القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صحیح اسلامی عقیدہ
فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ
ترجمہ
عبدالرحمن حامد
تبویب ونظرثانی
طارق علی بروہی
پیش لفظ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین ،افضل الصلاۃ واتم التسلیم علی رسول اللہ، صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ اجمعین، امابعد:صحیح اسلامی عقیدہ
فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ
ترجمہ
عبدالرحمن حامد
تبویب ونظرثانی
طارق علی بروہی
پیش لفظ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
برادران گرامی :ہم اپنے شیخ نامورعالم د ین اور عظیم محدث اور مفسر علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ تعالی اور ان کی معیت میں تشریف لانے والے تمام احباب اور رفقاء کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں جزاء خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے محض اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس قدر مشقت برداشت کی اور سفر کی صعوبتیں گوارا کرکے یہاں تشریف لائے۔
برادران گرامی: ہم نے آج کی گفتگو کے لیے جو موضوع چنا ہے وہ ہے ''اسلامی عقیدہ'' جو کہ ایک ایسا بنیادی اور اساسی موضوع ہے کہ اگر یہ عقیدہ انسان کے دل ودماغ میں راسخ ہو جائے تو اسکی زندگی کے تمام معاملات میں درستگی اور پاکیزگی آجاتی ہے اور اسکی زندگی کا سارا سفراللہ تعالی کی حفاظت اور نگرانی کی بدولت بالکل محفوظ ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی کے تمام انبیاء کرام جو مختلف قوموں اور امتوں کی طرف مبعوث کیے گئے ان تمام انبیاء کرام کو جس بنیادی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ تھا شرک (یعنی اللہ تعالی کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا)اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے انبیاء کرام کے پاس جو ہتھیار تھا وہ تھا (عقیدۂ توحید )۔
شرک ایک مرض ہے ،ایک روحانی بیماری ہے اوراللہ تعالی کی توحید کا صاف ستھرااور شفاف عقیدہ اس مرض کہن کا علاج ہے۔اور علماء کرام کو یہ مشن انبیاء کرام سے ورثے میں ملا ہے تاکہ جس شخص کو بھی یہ مرض لاحق ہو اسکی خدمت میں یہ علاج پیش کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک انسان اپنی زندگی میں توحید کا عقیدہ شامل نہ کرے وہ روحانی اور دینی اعتبار سے کبھی بھی تندرست اور صحتمند نہیں ہو سکتا۔لہذا میرے محترم بھائیو: اسی وجہ سے علماء امت نے یہ امانت اور یہ ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھار کھی ہے اور وہ اس عظیم مشن کو سر انجام دے رہے ہیں۔اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دین کا علم حقیقی اہل علم سے حاصل کریں۔کیونکہ اسلام کا صاف شفاف اور صحیح عقیدہ توحید سمجھنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم یہ عقیدہ ان لوگوں سے سیکھیں اور حاصل کریں جنہوں نے اسے قرآن و سنت سے براہ راست اخذ کیا ہے۔ میری مراد قرآن وسنت کے جید علماء کرام سے ہے۔
میری اللہ تعالی سے دعاہے کہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی فرمائے اور ہمیں علم عطا فرمائے اور ہم پربھی اس علم کا فیض عام فرمائے جو علم اللہ تعالی نے اس امت کے جلیل القدر علماء کو عنایت فرمایا جن میں شیخ علامہ ناصرالدین البانی کی ذات گرامی بھی ہے۔اللہ کریم ہم سب کی طرف سے انہیں اجر جزیل عطا فرمائے۔
( آمین ثم آمین)
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی تقریرکا متن
ابتدائی خطبہ
(تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں ،ہم اسکی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد اورگناہوں کی بخشش چاہتے ہیں،اور ہم پناہ چاہتے ہیں اللہ کی ،اپنے نفسوں کے شر سے اور اپنے برے اعمال کے شر سے،جسے اللہ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾
(آل عمران: 102)
(اے ایمان والو: اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو)﴿يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاء ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِه وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا﴾
(النسا
ء: 1)(اے لوگو: اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیداکیا اور اسی سے اسکا جوڑا پیدا کیااور پھر اس جوڑے سے بے شمار مرد اورعورتیں پیدا کر کے پھیلادیں،اور ڈرو اس اللہ سے جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو ،بے شک اللہ تم سب پر نگہبان ہے)۔
