• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح بخاری کا تعارف از حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صحیح بخاری کا تعارف از حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ

کتاب بخاری :
کتاب بخاری کا نام:

”الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ۔“

موضوع:

کتاب بخاری کے نام سے ظاہر ہے کہ اس کا موضوع صحیح اور مسند احادیث کو جمع کرنا ہے اور امام بخاری کے فرمان سے بھی ظاہر ہوتا ہے: ”لم اخرج فی ہذا الکتاب الا صحیحا۔“ کہ میں نے اپنی اس کتاب میں صرف صحیح احادیث کو درج کیا ہے۔

امام بخاری مزید فرماتےہیں: ”خرجت الصحیح من ستمائۃ الف حدیث۔“ کہ میں نے صحیح بخاری چھ لاکھ احادیث سے منتخب کی ہے۔

ویسے بخاری میں مسند احادیث کے علاوہ بھی کئی امور کافی تعداد میں موجود ہیں۔ مثلاً: مسائل فقہ، عقائد، مسائل قرآن، فتاویٰ، لغوی فوائد، اصول، فنی فوائد اور دوسرے فوائد موجود ہیں۔ لیکن یہ چیزیں موضوع کتاب میں شامل نہیں ۔ موضوع کتاب میں صرف صحیح اور مسند احادیث شامل ہیں۔

شبہ: منکرین حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”میں نے چھ لاکھ احادیث سے صحیح کو منتخب کیا ہے۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باقی احادیث صحیح نہیں اور قابل اعتبار نہیں۔ اگر قابل اعتبار ہوتیں تو امام بخاری ان کو کیوں چھوڑتے؟

جواب نمبر1:

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے چھ لاکھ احادیث سے انتخاب کیا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ چھ لاکھ احادیث کی ایک سند تھی، بلکہ ایک حدیث کی دو سو سے زائد سندیں تھیں۔ اس طرح ان چھ لاکھ اسانید سے ان کا انتخاب کیا جو اسانید بخاری میں موجود ہیں۔ باقی اسانید امام بخاری کے معیار پر نہیں تھیں جن کو چھوڑ دیا گیا اور کچھ خوف طوالت کی وجہ سے چھوڑ دی گئی ہیں۔

جواب نمبر2:

امام بخاری رحمہ اللہ کے اس مقولہ کا یہ مطلب نہیں کہ باقی احادیث صحیح نہیں کیونکہ کتاب بخاری میں وہ حدیچ آئی ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق ہو، باقی احادیث امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اعلیٰ شروط کے تحت احادیث کو درج کیا ہے، یہ مطلب نہیں کہ باقی احادیث صحیح ہی نہیں۔

جواب نمبر3:

امام بخاری رحمہ اللہ اپنے اس مقولہ کی خود ہی وضاحت فرمارہے ہیں:

”وما ترکت من الصحیح اکثر۔“ کہ صحیح احادیث جو میں نے درج نہیں کیں ، وہ زیادہ ہیں۔

تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ متروکہ احادیث غیر مقبول ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد ابراہیم بن معقل فرماتے ہیں کہ میں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے سنا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سب صحیح احادیث اس لیے درج نہیں کیں کہ کتاب بہت لمبی نہ ہوجائے۔
(تاریخ بغداد، ج: ۲، ص: ۳۲۲، طبع: دار الغرب الاسلامی ، بیروت)

منکرین حدیث نے یہ مغالطہ صرف دھوکا دینے کےلیے بنایا ہے۔

سبب تالیف:

علماءکرام سبب تالیف کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ اس سے پہلے جوامع، مسانید میں ہر قسم کا مواد موجود تھا۔ عام لوگوں کےلیے اس میں صحیح کی پہچان مشکل تھی اور عمل کرنا بھی مشکل تھا۔ امام بخاری نے ارادہ کیا کہ صحیح احادیث کو الگ جمع کردیا جائے تاکہ عمل کرنا آسان ہوجائے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری کو اس کے متعلق خواب بھی آیا تھا۔ بسند صحیح امام بخاری کے شاگرد محمد بن سلیمان کہتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا:

