• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم کی حجیت :::

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فیض صاحب :
’ سلف سے کون لوگ مراد ہیں کیا اس کے مفہوم میں توسع جاری ہے یا صرف صحابہ کرام تک محدود ہے ؟ ‘
راسخ صاحب :
’ توسع جاری ہے ۔ ‘
فیض صاحب :
’ اگر توسع جاری ہے تو پھر شیخان ہشام و رفیق کی رائے انسب ہے۔ ‘
ابراہیم بشیر صاحب :
’ صحابہ کرام نے قرآن و حدیث کو مضبوطی سے پکڑا اور اسی کی آگے تعلیم دی ....
قرآن و حدیث ہی سلف کا شعار تھا ...اسی کی اتباع کا منہج اہل الحدیث کے پاس ہے ..سلف نے قرآن و حدیث کو کافی سمجھا .اس پر دو قول نہیں ہزار سے زیادہ اقوال ہم پیش کر سکتے ہیں .
کہ قرآن و حدیث کو کافی سمجھا جائے ...
سیدنا ابن عمر نے کتنا واضح ارشاد فرمایا امر ابی یتبع ام امر رسول اللہ ....تمام سلف نے یہی نعرہ بلند کیا کہ کتاب و سنت .اسی میں کامیابی یے ..سبیل المومنین قرآن و حدیث ہے .اصبر نفسک علی السنہ امام اوزاعی کی کتنی واضح دعوت ہے.حیث وقف القوم ..سلف قرآن و حدیث کے اوامرو نواہی کے مطابق ہی رکے تھے .
......
تابعین نے یہ نہیں کہا کہ فہم صحابہ کو لازم پکڑو .
تبع تابعین نے یہ نہیں کہا کہ فہم تابعین کو لازم پکڑو ...آخر تک ...سب نے یہی کہا کہ اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم ....وحی الہی کی پیروی ہی اس قابل ہے کہ اس کی پیروی کی جائے .یہی سلف نے کہا یے ...
فہم سلف کو بدنام کرنا اچھا نہیں واللہ باللہ تاللہ رسول اللہ دین کا فہم بھی دے کر گئے ہیں ....کون ہے جو کہے کہ قرآن و حدیث بغیر فہم کے مکمل ہوا ؟؟
اکملت لکم دینکم میں دین کے الفاظ مراد نہیں فہم بھی مراد ہے...
الحمدللہ فہم سلف کا ایک مدعی سفید بالوں کے کالا کرنے کو مستحب قرار دیتا ہے تو دوسرا فہم سلف کا مدعی فہم سلف سے ہی اس کا حرام ہونا ثابت کرتا ہے ۔
راقم جلد ہی اپنی کتاب
منہج میرے اسلاف کا
شائع کررہا یے .ان شاء اللہ .بہت حقائق سامنے آئیں گے .
بے جا شدت سننے کا موقع ملتا رہتا یے اس موقع پر ایک شیخ الحدیث کا قول نقل کرنا ضروری سمجھتا یوں کہ
ہم اس کو سلف نہیں مانتے جو قرآن و سنت کا متبع نہ ہو اور اس کی دعوت نہ دے . ‘
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ابراہیم بشیر صاحب :
’ صحابہ کرام نے قرآن و حدیث کو مضبوطی سے پکڑا اور اسی کی آگے تعلیم دی ....
قرآن و حدیث ہی سلف کا شعار تھا ...اسی کی اتباع کا منہج اہل الحدیث کے پاس ہے ..سلف نے قرآن و حدیث کو کافی سمجھا .اس پر دو قول نہیں ہزار سے زیادہ اقوال ہم پیش کر سکتے ہیں .
کہ قرآن و حدیث کو کافی سمجھا جائے ...
سیدنا ابن عمر نے کتنا واضح ارشاد فرمایا امر ابی یتبع ام امر رسول اللہ ....تمام سلف نے یہی نعرہ بلند کیا کہ کتاب و سنت .اسی میں کامیابی یے ..سبیل المومنین قرآن و حدیث ہے .اصبر نفسک علی السنہ امام اوزاعی کی کتنی واضح دعوت ہے.حیث وقف القوم ..سلف قرآن و حدیث کے اوامرو نواہی کے مطابق ہی رکے تھے .
......
تابعین نے یہ نہیں کہا کہ فہم صحابہ کو لازم پکڑو .
تبع تابعین نے یہ نہیں کہا کہ فہم تابعین کو لازم پکڑو ...آخر تک ...سب نے یہی کہا کہ اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم ....وحی الہی کی پیروی ہی اس قابل ہے کہ اس کی پیروی کی جائے .یہی سلف نے کہا یے ...
