• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیعوں کا امام غائب !

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
شیعوں کا امام غائب !

تحریر : حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ شعیوں کے ” امام غائب “ اور ” مہدی منتظر“ محمد بن الحسن العسکری کے بارے میں فرماتے ہیں :
فيخرج المهدي ويكون ظهوره من بلاد المشرق لا من سرداب سامراء كما تزعمه جهلة الرافضة من أنه موجود فِيهِ الْآنَ وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ خُرُوجَهُ فِي آخِرِ الزمان، فإن هذا نوع من الهذيان وقسط كثير مِنَ الْخِذْلَانِ وَهَوَسٌ شَدِيدٌ مِنَ الشَّيْطَانِ إِذْ لا دليل عليه ولا برهان لا من كتاب ولا من سنة ولا من معقول صحيح ولا استحسان.
” امام مہدی نکلیں گے ان کا ظہور مشرق کے علاقے سے ہو گا سامراء کی غار سے نہیں۔ جاہل رافضیوں کا خیال ہے کہ امام مہدی اس غار میں اب بھی موجود ہیں۔ وہ آخری زمانے میں ان کے خروج کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ ایک قسم کی بے وقوفی، بہت بڑی رسوائی ہے اور شیطان کی طرف سے شدید ہوس ہے کیونکہ اس پر کوئی دلیل و برہان نہیں۔ نہ قرآن سے نہ سنتِ رسول سے نہ عقل سے اور نہ قیاس سے۔“
[النهاية فى الفتن والملاحم لابن كثير : 55/1 ]

متواتر احادیث سے اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ثابت ہے کہ امام مہدی محمد بن عبداللہ نام سے موسوم ہوں گے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد سے ہوں گے، قربِ قیامت ان کا ظہور ہو گا، وہ پوری دنیا پر عدل و انصاف کے پھریرے لہرائیں گے۔ امام مہدی کے متعلق احادیث متواتر ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں : وقال أبو الحسن الخسعي الآبدي في مناقب الشافعي تواترت الأخبار بأن المهدي من هذه الأمة وأن عيسى يصلي خلفه ۔۔۔۔۔۔

دیکھیں فتح الباری لابن حجر : جلد 6 ص493،و تہذیب التہذیب لابن حجر : 144/9، فتح المغیث ج4 ص23 للسخاوی، الحاوی للفتاوی للسیوطی : 85/2، نظم المتناثر للکتانی : ص 47 وغیرہ۔​
 
شمولیت
اپریل 28، 2018
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
36
السلام علیکم
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شیعہ امام کہتے ہیں، انکے پاس امام کے بارے کیا عقیدہ ہے اسکی دلائل کے ساتھ وضاحت کریں ..
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شیعہ امام کہتے ہیں، انکے پاس امام کے بارے کیا عقیدہ ہے اسکی دلائل کے ساتھ وضاحت کریں ..
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
اس موضوع پر عزیز بھائی @عمر اثری صاحب کی ایک پوسٹ کا اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیعیت (اثنا عشریہ) اور اس کی بنیاد "مسئلہ امامت"

شیعوں کا ایمان ہے کہ جس طرح اللہ نے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری کیا اور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اس کی طرف سے انبیاء و رسل علیہم السلام مبعوث کئے گئے جو "معصوم" ہوتے تھے اور ان کی بعثت سے ہی بندوں پر اللہ کی حجت قائم ہوتی تھی اور وہ ثواب یا عذاب کے مستحق ہوتے تھے بالکل اسی طرح اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے بندوں کی ہدایت کے لئے "امامت" کا سلسلہ قائم کر دیا ہے اور قیامت تک کے لئے بارہ امام نامزد کر دیئے ہیں، بارہویں امام پر دنیا کا خاتمہ اور قیامت یقینی ہے... یہ بارہ امام انبیاء علیہم السلام ہی کی طرح معصوم ہیں اور مقام و مرتبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر اور دوسرے تمام انبیاء سے افضل و برتر اور بالاتر ہیں.... فنعوذ باللہ من الشیطان الرجیم..... ان اماموں کی اس امامت کو ماننا اور ان پر ایمان لانا اسی طرح نجات کی شرط ہے جس طرح انبیاء و رسل کی نبوت و رسالت کو ماننا اور ان پر ایمان لانے میں ہی نجات ہے....

بارہ اماموں کے اسماء:

1. حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
2. حسن بن علی رضی اللہ عنہ
3. حسین بن علی رضی اللہ عنہ
4. علی بن حسین زین العابدین
5. محمد بن علی باقر
6. جعفر بن محمد صادق
7. موسی بن جعفر کاظم
8. علی بن موسی رضا
9. محمدبن علی تقی
10. علی بن محمد نقی
11. حسن بن علی عسکری
12. محمد بن حسن مہدی موعود منتظر (شیعی عقیدے کے مطابق اب سے تقریباً ساڑھے گیارہ سو سال پہلے 255 یا 256 ھجری میں محمد بن حسن مہدی پیدا ہو کر 4 یا 5 سال کی عمر میں معجزانہ طور پر غائب ہو گئے اور اب تک زندہ ایک غار میں روپوش ہیں..... ان پر امامت کا سلسلہ ختم ہو گیا.... لیکن یاد رہے کہ آخری امام کے تعلق سے یہ شیعوں کا عقیدہ ہے... تاریخی شہادت اور تحقیقی بات یہ ہے کہ حسن بن علی عسکری کا کوئی بیٹا پیدا ہی نہیں ہوا پھر محمد بن حسن مہدی موعود منتظر کا وجود کہاں سے؟..........................
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
انکے پاس امام کے بارے کیا عقیدہ ہے اسکی دلائل کے ساتھ وضاحت کریں ..
ایک بریلوی رضا خوانی سائیٹ سے ایک مضمون پیش ہے؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہب شیعہ کا تفصیلی تعارف