’’ رَأَيْت النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وكأنني وَاقِف بَين يَدَيْهِ وَبِيَدِي مروحة اذب بهَا عَنهُ فَسَأَلت بعض المعبرين فَقَالَ لي أَنْت تذب عَنهُ الْكَذِب فَهُوَ الَّذِي حَملَنِي على إِخْرَاج الْجَامِع الصَّحِيح ‘‘ فتح الباری، ج: ۱، ص: ۷)

اس ارادہ کو عملی صور ت میں ظاہر کرنے کےلیے اسحاق بن راہویہ کے ترغیب دلانے سے بھی کام لیا، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن اسحاق بن راہویہ کے پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے فرمایا: کوئی آدمی ہے جو صحیح احادیث کو الگ کرے؟ تو یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی ، پس میں نے احادیث لکھنا شروع کردیں۔

امام بخاری کا اخلاص:

اس کتاب کے تالیف کرنے میں امام بخاری رحمہ اللہ کا حسن نیت اور اخلاص اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد محمد بن یوسف فربری کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’ مَا وضعت فِي كتاب الصَّحِيح حَدِيثا إِلَّا اغْتَسَلت قبل ذَلِك وَصليت رَكْعَتَيْنِ وفي رواية: تيقنت صِحَّته ‘‘

میں نے اپنی صحیح میں کوئی بھی حدیث غسل کرنے اور دو رکعتیں پڑھنے کے بغیر نہیں لکھی، اور ایک روایت میں ہے : جب تک مجھے صحت کا یقین نہیں ہوگیا، میں نے حدیث نہیں لکھی۔

یہ امام بخاری رحمہ اللہ کے اخلاص کا نتیجہ ہے کہ تمام لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ صحت میں قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری کا درجہ ہے۔

کتاب بخاری پر ائمہ کی تقریظ اور تائید:

امام ابوجعفر عقیلی کا بیان ہے کہ جب امام بخاری نے صحیح بخاری کو مرتب کرلیا

’’ عرضه على أَحْمد بن حَنْبَل وَيحيى بن معِين وعَلى بن الْمَدِينِيّ وَغَيرهم فاستحسنوه وشهدوا لَهُ بِالصِّحَّةِ الا فِي أَرْبَعَة أَحَادِيث قَالَ الْعقيلِيّ وَالْقَوْل فِيهَا قَول البُخَارِيّ وَهِي صَحِيحَة ‘‘

تو اس کو احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین ، علی بن مدینی وغیرہ پر پیش کیا، تو سب نے اس کو سراہا ہے اور اس کی صحت کی شہادت دی ہے ، مگر صرف چار حدیثوں میں ۔ اور اس کے متعلق بھی عقیلی فرماتے ہیں کہ امام بخاری کی بات صحیح ہے اور وہ حدیثیں بھی صحیح ہیں۔

قرآن مجید کے علاوہ تمام کتب احادیث پر کتاب بخاری کی اصحیت مسلم ہے۔ مقدمۃ ابن الصلاح، شرح نخبۃ الفکر، عمدۃ القاری کا مقدمہ اور مقدمہ فتح الباری سب اس چیز کی گواہی دیتے ہیں کہ ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ کتاب البخاری‘‘ تو ایک قسم کا اجماع ہوگیا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اصحیت بخاری پر اعتراض:

اعتراض نمبر 1:

بعض لوگ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ اصح کیسے ہوئی؟

اعتراض یہ ہے کہ اصح کا مطلب یہ نہیں کہ بخاری کی ہر ہر حدیث اصح ہے۔ کیونکہ کل کی دو قسمیں ہیں:

1: کل مجموعی، 2: کل افرادی۔

دونوں قسموں میں فرق ہے۔ کل مجموعی کا حکم مجموعہ پر ہوتا ہے ، ہر ہر فرد پر نہیں ہوتا۔ جب حکم مجموعہ پر لگ رہا ہوتو اس کا کوئی فرد اس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں بخاری کے مجموعہ پر حکم ہے، تو بعض احادیث اصح کے خلاف بھی ہوسکتی ہیں۔

