• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین:عظمت و عدالت کے روشن مینارے

afrozgulri

مبتدی
شمولیت
جون 23، 2019
پیغامات
32
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین : عظمت و عدالت کے روشن مینارے
تحریر : افروز عالم ذکراللہ سلفی گلری، ممبئی

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین امابعد:

تاریخ اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اہم کردار رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کی عظمت و عدالت و اہم صفات کو بیان فرمایا ہے ان سب کی عظمت و عدالت میرے اور آپ کے لکھنے کا محتاج نہیں ہے کیونکہ ان سب کی عظمت و محبوبیت کا بیان خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں کردیا"رضی اللہ عنہم " کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا،اور ائمہ سلف صالحین کے متفقہ اصول "الصحابہ کلہم عدول" صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تمام کے تمام عادل ہیں ۔

تاہم فاضل دوست شیخ ہلال احمد ہدایت اللہ سلفی مدیر مجلہ "الاتحاد" مدرسہ رحمانیہ گوونڈی ,نے ایک مضمون کی فرمائش کی ہے لہذا ایک مضمون ارسال خدمت ہے دعاؤں میں یاد رکھیں ۔
امید ہے کہ آپ کی اس کوشش وکاوش سے نئی نسل کتاب وسنت کے اولین حاملین اور انسانیت کے محسن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و بزرگی اور ان کے روشن کارناموں سے واقف ہو سکے ۔
اللہ آپ کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور آپ کی حفاظت فرمائے آمین یارب العالمین۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اسلام کی سب سے برگزیدہ شخصیات میں سے ہیں اور ان کی تعلیمات ہر دور کے لیے ہیں ان کی مثالیں ہمیشہ قابل تقلید ہیں، انہوں نے جو ایثار و قربانی کا نمونہ پیش کیا ہے وہ پوری انسانیت تک کے لئے قیامت کی صبح تک ایک ایسی مثال ہے جس پر عمل کیا جاتا رہے گا، ان سب کے بتائے ہوئے اصولوں پر آج بھی دنیا میں عمل ہوتا ہے انہوں نے محبت کا جو عملی نمونہ پیش کیا وہ اس بنا پر تھا کہ ان سبھوں کے اندر اطاعت و فرمانبرداری کے جذبات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت موجود تھا، اطاعت اور عقیدت میں اعتدال کا پہلو ہمیشہ موجود رہا، رب کے وفادار، دین کے معیار، اور انسانیت کے حقیقی اقدار، اور فلاح انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار تھے، یہی وہ مقدس گروہ ہے جس نے سب سے پہلے اپنے مضبوط کندھوں پر پیغام رسالت کا بار امانت اٹھایا،اور اسے دنیا کے کونے کونے میں پھیلایا،اور اس راہ میں برف پوش پہاڑوں،دشوار گزار گھاٹیوں اور پرخطر وادیوں کی پرواہ نہیں کی ،انہیں کی محنتوں سے اسلام کی حقانیت پوری دنیا میں پہونچی،قسم اللہ تعالیٰ کی اگر یہ جماعت نہ ہوتی تو ہم مسلمان نہ ہوتے،
یہ وہ مقدس گروہ تھا جس نے اپنے محبوب نبی کے ادنی اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کر دیا ،جان ومال ،رشتے و تعلقات سب کی قربانی دے کر اللہ تعالیٰ سے رضا و خوشنودی کی سرٹیفیکٹ حاصل کرلی،یہی وہ پاکباز طائفہ ہے جن کے سینے مشکاۃ نبوت سے براہ راست روشنی حاصل کرکے انوار رسالت سے جگمگا اٹھے،ان پاکباز نفوس کے اندر اسلام اور پیغمبر اسلام سے سچی محبت اور سنت کو زندہ کرنے کا جذبہ تھا جن کی بدولت اسلام پوری دنیا میں پہونچا، ہمارا ایمان اسی وقت معتبر ہوگا جب وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسا ہوگا ،ہماری نمازیں اور جملہ عبادات اسی وقت قبول ہوں گی جب وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی نمازیں اور جملہ عبادات ہوں اور ایسے عبادتیں کرنے والے لوگ ہوں ،اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی مطلوب ہے ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہیں ،نبی کی نصرت و اعانت،حمایت وتائید کے لیے ان کو چنا گیا،نبی نے ان ان کی ایسی تربیت کی کہ وہ انسانی شکل میں فرشتے بن گئے،بلال رضی اللہ عنہ کو "سیدنا "ہمارے سردار،اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو "من اھلنا" میرے اہل سے ہیں کہہ کر ان کو عظمت اور اہمیت دی اور سماج میں دبے کچلے لوگوں کو اٹھایا اور ایسا مقام دیا کہ وہ اعلی مقام تک رسائی حاصل کر لیے،جس راہ سے چلے وہ گل و گلزار بن گیا۔تمام شعبہ ہائے زندگی میں قدم رکھ کر اس کے اصول و ضوابط متعین کرکے مثالی کارنامہ انجام دیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قربانیوں کی وجہ سے آج قرآن اور عقیدہ توحید محفوظ ہے، ان کے اندر دین کو صحیح طور پر پہونچا نے کا اتفاق ہے کہ ان سے کوئی چوک نہیں ہوئی وہ سب کے سب صادق اور سچے تھے، انھوں نے مثالی معاشرہ قائم کیا اور اسلام کی تعلیمات پھیلا کر برائی کا سدباب کیا، وہ سب صرف ایک دور کے لیے نہیں بلکہ تمام ادوار کے لیے آئینہ اور مشعل راہ ہیں، ان کا معاشرہ حقوق انسانی اور اقلیتوں کے تحفظ، غریبوں، یتیموں، مسکینوں و کمزوروں و ضرورت وحاجت مندوں کی مدد، اور بلا تفریق مذہب و ملت سماجی و انسانی خدمات، اور نیکی و بھلائی کی بنیاد پر تھا، وہ سب باعمل مسلمان تھے اور ہمیشہ باعمل مسلمان بننے کی تلقین کرتے تھے، اللہ کے تمام احکامات قرآن کریم، احادیث نبویہ پر عمل کرکے دنیا میں امن و اخوت اور انسانیت کے کاز کو آگے بڑھایا، فروغ انسانیت میں وہ کردار ادا کیا کہ ابن الدغنہ جیسے آدمی نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ جیسا شخص نہ تو خود سے مکہ سے نکل سکتا ہے اور نہ ہی نکالا جاسکتا ہے، حقوق انسانی کی پامالی سے روک کر ظلم، لوٹ کھسوٹ، اور خوف وہراس کو ختم کرکے دنیا کے سامنے ایسی مثال قائم کی کہ ان کا آئیڈیل معاشرہ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، اس کے باوجود اگر کوئی شخص یا گروہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر انگلیاں اٹھائے یا ان پر کسی طرح کی کوتاہی کا الزام لگائے تو گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت انگلی اٹھاتا ہے،کیونکہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کو کلی طور پر اپنے قول وعمل سے پیش کیا سچ تو یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہم انہیں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ مانتے ہیں جو کچھ اپنے قول وعمل کے ذریعے پیش کیا ہےوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت سے فیض حاصل کرتے ہوئے کیا ہے،ان نفوس قدسیہ نے بلغوا عنی ولو آیۃ (صحیح البخاری:3461) کو اپنا مقصد حیات بنایا اور چاردانگ عالم میں تبلیغ دین کی، اور اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ قائم کیا،ان کی راتیں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گزرتی تھیں ،یہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحیم و شفیق تھے،اپنے نبی کی ایک سنت پر جان دیتے تھے،سماجی زندگی میں ایک دوسرے کے لیے نمونہ تھے ،ان کی معیشت زہد وتقوی اور ایمانداری سے عبارت تھی ،سیاسات میں ان کے فکر و عمل کا امتیاز یہ تھا کہ آج بھی دنیا ان کے قائم کردہ نظام کی برکتوں کو سراہتے اور یاد کرتی ہے۔انسانی تاریخ نے آج تک وہ دور نہیں دیکھا کہ خلیفہ وقت خود اپنے ماضی کے سامنے جواب دہی کے لیے کھڑا ہو اور بے باک عدل و انصاف کا سامنا کرے ۔

