• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم کی حجیت :::

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خضر حیات :
’ منکرین حدیث یا قرانیوں کا طرز استدلال بھی گاہے بگاہے سامنے آتا رہتا ہے ، فہم سلف کا انکار کرنے والے بعض علماء کرام کا طرز اسلوب اور طریقہ استدلال بعینہ وہی ہے ، جو منکرین کا سنت اور احادیث کے انکار میں ہے .
حالانکہ صحابہ کرام کا متفقہ فہم قابل عمل ہے کہ نہیں ہے ؟ مان لیں اتفاقی مسئلہ نہیں ، اختلافی ہے ، پھر بھی اس کی اتباع کو ’ غیر وحی ‘ کو ’ وحی ‘ بنانے سے تعبیر کرنا ، سوائے جسارت کے اور کچھ نہیں .
اگر فہم سلف کی بات کرنے والے مقلدین کی طرز پر جارہے ہیں ، تو فہم سلف سے ڈرنے والے علماء کرام کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ لوگوں کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں ـ
منکرین حدیث کی زبان ہم تو فہم سلف کا نام لے کر ہی بند کرتے ہیں ، اگر فہم سلف نہ ہو ، قرآن کریم اور سنت صحیحہ میں ان کا رد تو ہے ، لیکن اس طرح صدیوں سے متفق علیہ مسائل بھی ’ اختلافی مسائل ‘ بن کر رہ جائیں گے ـ
اور بالخصوص منکرین حدیث تو کرتے ہی یہ ہیں ، انہیں جب کہا جائے کہ آپ کی بات کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ سلف صالحین میں سے کسی نے بھی قرآن کی اس آیت کا یہ معنی کشید نہیں کیا ، تو وہ کہتے ہیں ، سلف کی بات نہ کرو ، اللہ کی کتاب آسان ہے ، ہم نے اس پر غور و فکر کرکے دلائل دیے ہیں ، ان کا قرآن سے رد کرو ـ
اب ان کی اس طرح کی ’ فضولیات ‘ کا قرآن وسنت سے رد تو کیا جاسکتا ہے ، لیکن اس طرح قطعی و متفقہ مسائل بھی منا قشے و مباحثے کی نظر ہو کر اختلافی اور غیر یقینی صورت حال اختیار کرلیتے ہیں ـ ‘
رفیق صاحب :
’ منكرين حدیث یا قادیانیوں کا طرز استدلال فہم سلف کی حجیت کا انکار کرنے والوں کے طرز استدلال سے بہت مختلف ہے۔ بلکہ بعد المشرقین ہے۔
انکی گمراہی کا اصل سبب کتاب وسنت کی مخالفت ہے۔ اور صرف انہی کی نہیں بلکہ دنیا میں اول تا امروز جتنے بھی فرق ضالہ معرض وجود میں آئے ہیں انکے پیدا ہونے کا سبب وحی الہی کی مخالفت ہے اور کچھ نہیں! اور انکی ترویج کا سبب آباء پرستی یا اکابر پرستی ہے۔
منکرین حدیث ہوں یا قادیانی آپ انہیں سلف کے اقوال سے جواب دیتے ہونگے لیکن ہم انہیں قرآن کی آیات سے جواب دیتے ہیں بحمد اللہ تعالى وتوفیقہ ۔
منکرین حدیث اپنے موقف پر قرآن سے دلیل پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں قرآن کی وہی آیت انکے موقف کا رد کر رہی ہوتی ہے ۔ لیکن اسی آیت سے انکے موقف کا رد کرنا اور انہیں لا جواب کرنا تبھی ممکن ہے جب وحی الہی کی اہمیت سینہ میں موجود ہو۔ اور اللہ کے فرمان لا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید پر یقین کامل ہو۔
اس ضمن میں منکرین حدیث سے میرے مناظرے سنے جاسکتے کہ کیسے بطور دلیل انہی کی پیش کردہ آیت سے انکے موقف کا رد ہوتا ہے۔ یہ مناظرے دین خالص ویب پر موجود ہیں۔
ان کی اس طرح کی 'فضولیات' کا رد قرآن وسنت سے کیا جاسکتا ہے۔ اور کیا جاتا ہے بحمد اللہ تعالى۔ ‘
’ آپکا یہ کہنا کہ اس طرح قطعی مسائل بھی اختلاف کا شکار ہو جائیں گے نص قرآنی کے خلاف ہے۔
کیونکہ قرآن تو اختلاف کو ردوہ الی اللہ والرسول کے ذریعہ ختم کرتا ہے۔ اور آپ سمجھ رہے ہیں کہ صرف قرآن وحدیث سے استدلال کرنے سے اختلاف پیدا ہونگے .... یا للعجب ! ‘
ابراہیم بشیر صاحب :
’ سو فیصد اتفاق ہے اور فہم سلف کے داعی مرزا قادیانی کی مثال دیتے ہیں !!! ‘
’تمام سلف نے اتباع کتاب و سنت کا درس دیا وہ سب کچھ نظر نہیں آتا ...اور نہ ہی وہ اقوال پیش کیے جاتے ہیں ۔ ‘
اظہار الحق صاحب :
’ فھم سلف سے کیا مراد ہے ؟
سلف سے کون مراد ہوں گے کون نہیں ؟
پھر فھم کو کس معیار پر پرکھا جائے گا ؟
یا ہر فھم کو قبولیت کا درجہ عطا کیا جائے گا
ان چیزوں کی وضاحت ضروری ہے
وگرنہ تو ہر فرقہ کے سلف بھی موجود ہیں ہر کوئی اپنے اپنے سلف کے فھم کو لیکر فھم سلف کی گردان کرتا پھرے گا ۔‘
قمر صاحب :
’عجیب خلط مبحث ہے۔کیا کتاب و سنت کو فہم سلف کی روشنی میں سمجھنا اتباع کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ ‘
’ عجیب اور عجیب!چونکہ کتاب و سنت سے سب کا رد ہو سکتا ہے اس لیے فہم سلف کو ڈال دو کہیں۔ ‘
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
فراز صاحب :
’ كاش همارے معزز مشايخ نقطه خلاف پر اپنے رسائل بھیجیں ۔ ‘
’ شیوخ کرام کیا اس بات پر آپ متفق ہیں؟!
قال الإمام الشافعي:
«هم فوقنا في كل علم وعقل، ودين وفضل، وكل سبب ينال به علم أو يدرك به هدى، ورأيهم لنا خير من رأينا لأنفسنا»
مجموع الفتاوى (41/158). ‘
’ قال شيخ الإسلام ابن تيمية عن الصحابة الكرام:
«فهم أكمل الناس عقلا، وأعدلهم قياسا، وأصوبهم رأيا، وأسدهم كلاما، وأصحهم نظرا، وأهداهم استدلالا، وأقواهم جدالا، وأتمهم فراسة، وأصدقهم إلهاما، وأحدهم بصرا ومكاشفة، وأصوبهم سمعا، ومخاطبة، وأعظمهم وأحسنهم وَجْدا وذوقا»
نقض المنطق (ص 8).
