• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیطان کی انسان کے اندر خون کی طرح گردش

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم
@اسحاق سلفی و
@خضر حیات صاحبان

سیدنا انس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ اپنی ایک بی بی کے ساتھ تھے ، اتنے میں ایک شخص سامنے سے گزرا ۔ آپ ﷺ نے اس کو بلایا وہ آیا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے فلانے ! یہ میری فلاں بی بی ہے ۔ “ وہ شخص بولا ، یا رسول اللہ ! میں اگر کسی پر گمان کرتا تو آپ پر گمان کرنے والا نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” شیطان انسان کے بدن میں ایسے پھرتا ہے جیسے خون پھرتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سلسلے میں وضاحت درکار ہے کہ کیا ہر انسان کے ساتھ اللہ رب العزت ایک شیطان کو بھی پیدا فرماتے ہیں نیز اس کی بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا خون میں گردش کر نے سے کیا مراد ہے۔
اور یہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہے یا کفار کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔؟

 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کیا ہر انسان کے ساتھ اللہ رب العزت ایک شیطان کو بھی پیدا فرماتے ہیں
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
کیا ہر انسان کے ایک شیطان ہوتا ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :
ہاں ہر انسان کے ایک قرین (یعنی شیطان ،جن ) ہوتا ہے
جسے "قرین " یعنی ہم نشین کا نام دیا جاتا ہے اسکا وجود ہے جسے اللہ تعالی نے انسانوں میں سے ہر ایک کے ساتھ لگا رکھا ہے اور یہ وہی ہے جو اپنے ساتھی کو شر اور گناہ کی طرف دھکیلتا ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ جس کا ذکر آئندہ چل کر آئے گا۔ ،اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے:
( قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَكِنْ كَانَ فِي ضَلالٍ بَعِيدٍ . قَالَ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ . مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلامٍ لِلْعَبِيدِ ) سورۃ ق/27-29 .
ترجمہ : ("اسکا ہم نشین کہے گا (شیطان) اے ہماری رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور کی گمراہی میں تھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (عذاب کا وعدہ) بھیج چکا تھا میرے ہاں بات بدلتی نہیں اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھر ظلم کرنے والا ہوں" (سورۃ ق27-29)
قال ابن كثير :
قال قرينه قال ابن عباس رضي الله عنهما ومجاهد وقتادة وغيرهم : هو الشيطان الذي وُكِّل به .

ربَّنا ما أطغيته أي : يقول عن الإنسان الذي قد وافى القيامةَ كافراً يتبرأ منه شيطانه ، فيقول : ربنا ما أطغيته أي : ما أضللتُه . ولكن كان في ضلالٍ بعيدٍ أي : بل كان هو في نفسه ضالاًّ قابلاً للباطل معانداً للحقِّ ، كما أخبر سبحانه وتعالى في الآية الأخرى في قوله وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ابراهيم/22 .
علامہ ابن کثیرؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہدؒ اور قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ (قرین )شیطان ہے جسے اس کام پر لگایا گیا ہے۔ یہ ساتھی یا قرین روز محشر کہے گا کہ
"ربنا ما اصغیتہ" یعنی ما اظللۃ میں نے انہیں گمراہ نہیں کیا۔ "ولکن کان فی ضلال بعید" یعنی بلکہ وہ خود ہی گمراہ اور باطل کو قبول کرنے والا اور حق کا دشمن تھا جس طرح کہ اللہ تعالی نے دوسری آیات میں خبردی ہے۔
دوسری مقام پر ارشاد باری تعالی ہے۔
"اور جب معاملہ کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کئے تھے انکی وعدہ خلافی کی ہے میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں ہاں میں نے تمہیں نافرمانی کی صرف دعوت دی اور تم نے مان لی پس اب تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو نہ تو میں تمہاری فریاد رسی کرنے والا اور نہ تم میری فریاد تک پہنچنے والے میں تر سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے یقینا ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔"(سورہ ابراہیم 22 )

ارشاد باری تعالی ہے۔
( قال لا تختصموا لديَّ يقول الرب عز وجل للإنسي وقرينِه من الجن وذلك أنهما يختصمان بين يدي الحق تعالى فيقول الإنسي : يا رب هذا أضلَّني عن الذِّكر بعد إذ جاءني ، ويقول الشيطان ربَّنا ما أطغيتُه ولكن كان في ضلالٍ بعيدٍ أي : عن منهج الحق .