جواب:

یہ اعتراض بالکل ناقابل التفات ہے کیونکہ بخاری کی کتاب کو اصح صرف اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی شرائط بہت سخت ہیں۔ انہوں نے ہر حدیث میں شرائط کو ملحوظ رکھا ہے۔ پھر حصر سے فرمارہے ہیں کہ ’’ما ادخلت فی کتابی الجامع الا ما صح‘‘ اگر بات مجموعہ کی ہوتی تو حصر کا کیا فائدہ؟ اس لیے یہ اعتراض بالکل بے فائدہ ہے۔

اعتراض نمبر 2:

سب لوگ مانتے ہیں کہ بخاری کے اندر کچھ مواد صحیح، کچھ حسن اور کچھ ضعیف بھی ہے۔ تو پھر اصح کہنا درست نہ ہوا۔

جواب:

اعتراض بھی حقیقت پر مبنی نہیں، کیونکہ اصح کا حکم اصول اور موضوع کے لحاظ سے ہے اور وہ تمام احادیث صحیح اور مسند ہیں جو موضوع میں شامل ہیں۔ باقی شواہد، متابعات اور معلقات کے بارے میں یہ حکم نہیں اور نہ ہی امام بخاری نے ان میں شرائط کو ملحوظ رکھا ہے کیونکہ موضوع کتاب ’الصحیح المسند‘ ہے۔

اعتراض نمبر3:

امام بخاری رحمہ اللہ جس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں ، اس کو اپنی کتا ب میں درج کردیتے ہیں۔ یہ ایک اجتہادی بات ہے اور قاعدہ ہے: ’المجتہد یخطئ ویصیب۔‘ جب غلطی کا امکان ہے تو یہ اصح کیسے ہوئی؟

جواب :

جب محدثین نے جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ دے دیا کہ کتاب بخاری کی احادیث امام بخاری کی شروط کے عین مطابق ہیں، پھر اسے تلقی بالقبول حاصل ہے تو یہ احتمال ختم ہوگیا۔ اب یہ بات مسلم ہے: ’اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری‘

شرائط بخاری:

علامہ ابوبکر حازمی فرماتے ہیں کہ ائمہ ستہ میں سے کسی نے بھی صراحتا اپنی شرائط کو بیان نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی اپنی شرائط پر اپنی کتابوں کے اندر عمل کیا ہے۔ پھر علمائ نے استنباط کیا کہ یہ ان کی شرائط ہیں۔ امام بخاری کی کتاب کے تتبع سے جو شرائط معلوم ہوئیں، وہ چھ ہیں۔ صرف اتنی بات ہے کہ وہ شرطیں اعلیٰ درجے کی ہیں۔ امام بخاری کی شرط ہے کہ اعلیٰ درجہ کی حدیث درج کریں گے۔ بخاری کے رواۃ کے طبقے کو ملحوظ رکھنا، پھر ان سے امام بخاری کی شروط ذہن میں آسکتی ہیں۔ امام بخاری اور امام مسلم کی شرطیں قریب قریب ہیں۔ تھوڑا سا فرق ہے۔ اس لیے طبقات میں دونوں کا ذکر ہوگا۔ بخاری اور مسلم کے رواۃ دو طرح کے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں جن کو مکثرین کہا جاتا ہے، مثلاً: امام زہری، نافع، موسیٰ بن عقبہ، سلیمان بن مہران، قتادہ بن دعامہ سدوسی وغیرہم۔ اور کچھ رواۃ مقلین ہیں ، جیسے: یحییٰ بن سعید انصاری وغیرہ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مکثرین رواۃ کے پانچ طبقے ہیں:
طبقہ اولیٰ:

کثیر الاتقان وکثیر الملازمۃ

جو رواۃ ضبط واتقان بہت زیادہ رکھتے ہیں اور اپنے استاد کے پاس بھی بہت زیادہ دیر ٹھہرے رہے ہیں، سفر وحضر میں ساتھ رہے ہیں۔