كيا يہ کلام درست ہے یا مشایخ؟! ‘
ہشام صاحب :
’ فہم سلف کی حجیت کی گردان سے تقلید کے سارے سوتے پھوٹے ہیں ۔ ۔ یہ بھی عحب بات ہے صرف قرآن حدیث سے گمراہ ہوا جا سکتا۔ ۔ ۔اللہ کی قسم قرآن و حدیث کو ماننے والا دنیا میں ایک گمراہ دکھلا دی جئے چیلنج ہے۔ ۔ ۔قرآن حدیث والا تو قرآن حدیث کی مانتا ہے جہاں قال اللہ قال الرسول آنکھیں ۔ ۔ البتہ دنیا کا ہر گمراہ اپنے اپنے سلف یا بعض السلف کے اقوال کی ہی وجہ سے ہے ۔ ۔یا وہ وحی کا منکر ہوتا حدیث کا انکار کرنے والا ہوتا۔ ۔ یا اسنے حدیث کی تشریح کے لیے اپنا ایک سلف کا بت تراشا ہوتا ۔ ۔ ۔کاش اس بات پر غو کر لیا جائے دنیا میں آج جتنے باطل فرقے موجود ہیں سب کی بنیاد قرآن حدیث کی تشریح میں انکے اپنے اپنے سلف نہیں ۔ ۔ اب اگر ہم نے بھی ہی دعوت دینی ہے ۔ ۔ تو ہر کسی سے حساب کتاب تو اللہ ہی نے لینا ہے پورے قرآن حدیث میں وحی الہی کے علاوہ کسی اور کی پیروی کا حکم نہیں ۔ ۔اور اختلاف میں تر ہو گی ہی وحی کی پیروی۔ ۔ابھی تک ایک بھی مسئلہ فہم سلف والوں نے پیش نہیں کیا جس سے ثابت ہو کہ سلف کی وجہ سے دین مکمل ہوا یا وہ شارع ہیں ۔ ۔ قرآن حدیث میں نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔گمراہی کی بنیاد ہی اپنے اپنے اکابرین کے اقوال کی روشنی میں قرآن و حدیث کی تشریح کرنا ہے ۔ ۔ بریلیوں شیعوں پر فہم سلف والوں کا اعتراض بالکل ہی لغو ہے۔ ‘
فراز صاحب :
’ عجیب ترین باتیں لکھ رہے ہیں مشايخ والله! ‘
ہشام صاحب :
’ اس کی وجہ آڈیو میں یہ کہنا کہ اتبعوا ما انزل الیکم کی دلیل والوں کی عقل پر ماتم ہے۔ ‘
فراز صاحب :
’هم صحابہ کی فہم کی طرف لے جارہے ہیں جو سب کے ہیں اور آپ مثال دے رہے ہیں بریلویوں اور شيعوں نے اپنے اپنے اکابرین کی فہم کو مانا!! ‘
ہشام صاحب :
’فہم سلف سے مراد صحابہ پہلے صرق اس نکتہ پر اتفاق کر لیں پھر بات ہو جائے گی فہم سلف والوں کا سلسلہ مستقل ہے ‘
فراز صاحب :
’ شیخنا الكريم!
شايد بالمثال يتضح المقال كى طرف آيا جائے۔ ‘
ہشام صاحب :
’یہ کام جب ایک دفعہ جب شروع ہوتا ہے ، چل سو چل ابن تیمیہ اور دور حاضر تک چلتا ہے پھر۔ ‘
فراز صاحب :
’ دونوں اطلاقات هيں۔كچھ نے اسے صحابہ سے خاص كيا ہے اور كچھ نے خير القرون كو بھی شامل كيا ہے۔ ‘
ہشام صاحب :
’خیر القرون والا کوئی چکر ہی نہیں جب ایک امتی حجت تو دوسرا بھی ساری گمراہی کی جڑ امتی کی تقلید کی طرف بلانا ہے ۔ ‘
’ اگر صحابی حجت ہیں تو تابعی کیوں نہیں تابعی ہیں تو ابو حنیفہ امام مالک شافعی کیوں نہیں شیعوں نے بھی روایات صحابہ تک پہنچائی ہوئی ہیں اور بریلویوں نے بھی مطالعہ کر لیں۔ ‘
’ سلف کی حجیت کی بنیاد پر ہی تقلید ہوتی اور کس بنیاد پر ہوتی ہے۔ ‘
فراز صاحب :
’ يعنى آپ بعض شيوخ كى بات كا يہ مطلب سمجهے ہیں کے بس اپنی بات نا کرو بلكہ کسی بھی اپنے سے پہلے والے کی بات پر عمل كرلو تو تم سلفى هو اور زندہ باد ؟!؟! ‘
’ إنا للہ و إنا الیہ رجعون ‘
ہشام صاحب :
’سلف کی فہم کو حجت ماننے کے دلائل عنایت فرما دیں آپکا موقف ان احباب سے 45 ڈگری فرق ہے اس لیے آپ مثال سے واضح فرمائیں کہ فہم امتی اس لیے حجت ہے کہ اسکی فہم نے دین میں یہ مسئلہ حل کیا ہے۔ ‘
’ دنیا کا کوئی بندہ کسی دوسرے کے سلف کا پابند نہیں ۔ ۔ہر ایک گمراہ نے اپنا سلف گھڑ کر اسکی طرف اپنی مرضی کے اقوال منسوب کیے ہوئے ہیں۔ ۔اس لیے اسی بات سے مسلک پھیلاوکہ قرآن حدیث کی طرف آو ۔ کسی ایگ گمراہ کو ایسے راو راست پر لائیے کہ اپنا سلف بیچو ہمارا تھا مو۔ ۔کوئی نہیں چھوڑے گا۔ ‘
’ایو حنیفہ خیر القرون سے باہر ہیں؟ ‘
’ ہر گمراہ کا ایک آدھا اکابر خیر القرون میں موجود ہوتا ہے ، یاد رکھنا ‘
فراز صاحب :
’ قال الإمام البخاري -رحمه الله- في "صحيحه":
بابُ مَا كَانَ السَّلَفُ يَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِهِمْ وَأَسْفَارِهِمْ مِنَ الطَّعَامِ وَاللَّحْمِ وَغَيْرِهِ
وَقالَتْ عَائِشَةُ وَأَسْمَاءُ: صَنَعْنَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ سُفْرَةً.