فيقول الرب عز وجل لهما : لا تختصموا لدي أي : عندي ، وقد قدمت إليكم بالوعيد أي : قد أعذرت إليكم على ألسنة الرسل ، وأنزلت الكتب ، وقامت عليكم الحجج والبينات والبراهين .
ما يبدل القول لديَّ قال مجاهد : يعني : قد قضيتُ ما أنا قاض .
وما أنا بظلاَّم للعبيد أي : لست أعذِّب أحداً بذنب أحدٍ ، ولكن لا أعذِّب أحداً إلا بذنبه بعد قيام الحجة عليه.

" تفسير ابن كثير " ( 4 / 227 ) .
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان "بس میرے سامنے جھگڑے کی بات مت کرو" تو اللہ جل جلالہ انسان اور جنوں میں سے انکے قرین کو فرمائے گا کیونکہ وہ اللہ تعالی کے سامنے جھگڑا کررہے ہوں گے تو انسان کہے گا اے رب مجھے حق آجانے کے بعد اس نے گمراہ کیا تھا اور شیطان یہ کہے گا "ربنا ما اطغیتہ ولکن کان فی ضلال بعید" (اے ہمارے رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ خود ہی دور دراز کی گمراہی میں تھا) یعن منہج حق سے دور تھا۔

تو اللہ عزوجل فرمائے گا "لا تختصموا لدی" (بس میرے سامنے جھگڑا مت کرو) یعنی میرے پاس "میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (عذاب کا وعدہ) بھیج چکا تھا" یعنی میں نے تمہارا یہ عذر رسول بھیج کر اور کتابیں نازل کرکے ختم کردیا اور تم پر حجت اور دلیل اور برہان قائم ہوچکا۔ "میرے ہاں بات بدلتی نہیں" مجاہد کہتے ہیں یعنی میں نے فیصلہ کرنا تھا وہ کرچکا۔ "اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھر ظلم کرنے والا ہوں" یعنی میں کسی کو کسی دوسرے کے گناہ کے بدلے میں عذاب نہیں دونگا لیکن ہر ایک پر حجت قائم ہونے کے بعد اسے اسکے گناہ کا عذاب ہوگا۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر (4/227)

وعن عبد الله بن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما منكم من أحدٍ إلا وقد وكِّل به قرينه من الجن ، قالوا : وإياك يا رسول الله ؟ قال : وإياي ، إلا أن الله أعانني عليه فأسلم فلا يأمرني إلا بخير .
وفي رواية : " … وقد وكِّل به قرينُه من الجنِّ وقرينُه من الملائكة