ہم اپنے قارئین کرام پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ شیعہ حضرات کے عقیدہ کے مطابق امامت کیا ہے اور آئمہ کا مرتبہ و مقام کیاہے۔
خمینی بانی ایرانی انقلاب اپنی مشہور ترین کتاب کے صفحہ نمبر52 پر لکھتے ہیں۔

’’فان للامام مقاماً محموداً و درجۃ سامیۃ و خلافۃ وتکونیۃ تحفع لولایتھا جمیع ذرات الکون‘‘
امام کو مقام محمود بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کا مطیع ہوتا ہے۔

توضیح
(تکوین ،لفظ "کون " سے ہے جس کا مطلب کائنات میں تخلیق و بگاڑ و اصلاح )
حالانکہ قرآن کریم اور احادیث متواترہ و اجماع امت سے یہ بات ثابت ہے کہ مقام محمود فقط آپﷺ کی ذات ہے اور کائنات کے ذرہ، ذرہ پر حکومت صرف اﷲ رب العزت کی ہے لیکن شیعہ حضرات کا عقیدہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عقیدہ تو امام کو تکوینی حکومت حاصل ہونے کا ہے لیکن اگر ائمہ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ سوائے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کسی کو بھی حکومت کا موقع نہیں مل سکا۔

بانی ایرانی شیعہ انقلاب مزید اسی کتاب کے صفحہ نمبر 52 پر لکھتے ہیں۔

وان من ضروریات مذہنا ان الائمتنا مقاماً لایبلغہ ملک قرب ولانبی مرسل
ہمارے مذہب شیعہ کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے آئمہ کو وہ مقام و مرتبہ حاصل ہے جو کسی مقرب فرشتے اور نبی مرسل کو بھی نہیں۔

توضیح

یعنی حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے لے کر امام مہدی تک تمام آئمہ نبی کریمﷺ سے بھی افضل ہیں۔ خمینی صاحب نائب امام تھے۔ شیعہ کے ہاں ان کا مرتبہ بھی بلند ہوگا (العیاذ باﷲ)
پھر آگے لکھتا ہے۔


لانتصور فیہم السوہوا والکفلۃ… ان تعالیم الائمۃ کتعالیم القرآن لاتخص جیلا خاصا وانماہی تعالیم للجمیع فی کل عصر ومصرو الی یوم القیمۃ یجب تنفیذ ماہوا تباعھا (الحکومت الاسلامیہ ص 13)

ہمارے آئمہ سے کسی غلطی یا غفلت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہمارے آئمہ کی تعلیمات قرآن کی تعلیمات ہی کی مثل ہیں۔ وہ کسی خاص طبقے اور خاص دور کے لئے مخصوص نہیں، وہ ہر زمانے اور ہر علاقے کی تمام انسانوں کے لئے ہیں تا قیامت ان کا نافذ کرنا اور ان کی اتباع و پیروی واجب ہے۔

مذکورہ عبارت غور طلب ہیں۔ رسول اکرمﷺ کی طرح آئمہ کا مقام و مرتبہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان سے غلطی یا لغزش کا تصور بھی حرام ہے۔ ان کی تعلیمات قرآن سے نہیں بلکہ قرآن جیسی ہے۔

زمین کی تباہی

شیعہ حضرات کی مشہور ترین بلکہ امام غائب کی مصدقہ کتاب ’’اصول کافی‘‘ ص 104 پر ہے۔

عن ابی ہمزۃ قال قالت لابی عبداﷲ تبقی الارض بغیر امام قال لوبقیت الارض بغیر امام لساخت
ابو حمزہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کیا زمین بغیر امام کے قائم رہ سکتی ہے۔ انہوں نے فرمایا اگر زمین بغیر امام کے رہے تو دھنس جائے گی۔

ایک اور روایت میں ہے

عن احدہما انہ قال لایکون العبد مومنا حتی یصرف اﷲ ورسولہ ولائمۃ کلہم وامام زمانہ (اصول کافی ص 105)

حضرت امام محمد باقر یا امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اﷲ اور اس کے رسول کی اور تمام ائمہ خاص کر اپنے زمانے کے امام کی معفرت حاصل نہ کرے۔

توضیح

دونوں عبارتوں کا مطلب بالکل واضح ہے کہ زمین کی بقاء کے لئے امام کا ہونا لازمی ہے۔ گویا مومن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ امام کی معرفت ہو ورنہ العیاذ باﷲ باقی تمام مسلمان غیر مومن ہیں۔

