• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہؓ معیارِ حق ہیں اور اُنکے مدرسہ کی اتباع لازم

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
صحابہؓ معیارِ حق ہیں اور اُنکے مدرسہ کی اتباع لازم

امام ابن قیمؒ کے ذکر کردہ چند دلائل کی روشنی میں

استفادہ: حامد کمال الدین

”صحابہؓ“ اسلام کی محض ایک نسل نہیں، ”صحابہؓ“ دین کا ایک باقاعدہ ”مدرسہ“ ہے۔ ”صحابہؓ“ تاریخ کے اُس ”علمی واقعہ“ کا نام ہے جو رسول اللہ ﷺ __ معلم اعظم ومربی اعظم __ کے اپنے زیر نگاہ بلکہ آپﷺ کے اپنے ہاتھوں پروان چڑھا اور اس کی ایک ایک اینٹ آپ کے اپنے دست مبارک سے لگی۔ نہ اِس مدرسہ کے استاد جیسا کوئی استاد اور نہ اِس میں پڑھنے والوں جیسا کوئی طالب علم۔ ہو بھی کس طرح، اسلام کی اگر کوئی ایک نسل ایسی ہے کہ جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ اُس کے فہمِ دین کو نبی ﷺ نے اپنے ہاتھوں بنایا اور خود تراشا اور جیسی چاہی اُس کو صورت دی اور اپنے جیتے جی یہ تسلی کی کہ اللہ کے دین کو جس طرح سمجھا جا رہا ہے وہ بالکل صحیح سمجھا جا رہا ہے، تو صرف اور صرف وہ صحابہؓ کی نسل ہے۔

پس دین کے اصول و فروع کی بابت صحابہ کا فہم حجت نہ ہو تو کس کا فہم حجت ہو؟ یا پھر، دین کے اساسی ترین مسائل تک کی بابت (جن کی چند مثالیں آگے آ رہی ہیں) ہمیں تا قیامت ایک ایک تحقیق اور ایک ایک محقق کو پکڑتے اور چھوڑتے چلے جانا ہے ؟!! نہ کسی ”اعتقادی“ مسئلہ کو ”طے شدہ“ ماننا ہے اور نہ کسی عملی مسئلہ کو؛ یعنی ہر مسئلہ کو ہر وقت کسی بھی نئی سمجھ آنے والی ’دلیل‘ کی بنیاد پر چیلنج کیا اور زیر بحث لایا جا سکتا ہے؟! صحابہؓ کے فہمِ کتاب و سنت کو چیلنج کرنا ہمارے نزدیک ہر قسم کی گمراہی کا پیش خیمہ ہے۔

اسلام کی کوئی ایک نسل جس کی بابت یہ کہا جا سکے کہ دین اتارنے والے نے صرف یہی تسلی نہیں کی کہ اُس نسل کو جو دین پہنچا وہ بالکل صحیح پہنچا بلکہ __ اپنے رسول کے ان کے مابین ہونے کے ناطے __ اِس بات کو بھی یقینی بنایا کہ وہ جو کچھ اتار رہا ہے وہ زمین پر صحیح طرح سمجھا بھی جا رہا ہے، تو وہ صحابہؓ کی نسل ہے۔

”آسمانی تصحیح“ کی یہ ضمانت اصحابِ رسول اللہ کے سوا اِس امت کی کس نسل کو حاصل ہے؟ اُن کو ٹوکنے کو اور اُن کی تصحیح کرنے کو تو آسمان سے آیات اتر آیا کرتی تھیں!

تو پھر اہلسنت یہ اعتقاد کیوں نہ رکھیں کہ صحابہ معیارِ حق ہیں؟ صحابہ کے فہم دین کو اور آج کے کچھ محققین کے فہم دین کو ایک ہی سطح پر رکھنا آخر کیونکر روا ہونے لگا؟ ما لکم کیف تحکمون؟

تورات کے برعکس، قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے تیئیس برس کے عرصے میں اتارا گیا….تو یہ اِسی لئے تو ہوا کہ وہ باہمت نفوس جن کو اصحابِ رسول اللہ کہا جاتا ہے، اِس کی ہر ہر وحی کو ساتھ ساتھ اُس معلم اعظم سے پڑھتے اور سمجھتے جائیں اور اس کے ایک ایک اشارہ کو پا لینے میں کوئی ایک بھی دِقت نہ پائیں؟ جبکہ وہ معلم اعظمﷺ ان کے مابین ہو ہی اِس لئے کہ وہ انہیں قرآن کے معانی اور مفاہیم پڑھائے اور اپنے اوپر اترنے والی حکمت کو ان کی گھٹی میں اتارے؟!جس کا منصب ہی یوں بیان کیا گیا ہوکہ: یعلمہم الکتاب والحکمۃ۔ جبکہ اُن برگزیدہ نفوس کی سب سے بڑی ترجیح ہو ہی یہ کہ وہ علم کے اِس پاکیزہ ترین اور خالص ترین سرچشمہ ﷺ سے خدا کا دین سمجھ لیں؟!

یہ حیثیت تاریخ میں کیا کسی اور نسل کو بھی حاصل ہو سکتی ہے؟ صحابہ کے فہم دین کے مقابلے میں کیا ہم کسی اور کے فہم دین کو بھی قابل اعتناءسمجھیں؟؟؟

یعنی تاریخ کے ذہین ترین اور دیانت مند ترین نفوس کی ایک عظیم جماعت جو پورے تیئیس سال تک حلقہ باندھ کر محمد رسول اللہﷺ سے براہِ راست قرآن پڑھتی رہی اُس کا فہم قرآن وسنت اور مابعد کے لوگوں کا فہمِ قرآن و سنت ایک برابر کر دیا جائے؟؟؟ وہ مدرسہ جس میں اصحاب رسول اللہ پڑھے اور پھر پڑھاتے رہے، اُس کے نامور ائمہ و اساتذہ کو ”فہمِ دین کا معیار“ ماننے سے ہی انکار کر دیا جائے؟

پس صحابہؓ اسلام کی وہ پہلی نسل ہیں جو ما بعد نسلوں کیلئے اُس اساس کی حیثیت رکھتی ہے جس پر اسلام کی عمارت اوپر سے اوپر اٹھائی جانا ہے نہ کہ ہر بار یہ اساس نیچے تک سے ہلائی اور لرزائی جانا ہے۔ وہ مدرسہ جس میں صحابہؓ نے دین خداوندی پڑھا اور پھر پڑھایا، فہم دین کی وہ عین صحیح سمت ہے جو اِس امت کی بالکل ابتدا میں رکھ دی گئی (اور ابتدا میں ہی رکھی جانی چاہیے تھی)، اور جس کو اب آگے سے آگے ہی چلنا ہے۔ فہم دین کی یہ سمت جس کا نام ”مدرسۂ صحابہؓ“ ہے، شریعت نازل کرنے والے کی باقاعدہ نگرانی میں رکھی گئی؛ اِس میں کوئی غلطی اور کجی ہوتی تو وحی اِس کو خود ہی سیدھا کر دیتی۔ آخر کتنے ہی مواقع ایسے ہوئے جہاں صحابہؓ کی تصحیح کرنے کو قرآن کی آیت اترتی یا پھر رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس وضاحت فرماتے۔ غرض وحی کے دونوں مصدر صحابہؓ کو صرف دین پہنچاتے نہیں رہے، بلکہ جہاں ضرورت ہوئی ان کے فہم و عمل کو درست بھی کرتے رہے۔ چنانچہ ایک طرف صحابہ کی رغبت کہ وہ دین خداوندی کو اُس کی صحیح ترین روح کے ساتھ اس کے مصدر __ رسالت مآب ﷺ __ سے سمجھ لیں اور دوسری طرف رسالت مآب ﷺ کی رغبت اور حرص کہ وہ ان کو دین کی ایک ایک بات صحیح طرح سمجھا دیں اور ان کی ایک ایک غلطی درست کر دیں.. کیا اِن ہردو پہلو سے ”مدرسۂ صحابہؓ“ تاریخ کے ہر ’دبستان‘ سے منفرد نہیں ہو جاتا؟