" .
رواه مسلم ( 2814 ) .
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے مگر اسکے ساتھ ایک جنوں میں سے ہم نشین لگایا گیا ہے تو صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا آپ کے ساتھ بھی؟ تو آپ نے فرمایا میرے ساتھ بھی لیکن یہ اللہ تعالی نے اس پر میری مدد کی ہے تو وہ فرمانبردار ہوگیا ہے اور مجھے سےصرف نیکی کی بات ہی کرتا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے ساتھ ایک ہم نشین جنوں میں سے اور ایک فرشتوں میں سے۔
اسے مسلم نے (2814) روایت کیا ہے۔
وبوَّب عليه النووي بقوله : باب تحريش الشيطان وبعثه سراياه لفتنة الناس وأن مع كل إنسان قريناً .
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب یہ باندھا ہے ( باب : شیطان کے برانگیختہ کرنےاور دھوکہ دینے اور اپنے لشکر کو لوگوں میں فتنہ میں ڈالنے کے لئے روانہ کرنا اور ہر انسان کے ساتھ ایک ہم نشین (قرین) ہے۔
قال النووي :
" فأسلم " برفع الميم وفتحها ، وهما روايتان مشهورتان ، فمن رفع قال : معناه : أسلم أنا من شرِّه وفتنته ، ومَن فتح قال : إن القرين أسلم ، من الإسلام وصار مؤمناً لا يأمرني إلا بخير .
یعنی امام نووی کہتے ہیں کہ (فاسلم) میم کو فتح اور ضمہ کے ساتھ اور یہ دونوں روایتیں مشہور ہیں تو جو رفع پڑھے گا اسکا معنی ہوگا کہ میں اس کے فتنہ اور شر سے محفوظ ہوگیا ہوں۔ اور جو فتح کے ساتھ پڑھتا ہے تو اسکا معنی یہ ہوگا کہ وہ قرین مسلمان اور مومن ہوگیا تو مجھے خیر کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیتا۔
واختلفوا في الأرجح منهما فقال الخطابي : الصحيح المختار الرفع ، ورجح القاضي عياض الفتح ، وهو المختار ؛ لقوله : " فلا يأمرني إلا بخير " ، واختلفوا على رواية الفتح ، قيل : أسلم بمعنى استسلم وانقاد ، وقد جاء هكذا في غير صحيح مسلم " فاستسلم " ، وقيل : معناه صار مسلماً مؤمناً ، وهذا هو الظاهر ، قال القاضي : واعلم أن الأمَّة مجتمعة على عصمة النَّبي صلَّى الله عليه وسلم من الشيطان في جسمه وخاطره ولسانه،وفي هذا الحديث : إشارة إلى التحذير من فتنة القرين ووسوسته وإغوائه ، فأعلمنا بأنه معنا لنحترز منه بحسب الإمكان .

اور (اسلم ) کے دونوں صیغوں راجح کے متعلق اختلاف ہے۔ خطابی کا قول ہے کہ صحیح اور مختار یہی ہے کہ رفع (پیش) پڑھا جائے اور قاضی عیاض نے فتح کو راجح قرار دیا ہے اور وہ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ وہ مجھے خیر کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیتا۔ اور فتح کی روایت پر معنی میں اختلاف ہے۔ کہا گیا ہے کہ اسلم تسلم اور انقاد کے معنی میں ہے یعنی میرا مطیع ہوگیا ہے اور یہ مسلم کی روایت کے علاوہ روایات میں لفظ بھی آئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ اسکا معنی یہ ہے کہ وہ مسلمان اور مومن ہوگیا ہے اور یہی ظاہر ہوتا ہے قاضی کا کہنا ہے کہ " امت اس پر مجتمع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شیطان سے جسمانی اور زبانی اور حواس کے اعتبار سے بھی محفوظ و مامون کردیئے گئے ہیں۔​

تو اس حدیث میں ہم نشین (قرین) کے فتنہ اور وسوسہ اور اسکے اغوا کے متعلق تخدیر ہے یعنی اس سے بچنا چاہئے کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے تو ہم اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں۔

دیکھیں شرح مسلم (17/157-180)​

وعن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " إذا كان أحدكم يصلِّي فلا يدع أحداً يمرُّ بين يديه ، فإن أبى فليقاتلْه فإن معه القرين " . رواه مسلم ( 506 ) .
اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر کوئی آپ میں نماز پڑھ رہا ہو تو کسی کو آگے سے نہ گزرنے دے اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑائی کرے کیونکہ اسکے ساتھ قرین ہے۔ اسے مسلم نے (506) روایت کیا ہے۔
قال الشوكاني :
قوله " فإن معه القرين " في القاموس : " القرين " : المقارن ، والصاحب ، والشيطان المقرون بالإنسان لا يفارقه ، وهو المراد هنا . " نيل الأوطار " ( 3 / 7