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا، يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا﴾
(الاحزاب: 70-71)
(اے ایمان والو: اللہ سے ڈرو اور سیدھی اور سچی بات کہو اللہ تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے گناہ بخشش دے گا، اور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کی تو اس نے عظیم کامیابی حاصل کرلی)۔امابعد: بے شک سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہتر رہنمائی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی ہے اور سب سے برا کام دین کے اندر نئی باتیں پیدا کرنا ہے، ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے)۔
محترم ابراہیم بھائی کا میرے بارے میں جو حسن ظن ہے اس پر میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں،دراصل آپ کا یہ بھائی(شیخ البانی)آپ کی خدمت میں صرف اللہ کا دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے حاضر ہوا ہے۔
توحید ہی تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کی بنیاد تھی
اور دوسری اہم بات جس کی طرف ابراہیم بھائی نے بھی اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت کی بنیاداللہ تعالی وحدہ لاشریک کی خالص عبادت ہے ۔ اللہ تعالی نے جو نبی اور جو رسول بھی کسی قوم کی طرف بھیجا اس نے سب سے پہلے ان لوگوں کو جس چیز کی طرف دعوت دی وہ یہی تھی کہ﴿اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36) (ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو)۔رسول اللہ e بھی یہی دعوت لے کردنیا میں تشریف لائے اور اسی بات پر انکا اپنی قوم سے اختلاف اور نزاع بھی رہا۔ آپ سب لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ مشرکین مکہ اللہ تعالی کے ساتھ اور بھی کئی معبودات کی عبادت کرتے تھے ۔ جب اللہ کے رسولe نے انہیں اس بات کی دعوت دی کہ ایک اللہ کی عبادت کروجسکا کوئی شریک نہیں، اور میرے ہم آواز ہو کر یہ اعلان کروکہ "لا الہ الا اللہ" (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں)، تو وہ بگڑ گئے اور کہنے لگے:
﴿اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًااِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾
(ص: 5)
(کیا اس نے تمام معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا ،یہ تو بڑی انوکھی بات ہوئی)توحید سے متعلق دعوت نبوی ﷺ
اسی طرح نبی کریم ؐ نے بھی جس نقطے سے اپنی دعوت کا آغاز کیا وہ یہی نقطہ توحید تھا۔نبی کریم ؐ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی عرب کے کسی قبیلے کی طرف دعوت اسلام کی غرض سے اپنا کو ئی قاصد یا نمائندہ بھیجتے تووہ قاصد بھی لوگوں کو کسی ایسے اسلام کی طرف دعوت نہیں دیتے تھے جو غیر واضح اور مبہم ہو،بلکہ رسول اللہﷺ کے قاصداور داعی لوگوں کو وہی دعوت دیتے تھے جو خود اللہ کے رسول ﷺ کی دعوت ہوتی تھی کہ ،ایک اللہ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں، رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو دعوت دین کا جو طریقہ سکھلایا وہ یہی تھا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا انس بن مالک ؓ کی یہ روایت آئی ہے کہ جب رسول اللہﷺنے معاذ بن جبل ؓ کو دعوت اسلام کی غرض سے یمن کی طرف روانہ کیا، اور یہ آپ کے علم میں ہوگا کہ اس زمانے میں یمن میں مشرکین کے علاوہ اہل کتاب عیسائی بھی آباد تھے جو اللہ کے ساتھ سیدنا عیسی ابن مریم علیہ السلام کو بھی پکارتے تھے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے فرمایا، (یہ ایک زبردست دلیل ہے جسے ذہن میں رکھنا چاہیے) آپ ﷺنے فرمایا کہ: ‘‘إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ۔۔۔’’([1]) (تم ایک اہل کتاب قوم کی طرف جارہے ہو تو سب سے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اس امرکی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺاللہ کے رسول ہیں، پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں پنج وقتہ نماز کا حکم دینا۔۔۔)۔
اس حدیث سے اور گذشتہ آیت قرآنی سے اور اس قسم کی دیگر آیات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ تمام انبیاء کرام اور انکے پیروکاروں نے ہمیشہ لوگوں کو اسی کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کی طرف دعوت دی ہے اور انکی دعوت میں سب سے زیادہ زور اسی نقطہ توحید پر ہوتا تھا۔
(جاری ہے ۔ ۔ ۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاشیہ:
[1] صحیح بخاری 4347، صحیح مسلم 21۔