• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین کا ہم پر حق ۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سوال : صحابہ کے حوالے سے ہم پر کیا چیز واجب ہے ؟

فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :

ہم پر واجب ہے کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین سے محبت ، ان کا احترام کریں ، ان کی عزتوں کا دفاع او ر جو ان کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہوئے ہیں ان کے بارے میں خاموش رہیں ۔ جو ان کو گالی دے اس کو منافق سمجھیں کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کی جرأت وہی کرتا ہے جو نفاق میں لتھڑا ہوا ہو ( العیاذ باللہ ) ورنہ وہ کیسے صحابہ کو گالی دے سکتا ہے حالانکہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خیرالناس قرنی ثم الذین یلونهم ثم الذين يلونهم
بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں ، پھر جو ان کے بعد آئیں گے ، پھر جو ان کے بعد آئیں گے
اور اسی طرح فرمایا :
لا تسبوا أصحابي
میرے صحابہ کو گالی نہ دو ۔
اور صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کو گالی دینا درحقیقت صحابہ میں تو طعن ہے ہی ، شریعت ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی حکمت میں بھی طعن ہے ۔
صحابہ میں طعن ہونا تو بالکل واضح بات ہے ۔
اور شریعت میں طعن اس طرح کہ ہمارے لیے شریعت کےناقلین صحابہ کرام ہی تو ہیں ، جب ناقل شریعت ہی مستحق شب وشتم قرار دے دیاجائے تو لوگوں کا اللہ کی شریعت سےبھی اعتماد اٹھ جائے گا ۔ اور اسی لیے بعض لوگ تو ( العیاذ باللہ ) صحابہ کرام کو فاجر و فاسق اور کافر تک قرار دیتےہیں او ر گالی دیتےہوئے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے اشرف صحابہ کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں طعن اس طرح ہے کہ آدمی اپنےدوست کےحال پر سمجھا جاتا ہے دونوں کی قدرو منزلت کا ایک دوسرےسے اندازہ ہوتا ہے چنانچہ لوگ جب کسی کو کسی فاسق شخص کا دوست پاتےہیں تو ان کا اس سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔
اور مشہور حکایت بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ :
المرء على دين خليله فلينظر أحدكم من يخالل
انسان اپنے دوست کےدین پر ہوتا ہے لہذا ہر ایک کو دیکھ بھال کر دوست اختیار کرناچاہیے ۔
ایک اور منظوم حکایت ہے :
عن المرء لاتسئل وسل عن قرينه فكل قرين بالمقارن يقتدي
آدمی کے بارے میں نہ پوچھ بلکہ اس کے ساتھی کے بارے میں پوچھ لے کیونکہ ہر دوست اپنے دوست کی ہی پیروی کرتا ہے ۔
اور اللہ کی حکمت میں طعن یوں بنتاہے کہ کیا اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جوکہ اشرف الخلق ہیں ان کی صحبت کے لیے ایسے فاجر و فاسق او رکافر لوگوں کا انتخاب کیا ہے ( العیاذ باللہ )۔ اللہ کی قسم یہ حکمت نہیں ہو سکتی ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ اسی سوال کےجواب میں فرماتےہیں :

حمد وصلاۃ کے بعد ، صحابہ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سےہے بلکہ یہ ارتدار عن الاسلام ہے پس جو شخص ان کو گالی دے گا او ران سے بغض رکھے گا وہ مرتد ہے ، کیونکہ وہ ناقلین شریعت ہیں انہوں نے حدیث و سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ہم تک پہنچایا ، وہ ناقلین وحی ہیں انہوں نے قرآن کریم ہم تک پہنچایا ، جو شخص ان کو گالی دے یا ان سے بغض رکھے یا ان کے فسق کا عقیدہ رکھے وہ کافر ہے ( نسأل اللہ العافیۃ والسلامۃ )[/QUOTE]
اصل عربی عبارت یہاں ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
ما الواجب علينا نحو الصحابة الكرام ؟

