منزہ قرار دیا ہے جن کا تعلق شیاطین کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ لوگ کاہن شاعر اور مجنون ہوتے ہیں اور بیان فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک برگزیدہ اور معزز فرشتہ ان کے پاس قرآن لایاہے جسے اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
اَللہُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ۰ۭ (الحج: ۲۲؍ ۷۵)
''اللہ تعالیٰ فرشتوں اور آدمیوں میں سے اپنے ایلچی منتخب کرتا ہے۔''
اور فرمایا:
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۱۹۲ۭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۱۹۳ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۱۹۴ۙ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ۱۹۵ۭ (الشعراء: ۲۶؍۱۹۲ تا ۱۹۵)
''اور کچھ شک نہیں کہ یہ قرآن پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے، اس کو جبریل امین نے سلیس عربی زبان میں تمہارے دل پر القا کیا ہے تاکہ اور پیغمبروں کی طرح تم بھی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائو۔''
اور فرمایا:
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللہِ
(البقرہ: ۲؍۹۷)
''اے پیغمبر! کہو کہ جو شخص جبریل کا دشمن ہے (تو ہوا کرے) اس نے تو اللہ کے حکم سے یہ قرآن تیرے دل پر القاء کیا ہے۔''
اور فرمایا:
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۹۸ اِنَّہٗ لَيْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۹۹ اِنَّمَا سُلْطٰنُہٗ عَلَي الَّذِيْنَ يَتَوَلَّوْنَہٗ وَالَّذِيْنَ ہُمْ بِہٖ مُشْرِكُوْنَ۱۰۰ۧ وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰيَۃً مَّكَانَ اٰيَۃٍوَّاللہُ اَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوْٓااِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ۰ۭ بَلْ اَكْثَرُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۱۰۱ قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ۱۰۲ (النحل: ۱۶؍۹۸،۱۰۲)
''تو اے پیغمبر جب قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود کے وسوسوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیا کرو، جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں ان پر تو اس کا کچھ قابو نہیں چلتا اس کا قابو چلتا ہے تو ان لوگوں پر جو اس سے دوستی رکھتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ جب ہم کسی آیت کے بدلے آیت بھیجتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی نازل کی ہوئی باتوں کو خوب جانتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ تو اپنے دل سے بنا لیتا ہے بلکہ بات یوں ہے کہ ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں اے پیغمبر! کہہ دو کہ حق یہ ہے کہ اس قرآن کو تمہارے پروردگار کی طرف سے روح القدس یعنی جبریل لے کر آئے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو مضبوط کرے اور مسلمین کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہو۔''
اللہ تعالیٰ نے جبریل کا نام روح الامین اور روح القدس رکھا ہے اور فرمایا:
فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ۱۵ۙ الْجَـــوَارِ الْكُنَّسِ۱۶ۙ (التکویر: ۸۱؍۱۵،۱۶)
''تو ہم کو ان ستاروں کی قسم جو چلتے چلتے الٹے پیچھے کو ہٹنے لگتے ہیں۔''
ان سے وہ ستارے مراد ہیں، جو اپنے طلوع سے قبل آسمان میں رُوپوش ہوتے ہیں اور جب ظاہر ہوتے ہیں تو وہ لوگوں کو چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور جب غروب ہوتے ہیں تو وہ اپنی کناس (قیامگاہ) کی طرف چلے جاتے ہیں۔ جو ان کو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کر دیتی ہے۔
وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ۱۷ۙ (التکویر: ۸۱؍۱۷)
''رات کی قسم جب اس کی سیاہی بھاگتی چلی جاتی ہے۔''
عَسْعَسَ سے مراد اَدْبَرَ ہے۔ یعنی جب رات پیٹھ پھیر کر چلی جاتی ہے اور صبح آجاتی ہے۔
وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ۱۸ۙ (التکویر: ۸۱؍۱۸)
''اور صبح کی قسم جس وقت اس کی پوپھوٹتی ہے۔''
تَنَفَّسَ سے مراد آمد صبح ہے۔''
اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ۱۹ۙ (التکویر: ۸۱؍۱۹)
''ایک معزز ایلچی کا پہنچایا ہوا پیغام ہے۔''
اس ایلچی سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں:
ذِيْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ۲۰ۙ (التکویر: ۸۱؍۲۰)
''بڑی قوت والا ہے صاحب عرش کے ہاں بڑے مرتبہ والا وہاں کے فرشتے اس کا حکم مانتے ہیں اور امانت دار ہے۔''
ثَمَّ سے مراد آسمان ہے یعنی وہی آسمان میں امین اور مطاع ہے۔
وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ۲۲ۚ (التکویر: ۸۱؍۲۲)
''اور تمہارا رفیق مجنون نہیں ہے۔''
یعنی وہ رفیق جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ احسان کیا کہ اس کو تمہاری ہی جنس سے رسول بنا کر بھیجا وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے کیونکہ تم فرشتوں کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ جیسا کہ فرمایا:
وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ مَلَكٌ۰ۭ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ۸ وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّلَـلَبَسْـنَا عَلَيْہِمْ مَّا يَلْبِسُوْنَ۹ (الانعام: ۶؍۸،۹)
''اور کہتے ہیں کہ اس پیغمبر پر کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل ہوا اور اگر ہم فرشتہ نازل کرتے تو پھر تو فیصلہ ہی ہوجاتا پھر ان کو مہلت تو نہ دی جاتی اور اگر ہم رسول کا مددگار کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے اور وہی شبہے ان کے دلوں پر طاری کر دیتے جو اب ان کے دلوں میں موجود ہیں۔''
اور فرمایا:
وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ۲۳ۚ (التکویر: ۸۱؍۲۳)
''اور بے شک اس نے اس کو مطلع صاف میں دیکھا۔''
یعنی جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا اور فرمایا:
وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ (التکویر: ۸۱؍۲۴)
''اور وہ غیب پر تہمت کیا ہوا نہیں ہے۔''
ظنین سے مراد متہم ہے اور دوسری قراء ت میں ضنین ہے یعنی بخیل جو علم کو چھپائے اور اسے کچھ لیے بغیر ظاہر نہ کرے۔ جیسا کہ وہ شخص جو کسی فن کا عالم ہو اور بغیر معاوضہ کے کسی پر ظاہر نہیں کرتا اور فرمایا:
وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ (التکویر: ۸۱؍۲۵)
''اور نہ وہ شیطان مردود کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔''
یہاں جبریل علیہ السلام کو شیطان ہونے سے منزہ قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح محمد رسول اللہ ﷺ سیدناکو شاعر اور عامل ہونے سے منزہ قرار دیا گیا تھا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے متقی دوست وہی ہیں جو کہ محمدﷺکی پیروی کرتے ہیں۔ جس کام کا وہ حکم فرمائیں اسے کرتے ہیں اور جس سے منع فرماتے ہیں، اس سے رک جاتے ہیں اور جس بات میں ان کو پیروی کرنے کا حکم صاف طور پر بیان کر دیں۔ اس میں وہ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تائید اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں اور جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے کرتا ہے اور ان کے دلوں میں اپنے انوار ڈالتا ہے۔ جن کرامات سے اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء متقین کو سرفراز فرماتا ہے، وہ انہی لوگوں کا حصہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اولیاء کی کرامات کا ظہور یا دین کے حجت کے لیے ہوتا ہے یا مسلمانوں کی کسی ضرورت کے لیے۔ جیسا کہ نبیﷺکے معجزے تھے۔

الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top