• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیعہ کے مطابق امام اپنی موت کا وقت جانتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے ہی مرتے ہیں۔ معاذ اللہ

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام بھائی:

کیا انبیاءا کرام کو خود پتا ہوتا ہے کہ ان کی موت کا کیا وقت ہے یا اللہ تعالی کی طرف سے بتایا جاتا ہیں- کیوں کہ علم غیب اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا بلکہ انبیاء اکرام کو جو بھی علم دیا جاتا ہے وہ اللہ تعالی کی وحی کہ زریعہ دیا جاتا ہے جس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے -
اللہ تعالیٰ ہی اپنے انبیاء کو غیب کا علم عطاء فرماتا ہے

قرآن پاک میں ارشاد ہے

وَما يَنطِقُ عَنِ الهَوىٰ ﴿٣﴾ إِن هُوَ إِلّا وَحىٌ يوحىٰ ﴿٤﴾
''ترجمہ۔ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے دینی امور میں جو بھی کہتے ہیں سب اللہ کی طرفسے وحی کی جاتی ہے۔

ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا ہے کیونکہ قرآنی آیت میں دینی اور دنیاوی امور کا کوئی ذکر نہیں

اور اللہ تبارک وتعالی ہر چیز کو جاننے والا ہے اور اس کے علاو غیب کی کنجیاں کسی اور کے پاس نہیں جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اس آیت میں فرمایا ہے :
( اور اللہ تعالی ہی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ان کو اس کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا اور وہ جو کچھ سمندروں اور خشکی میں ہے اس کا علم بھی اس کے پاس ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اس کو بھی جانتا ہے اور زمین کے تاریک حصوں میں کوئی دانہ نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہے ) الانعام / 59

اور اللہ وحدہ ہی یہ جانتا ہے کہ قیامت کب قائم ہو گی اور بارش کے نزول کا علم بھی اسی کے پاس ہے اور جو کچھ ماں کے رحم میں ہے اور انسان کے عمل وقت اور جگہ اور اس کی موت کا علم بھی اللہ تبارک وتعالی کے پاس ہی ہے
جب یہ سب باتیں کتاب مبین یعنی قرآن میں موجود ہیں تو کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جن پر قرآن نازل ہوا وہ یہ سب باتیں نہ جانتے ہونگے غور کریں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
کلیم حیدر بھائی ذرا توجہ فرمائيں ۔
یہاں بھی کاپی پیسٹ ہو رہی ہے خصوصا پوسٹ 16 ، 17 اور 18
ان کاپی پیسٹ آنے سے تھریڈ کا حلیہ ہی بدل گيا ہے
ایسا لگ رہا ہے کہ ہم کسی مچھلی بازار میں ہیں اور ہر کوئی اپنی بولی بولے جا رہا ہے ، سوال کچھ اور ہے کاپی پیسٹ کرنے والے صاحب بس رٹی رٹائی باتیں کاپی پیسٹ کیے جا رہیے ہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد مبارک ہے :
( بےشک اللہ تعالی ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش نازل فرماتا ہے اور جو کچھ ماں کے پیٹ میں ہے اسے بھی جانتا ہے اور کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ ہی کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس زمین میں مرے گا بیشک اللہ تعالی علم والا اور خبر رکھنے والا ہے ) القمان / 34
آپ جو اس آیت سے معنی اخذ کرنا چاہتے ہیں وہ معنی اس حدیث صحیح کے خلاف ہے
ترجمہ از داؤد راز
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ رات کے وقت ہمارا سفر جاری تھا کہ ایک صاحب (اسید بن حضیر) نے عامر سے کہا ' عامر! اپنے کچھ شعر سناؤ ' عامر شاعر تھے۔ اس فرمائش پر وہ سواری سے اتر کر حدی خوانی کرنے لگے۔ کہا "اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا ' نہ ہم صددقہ کر سکتے اور نہ ہم نماز پڑھ سکتے۔ پس ہماری جلدی مغفرت کر، جب تک ہم زندہ ہیں ہماری جانیں تیرے راستے میں فدا ہیں اور اگر ہماری مڈبھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت رکھ ہم پر سکینت نازل فرما، ہمیں جب (باطل کی طرف) بلایا جاتا ہے تو ہم انکار کر دیتے ہیں، آج چلا چلا کر وہ ہمارے خلاف میدان میں آ ئے ہیں۔" حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون شعرکہہ رہا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ عامر بن اکوع ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ نے تو انہیں شہادت کا مستحق قرار دے دیا ' کاش! ابھی اور ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے دیتے۔[/hl]
صحیح بخاری حدیث نمبر: 4196