فہم سلف کو بدنام کرنا اچھا نہیں واللہ باللہ تاللہ رسول اللہ دین کا فہم بھی دے کر گئے ہیں ....کون ہے جو کہے کہ قرآن و حدیث بغیر فہم کے مکمل ہوا ؟؟
اکملت لکم دینکم میں دین کے الفاظ مراد نہیں فہم بھی مراد ہے...
الحمدللہ فہم سلف کا ایک مدعی سفید بالوں کے کالا کرنے کو مستحب قرار دیتا ہے تو دوسرا فہم سلف کا مدعی فہم سلف سے ہی اس کا حرام ہونا ثابت کرتا ہے ۔
راقم جلد ہی اپنی کتاب
منہج میرے اسلاف کا
شائع کررہا یے .ان شاء اللہ .بہت حقائق سامنے آئیں گے .
بے جا شدت سننے کا موقع ملتا رہتا یے اس موقع پر ایک شیخ الحدیث کا قول نقل کرنا ضروری سمجھتا یوں کہ
ہم اس کو سلف نہیں مانتے جو قرآن و سنت کا متبع نہ ہو اور اس کی دعوت نہ دے . ‘
اعجاز صاحب :
’ اتبعوا ما انزل... کو فہم سلف کے خلاف پیش کرنے والے کیا ہر مسئلہ میں ایک ہی موقف رکھتے ہیں؟ اگر جواب نفی میں اور یقینا نفی میں ہے تو پھر فہم سلف کو ماننے والوں کا فروعی اختلاف پیش کرنے کا کیا مقصد؟ ‘
’ شیخ البانی رحمہ اللہ اس عبارت میں کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں؟ وہی جو آپ نے فرمایا یا کچھ اور؟

والدعامة الثالثة: وهو مما تتميز به الدعوة السلفية على كل الدعوات القائمة اليوم على وجه الأرض؛ ما كان منها من الإسلام المقبول، وما كان منها ليس من الإسلام إلا اسماً، فالدعوة السلفية تتميز بهذه الدعامة الثالثة ألا وهي: أن القرآن والسنة يجب أن يفهما على منهج السلف الصالح من الصحابة والتابعين وأتباعهم، أي: القرون الثلاثة المشهود لهم بالخيرية بنصوص الأحاديث الكثيرة المعروفة، وهذا مما تكلمنا عليه بمناسبات شتى، وأتينا بالأدلة الكافية التي تجعلنا نقطع بأن كل من يريد أن يفهم الإسلام من الكتاب والسنة بدون هذه الدعامة الثالثة فسيأتي بإسلام جديد، وأكبر دليل على ذلك الفرق الإسلامية التي تزداد في كل يوم؛ والسبب في ذلك هو عدم التزامهم هذا المنهج الذي هو الكتاب والسنة وفهم السلف الصالح.لذلك نجد الآن في العالم الإسلامي طائفة ظهرت من جديد، وطلعت علينا من مصر، ثم بثت أفكارها وسمومها في كثير من بلدان العالم الإسلامي، ويدعون أنهم على الكتاب والسنة، وما أشبه دعواهم بدعوى الخوارج ؛ لأنهم أيضاً كانوا يدعون التمسك بالكتاب والسنة، ولكنهم كانوا يفسرون الكتاب والسنة على أهوائهم، ولا يلتفتون إطلاقاً إلى فهم السلف الصالح وخاصة الصحابة منهم ... ‘
’ أن سبب ضلال الفرق كلها قديماً وحديثاً هو عدم التمسك بهذه الدعامة الثالثة: أن نفهم الكتاب والسنة على منهج السلف الصالح.المعتزلة .. المرجئة .. القدرية .. الأشعرية .. الماتريدية ؛ وما في هذه الطوائف كلها من انحرافات، سببها أنهم لم يتمسكوا بما كان عليه السلف الصالح؛ لذلك قال العلماء المحققون: وكل خير في اتباع من سلف، وكل شر في ابتداع من خلف.فهذا ليس شعراً، بل هذا الكلام مأخوذ من الكتاب والسنة: وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ [النساء:115] لماذا قال: ويتبع غير سبيل المؤمنين؟ كان يستطيع ربنا أن يقول: (ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيراً) فلم قال: ويتبع غير سبيل المؤمنين؟ حتى لا يركب أحد رأسه، ولا يقول: أنا فهمت القرآن هكذا، وفهمت السنة هكذا، فيقال له: يجب أن تفهم القرآن والسنة على طريقة السلف المؤمنين الأولين السابقين.وقد أيد هذا النص من القرآن نصوص من أحاديث الرسول عليه الصلاة والسلام، كحديث الفرق، قال عليه الصلاة والسلام: (.. كلها في النار إلا واحدة، قالوا: من هي يا رسول الله؟ قال: في رواية الجماعة. وفي أخرى: ما أنا عليه وأصحابي) لماذا وصف الفرقة الناجية بأن تكون على ما كانت عليه الجماعة، وهي جماعة الرسول صلى الله عليه وسلم؟ لكي يسد الطريق على المؤولين، وعلى المتلاعبين بالنصوص. ‘
خضر حیات :
’ منکرین حدیث یا قرانیوں کا طرز استدلال بھی گاہے بگاہے سامنے آتا رہتا ہے ، فہم سلف کا انکار کرنے والے بعض علماء کرام کا طرز اسلوب اور طریقہ استدلال بعینہ وہی ہے ، جو منکرین کا سنت اور احادیث کے انکار میں ہے .