اس کی مثال امام زہری کے شاگردوں میں یونس بن یزید ایلی، عقیل بن خالد ایلی، امام مالک بن انس اصبحی، سفیان بن عیینہ، شعیب بن ابی حمزہ اصحاب زہری کثیر ا لضبط اور کثیر الملازمۃ ہیں۔

طبقہ ثانیہ:

کثیر الضبط والاتقان وقلیل الملازمۃ

ضبط واتقان بہت زیادہ رکھتے ہیں لیکن اپنے شیخ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرے۔

امام زہری کے شاگردوں میں اس کی مثال: ابوعمرو عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی شامی، لیث بن سعد مصری، عبدالرحمن بن خالد بن مسافر اور ابن ابی ذئب۔ یہ چار شاگردان امام زہری کثیر الضبط والاتقان تو ہیں لیکن زیادہ دیر امام زہری کے پاس نہیں رہے۔

طبقہ ثالثہ:

قلیل الضبط والاتقان وکثیر الملازمۃ

جن میں ضبط اور اتقان کم ہے لیکن اپنے استاد کے پاس زیادہ دیر ٹھہرے۔

امام زہری کے شاگردوں میں ان کی مثال: جعفر بن برقان، سفیان بن حسین اور اسحاق بن یحییٰ الکلبی ہیں۔ یہ سب شاگرد امام زہری کے پاس کافی دیر ٹھہرے رہے لیکن ضبط واتقان ان میں کم ہے۔

طبقہ اربعہ:

قلیل الضبط والاتقان وقلیل الملازمۃ

جن میں ضبط واتقان کم ہے اوراپنے شیخ کے پاس تھوڑی دیر ٹھہرے رہے۔

امام زہری کے شاگردوں میں ان کی مثال: زمعہ بن صالح ، معاویہ بن یحییٰ صدفی اور مثنیٰ بن صباح ہیں۔

طبقہ خامسہ:

قلیل الضبط والاتقان وقلیل الملازمۃ مع غوائل الجرح

ضبط بھی کم، ملازمہ بھی کم اور اس کے ساتھ ساتھ جرح بھی ہے۔

امام زہری کے شاگردوں میں اس کی مثال: عبدالقدوس بن حبیب، محمد بن سعید مصلوب۔ یہ اصحاب قلیل الضبط ہیں، قلیل الملازمۃ ہیں اور ان پر جرح بھی ہوئی ہے، بلکہ بعض نے کذاب بھی کہا ہے۔ سنن ابی داؤد میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے ، جس کا مضمون یہ ہے کہ جب رسول اللہﷺ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو عامل بنا کر بھیج رہے تھے تو آپﷺ نے پوچھا: اے معاذ! فیصلہ کس طرح کرے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا: کتاب اللہ سے۔ آپﷺ نے پوچھا: کتاب اللہ سے نہ ملے تو؟ پھر انہوں نے جواب دیا: سنت رسول اللہﷺ سے۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا: اگر سنت رسول اللہ بھی نہ ملے تو پھر؟ انہوں نے جواب دیا: میں اجتہاد کروں گا۔ (سنن ابی داؤد: 3592)

اس کی سند میں راوی مجہول ہیں، یہی روایت ابن ماجہ (رقم الحدیث: 55)کے اندر موجود ہے۔

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن قیم فرماتے ہیں کہ ابوداؤد سے ابن ماجہ کی روایت صحیح ہے، بلکہ حافظ ابن کثیر نے اسے جید کہا ہے، مگر یہ بات درست نہیں کیونکہ ابن ماجہ کی سند میں محمد بن سعید مصلوب ہے۔

جس طرح امام زہری کے شاگردوں کے پانچ طبقے ہیں، اسی طرح تمام مکثرین راویوں کے شاگردوں کے پانچ طبقے بن سکتے ہیں۔

امام بخاری پہلے طبقہ کی روایت کتاب میں لاتے ہیں۔ اس طبقہ میں جو راوی موجود ہوتا ہے، اس کی روایت اصول میں بھی درج کردیتے ہیں اور دوسرے مقام پر بھی لاتے ہیں۔ دوسرے طبقے سے امام بخاری انتخاب کرتے ہیں۔ پورے طبقے کی حدیث نہیں لاتے۔ ان میں سے جس کی حدیث کو اولیٰ سمجھیں گے ، وہی لائیں گے اور کوشش کریں گے کہ اصول میں درج نہ ہو، بلکہ شواہد اور متابعات میں آجائے ۔