آج ضرورت ہے کہ ان کی تعلیمات کو تمام سماجی برائیوں کو دور کرنے اور جملہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کے اخلاق وکردار اور طریقہ کار کو عوام الناس میں پھیلائیں، اگر ہم ان کی خوبیوں کو اپنا لیں تو دنیا کی قیادت ہم سے دور نہیں ہوگی اور ظلم کا بھی سدباب ہو جائے گاکیونکہ جب روئے زمین پر اخلاق کا جنازہ نکل چکا تھا اور انسانیت ختم ہوچکی تھی تو یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں رہ کر جس راہ پر چلے سب گل و گلزار بن گئی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیمات ملک و ملت کے لیے بہت مفید ہیں جن کو اپنا کر سسکتی ہوئی انسانیت کا علاج بھی ممکن ہے.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر خیر میں ہمارے لیے اسوہ ہیں،جب ہم ان کے منہج پر گامزن رہیں گے تو راہ ہدایت پر قائم رہیں گے،جب ہم ان کے راستے کو چھوڑ دیں گے تو شیطان ہمیں بھٹکا دے گا،صحابہ کی تعلیمات تمام اختلافی مشکلات و مسائل کا واحد حل ہیں جب ان کے طریقے کی پیروی کریں گے تو ہمارے اندر اتحاد واتفاق پیدا ہوگا اور جب ان کے راستے سے دور ہو ں گے تو پستی میں جاگریں گے۔

آج ضرورت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت، ان کی عدالت، ان کے تقدس اور ان کی قربانیوں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے فضائل و مناقب کو زیادہ سے زیادہ بیان کرکے لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں کیونکہ آج کچھ لوگ مجرمانہ افکار و ذہنیت لیکر شوشل میڈیا اور تمام ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت پر شک کرتے ہیں اور اس شک کی وجہ سے وہ اسلام کی بنیاد کو منہدم و گرانے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے دین کی اس امانت کو پوری دیانت سے من وعن تابعین تک پہنچایا، جن سے اللہ تعالیٰ راضی و خوش ہوا ان کو مطعون کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لہذا ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی اور توہین کو برداشت نہ کریں، جن کی تعدیل و توثیق پر پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے.