حالانکہ صحابہ کرام کا متفقہ فہم قابل عمل ہے کہ نہیں ہے ؟ مان لیں اتفاقی مسئلہ نہیں ، اختلافی ہے ، پھر بھی اس کی اتباع کو ’ غیر وحی ‘ کو ’ وحی ‘ بنانے سے تعبیر کرنا ، سوائے جسارت کے اور کچھ نہیں .
اگر فہم سلف کی بات کرنے والے مقلدین کی طرز پر جارہے ہیں ، تو فہم سلف سے ڈرنے والے علماء کرام کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ لوگوں کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں ـ
منکرین حدیث کی زبان ہم تو فہم سلف کا نام لے کر ہی بند کرتے ہیں ، اگر فہم سلف نہ ہو ، قرآن کریم اور سنت صحیحہ میں ان کا رد تو ہے ، لیکن اس طرح صدیوں سے متفق علیہ مسائل بھی ’ اختلافی مسائل ‘ بن کر رہ جائیں گے ـ
اور بالخصوص منکرین حدیث تو کرتے ہی یہ ہیں ، انہیں جب کہا جائے کہ آپ کی بات کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی قرآن کی اس آیت کا یہ معنی کشید نہیں کیا ، تو وہ کہتے ہیں ، سلف کی بات نہ کرو ، اللہ کی کتاب آسان ہے ، ہم نے اس پر غور و فکر کرکے دلائل دیے ہیں ، ان کا قرآن سے رد کرو ـ
اب ان کی اس طرح کی ’ فضولیات ‘ کا قرآن وسنت سے رد تو کیا جاسکتا ہے ، لیکن اس طرح قطعی و متفقہ مسائل بھی منا قشے و مباحثے کی نظر ہو کر اختلافی اور غیر یقینی صورت حال اختیار کرلیتے ہیں ـ ‘
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فیض صاحب :
’ ⁠⁠⁠اس معاملہ میں دو اصطلاحات کا تعین بہت اہم ہے
اول: منھج اور دوم سلف
منھج سے کیا مراد ہے؟ اس کے حدود اربعہ کا تعین کر لیا جائے
سلف صالحین سے کون لوگ مراد ہیں؟
اگر تو سلف کا مفہوم توسع جاری کا ہے جیسا کہ راسخ صاحب لکھ رہے ہیں تو پھر واقعی یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ سلف سے کس حد تک اور کتنا اختلاف کیا جا سکتا ہے کیونکہ کسی مسئلہ میں اسلاف کا باہمی اختلاف ہی فھم سلف کا حجت ہونا یا قابل اعتبار ہونے پر ایک سوال کھڑا کر رہا ہے یعنی اس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ سلف کی آراء سے اختلاف کیا جا سکتا ہے
جب بھی سلف کی فھم کا حجت ہونے میں شرعی متعین کردہ حدود کو تجاوز کیا جائے گا اور انتہا پسندی اختیار کی جائے گی جیسا کہ ہمارے بعض ساتھی فکری اعتبار سے بسااوقات ظاہریت کو اختیار کر لیتے ہیں اور بعض کے نزدیک فھم اہم ہے تو ردعمل کے طور پر ایسے ہی رویے سامنے آئیں گے جیسا کہ کل شیخین ہشام و رفیق بات کر رہے تھے یہ جوابی رویہ ہے
یہاں یہ بھی مدنظر رہے کہ سلف کا حجت ہونا، ان کے اقوال کا حجت ہونا، ان کی فہم کا حجت ہونا ان سب میں فرق کرنا لازمی ہے اور اس میں شیخ نجیب اللہ طارق حفظہ اللہ کی بات کو دوبارہ سن لیا جائے تو بہترین خلاصہ تھا کہ فہم سلف علی الاطلاق حجت نہیں ہے شرعی نصوص سے متعارض فہم کا غیر معتبر ہونا بھی اس مسئلہ کا ایک پہلو ہے۔ ‘
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
تاحال جاری ہے؟
فان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اھتدوا میں اعمال سے بڑھ کر چیز یعنی ایمان میں اصل سلف یعنی صحابہ کرام رض کی مشابہت ہدایت پانے کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے۔