5423- حدَّثنا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَىَ: حدَّثنا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قالَ:
قُلْتُ لِعَائِشَةَ: أَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُؤكَلَ لُحُومُ الأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ؟
قالَتْ: مَا فَعَلَهُ إِلَّا فِي عَامٍ جَاعَ النَّاسُ فِيهِ، فَأَرَادَ أنْ يُطْعَمَ الغَنِيُّ والفَقِيرُ ، وَإِنْ كُنَّا لَنَرْفَعُ الْكُرَاعَ، فَنَأكُلُهُ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ، قَيلَ: مَا اضْطَرَّكُمْ إِلَيْهِ؟ فَضَحِكَتْ، قالَتْ: مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأدُومٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حَتَّىَ لَحِقَ بِاللَّهِ. ‘
’ شيخنا الكريم !اپنے اپنے بڑوں کی بات کو اپنا لو کی دعوت کس اهل حديث نے دی ہے ؟!؟! ‘
’ قال الإمام البخاري -رحمه الله- في (صحيحه):
بابُ وُجُوبِ الصَّفا والمَرْوَةِ وَجُعِلَ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ.
1643- حدَّثنا أَبُو اليَمَانِ أخبَرَنا شُعَيْبٌ، عن الزُّهْرِيِّ، قالَ عُرْوَةُ:
سَأَلْتُ عائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فَقُلْتُ لَها: أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَعالَىَ: { إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِر اللّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا } فَواللَّهِ ما علىَ أَحَدٍ جُناحٌ أَنْ لا يَطُوفَ بِالصَّفا والمَرْوَةِ.
قالَتْ: بِئْسَ ما قُلْتَ يا ابْنَ أُخْتِي! إِنَّ هَذِهِ لَوْ كانَتْ كَما أَوَّلْتَها عَلَيْهِ كانَتْ: لا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ لا يَتَطَوَّفَ بِهِما، وَلَكِنَّها أُنْزِلَتْ فِي الأَنْصارِ، كانُوا قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا يُهِلُّونَ لِمَناةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي كانُوا يَعْبُدُونَها عند المُشَلَّلِ، فَكانَ مَنْ أَهَلَّ يَتَحَرَّجُ أَنْ يَطُوفَ بِالصَّفا والمَرْوَةِ، فَلَمَّا أَسْلَمُوا سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن ذَلِكَ، قالُوا: يا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطُوفَ بَيْنَ الصَّفا والمَرْوَةِ. فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعالَىَ: { إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ } الآيَةَ، قالَتْ عائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: وَقَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوافَ بَيْنَهُما، فَلَيْسَ لأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوافَ بَيْنَهُما....الخ. ‘
’ هذا هو الفهم الذي ندعو إليه للآيات والأحاديث۔
وذلك ما لم يخالف نصا.
ولم يعلم لهم مخالف من الصحابة أنفسهم -مع اشتهار القول-. ‘
شیخ مصطفی صاحب نے ایک آڈیو پیغام بھیجا ، جس میں حجیتِ فہم سلف کا موقف اختیار کیا گیا ۔
ہشام صاحب :
’ مختصر بات یہ ہے کہ فہم سلف کی بات نا ہی نبی کریم کے دور میں موجود تھی نا ہی صحابہ کے دور میں کیوں کہ اسلاف موجود ہی نہیں تھے صحابہ صرف قرآن حدیث کے مطابق زندگی گزار کر کائنات کا افضل طبقہ بن گئے ہمیں انہی کی فکر اور طرز کے مطابق زندگی گزارنی ہے کہ نص کی حاکمیت کے آگے خلیفہ راشد کا قول بھی نہیں چلتا۔ ۔ ۔ ۔یہ سلف کا ماخذ دینی کہنا بذات خود فہم صحابہ سے واضح انحراف ہے۔ ‘
’ ہمارا آپکا اختلاف حاضر بحث سے اتنا تعلق رکھتا ہی نہیں کیوں کہ آپکا موقف ہمارے والا ہے آپ باقی شیوخ کو اس بیانیہ پر لائیں کہ فہم سلف نص کے خلاف مقبول نہیں۔ ‘
’ جب اس موقف کو اختیار کیا جائے گا سب خود بخود سیدھا ہو جائے گا۔ ‘
’ متعہ قرآن کی آیت کی تفسیر سے ایک صحابی مفسر قرآن نے اخذ کیا۔ ۔ وہ اپنے سلف کے مطابق صحیح کر رہے۔ ‘
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
’ متعہ قرآن کی آیت کی تفسیر سے ایک صحابی مفسر قرآن نے اخذ کیا۔ ۔ وہ اپنے سلف کے مطابق صحیح کر رہے۔ ‘
فراز صاحب :
’ شيخ صاحب!
ان جلیل القدر صحابي کے اجتہاد کے مقابل دیگر صحابہ کا موقف جب آگیا تو حجت كا سوال تو دركنار اس پر عمل بهى جائز نهيں ہوگا ! ‘
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ہشام صاحب :
’ میرے خیال میں بحث اب اس نکتہ پر آچکی ہے کہ اصل اختلاف سامنے آگیا ہے ۔ ۔ نص اور فہم اور عمل نبی پر فہم صحابی کی فوقیت یہی بات کل سے کی جا رہی تھی کہ فہم سلف والے واضح نصوص کی بھی خلاف نص فہم لینے کے قائل ہیں۔ ‘
’ اس پر بات چلا لیں۔ ‘
’ اوپر شیخ محترم امن پوری حفظہ اللہ نے آڈیو میں فرمایا ہے کہ داڑھی کاٹنا قبضہ کے بعد حرام نہیں ہے اور حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ نے صحیح فہم اخذ کیا نص کا۔ ‘
’ کوئی فرق نہیں تقلید اور امتی کے قول کو حجت ماننے میں رتی برابر عبد اللہ بن عمر کا داڑھی کاٹنا حجت ہے اور نبی کا چھوڑنا حجت نہیں ۔ ۔ ماشاء اللہ کیا عمدہ سبق ہے۔ ‘
’ دین اس دن مکمل ہوا جس دن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے داڑھی کاٹی وگرنہ اس سے پہلے تو حرام تھی۔ ‘
’ یہی فہم سلف کا سبق ہے جسے 1300 سال سے مقلدین پڑھا رہے اور شاید کچھ نے پڑھ لیا ہے۔ ‘
’ خود عمل صحابی میں خطا کا امکان ظاہر کر کے بھی اسے حجت ماننا تقلید کے علاوہ کچھ نہیں ‘
ابو ہشام صاحب :
’ معذرت كے ساتھ شيخنا الحييب اپ ہمیشہ اپنے قول كو اہل حديث كا نمائنده قول بنا كر پیش کرتے ہیں۔
یہ مسائل قابل غور اور ہمیشہ سے زير بحث ہیں جتنا اپ نبى صلى الله عليہ وسلم كى اتباع كا جذبہ ركهتے ہیں اتنا دوسرى رائے والوں میں بهى ہے ۔‘
فراز صاحب :
’ فضيلة الشيخ هشام الهي.