صحابہؓ کے ایمان اور صحابہؓ کی اتباع کو بعد والوں کیلئے ایک معیار بنا دیا جانا اللہ کے فضل سے دین کے اندر اظہر من الشمس ہے اور اِس بات کو وہی شخص ’متنازعہ‘ جانے گا جس کو اللہ نے بصیرت سے آخری حد تک محروم کر رکھا ہو۔

وہ شخص جو رسول اللہﷺ کے پیچھے صف بنا کر نماز پڑھتا رہا ہو اور رسول اللہ ﷺ کی نگاہوں کے سامنے نمازیں پڑھ چکا ہو، جبکہ رسول اللہ ﷺ اپنے زیر تربیت اصحابؓ کی تصحیح اور تصویب کے معاملہ میں آخری درجہ کے حریص ہوں، وہ خوش نصیب اُس شخص کی طرح کیونکر ہو سکتا ہے جو نماز کو کچھ نصوصِ شریعت سے از راہِ استدلال و استنباط سمجھ رہا ہو؟! یہی مثال دین کے دیگر امہات المسائل کی ہے۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کے زیر تعلیم وزیر تربیت پروان چڑھنے والے مبارک نفوس، جوکہ لسانِ عرب کے ماہر، ذہانت وفطانت میں یکتا، تقویٰ میں بے مثال اور علم کے پہاڑ ہیں، ”سنت“ کا ایک مفہوم رکھتے ہوں اور آج کا کوئی شخص اپنی ’تحقیق‘ کی بنیاد پر ہمیں ’سنت‘ کا ایک مفہوم تجویز کر کے دے؟! ”ایمان“ کی تعریف ایک وہ ہو جو ہمیں اُس مدرسہ سے ملے جس نے ”ایمان“ کو براہِ راست نبی ﷺ سے لیا، جبکہ ’ایمان‘ کی ایک تعریف وہ ہو جو کوئی صاحب ہمیں آج کر کے دیں؟! مسئلۂ ”تقدیر“ پر نصوص کا اقتضاءاور نصوص کے مابین توفیق اور تطبیق ایک وہ ہو جو ہمیں مدرسۂ اصحابِ رسول اللہ سے ملے اور مسئلۂ تقدیر کی ایک وضاحت وہ ہو جو ہمیں آج لاہور یا کراچی کا کوئی شخص کر کے دے! ”اللہ کی صفات“ ایسے نازک ترین مسئلہ پر ایک وضاحت اور تفہیم ہمیں مدرسۂ اصحابِ رسول اللہ سے میسر ہو اور ایک تفہیم ہمیں آج کا کوئی ’genius‘ کر کے دے اگرچہ وہ اپنے فہم پر اپنے تئیں ’شرعی دلائل‘ کا انبار کیوں نہ رکھتا ہو (قدریہ، جہمیہ اور معتزلہ بھی اپنے تئیں ’دلائلِ شریعت‘ کا ایسا ہی ایک انبار رکھتے تھے جن کو کہ صحابہ و سلف کے مدرسہ سے بربادی کی وعیدیں سنائی گئیں، صحابہ کی راہ سے ہٹے ہوئے ہر شخص ہی کو اپنی بات شریعت سے ’نہایت واضح انداز‘ میں ثابت ہوتی نظر آتی ہے)۔

نصوصِ دین سے استنباط و استدلال کے ایک وہ پیمانے ہیں جو اصحابِ رسول اللہ نے اپنے استاد ﷺ سے سیکھے اور پھر کمال دیانت کے ساتھ آگے اپنے شاگردوں کو سکھائے اور یوں نہایت کامیابی کے ساتھ وہ امت کی آئندہ نسلوں کو منتقل کر کے دیے البتہ ایک وہ پیمانے ہیں جو آج کے کچھ لوگوں کی تحقیق ہو سکتی ہے۔ کیا ان دونوں کے مابین ہرگز کوئی فرق نہ رکھا جائے اور اصولاً سب کا ایک ہی اسٹیٹس رکھا جائے؟؟؟ صحابہ کے مواقف سے ہٹ کر اگر آج کوئی صاحب ہمیں اپنی محنتوں کے کمالات دکھانا چاہتے ہیں تو کیا سرے سے ہم ان کی بات سننے کے پابند ہیں؟ کیا ہم شرعاً اِس بات کے پابند ہیں کہ ہم ایسے کسی شخص کے خلاصۂ استدلال و اسنباط پر ’سیرحاصل بحث‘ کریں؟ صحابہ کے مناہج اور مواقف سے ہٹ کر امت میں کتنا کچھ ہے جو لکھا اور عام کیا گیا اور شاید کیا جاتا رہے گا۔ کیا امت پر فرض ہے کہ یہ سب کے سب طومار پڑھے اور اس پر باقاعدہ بحث کرے؟ ہر نیا شخص اٹھ کر جو کچھ پیش کرے، یہ اُس کو پڑھنے اور سننے اور اُس کی دلیلوں کی تحقیق کرنے کی مکلف کر رکھی جائے؟

حق یہ ہے کہ اِس امت کو صحابہؓ کے فہم کا ہی ایک تسلسل بننا ہے۔ اُنہی کے مدرسہ سے دین پڑھنا ہے اور فہم دین کے معاملہ میں انہی کے جاری کردہ معیارات کو آگے سے آگے چلانا ہے۔ وحی تو یقینا کتاب و سنت ہی ہے مگر وحی کے فہم کی بابت وہی معیارات اور نظائر برحق ہو سکتے ہیں جو ایک بار مدرسۂ رسالت میں پڑھنے والے صحابہ نے اپنے مابعد کی نسلوں کیلئے جاری کروا دیے۔ یہ مدرسہ جس میں صحابہؓ پڑھاتے رہے اور مابعد کی نسلوں کو اِس دین کی عملی امانت پوری محنت اور عرق ریزی کے ساتھ سونپتے رہے، یہ مدرسہ جس میں پڑھنے والوں کی فکری و علمی وعملی تربیت کی بابت صحابہؓ باقاعدہ تسلی کرتے رہے کہ ان کے شاگرد اُن سے دین کی یہ امانت صحیح صحیح وصول کر چکے ہیں(کہ صحابہؓ انسانیت پر رسول اللہ ﷺ کی شہادت قائم کر کے گئے ہیں) …. اصحابِ رسول اللہ کے تلامذہ کا یہ مدرسہ ”سلف“ کے نام سے منسوب ہے۔ اِس کے ہاں چلنے والے علمی معیارات اور فہم قرآن وسنت کے نظائر precedents بعد والوں کیلئے حجر اساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا التزام امت کی آئندہ نسلوں کیلئے ایک لازمی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔

اِس مدرسہ کے حق ہونے کی اساس: چونکہ صحابہؓ کی امامت اور ان کے فہم کی حجیت ہے، لہٰذا دین کو سمجھنے کے معاملہ میں صحابہؓ کی اتباع ایک نہایت اہم مبحث ہے۔ جہاں متبوع (جس کی پیروی ہو) کے طور پر معیار رسول اللہ ﷺ ہیں وہاں تابع (پیروی کرنے والے) کے طور پر معیار اصحابِ رسول اللہ ہیں۔ ایک سلیم الفطرت شخص کیلئے یہ بات ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ دین کو سمجھنے اور اِس پر عمل پیرا ہونے کے معاملہ میں صحابہؓ کو معیار جاننے کے موضوع پر یہاں ہم امام ابن قیمؒ کی شہرہ آفاق تصنیف اعلام الموقعین کی جلد چہارم میں دیے گئے چند مباحث سے استفادہ کریں گے۔ آئندہ کسی وقت ان شاءاللہ ہم اِس موضوع پر امام ابن تیمیہؒ کے بیان کردہ کچھ مباحث سے بھی علمی استفادہ کریں گے اور ائمۂ سلف و مابعد کے ائمۂ علم کے بھی کچھ اقوال اور نصوص لے کر آئیں گے۔

اس بات کے دلائل کہ صحابہ کی اتباع لازم ہے

وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبۃ: 100)

