• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحابہ کرام کے بارے میں بعض غلط رجحانات

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
عموم کی تخصیص کو معارض قرار دینا ہی اصل غلط فہمی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمام مردار حرام ہیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیں کہ سمندر کا مردار حلال ہے اور یہ بات صحیح سند سے فقط ایک ہی روایت میں مروی ہو تو اس کی تخصیص بالکل جائز و درست ہوگی کیونکہ اصلا یہ روایت قرآن کے معارض ہوگی ہی نہیں۔ ہاں قرآن کی تبین و تشریح اور حکم کے اجمال کی توضیح قرار دی جا سکتی ہے ۔ ۔
خبر واحد جو ثقہ راویان سے ہم تک پہنچتی ہے وہ دین ہی ہے۔ اور ہم اسی حد تک مکلف ہیں جتنا ہماری استطاعت میں ہے۔ قرآن کے صریح قطعی الدلالۃ حکم رضاعت دو سال کو قیاس سے بدل دینے والوں کے لئے صحیح حدیث کو رد کرنے کا یہ خود ساختہ اصول کچھ اتنا عجیب نہیں لگتا ہوگا۔ ۔
میرے محترم یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ہماری غلط فہمی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ آپ کی غلط فہمی ہو۔
اجمال کی توضیح تو حدیث سے ہوتی ہے، تبیین و تشریح بھی ہوتی ہے لیکن عموم میں تخصیص یا استثنا کے بارے میں میں نے اوپر عرض کر دیا ہے جو شاید آپ کی نظر سے نہیں گزرا۔
محترم بھائی۔
تخصیص یا زیادتی کا مطلب ہوتا ہے کسی ایک چیز میں آئے ہوئے اطلاق یا عموم کو ختم کر کے اس میں قید پیدا کرنا۔
اب آپ بتائیں۔ اطلاق آئے تواترا اور قید آئے خبر واحد سے یا اطلاق آئے سب کے لیے عموما تواتر سے اور ایک شخص کا استثنا ہو جائے خبر واحد سے یعنی اس کے بارے میں صرف ایک شخص یہ کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں تواتر سے آنے والی خبر ثابت نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری جماعت تواتر سے ایک حکم ثابت کر رہی ہے جس میں مثال کے طور پر زید، عمرو، بکر سب کے بارے میں حکم شامل ہے اور ایک شخص خالد یہ روایت کر رہا ہے کہ یہ حکم زید کے بارے میں نہیں ہے۔ یعنی وہ تواتر کے حکم کے ایک فرد کے بارے میں حکم کے مخالف روایت کر رہا ہے تو اس کی روایت اس پوری متواتر جماعت کے مخالف کیسے قبول ہو سکتی ہے؟
اگر آپ اس کا رد کر دیں تو واضح ہو جائے گا۔ وگرنہ صرف آپ کے کہنے پر کہ یہ غلط فہمی ہے بھلا میں کیسے مان سکتا ہوں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

یہ بعینہ وہی اعتراض ہے جو منکرین حدیث پیش کرتے ہیں ۔ الحمدللہ ایک دوسرے فورم پر منکرین حدیث کے اس اعتراض کا شافی جواب دیا تھا، جسے محترم کنعان بھائی نے یہاں محدث فورم پر بھی منتقل کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
http://forum.mohaddis.com/threads/ا...نے-تین-مرتبہ-جھوٹ-بولا-تھا.20170/#post-156931

مختصراً عرض ہے کہ : حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جن تین باتوں کو حدیث میں ذکر کیا گیا ہے ان میں سے دو باتیں خود قرآن ہی سے ثابت ہیں۔ لہٰذا یہ استثناء تو ویسے ہی درست نہ ہوا کیونکہ جو اعتراض آپ حدیث پر کر رہے ہیں، وہ حدیث سے پہلے خود قرآن پر جاری ہوتا ہے۔ دوسری بات کذب کے معنی میں جھوٹ کے علاوہ احتمالات موجود ہیں ، جس کی مفصل وضاحت درج بالا مراسلہ میں موجود ہے۔ تیسری بات اسے عموم اور استثناء قرار ہی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ قرآن نے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باقاعدہ نام لے کر انہیں سچا قرار دیا ہے۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَۚإِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (19:41)
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو۔ بےشک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے۔

لہٰذا بدقسمتی سے آپ کی مثال یہاں بالکل فٹ نہیں آتی۔
محترم بھائی۔ منکرین حدیث جو اس سے استدلال کرتے ہیں وہ میں نہیں کر رہا جس کا جواب دیا گیا ہے۔ جواب میں جو کچھ کہا گیا ہے اسی کے بارے میں میں نے عرض کیا ہے کہ آخر کذب کے بارے میں یہ ساری تاویلات کیوں کی جاتی ہیں؟ آخر اسے اس کے اصل پر کیوں نہیں رکھا جاتا؟
قرآن کریم نے کہا ہے: وہ نہایت سچے تھے۔
حدیث میں ہے: ابراہیم نے جھوٹ نہیں بولا مگر تین مرتبہ۔
اپنے اصول کے مطابق اس کا استثنا کر لیجیے۔ نتیجہ نکلے گا: ابراہیم نہایت سچے تھے لیکن تین بار جھوٹ بولنا اس سچے ہونے سے مستثنی ہے۔
میں یہی کہہ رہا ہوں کہ آخر یہ نتیجہ کیوں نہیں نکالا جاتا؟ اس کی وجہ یہ ہے سند صحیح ہونے کے باوجود عقلا اس استثنا کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا کوئی اصول بھی ہونا چاہیے یا یہ صرف عقل پر موقوف ہونا چاہیے؟