محترم قارئین کرام: تاریخ اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اہم کردار رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ان کی عظمت و عدالت و اہم صفات کو بیان فرمایا ہے ان سب کی عظمت و محبوبیت کا بیان خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان الفاظ میں کردیا"رضی اللہ عنہم " کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے"الصحابہ کلہم عدول" صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تمام کے تمام عادل ہیں ۔

١۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِہِمْ فَأَنْزَلَ السَّکِینَۃَ عَلَیْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیبًا . (سورۃ الفتح : 18)

''اللہ تعالیٰ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کرنے والے مؤمنوں سے راضی ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے باطن کی عدالت و طہارت سے بخوبی واقف ہے، اس نے انہیں اطمینان و سکون نصیب کیااور عنقریب فتح سے ہمکنار بھی کرے گا۔''
جن سے اللہ تعالیٰ خوش ہو ان کی تنقیص کرنا کسی صورت میں ممکن نہیں، نہ اپنے دل میں ان کے تئیں شک کا خیال لایا جائے اور نہ شک و شبہ کی نظر سے ان کو دیکھا جائے.
بیعتِ رضوان میں شامل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تزکیہ کی اہم دلیل ہے:
سیدنا حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
وکنا ألفا واربع مائۃ .
''اس وقت ہم چودہ سو افراد تھے۔''(صحیح البخاري : 4154)

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت بیان کی۔ دل کی خبر صرف اللہ ہی دے سکتا اور یہ باطن کی تعدیل ہے۔ تب ہی اللہ تعالیٰ نے ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔
یہ اللہ کے ایسے دلارے بندے تھے جن کو ان کے رب نے اسی دنیا میں اپنی رضامندی کی سند عطا فرما دی اور جن کی صداقت کا اعلان بہی کیا أولئك هم الصادقون،یہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبوب جماعت تھی ،یہ عظیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم ساتھی تھے،جنہیں خیرالقرون اور خیر امت ہونے کا شرف اولین حاصل تھا ۔

علامہ ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"وَمن رَضِی اللہ عَنہُ تَعَالٰی لَا یُمکن مَوتہ علی الْکفْر لِأَن الْعبْرَۃ بالوفاۃ علی الْإِسْلَام فَلَا یَقع الرِّضَا مِنْہُ تَعَالٰی إِلَّا علی من علم مَوتہ علی الْإِسْلَام" .
'' اللہ تعالیٰ جس سے اپنی رضا کا اعلان کردے، وہ کفر پر فوت نہیں ہوسکتا۔ لہٰذااللہ کی رضا اسی کے لیے ہوگی، جو اللہ کے علم میں اسلام پر فوت ہوگا، کیوں کہ اعتبار خاتمے کا ہوتا ہے۔''(الصواعق المحرقۃ علی اہل الرفض والضلال والزندقۃ : 605/02)
مزید اس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے:
لَا یَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاء َ اللہُ، مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ أَحَدٌ، الَّذِینَ بَایَعُوا تَحْتَہَا .
'' اللہ نے چاہا تودرخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔'' (صحیح مسلم :2496)

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"فَمن أخبرنَا اللہ عز وَجل أَنہ علم مَا فِي قُلُوبہم رَضِی اللہ عَنْہُم وَأنزل السکینَۃ عَلَیْہِم فَلَا یحل لأحد التَّوَقُّف فِي أَمرہم وَلَا الشَّک فیہم الْبَتَّۃَ ".
'' اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کی خبر دی ، وہ ان سے راضی ہو ا اور ان پر تسکین نازل کی،ان کے ایمان میں ذرا برابر شک یا توقف کی گنجائش نہیں۔ '' (الفصل في الملل والاھواء والنحل: 148/04)

٢۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِي وُجُوہِہِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِي الْإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَویٰ عَلٰی سُوقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُمْ مَغْفِرَۃً وَأَجْرًا عَظِیمًا ".(سورۃ الفتح : 29)

''محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، آپ کے ساتھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انکار کرنے والوں پر انتہائی سخت (بھاری) لیکن آپس میں بے حد مہربان ورحم دل ہیں۔ آپ انہیں رکوع و سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم اور اس کی رضا و خوشنودی کے متلاشی پائیں گے۔ان کی پیشانیوں پرسجدہ کے نشان ہیں ان سجدوں کی اثر سے وہ اپنے چہرے سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ان کی مثال تورات و انجیل میں اس کھیتی کی مانند ہے، جو انکھوا نکالا، پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا اور تناور ہو گیا ۔اور کسان کو بھلی و خوش کرنے لگا ۔ اللہ تعالی نے اس کے ذریعے کافروں کو غیظ و غضب دلایا ہے۔ اور ایمان والوں اور نیکو کاروں سے مغفرت اور اجر عظیم( بھت بڑے ثواب) کا وعدہ کر رکھا ہے۔''
یہ آیت مبارکہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شامل ہے. ان کی عظمت و عدالت کے لیے یہی کافی ہے کہ امت کا اتفاق ہے کہ ایک ادنیٰ صحابی کا مقام اس قدر بلند مرتبت پر ہے کہ دنیا کا کوئی بہی انسان کسی بھی مرتبہ پر پہونچ جائے وہ کسی ایک صحابی رسول کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کی اس آیت میں اپنی رضامندی کا ثبوت دیا۔جو تمام صحابہ کرام کو شامل ہے ۔

٣۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"لِلْفُقَرَاء ِ الْمُہَاجِرِینَ الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَیَنْصُرُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ أُولئِکَ ہُمُ الصَّادِقُونَ وَالَّذِینَ تَبَوَّء ُوا الدَّارَ وَالْإِیمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِي صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ وَالَّذِینَ جَاء ُوا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالْإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَء ُوفٌ رَحِیمٌ" . (الحشر :08_10)

''مال فے ان فقرا مہاجرین صحابہ کا حق ہے، جو اپنے گھروں سے بے گھر اور بے زر کر دیا گیا۔ وہ صحابہ کرام اللہ تعالیٰ کے فضل ورضا ئے الہی کے طلبگار ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مددگار ہیں، یہی سچے اور راست باز لوگ ہیں۔ اورمال فے ان کے لئے بھی ہے، جنہوں نے ان سے قبل مدینہ کو مسکن بنایا اور ایمان کو دل میں راسخ کرلیا تھا دل میں جگہ بنالی۔ اور وہ اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے شرف و فضل اور جو کچھ ان کو دے دیا جائے اس پر دل میں حسد نہیں رکھتے،ان کا دل تنگ نہیں پڑتا ہے، اپنی ضرورت پر بلکہ خود دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔اور جو بخل سے بچایا گیا وہی فوز و فلاح، کامیاب و بامراد ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہیں ،نبی کی نصرت و اعانت،حمایت وتائید کے لیے ان کو چنا گیا،نبی نے ان ان کی ایسی تربیت کی کہ وہ انسانی شکل میں فرشتے بن گئے،جس راہ سے چلے وہ گل و گلزار بن گیا ۔

04۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ" . (التوبۃ : ١٠٠)
''ایمان میں سب سے سبقت و اولیت حاصل کرنے والے مہاجرین اور انصار اور احسان(اچھی طرح) کے ساتھ ان کی پیرو ی کرنے والوں سے اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی و خوش ہیں۔ اور اس نے ہمیشہ ہمیش ان کے لیے باغات کا تیار کررکھے ہیں ، جن کے نیچے نہریں( دریا) بھہ رہی ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔''
جب ہم طبقات صحابہ کی تقسیم کرکے دیکھیں تو اس میں مہاجرین، انصار، اور متبعین نظر آئیں گے، اور صحابی کی تعریف ان تینوں پر صادق آتی ہے، مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد بھی ایک بڑی جماعت اسلام لے آئی وہ بھی اس آیت کے ضمن میں داخل ہیں.
"رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ" کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے کہ وہ کس سے راضی ہے، اصحاب رسول کو سند رضا عطا کردی. اسلام کے علاوہ دین پر مرنے والوں اور دین سے مرتد ہونے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی و خوش نہیں، اللہ ان لوگوں سے اسی لیے راضی ہوا کیونکہ یہ وہ پاکباز لوگ تھے جنہوں نے انتہائی مشکل حالات میں اسلام کو گلے سے لگایا اور ان کی وفات بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان وصحبت میں ہوئی ،
ہر شخص جو ان صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کرے گا وہ بے اختیار تصدیق کرے گا کہ یہ وہ لوگ تھے جو اول دعوت میں ایمان لائے اور کبھی ان کے چہروں پر کڑواہٹ نظر نہ آئی ،جسم میں کوئی کلفت یا ذہن میں کوئی اذیت محسوس نہ کی ۔قال اللہ کذا وقال الرسول کذا ان کی شناخت بن گئی۔

05۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

" لَا یَسْتَوِي مِنْکُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِکَ أَعْظَمُ دَرَجَۃً مِنَ الَّذِینَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَکُلًّا وَعَدَ اللَّہُ الْحُسْنٰی وَاللَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ".
'' فتح مکہ سے قبل خرچ اور قتال کرنے والے کے برابرکوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ تو فتح مکہ کے بعد خرچ اور قتال کرنے والوں سے کہیں افضل ہیں۔ ہاں جنت کا وعدہ دونوں کیلئے ہے۔ اللہ تعالی تمہارے اعمال سے بخوبی واقف ہے۔'' (الحدید : 10)

06 ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

" لَقَدْ تَابَ اللَّہُ عَلَی النَّبِيِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِي سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیغُ قُلُوبُ فَرِیقٍ مِنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ إِنَّہُ بِہِمْ رَئُوفٌ رَحِیمٌ ". (سورۃ التوبۃ :117)

'' اللہ تعا لیٰ نے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ مہاجرین و انصار کے حال پر توجہ فرمائی جو مشکل اور تنگی کی گھڑی میں آپ کا ساتھ دیا ، قریب تھا کہ بعض دل کبیدہ خاطر ہو جاتے(ان کے دلوں میں تزلزل) ہوجاتا، مگر اللہ تعالی نے انتہائی شفقت و مہربانی سے انہیں بھی معاف فرما دیا بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق اور مہربان ہے.

احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود دلائل :

01 ۔سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، وَبَیْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ شَيْء ٌ، فَسَبَّہُ خَالِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي، فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا، مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِہِمْ، وَلَا نَصِیفَہُ .
(صحیح البخاري : 3667 و صحیح مسلم : 2541 )

'' سیدنا خالد بن ولید اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے مابین تنازع ہوا، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو نامناسب جملہ کہہ دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے کسی بھی صحابی پر طعن و تشنیع مت کریں، آپ کا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا ان کے مٹھی بھر جو خرچ کرنے کے اجر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔''
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عظمت ومقام کو ایسا بیان کیا کہ انہوں نے جو ایک چھٹانک خرچ کیا ہے ،اس انفاق کے درجے کو کوئی آدمی نہیں پہنچ سکتا ہے،یہ ایک مثال تھی آپ کی زبانی ورنہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایثار قربانی دیکہیں تو ایک کتاب تیار ہو جائے گی یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جسے پڑھا جائے اور اپنی زندگیوں سے بخل نکال کر ایثار و ہمدردی کو فروغ دیا جائے۔ اللہ ہمیں اور آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے آمین

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ محدثین رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں کہ جس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سال، ایک ماہ یا ایک دن صحبت کا شرف حاصل کیا یا صرف ایمان کی حالت میں دیدار نصیب ہوا، وہ صحابی شمار ہو گا، لیکن مقدار صحبت میں فرق ہو گا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو صحابہ کے بارے میں طعن سے منع کیا، جبکہ وہ خود بھی صحابی ہیں؟ ہمارا جواب یہ ہو گا کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سابقین اولین میں سے ہیں۔ یہ تو اس سمے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے، جب سیدنا خالد بن ولید وغیرہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاندین میں سے تھے۔ ان سابقین اولین نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور قتال کیا ہے، مگر ہر ایک سے جنت کا وعدہ ہے۔ چونکہ سیدنا عبد الرحمن بن عوف و غیرہ رضی اللہ عنہم کو شرف صحابیت کے ساتھ ساتھ ایک منفرد خوبی بھی حاصل ہے، جس میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور فتح مکہ یعنی صلح حدیبیہ کے بعد قبول اسلام اور قتال کرنے والے شریک نہیں ہیں، لہذا ان سے قبل شرف صحبت حاصل کرنے والوں پر طعن سے منع فرمادیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نہ پانے والوں کی نسبت صحبت پانے والوں کے ساتھ ویسے ہی ہے، جیسے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سابقین واولین صحابہ کی ساتھ ہے۔ اسی طرح بعد والوں کی پہلوں کے ساتھ۔''
(الصارم المسلول علی شاتم الرسول ص: 576)

02 ۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللہَ اطَّلَعَ عَلَی أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ : اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ . (صحیح البخاري :3983 و صحیح مسلم : 2494)
''کیا آپ جانتے نہیں! اللہ تعالی نے بدریوں پر جھانک کر فرمایا : جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔''
اسی طرح عشرہ مبشرہ،خلفاء راشدہ کے بارے میں خصوصی طور پر فضیلتیں و منقبتیں وارد ہیں،

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

قیل : الامر في قولہ }إعملوا{ للتکریم، وأن المراد أن کل عمل عملہ البدري لا یؤخذ بہ لھذا الوعد الصادق. وقیل : المعنی إن أعمالھم السیئۃ تقع مغفورۃ، فکانما لم تقع .
''ایک قول کے مطابق مذکورہ حدیث میں امر(إعملوا) تکریم کے لیے ہے۔ مراد یہ ہے کہ اہل بدر کی ہر خطا معاف ہے۔ ایک قول میں بدریوں کی خطائیں واقع ہوتے ہی معاف کر دی گئیں، گویا کہ ان سے صادر ہی نہیں ہوئیں۔''( فتح الباري :252/4)