الـــواجب علينا محبتهم و احترامهم والذود عن اعراضهم والسكوت عما جرا بينهم من القتال واتهام من سبهم بالنفاق وذلك لانه لا احد لا يجرؤ على سب الصحابة رضي الله عنهم الا من غمسهم النفاق والعياذ بالله والا فكيف يسب الصحابة
وقد قال النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم: خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم.
وقال: لا تسبوا اصحابي .
ثم ان سب الصحابة قدح في الصحابة و قدح في الشريعة وقدح في الرسول صلى ا لله عليه وعلى آله وسلم وقدح في حكمة الله عز وجل, اما كونه قدحا في الصحابة فواضح وأما كونه قدحا في الشريعة فلأن الذين نقلوا إل ينا الشريعة هم الصحابة وإذا كان ناقلوا الشريعة على الوصف الذي يسبهم به من سبهم لم يبق للناس ثقة بشريعة الله لأن بعضهم والعياذ بالله يصفهم بالفجور والكفر والفسوق ولا يبالي ان يسب هذا السب على اشرف الصحابة ابي بكر وعمر رضي الله عنهما واما كونه قدحا برسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم فلأن الصاحب على حسب حال صاحبه بالنسبة لإعتباره ومعرفة قدره ولذلك تجد الناس إذا رأوا هذا الشخص صاحبا لفاسق نقص إعتباره عندهم وفي الحكمة المشهورة بل وفي الحديث عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم انه قال : المرء على دين خليله فلينظر أحدكم من يخالل.وفي الحكمة المشهورة المنظومة : عن المرء لا تسأل..وسل عن قرينه فكل قرين بالمقارن يقتدي. وأما كونه طعنا في حكمة الله فهل من الحكمة ان يختار الله لأشرف خلقه محمد صلى الله عليه وسلم هؤلاء الاصحاب الفجره الكفره الفسقه والله ليس من الحكمة نعم.

من فتاوى الشيخ ابن عثيمين رحمه الله
نور على الدرب

http://www.ajurry.com/vb/showthread.php?t=31318
ـــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
سوال : صحابہ کے حوالے سے ہم پر کیا چیز واجب ہے ؟

فضیلۃ الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :

ہم پر واجب ہے کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین سے محبت ، ان کا احترام کریں ، ان کی عزتوں کا دفاع او ر جو ان کے آپس میں لڑائی جھگڑے ہوئے ہیں ان کے بارے میں خاموش رہیں ۔ جو ان کو گالی دے اس کو منافق سمجھیں کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالی دینے کی جرأت وہی کرتا ہے جو نفاق میں لتھڑا ہوا ہو ( العیاذ باللہ ) ورنہ وہ کیسے صحابہ کو گالی دے سکتا ہے حالانکہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خیرالناس قرنی ثم الذین یلونهم ثم الذين يلونهم
بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں ، پھر جو ان کے بعد آئیں گے ، پھر جو ان کے بعد آئیں گے
اور اسی طرح فرمایا :
لا تسبوا أصحابي
میرے صحابہ کو گالی نہ دو ۔
اور صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کو گالی دینا درحقیقت صحابہ میں تو طعن ہے ہی ، شریعت ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کی حکمت میں بھی طعن ہے ۔
صحابہ میں طعن ہونا تو بالکل واضح بات ہے ۔
اور شریعت میں طعن اس طرح کہ ہمارے لیے شریعت کےناقلین صحابہ کرام ہی تو ہیں ، جب ناقل شریعت ہی مستحق شب وشتم قرار دے دیاجائے تو لوگوں کا اللہ کی شریعت سےبھی اعتماد اٹھ جائے گا ۔ اور اسی لیے بعض لوگ تو ( العیاذ باللہ ) صحابہ کرام کو فاجر و فاسق اور کافر تک قرار دیتےہیں او ر گالی دیتےہوئے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے اشرف صحابہ کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں طعن اس طرح ہے کہ آدمی اپنےدوست کےحال پر سمجھا جاتا ہے دونوں کی قدرو منزلت کا ایک دوسرےسے اندازہ ہوتا ہے چنانچہ لوگ جب کسی کو کسی فاسق شخص کا دوست پاتےہیں تو ان کا اس سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔
اور مشہور حکایت بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ :
المرء على دين خليله فلينظر أحدكم من يخالل
انسان اپنے دوست کےدین پر ہوتا ہے لہذا ہر ایک کو دیکھ بھال کر دوست اختیار کرناچاہیے ۔
ایک اور منظوم حکایت ہے :
عن المرء لاتسئل وسل عن قرينه فكل قرين بالمقارن يقتدي
آدمی کے بارے میں نہ پوچھ بلکہ اس کے ساتھی کے بارے میں پوچھ لے کیونکہ ہر دوست اپنے دوست کی ہی پیروی کرتا ہے ۔
اور اللہ کی حکمت میں طعن یوں بنتاہے کہ کیا اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جوکہ اشرف الخلق ہیں ان کی صحبت کے لیے ایسے فاجر و فاسق او رکافر لوگوں کا انتخاب کیا ہے ( العیاذ باللہ )۔ اللہ کی قسم یہ حکمت نہیں ہو سکتی ۔
 
Top