البتہ آگے آپ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے۔
آخری بات یہ کہ خبر واحد سے قرآن یا حدیث متواتر کی تخصیص وغیرہ کے اصول کو تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روایت و درایت کے تمام اصول بالائے طاق رکھ کر فوری فیصلہ دے دیا جائے۔ جمع و تطبیق، ناسخ و منسوخ، مختلف مفاہیم ، مختلف شان نزول یا مختلف مخاطبین کی بنیاد پر کئی دیگر طریقوں سے حدیث کو قبول کیا جاتا ہے۔ جہاں گنجائش ہو۔
جی یہی بات میں بھی کہتا ہوں کہ کئی دیگر طریقوں سے حدیث کو قبول کیا جاتا ہے۔ اور اس قبول کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس بات کو مانا جائے کہ خبر واحد سے قرآن کی تخصیص ضروری ہے۔
آپ اس کو درست مانتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ ہم نہیں مانتے۔ ہمارے پاس اپنی دلیل اور وجہ ہے۔ آپ اپنی سوچ دوسرے پر کیوں لازم کرنا چاہتے ہیں؟
چلیے مان لیں کہ آپ ٹھیک ہیں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی اور مجھے دوسرا موقف راجح لگتا ہے۔ اور میں کچھ نہ کچھ علم بھی رکھتا ہوں اور امت کی ایک جماعت میرے اس موقف میں میرے ساتھ بھی ہے۔
تو مجھے بتائیے کہ مجھ پر آپ کی تقلید لازم ہے یہاں یا جس موقف کو میں درست کہتا ہوں وہ لازم ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ضرور دیجیے گا۔

یہ بات جزوی طور پر بالکل درست ہے کہ سند صحیح ہی سب کچھ نہیں ہوتی،صحیح سند سے ایک روایت کے ثبوت کے بعد بھی محدثین کے ہاں روایت و درایت کے دیگر اصول ہیں، جن پر اس روایت کو پرکھا جا سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر اس کے قبول و رد کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن دوسری طرف اسی صحیح مسلم کے مقدمہ میں عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ بھی آپ ملاحظہ کریں کہ:
’’الإسناد من الدین ولو لا الإسناد لقال من شاء ما شائ‘‘
’’اسناد دین کا حصہ ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو کوئی جو چاہتا کہہ دیتا۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم )

کیا آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں؟

باقی آپ کا ابن عباس کی مجمل و محمل بات سے یہ نتیجہ نکالنا کہ عقل کے زور پر صحیح احادیث کی تردید کی جا سکتی ہے، نہایت خطرناک بات ہے۔ اگر آپ واقعی یہ اصول رکھتے ہیں کہ عقل کی بنیاد پر اخبار آحاد کو رد کیا جا سکتا ہے تو وضاحت کیجئے ہم علیحدہ دھاگا ہی کھول لیتے ہیں پھر۔اور اگر یہ اصول نہیں تو پھر ابن عباس کی بات سے جو مفہوم آپ اخذ کر رہے ہیں وہ ثابت نہیں ہوتا، ورنہ اس کے آپ بھی اتنے ہی جواب دہ ہوں گے جتنے کہ ہم۔
اسی مقدمہ مسلم میں ابن سیرین نے یہ بتایا ہے کہ "لم يكونوا يسألون عن الإسناد، فلما وقعت الفتنة، قالوا: سموا لنا رجالكم، فينظر إلى أهل السنة فيؤخذ حديثهم، وينظر إلى أهل البدع فلا يؤخذ حديثهم"
اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ 110 ھ میں وفات پانے والے ابن سیرینؒ کے ابتدائی زمانے میں اسناد کو نہیں دیکھا جاتا تھا۔ تو پھر صحابہ و تابعین کس بنیاد پر حدیث کو قبول و رد کرتے تھے؟
اسی کو اصول کہتے ہیں۔

میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ اسناد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ اسناد سب کچھ نہیں ہوتیں۔ اتنی بات کو آپ بھی مانتے ہیں۔ درایت کے ذریعے بھی حدیث کے صحیح و غیر صحیح کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس بات کو بھی آپ مانتے ہیں۔
لیکن درایت میں اس اصول کو آپ نہیں مانتے کہ خبر واحد اگر تواتر قرآن کے اطلاق کے خلاف آ جائے تو وہ قبول نہیں۔

دوسری بات میں یہ نہیں کہہ رہا کہ حدیث کو عقل سے رد کر دیا جاتا ہے لیکن یہ تو بتائیے کہ آخر اس کا کوئی اصول تو ہونا چاہیے نا؟؟

پھر وہی خلط مبحث۔ ہم نے آپ سے اس حدیث کا درست محل کب معلوم کیا ہے؟
ارے بھائی اعتراض کو سمجھیں پھر جواب دیں۔
چلیں آپ کو لولی لنگڑی کوئی تاویل سمجھ آ گئی ، لیکن اعتراض ہے تقی عثمانی صاحب پر، کہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس حدیث کا کوئی جواب نہیں ہے ان کے پاس۔ لیکن چونکہ یہ خبر واحد ہے لہٰذا اس سے قرآن پر زیادتی ممکن نہیں۔
اور تقی عثمانی صاحب نے فقط اس ایک زریں اصول کی بنیاد پر ایک صحیح حدیث کو رد کر دیا۔اب یا تو اصول غلط مانئے اور یا تقی عثمانی صاحب (اور ان جیسے دیگر فقیہان حرم ) کے نکتہ نظر سے ان کا دفاع پیش کیجئے۔ کہ کیا ان کا ایسے حدیث کو رد کرنا درست و جائز تھا؟