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کا عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہی سے جانتے تھے کہ عامر بن اکوع جنگ خیبر میں شہید ہوجائیں گے ایسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دعا دینے پر انھوں نے عرض کیا کہ کاش! ابھی اور ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے دیتے
ایسی طرح جنگ خیبر کے موقع پر ہی ایک شخص کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جہنمی ہے جبکہ وہ آپ کے ساتھ اس جنگ میں شریک تھا اور بہادری اور ہمت سے لڑرہا تھا
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ' کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ' ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے لشکر کے ساتھ) مشرکین (یعنی) یہود خیبر کا مقابلہ کیا ' دونوں طرف سے لوگوں نے جنگ کی ' پھر جب آپ اپنے خیمے کی طرف واپس ہوئے اور یہودی بھی اپنے خیموں میں واپس چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے متعلق کسی نے ذکر کیا کہ یہودیوں کا کوئی بھی آدمی اگر انہیں مل جائے تو وہ اس کا پیچھا کر کے اسے قتل کئے بغیر نہیں رہتے۔ کہا گیا کہ آج فلاں شخص ہماری طرف سے جتنی بہادری اور ہمت سے لڑا ہے شاید اتنی بہادری سے کوئی بھی نہیں لڑا ہو گا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر میں ان کے ساتھ ساتھ رہوں گا، بیان کیا کہ پھر وہ ان کے پیچھے ہو لئے جہاں وہ ٹھہرتے یہ بھی ٹھہرجاتے اور جہاں وہ دوڑ کر چلتے یہ بھی دوڑنے لگتے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صاحب زخمی ہو گئے ' انتہائی شدید طور پر اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے۔ اس لیے انہوں نے اپنی تلوار زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک سینہ کے مقابل کر کے اس پر گر پڑے اور اس طرح خودکشی کر لی۔ اب دوسرے صحابی (جو ان کی جستجو میں لگے ہوئے تھے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پوچھا کیا بات ہے؟ ان صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ جن کے متعلق ابھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہیں تو لوگوں پر آپ کا یہ فرمانا بڑا شاق گزرا تھا ' میں نے ان سے کہا کہ میں تمہارے لیے ان کے پیچھے پیچھے جاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ ایک موقع پر جب وہ شدید زخمی ہو گئے تو اس خواہش میں کہ موت جلدی آ جائے اپنی تلوار انہوں نے زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک کو اپنے سینہ کے سامنے کر کے اس پر گر پڑ ے اور اس طرح انہوں نے خود اپنی جان کو ہلاک کر دیا۔ اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ انسان زندگی بھر جنت والوں کے عمل کرتا ہے ' حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرا شخص زندگی بھر اہل دوزخ کے عمل کرتا ہے ' حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر: 4202
جب اس غیبی خبر کی تصدیق ایک صحابی نے کرلی تو اس پر ان کا ایمان اور بھی پختہ ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔غور کریں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اس سے کیا آپ یہ ثابت کرنا چاھتے ہیں کہ انبیاءا کرام کو علم غیب تھا !
غیب کی تعریف بیان کردیں قرآن و حدیث کی دلیل کے ساتھ پھر میں آپ کے سوال کا جواب عرض کرنے کی کوشش کروں گا ان شاء اللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کلیم حیدر بھائی ذرا توجہ فرمائيں ۔
یہاں بھی کاپی پیسٹ ہو رہی ہے خصوصا پوسٹ 16 ، 17 اور 18
ان کاپی پیسٹ آنے سے تھریڈ کا حلیہ ہی بدل گيا ہے
ایسا لگ رہا ہے کہ ہم کسی مچھلی بازار میں ہیں اور ہر کوئی اپنی بولی بولے جا رہا ہے ، سوال کچھ اور ہے کاپی پیسٹ کرنے والے صاحب بس رٹی رٹائی باتیں کاپی پیسٹ کیے جا رہیے ہیں

تلمیذ بھائی آپ کو کیا کاپی پیسٹ سے چڑ ہے کیا میں نہ موزوں سے الگ پوسٹ کی ہے بھائی بات صحیح ہو جو کی قرآن و سنت کے مطابق ھو نہ کہ اپنی عقل سے
 
Top