”سابقون اولون از مہاجرین و انصار، اور وہ لوگ جنہوں نے ان کی اتباع کی بھلائی کے ساتھ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اور اُس نے تیار کر رکھی ہیں ان کیلئے جنتیں جن کے تلے نہریں بہتی ہوں گی، ہمیشہ رہیں وہ ان میں تاابد۔ یہ ہے عظیم کامیابی“۔

وجہِ دلالت: آیت کے اندر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو قابل ستائش ٹھہرایا ہے جو مہاجرین و انصار کے سابقین اولین کی اتباع اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: والذین اتبعوہم باِحسان۔

چنانچہ صحابہ (السابقون الاولون من المہاجرین والأنصار) اگر کوئی قول کہیں، تو اُس قول کی صحت (دلیل) جاننے سے پہلے اس میں ان کی اتباع کرنے والا شخص ہی السابقون الاولون من المہاجرین والأنصار کا متبع کہلائے گا اور وہ لازماً اِس پر قابل ستائش ہوگا اور اللہ کی خوشنودی کا مستحق ٹھہرے گا (کیونکہ فرمایا: رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ)۔

صحابہ کے قول کی صحت (دلیل) جاننے سے پہلے اس قول میں ان کی اتباع کا اوپر ہم نے جو ذکر کیا، اب ہم اس کی وجہ بیان کرتے ہیں:

آیت میں والذین اتبعوہم باِحسان کے جو الفاظ آئے ہیں اِس میں ”اتباع“ سے مراد اگر ’تقلید محض‘ ہوتی، جیسا کہ ایک عامی کسی مفتی یا عالم کی تقلید کر لیتا ہے، تو لازم آتا کہ صحابہؓ کی اتباع پر خوشنودیِ خداوندی (رضی اللہ عنہم) کے مستحق تب صرف اِس امت کے عامی ہوتے!!! رہ گئے علمائے مجتہدین تو ان کیلئے تو اس صورت میں صحابہ کی ”اتباع“ جائز ہی نہ ہوتی! پس واضح ہوا کہ آیت میں مذکور ”صحابہ کی اتباع“ سے مراد کوئی ایسی چیز ہے جو عامی پر بھی لازم ہے اور عالمِ مجتہد پر بھی۔

اشکالات: اور اگر یہ کہا جائے کہ:آیت میں والذین اتبعوہم سے مراد ہے ”دلیل“ میں صحابہ کی پیروی کرنا۔ یعنی جو قول صحابہ نے اختیار کیا وہی قول اختیار کرنا، مگر (کتاب و سنت) سے کوئی دلیل ہونے کی بنیاد پر۔ یعنی ایک مسئلہ میں صحابہ کے اجتہاد اور استدلال کی صحت جان لینے کے بعد ہی اُن کے قول کو لینا۔ کیونکہ صحابہ نے وہ قول کسی اجتہاد کی بنیاد پر ہی اختیار کیا ہو گا۔ اِس اشکال کو پیش کرنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ آیت میں مذکور لفظ ”باِحسان“ (والذین اتبعوہم باِحسان) اِسی بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کی اتباع ”دلیل“ کی بنیاد پر کی جائے نہ کہ بغیر دلیل۔ کیونکہ جو شخص صحابہ کی محض تقلید کرے گا (بغیر دلیل صحابہ کی پیروی کرے گا) وہ ”متبع باِحسان“ (والذین اتبعوہم باِحسان) کے زمرے میں نہیں آئے گا۔

کیونکہ اگر صحابہ کی مطلق اتباع ہی قابل ستائش ہوتی تو ”اتباع باِحسان“ اور ”اتباع بغیر احسان“ کا فرق نہ کیا جاتا (جبکہ قرآن میں ”باِحسان“ کی شرط ذکر کر دی گئی)۔ نیز ممکن ہے آیت میں صحابہ کی اتباع سے مراد اصولِ دین کی حد تک ہی صحابہ کی اتباع ہو۔ ایک اشکال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ آیت میں ”باِحسان“ سے مراد ہے فرائض کا التزام اور محرمات سے اجتناب۔ یعنی جہاں تک تو سابقین اولین کا تعلق ہے تو ان کیلئے مطلق خوشنودیِ خداوندی ہے اگرچہ ان سے برائی کیوں نہ سرزد ہوئی ہو (”احسان“ یعنی نیکوکاری سے چاہے کسی وقت ہاتھ پیچھے کیوں نہ ہٹ گیا ہو) کیونکہ ان سابقین اولین کی بابت رسول اللہ ﷺ نے فرما دیا تھا: وما یدریک أن اللہ اطلع علی أہل بدر فقال اعملوا ما شئتم فقد غفرت لکم۔ ”تم کیا جانو کہ اللہ نے اہل بدر کے قلوب کو جھانک لیا اور ان کو فرما دیا کہ جو مرضی عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا“۔ جبکہ بعد والوں کے معاملہ میں ”باِحسان“ (یعنی پابندیِ واجبات اور اجتنابِ محرمات) کے ساتھ ہی اپنی خوشنودی کے معاملہ کو معلق ٹھہرا دیا۔ ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ آیت میں جو ستائش مذکور ہے وہ اُن سب کی اتباع پر ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ جس چیز پر اُنہوں نے اجماع کیا ہو بس اُسی میں ان کی اتباع کی جائے۔ ایک اشکال یہ ہے کہ آیت میں (والذین اتبعوہم باِحسان) کو جو قابل ستائش ٹھہرایا گیا ہے وہ اس کے واجب ہونے کی دلیل نہیں بلکہ وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کی تقلید کر لینا جائز ہے، جوکہ دلیل ہے اِس بات پر کہ ایک علم رکھنے والے شخص کی تقلید کر لینا جائز ہے جیسا کہ ایک فریق کا قول ہے، یا اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی اپنے سے اَعلم (زیادہ علم والے) کی تقلید کر لے جیسا کہ ایک دوسرے فریق کا قول ہے۔ البتہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ آیت میں صحابہ کی اتباع کے وجوب پر تو کوئی دلیل ہی نہیں۔

یہ سب اشکالات ذکر کر دینے کے بعد امام ابن قیمؒ ان میں سے ایک ایک اشکال کا جواب دیتے ہیں۔ ہم بھی یہاں ان میں سے ایک ایک اشکال اور ابن قیمؒ کا اُس پر جواب نقل کریں گے۔

اشکال: آیت میں والذین اتبعوہم سے مراد ہے ”دلیل“ میں صحابہ کی پیروی کرنا۔ یعنی جو قول صحابہ نے اختیار کیا وہی قول اختیار کرنا، مگر (کتاب و سنت) سے کوئی دلیل ہونے کی بنیاد پر۔ یعنی اجتہاد اور استدلال کے طریقے پر۔

ابن قیمؒ کا جواب: ”اتباع“ کے معنیٰ میں اِس بات کو لازم اور شرط ٹھہرانا درست نہیں کہ صحابہ نے جو ’اجتہاد‘ یا ’استدلال‘ کیا ہے پہلے اُس کی صحت معلوم کی جائے۔ یعنی صحابہ نے جو قول اختیار کیا ہے پہلے اُس کی دلیل کے صحیح ہونے کی تسلی کی جائے۔ اور یہ بات اللہ کے فضل سے متعدد پہلوؤں سے واضح ہے:

الف: ”اتباع“ کا ذکر جہاں کہیں قرآن میں آیا ہے، جیسے فاتبعونی یحببکم اللہ ”تو پھر میری اتباع کرو“ اور واتبعوہ لعلکم تہتدون ”اور اِس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ“ نیز ویتبع غیر سبیل المؤمنین ”اور وہ اتباع کرے مومنوں کے راستے کے ماسوا کی“.. وہاں ”اتباع“ اِس بات پر متوقف نہیں ہوتی کہ جس قول کی اتباع کرنا ہو اُس کے قائل کی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے خود اُس قول ہی کی صحت کی دلیل ڈھونڈی جائے۔