اب آپ کی تاویل پر بھی دو لفظ:
پہلی بات یہ کہ جیسے حلالہ والے مراسلے میں انس صاحب نے بدلائل وضاحت کی تھی کہ :
صحابی کا یہ کہنا كنا نعده على عهد رسول الله سفاحاً سنتِ مبارکہ ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ معاشرتی مسئلہ ہے ۔ صحابی کا اجتہاد یا قلبی فعل نہیں کہ جی سے کچھ گھڑ کر بیان کر دیا ہو۔ اور خصوصا یہ کہنا کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حلالہ کو زنا سمجھتے تھے، اس میں اجتہاد کی گنجائش ہی نہیں۔ اور ان کا تفرد بھی نہیں کیونکہ یقینا ایک سے زائد صحابہ کا یہی عقیدہ رہا ہوگا۔اور صحابی اسی کی بنیاد پر نکاح حلالہ منعقد نہ ہونے کا فتویٰ جاری فرما رہے ہیں۔
تیسری بات یہ اگر واقعی آیت عموم پر ہے اور اس سے استثناء جائز ہی نہیں، تو پھر نکاح متعہ بھی ثابت ہوا۔ کیونکہ نکاح متعہ کی حرمت بھی خبر واحد ہی سے ثابت ہے۔بلکہ نکاح متعہ تو پھر کسی زمانے میں حلال بھی رہا ہے، نکاح حلالہ تو دور نبوی سے حرام و زنا ہی ہے۔
اگر آپ کو تقی عثمانی صاحب کی بات پر تحفظات ہیں تو وہ زندہ سلامت موجود ہیں۔ آپ ان سے معلوم کر لیں۔
میں نے جو انس بھائی کی پوسٹ کا جواب دیا تھا وہ تو آپ نے وہاں دیکھا نہیں تھا شاید۔ ذرا وہاں دیکھ آئیے۔


باقی میں نے عرض کیا ہے کہ اگر ان مسائل پر بات کرنی ہے تو الگ دھاگہ بنا لیجیے۔ میں آپ کی دونوں باتوں کا جواب دے سکتا ہوں کیوں کہ آپ فقط عقلی گھوڑے دوڑا رہے ہیں لیکن محترم یہ اس کا مقام نہیں ہے۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم اشماریہ صاحب باقی باتیں بعد کی ہیں ۔ جس بنیاد پر یہ قاعدہ بنایا جاتا ہے کہ
’’ جو حدیث قرآن کے ظاہر کےخلاف ہو اسے رد کردیا جائے گا ‘‘
وہ بنیاد قرآن کی کوئی آیت ہے یا حدیث ؟
اگر حدیث ہے تو قطع نظر اس کے اس حدیث کی استنادی حیثیت کیا ہے کیا یہ حدیث خود اس قاعدے پر پوری اترتی ہے ؟
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اب آپ بتائیں۔ اطلاق آئے تواترا اور قید آئے خبر واحد سے یا اطلاق آئے سب کے لیے عموما تواتر سے اور ایک شخص کا استثنا ہو جائے خبر واحد سے یعنی اس کے بارے میں صرف ایک شخص یہ کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں تواتر سے آنے والی خبر ثابت نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری جماعت تواتر سے ایک حکم ثابت کر رہی ہے جس میں مثال کے طور پر زید، عمرو، بکر سب کے بارے میں حکم شامل ہے اور ایک شخص خالد یہ روایت کر رہا ہے کہ یہ حکم زید کے بارے میں نہیں ہے۔ یعنی وہ تواتر کے حکم کے ایک فرد کے بارے میں حکم کے مخالف روایت کر رہا ہے تو اس کی روایت اس پوری متواتر جماعت کے مخالف کیسے قبول ہو سکتی ہے؟
بات یہ ہے کہ تواتر کے حکم کے ایک فرد کے بارے میں استثناء ویسا ہے ہی نہیں جیسے آپ بیان فرما رہے ہیں۔ آپ کا بیان تب درست تھا جب تواتر سے ثابت ہو کہ:
زید، عمر، بکر ایسے ایسے کریں۔
اور خبر واحد ہو
بکر ایسے نہیں ویسے کرے۔
اب یہ خبر واحد ، متواتر کے "مخالف" ہے۔ کیونکہ دونوں براہ راست ٹکرا رہی رہیں۔ بکر کے لئے خصوصی طور پر متواتر میں کچھ اور حکم ہے اور خبر واحد میں کچھ اور۔

لیکن اگر تواتر یوں ہو:
تمام لوگ ایسے ایسے کریں۔
اور خبر واحد ہو
بکر ویسے کرے۔
اب یہ خبر واحد، متواتر کے "مخالف "نہیں ہے۔ بلکہ اگر یہ خبر کسی سچے نے دی ہے تو ہم اس کی بات کا یقین کریں گے کہ واقعتا یہ حکم بکر کے لئے نہیں ہے۔ کیونکہ تواتر میں "نام" لے کر کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ عمومی حکم ہے، اس سے استثناء عقلا و شرعا و عرفا بالکل ہو سکتا ہے۔اور یہ استثنا یہ ظاہر کرے گا کہ "تواتر میں موجود حکم بکر کے لئے تھا ہی نہیں"۔ خلاف اس کے کہ پہلی مثال میں تواتر میں بھی بکر کے لئے خصوصی حکم موجود تھا، اور بکر کا استثناء تواتر کی مخالفت کئے بغیر ممکن نہ تھا۔

