• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مثالی ایمان

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ۝۰ۚ فَسَيَكْفِيْكَہُمُ اللہُ۝۰ۚ وَھُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۱۳۷ۭ صِبْغَۃَ اللہِ۝۰ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً۝۰ۡوَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ۝۱۳۸
پس اگر وہ بھی ایمان لائیں جیسا کہ تم (صحابہ کرام) ایمان لائے ہو تو انھوں نے ہدایت پائی اور اگرمنہ موڑیں تو وہی ضد پر ہیں اور ان کی طرف سے تجھے اللہ کافی ہے اور وہ سنتا اور جانتا ہے۔۱؎(۱۳۷) ہم نے رنگ اللہ کا(لیا) ہے اور کس کا رنگ اللہ سے بہتر ہے اور ہم اسی کی بندگی کرتے ہیں۔۲؎(۱۳۸)
۱؎ اسلام ہرقسم کی تنگ دلی سے بالا ہے ۔ وہ کسی خاص تعلیم پر ایمان لانے کی تاکید نہیں کرتابلکہ وہ کہتا ہے کہ تم ہرصداقت کو مانو۔ ابراہیم علیہ السلام کو بھی مانو اور اسمٰعیل علیہ السلام کو بھی۔ موسیٰ علیہ السلام کو بھی اور مسیح علیہ السلام کو بھی اور ہر اس چیز پر یقین رکھو جواللہ کے پیغمبروں کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہے ۔ اس لیے کوئی تفصیل نہیں ۔ مسلمان مجبور ہے کہ وہ ہرسچائی کا احترام کرے اس لیے کہ اسے تو اللہ سے محبت ہے اور جب اس کی اطاعت وفرمانبرداری کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈال لیا توپھر ہرحکم جو اس کی طرف سے وصول ہوا ،شائستۂ اعتناء ہے ۔ وہ لوگ جو خدا کی محبت کا دعویٰ توکرتے ہیں لیکن محمد رسول اللہﷺ پر ایمان نہیں لاتے تو اپنے دعویٰ میں سچے نہیں، کیوں کہ آپ خدا کے سب سے بڑے دوست اور محب ہیں۔
انکار کا نتیجہ
۲؎ ان آیات میں بتایا کہ ایمان وہی مثمرد سودمند ہے جو کامل ہو۔ یعنی پورے نظام اسلامی کو مانا جائے ورنہ راہِ راست سے بھٹک جانے کا خطرہ ہے اور وہ لوگ جو اسلام کے نظام وحدت پر عمل پیرا نہیں ہیں، ان کا شقاق واختلاف کے مرض میں مبتلا رہنا لازمی وناگزیر ہے ، اس لیے کہ اسلام کے سوا جتنی راہیں ہیں ان سب میں تعصب وجہالت کے کانٹے بچھے ہیں۔ سب غیر مستقیم ہیں۔ اسلام اور صرف اسلام ہی رواداری، مسالمت اور اطاعت حق کا سچا مبلغ ہے۔
الٰہی رنگ
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صَبَغَ فُلاَنٌ سے مراد کسی خاص عقیدہ کی تلقین کرنا ہے ۔یعنی صبغۃ اللہ سے مراد اللہ کا دین ہے ۔ دین کواللہ کے رنگ سے تشبیہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دل بمنزلہ سفید کپڑے کے ہے ۔اسی لیے وثیابک فطھر میں کپڑوں سے مراد دل ہے جس کو مختلف انواع کے رنگوں سے رنگ لیاجاتا ہے ۔ کوئی یہودی ہے اور کوئی عیسائی۔ کوئی مجوسی ہے اور کوئی آتش پرست ۔ قرآن حکیم کہتا ہے اللہ کا رنگ ان سب الوان سے جدا ہے اور بہتر ہے۔ اس میں یہودیت بھی ہے اور عیسائیت بھی۔ اس میں تعصب وجہالت کا کوئی رنگ نہیں۔ وَنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ۔کہہ کر یہ بتایا ہے کہ مسلمان جس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے ، وہ عبودیت اور خاکساری ہے ۔ وہ ہروقت اللہ کی فرمانبرداری واطاعت میں مصروف نظرآئے گا۔ اس کی زندگی کا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہوتا۔ اس کی پہچان خدا کی عبادت، اس کی محبت اور اپنی عبودیت کا اظہار ہے ۔ نیز اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ عیسائی جو اصطباغ کو بہت بڑی دینداری سمجھتے ہیں، وہ جان لیں کہ ظاہرداری کے رنگ چھڑک دینے سے کوئی نجات کا مستحق نہیں بن سکتا۔ رسم اصطباغ سے کپڑے تو رنگے جاسکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ دل بھی خدا کے رنگ میں ڈو ب جائیں، اس لیے ان ظاہر پرستیوں کو چھوڑ کر روح وباطن کی طرف عود کرو اور رسوم ورواجات سے پلٹ کر حقائق ومعارف کی جانب بڑھو کہ خدا کو ظاہر داریاں پسند نہیں جن میں ذرہ بھر شائبہ خلوص نہ ہو۔ وہ تو دل کی گہرائیوں میں خلوص ومحبت کے خزانے دیکھنا چاہتا ہے ۔
حل لغات
(شقاق) اختلاف۔{صِبْغَۃٌ}۔ رنگ{احسن} اچھا۔ مادہ حسن۔{عٰبدون} جمع عابد بمعنی پرستار۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قُلْ اَتُحَاۗجُّوْنَنَا فِي اللہِ وَھُوَرَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝۰ۚ وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۚ وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ۝۱۳۹ۙ
توکہہ کیا تم ہم لوگوں سے خدا کی بابت جھگڑتے ہو اوروہی ہمارا اور تمہارا رب ہے۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے اورتمھارے اعمال تمھارے لیے اورہم اسی کے لیے خالص ہیں۔۱؎(۱۳۹)
۱؎ اس آیت میں یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکوں سے مشترکہ خطاب ہے کہ تم خدا کے احکام ونواہی کے متعلق ہم سے کیوں بحث ومناظرہ کرتے ہو۔ جب کہ ہم سب کا وہ رب ہے ۔ جو مناسب سمجھتا ہے وہ فرماتا ہے اور جس کو مناسب سمجھتا ہے اس منصب کے لیے منتخب فرمالیتا ہے ۔ ہم اور تم اعتراض کرنے والے کون ؟ یہ تو خالصاً اس کے اختیار میں ہے ۔پھر اگربفرض محال عہدئہ نبوت کا تعلق اعمال واکتساب سے بھی ہو تو بھی کیا تم اس قابل ہو کہ تمھیں کیا تم اس قابل ہو کہ تمھیں اس اہم عہدہ سے نوازا جائے ۔ کیا ہم میں تم سے زیادہ اخلاص ومحبت نہیں ہے اور کیا تم مقابلتاً نہایت نااہل نہیں ہو؟ اس لیے اپنے اخلاص وعادات کو سنوارو۔پھراسلام پر اعتراض کرو۔
حل لغات
{تُحَاجُّوْنَ}تم جھگڑا کرتے ہو۔ مادہ حُجَّۃٌ۔ دلیل{مُخْلِصُوْنَ} جمع مُخْلِصٌ۔ بے ریا۔ بے غرض۔
 
Top