ب: آیت میں مذکور ”صحابہ کی اتباع“ سے مراد اگر یہ ہوتی کہ ان کے قول کی صحت پر دلیل ڈھونڈی جائے، یعنی صحابہ کی ”اتباع“ کسی مسئلہ میں اُن کے استدلال و اجتہاد کی چھان بین کر لینے کے بعد ہی کی جائے .. تو پھر آیت میں مذکور ”سابقین اولین از انصار و مہاجرین“ کے مابین اور ان کے مابعد آنے والی جملہ مخلوقات کے مابین کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔ بھئی جب دلیل پوچھ کر ہی صحابہ کی بات تسلیم کی جائے گی تو دلیل پوچھ کر تو ہر کسی کی بات ہی تسلیم کر لی جائے گی! پھر صحابہ کی خصوصیت کیسی؟ تب تو آیت میں مذکور صحابہ اور دیگر سب لوگ ایک برابر ہوگئے اور آیت میں خاص ان کی اتباع کا ذکر بے معنیٰ ہو گیا! ”دلیل“ تو بذاتِ خود واجب الاتباع ہے اور اُس کو تو جس کے بھی ہاں وہ پائی جائے اُسی سے لے لینا ضروری ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے جو شخص بھی صحیح دلیل دے دے اُس کی بات تسلیم کرلینا واجب ہے۔ ”اتباع“ سے مراد اگر یہی ہے پھر تو کائنات میں ہر شخص ’واجب الاتباع‘ ہے!!! آیت میں مذکور صحابہ کا پھر کیا اختصاص باقی رہ جاتا ہے؟!

ج: اگر یہ ضروری ہے کہ پہلے صحابہ کا استدلال ہی دیکھا جائے، تو فرض کیجئے آپ نے صحابہ کا استدلال معلوم کر لیا۔ اب یا اُس قول کے معاملہ میں صحابہ کی مخالفت جائز ہوگی یا ناجائز ہوگی۔ اگر آپ کہیں کہ ناجائز ہے تو یہی ہمارا بھی کہنا ہے کہ صحابہ کے قول کی مخالفت جائز نہیں۔ اور اگر آپ کہیں کہ صحابہ کے قول کی مخالفت جائز ہے تو آپ نے خاص اُس حکم میں صحابہ کے قول کی مخالفت کی اور ’درست استدلال‘ پائے جانے کی صورت میں ہی اُن کی اتباع کے روادار ہوئے۔ اب جس شخص کی شرط یہ ہے کہ اُس کا اپنا استدلال صحابہ کے استدلال کے موافق نکل آئے تو تب جا کر ہی وہ صحابہ کے قول کو اختیار کرے گا اُس کو صحابہ کا متبع کیونکر کہا جائے جبکہ خاص اُس حکم میں اُس نے صحابہ کے قول کے مخالف قول اختیار کر رکھا ہے؟

د: جس شخص نے صحابہ کے اختیار کردہ حکم کے معاملہ میں صحابہ کے خلاف جانا اپنے لئے روا ٹھہرا لیا ہے اُس کو صحابہ کا متبع کہا ہی نہیں جا سکتا۔ جو شخص کسی مسئلہ میں ایک مجتہد کے اختیار کردہ قول کو رد کر دے اور اس کے خلاف جانا روا کر لے اُس کے بارے میں یہ کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ اُس شخص نے اُس مجتہد کی پیروی کی ہے؟ اور اگر کسی وقت یہ کہا بھی جائے تو اُس کو مقید کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہو گا کہ وہ شخص بشرطِ صحت استدلال و اجتہاد اُس مجتہد کی پیروی کرتا ہے نہ کہ ایک مطلق معنیٰ میں۔ ( یعنی اُس کی دلیل صحیح نظر آئی تو اُس کی بات قبول ورنہ رد!)

ھ: ”اتباع“ باب ”افتعال“ سے ہے۔ ”اتباع“ میں کسی کے پیچھے چلنے اور اُس کا ضرورت مند ہونے کا ایک معنیٰ پایا جاتا ہے۔ جبکہ دو مجتہد اگر ایک سا استدلال کر رہے ہوں تو محض یہ دیکھ کر کہ اُن دونوں کا استدلال ایک سا ہے اُن میں سے کسی ایک کو دوسرے کا ”متبع“ نہیں کہا جاتا، جب تک کہ ان میں سے ایک مجتہد دوسرے کے پیچھے چلنے اور اُس کی بات کی پابندی اختیار کرنے کا باقاعدہ ایک اعتقاد نہ رکھتا ہو۔ اگر اتفاقاً آپ کا بھی وہی اجتہاد نکل آتا ہے جو ایک دوسرے شخص کا ہے یا آپ کا بھی وہی فتویٰ ہے جو ایک دوسرے شخص کا ہے، تو یہاں آپ کو اُس کا متبع نہیں کہا جائے گا۔

و: آیت کا مقصود سابقون الاولون کی ثنا کرنا ہے اور ان کی اِس سابقیت کے باعث ان کا یہ استحقاق بیان کرنا کہ بعد والوں کیلئے اب وہ ائمہ متبوعین (متبوع یعنی جس کی پیروی کی جائے) قرار پائیں۔ البتہ اگر یہ معنیٰ لیا جائے کہ نہ تو ان کے اختیار کردہ قول کی موافقت ضروری ہے اور نہ اس کی مخالفت میں ہی کوئی شرعی مانع ہے بلکہ اتباع تو ہوگی دلیل اور قیاس واجتہاد وغیرہ ہی کی، تو ان کا یہ منصب نہ رہا کہ وہ ائمہ متبوعین ہیں۔ تب وہ اِس مدح اور ثناءکے مستحق نہیں رہتے کہ بعد والے ان کی اتباع کریں۔

ذ: جہاں تک آیت میں آنے والے لفظ ”باِحسان“ کا تعلق ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اپنا ایک اجتہاد کرے، خواہ وہ اجتہاد صحابہ کے قول کے موافق پڑے یا مخالف۔ کیونکہ اگر اس کا اجتہاد صحابہ کے قول کے مخالف نکلتا ہے اور وہ اپنے اجتہاد ہی کو اختیار کرتا ہے تو وہ آیت میں مذکور لفظ ”والذین اتبعوہم“ ہی کے زمرے میں نہیں آتا، ”والذین اتبعوہم باِحسان“ کے زمرے میں آنا تو خیر بہت دور کی بات ہے۔ اپنا استدلال یا اجتہاد کر کے ایک قول کو اختیار کرنا اُس قول میں صحابہ کی اتباع کرنا کیسے ہو گیا؟ ”متبع صحابہ“ کا لفظ تو اسی شخص پر صادق آئے گا جو اعتقاد اور قول میں صحابہ ہی کی موافقت اختیار کرے۔ ہاں اِس کے ساتھ ساتھ، خدا کی خوشنودی (رضی اللہ عنہم کا استحقاق پانے کیلئے) یہ بھی ضروری ہے کہ وہ محسن (بھلائی کرنے والا) ہو یعنی فرائض کا ادا کرنے والا اور محرمات سے اجتناب کرنے والا ہو تاکہ وہ محض اِس فریب میں نہ رہے کہ وہ قول کی حد تک عین اُسی راستے پر ہے جس پر صحابہ تھے (بلکہ عمل میں بھی وہ احسان کی راہ پر ہو)۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ صحابہ کی پیروی کرنے والا صحابہ کے بارے میں جو الفاظ بولے ان میں وہ محسن (بھلائی کرنے والا) ہو (یعنی صحابہ کیلئے خوب الفاظ استعمال کرے) اور ان کی عیب جوئی نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو ضروری ٹھہرایا، اس لئے کہ اُس کو علم تھا کہ بعد ازاں ایسے لوگ آئیں گے جو صحابہ پر (معاذ اللہ) لعن طعن کریں گے۔ صحابہ کے ساتھ احسان کا یہ مفہوم سورۂ حشر میں مذکور اُس ذکرِ خیر کے ساتھ جڑ جاتا ہے جو صحابہ کیلئے بعد والوں پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ حشر میں مہاجرین اور انصار کا ذکر کر دینے کے بعد ”والذین جاؤوا من بعدہم“ کا ذکر آیا اور ان کا وہ اخص الخاص وصف بیان ہوا کہ وہ کہتے ہیں: ”اے ہمارے پروردگار! بخش دے ہم کو اور ہمارے اُن بھائیوں کو جو ایمان میں ہم سے پہلے ہوئے (سبقونا بالایمان: یہاں بھی اولین صحابہ کی سابقیت ہی کا ذکر ہوا ہے) اور نہ رہنے دے ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے خلاف کوئی کدورت“۔