اب اسی بات کو دوسرے ر خ سے دیکھیں۔

قرآن میں کوئی عمومی حکم آیا۔مثلا چور کے لئے کہ فاقطعو ایدیھما۔
اب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے استثناء کر دیا کہ مثلا ربع دینار سے کم کی چوری کرنے والے چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔
قرآن کے عمومی الفاظ کو دیکھیں تو چونکہ ایک پیسے کی چوری کرنے والا بھی چور ہی کہلاتا ہے تو اس کے ہاتھ کٹنے چاہئیں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتواتر کے حکم کے ایک فرد کو اس سے مستثنیٰ کر دیا۔
اب یہ استثناء ایک امانت دار، سچے، حافظ ، عادل مسلمان کے ذریعے ہم تک پہنچا۔
کیا خیال ہے اسے قبول کریں یا رد کر دیں؟

آپ کہتے ہیں کہ "ایک متواتر جماعت کے مخالف کسی فرد واحد کی بات کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟"
ہم کہتے ہیں کہ پہلے اس بنیادی سوال کو حل کریں:
  • کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے عمومی حکم میں استثناء کا حق حاصل ہے یا نہیں؟
  • اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عام حکم کو مقید کیا ہو اور ہم تک وہ فقط خبر واحد ہی سے پہنچا ہو؟ جبکہ احادیث کا اکثر ذخیرہ اخبار آحاد پر ہی مشتمل ہے؟
ظاہر ہے یہ عین ممکن ہے بلکہ ایسا ہوا بھی ہے۔
  • اب ایک طریقہ یہ ہے کہ اس استثناء کو ایک ثقہ راوی کی گواہی کی بنا پر قبول کرلیا جائے کیونکہ دین کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اور ہم اسی حد تک مکلف ہیں جتنی ہماری استطاعت ہے۔
  • دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فقط "امکان" کی بنا پر کہ راوی سے غلطی ہو گئی ہوگی، حدیث رسول کو رد کر دیا جائے۔
کون سا طریقہ بہتر ہے۔ ؟ حنفی چشمہ ایک طرف رکھ کر انصاف سے فرمائیے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم بھائی۔ منکرین حدیث جو اس سے استدلال کرتے ہیں وہ میں نہیں کر رہا جس کا جواب دیا گیا ہے۔ جواب میں جو کچھ کہا گیا ہے اسی کے بارے میں میں نے عرض کیا ہے کہ آخر کذب کے بارے میں یہ ساری تاویلات کیوں کی جاتی ہیں؟ آخر اسے اس کے اصل پر کیوں نہیں رکھا جاتا؟
قرآن کریم نے کہا ہے: وہ نہایت سچے تھے۔
حدیث میں ہے: ابراہیم نے جھوٹ نہیں بولا مگر تین مرتبہ۔
اپنے اصول کے مطابق اس کا استثنا کر لیجیے۔ نتیجہ نکلے گا: ابراہیم نہایت سچے تھے لیکن تین بار جھوٹ بولنا اس سچے ہونے سے مستثنی ہے۔
میں یہی کہہ رہا ہوں کہ آخر یہ نتیجہ کیوں نہیں نکالا جاتا؟ اس کی وجہ یہ ہے سند صحیح ہونے کے باوجود عقلا اس استثنا کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا کوئی اصول بھی ہونا چاہیے یا یہ صرف عقل پر موقوف ہونا چاہیے؟
اور میں پہلے تین جوابات دے چکا ہوں، مکرر ملاحظہ فرما لیجئے گزشتہ پوسٹ میں۔
باقی یہ نتیجہ نکالنا کہ ابراہیم نہایت سچے تھے لیکن تین بار جھوٹ بولنا اس سچے ہونے سے مستثنیٰ ہے، آپ کی کور چشمی پر دال ہے۔
ارے بھائی، جب استثناء والی حدیث ہی میں موجود تفصیل سے ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ باتیں جھوٹ تھیں ہی نہیں، تو سیاق و سباق سے بھی آخر دلیل لی جاتی ہے یا نہیں؟
خبر واحد سے قرآن کے استثناء کا یہ مطلب کون لیتا ہے کہ ظاہر سے جو کچھ ملے بس ہی ہے اور نہ سیاق و سباق دیکھا جائے، نہ اس موضوع کی دیگر آیات و احادیث کی چھان بین کی جائے اور فوری طور پر حکم لگا دیا جائے؟

آپ ایک کام کیجئے، ایک مرتبہ میرا یہ مضمون ملاحظہ کر لیں:

خلاف قرآن روایات کا فلسفہ -- تحقیق و جائزہ
اور پھر یہ فرمائیے:
’’ قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ن یکون میتۃ اودما مسفوحا او لحم خنزیر فانہ رجس اوفسقا اھل لغیر اﷲ بہ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فان ربک غفور الرحیم ‘‘۔(الانعام :145)
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہو جائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔

اس کا استثناء آپ خبر واحد سے کرتے ہیں یا نہیں؟
یا ہر جانور کی حرمت پر آپ متواتر احادیث پیش کر سکتے ہیں؟
قرآن تو کہے کہ سوائے ان چار کے کچھ بھی حرام نہیں، اور آپ ہزاروں لاکھوں مخلوق کو اخبار آحاد کی بنا پر حرام قرار دے ڈالیں؟
بلکہ قرآن تو لہو کو حرام قرار دیتا ہے نام لے کر ۔ یعنی خصوصی حکم ہے لہو کے بارے میں۔
اور حدیث کہتی ہے کہ کلیجی حلال ہے، حالانکہ وہ بھی خون ہی ہے۔

