• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

:صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ، الحمد للہ یہ حدیث شریف قران حکیم کے عین مطابق ہے:

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
:صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ، الحمد للہ یہ حدیث شریف قران
حکیم کے عین مطابق ہے:

ایک ویب سائٹ پر عزیز اللہ بوہیو کا مضمون شائع ہوا جس میں ایک حدیث کو خلاف از قرآن و اسلام گردانا گیا۔ پاک نیٹ پر عادل سہیل بھائی نے اس کا جواب تحریر کیا۔ لیکن چونکہ جب تک اصل مضمون سامنے نہ ہو تب تک اس کا جواب پڑھنے اور سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کوفت سے بچنے کے لیے میں عادل سہیل بھائی کے مضمون سے اوپر ہی متعلقہ مضمون کے وہ حصے پیش کر رہا ہوں جو نیت والی حدیث سے متعلق ہیں۔اگر کسی کو محسوس ہو کہ کوئی اہم حصہ شامل ہونے سے رہ گیا ہے تو مجھے پی ایم کر کے رابطہ کر سکتا ہے۔ تمام ممبرزاصل مضمون اور اس کا جواب ملاحظہ کر کے خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ حیدر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاف قرآن حدیث إنما الأعمال بالنيات کی فنی تحلیل

اعمال (کے نتائج) نیتوں سے ہیں، ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔

نیک نیتی کی بنیاد پر Mercy Killing لیگل بن جاتی ہے۔

میں یہاں پوپ بینی ڈکٹ کے اس الزام کہ دین اسلام نے کوئی ایسی چیز پیش نہیں کی جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہو، اسے سہارا دینے والی ایک حدیث کا حوالہ دیتاہوں جو اس دشمن اسلام کے الزام کا بنیاد بنتی ہے، اور حدیث قرآن حکیم کی طرف سے سمجھائے ہوئے ”اصلاح کائنات“ کے فلسفہ کی جڑ اکھیڑ کر رکھ دینی ہے۔
ویسے اس حدیث بنانے والوں کا غرض و غایت بھی کثیر الجہالت سے اسلام کی بیخ کنی کرنا مقصود ہے، جو اس میں جناب رسول علیہ السلام کے ہجرت والے انقلابی عمل میں ساتھ دینے والے انقلابی ساتھیوں اصحاب رسول کے کردار کشی کی بھی تلمیح کی گئی ہے۔
یہ حدیث امام بخاری نے اپنی کتاب جس کو ان لوگوں نے صحیح کا لقب دیا ہوا ہے اس کے شروع شروع میں پہلے نمبر پر لائی ہے۔

حدیث کا متن ہے:
ترجمہ :
اعمال (کے نتائج) نیتوں سے ہیں، ہر آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔ پھر جس کی نیت ہجرت کرنے سے دنیا کے لئے ہوگی وہ اسے ملے گی، یا اگر عورت کے لئے ہوگی تو وہ اس سے نکاح کرے گا پھر ہر کسی کی ہجرت اسی چیز والی شمار کی جائے گی جس کے لئے ہجرت کی ہوگی۔ (ترجمہ ختم)

جناب قارئین !
آپ نے غور فرمایا ہوگا کہ حدیث سازوں نے اعمال کے رزلٹ اور نتیجہ کونتھی کیا ہے نیت کے ساتھ۔
اور نیت ایسی شے‎ ہے جسے ظاہر میں پرکھا نہیں جا سکتا اس لئے کہ اس کا تعلق انسان کے اندر سے ہے۔
اندر کی شے کے لئے عدالت کسی بدکار اور بد عمل شخص پر اس کا جرم ثابت نہیں کرسکے گی، اس لئے کہ وہ عدالت کو یہ کہہ سکے گا کہ یہ جو جرم ہوا ہے اس سے کسی کو ایذا‎ء پہنچانا، میری نیت میں نہیں تھا یہ اتفاق سے ہوگیا ہے یا کسی کا مال جو میں نے اٹھایا ہے اس میں میری نیت یہ تھی کہ یہ میں ابھی اٹھاکر بعد میں اسے واپس کردوں گا، چوری کی نیت سے میں نے مال نہیں اٹھایا، یا اس کے جیب سے جو موبائل سیٹ یا پیسے نکالے ہیں، یہ مذاق کی نیت سے کیا ہے اور دوستی کے طور پر اسے گھڑی بھر کےلئے پریشان کرنے کے بعد اس کی یہ چیز اسے واپس دینے کی نیت سے میں نے نکالی تھی۔