ح: رہ گیا یہ کہ صحابہ کی اتباع دین کے اصول میں مخصوص سمجھی جائے اور فروع کو ان کی اتباع سے مستثنیٰ رکھا جائے، تو یہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ آیت میں صحابہ کی مطلق اتباع کا ذکر ہوا ہے۔ نیز وہ شخص جو اصولِ دین ہی میں صحابہ کا متبع ہے اس کو اگر مطلق طور پر صحابہ کا متبع مان لیا جائے تو ہم پچھلی امتوں کے اہل ایمان کے بھی متبع قرار پائیں گے (کیونکہ اصولِ دین سب آسمانی امتوں میں ایک ہی رہے ہیں)۔ تب اِس امت کے سابقین اور دیگر اہل ایمان کے مابین کوئی فرق نہ رہ جائے گا۔ جبکہ آیت میں صحابہ کی مطلق اتباع کا ذکر ہے۔ لہذا اِس اتباع کو مطلق ہی رکھا جائے گا جو اصول دین کو بھی شامل ہو گی اور فروعِ دین کو بھی۔ اگر صرف اصول میں صحابہ کی اتباع کی جائے گی تو گویا صحابہ کی مطلق امامت ہم نے تسلیم نہیں کی۔ حالانکہ صحابہ ہر معنیٰ میں ائمہ ہیں۔ اصول میں بھی وہی امام ہیں اور فروع میں بھی۔

اشکال: جہاں تک ان کا یہ کہنا ہے کہ آیت میں جو چیز قابل ستائش ٹھہرائی گئی ہے وہ ہے اُن سب کی اتباع کرنا۔

ابن قیمؒ کا جواب: ہم کہتے ہیں آیت کا اقتضاءیہ ہے کہ وہ شخص قابل ستائش ٹھہرایا جائے جو اُن میں سے ایک ایک کی اتباع کرتا ہے، اُسی طرح جس طرح آیت میں مذکور الفاظ (والسابقون الأولون اور والذین اتبعوہم) السابقون اور والذین اتبعوہم میں سے ایک ایک کیلئے خوشنودیِ خداوندی کی خوشخبری دیتے ہیں (ایک ایک کو رضی اللہ عنہم ورضواعنہ وأعدلہم جنات تجری تحتہا الأنہار کا مصداق ٹھہراتے ہیں)۔ پس جس طرح ”السابقون“ میں سے ایک ایک متبوع ٹھہرتا ہے ویسے ہی والذین اتبعوہم میں سے ایک ایک تابع ٹھہرتا ہے۔ آیت کے الفاظ اُن پر مجتمع طور پر بھی لاگو ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک ایک پر بھی۔ قاعدہ یہ ہے کہ جو احکام اسمائے عامہ کے ساتھ معلق ٹھہرائے جائیں وہ اُن اسماءکے تحت آنے والے ہر ہر فرد کے حق میں ثابت ہوتے ہیں۔ أقیموا الصلوۃ کہیں گے تو اُس میں ایک ایک نماز آئے گی۔ لقد رضی اللہ عن المؤمنین کہیں گے تو شجرۂ رضوان کے نیچے بیعت کرنے والا ایک ایک مومن اِس کا مصداق ہوگا۔ کونوا مع الصادقین سے مراد یہ نہیں ہوگی کہ جب تک تم ان سب صادقین کو اکٹھا ایک جگہ نہ دیکھو تب تک ان کی معیت اختیار کرنا تم پر لازم نہ ہوگا! ہاں البتہ وہ احکام جو ایک مجموع کے ساتھ معلق ٹھہرائے جاتے ہیں اُن کیلئے وہ الفاظ لائے جاتے ہیں جو اُس کو ایک مجموع کے طور پر ہی لیں؛ وہاں ایک ایک فرد کا وہ حکم نہ ہوگا جوکہ اُس مجموعہ کا بطورِ مجموعہ۔ مثلاً وکذلک جعلناکم امۃ وسطا ۔ اسی طرح کنتم خیرامۃ أخرجت للناس۔ اسی طرح ویتبع غیر سبیل المؤمنین۔ ہاں یہاں البتہ لفظ ” أمۃ“ اور لفظ ”سبیل المؤمنین“ کو ان میں شامل افراد پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا یعنی وکذلک جعلناکم امۃ وسطا اور کنتم خیرامۃ أخرجت للناس میں جو حکم ”امت“ کا ہے وہی حکم امت کے ایک ایک فرد کا نہ ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی درست نہ ہوگا کہ ”ویتبع غیر سبیل المؤمنین“ میں جو حکم مومنین کا (بطورِ مجموع) ہو وہی حکم ایک مومن کا ہو۔ بر خلاف لفظ ”السابقون“ کے، جو کہ ”السابقون“ میں آنے والے ایک ایک فرد پر صادق آئے گا۔ نیز آیت سب ”سابقون“ کیلئے عام ہے؛ جہاں یہ سب اکٹھے ہوں وہاں ان کے اکٹھوں کی پیروی ہو گی جہاں ان کا ایک ایک فرد پایا جائے بشرطِ امکان وہاں ان کے ایک ایک فرد کی پیروی ہو گی۔ پس یہ مجتمع ہوں تو ان کی پیروی ہو گی، افراد ہوں تو ان کی پیروی ہو گی بشرطیکہ ان کے اپنے میں سے ہی کسی دوسرے نے اس کی مخالفت نہ کی ہو۔ نیز سابقون میں سے کئی ایک نبیﷺ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ لہٰذا اگر شرط یہ ہے کہ وہ سب کے سب اکٹھے ہوں تو آیت کی رو سے ان کی پیروی درست ہوگی تو یہ شرط پوری ہونا تو ویسے ہی محال ہے۔

اشکال: ان کا یہ کہنا کہ آیت میں السابقون الاولون کی اتباع کا ذکر ہے مگر آیت میں ان کی اتباع واجب ہونے کا تو ذکر نہیں

ابن قیمؒ کا جواب: ہم کہتے ہیں آیت کا مقتضا یہ ہے کہ صحابہ کی اتباع کرنے پر آدمی اللہ کی رضا (رضی اللہ عنہم) کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جبکہ دین میں علم کے بغیر کوئی بات کر دینا حرام ہے۔ پس ثابت ہوا صحابہ کی اتباع قولِ بلا علم میں نہیں آتی۔ نیز اللہ کی رضا ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی غایت ہو ہی نہیں سکتی۔ صحابہ کی اتباع پر اگر خدا کے راضی ہو جانے کی ضمانت ملتی ہے تو پھر مزید کچھ کہہ دینے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔

نہایت واضح ہو، صحابہ کی اتباع اُس زمرے میں نہیں آتی جو علماءو مجتہدین کی تقلید کی حیثیت ہے۔ ایک مجتہد کی تقلید چھوڑ کر کسی دوسرے کی تقلید اختیار کر لینے کی ہمیشہ ہی گنجائش رہتی ہے۔ صحابہ کی اتباع بھی اگر اسی تقلید سے ملتی جلتی کوئی چیز ہوتی تو صحابہ کی اتباع کا حظ سب سے بڑھ کر امت کا عامی طبقہ پاتا اور امت کے علماءکا تو اتباعِ صحابہ میں کوئی حظ ہی نہ ہوتا! ظاہر ہے کہ یہ ایک غلط بات ہے۔ صحابہ کی اتباع سے خدا کا راضی ہونا اِس آیت سے نہایت واضح ہے۔ نیز اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ صحابہ کی اتباع خدا کو راضی کرنے کا موجب ہے تو یہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ صحابہ کی اتباع نہ کرنا خدا کو راضی کرنے کا موجب نہیں ہے۔ پس آپ کے سامنے دو چیزیں ہیں: ایک چیز خدا کو راضی کرنے کا موجب ہے اور دوسری چیز خدا کو راضی کرنے کا موجب نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ خدا کو راضی کرنا اگر واجب نہیں ہے تو پھر کیا چیز واجب ہے؟ تین ہی صورتیں ہیں: یا خدا کی رضا ہے۔ یا خدا کی ناراضی ہے۔ یا خدا کی بخشش ہے۔ خدا کی رضا آیت کے اندر بیان ہو چکی۔ رہ گئی خدا کی بخشش اور معافی تو اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اُس قصور کا تعین ہو جس پر بخشش اور معافی ہو، جوکہ کسی نص سے ہی متعین ہو سکتا ہے۔ تیسری چیز خدا کی ناراضی رہ جاتی ہے جس سے بچنا واجب ہے۔

ابن قیمؒ کے مزید دلائل:

اِس کے بعد امام ابن قیمؒ صحابہ کی اتباع پر کچھ مزید دلائل اختصار کے ساتھ لاتے ہیں۔ ہم ان کو اور بھی اختصار کے ساتھ بیان کریں گے:

1) اتَّبِعُوا مَن لاَّ يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ

”پیروی کرو ان کی جو تم سے صلہ نہ مانگیں اور جو ہوں بھی راہِ راست پر“

آیت کی رو سے واجب ہے کہ ہم ان لوگوں کی پیروی کریں جو اجر خدواندی کے سوا دنیا کے کسی صلہ کے خواستگار نہیں بشرطیکہ وہ ہدایت یافتہ ہوں۔ دنیا کے کسی شخص یا کسی گروہ کے بارے میں دعوی کے ساتھ یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ وہ ہدایت پا چکے سوائے صحابہ کے جن کے ایمان اور جن کے راہِ راست پر ہونے کی شہادت قرآن نے بھی دی ہے اور نبیﷺ نے بھی۔

2) قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کیلئے ”الذین اوتوا العلم“ کے الفاظ بولے ہیں۔ یعنی ”وہ لوگ جنہیں علم دے دیا گیا ہے“۔ یہ بات ظاہر ہے صحابہؓ کے سوا کسی کیلئے اِس قطیعت اور اِس تعین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی۔ اب وہ کونسا علم ہے جو صحابہؓ کو دے دیا گیا ہے؟ ظاہر ہے جملہ کائنات کا علم تو یہاں مقصود نہیں بلکہ شریعت کا علم ہی مقصود ہے۔

سورہ محمد میں ایک ہی مقام پر صحابہ کیلئے ”للذین اوتوا العلم“ کے لفظ بھی بولے گئے یعنی ”وہ لوگ جن کو علم دے دیا گیا“۔ پھر ”والذین اہتدوا“ کے لفظ بھی، یعنی ”وہ لوگ جو ہدایت پا گئے“۔ پھر ”زادہم ہدیً وآتاہم تقواہم“ کے لفظ بھی، یعنی ”اللہ نے ان کو اور بھی ہدایت سے نوازا اور ان کو تقویٰ نصیب فرمایا“۔ بتائیے اِس امتیاز میں صحابہ کے ساتھ کون شریک ہو سکتا ہے؟

آیت کے الفاظ یوں ہیں:

وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّى إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِندِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا أُوْلَئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءهُمْ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْواهُمْ۔

اور ان (منافقین) میں بعض تیری طرف کان لگائے رکھتے ہیں حتی کہ جب تیرے پاس سے نکلتے ہیں تو ان لوگوں سے جن کو علم دے دیا گیا ہے کہتے ہیں: ”اس نے ابھی ابھی کیا کہا تھا؟“ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ اپنے نفس کی اَھواءپر چلتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ جو ہدایت پا گئے ہیں اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا ہے اور انہیں تقویٰ نصیب فرما دیا ہے۔

سورہ محمد ہی میں ذرا آگے چل کر پھر ان لوگوں کیلئے جو رسول اللہﷺ کی معیت میں قتال کر رہے تھے راہِ راست پر رکھا جانے کی پیشین گوئی کی گئی ہے:

وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ۔ (محمد:4-5 )

سورہ عنکبوت میں ان مجاہدہ کرنے والوں کو ہدایت کے راستے دکھائے جانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے:

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا

ان آیات کو نقل کرنے کے بعد امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں: صحابہ میں سے ہر شخص جس نے اللہ کے راستے میں قتال کیا اور جہاد کیا، خواہ وہ ہاتھ کے ساتھ ہو یا زبان کے ساتھ، ان آیات کی رو سے اللہ نے اس کو ہدایت یافتہ کر رکھا تھا۔ ہر وہ شخص جس کو اللہ نے ہدایت یافتہ کر رکھا ہے وہ راہِ راست پر ہے۔ اور جو راہِ راست پر ہے اُس کی اتباع واجب ہے۔

3) صحابہ کیلئے ”الذین اوتوا العلم“ کے الفاظ سورۃ سبأ (آیت 6) میں بھی آئے ہیں۔

پھر یہی الفاظ سورۃ المجادلہ میں آئے ہیں:

يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ

”اللہ بلند کرے گا درجہ بدرجہ ان لوگوں کو جو تم میں سے ایمان لائے اور جن کو علم دیا گیا“

یہ اُسی چیز کا علم ہے جس کے ساتھ نبیﷺ مبعوث ہوئے ہیں۔ صحابہ کو اُس چیز کا علم مل جانا نصوصِ شریعت سے واضح ہے۔ وہ چیز جس کے ساتھ رسول اللہﷺ مبعوث ہوئے اُس کا علم اور فہم قطعی طور پر جب صحابہ کے پاس ہے تو صحابہ کی اتباع لازم کیوں نہ ہوگی؟

4) وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا

”اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے چنیدہ گروہ بنایاتاکہ تم ہو جاؤ گواہ سب لوگوں پر اور رسول ہو جائے گواہ تم لوگوں پر“۔

امام ابن قیمؒ کہتے ہیں: یہاں وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو سب سے برگزیدہ اور حق بات کرنے والا گروہ بنایا، یعنی امۃ وسطاً۔ اپنے اقول، افعال، اعمال، ارادات اور نیتوں میں صحابہ سب سے بڑھ کر عدل پر ہیں۔ لفظ ”وسط“ کی اصل حقیقت یہی ہے۔ اپنی اِسی صفت کے بموجب صحابہ لوگوں پر اللہ کے گواہ ہیں۔ گواہ وہی قابل قبول ہوتا ہے جو علم کے ساتھ گواہی دے۔ صحابہ انسانیت پر اللہ کے شہداءہیں تو وہ اپنی اِس صفت کے باعث کہ اللہ نے ان کو اپنے رسول پر اتاری جانے والی حقیقت کا علم اور فہم دے دیا ہے اور اس پر قائم ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے، جس کے دم سے وہ انسانیت پر خدا کی شہادت قائم کریں گے۔ اِسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ صحابہ میں اختلاف بھی ہو تو حق ان سے خارج بہرحال نہیں ہوتا۔ انسانیت پر خدا کے پیغام کے گواہ از روئے قرآن صحابہ ہوں اور حق کسی اور کے ہاں پایا جائے، یہ کیسے ہو سکتاہے؟؟؟

5) سورۂ بقرہ کی اِسی آیت کے ساتھ امام ابن قیمؒ سورہ حج کی یہ آیت لے کر آتے ہیں:

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ

”اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں جیسا اس کی راہ میں جہاد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمہیں چن لیا ہے اور نہیں کیا تم پر دین کے اندر کوئی حرج۔ اپنے باپ ابراہیم کی ملت کو اختیار کرتے ہوئے۔ اُس نے تمہارا نام مسلم (فرماں بردار) رکھا ہے پہلے بھی اور اِس میں بھی۔ تاکہ رسول تم پر گواہ ہو جائے اور تم انسانوں پر گواہ ہو جاؤ“۔