امام مسلم رحمہ اللہ طبقہ اولیٰ اور ثانیہ کے تمام راویوں کی احادیث درج کرتے ہیں اور طبقہ ثالثہ سے انتخاب کرتے ہیں۔

تو معلوم ہوا کہ صحت میں بخاری مسلم سے اعلیٰ ہے۔

امام ابوداؤد طبقہ اولیٰ، ثانیہ، ثالثہ اور رابعہ کی احادیث لاتے ہیں۔ امام ترمذی طبقہ خامسہ کی احادیث بھی لے آتے ہیں۔

امام حاکم امام بخاری کے متعلق ذکر کرتے ہیں کہ ان کی شرط ہے کہ حدیث عزیز ہو اور غریب حدیث نہیں لاتے، لیکن یہ بات درست نہیں۔ بخاری کی پہلی اور آخری حدیث عزیز نہیں، غریب ہے اور درمیان میں کئی احادیث غریب ہیں۔ اس لیے عزیز لانا اور غریب نہ لانا امام بخاری کی شرط نہیں ہے۔

غیر مکثرین:

غیر مکثرین کے متعلق شیخین کا طریقہ یہ ہے کہ راوی کی ثقاہت ، عدالت اور قلت خطاء کو دیکھا جائے گا۔ پھر ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن پر قوی اعتماد ہوگیا تو ان کی متفرد احادیث کو نقل کردیا۔ اور ان میں کچھ ایسے ہیں جن پر قوی اعتماد نہیں ہوا تو ایسے راویوں کی وہ احادیث نقل کی ہیں جن میں دوسرے راوی بھی ان کے ساتھ شریک ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اصحیت بخاری پر اعتراض اور اس کا جواب:
اعتراض نمبر 1:
یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ تمام کتب احادیث سے اصح کتاب بخاری ہے ۔ اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا اس لیے کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ما اعلم فی الارض کتابا فی العلم اکثر صوابا من کتاب مالک۔‘‘

کہ میں زمین میں مؤطا امام مالک سے علم میں زیادہ صحیح کسی کتاب کو نہیں جانتا۔

جواب:

امام شافعی نے جس وقت یہ فرمایا تھا، اس وقت کتاب بخاری وجود میں نہیں آئی تھی۔ اس وقت ان کی یہ بات درست تھی۔ اس کا قرینہ ان کے فرمان سے ظاہر ہے ۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ امام بخاری ارسال وانقطاع کو علت قادحہ سمجھتے ہیں۔ کسی مرسل ومنقطع حدیث کو کتاب کے موضوع میں درج نہیں کرتے۔ اس کے برعکس امام مالک ارسال وانقطاع کو علت قادحہ نہیں سمجھتے۔ وہ ایسی احادیث کو موضوع کتاب میں درج کردیتے ہیں بلکہ بلاغات بھی درج کردیتے ہیں جن کی کوئی سند نہیں ہوتی۔ لہٰذا مؤطا امام مالک بخاری کی کتاب سے زیادہ صحیح نہیں۔

اعتراض نمبر 2:

امام حاکم کے استاد حافظ ابوعلی نیسابوری فرماتے ہیں:

’’ما تحت ادیم السماء کتاب اصح من کتاب مسلم بن الحجاج۔‘‘

کہ روئے زمین پر مسلم سے اصح کوئی کتاب نہیں۔

جواب نمبر1:

حافظ ابوعلی نے کتاب بخاری دیکھی نہیں، اس لیے وہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔ لیکن یہ جواب درست نہیں کیونکہ یہ بات ناقابل تسلیم ہے کہ مسلم کا علم ہو اور بخاری کا علم نہ ہو۔

جواب نمبر2:

حافظ ابوعلی نیسابوری کے قول کا یہ مطلب نہیں کہ مسلم دوسری کتابوں سے اصح ہے کیونکہ وہ یہ نہیں فرمارہے کہ مسلم تمام سے اصح ہے۔ لہٰذا اصح بخاری ہی ہوئی ۔

لیکن اس جواب میں کمزوری ہے، اس لیے کہ اصحیت ہی کی تو نفی کررہے ہیں۔ اصح نہیں کہہ سکتے لیکن ہم پلہ تو کہہ سکتے ہیں۔

جواب نمبر3:

حافظ ابوعلی نیسابوری کے قول کا مطلب یہ ہے کہ سیاق ، حسن ترتیب اور صرف مرفوع احادیث کو بیان کرنے میں مسلم کا مقام بخاری سےا علیٰ ہے کیونکہ امام مسلم ایک حدیث بیان کرکے اس کی کئی اسانید بیان کردیتے ہیں۔ نیز امام مسلم نے اپنی طرف سے کوئی بات درج نہیں کی، حتیٰ کہ ابواب بھی قائم نہیں کیے، حالانکہ بخاری میں ابواب اور مسائل موجود ہیں۔

لیکن اس قول کا یہ جواب بھی موزوں نہیں کیونکہ یہ توجیہ اپنی طرف سے ہوسکتی ہے ۔ اگر مطلب یہ ہوتا تو اصح کے بجائے افضل کا لفظ بولتے۔

جواب نمبر 4:

حافظ ابوعلی نیسابوری امام نسائی کے شاگر دہیں اور امام حاکم کے استاد ہیں، تو امام نسائی کا بخاری کے متعلق یہ قول ہے: ’’ما فی ہذہ الکتب کلہا اجود من کتاب محمد بن اسماعیل۔‘‘

محمد بن اسماعیل کی کتاب سے عمدہ کوئی کتاب نہیں۔

اجود کا تعلق اسناد کے ساتھ بھی ہوتا ہے، اس لیے بخاری اصح ٹھہری۔ اس کے علاوہ امام نسائی کا رتبہ نقد رجال اور علل اسانید میں امام مسلم سے کم نہیں۔ چونکہ امام نسائی حافظ ابوعلی کے استاد ہیں، اس لیے امام نسائی کا قول معتبر ہوگا۔


یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اگر واقع میں دیکھا جائے تو پھر بھی بخاری کا مقام مسلم سے بلند ہے کیونکہ اصحیت کا اعتبار اتقان رجال، اتصال سند اور عدم علل پر ہے۔ یہ تینوں خوبیاں مسلم کی نسبت بخاری میں زیادہ ہیں، اس لیے بخاری کا مقام بلند ہوگا۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اتقان رجال میں بخاری کا مقام بلند ہونے کی چار وجوہ:
وجہ اول:

امام بخاری جن رجال میں متفرد ہیں، ان کی تعداد چار سو بتیس (432) ہے۔ جن میں متکلم فیہ صرف اسی (80) ہیں ۔ جبکہ وہ رجال جن میں امام مسلم متفرد ہیں، وہ چھ سو بیس (620) ہیں، جن میں ایک سو ساٹھ (160) متکلم فیہ رواۃ ہیں۔ تو اس تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کی سخت شرط اتقان کی وجہ سے متکلم فیہ رواۃ کی تعداد کم ہے۔ تو اس اعتبار سے بخاری مسلم پر فائق ہے۔

وجہ ثانی:

جن رواۃ سے امام بخاری روایت اخذ کرنے میں متفرد ہیں، ان کی احادیث کثرت سے نہیں لاتے۔ اسی طرح بخاری کے متفرد فیہ رواۃ میں سے کسی کے پاس کوئی بڑا نسخہ نہیں ہے کہ وہ پورے کا پورا یا اس کا اکثر حصہ بخاری نے اپنی کتاب میں درج کردیا ہو۔ ماسوائے عکرمہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ کے۔ لیکن امام مسلم کے متفرد فیہ رواۃ کے پاس کچھ نسخے تھے، تو امام مسلم نے ان نسخوں کی اکثر احادیث ذکر کی ہیں، جیسے : سہیل بن ابی صالح اور حماد بن سلمہ عن ثابت وغیرہ۔ تو یہ لچک بخاری کی نسبت مسلم میں زیادہ ہے۔