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

قَالَ الْعُلَمَاء ُ: مَعْنَاہُ الْغُفْرَانُ لَہُمْ فِي الْآخِرَۃِ وَإِلَّا فَإِنْ تَوَجَّہَ عَلَی أَحَدٍ مِنْہُمْ حَدٌّ أَوْ غَیْرُہُ أُقِیمَ عَلَیْہِ فِي الدُّنْیَا وَنَقَلَ الْقَاضِي عِیَاضٌ الْإِجْمَاعَ عَلَی إِقَامَۃِ الْحَدِّ وَأَقَامَہُ عُمَرُ عَلَی بَعْضِہِمْ قَالَ : وَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِسْطَحًا الْحَدَّ وَکَانَ بَدْرِیًّا .
''اہل علم کہتے ہیں کہ اس سے آخرت میں معافی مراد ہے، ورنہ بدری پر حد واجب ہو جاتی، تو دنیا میں حد قائم ہو جاتی۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہنے ( سیدنا قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ )پر حد قائم کر کے فرمایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیدنا مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ پرباوجود بدری ہونے کے حد قائم کی تھی۔''
(شرح صحیح مسلم :56,57/16)

شیخ الاسلام ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"وَاللہ أعلم أَن ھذا خطاب لقوم قد علم اللہ سُبْحَانَہُ أنّہم لَا یفارقون دینہم بل یموتون علی الْإِسْلَام وَأَنَّہُمْ قد یقارفون بعض مَا یقارفہ غَیرہم من الذُّنُوب وَلَکِن لَا یترکہم سُبْحَانَہُ مصرِّین عَلَیْہَا بل یوفّقہم لتوبۃ نصوح واستغفار وحسنات تمحو أثر ذَلِک وَیکون تخصیصہم بِہَذَا دون غَیرہم لِأَنَّہُ قد تحقق ذَلِک فیہم وَأَنَّہُمْ مغْفُور لَہُم وَلَا یمْنَع ذَلِک کَون الْمَغْفِرَۃ حصلت بِأَسْبَاب تقوم بہم کَمَا لَا یَقْتَضِي ذَلِک أَن یعطّلوا الْفَرَائِض وثوقا بالمغفرۃ فَلَو کَانَت قد حصلت بِدُونِ الِاسْتِمْرَار علی الْقیام بالأوامر لما احتاجوا بعد ذَلِک إِلَی صَلَاۃ وَلَا صِیَام وَلَا حج وَلَا زَکَاۃ وَلَا جِہَاد وَہَذَا محَال .
''اللہ اعلم! یہ خطاب ان سے ہے، جو اللہ کے علم میں مرتد ہو کر فوت نہیں ہوں گے، دوسروں کی طرح ان سے بھی گناہوں کا سرزد ہونا ممکن ہے، لیکن اللہ تعالیٰ انہیں گناہ پر مصر نہیں رہنے دیتا، بلکہ سچی توبہ و استغفار یا گناہوں کو مٹا دینے والی نیکیوں کی توفیق خاص سے نوازتا ہے۔ اس طرح اہل بدر دوسروں سے ممتاز ہیں، کیوں کہ ان خصائل جمیلہ کی بنا پر وہ مغفور ہیں۔ یقینا ان کی مغفرت کا موجب ان میں موجود چند اوصاف ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فرائض کے تارک بن جائیں۔ یہ مغفرت اوامر و نواہی کے قیام کے بغیر ہی حاصل ہو جانی ہوتی، تو انہیں اس کے بعد کسی نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور جہاد وغیرہ کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ '' (الفوائد، ص:16)

03 ۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خیر أمتي قرني، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، قال عمران : فلا أدريأذکر بعد قرنہ قرنین أو ثلاثا؟
(صحیح البخاري :3650، صحیح مسلم : 5253)

''میرے امت کے بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں، پھر بعد والے ، پھر ان کے بعد والے۔ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہفرماتے ہیں : مجھے یہ ازبر نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے دو زمانوں کا ذکر فرمایا یا تین کا۔''

04 ۔سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
النُّجُومُ أَمَنَۃٌ لِلسَّمَاء ِ، فَإِذَا ذَہَبَتِ النُّجُومُ أَتَی السَّمَاء َ مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَۃٌ لِأَصْحَابِي، فَإِذَا ذَہَبْتُ أَتَی أَصْحَابِي مَا یُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِي أَمَنَۃٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَہَبَ أَصْحَابِي أَتَی أُمَّتِي مَا یُوعَدُونَ .(صحیح مسلم : 2531)
''ستارے آسمان کی امان ہیں، جب یہ جھڑجائیں گے، توآسمان تباہ ہو جائے گا۔ میں آپ کی امان ہوں، میرے جانے کے بعد آپ فتنوں سے دو چار ہو جائیں گے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امان ہیں، یہ فوت ہو گئے، تو میری امت کو فتنے آن لیں گے۔''

05 ۔ سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَزَالُونَ بِخَیْرٍ مَا دَامَ فِیکُمْ مَنْ رَآنِی وَصَاحَبَنِی، وَاللَّہِ لَا تَزَالُونَ بِخَیْرٍ مَا دَامَ فِیکُمْ مَنْ رَأَی مَنْ رَآنِی وَصَاحَبَ مَنْ صَاحَبَنِي .