ان مثالوں سے یہ خوب واضح ہو جاتا ہے کہ احناف خود خبر واحد سے قرآن کی تخصیص نہیں کرنی چاہئے، والے اصول پر ہمہ وقت عمل پیرا نہیں ہوتے ، ہاں اپنے مفاد اور مطلب کی خاطر یہ اصول بڑے زور و شور سے استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر مقصد حدیث رسول کی تردید سے زیادہ امام ابو حنیفہ کی ناجائز تقلید ہوا کرتا ہے، الا ماشاءاللہ۔۔۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
آخری بات یہ کہ خبر واحد سے قرآن یا حدیث متواتر کی تخصیص وغیرہ کے اصول کو تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روایت و درایت کے تمام اصول بالائے طاق رکھ کر فوری فیصلہ دے دیا جائے۔ جمع و تطبیق، ناسخ و منسوخ، مختلف مفاہیم ، مختلف شان نزول یا مختلف مخاطبین کی بنیاد پر کئی دیگر طریقوں سے حدیث کو قبول کیا جاتا ہے۔ جہاں گنجائش ہو۔
جی یہی بات میں بھی کہتا ہوں کہ کئی دیگر طریقوں سے حدیث کو قبول کیا جاتا ہے۔ اور اس قبول کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس بات کو مانا جائے کہ خبر واحد سے قرآن کی تخصیص ضروری ہے۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!!!
ارے بھائی، غور فرمائیے کہ ہم تو خبر واحد سے قرآن کی استثناء کے قائل ہیں، لیکن ساتھ ہی درج بالا دیگر دلائل بشمول روایت و درایت کے دیگر اصول وں کو مدنظر رکھتے ہیں اور پھر فیصلہ کرتے ہیں۔
آپ ایک صحیح حدیث کو ظاہر قرآن کے مخالف ٹھہرا کر رد کر دیتے ہیں۔۔ اب جب آپ نے اصول ہی یہ بنا لیا تو حدیث تو چھوٹتے ہی رد ہو گئی کیونکہ وہ ظاہر قرآن یا آپ کے اپنے فہم قرآن کے مخالف ہے۔دیگر دلائل بشمول روایت و درایت وغیرہ کے اصول تو آپ نے دیکھے ہی نہیں؟

حلالہ والے مسئلے میں یہی تو ہوا ہے۔ آپ نے آیت کا من چاہا مفہوم طے کر دیا اور اپنے مفہوم کو ہی قرآن قرار دے ڈالا۔ اب صحابی کی گواہی کہ ہم عہد رسول میں نکاح حلالہ کو زنا سمجھتے تھے ، اور یہ کہ نکاح حلالہ منعقد ہی نہیں ہوتا، صحیح سند سے ثابت ہونے کے باوجود، آپ ہزار لیت و لعل کر کے اس حدیث سے چھٹکارا پانے کی کوشش ہی کریں گے۔ کیونکہ آپ کو یہ حدیث خلاف قرآن محسوس ہوتی ہے۔ اور ہمیں عین مطابق قرآن۔ تو حدیث رد کرنے والا گروہ کون سا ہوا؟
اور طرہ یہ دعویٰ کہ جی احناف توضعیف حدیث کو بھی اپنی رائے و قیااس پر ترجیح دیتے ہیں۔
حالانکہ فقط اس ایک اصول ہی سے سینکڑوں احادیث رد ہو جاتی ہیں اور رد کرنے کا پیمانہ فقط عقل و قیاس ہی ہے۔ تنہائی میں اپنا محاسبہ کرتے ہوئے غور کیجئے گا۔

۔

آپ اس کو درست مانتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ ہم نہیں مانتے۔ ہمارے پاس اپنی دلیل اور وجہ ہے۔ آپ اپنی سوچ دوسرے پر کیوں لازم کرنا چاہتے ہیں؟
چلیے مان لیں کہ آپ ٹھیک ہیں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی اور مجھے دوسرا موقف راجح لگتا ہے۔ اور میں کچھ نہ کچھ علم بھی رکھتا ہوں اور امت کی ایک جماعت میرے اس موقف میں میرے ساتھ بھی ہے۔
بہت خوب بھئی۔ ماشاءاللہ۔
آپ ایک کام کیجئے جتنے اختلافی مباحث میں آپ نے اپنی ٹانگیں اڑائی ہوئی ہیں، وہاں سے نکال لیجئے اور کونے میں بیٹھ کر کہیں اللہ اللہ کیجئے۔ وجہ؟ وجہ جاننے کے لئے اپنا ہی بالا اقتباس پڑھ لیں۔ ابتسامہ۔
اگر ہم دلائل دیں تو "اپنی سوچ دوسروں پر لازم کرنے " کے ملزم۔ اور آپ اپنی نگارشات بکھیریں تو حق کے داعی قرار پائیں!
اور اگر آپ کو دوسرا مؤقف راجح لگتا ہے تو دلائل سے ثابت کیجئے۔ نہ ثابت کر سکیں تو ہماری مان لیں۔ غیر متعصب سچا مسلمان تو یہی کرے گا، کیونکہ یہی راہ نجات ہے۔ آپ کا معاملہ آپ جانیں۔