جناب قارئین!
قرآن حکیم نہایت ہی بڑی حکمت والی کتاب ہے، اس کتاب میں انسانی اعمال کا ذکر ستر عدد بار سے بھی زیادہ موقعوں پر ذکر کیا گیا ہے اور ہر جگہ لفظ اعمال کے ساتھ صالحات اور صالح کا شرط لگایا گیا ہے، نیت کی شرط نہیں لگائی گئی۔
قرآن حکیم کی یہ کمپوزیشن اور ترکیب یہ ثابت کرتی ہے کہ کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے یہ سوچا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ اس عمل سے اصلاح ہوگی یا نہیں اور سوچا جائے کہ اس عمل کا نتیجہ بہتر کس طرح سے ہوسکتا ہے سوچ سمجھ کے بعد میں اس پر عمل کرنا چاہیئے۔

جناب قارئین!
شاید انسان کی اندرونی خلفشار والی اور حیلہ جوئی والی طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ پاک نے سارے قرآن میں عربی زبان کے لفظ نیت کو کسی ایک بھی موقعہ پر استعمال نہیں کیا، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک جانتاہے کہ یہ حدیثیں بنانے والے لوگ اعمال میں کرپشن کا دروازہ کھولنے کےلئےاور لوگوں کو ان کے عمل بد کی سزا سے بچنےکےلئےنیت کی آڑ لینے کی حرفت سکھائیں گے، جیسے کہ امام بخاری نے اپنی کتاب بنامی صحیح بخاری کے اندر شروع شروع میں ہی نیت کے لفظ کو لاکر ایک طرف حیلہ سازی سے گناہ کرنے اور اس سے بچنے کی تعلیم دے دی، دوسری طرف اصحاب رسول کے ہجرت کے عمل میں ان کے خلوص میں شک ڈالنے کےلئے حدیث میں لفظ نیت کی آڑ میں دنیا کےلئے ہجرت کرنے اور بیوی حاصل کرنے کےلئے ہجرت کرنے کے مقاصد کو حدیث میں لاکر، پڑھنے والوں کی ذہن سازی کی کہ جب رسول جیسی شخصیت ہجرت کے مقاصد میں دنیا اور بیویوں کے حصول کی مذمت کر رہی ہے تو یقین سے اصحاب رسول کے اندر ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی ہجرت کرنے کی نیت بگڑی ہوئی ہو لیکن قرآن بڑی حساس کتا ب ہے، اللہ نے ان حدیث سازوں کے اصحاب رسول کے ساتھ بغض وعناد کو، موتوا بغیضکم کے انداز سے جناب رسول کے ساتھیوں کی ہجرت کو اتنا تو سراہا ہے اتنی تو تعریف کی ہے جو ایک جگہ پر فرمایا کہ یہ ہجرت کرنے والے
جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ کرتے رہے وہی خدا کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور خدا بخشنے والا (اور) رحمت کرنے والا ہے۔(2:21

یعنی یہ مہاجر اللہ کی رحمت کی امید پر گھروں سے ہجرت کرنے کےلئے نکلے تھے۔

قرآن نےدوسرے موقعہ پر ان اصحاب رسول کے لئے فرمایا کہ
تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا تم ایک دوسرے کی جنس ہو تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے میں ان کے گناہ دور کردوں گا اور ان کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں (یہ) خدا کے ہاں سے بدلہ ہے اور خدا کے ہاں اچھا بدلہ ہے۔ (3:195)
یعنی ہم ان کی جملہ سیئات برایوں کو مٹا ڈالیں گے کوئی جلتا ہے تو جلتا رہے ۔
آگے جو حدیث سازوں نے اپنی من گھڑت جھوٹی حدیثوں سے جو مشاجرات صحابہ کی حدیثوں کے انبار لگالئے ہیں۔
تو اللہ نے انکا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ:
یہ میرے رسول کے مہاجر و انصار صحابیجو لوگ ایمان لائے اور وطن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑے وہ اور جنہوں نے (ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور جو لوگ ایمان تو لے آئے لیکن ہجرت نہیں کی تو جب تک وہ ہجرت نہ کریں تم کو ان کی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں۔ اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہوگی۔ مگر ان لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور ان میں (صلح کا) عہد ہو (مدد نہیں کرنی چاہیئے) اور خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔(8:72)
أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ
یعنی آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور ولی ہیں۔


اس حدیث سے میرا مطلب یہ ہے کہ اس روایت میں جو نیت کو اعمال کے صحیح اور غلط ہونے کا پیمانہ بنایا گیا ہے، اس پیمانے سے تو کئی لوگ اپنے اعمال بد کے نتائج سے جان چھڑانے کے لئے نیت کو بطور بہانہ پیش کرکے اپنی غلط کاریوں کے خمیازہ سے بچ جائیں گے۔
اس طرح کی حدیثوں سے عدالتوں کے جج تو مجبور ہوکر مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکیں گے۔
انسانیت کے فائدہ والا قانون تو وہ ہوتا ہے جس میں مجرم کو حیلہ کرنے کی راہ ہی نہ ملے۔