آیت میں بیان ہونے والے کچھ مطالب کی توضیح کر دینے کے بعد ابن قیم فرماتے ہیں: پھر اللہ تعالیٰ صحابہ کو خبر دیتا ہے کہ اُس نے (ان کا یہ مقام اور ان کا یہ چناؤ) اس لئے کیا کہ رسول ان پر شہادت قائم کر دے اور وہ انسانوں پر شہادت قائم کر دیں۔ پس ان کے حق میں یہ خاص شہادت اس وجہ سے ہے کہ رسول نے ان پر شہادت قائم کر دی ہے جس کے باعث اب وہ اہل ہیں کہ جملہ انسانیت پر شہادت قائم کر دیں۔ مقصود یہ کہ صحابہ اللہ کے ہاں اگر اِس منزلت پر ہیں تو پھر یہ محال ہے کہ ایک مسئلہ میں اللہ ان کے سب کے سب کو قولِ صائب سے محروم رکھے، یعنی ان میں اگر کہیں اختلاف ہو گیا ہے تو ان کے دونوں کے دونوں فریق ایک غلطی پر مبنی فتویٰ ہی دے رہے ہوں، جبکہ ان کے بعد آنے والے اُس مسئلہ کے اندر ہدایت اور حق کی راہ کو پانے کا اعزاز حاصل کر دکھائیں!!! (خدا ایسی کج فہمی سے بچا کر رکھے)

6) اسی سے متصل امام ابن قیمؒ سورہ آل عمران کی یہ آیت لے آتے ہیں:

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ

”تم وہ بہترین گروہ ہو جو انسانیت کیلئے برپا کیا گیا، کہ تم معروف کا حکم دیتے ہو، منکر سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو“۔

پھر فرماتے ہیں صحابہ کا ہر معروف کا حکم دینا اور ہر منکر سے روکنا بنص قرآن ثابت ہے۔ پس اگر ایک واقعہ ان کے زمانے میں پیش آیا ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس مسئلہ میں معروف کی نشاندہی کرنے والا گروہ صحابہؓ کے مابین نہ پایا گیا ہو۔

7) امام ابن قیمؒ مزید فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اصحابِ موسیٰؑ کا منصبِ امامت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ

”اور ہم نے ٹھہرایا ان کو ائمہ، جو راہ دکھاتے تھے ہمارے حکم سے ، جب وہ صابر ہوئے، اور تھے وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھنے والے“۔

موسی علیہ السلام کی متابعت میں اصحابِ موسیٰؑ کے صبر اور یقین کی کچھ وضاحت کرنے کے بعد امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں: یہ تو معلوم ہی ہے کہ اصحابِ محمد اس وصف میں اصحابِ موسیٰؑ کی نسبت کہیں بڑھ کر ہیں اور اولیٰ تر ہیں۔ اِن کا یقین بھی اُن سے بڑھ کر ہے اور اِن کا صبر بھی۔ بلکہ صبر و یقین میں صحابہ تاریخ انسانی کے کسی بھی گروہ سے بڑھ کر ہیں۔ پس صحابہ اِس منصب امامت میں بھی دنیا کے ہر گروہ سے بڑھ کر ہیں۔ یہ چیز بلا شک و شبہ ثابت اور ظاہر و باہر ہے، اور خود اللہ تعالیٰ کی اپنی ہی شہادت اور صحابہ کیلئے اس کی اپنی ہی ثنا اور ستائش سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں صحابہ کی یہ افضلیت رسول اللہﷺ کی اپنی شہادت سے ثابت ہے۔ پس یہ محال ہے کہ کسی مسئلہ میں جو بات حق ہے وہ صحابہ کے تو کسی ایک بھی فریق کے ہاتھ نہ آئے البتہ بعد والوں کے ہاتھ میں وہ حق آجائے! ایسا ہوتا تو معاملہ الٹ ہو جاتا، تب تو متاخرین کو ’ائمہ‘ کہلانا چاہیے تھا اور پہلے والوں کو ان کے فتاویٰ اور ان کے اقوال کی جانب رجوع کا پابند ہونا چاہیے تھا، جو کہ عقلاً بھی محال ہے اور حسی طور پر بھی۔ حق یہ ہے کہ عقل و حس سے پہلے یہ شرعاً محال ہے۔ اور توفیق دینے والا اللہ ہے۔

8) پھر ابن قیمؒ یہ آیت نقل کرتے ہیں:

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا

”اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پرودگار! بخش دے ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولادوں سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک۔ اور کر دے ہمیں متقیوں کیلئے امام“

اِس کے بعد لکھتے ہیں: قیامت تک کے متقیوں کیلئے صحابۂ کرامؓ امام ہیں۔ جس کسی کو متقی بننا ہے اس کو چاہیے صحابہ کی امامت میں چلے اور صحابہ کی اقتدا اختیار کرے۔ متقی بننا واجب ہے تو صحابہ کی امامت اور اقتدا اختیار کرنا بھی واجب ہے۔ اور صحابہ کے قول کی مخالفت کرنا صحابہ کی اقتداءکے ساتھ معارض ہے۔

مزید برآں کہتے ہیں: اگر کوئی شخص کہے کہ ہم صحابہ کی اقتداءصرف اور صرف استدلال کے معاملہ میں کریں گے اور اصولِ دین کی حد تک کریں گے، تو اس کا جواب پیچھے گزر گیا ہے اور وہ بہت کافی ہے۔

9) پھر ابن قیمؒ خیر القرون قرنی ”سب سے بہتر میرا (صحابہ والا) قرن ہے“ والی مشہور حدیث لاتے ہیں۔ پھر اس کی کچھ توضیح کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اِسی حدیث کا تقاضا ہے کہ خیر کے ہر باب میں صحابہ کے قرن ہی کو مقدم مانا جائے اور اسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جائے۔ اگر متصور کر لیا جائے کہ قولِ صواب صحابہ کے قرن میں تو کسی ایک بھی شخص یا ایک بھی فریق کے ہاتھ نہیں آ پایا البتہ بعد میں آنے والے لوگوں کا اُس پر ہاتھ جا پڑا ہے تو اِس سے یہ لازم آئے گا کہ بعد والوں کا قرن اُس پہلو سے صحابہ کے قرن سے بہتر اور فضیلت میں بڑھ کر ہے۔ ظاہر ہے جس قرن میں قولِ صواب امت کے ہاتھ لگا وہ اُس قرن سے بہتر ہو گا جس میں امت خطا پر پائی گئی! جس شخص کا خیال ہے کہ کسی ایک مسئلہ میں صحابہ کے جو قول پائے جاتے ہیں وہ سب کے سب غلط ہیں اور اُس کا اپنا قول ہی صحیح ہے اُس کا یہ خیال ہزاروں مسائل کی بابت بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی بے شمار مسائل میں یہ شخص صحابہ کے قول سے بہتر قول رکھ سکتا ہے! لہٰذا یہ افضلیت اِس کے اپنے قرن کو حاصل ہوئی نہ کہ صحابہ کے قرن کو! اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ اصل برگزیدگی علم و فضل کی برگزیدگی ہے جو کہ اِس شخص کے خیال میں صحابہ کے دور کی نسبت اِس کے اپنے دور میں پائی جانے لگی ہے! کیا محرومی سے محرومی ہے صدیقؓ، فاروقؓ، عثمانؓ، علیؓ، ابن مسعودؓ، سلمان فارسیؓ، عبادہ ابن الصامتؓ اور انہی جیسے بے حد و حساب ائمۂ علم تو کہہ رہے ہوں کہ ایک مسئلہ میں خدا کے نازل کردہ حکم کا منشا اور اقتضا فلاں اور فلاں بات ہے مگر یہ شخص سمجھے کہ نہیں حق ان سبھی کے ہاتھ نہیں آ سکا ہے، بلکہ حق وہی ہے جو کچھ بعد والوں پر منکشف ہو گیا ہے بلکہ جو خود اُس پر منکشف ہو گیا ہے! سبحانک ھٰذا بہتان عظیم۔