تو مجھے بتائیے کہ مجھ پر آپ کی تقلید لازم ہے یہاں یا جس موقف کو میں درست کہتا ہوں وہ لازم ہے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ضرور دیجیے گا۔
اس سوال کا سیدھا جواب اتنا سا ہے کہ ہمیں اور آپ کو کتاب و سنت کی پیروی لازم ہے۔ تقلید نہ اپنے بزرگوں کی کریں نہ ہمارے بزرگوں کی۔ جہاں کی دلیل مضبوط ہو ، وہاں کے مسئلے پر عمل کریں۔ آپ کا مؤقف درست ہے تو ہم پر واضح کیجئے۔ ہمارا مؤقف درست لگے تو بصد شوق اس پر عمل کیجئے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
اسی مقدمہ مسلم میں ابن سیرین نے یہ بتایا ہے کہ "لم يكونوا يسألون عن الإسناد، فلما وقعت الفتنة، قالوا: سموا لنا رجالكم، فينظر إلى أهل السنة فيؤخذ حديثهم، وينظر إلى أهل البدع فلا يؤخذ حديثهم"
اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ 110 ھ میں وفات پانے والے ابن سیرینؒ کے ابتدائی زمانے میں اسناد کو نہیں دیکھا جاتا تھا۔ تو پھر صحابہ و تابعین کس بنیاد پر حدیث کو قبول و رد کرتے تھے؟
اسی کو اصول کہتے ہیں۔
غلط، اسی کو مغالطہ کہتے ہیں۔
ارے بھئی صحابہ سارے عادل تھے تو تب اسناد کی ضرورت نہیں تھے۔ جب فسق زیادہ ہوا تو اسناد کا مطالبہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔ کہاں کی بات کہاں ملا رہے ہیں۔

اگر آپ کو تقی عثمانی صاحب کی بات پر تحفظات ہیں تو وہ زندہ سلامت موجود ہیں۔ آپ ان سے معلوم کر لیں۔
میں نے جو انس بھائی کی پوسٹ کا جواب دیا تھا وہ تو آپ نے وہاں دیکھا نہیں تھا شاید۔ ذرا وہاں دیکھ آئیے۔
کبھی کبھی آپ کے لطیفوں پر ہنسی نہیں بھی آتی۔
ارے اللہ کے بندے، تقی عثمانی صاحب والی بات "آپ جناب" کی تردید میں بطور مثال پیش کی گئی تھی۔
کہ تقی عثمانی صاحب کو ایک حدیث کی صحت بھی تسلیم ہے اور اس کا جواب بھی کوئی نہیں آتا۔
لیکن فقط اس اصول پر پرکھ کر کہ "خبر واحد سے قرآن پر زیادتی نہیں کی جا سکتی" ، انہوں نے صحیح حدیث کو رد کر دیا۔
یہ کام آپ فرمائیے کہ درست ہوا یا غلط؟ کیونکہ آپ بھی اس اصول سے اتفاق رکھتے ہوئے اسی کی ترویج کر رہے ہیں۔
اس کا جواب آپ ہی کے ذمہ ہے، نا کہ تقی عثمانی صاحب کے۔

باقی اس پوسٹ کا جواب:

اب آپ کی تاویل پر بھی دو لفظ:
پہلی بات یہ کہ جیسے حلالہ والے مراسلے میں انس صاحب نے بدلائل وضاحت کی تھی کہ :
صحابی کا یہ کہنا كنا نعده على عهد رسول الله سفاحاً سنتِ مبارکہ ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ معاشرتی مسئلہ ہے ۔ صحابی کا اجتہاد یا قلبی فعل نہیں کہ جی سے کچھ گھڑ کر بیان کر دیا ہو۔ اور خصوصا یہ کہنا کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حلالہ کو زنا سمجھتے تھے، اس میں اجتہاد کی گنجائش ہی نہیں۔ اور ان کا تفرد بھی نہیں کیونکہ یقینا ایک سے زائد صحابہ کا یہی عقیدہ رہا ہوگا۔اور صحابی اسی کی بنیاد پر نکاح حلالہ منعقد نہ ہونے کا فتویٰ جاری فرما رہے ہیں۔
تیسری بات یہ اگر واقعی آیت عموم پر ہے اور اس سے استثناء جائز ہی نہیں، تو پھر نکاح متعہ بھی ثابت ہوا۔ کیونکہ نکاح متعہ کی حرمت بھی خبر واحد ہی سے ثابت ہے۔بلکہ نکاح متعہ تو پھر کسی زمانے میں حلال بھی رہا ہے، نکاح حلالہ تو دور نبوی سے حرام و زنا ہی ہے۔
حلالہ والے دھاگے میں مجھے ملا نہیں، لنک دے دیں ذرا۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم بھائی۔
تخصیص یا زیادتی کا مطلب ہوتا ہے کسی ایک چیز میں آئے ہوئے اطلاق یا عموم کو ختم کر کے اس میں قید پیدا کرنا۔
اب آپ بتائیں۔ اطلاق آئے تواترا اور قید آئے خبر واحد سے یا اطلاق آئے سب کے لیے عموما تواتر سے اور ایک شخص کا استثنا ہو جائے خبر واحد سے یعنی اس کے بارے میں صرف ایک شخص یہ کہے کہ فلاں شخص کے بارے میں تواتر سے آنے والی خبر ثابت نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری جماعت تواتر سے ایک حکم ثابت کر رہی ہے جس میں مثال کے طور پر زید، عمرو، بکر سب کے بارے میں حکم شامل ہے اور ایک شخص خالد یہ روایت کر رہا ہے کہ یہ حکم زید کے بارے میں نہیں ہے۔ یعنی وہ تواتر کے حکم کے ایک فرد کے بارے میں حکم کے مخالف روایت کر رہا ہے تو اس کی روایت اس پوری متواتر جماعت کے مخالف کیسے قبول ہو سکتی ہے؟
بخاری کی روایت ہے:۔
لم يكذب إبراهيم إلا ثلاثا
لفظی ترجمہ یہ ہے: ابراہیم نے جھوٹ نہیں بولا مگر تین بار۔"
اس کذب کا اطلاق ابراہیمؑ پر کرنے کے بجائے اس میں تاویلات کیوں کی جاتی ہیں کہ جھوٹ نہیں ہوگا جھوٹ کی طرح ہوگا یا حالت طفولیت میں ہوگا اور ان کی اہلیہ ان کی اسلامی بہن ہوں گی وغیرہ؟