وجہ ثالث:

امام بخاری رحمہ اللہ جن متکلم فیہ رواۃ کی حدیث لائے ، ان میں اکثر امام بخاری کے استاد ہیں جن سے امام بخاری نے روایت سنی اور حاصل کی۔ امام مسلم رحمہ اللہ کے متکلم فیہ رواۃ اکثر تابعین اور تبع التابعین ہیں جو امام مسلم کے استاد نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ استاد کی احادیث میں جانچ پڑتا زیادہ ہوسکتی ہے۔ دور کے راوی کی حدیث میں اتنی تحقیق نہیں ہوسکتی، لہٰذا صحت حدیث میں کمی آجائے گی۔

وجہ رابع:

امام بخاری صرف پہلے طبقہ کی حدیث بیان کرتے ہیں اور طبقہ ثانیہ میں سے انتخاب کرتے ہیں۔ امام مسلم طبقہ اولیٰ اور طبقہ ثانیہ کی تمام احادیث لاتے ہیں اور طبقہ ثالثہ میں سے انتخاب کرتے ہیں۔ اتصال سند میں امام بخاری کا مقام بلند ہے۔ امام بخاری راوی او رمروی عنہ میں لقاء کی شرط لگاتے ہیں، لیکن امام مسلم صرف معاصرت سے اتصال سند قبول کرلیتے ہیں، لقاء کی شرط نہیں لگاتے۔اتصال سند میں امام بخاری کی شرط قوی اور سخت ہے۔ امام سیوطی نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے یہ شرط اپنی کتاب میں حدیث درج کرنے کےلیے لگائی ہے، ورنہ صحت حدیث معاصرت سے ہی ثابت ہوجاتی ہے۔

مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی لکھا ہے کہ یہ صحت کی شرط نہیں، لیکن حافظ ابن حجر کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ لقاء والی شرط صحت حدیث کےلیے ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’واظہر البخاری ہذا المذہب فی تاریخہ وجریٰ علیہ فی صحیحہ۔‘‘

بہر حال چاروں صورتوں میں بخاری کی احادیث مسلم سے پختہ ہیں۔

نیز عدم علل کے لحاظ سے بھی بخاری کو مسلم پر زیادہ مقام حاصل ہے کیونکہ بخاری ومسلم کی کل منتقد علیہ روایات دو سو دس ہیں، ان میں سے 78 بخاری میں ہیں ۔ ان دلائل کی موجودگی میں کسی کے قول کو بلا دلیل کیسے قبول کیا جاسکتا ہے؟

اعتراض نمبر 3:

حافظ ابن حزم اور دیگر مغربی مشائخ مسلم کو بخاری سے افضل سمجھتے ہیں تو اس سے پتہ چلا کہ مسلم کو بخاری پر زیادہ مرتبہ حاصل ہے۔

جواب:

ایک چیز اصحیت ہے اور دوسری چیز افضلیت ہے۔ اصحیت کے لحاظ سے تو بخاری اصح ہے اور سیاق وسباق اور حسن ترتیب کے لحاظ سے مسلم افضل ہے۔

ان دلائل کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ کتب احادیث میں بخاری اصح کتاب ہے۔
مرآۃ البخاری از محدث نور پوری رحمہ اللہ
ص: 88 تا 103
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمہ اللہ حجة اللہ بالغة میں لکھتے ھیں..

" صحیح بخاری و مسلم کے بارے میں تمام محدثین متفق ھیں کہ ان میں تمام مرفوع و متصل احادیث یقیناً صحیح ھے اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک بالتواتر پہنچی ھیں جو ان کی عظمت نا کرے وہ "بدعتی" ھے مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلتا ھے اگر تجھے واضح حق چاھئے تو مصنف ابن ابی شیبة, طحاوی, اور مسند خوارزمی کا اس سے موازنة نا کر تو مشرق اور مغرب کی دوری پائے گا"

10369984_733862470017037_4396993907288929666_n.jpg
 
Top