يرجى التأمل في الآتي:
كلمة السلف تطلق باعتبارين:
الأول:باعتبار الزمان.
واختلف في التحديد الزماني لكلمة السلف
فمنهم من جعلها في الصحابة
ومنهم من جعلها في الصحابة والتابعين
ومنهم من جعلها في القرون الثلاثة
ومنهم من أدخل القرن الرابع
والذي يظهر من الأقوال المتقدمة: أن لفظة السلف باعتبار الزمان تطلق على القرون الثلاثة المفضلة: الصحابة والتابعين وتابعي التابعين؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم ((خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم))
لكن لابد من إضافة قيد وهذا القيد هو: موافقة الصحابة رضي الله عنهم في فهم الكتاب والسنة
ومما يشهد لهذا القيد أن الصحابة أثنى الله عليهم ورضي عنهم, ووعدهم بالجنة في غير ما آية.
الثاني: باعتبار المعتقد.
قال الشيخ محمد بن صالح العثيمين -رحمه الله - :
((هل يمكن أن تكون السلفية في وقتنا الحاضر؟
نعم يمكن. ونقول: هي سلفية عقيدة وإن لم تكن سلفية زمنا؛لأن السلف سبقوا زمنا لكن سلفية هؤلاء سلفية عقيدة بل عقيدة وعمل في الواقع, وهم بالنسبة لمن بعدهم سلف )). ‘
’ کلام من ذهب،
قال شيخ الإسلام ابن تيمية:
"والواجب على كل مسلم يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدًا رسول الله أن يكون أصل قصده توحيد الله بعبادته وحدة لا شريك له وطاعة رسوله، يدور على ذلك، ويتبعه أين وجده، ويعلم أن أفضل الخلق بعد الأنبياء هم الصحابة، فلا ينتصر لشخص انتصارا مطلقًا عامًّا إلا لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا لطائفة انتصارًا مطلقًا عامًّا إلا للصحابة رضي الله عنهم أجمعين. فإن الهدي يدور مع الرسول حيث دار، ويدور مع أصحابه دون أصحاب غيره حيث داروا، فإذا أجمعوا لم يجمعوا على خطأ قط، بخلاف أصحاب عالم من العلماء، فإنهم قد يجمعون على خطأ، بل كل ما قالوه ولم يقله غيرهم من الأمة لا يكون إلا خطأ، فإن الدين الذي بعث الله به رسوله ليست مسلما إلى عالم واحد وأصحابه، ولو كان كذلك لكان ذلك الشخص نظيرًا لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو شبيه بقول الرافضة في الإمام المعصوم.
ولابد أن يكون الصحابة والتابعون يعرفون ذلك الحق الذي بعث الله به الرسول، قبل وجود المتبوعين الذين تنسب إليهم المذاهب في الأصول والفروع، ويمتنع أن يكون هؤلاء جاءوا بحق يخالف ما جاء به الرسول، فإن كل ما خالف الرسول فهو باطل، ويمتنع أن يكون أحدهم علم من جهة الرسول ما يخالف الصحابة والتابعين لهم بإحسان، فإن أولئك لم يجتمعوا على ضلالة، فلابد أن يكون قوله- إن كان حقا- مأخوذًا عما جاء به الرسول، موجودًا فيمن قبله، وكل قول قيل في دين الإسلام، مخالف لما مضى عليه الصحابة والتابعون، لم يقله أحد منهم بل قالوا خلافه، فإنه قول باطل".
- منهاج السنة (5 /262-263) ‘
راسخ صاحب :
نے اپنی ایک کتاب ’ اصلاح کی راہیں ‘ سے کچھ صفحات نقل کیے ، جن میں فہم سلف سے تمسک کی طرف توجہ دلائی گئی ، اور اس سے دوری کو گمراہی کا ذریعہ قرار دیا ۔ جس پر شیخ مصطفی صاحب نے ان کی تائید و تحسین فرمائی ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ایک اور مجموعہ میں اس حوالے سے ہونے والی کچھ گفتگو کے چند اقتباسات ، بلا نام لیے نقل کیے جاتے ہیں :

’ وہی قرآن سب کے پاس تھا خوارج کو سمجھ میں نہیں آیا صحابی نے سمجھایا تو مان گئے. جیت تو پھر فہم سلف ہی کی ہوئی!!!! ‘
’فہم سلف سے مراد کیا ہے اور اس کی حجیت کے کیا معنی ہیں ، یہ تنقیح ضروری ہے ۔ ہر جزوی استدلال کے لیے سلف سے استشہاد لازم نہیں ، بس یہ شرط ہے کہ اجماع کے مخالف نہ ہو ۔ ‘
’ مذہب کا مجموعی مفہوم وہی معتبر ہے جو سلف سے چلا آ رہا ہے اور سلفی علما اتباع کتاب و سنت بہ فہم سلف پر اسی لیے زور دیتے ہیں ۔ بدعتی افکار کے مقابلے کے لیے سلف کا حوالہ بہت اہم ہے ۔ ‘
’یہ کہنا کہ نزولِ قرآن کے وقت کون سے سلف تھے ، عجیب بات ہے کیوں کہ زمانہ نزولِ وحی میں تو دین کی تشکیل جاری تھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بہ راہِ راست جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم سے دین سمجھتے تھے اور یہ بھی فہم ہی کا مسئلہ تھا کہ باوجود اہلِ زبان ہونے کے انھیں مراد شارع کی تعیین کی خاطر فہم نبویؐ کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا ۔ چناں چہ جب تابعین کی نسل آئے تو صحابہؓ نے خود انھیں اگلوں کے اتباع کی تلقین کی اور اس کا سبب یہی بتلایا کہ وہ علم میں عمیق تر ہیں : اعمقھا علما ۔ ظاہر ہے عمق سے مراد اطلاع نہیں ہو سکتی بل کہ فہم نصوص ہی مقصود ہے ۔ ‘
’ سلف سے مراد خیرالقرون کے اہلِ علم ہیں یعنی صحابہ و تابعین علی الاخص۔ ‘
’ خیر القرون کے اھل میں بھی اختلاف رائے موجود ہے
تو فہم کو پھر قرآن و سنت پر ہی پرکھنا ضروری ہے فردوہ الی اللہ و الرسول.. ‘
’ جی بہ صورت اختلاف ترجیح ہو گی اسی لیے مجموعی طور سے فہم کی بات کی ہے ۔ ‘
’ مصادر دین اور مصادر فہم.دین کا فرق.ہے جو اکثر اہلحدیثوں کو کن فوز کیے رکھتا ہے
اس بابت آپ کے فیم دین کا مصدر کیا ہے از شیخ حامد سے بہتر کتاب شاید ہی کوی ہو۔ ‘