ابن عقیل نے کہا ہے:۔
دلالة العقل تصرف ظاهر إطلاق الكذب على إبراهيم وذلك أن العقل قطع بأن الرسول ينبغي أن يكون موثوقا به ليعلم صدق ما جاء به عن الله ولا ثقة مع تجويز الكذب عليه
فتح الباری

"عقل کی دلالت ابراہیم پر کذب کے اطلاق ظاہری کو روکتی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے کہ عقل قطعی طور پر کہتی ہے کہ رسول کے لیے ضروری ہے اس پر اعتماد کیا جائے تاکہ وہ جو کچھ اللہ کی طرف سے لائے اس کی سچائی کا علم ہو جائے۔ اور کذب کا امکان ہوتے ہوئے کسی قسم کا اعتماد نہیں ہو سکتا۔"

اب آئیں ذرا آپ کے اصول کی طرف۔ "ابراہیمؑ کا استثنا صحیح سند سے ہو رہا ہے لہذا یہ رسولوں کے عام حکم سے مستثنی ہوں گے۔ پس ثابت ہوا کہ ابراہیم نے جھوٹ کہا ہے۔"
اس میں سب باتیں آپ کے اصول کی پائی جاتی ہیں۔ سند بھی صحیح ہے، عام حکم کے مخالف بھی نہیں کیوں کہ ایک شخص کا استثنا ہو رہا ہے۔ کیا آپ یہ جھوٹ ان کے لیے ثابت کریں گے؟
اور مزے کی بات یہ کہ یہاں صرف عقل کے ذریعے حدیث میں تاویل کی جارہی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
اور اگر ابن عقیل کی ہی تاویل کے مطابق یہ کہیں کہ یہ جھوٹ تو تھے لیکن حالت خوف میں ہونے کی وجہ سے جائز تھے تو پھر شیعوں نے کیا قصور کیا ہے کہ ان کے اماموں کا تقیہ ناجائز ہے؟

میرے محترم بھائی!
یہ ایک دقیق مقام ہے۔ میں اس پر آپ کو اور بھی کئی مثالیں دے سکتا ہوں لیکن میں آپ کو منوا نہیں سکتا۔ جس کا ذہن جس طرف جائے وہ اس کا مکلف ہے۔
بس اتنا یاد رکھیے کہ صرف سند ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔ مسلم نے مقدمہ میں لکھا ہے:۔
حدثنا داود بن عمرو الضبي، حدثنا نافع بن عمر، عن ابن أبي مليكة، قال: كتبت إلى ابن عباس أسأله أن يكتب لي كتابا، ويخفي عني، فقال: «ولد ناصح أنا أختار له الأمور اختيارا، وأخفي عنه»، قال: فدعا بقضاء علي، فجعل يكتب منه أشياء، ويمر به الشيء، فيقول: «والله ما قضى بهذا علي إلا أن يكون ضل»
"علی رض کے فیصلے منگوائے اور ان سے چیزیں لکھنے لگے۔ اور کسی چیز پر سے گزر جاتے تھے اور کہتے تھے: قسم بخدا علی اس کا فیصلہ تب ہی کر سکتے ہیں جب وہ گمراہ ہوں۔"
یہاں دیکھیں۔ ابن عباس رض نے سند کی کوئی بحث نہیں کی۔ بس صرف عقل سے رد کر دیا۔ ظاہر ہے فیصلے کی ساری کتاب ایک ہی شخص نے لکھی ہوگی۔ اس کی بعض چیزیں قبول کر لیں اور بعض قبول نہیں کیں لیکن سند کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی۔
اس لیے صرف سند صحیح ہی سب کچھ نہیں ہوتی۔



محترم! مفتی صاحب کو اس استدلال کا کوئی جواب نہیں ملا۔ حالاں کہ یہ بہت واضح ہے اور میں پہلے بھی جواب دے چکا ہوں اس میں "عد" کا ذکر ہے اور "عد" افعال قلوب میں سے ہے۔ افعال قلوب کے ذریعے حدیث مرفوع کے حکم میں نہیں آتی کیوں کہ افعال قلوب پر تقریر رسول ﷺ موجود نہیں ہوتی۔ لہذا یہ ابن عمر رض کا اجتہاد ہے۔
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ثابت کیجیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس قسم کے مقامات پر بڑے گناہ کا ذکر زجرا و تشدیدا ہوتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: لا ایمان لمن لا امانۃ لہ۔ "اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت نہیں۔"
آپ کا کیا خیال ہے جو امانت دار نہ ہو وہ کافر ہو جاتا ہے؟ جس طرح یہاں عدم ایمان کا ذکر صرف تشدیدا و زجرا ہے اسی طرح اس روایت میں بھی زنا کا ذکر زجرا و تشدیدا ہے۔
اگر ایک جگہ آپ نصوص سے قرینہ ڈھونڈ کر مراد بدل دیتے ہیں تو دوسری جگہ کیوں نہیں؟




"جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جاوے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو"
بحث اس میں ہے کہ جمعہ ہونا کہاں ہے۔ یعنی جمعے کی اذان کہاں دی جائے گی۔ آیت میں ذکر فعل بعد کا ہے کہ جب جمعہ کی شرائط پائی جائیں اور جمعہ کی اذان دے دی جائے تب یہ کرو۔
مجھے بتائیے جمعہ کے لیے جماعت تو تمام فقہاء کے نزدیک شرط ہے۔ اور مزے کی بات اس پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔ پھر کیا یہ اس آیت کے خلاف ہے؟
اور آپ کا اپنا کیا مسلک ہے کہ جمعہ کے لیے کم از کم کتنے لوگ ہونے چاہئیں؟ اس پر کوئی دلیل بھی ہے آپ کے پاس؟
اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ یہ آیت شرائط جمعہ پائے جانے کے بعد کے عمل کے بارے میں ہے۔


آخر میں عرض یہ ہے کہ ان دونوں اعتراضات کا جواب میں نے بات کو سمجھانے کے لیے دیا ہے۔ اگر اس موضوع پر مزید بحث کا ارادہ ہو تو الگ تھریڈ بنا لیجیے گا۔ یہ مزید بحث کا مقام نہیں ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔
اسی لیے تو ” طبقہء اہلِ حدیث “ کو ” روایت پرست “ کہتے ہیں جن کے لیے محض ” سند “ ہی ” اول و آخر “ ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ صاحب باقی باتیں بعد کی ہیں ۔ جس بنیاد پر یہ قاعدہ بنایا جاتا ہے کہ
’’ جو حدیث قرآن کے ظاہر کےخلاف ہو اسے رد کردیا جائے گا ‘‘
وہ بنیاد قرآن کی کوئی آیت ہے یا حدیث ؟
اگر حدیث ہے تو قطع نظر اس کے اس حدیث کی استنادی حیثیت کیا ہے کیا یہ حدیث خود اس قاعدے پر پوری اترتی ہے ؟
اتنی ساری پوسٹس اور مجھے کوئی نوٹیفکیشن ہی نہیں ملا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اس تھریڈ میں کوئی پوسٹ نہیں ہو رہی۔

محترم خضر صاحب۔ جس بنیاد پر یہ قاعدہ بنا ہے نا کہ "جو خبر واحد خبر متواتر کے خلاف ہوگی" یا "جو خبر واحد اپنے سے زیادہ ثقات کے مخالف ہوگی وہ رد ہوگی" اسی بنیاد پر یہ قاعدہ بھی بنا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اکثر اصول حدیث و اصول فقہ کے قوانین عقل سے ہی ثابت ہوتے ہیں۔
ویسے آپ یہ پوچھتے کہ اس کی بنیاد کیا ہے کہ "خبر واحد قرآن میں تخصیص نہیں کر سکتی" تو شاید میں اس پر ایک حدیث مبارکہ بھی بتا دیتا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اتنی ساری پوسٹس اور مجھے کوئی نوٹیفکیشن ہی نہیں ملا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اس تھریڈ میں کوئی پوسٹ نہیں ہو رہی۔
محترم خضر صاحب۔ جس بنیاد پر یہ قاعدہ بنا ہے نا کہ "جو خبر واحد خبر متواتر کے خلاف ہوگی" یا "جو خبر واحد اپنے سے زیادہ ثقات کے مخالف ہوگی وہ رد ہوگی" اسی بنیاد پر یہ قاعدہ بھی بنا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اکثر اصول حدیث و اصول فقہ کے قوانین عقل سے ہی ثابت ہوتے ہیں۔
ویسے آپ یہ پوچھتے کہ اس کی بنیاد کیا ہے کہ "خبر واحد قرآن میں تخصیص نہیں کر سکتی" تو شاید میں اس پر ایک حدیث مبارکہ بھی بتا دیتا۔
گویا اس قاعدہ کی دلیل زیر بحث حدیث نہیں بلکہ عقل ہے ۔
دوسری بات خبر واحد اور متواتر کا یا حدیث اور قرآن کے بظاہر اختلاف کو رواۃ کے اختلاف کے ساتھ قیاس کرنا میرے خیال میں قیاس مع الفارق ہے ۔
شاذ روایت کو تو اس وجہ سےرد کیا جاتا ہےکہ مخالفت کرنےوالے راوی سے بیان کرنے میں چوک ہوگئی ہے ۔ اور امر واقع ایسے ہی ہے ۔
لیکن خبر واحد کو قرآن کے ساتھ رد کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی خاص آدمی کے فہم کے مطابق قرآن سے متعارض ہوتی ہے ۔ رواۃ کی غلطی کا شائبہ اس میں نہیں ہوتا ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اسی لیے تو ” طبقہء اہلِ حدیث “ کو ” روایت پرست “ کہتے ہیں جن کے لیے محض ” سند “ ہی ” اول و آخر “ ہے۔
طبقہ اہل حدیث کو آپ نے ایک خاص عینک لگا کر دیکھا ہوگا ، ذرا اصول حدیث پر مشتمل کتب کا مطالعہ کرکے دیکھیں ، انصاف شرط ہے آپ اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
اگر اتنا وقت نہ ہو تو پھر اصول حدیث پر لکھی گئی کتب کی کم از کم فہرست ہی ملاحظہ فرمالیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ معاملہ اس قدر آسان نہیں جتنا سمجھ لیا گیا ہے ۔ اصول حدیث اور علم الأسانید وہ علم ہے جس پر منصف مزاج غیر مسلم بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے ۔
 
Top