جناب قارئین!
آپ نے پوپ بینی ڈکٹ کا اعتراض پڑھا کہ ” دین اسلام نے کوئی ایسی چیز پیش نہیں کی جو انسانیت کے لئے فائدہ مند ہو “غور کیا جائے کہ دشمنان اسلام کو ایسے الزامات لگانے کا موقعہ علم حدیث نے ہی تو دیا ہے۔
اور ان حدیث ساز اماموں اور فقہ ساز اماموں نے تو قوانین کی گرفت سے بچنے کے لئے مجرم سازی کی حدیثیں گھڑی ہیں اور زنا جیسے جرائم کو بھی جائز قرار دے کر انہیں تحفظ دیا ہے۔
حوالہ کے لئے پڑہیں کتاب بخاری کے اندر ایک کتاب الحیل نامی ایک حصہ ہے، جس کی معنی ہے کہ حیلہ جات کے ذریعوں سے گناہوں کو جائز بنانے کی حدیثیں۔

جناب عالی!
کتاب الحیل کی اسی حدیث کا نمبر ہے 1856، اور باب کا نمبر ہے 1055 باب کا نام ہے ”باب فی النکاح“۔
حدیث میں ہے کہ :
ان لم تستاذن البکرولم تزوجہا فاحتال رجل فاقام شاھدی زور انہ تزو جھا برضا ہا فائبت القاضی نکاحھا والزوج یعلم ان الشھادۃ باطلة فلا باس ان یطاہا وہو تزویج صحیح
یعنی ایک شخص نے بطور حیلہ کے دو عدد جھوٹے گواہ دستیاب کرکے کسی کنواری لڑکی پر قاضی کے پاس مقدمہ دائر کیا کہ اس نے میرے ساتھ شادی کی ہے، جبکہ اصل صورتحال یہ تھی کہ ایسی کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی، لیکن اگر قاضی شاہدوں کے بیانات کے پیش نظر اس جھوٹ کو درست قرار دیتاہے اور مقدمہ کرنے والا مدعی جانتا بھی ہے کہ اس نے یہ جھوٹی دعوی کی ہے اس کے باوجود امام بخاری لکھتا ہے کہ بعض لوگوں کے فتوے کے مطابق کوئی حرج نہیں مدعی اس عورت سے جماع کرسکتا ہے۔ اور امام صاحب نے اس روایت کے اخیر میں لکھا ہے کہ :
وہو تزویج صحیح
یعنی یہ شادی صحیح ہے۔

جناب قارئین!
اس روایت کے جو بعض الناس ہیں ان میں ایک ابو حنیفہ بھی ہے جو ایسے جو ایسی جھوٹی دعوی کو درست شادی قبول کرتا ہے۔
اب قارئين لوگ خود سوچ کر بتائیں کہ پاپاء روم بینی ڈکٹ کے الزام کو مسلم امت کے امامی علوم کی یہ خلاف قرآن روایات کس طرح تو سہارا دے رہی ہیں ۔

70 - حیلوں کا بیان : (2

نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1871 حدیث مرفوع مکررات 20 متفق علیہ 9
مسلم بن ابراہیم، ہشام، یحیی بن ابی کثیر، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے اور نہ بیوہ کا نکاح کیا جائے جب تک کہ اس سے حکم نہ لیا جائے، کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی اجازت کس طرح ہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ جب وہ خاموش رہے اور بعض نے کہا کہ اگر کنواری عورت سے اجازت نہ لی گئی اور نہ اس نے شادی کی اور ایک شخص نے حیلہ سے دو جھوٹے گواہ پیش کئے کہ اس نے اس عورت کی رضامندی سے نکاح کیا ہے اور قاضی نے اس کے نکاح کو ثابت رکھا، حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ گواہی جھوٹی ہے تو اس سے صحبت کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہ نکاح صحیح ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
احادیث شریفہ پر اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان ان لوگوں کی حالت زار کی عین ترجمانی کرتا ہے کہ((((([FONT=Al_Mushaf]وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا
::: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا اُس کی طرف آؤ اور رسول کی طرف آؤ تو (اے رسول)آپ دیکھتے ہیں کہ وہ منافق آپ کی طرف آنے سےکتراتے ہیں )))))سُورت النِساء (4) /آیت 61،
میری ان لوگوں سے گذارش ہے اور کوئی پہلی دفعہ نہیں کہ کچھ تو علمی دیانت داری سیکھ لیجیے ،کسی بات کو آگے پہنچانے سے پہلے اس کی صداقت کی کچھ تو چھان بین کر لیا کیجیے ،
آج کل ایک صاحب کسی عزیز اللہ بوہیو نامی شخص کی لکھی ہوئی کچھ غلط ملط باتیں ادھر ادھر نشر کر تے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، اور وہ صاحب اپنی یہ کاروائیاں مجھے بھی گوگل پلس کے ذریعے ارسال کر رہے ہیں ، ان کاروائیوں میں سے ایک مضمون بعنوان """خلاف قرآنحدیث إنما الأعمال بالنيات کی فنی تحلیل"""ہے ،
جبکہ اس مضمون میں سوائے خیانت پر مبنی جھوٹ الزام دھرنے کے فن کے علاوہ اور کوئی فن نظر نہیں آیا ، اور نہ ہی کسی """خلافء قران الزام تراشی ""' کے علاوہ کوئی اور تحلیل دکھائی دیتی ہے ،
جی ہاں ، ایسا ہی ہے ، اِن شاء اللہ ابھی آپ سب کو بھی یہ سب کچھ دکھائی دے گا ،
اللہ تعالیٰ ہماری یہ محنت اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ کی خدمت میں قبول فرمائے ، والسلام علیکم۔ اور اس کے علاوہ بھی دیگر مقامات پر بھی جہاں کہیں آپ صاحبان اپنی مراسلات کرتے ہیں ، یا جہاں کہیں بھی آپ صاحبان ان لوگوں کی حرکات موجود پاتے ہیں ، وہاں ان کی دھوکہ دہیوں کی آشکاری کو ضرور نشر کیجیے ، اللہ تبارک و تعالی ہماری یہ کوششیں اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ کی خدمت میں قبول فرمائے ، والسلام علیکم۔[/SIZE]