10) امام ابن قیمؒ مزید لکھتے ہیں: استدلال اور استنباط اور ترجیح ادلہ ایک نہایت نازک مبحث ہے۔ یہاں پر اگر اصحابِ رسول اللہ کے اقوال اور فتاویٰ مل جائیں تو اِس سے بڑھ کر کوئی مدد نہ ہو گی جو قولِ صواب اختیار کرنے میں ایک مجتہد کی ممد و معاون ہو سکے۔ اللہ کے اُن سے راضی ہونے کی سند ہمیں واضح طور پر حاصل ہے۔ امت کے سردار وہ ہیں۔ علم کے امام اور قدوہ وہ ہیں۔ رب العالمین کی تنزیل کا اور اور اُس کے نبی کی سنت کا سب سے بڑھ کر علم رکھنے والے وہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آسمان سے قرآن کو اترتے ہوئے دیکھا اور اس کی تاویل اور تفسیر ہوتی ہوئی خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ جو شخص بھی علمِ حقیقی سے کچھ حظ رکھتا ہے وہ اپنی رائے اور قیاس کو ان کے علمی ذخیروں کے آگے کوئی چیز جاننے سے بے حد اجتناب کرتا ہوا نظر آئے گا۔ ایک حقیقی عالم کو جو تسلی صحابہ کا قول مل جانے پر ہوتی ہے اُس کا ادراک وہی کر سکتا ہے۔

مزید یہ کہ صحابہ کے اپنے فہم و ذکاء، اور حق کو پانے اور سمجھنے کی بابت ان کی اپنی حرص کے علاوہ یہ بات بھی واضح رہے کہ کچھ اشیاءخاص صحابہ ہی کے حق میں پائی جاتی ہیں۔ ایک بات جو ہمیں صحابی سے مل رہی ہے بے حد امکان ہے کہ وہ بات اُس نے رسول اللہﷺ سے سن رکھی ہو۔ یا پھر کسی دیگر صحابی سے سنی ہو جس نے وہ بات نبی ﷺ سے سنی ہو۔ ضروری نہیں کہ ہر صحابی نے جتنا کچھ رسول اللہ ﷺ سے سن رکھا تھا وہ سب کا سب باقاعدہ روایت کی صورت میں ہی اُس نے بیان کیا ہو (اس کی بہت سی باتیں جو وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کے انداز میں ہم سے بیان نہیں کر رہا، وہ بھی رسول اللہ ﷺ سے ہی سنی ہوئی ہو سکتی ہیں)۔ آخر رسول اللہ ﷺ کی صحبت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر کبار صحابہؓ سے بڑھ کر کس نے کی ہو گی؟ لیکن اِن بڑے بڑے صحابہ سے کوئی بہت زیادہ احادیث مروی نہیں۔ ایسا تو نہیں کہ جتنی باتیں ان کبار صحابہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے باقاعدہ روایت کے انداز میں ہمیں بیان کر کے دیں انہوں نے بس اُتنی ہی باتیں رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوں۔ اِس امت کے صدیق (ابو بکر رضی اللہ عنہ) سے بڑھ کر بھلا کس نے نبی ﷺ کے ساتھ وقت گزارا ہو گا؟ جبکہ ابو بکرؓ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد سو کوبھی نہیں پہنچتی! یہ امت کا وہ صحابی ہے جس نے بعثت کے وقت سے نبی ﷺ کا دامن تھاما اور وفات تک نہ چھوڑا، ہر ہر وقت اور ہر ہر مرحلہ پر آپ کے ساتھ رہا۔ بلکہ یہ آپ کا وہ ساتھی ہے جو بعثت سے پہلے بھی آپ کے ساتھ ہوتا تھا! نبی ﷺ کے شب و روز کا حتی کہ آپ کے مزاج اور احوال کا ابوبکرؓ سے بڑھ کر کون علم رکھ سکتا ہے؟ علم کا ذخیرہ ابوبکرؓ سے بڑھ کر بھلا کس کے پاس پایا جا سکتا ہے؟ پھر بھی چند احادیث ہی اِس صحابی سے ہمیں باقاعدہ روایت کی صورت میں ملتی ہیں۔ ابو بکرؓ و عمرؓ اگر وہ سب کچھ باقاعدہ روایت کی صورت میں ہمیں بیان کر کے دیتے جو انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا اور دیکھا اور سمجھا اور پایا تو ان کے روایت کردہ ذخیرے ابوہریرہؓ و دیگر راوی صحابہؓ کے ذخیروں سے کہیں بڑھ جاتے۔ ایسا ہی معاملہ دیگر کبار علمائے صحابہؓ کا ہے۔ کسی آدمی کا یہ کہنا کہ صحابیؓ کے پاس اِس مسئلہ میں اگر رسول اللہ ﷺ سے سنی یا جانی ہوئی کوئی چیز ہوتی تو صحابی کو چاہیے تھا کہ وہ ’روایت‘ کی صورت میں ہی ہمیں بیان کر کے دیتا.. یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو صحابہ کی سیرت اور اطوار سے واقف ہی نہیں۔ صورت حال یہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے باقاعدہ روایت کرنے کی ایک خاص ہیبت اپنے دلوں پر محسوس کیا کرتے تھے اور اس کو ایک بے حد بڑی اور عظیم چیز جانتے۔ ان کو نہایت خوف ہوتا کہ کوئی ایک لفظ بھی ان کے اپنے پاس سے زیادہ یا کم نہ ہو جائے۔ ایسا بھی ہوتا کہ ایک چیز جو انہوں نے متعدد مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے سن رکھی ہوتی اس کو بیان کرتے، لیکن یہ صراحت کرتے ہوئے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا پھر بھی ایک خوف محسوس کرتے۔ یعنی وہ رسول اللہﷺ ہی سے سنی ہوئی ایک بات کرتے اور یہ کہنے سے بسا اوقات احتراز کرتے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ اور یہ لفظ کہے ہیں۔

اپنے اِس بیان میں امام صاحب جندب بن عبد اللہؓ سے متعلق ایک واقعہ بھی نقل کرتے ہیں: خوارج کا ایک ٹولہ صحابی رسول جندب بن عبد اللہؓ کے ہاں وارد ہوا اور ان سے کہنے لگا: ہم تمہیں کتاب اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔ جندب بن عبد اللہؓ بولے: تم؟؟؟ خوارج کہنے لگے: ہاں ہم! جندبؓ پھر بولے: تم؟؟؟ خوارج کہنے لگے: ہاں ہم! جندبؓ فرمانے لگے: اے خدا کی خبیث ترین مخلوق! کیا ہماری اتباع میں تمہیں گمراہی نظر آنے لگی ہے اور ہمارے طریقے کو چھوڑ کر کہیں تمہیں ہدایت دکھائی دینے لگی ہے؟ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔

اس کے بعد امام صاحب لکھتے ہیں: ظاہر ہے جو شخص اس بات کو درست سمجھتا ہے کہ صحابہ اپنے فتاوی میں غلط جبکہ بعد والے ان کی نسبت حق کو پانے والے ہو سکتے ہیں، یوں وہ شخص صحابہ کے اقوال کے خلاف جانے کو اپنے لئے روا جانتا ہے تو بلا شبہ اُس کو صحابہ کے طریقے کو چھوڑ کر کہیں پر ہدایت دکھائی دیتی ہے اور اپنے تئیں وہ صحابہ کو کتاب اللہ کی طرف بلانے یا صحابہ کو کتاب اللہ سمجھانے کا زعم رکھتا ہے۔ یعنی یہ شخص صحابہؓ کو قرآن پڑھا سکتا ہے! آدمی کے جاہل ہونے کیلئے یہی ایک بات کافی ہے۔



(استفادہ از: اعلام الموقعین جلد 4، فصول:

فصل: ال أدلۃ علی أن اتباع الصحابۃ واجب

فصل: اتباع الصحابۃ مجتمعین ومنفردین

فصل: اتباع أقوال الصحابۃ

فصل: أدلۃ أخریٰ علی وجوب اتباع الصحابۃ)]
 
Top