اسی اصول کافی ص 276 میں ایک روایت درج ہے

عن ابی الحسن العطار قال سمعت ابا عبداﷲ یقول اشرک بین الاوصیاء والرسل فی الطاعۃ
ابوالحسن عطار نے روایت کیا کہ میں نے امام جعفر صادق سے سنا ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ائمہ اور رسولوں کو اطاعت میں برابر سمجھو

توضیح

یعنی جس طرح انبیاء علیہم السلام کی اطاعت امت پر فرض ہے، بالکل اسی طرح ائمہ کی بھی اطاعت فرض ہے
بلکہ شیعہ کی مشہور ترین کتاب حیات القلوب جلد سوم صفحہ اول پر ہے۔

مرتبہ امامت برتر نبوت است
مرتبہ امامت نبوت سے برتر ہے

جب ائمہ کا مرتبہ و مقام نبوت سے اعلیٰ ہے تو ان کی اطاعت بھی ان سے زیادہ اہم ہوگی۔ اصول کافی میں ہے۔ محمد بن سنسان سے ایک روایت کہ میں نے ابو جعفر ثانی محمد بن علی سے سوال کیا کہ شیعوں کے درمیان حلال و حرام میں بے حد اختلاف ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ تو ابو جعفر ثانی نے تفصیل کے ساتھ جواب دیتے ہوئے فرمایا

فہم یحلون ماشیاؤن ویحرمون مایشائون ولن یشائو الا ان یشاء اﷲ
وہ امام جن چیزوں کو چاہتے ہیں حلال کردیتے ہیں اور جن چیزوں کو چاہتے ہیں حرام کردیتے ہیں اور وہ وہی چاہتے ہیں جو اﷲ چاہتا ہے۔

توضیح

اس جملہ میں حلال و حرام کا اختیار رکھنے والے اگرچہ حضورﷺ، حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو کہا گیا ہے لیکن شارح اصول کافی علامہ خلیل قزوینی نے اس حدیث کی تشریح کردی کہ ان تینوں کے علاوہ ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام آئمہ کو یہ اختیار حاصل ہے۔
( الصافی شرح اصول کافی جلد دوم ص 149)

امام کی دس خصوصیات

حضرت امام محمد باقر کی طرف منسوب ایک روایت سنئے ۔

1۔ یولد مطہراً مختونا … امام پاک و صاف ختنہ کیا ہوا پیدا ہوتا ہے

واذا وقع علی الارض وقع علی راحیۃ رافعا صوتہ بالشہادتین … اور جب ماں کے پیٹ سے زمین پر آتا ہے تو دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھے ہوتا اور بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھتا ہے۔

ولا یجنب… اور اس کو کبھی جنابت نہیں ہوتی (غسل کی ضرورت نہیں)

وتنام عینا ولاینام قلب… جب سوتا ہے تو (صرف) آنکھ سوتی ہے دل بیدار رہتا ہے۔

5۔ ولایتشائوب… اور کبھی جماہی نہیں آتی

6۔ ولایتمطی … اور اس کو کبھی انگڑائی نہیں آتی

7۔ ویریٰ خلفہ کما یرٰی من امامہ… امام آگے اور پیچھے سے برابر دیکھتا ہے

8۔ ونجوہ کرائمۃ السک… امام کے پاخانہ سے مشک کی سی خوشبو آتی ہے۔

والارض مامورۃ بسترۃ وابصلاعۃ… اور زمین کو حکم ہے کہ اس کے پاخانہ کو ڈھک لے اور نگل لے

10۔ واذا بس ذرع رسول اﷲ کانت وفقاء واذا بس غیرہ من الناس طویلہم قصیر ہم زادت علیہ شبرا…
اور جب وہ رسول اﷲﷺ کی ذرہ پہنتا ہے تو اس کو بالکل ٹھیک آتی ہے جبکہ اس ذرہ کو کوئی دوسرا لمبا یا چھوٹا آدمی پہنتا ہے تو وہ ایک بالشت بڑی رہتی ہے۔

ایک اور روایت پڑھئے

امام خمینی کے پسندیدہ شیعہ مولوی علامہ باقر مجلسی اپنی ایک کتاب ’’حق الیقین‘‘ ص 126پر امام حسن عسکری سے اس روایت کو بیان کیا ہے

حمل مااوصیائے پمفران درشکم نمی باشد در پہلومے باشد واز رحم بیرون نمی آئیم بلکہ ازران مادران فردمے آئیم زیراکہ مانور خدائے تعالیٰ ایم وچرک وکشافت ونجاست رازمادر گردانیدہ است

ہمارے ائمہ کا حمل پیٹ میں نہیں ہوتا بلکہ پہلو میں ہوتا ہے اور ہم رحم سے باہر نہیں آئے بلکہ ماؤں کی رانوں سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ہم خداوند تعالیٰ کا نور ہیں، لہذا ہمیں گندگی و نجاست وغیرہ سے پاک رکھا جاتا ہے۔

یہ ہے ان فی ذالک لایت لقوم یعقلون
 
Last edited:
Top