(مصنف ابن أبي شیبۃ : ح: 32417، السنۃ لابن ابي وعاصم : 630/02، وسندہ، حسنٌ)
''آپ خیر پر رہیں گے، جب تک میرا کوئی صحابی حیات رہے گا۔ اللہ کی قسم! جب تک آپ میںتابعی زندہ رہے گا، خیر پر ہی رہیں گے۔

06۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
آیۃ الایمان حب الانصار، وآیۃ النفاق بغض الانصار .
(صحیح البخاري : 17، صحیح مسلم : 74)

''ایمان کی علامت انصار سے محبت ہے ، نفاق کی علامت انصار سے بغض ہے۔''

مزید ارشاد فرمایا : لَا یُحِبُّہُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا یُبْغِضُہُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ .(صحیح البخاري : 3783، صحیح مسلم : 75)
''ان سے مؤمن ہی محبت کرتے ہیں اور منافق ہی بغض رکھتے ہیں۔ ''

07۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : لا تمس النار مسلما رآنی او رای من رآنی ۔ (سنن الترمذی : 3858، وسندہ حسن)"
اس مسلمان کو آگ نہیں چھو سکتی، جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے (صحابی) کو دیکھا۔"

تمام آیات و احادیث نبویہ کے بیان کا ماحصل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ظاہری و باطنی تزکیہ فرمایا ہے۔ مثلا ظاہری عدالت میں اعلی اخلاق حمیدہ سے متصف کرنا۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:[أَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ](الفتح : 29)
صحابہ کی باطنی عدالت کا معاملہ صرف اللہ علیم بذات الصدور ہی جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کھرے پن اور نیک نیتی سے ہمیں باخبر کیا ہے۔ مثلا اللہ تعالیٰ کے فرامین عالی شان ہیں:
01۔فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِہِمْ فَأَنْزَلَ السَّکِینَۃَ عَلَیْہِمْ .(الفتح : 18)
02۔ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ .(الحشر: 08)
03۔ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا .(الفتح : 29)
04۔ لَقَدْ تَابَ اللَّہُ عَلَی النَّبِيِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِي سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ .(التوبۃ : 117)
آخری آیت میں اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی نیک نیتی اور سچی توبہ کی بنا پر گناہ بخشی فرما دی، کیونکہ توبہ دلی معاملہ ہے۔
۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ظاہری و باطنی خوبیوں کی توفیق خاص سے نوازا ہے، اس لیے تو ان پر اپنی رضا، ان کی توبہ قبول کرنے اور ان کو جنت کی ضمانت دینے سے آگاہ کیا ہے۔
05۔ مذکورہ دلائل میں اللہ تعالیٰ کا صحابہ کے لیے استغفار کا حکم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی تکریم، حقوق کی حفاظت اور ان سے محبت کا حکم دینا اور ان سے بغض و عناد سے منع کرنا، بل کہ ان سے محبت کو علامت ایمان اور بغض کو علامت نفاق قرار دینا، عدالت صحابہ کا پتہ دیتا ہے۔
06۔ ان فضائل کے بعد صحابہ کرام کا خیر القرون ہونا اور اس امت کے لیے امن و امان ہونا، ایک طبعی حقیقت ہے۔ یوں امت کے لیے ان کی اقتدا واجب ہے، بل کہ جنت کا یہی واحد راستہ ہے۔ جیسا کہ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء المہدیین الراشدین .
''میرے ا ور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو اختیار کریں۔''
(مسند احمد : 17412، سنن الترمذي : 2676، سنن ابن ماجۃ: 43، وسندہ صحیحٌ)

علامہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ المتوفی (۸۵۲ھ)
"الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ " میں اندلس کے عظیم امام ابو محمد ابن حزمؒ کا کلام نقل کرتے ہیں کہ :
"قال أبو محمّد بن حزم: الصحابة كلّهم من أهل الجنة قطعا، قال اللَّه تعالى: لا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقاتَلَ أُولئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنى [الحديد: 10] . وقال تعالى: إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنى أُولئِكَ عَنْها مُبْعَدُونَ [الأنبياء: 101] . فثبت أن الجميع من أهل الجنة، وأنه لا يدخل أحد منهم النار، لأنهم المخاطبون بالآية السابقة".