’اصولی بات کو مان کر اس کی مختلف صورتوں میں طریق عمل کی بات کرنا اور چیز ہے اور اصول ہی کو رد کر دینا الگ شے ہے ..... بھئی سلف کسی ایک مولوی صاحب کا نام نہیں ہے جن کی دو باتیں آپس میں نہ مل رہی ہوں تو ہم محلے کی مسجد سے اخراج کی تحریک چلا دیتے ہیں..... یہ تو خیر القرون کے پورے پورے زمانوں میں اسلام کی راہ پر چلنے والے اولین نفوس قدسیہ ہیں جن کا مجموعی فہم لازم ہے..... اسی طرح قول صحابی کی بحث بھی فقہی تناظر رکھتی ہے جس کا صحابہ کے معیار حق ہونے کی صورت میں تعلق نہیں نکلتا۔ ‘
’ فہم سلف کا انکار نہیں.. لیکن فہم کو قبولیت بخشنے کیلئے نصوص شرعیہ کے مطابق ہونا لازمی ہے جیسے ابن عمر رضی اللہ عنہ والد ماجد کی بات کو رد کر دیا تھا۔ ‘
’ نصوص مطلقا الفاظ نہیں ہیں....یہ ہمیشہ کسی فہم کے ساتھ ہی ہوتے ہیں.اب نصوص کا وہ فہم جو عبداللہ سمجھ پایا اس کو وہ خالص نص بدون فہم قرار دے دے اور جو سلف سے منقول ہے اس کو غیر نبی کا فہم نص .... اور آسانی سے وہ رد ہو گیا. غور فرمائیں دلیل دینے اور رد کرنے کا انداز غامدی ساب کی طرف جاتا ہے بالاخر..... فان آمنوا بمثل ما امنتم بہ میں یہ بھی شامل ہے.....کہ جہاں ان کا فہم آگیا وہاں آپ اپنا قول نہیں سنا سکتے نص کو سمجھنے کے لیے۔ ‘
’ فإن آمنوا بمثل ما آمنتم بہ ❤
جو نصوص ایسی ہیں کہ فہم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا مختلف آراء و مسائل موجود ہیں
تو پھر ادھر اصل نص کی طرف ہی رجوع کریں گے شیخ محترم
جو فہم صحابی عین نص کے مطابق ہے اس میں تو دو رائے ہے ہی نہیں۔ ‘
’ عین نص کے مطابق ہے تو کسی انسان کی بات کو کیا لینا آپ نص کو ہی لیجئے
بات تو اجتہاد کی ہے آپ ایک رائے کو نص کے قریب پاتے ہیں اور دوسری دو کو دو صحابہ اب آپ ایک نئی رائے لگائیں گے .؟؟؟؟ ‘
’ صحابہ کا وحی کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہے کہ فرمائے تھے ہم عزل کرتے تھے اور قرآن نازل ہوتا تھا
معلوم ہوتا ہے کہ ان کا عمل اور فہم نزول قرآن سے بہت گہرے ربط کا حامل تھا ...
آج ایک اپنے فہم سے نئی بات نکال لے تو اس کے لئے استدلال کا طرز تو کم سے کم ان والا ہونا ضروری ہے خواہ جزئی نئی ہو لیکن اگر طرز بھی نیا نکال لائے تو اسکی بات مردود ہے۔
آج کسی سے آپ پوچھیں کہ آپ اپنے وضو کی دلیل دو اور وہ کہے کہ میں چالیس سال سے کر رہا ہوں ....آپ کہیں گے ....ہے تیری کی تو کون ہے لیکن یہاں انداز دیکھیں کہ کتنے سادہ انداز میں کہتے ہیں ہم یوں کرتے تھے ۔‘
’ یعنی جب دو اقوال آگئے ہیں تو اقرب لے لیا اور دوسرا ترک کر دیا ہے
دونوں قول خیر القرون کے اھل علم کے ہیں دونوں فہم سلف میں شامل ہیں تو پھر فہم سلف کی بات ہوئی یا نص کی ؟
یہی تو احباب کہتے ہیں کہ پھر نص کی ہی بات کی جائے نہ کہ.......
مزید وضاحت کا طالب ہوں۔ ‘
’ اگر آپ نے اجتہاد کیا تھا اور آپ اس کے اہل تھے تو یہ آپ کا فہم شمار ہو گا جس کی دلیل ایک دو نص سے نہیں بلکہ نصوص کے جمع کرنے، استدلال کے صحیح ہونے اور سلف کے اس فہم پر مہر ثبت ہونے سے مکمل ہو گی ...اور اگر آپ نے اجتہاد نہیں کیا تو فہم سلف ہی آپ کہیں گے ...
سوال یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں میں آپ متبع دلیل ہوں گے یا آپ ہی متبع دلیل ہوں گے ....اگر آپ کہیں کہ نص تو یہی کہتی ہے اور بس ..تو اس صورت آپ کے مطابق دوسرا قول نص کے مخالف ہوا حالانکہ وہ صحابی سے ثابت ہے اور اگر آپ کو معلوم ہے کہ نص کے اس قدر مشہور ہونے کے باوجود دوسرا قول بھی ہے تو گویا یہ آپ کا فہم ہے جو آپ کے اجتہاد کے مطابق اقرب الی الصواب ہو گا اور حدیث میں اجتہاد کے صواب یا غیر صواب ہونے پر اجر کا مرتب ہونا اسی کے متعلق ہے
و اللہ اعلم ‘
’ شیخنا فہم کا انہی میں محصور رہنا کس امر کی نشاندہی کرتا ہے؟ آیا ہم مجاز کلی ہیں کہ سلف کی آراء میں اختلاف کی صورت میں ہمیں ایک تیسری راے درست معلوم ہو رہی ہو جو ان سب سے الگ ہے..... اب اس کو پنانا درست ہو گا؟دلیل اور برہان فوبیا کے تحت تو یہی درست ہو گا...... اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اسی کیوں نہیں میں راز پوشیدہ ہے۔ ‘
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
رفیق صاحب :
’ منكرين حدیث یا قادیانیوں کا طرز استدلال فہم سلف کی حجیت کا انکار کرنے والوں کے طرز استدلال سے بہت مختلف ہے۔ بلکہ بعد المشرقین ہے۔
انکی گمراہی کا اصل سبب کتاب وسنت کی مخالفت ہے۔ اور صرف انہی کی نہیں بلکہ دنیا میں اول تا امروز جتنے بھی فرق ضالہ معرض وجود میں آئے ہیں انکے پیدا ہونے کا سبب وحی الہی کی مخالفت ہے اور کچھ نہیں! اور انکی ترویج کا سبب آباء پرستی یا اکابر پرستی ہے۔
منکرین حدیث ہوں یا قادیانی آپ انہیں سلف کے اقوال سے جواب دیتے ہونگے لیکن ہم انہیں قرآن کی آیات سے جواب دیتے ہیں بحمد اللہ تعالى وتوفیقہ ۔
