اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
اعتراض نمبر 14:۔
مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 38اور 39پر لکھتا ہے:
قرآن مقدس میں غیر اسلامی اورغیر ضروری اشیاء کی بحث وتمحیص میں پڑنے سے اللہ کریم نے منع فرمایا مثلا :''لاتسئلوا عن أشیاء ان تبد لکم تسؤکم''ً یہ پوچھنا کہ یا حضرت میرے باپ کا کیا نام تھا یا میرا باپ مرگیا تھا ۔۔۔۔
لیکن بخاری صاحب جنکی نظر صرف روایات کے کثیر ڈھیر (یہ الفاظ مؤلف کی کم علمی اور خیانت کی دلیل ہے )کی طرف تھی ۔''نھینا فی القرآن أن نسأل النبی'' (بخاری 15/1)''کہ اللہ نے ہم کو قرآن میں سوال کرنے سے منع کیا ہے ''۔
حالانکہ یہ صریح جھوٹ ہے اور بہتان بلکہ قرآن پاک میں تو اللہ تعالیٰ نے تاکید کے ساتھ فرمایا :
''فاسئلوااھل الذکر ان کنتم لاتعلمون ۔۔۔۔۔۔۔''
جواب:۔
محترم قارئین مصنف نے قرآن کریم کے ترجمہ میں اپنی گمراہ اور باطل سوچ کا اضافہ کیا ہے (کہ میرے باپ کا کیا نام تھا میرا باپ مرگیا ۔۔۔۔)یہ الفاظ کہیں بھی قرآن کریم میں نہیں بلکہ یہ محض قرآن پر جھوٹ ہے جو مصنف نے حدیث کو غلط ثابت کرنے کے لئے اپنی طرف سے گھڑا ہے ۔اور رہی بات صحیح بخاری کی حدیث کی کہ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں نبی ﷺ سے سوال کرنے سے قرآن نے روکا ۔انس رضی اللہ عنہ کا مطلب دینی مسائل نہیں بلکہ وہ سوالات جو کہ عبث ہیں ان سے قرآن نے روکا اور جہاں تک تعلق ہے قرآن کریم کی اس آیت کا جس میں ذکر ہے کہ :
''سوال کرو اہل ذکر سے (اگر آپ نہیں جانتے )''
تو یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ سے سوالات کئے جن کا تعلق دنیا اور آخرت کے مسائل سے تھا۔( صحیح بخاری کتاب الایمان، صحیح بخاری کتاب التفسیر، جامع ترمذی کتاب التفسیر وغیرہ)
اور جتنے بھی مسائل نماز،روزہ ،حج،زکوٰۃ ،جہاد،فلاح ،حسن سلوک،خیر خواہی ،ان تمام کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی ﷺ سے پوچھا کرتے تھے ۔لہٰذا انس رضی اللہ عنہ کا جن سوالات سے ممانعت ثابت ہوتی ہے وہ صرف اورصرف ان باتوں کے بارے میں تھاجن کا تعلق کسی بھی زاویہ سے خیر کے ساتھ نہیں تھا ۔لہٰذا حدیث پر اعتراض فضو ل ہے ۔