یہاں میں اس بات کی وضاحت بھی کرناضروری سمجھتا ہوں کہ میرے اس مضمون میں میری گفتگو کا انداز میرے عام معمول کے انداز کے مطابق نہیں ہو گا ، لہذا میں بوہیو اور اس کے مضامین نشر کرنے والے کا ذِکر اور ان سے بات اسی انداز میں کروں گا جس انداز میں وہ امت کے ائمہ کرام رحمہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں ،
صحح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات پر مشتمل یہ مضمون بھی اُسی عزیز اللہ بوہیو نامی شخص کا لکھا ہوا ہے اور جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ جہالت یا رسول دشمنی کے علاوہ کسی اور سبب سے نہیں ہو سکتا ،
اس مضمون کے لیے کسی لمبے چوڑے جواب کی ضرورت نہیں ، کیونکہ حسب عادت اس شخص نے ایک صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کو محض اپنی سوچ کے مطابق غلط بنانے کی کوشش کی ہے ، اور بد دیانتی کا سہارا لیتے ہوئے یہ کوشش کی ہے ،
جی ہاں ، بد دیانتی کا سہارا لیا ہے کہ ، حدیث شریف کی صرف ایک روایت کے الفاظ لے کر اپنی کہانیاں لکھ ڈالیں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے تین مقامات پر جھوٹ بولنے والی خبر پر مشتمل حدیث کے ساتھ کیا ،
اس مضمون میں لکھی گئی باتوں کو """ فنی تحلیل """ کہنے والے کو بھی اتنی سی توفیق نہیں ہوئی کہ کم از کم اس حدیث شریف کے بارے میں اپنے استاد کے لکھے ہوئے کے علاوہ کچھ تو معلوم کرتا ،
نشر کرنے والے کے استاد نے اس حدیث شریف کی دوسری صحیح روایت یا تو دیکھی ہی نہیں یا اپنا مذموم مقصد پورا کرنے کی کوشش میں اس کا ذِکر نہیں کیا ،
اعتراض کرنے والے نے اپنی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحیح بخاری شریف میں سے صِرف وہ روایت ذِکر کی ہے جو سب سے پہلی روایت ہے ،
آیے میں آپ کو اس حدیث مبارک کی دوسری روایت دِکھاتا ہوں اور کسی دوسری کتاب میں سے نہیں ، اسی صحیح بخاری شریف میں سے دکھاتا ہوں، اور انہی علقمہ بن وقاص کی امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ سے ہی کی گئی روایت دکھاتا ہوں :::
((((([FONT=Al_Mushaf]الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ،وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى،فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ،فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ،وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا،أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا،فَهِجْرَتُ هُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ[/FONT]
::: عملوں (کے نتیجے )کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کے لیے وہی (نتیجہ ) ہے جس کی اس نے نیت کی ، لہذا جِس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے ، تو اُس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہی ہے ،اور جس کی ہجرت دُنیا کمانے کے لیے ہے ، یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہے ، تو اُس کی ہجرت اسی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی)))))صحیح البخاری/حدیث54/کتاب الاِیمان/باب41،صحیح البخاری/حدیث2529/کتاب العتق/باب6،صحیح البخاری/حدیث3898/کتاب مناقب الانصار/باب45، صحیح البخاری/حدیث5070/کتاب النکاح/ باب5،صحیح البخاری/حدیث2289/کتاب الایمان و النذور/ باب23،صحیح البخاری/ حدیث6953/ کتاب الاِیمان/پہلا باب،
اگر اعتراض نشر کرنے والا اپنی حدیث دشمنی کا چشمہ اتار کر صرف اُسی روایت کو معمولی سی توجہ سے پڑھے ، جو اعتراض کرنے والے نے نقل کی ہے تو بھی اسے سمجھ آ جانا چاہیے کہ اس حدیث شریف میں وہ کچھ نہیں ہے جو کسی کافر پوپ کی طرف سے اسلام پر لگائے گئے الزامات کی تائید مہیا کرنے کے لیے اُس کے استاد کی سمجھ میں آیا ، اورجسےاُس کے استادنے بظاہر اسلام کے دفاع کے طور پر ایک صحیح حدیث شریف پر اعتراض کرنے کا بہانہ بنایا لیکن درحقیت اُس کے استاد عزیز اللہ بوہیو کا یہ فعل کیا اسلام کا دفاع ہے ؟ یا کافر پوپ کے الزام کا دفاع؟ یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے مسلمانوں کو دُور کرنے کی کوشش ؟اس کا فیصلہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جسے اللہ پاک نے درست عقل عطاء کر رکھی ہے ،
محترم قارئین کرام ، اگر آپ اس حدیث شریف پر بالکل معمولی سا ہی غور کیجیے تو آپ کو یہ سمجھ آنا چاہیے کہ اس حدیث پاک میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی نیک عمل اُس وقت تک نیکی نہیں بنتا جب تک کہ وہ عمل اللہ کے لیے خالص نہ ہو ، جب تک کہ وہ عمل کرنے کی نیت صِرف اللہ کی رضا کا حصول نہ ہو ،
اس بات کو بالکل واضح الفاظ میں دوسری روایت میں نقل کیا گیا ہے ، وہ روایت جو بوہیو نے ذکر نہیں کی ،