قرآن اور حدیث کی ایمان کے بارے میں نصوص عام اور واضح تھیں لیکن پھر بھی صحابہ کی مشابہت کرنے کا کہنا کچھ معنی رکھتا ہے۔ یعنی کوئی شخص صرف نصوص کو دیکھ کر بھی غلطی کر سکتا ہے (چاہے جان کر جیسے منافقین اور چاہے انجانے میں جیسے قدریہ، معتزلہ، جبریہ وغیرہ)۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
تاحال جاری ہے؟
فان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اھتدوا میں اعمال سے بڑھ کر چیز یعنی ایمان میں اصل سلف یعنی صحابہ کرام رض کی مشابہت ہدایت پانے کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے۔
قرآن اور حدیث کی ایمان کے بارے میں نصوص عام اور واضح تھیں لیکن پھر بھی صحابہ کی مشابہت کرنے کا کہنا کچھ معنی رکھتا ہے۔
یعنی کوئی شخص صرف نصوص کو دیکھ کر بھی غلطی کر سکتا ہے (چاہے جان کر جیسے منافقین اور چاہے انجانے میں جیسے قدریہ، معتزلہ، جبریہ وغیرہ)۔
اگر انجانے میں ان قدریہ، معتزلہ، جبریہ وغیرہ سے نصوص کو سمجھنے میں غلطی ہوتی تو یہ فرقے "بدعتی" نہ کہلاتے-ان سے غلطی ہوئی لیکن حق ظاہر ہونے کے بعد بھی وہ جان بوجھ کر اپنے فہم پر بضد رہے - اسلئے بدعتی مشہور ہوے

نصوص کو سمجھنے کے لئے صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے فہم کو سمجھنا ضروری ہے- لیکن کوئی اس فہم کو سمجھنے کی کامل کوشش ضرور کرسکتا ہے- لیکن زمانہ گزرنے کی بنا پر غلطی کا احتمال بہرحال باقی ہے- اس بنا پر ہمارے اکثر اسلاف نے اپنے سابقہ عقائد سے رجوع بھی کیا - جب کہ کچھ اپنی ضد پر اڑ ے رہے باوجود حق ظاہر ہونے کے- یہی لوگ اصل میں گمراہ اور بدعتی فرقے قرار پاے -
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اگر انجانے میں ان قدریہ، معتزلہ، جبریہ وغیرہ سے نصوص کو سمجھنے میں غلطی ہوتی تو یہ فرقے "بدعتی" نہ کہلاتے-ان سے غلطی ہوئی لیکن حق ظاہر ہونے کے بعد بھی وہ جان بوجھ کر اپنے فہم پر بضد رہے - اسلئے بدعتی مشہور ہوے
ایسا نہیں تھا کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اور جب دلیل ان کے خلاف آ گئی تب بھی وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اس لیے بدعتی کہلائے۔ ان کے پاس دلائل تھے اور قوی دلائل تھے۔ معتزلہ کے دلائل سے تو کتب بھری ہوئی ہیں۔
اور جب کسی کے پاس اپنی بات کے لیے دلیل ہو تو آپ اسے فقط اس لیے بدعتی نہیں کہہ سکتے کہ وہ آپ کی دلیل نہیں مان رہا۔ ہو سکتا ہے وہ صحیح ہو اور آپ اپنی تمام تر موشگافیوں کے باوجود غلط ہوں۔
ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اس راستے میں صحابہ کرام رض اور تابعین کے راستے سے ہٹ گئے تھے اور اس لیے وہ بدعتی کہلائے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ایسا نہیں تھا کہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اور جب دلیل ان کے خلاف آ گئی تب بھی وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اس لیے بدعتی کہلائے۔ ان کے پاس دلائل تھے اور قوی دلائل تھے۔ معتزلہ کے دلائل سے تو کتب بھری ہوئی ہیں۔
اور جب کسی کے پاس اپنی بات کے لیے دلیل ہو تو آپ اسے فقط اس لیے بدعتی نہیں کہہ سکتے کہ وہ آپ کی دلیل نہیں مان رہا۔ ہو سکتا ہے وہ صحیح ہو اور آپ اپنی تمام تر موشگافیوں کے باوجود غلط ہوں۔
ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اس راستے میں صحابہ کرام رض اور تابعین کے راستے سے ہٹ گئے تھے اور اس لیے وہ بدعتی کہلائے۔
لیکن یہ سیچویشن (situation) جوں کی توں آج بھی موجود ہے- ہر مسلک کے پاس اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل موجود ہیں - اور ایسے دلائل کہ عام فہم آدمی حیران و پریشان رہ جائے - پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امّت کا اختلاف "رحمت" ہے؟؟ یہ کیسی رحمت ہے کہ اس اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر عام ہوتی جا رہی ہے؟؟- آج کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس کا مسلک صحابہ کرام رضوان آجمعین کے مسلک سے ہٹا ہوا ہے - ہر ایک "ناجی" ہونے کا دعوی دار ہے (اپنے اپنے دلائل کی بنیاد پر)-
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
لیکن یہ سیچویشن (situation) جوں کی توں آج بھی موجود ہے- ہر مسلک کے پاس اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل موجود ہیں - اور ایسے دلائل کہ عام فہم آدمی حیران و پریشان رہ جائے - پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امّت کا اختلاف "رحمت" ہے؟؟ یہ کیسی رحمت ہے کہ اس اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر عام ہوتی جا رہی ہے؟؟- آج کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس کا مسلک صحابہ کرام رضوان آجمعین کے مسلک سے ہٹا ہوا ہے - ہر ایک "ناجی" ہونے کا دعوی دار ہے (اپنے اپنے دلائل کی بنیاد پر)-
اگر آپ کی مراد فروعات اور فقہی اختلافات ہیں تو ان میں صحیح ہونے پر تو اللہ پاک نے نجات نہیں رکھی۔ ان میں غلط بھی جب اپنی حد تک کوشش کر لے تو وہ ثواب کا حق دار ہے اور اس پر بھی شاہد صحابہ کرام رض کا اپنا عمل ہی ہے کہ انہوں نے باوجود فقہی اختلافات کے ایک دوسرے کو دائرہ رحمت سے باہر قرار نہیں دیا۔ یعنی جو ان کے عمل پر چلے گا وہ بھی اسی طرح ان اختلافات کو برداشت کرے گا۔
اور اگر آپ کی مراد اصولی یعنی عقیدے کے اختلافات ہیں تو ان میں جو عقائد ظنیہ ہیں جیسے سماع موتی وغیرہ ان میں بھی صحابہ کرام رض کا یہی طرز رہا ہے۔
اور جو عقائد قطعیہ ہیں اور ان پر کفر اور شرک کا مدار ہے اس میں ہر شخص صحابہ کرام رض کی زندگیوں اور ان کے طریقہ کار کو سامنے رکھ سکتا ہے اور یہ بہت آسان ہے۔ مثلاً کسی ایک صحابی سے بھی یہ نہیں ملے گا کہ انہوں نے کسی جنگ میں یا مشکل میں نبی ﷺ کو یا پیران پیر کو پکارا ہو جب کہ اللہ سے مدد کی درخواست کرنا موجود ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مشکل میں ان کو نہیں پکارا جا سکتا۔

جہاں واقعی ایسی صورت ہو کہ کوئی مضبوط دلائل کی بنیاد پر کوئی غلط اعتقاد (مثلاً مسلمان کا خون حلال ہونے کا) رکھتا ہو تو وہاں اسے اسی طرح بدعتی کہا جائے گا جس طرح خوارج کو کہا گیا۔ انہیں کافر نہیں کہا گیا حالانکہ ان کے بارے میں تو صریح حدیث بھی موجود تھی۔ چنانچہ دلائل رکھنے والا شخص جب اسلاف اور صحابہ کرام رض سے اپنے عقیدے کی بنیاد ثابت نہیں کر سکے گا تو وہ بدعتی ہوگا۔
(یہاں یہ ملحوظ رہے کہ اصطلاحی بدعت اور ہے اور یہ لغوی بدعت اور۔)
 
Top