منکرین حدیث اپنے موقف پر قرآن سے دلیل پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں قرآن کی وہی آیت انکے موقف کا رد کر رہی ہوتی ہے ۔ لیکن اسی آیت سے انکے موقف کا رد کرنا اور انہیں لا جواب کرنا تبھی ممکن ہے جب وحی الہی کی اہمیت سینہ میں موجود ہو۔ اور اللہ کے فرمان لا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید پر یقین کامل ہو۔
اس ضمن میں منکرین حدیث سے میرے مناظرے سنے جاسکتے کہ کیسے بطور دلیل انہی کی پیش کردہ آیت سے انکے موقف کا رد ہوتا ہے۔ یہ مناظرے دین خالص ویب پر موجود ہیں۔
ان کی اس طرح کی 'فضولیات' کا رد قرآن وسنت سے کیا جاسکتا ہے۔ اور کیا جاتا ہے بحمد اللہ تعالى۔ ‘
خضر حیات :
’ وہ آپ کا قرآن سے رد کرتے ہیں ، آپ ان کا قرآن سے رد کرتے ہیں ۔ نام تو دونوں قرآن مجید کا ہی لیتے ہیں ، یہ قرآن مجید صرف پہلی دفعہ ہم پر ہی تو نازل نہیں ہوا ، صحابہ کرام نے بھی تو اس کی تفسیر کی ، اور سیکھی اور سکھائی ہے ، جن آیات کے معانی و مفاہیم بیان کرنے میں انہوں نے اتفاق کیا ہے ، ہم قرآن مجید یا سنت کے اس متفقہ فہم کو کیوں بیان نہیں کرسکتے ؟
قرآن کی کسی آیت سے کسی ایک یا دو کا طرز استدلال ہے ، اور کسی آیات پر صحابہ و تابعین کا استدلال کرنے میں اتفاق ہے ، جب آپ کے جذبہ اتباع کتاب وسنت کی بنا پر آپ کا استدلال اتباع قرآن وسنت ہے ، تو ان بزرگوں کے متعلق یہی حسن ظن کیوں نہیں رکھا جاسکتا ـ
خلاصہ یہ ہے کہ رد سب ہی قرآن وسنت کی بنیاد پر کرسکتے ہیں ، لیکن جب کوئی گمراہ شخص کسی نص کا غلط فہم پیش کرے ، تو ہم اس کا درست فہم پیش کرکے بطور تائید ساتھ ان سلف کا بھی ذکر کرتے ہیں ، جنہوں نے اس سے وہی مسئلہ اخذ کیا ہے ۔
ہمارے پاس ، قرآن وسنت تو ہے ہی ، ساتھ ہمارے فہم پر سلف کی تصدیق بھی ہے ـ جو ظاہر ہے کتاب وسنت کے خالی دعوی سے بہتر ہے ۔ ‘
رفیق صاحب :
بطور تائید فہم سلف ذکر کرنے سے کسی کو اختلاف نہیں ، یہ اچھی بات ہے ۔
ہشام صاحب :
’ خضر بھائی ان باتوں سے اختلاف نہیں ۔ ۔ اختلاف اس جملہ سے ہے قول یا عمل صحابی یا امتی حجت ہے۔ ‘
’ہمارے بعض سادہ لوح حضرات ابھی تک یہ ہی نہیں سمجھ پائے ہر ایک باطل کی گمراہی کا اصل سبب غیر نبی کے اقوال اعمال کو حجت شرعی ماننا ہے۔ ۔ اور یہ بات آپ کسی بریلوی دیو بندی یا کسی بھی باطل سے کر کے دیکھ لیں ہر ایک کا واللہ طویل سلسلہ سلف موجود ہے یہ عام فہم بات ہے۔ ‘
’ہر باطل سلف رکھتا اپنا اپنا اس کی مثال میں نے کا پیش کی تھی روافض ہمارے صحابہ ہی کو نہیں مانتے انکے پاس اپنا سلف متعہ کے حق میں موجود ہے خرابی کی بنیاد ہی غیر نبی کے قول یا عمل کو حجت ماننا ہے۔ ‘
ہشام صاحب :
’ حضرت عبد اللہ بن عمر کے ذاتی اجتہاد کو حجت مانا گیا یہاں ۔ ۔جبکہ ایک لاکھ صحابہ اور نبی کے اپنے حکم کو منسوخ مانا گیا یہی وہ چور دروازہ جو ہم نے بھی اگر کھول دیا تو کوئی کسی کے سلف کا پابند ہی نہیں ہے ‘
خضر حیات :
’ شیخ اس مسئلہ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے . حضرت عبد اللہ بن عمر کی رائے کو ہم اپنے ذاتی فہم کی بنا پر رد نہیں کرتے ، بلکہ ہم دیگر صحابہ کرام کو ان کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں ،اور اختلاف کی صورت میں حکم حدیث رسول صلی اللہ لعیہ وسلم کو بناتے ہیں ۔ ‘
ہشام صاحب :
’انجام دیکھ لیں سب جھوٹ سچ بعض اسلاف کی طرف منسوب کر کے ہی دین کا حلیہ بگاڑا گیا ہے۔ ‘
خضر حیات :
’جو جھوٹ ہے ، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی منسوب ہو تو دین کا حلیہ بگڑتا ہے .. بات سچ کی ہے ، اور اس میں بھی جہاں ان کا اتفاق ہے ۔ ‘
ہشام صاحب :
’ کوئی اپنا سلف نہیں چھوڑتا شیخ محترم انکے نزدیک ثقہ سلسلہ ہمارے نزدیک ضعیف حل کیا؟ ‘
خضر حیات:
’ شیخ صاحب ! عرض کیا ، جب اختلاف ہے تو نہ کوئی سلف دوسرے پر حجت ہے ، نہ ایک سلفی دوسرے پر حجت ہے ، وہاں حکم کتاب وسنت ہی ہے ۔ ‘
ہشام صاحب :
’ جی یہی سوچ درست ہے لیکن ہوتا یہ نہیں آپ دیکھ چکے ہیں ۔ ۔ فہم سلف والے منفرد عمل صحابی کو بھی حجت مانتے ہیں چاہے اختلاف ہو ۔ ۔اسی طرح فہم سلف کی آڑھ میں ہر اختلاف کو پس پشت ڈال کر جو اپنی فکر کو عمدہ لگے پکڑ لیا نبی کا سیدھا فرمان مسترد۔ ‘
خضر حیات :
’ شیخ ! ایک اختلافی مسئلہ میں ، آپ کی کوئی رائے ہے ، میری کوئی رائے ہے ، آپ کا استدلال بھی قرآن وسنت سے ہے ، میرا بھی قرآن وسنت سے ، آپ اپنے فہم کی تائید میں اور میں اپنے فہم کی تائید میں اسلاف کے اقوال نقل کرسکتے ہیں .. اس میں کوئ تعجب والی بات نہیں ... علماء اسلام کا شروع سے اب تک یہی طریقہ کار رہا ہے۔ ‘
ہشام صاحب :
’حرف بہ حرف اتفاق ہے ، لیکن اس سے بھی امتی کا قول حجت ثابت نہیں ہوتا ‘
خضر حیات :
’ ابن رجب نے ایک کتاب لکھی ہے ، فضل علم السلف علی علم الخلف . اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ ’ علم سلف ‘ یا ’ فہم سلف ‘ کو دین میں اضافہ نہیں سمجھتے تھے ...۔ ‘
شیخ مصطفی صاحب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور اس کے علاوہ کئی ایک علماء کرام کے نام پیش کیے ، جو فہم سلف کی بات کیا کرتے تھے ، بلکہ ابن تیمیہ تو مناظرے کے وقت باقاعدہ مخالف سے پوچھا کرتے تھے ، کہ آپ نے جو استدلال کیا ہے ، اس میں آپ کا کوئی سلف ہے ؟!