کیوں ذکر نہیں کی ؟
جناب ناشر صاحب غور فرمایے ، ،، کیا اسے اس روایت کا پتہ نہیں تھا ، بس اپنی جہالت کی رَو میں بہتے بہتے اعتراضات داغ دیے ،،، ،،، یا خیانت کا تقاضا یہی تھا کہ صرف ایسی روایت کو ہی سامنے لایا جائے جس کے الفاظ کو کسی طور رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کی نفی کے لیے استعمال کیا جا سکے ، ،، یا کافر پوپ کے الزامات کی تائید کے لیے یہ ضروری تھا کہ صرف ایسی روایت کو ہی سامنے لایا جائے جس کے الفاظ کو کسی طور اس پوپ کے عائد کردہ الزام کے مدد گار دکھا جا سکے ،،،
غور کیجیے جناب ، حدیث شریف میں ایک بہترین نیک عمل کی مثال دی گئی ہے ، اور وہ نیک عمل ہے ہجرت کرنا ،
اور بڑی وضاحت سے سمجھایا گیا ہے کہ یہ نیک عمل جس نیت سے ہوگا اسی کے مطابق اس کا اجر ہو گا ،
یعنی،اگرتوکوئی اللہ اوراس کےرسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف ہجرت کرےگاتواسکی ہجرت انہی کی طرف ہوگی اوراجروثواب والی ہوگی،اور اگر دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اس میں اس کے لیے کوئی اجر نہ ہوگا ،
کیونکہ اس نے وہ ہجرت اللہ کی رضا کی نیت سے نہیں کی ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے لیے نہیں کی ، لہذا اسے ایسی ہجرت پر کوئی اجر نہ ملے گا،
ایسا ہر گز نہیں کہ ہجرت کو یا ہجرت کرنے والوں کو کچھ برا کہا گیا ہو ،
اور نہ ہی ایسا ہے کہ کوئی برا عمل ، کوئی گناہ اگر کسی نیک نیتی سے کیا جائے تو وہ نیکی نیتی کی بنا پر نیکی بن جائے گا ، اگر اس حدیث شریف یہ وہ کچھ مراد لیا جاتا جو بوہیو نے سمجھانے کی کوشش کی ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ مبارک سے ہی گناہ گاروں اور مجرموں کو کوئی سزا نہ دی جاتی کہ ہر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے کام تو گناہ والا کیا تھا لیکن نیت اچھی تھی ،
الحمد للہ کہ آپ کے استاد کی سمجھ داری اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس وقت کسی میں ظاہر نہ کی ،
اور نہ ہی اب تک اسلام کے علماء اور قاضیوں میں سے کسی میں ظاہر ہوئی ہے ، لہذااسلامی تاریخ میں کہیں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی قاضی نے کسی مجرم کو ، نیک نیتی کی بنا جرم کرنے کی وجہ سے سزا معاف کردی ہو ،
ایسا احمقانہ اندیشہ بھی بس حدیث شریف کو کسی بھی طور غلط دکھانے کے ناکام کوششوں کے نتائج میں سے ایک ہے،
اعتراض کرنے والوں کو یہ بھی چاہیے کہ انصاف اور حقیقت پسندی کے ساتھ معاملات کو جانچنے کا حوصلہ پیدا کریں ،
اور اب قارئین کرام ، چلیے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی کتاب مبارک کی طرف جِس کی آڑ میں بوہیو نامی شخص نے ایک صحیح ثابت شدہ اور عین """مطابقء قران """حدیث شریف پر تبراء کیا ، اور ایک کافر پوپ کے الزام کی تائید مہیا کرنے کے لیے کیا ، جس کا اظہار اور اقرار اس شخص کے مضمون کے آغاز و اختتام میں مذکور ہے ،
مندرجہ ذیل قرآنی آیات بھی اس حدیث کے موضوع کو ہی بیان کرتی ہیں:
میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ببا نگ دہل کہتا ہوں کہ یہ حدیث شریف اور اس میں بیان کردہ قانون اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کے عین مطابق ہے ، کیونکہ یہ قانون اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے قران کریم میں بھی بیان فرمایا ہے ، اللہ ہی جانے مضمون لکھنے، اور نشر کرنے والوں کو اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے یہ فرامین مُبارکہ نظر نہیں آئے ، یا اُن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دشمنی کے چاؤ میں ان فرامین مُبارکہ کو قصداً نظر انداز کیا ہے کہ ((((([FONT=Al_Mushaf]وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا
:::اور جو کوئی دُنیا کے ثواب کا اِرادہ کرے گا اُسے دُنیا کے ثواب میں سے ہی دِیا جائے گا ، اور جو کوئی آخرت کے ثواب کا اِرادہ کرے گا اُسے آخرت کے ثواب میں سے ہی دیا جائے گا)))))سُورت آل عمران (3)/آیت 145،
((((([FONT=Al_Mushaf]مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ[/FONT]::: جو کوئی آخرت کی کھیتی میں سے (حاصل کرنے کا) اِرادہ کرے گااُسے ہم اُس کی کھیتی میں بڑھاوا دیں گے ، اور جو کوئی دُنیا کی کھیتی میں سے (حاصل کرنے کا) اِرادہ کرے گااُسے اُسی کھیتی میں سے دیں گے ، اور اس کے لیے آخرت(کی خیر اور فلاح )میں کوئی حصہ نہ ہو گا )))))سُورت الشُوریٰ (42)/آیت20،
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بیان فرمودہ اس قانون کی گواہ ہیں کہ ((((([FONT=Al_Mushaf]الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ[/FONT]:::عملوں (کے نتیجے )کا دارومدار نیتوں پر ہے )))))