علامہ ابو محمد حافظ بن حزمؒ کہتے ہیں: کہ سب صحابۂ کرامؓ اہل جنت ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے فتحِ مکہ سے پہلے انفاق وقتال کیا، وہ اس کے برابر نہیں جس نے بعد میں انفاق وقتال کیا، الآیہ۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جن لوگوں سے ہماری طرف سے بھلائی کا وعدہ ہوچکا ہے، یہ لوگ آگ سے دور رکھے جائیں گے، پس ثابت ہوا کہ تمام صحابہؓ اہلِ جنت میں سے ہیں؛ اس لیے کہ آیتِ سابقہ میں وہی (فتح مکہ سے قبل اور بعد والے مومن) مخاطب ہیں۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بات کرنا دراصل اسلام کے بارے میں بات کرنا ہے، عدالت صحابہ دراصل اقرار بالاسلام ہی کا نام ہے، عدالت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں طعن و تشنیع دراصل اسلام میں طعن و تشنیع کرنا اور دین کو رد کردینا ہے، ان کی عدالت کی گواہی دینا دین ہے اگر وہ نہ ہوتے تو روئے زمین میں کوئی مسلمان نہیں ہوتااور نہ ہی دین اسلام ہم تک پہونچتا، ان کی عدالت دین کا تزکیہ اور اس پر ایمان ہےاور ان کی تنقیص دین کی تنقیص اور دین کا انکار ہے، ناقلین دین کو جو سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں اور اصحاب نبی کی عدالت کی تنقیص کرتے ہیں تو بتائیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کس نے دین کو ایک دوسرے تک پہنچایا ؟؟
اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجریح سے دین بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے، اس وقت تک دین تمام نہیں ہوسکتا جب تک ناقلین پر رضامندی کا اظہار نہ ہو.

"عن أبي شريح العدوي أنه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة : ائذن لي أيها الأمير أحدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم للغد من يوم الفتح فسمعته أذناي ووعاه قلبي وأبصرته عيناي حين تكلم به إنه حمد الله وأثنى عليه ثم قال : ( وليبلغ الشاهد الغائب )
حضرت ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ مدینے کے امیر عمرو بن سعید سے کہا جب عمروبن سعید عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے خلاف مکہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے کہ اے امیر مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک حدیث بیان کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن ارشاد فرمائی تھی، اس حدیث کو میرے دونوں کانوں نے سنا، میرے قلب نے اس کو یاد رکھا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ارشاد فرما رہے تھے تو میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی اور پھر فرمایا.... اب چاہیے کہ جو حاضر ہے وہ غائب کو یہ بات پہونچا دے.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بھرے مجمع میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مکہ یہ حرمت والا شہر قرار دیا گیا اور میں آج کے بعد کسی اہل ایمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی کا خون بہائے اور کوئی درخت کاٹے.وغیرہ

آخری بات جو آپ نے اس مجمع میں فرمایا وہ یہ کہ چاہیے کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک کو یہ بات پہونچا دے.
اس آخری بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت و ثقاہت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گواہی دی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و عدالت صرف قرآن وحدیث سے نہیں بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال سے بھی ثابت ہے.

صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن کو اقتداء کرنی ہو وہ گزرے ہوئے لوگوں کی اتباع و اقتداء کرے کیونکہ زندوں کے فتنوں میں مبتلا ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے، یہ گزرے ہوئے لوگ رسول اللہ صلی اللہ کے پیارے صحابہ ہیں، اللہ کی قسم وہ امت میں سب سے افضل تھے، ان کے دلوں میں نیکیوں کی سب سے زیادہ تڑپ تھی، وہ سب سے زیادہ گہرے علم والے اور کم تکلف کرنے والے تھے یہ وہ لوگ تھے جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اقامت کے لیے منتخب کر لیا تھا لھذا تم ان کے فضل و مقام کو پہچانو، ان کے آثار کی پیروی کرو ان کے اخلاق اور دین کو حتی الوسع مضبوطی سے تھام لو، بلاشبہ وہ سیدھی ہدایت پر قائم تھے.(تفسیر بغوی284/01)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب عادل ہیں،اور اللہ نے ان کے عادل ہونے کی گواہی دی ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عادل قرار دیا ہے،امت اسلام کا ان کی عدالت وعظمت پر اتفاق ہے،اہل حق کا اتفاق ہے کہ وہ عادل اور ثقہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں مقام صحابہ کو سمجھنے اور ان کے اسوہ پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی نصیب فرمائے اور ہمیں بھی ان کے زمرے میں داخل کرے اور ہمیں اور آپ سب کو صحابہ سے محبت کرنے والا اور ان کے نقوش کی پیروی کرنے والا بنائے اور ان سب کے منہج و طریقہ پر چلنے والا بنائے، آمین یا رب العالمین.
afrozgulri@gmail.com
7379499848

Sent from my Redmi Note 7S using Tapatalk
 
Top