ہشام صاحب :
’ اختلاف اس جملہ سے ہے دوبارہ غور کریں فہم امتی حجت ہے۔ ‘
رفیق صاحب :
’ سلف کی افضلیت میں کوئی اختلاف نہیں ۔ ‘
ہشام صاحب :
’ مقصد صرف یہ ہے فہم سلف کی اہمیت اجاگر کریں ضرور کریں لیکن غلطی کے امکان سے پاک اور حجت کہنا صحیح نہیں۔ ‘
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
فہم سلف کے متعلق اسی بحث و مباحثہ کے دوران دو تحریریں بھی مجموعات میں شیئر ہوئیں ، جن میں ایک تفصیلی اور ایک مختصر ہے ۔ دونوں پیش خدمت ہیں :
فہم سلف کی پابندی میں اہل حدیث کا منہاج فکر

از قلم ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی
استاذ الحدیث کلیۃ الشریعہ والقانون
الجامعۃ الاسلامیۃ العالمیۃ بإسلام آباد
دین کتاب وسنت کا نام ھے بس..... اس میں بعد ازاں کسی ذریعہ سے نہ کوئی اضافہ ھوسکتا ھے نہ کمی....... یہ ھمارے عقیدہ کا اصل الاصول ھے۔
اب آئیے دوسرے اصول کی طرف.... دین کا وہ فھم معتبر ھے جو خیر القرون اور بعد کے علمائے دین نے پیش کیا..... سبیل المؤمنین کی پاپندی فھم دین کے لیے ضروری ھے....... بعد والے کتاب وسنت کا کوئی مطلب اور فھم کتاب وسنت سےبراہ راست پیش کریں درست نھیں (الا کہ مسئلہ نیا ھو)..... ورنہ اپنے فھم دین کے لیے پچھلوں میں گذری مسلمہ شخصیات میں سے کسی نہ معتبر شخصیات کا حوالہ پیش کرنا پڑے گا...... 14 صدیوں میں ھمارے پاس گرانقدر ورثہ علمائے امت کا موجود ھے جو کسی ایک مخصوص امام کی تقلید سے قطع نظر ھماری مشترکہ میراث ھے.... اور اس علمی میراث سے خروج بالدلیل ھو یا بلا دلیل کسی صورت جائز نھیں الا کہ مسئلہ.ھی نیا پیش آجائے..... اگر تمام اسلاف اکابرین کا اتفاق ملے تب بھی اس سی انحراف ضلالت ھے اور اگر اختلاف بھی تب بھی سب کی رائے کو چھوڑ کر نئی رائے اختیار ان کے مجموعی طور پر ضلالت پر ھونے کی دلیل.... اب آپ کو صرف اتنا حق ھے کہ اختلافی مسائل میں دلیل کی بنیاد پر کسی رائے کو اختیار کر کے مجموعی طور پر سبیل المومنین کے اندر رھیں.... لیکن ساری آراء کو نظر انداز کرکے اپنا مستقل موقف رکھنا کسی طور پر درست نھیں۔
مزید برآں متقدمین کی رائے کی تفہیم کا حق خود سے بڑھ کر بعد والے اکابر اھل علم کو دیں۔
حالات و ظروف چونکہ مسلسل رو بہ ارتقا ھیں اس لیے نئی آراء کو نئے حالات کے تناظر میں جائز رکھیں.... لیکن اصولا نیا موقف صحیح نھیں جب تک سبیل المومنین میں کوئی بات طے چلتی آرھی ھو۔
اسلاف میں سے کسی کی متعین پابندی (یعنی تقلید شخصی) ناجائز ھے لیکن ان کی مجموعی آراء کی پابندی واجب وفرض بلکہ ھمارا بنیادی منھج وعقیدہ ھے..... سبیل المومنین سے وابستہ رھنے کے حکم کی وجہ سے۔
ھم دلائل کو دیکھتے ھیں اور کسی شخصیت سے ھمیں نہ بلا وجہ کی عداوت ھے, نہ اندھی عقیدت ومحبت..... اس لیے آزادئ فکر کے دعویداروں کو آئمہ کرام مالک ابو حنیفہ شافعی احمد وغیرہ کسی سے بلا دلیل کوئی واسطہ نہیں.... ھاں ھم احترام سب کا کرتے ھیں۔
سلف میں کسی مسئلہ میں اختلاف یا دو و زیادہ آراء کی صورت میں سلف کی مجموعی آراء میں سے دلیل کیساتھ کسی ایک کو اختیار کریں.... اسی دائرہ میں رھنا ضروری ھے..... لیکن نئی رائے قائم کرنا تب بھی جائز نھیں الا کہ حالات میں درپیش کوئی نئی ضرورت ھو۔
نص سے ھمارے براہ راست فھم. کی صورت میں مسئلہ صرف اتنا ھوتا ھے کہ ایک فھم ھمارا ھوتا ھے ایک کسی جلیل القدر امام یا صحابی تابعی کا...... تو ھم چونکہ ان کے فھم دین (یعنی سبیل المومنین) کے پابند ھیں اس لیے ان کے فھم کو خود کے فھم پر ترجیح دیتے ھیں اور ان میں سے کسی کے فھم کو اگر چھوڑتے ھیں تو کسی دوسری شخصیت کے فھم کو پیش کر کے چھوڑ سکتے ھین ورنہ نھیں۔
فی الحال تو اوپر صرف اھل علم کے ھاں اصول اجماع کے کچھ تصورات کو واضح کرنے کی کوشش کر رھا ھوں .... پھر کتب عقائد میں اھل السنہ والجماعہ کے بنیادی منھاج فکر سے بھی اس منھج استدلال کو ثابت کرونگا ان شاء اللہ ۔
کتاب وسنت اپنے مطالب وتشریحات میں محکم حالت میں ھم تک پہنچے ھیں ھے لیکن ان کی نصوص کے بعض مطالب انھوں نے سمجھائے,,, جبکہ بعض معانی ھم سمجھ رھے ھوتے ھیں.... اب نص کا صحیح مطلب ومفھوم وھی صحیح ھوگا جو انھوں نے سمجھا۔
نبی علیہ السلام کی ذاتی بات تو وحی ھے.... بات اس کی نھیں بلکہ اس کے بارے میں ھمارے فھم کی ھو رھی ھے.... جسے آپ شریعت یا نص کہتے ھیں وہ در اصل نص نھیں بلکہ اس سے آپ کا حاصل شدہ معنی ومفھوم ھوتا ھے,,, وہ مفھوم خود نص وحدیث نھین ھوتا..... یھی معاملہ نصوص کی تشریحات میں آئمہ کی تعبیرات کا ھے..... لیکن ان.کے اور ھمارے فھم میں بنیادی فرق یہ ھے کہ فھم حدیث میں ھمارے فھم پر ان کے فھم دین کو ترجیح دینی چاھیے۔