الحمد للہ ، ثابت ہوا ، اور قران حکیم کی آیات کریمہ کے ذریعے ثابت ہوا کہ یہ حدیث شریف قران کریم کے عین مطابق ہے ، خلاف نہیں ،
جی ہاں """ خلاف قران ، قران فہمی """ اور """ دشمنی ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم""" اور """ تائید """ اور """ اسلام پر لگائے جانے الزامات کی تقویت کے امکانات""" کے مطابق نہیں ہے ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ،
مضمون لکھنے والے شخص عزیز اللہ بوہیو نے اپنے اس اعتراض نامے کے آخر میں ایک اور بد دیانتی کا مظاہرہ کیا ہے کہ ، صحیح بخاری کی کتاب الحیل کے حوالے سے جو عبارت بطور حدیث نقل کی ہے وہ حدیث تو کیا کسی صحابی ، یا تابعی کا قول بھی نہیں ، لیکن مضمون لکھنے والا اسے حدیث کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش کرتا رہا ہے ،
جبکہ امام بخاری رحمہُ اللہ نے حدیث شریف ذکر کرنے کے بعد ، بڑے ہی صاف واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ """ و قال بعض الناس::: اور کچھ لوگوں نے کہا """ ، یعنی یہ بات جو اب کہی جا رہی ہے وہ کچھ لوگوں کی بات ہے حدیث شریف نہیں ،
اور وہ کچھ لوگ کون ہیں ؟
اس کی تفصیل میں ، اسی حدیث شریف کی شرح میں ، حنفی علماء میں سے ایک "امام بدر الدین العینی الحنفی رحمہ اللہ "کی طرف سے یہ اعتراف مذکور ہے کہ """(کچھ لوگوں سے) امام بخاری رحمہُ اللہ کی مراد امام ابو حنیفہ رحمہُ اللہ ہیں اور امام بخاری رحمہ ُ اللہ نے اپنی اس بات کے ذریعے امام ابو حنیفہ پر رد کیا ہے """،
بوھیو نامی شخص نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے ، لیکن اپنی بد تہذیبی کے ساتھ ذِکر کیا ، اور اپنی دھوکہ دہی کو جاری رکھتے ہوئے اس طرح کی عبارت لکھی کہ گویا امام ابو حنیفہ رحمہُ اللہ اس حدیث کے روایوں میں سے ہوں ، اور گویا کہ امام بخاری رحمہُ اللہ اس غلط فتوے کی حمایت کر رہے ہوں ،
جبکہ امام بخاری رحمہُ اللہ تعالیٰ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد ، اُس حدیث شریف کے ذریعے اس فتوے کو غلط قرار دینے کے لیے اس فتوے کا ذِکر کیا ،
لیکن اپنے ایک مسلمان عالم بھائی کا نام لے کر اس پر رد کرنے کی بجائے اس کا ذکر """ بعض الناس::: کچھ لوگ""" کہہ کر غلطی کی نشاندہی کر دی ،
لیکن،،،،، یہ حیاء اور ادب نصیبوں والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے ،
امام بدر الدین العینی الحنفی رحمہ اللہ نے صدیوں پہلے امام بخاری رحمہُ اللہ کے اس قول کی وضاحت کر رکھی ہے کہ قول امام ابو حنیفہ پر رد کے طور پر لکھا گیا ہے ،
قارئین کرام ، امید کرتا ہوں کہ یہاں تک گفتگو ان شاء اللہ یہ واضح کرنے کے کافی ہو گی کہ عزیز اللہ بوہیو نامی یہ شخص یا تو جاھل ہے یا پھر دانستہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کے خلاف کام کرتا ہے ، اب خواہ ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت رہی ہو اس شخص کی بات سوائے جھوٹے الزامات کے اور کچھ نہیں ،
انہی الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی لگایا ہے کہ یہ حدیث "اصلاح کائنات " کے فلسفے کے خلاف ہے ،
پہلی بات تو یہ کہ اس شخص کو اسلامی تعلیمات اور فلسفوں کا فرق بھی معلوم نہیں ، اور اگر معلوم ہونے کے بعد بھی وہ اسلامی تعلیمات کو فلسفوں میں شمار کرتا ہے تو اس کی عقل کے رخصت ہوچکے ہونے کی تائید ہوتی ہے ،