) .
علامہ محمد بن علی شوکانی کا قول ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اسکے ساتھ قرین ہے۔ اور قاموس میں ہے کہ القرین۔ المقارن (ساتھ ملے ہوئے ) اور" الصاحب " ( ہم نشین )کو کہتے ہیں اور شیطان انسان کے ساتھ ملا ہوا ہے اور اس سے جدا نہیں ہوتا اور یہاں سے مراد بھی یہی ہے دیکھیں نیل الاوطار (3/7)​
والله أعلم .
المصدر: الإسلام سؤال وجواب
ـــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ اپنی ایک بی بی کے ساتھ تھے ، اتنے میں ایک شخص سامنے سے گزرا ۔ آپ ﷺ نے اس کو بلایا وہ آیا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے فلانے ! یہ میری فلاں بی بی ہے ۔ “ وہ شخص بولا ، یا رسول اللہ ! میں اگر کسی پر گمان کرتا تو آپ پر گمان کرنے والا نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” شیطان انسان کے بدن میں ایسے پھرتا ہے جیسے خون پھرتا ہے ۔
شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے :
درج ذیل حدیث دیکھئے :

عن ابن شهاب، عن علي بن الحسين رضي الله عنهما، أن صفية، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته ‏‏‏‏‏‏ ح وحدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام بن يوسف، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن علي بن الحسين:‏‏‏‏‏‏"كان النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد وعنده ازواجه فرحن، ‏‏‏‏‏‏فقال لصفية بنت حيي:‏‏‏‏ لا تعجلي حتى انصرف معك، ‏‏‏‏‏‏وكان بيتها في دار اسامة، ‏‏‏‏‏‏فخرج النبي صلى الله عليه وسلم معها، ‏‏‏‏‏‏فلقيه رجلان من الانصار، ‏‏‏‏‏‏فنظرا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏ثم اجازا، ‏‏‏‏‏‏وقال لهما النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ تعاليا إنها صفية بنت حيي، ‏‏‏‏‏‏قالا:‏‏‏‏ سبحان الله، ‏‏‏‏‏‏يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ إن الشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم، ‏‏‏‏‏‏وإني خشيت ان يلقي في انفسكما شيئا".
امام محمد بن مسلم ابن شہاب الزہریؒ (المتوفی 124ھ) نے سیدنا زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ (المتوفی 92 ھ)سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی صفیہ رضی اللہ عنہا نے انہیں اپنا یہ واقعہ بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں (اعتکاف میں) تھے آپ کے پاس ازواج مطہرات بیٹھی تھیں۔ جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جلدی نہ کریں، میں آپ کوساتھ چلتا ہوں۔ ان کا حجرہ دار اسامہ رضی اللہ عنہ میں تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے تو دو انصاری صحابیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ جانا چاہا۔ لیکن آپ نے فرمایا ٹھہرو! ادھر سنو! یہ صفیہ بنت حیی ہیں (جو میری بیوی ہیں) ان حضرات نے عرض کی، سبحان اللہ! یا رسول اللہ!(ہم آپ کے متعلق ایسے خیال کا تصور بھی نہیں کرسکتے ) آپ نے فرمایا کہ شیطان (انسان کے جسم میں) خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی (بری) بات نہ ڈال دے۔
صحيح البخاري 2038
كتاب الاعتكاف ،بَابُ زِيَارَةِ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا فِي اعْتِكَافِهِ

عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان مع إحدى نسائه، فمر به رجل فدعاه، فجاء، فقال: «يا فلان هذه زوجتي فلانة» فقال: يا رسول الله من كنت أظن به، فلم أكن أظن بك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الشيطان يجري من الإنسان مجرى الدم» (صحیح مسلم ،کتاب السلام)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک زوجہ مطہرہ کے ساتھ تھے، اتنے میں ایک شخص وہاں سے گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا وہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فلان! یہ میری فلاں بیوی ہے۔“ وہ شخص بولا، یا رسول اللہ! میں ایسی بات تو آپ پر گمان بھی نہیں کرسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان انسان کے بدن میں ایسے پھرتا ہے جیسے خون پھرتا ہے۔“ (تو شاید تیرے دل میں وسوسہ ڈالے کہ پیغمبر ایک اجنبی عورت کے ساتھ جا رہے تھے)۔ (صحیح مسلم ،سنن ابی داود ، مسند احمد)
تشریح :
علامہ أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النوويؒ (المتوفى: 676ھ)فرماتے ہیں :
" قال القاضي وغيره قيل هو على ظاهره وأن الله تعالى جعل له قوة وقدرة على الجري في باطن الانسان مجاري دمه وقيل هو على الاستعارة لكثرة أعوانه ووسوسته فكأنه لا يفارق الانسان كما لا يفارقه دمه وقيل يلقى وسوسته في مسام لطيفه من البدن فتصل الوسوسة إلى القلب والله أعلم "(شرح النووی ،صحیح مسلم ،کتاب السلام )
قاضی عیاضؒ اور دیگر اہل علم کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں جو فرمایا کہ " شیطان انسان کے بدن میں ایسے پھرتا ہے جیسے خون پھرتا ہے۔“ یہ ارشاد نبوی اپنے ظاہر پر محمول ہے ،یعنی واقعی شیطان کو اللہ تعالی نے یہ طاقت دی ہے کہ وہ انسان کے اندر خون کے رستوں میں چلتا ، دوڑتا ہے ،
اور کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ فرمان نبوی محض استعارہ ہے اورمطلب یہ کہ شیطان انسان کو بہکانے اور وسوسہ ڈالنے کی کامل قدرت رکھتا ہے۔اور انسان کے ساتھ اس کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ وہ کسی صورت انسان سے جدا نہیں ہوتا ،بالکل اس طرح جس طرح انسان کا خون اس سے جدا نہیں ہوسکتا ۔ اور اس کے معنی میں یہ بھی کہا گیا وہ انسان کے لطیف مسام اور رگ و پے میں اپنے وسوسوں کو ڈالتا رہتا ہے اور اس کے یہ وسوسےانسانی قلب تک رسائی پاتے ہیں "
۔۔۔۔۔

انسان کی داخلی کائنات میں گھس کر اس کے ذہن و فکر اور اس کے قلب و دماغ کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
مشہور سلفی عالم غازی عزیر حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
"چونکہ یہ مخلوق جسم لطیف کی مالک ہیں لہذا ہم مادی طور پر نہ انہیں دیکھ پاتے ہیں اور نہ ہی محسوس کر پاتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنات اور شیاطین انسانوں کے بدن میں داخل ہوکر بالکل جذب ہوجاتے ہیں ۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ جس طرح جلتے ہوئے کوئلہ میں آگ، یاگیلی ریت، یا کپڑے میں ، یابجلی کے تاروں، یا مقناطیس میں برقی، اور مقناطیسی لہریں ، یادودھ میں پانی ، یاپانی میں نمک اور شکر، یا ہوا میں خوشبو اور بدبو وغیرہ مکمل طور پر جذب ہوجاتی ہے اسی طرح جن اور شیاطین بھی انسان کے جسم میں داخل ہوکر جذب ہوجاتے ہیں ۔
شیطان کے اندر یہ طاقت ہے کہ وہ انسان کی فکر اور دل پر وسوسہ کے راستے حاوی ہوجائے
۔(جادو کی حقیقت کتاب وسنت کی روشنی میں ازغازی عزیرص 165)
https://archive.org/details/Jadoo-Ki-Haqeeqat/page/n164
 
Last edited:
Top