خلاصہ کلام یہ ھے کہ امت میں کسی مسئلہ میں اگر ایک یا زیادہ معتبر آراء چلے آتی ھیں تو انھیں اپنے ذاتی فھم پر ھر صورت میں ترجیح دیں تاکہ سبیل المومنین کا تسلسل قائم رھے۔
یاد رھے کہ علمائے امت کی اجماعی اور اجتماعی دونوں آراء کی پابندی لازمی ھے..... اجماعی رائے سے میری مراد علمائے اصول کی زبان مین اجماع مفرد اور اجتماعی رائے کی پابندی سے مراد اجماع مرکب ھے۔
اجماع مرکب کی اصطلاح علمائے اصول کے ھاں کسی مسئلہ میں اھل علم کی دو یا زیادہ آراء پر اتفاق واجماع سے عبارت ھے.... گویا ان دو یا زیادہ آراء میں حق محصور ھے اور ھمیں ان تمام آراء میں سے کسی ایک رائے کا بالدلیل انتخاب کا حق ھے لیکن تمام آراء کو یکسر نظر انداز کرکے مطلق نئی رائے کا انتخاب کرنا گویا تمام علمائے امت کی تغلیط کے دعوی کے مترادف ھے..... ھاں اھل علم کی دو یا زیادہ آراء کو ملا کر کسی نئے مجموعی موقف کو اختیار کرنے کی اجازت ھے...... اس بحث کیلیے مصادر اصول الفقہ المقارن کی طرف رجوع فرمائیں مثلا جامع الاصول اردو ترجمہ الوجیز فی اصول الفقہ از ڈاكٹر احمد حسن مرحوم میں مبحث اجماع کا مطالعہ کریں۔
خلاصہ بحث یہ ھے کہ زیادہ سے زیادہ یہ کوشش کی جائے کہ جو رائے نص کے قریب ترین ہے تمام آراء میں سے اس رائے کو فوقیت وترجیح دی جائے ۔لیکن کتاب وسنت سے اپنے براہ راست فہم سے بہر حال بچا جائے کیونکہ یہ انداز تجدد کی راہیں کھولتا ھے اور اسلاف علماء کے بارے میں بد ظنی کا مظنہ ھوتا ھے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کیا قرآن و حدیث کو سلف صالحین کے فہم کے بغیر سمجھا جا سکتا ہے؟

ازقلم غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
انتخاب:عمران شہزاد تارڑ
آج جب کہ ہر فرقہ اپنے مسلک و مذہب کو قرآن و سنت کے دلائل سے مزین کرنے کی تگ و دو میں سرگرم ہے، ایک عام آدمی کے لیے حق و باطل میں امتیاز کرنا خاصہ مشکل ہوا جا رہا ہے۔ قادیانی حضرات تک مختلف چینلز اور انٹرنیٹ پر بیٹھ کر لوگوں کو قرآن و سنت کے نام پر گمراہ کرنے کی مذموم سعی کر رہے ہیں۔آخر وہ کون سا طریقہ ہو جس سے ایک متلاشی حق کو یہ پتہ چلے کہ فلاں آدمی کا قرآن و سنت سے استدلال صحیح ہے اور فلاں آدمی کا غلط؟ اسلام جو کہ ایک کامل، عالمگیر و ہمہ گیر اور آفاقی دین ہے اس نے کوئی طریقہ تو بتلایا ہی ہو گا جو قرآن کریم کی ایک ہی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی حدیث سے دو بالکل متضاد عقائد و اعمال ثابت کرنے والے دو اشخاص میں سے کسی ایک کے حق اور دوسرے کے باطل ہونے کا یقینی پتا دے سکے۔ جی ہاں ! بالکل اسلام نے ایسا طریقہ ضرور بتایا ہے، لیکن افسوس کہ آج مسلمان اس سے مسلسل دور ہو رہے ہیں اور یقیناً روز بروز بڑھتے ” اسلامی فرقوں“ کے پیچھے یہی دوری کار فرما ہے۔ اگر حق کو پرکھنے کے لیے اس کسوٹی کو استعمال کیا جاتا تو بالیقین ایسی صورت حال سے مسلمانوں کو پالا نہ پڑتا۔ یہ طریقہ خود قرآن و حدیث نے بیان کیا ہے۔ کیا آپ بھی حق و باطل میں تمیز کرنے کا طریقہ جاننا چاہیں گے ؟ اگر آپ تیار ہیں تو لیجیئے وہ طریقہ سلف صالحین کا فہم ہے۔ اگر ہم تمام اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کا وہی مفہوم لینا شروع کر دیں جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین لیتے تھے۔ ان کے بارے میں خیر و بھلائی کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ یقیناً یہ لوگ اہل حق تھے صراط مستقیم پر تھے، لہٰذا اگر ہم قرآن و سنت کو ان کی طرح سمجھنے لگیں گے تو باہمی اختلافات خود بخود ختم ہو جائیں گے اور صحیح اسلام ہمیں مل جائے گا، یوں ہم بھی صراط مستقیم پر چلنے لگیں گے۔فہم سلف کی حجیت میں محدثین کرام اور ائمہ دین میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ وہ سب فہم سلف کو حجت سمجھتے تھے۔ لیکن موجودہ دور میں کچھ لوگ اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہم فقط اصلاح کی خاطر ان لوگوں کے اشکالات کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ حق سمجھنے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے ! تمام متلاشیان حق سے اپیل ہے کہ اللہ کے لیے وہ ہر قسم کے نظریاتی تعصب سے بالاتر ہو کر اس تحریر کو پڑھیں، ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔
(بقیہ یہاں ملاحظہ کرلیں ، اردو زبان میں موضوع پر ایک بہترین تحریر ہے ۔ )
 
Last edited:
Top