دوسری بات یہ کہ اس شخص بوہیو کو شاید یہ بھی علم نہیں کہ کائنات کی اصلاح تو صرف اور صرف اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ ہی کر سکتا ہے ،
رہا معاملہ دُنیا میں بسنے والے انسانوں کی اصلاح کا تو کائنات کے پہلے انسان آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک یہ معاملہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانوں کی اصلاح صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے تقوے پر عمل پیرا لوگوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے ،

اور تقویٰ کے بنیادی لوازمات میں سے ایک """اخلاص للہ """ ہے ، یعنی ہر کام خالصتا اللہ عزّ وجلّ کی خاطر کیے جانے کی نیت ، اور یہی اس حدیث شریف میں سکھایا گیا ہے ، کہ مسلمان کو اپنا ہر کام اللہ کے لیے ہی کرنا چاہیے ، دنیاوی فوائد کے لیے نہیں ، حتیٰ کہ وہ کام بھی جو بظاہر دنیاوی معاملات تک محدود نظر آتے ہیں اگر وہ کام بھی اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے کیے جائیں تو یقینا دنیا میں سے جو کچھ اللہ دینا چاہے گا وہ بھی دے گا اور آخرت کی خیر بھی دے گا ، اور جب کسی مسلمان کی نیت اس قدر خالص رہنے لگے تو پھر وہ انسانی معاشرے میں کسی برائی کو پھیلانے والا نہیں رہتا ، بلکہ انسانی معاشرے کی اصلاح کے اسباب میں سے ایک بنیادی سبب ہو جاتا ہے ،
اب اگر ہر مسلمان اس حدیث شریف کے مطابق اپنے اعمال کو اللہ کی خاطر کرنے کی نیت کر کے کرے تو انسانی معاشرے کی اصلاح ہو گی یا تخریب ،
((((([FONT=Al_Mushaf]إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ[/FONT]:::لیکن بے شک نصیحت عقل والے(ہی)حاصل کرتے ہیں)))))سُورت الرعد (13)/آیت19،
و السلام علی من یتبع الھدی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
انتظامیہ سے خصوصی گذارش ہے کہ میرے اس مضمون کے جواب میں ارسال کیے جانے والا ہر وہ مراسلہ حذف کر دیا جائے جو کاپی پیسٹ کی کاروائی پر مشتمل ہو ، جس کسی کو بھی جو کوئی بھی بات کرنا ہے وہ اپنے الفاظ میں ، اور انسانوں کی سمجھ آ سکنے والے انداز میں کرے ، ورنہ خاموش رہے ،
اور اگر کسی کو اس کی توفیق نہیں اوروہ بوہیو کی باتوں کا دفاع کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے بوہیو کو یہاں پاک نیٹ پر لے آئے ،
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لطف و کرم سے اس کی تمام تر دھوکہ دہیوں بالکل کھل کر سامنے آ جائیں گی ، والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون پاک نیٹ پر """ یہاں """ نشر کیا گیا تھا ، اور وہاں بوہیو کے مضامین نشر کرنے والے نے اپنی عادت کے مطابق اپنے دفاع کی ایسی کوششیں جاری رکھی ہیں جن کا
[/FONT]
اصل مقصد اُن لوگوں کی غلطیوں کے عیاں ہونے کو فورمز کے خودکار بہاو میں گم کرنا ہوتا ہے ، یعنی بے تکے مراسلات ارسال کر کے اُن مراسلات کو دور پہنچا دینا جن میں ان کی غلطیاں واضح ہوتی ہوں ،
مجھے یہاں محدث فورمز پر آنے والے اپنے سارے ہی بھائیوں ، بھتیجوں ، بہنوں اور بھتیجیوں سے یہ مدد درکار ہے کہ پاک نیٹ پر میرے ساتھ ان لوگوں کے تعاقب میں شامل ہوں ، اور اللہ تعالیٰ مجھے ان لوگوں کی جو غلطیاں واضح کرنے کی توفیق دیتا ہے اور مجھے سبب بنا کر ان لوگوں کی غلطیوں کی جو نقاب کشائی کرواتا ہے اسے بار بار سامنے لایا جاتا رہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری ان کوششں کو اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ کی خدمت میں قبول فرمائے ، والسلام علیکم۔
[/FONT]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
یہ مضمون پاک نیٹ پر """ یہاں """ نشر کیا گیا تھا ، اور وہاں بوہیو کے مضامین نشر کرنے والے نے اپنی عادت کے مطابق اپنے دفاع کی ایسی کوششیں جاری رکھی ہیں جن کا اصل مقصد اُن لوگوں کی غلطیوں کے عیاں ہونے کو فورمز کے خودکار بہاو میں گم کرنا ہوتا ہے ، یعنی بے تکے مراسلات ارسال کر کے اُن مراسلات کو دور پہنچا دینا جن میں ان کی غلطیاں واضح ہوتی ہوں
درست کہا آپ نے بارک اللہ فیک۔
اس طرح کی حرکتیں ہرفورم پر مخالفین کی طرف سے انجام پاتی ہیں ، یعنی جب معقول جواب نہ سجھائی دے تو بے سروپا مراسلات کا انبار لگا کر اصل ٹھریڈ کو اس قدر بوجھل کردیا جائے کہ وہ اپنی افادیت کھو دے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
دین اسلام اور نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ کے دفاع کے سلسلے عادل سہیل بھائی کے اس ’جہاد‘ کے متعلّق یہی کہوں گا:

جزاك الله عنا وعن الإسلام وعن نبيهﷺ خيرا
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
درست کہا آپ نے بارک اللہ فیک۔
اس طرح کی حرکتیں ہرفورم پر مخالفین کی طرف سے انجام پاتی ہیں ، یعنی جب معقول جواب نہ سجھائی دے تو بے سروپا مراسلات کا انبار لگا کر اصل ٹھریڈ کو اس قدر بوجھل کردیا جائے کہ وہ اپنی افادیت کھو دے۔
اپنے یہاں یہ کام بہرام صاحب بہت کرتے ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اس طرح کی حرکتیں ایک "رانا عمار مظہر" نامی بندہ ہی کر سکتا ھے۔ جو آجکل میل کے ذریعے لوگوں تک اپنی منافقانہ حرکتیں میل کر رہا ھے۔ اور اپنے بلاگ کو اس نے بند کیا ہوا ھے تاکہ اس پر اسی جیسا ہی کمنٹس کر سکے دوسرا کوئی نہیں۔

والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
میں تو یہ ہی کہوں گا کے کوئی بھی کرے۔۔۔
کارواں چلتا رہنا چاہئے تاکہ منتشر ہجوم کو ایک منزل کی طرف رہنمائی مل سکے۔۔۔
اگر باطل سر نہیں اٹھائے گا تو حق کا الم کیسے بلند ہوگا۔۔۔
برائی پہلے آتی ہے تاکہ اچھائی سے اُس ختم کردیا جائے۔۔۔
یہ ہی نظام قدرت ہے کوئی شیطان کا بندہ ہے تو کوئی رحمٰن کا۔۔۔
 
Top