• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::::::: صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافی حصے کی تحقیق :::::::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::::::: صحیح بخاری کی ایک روایت میں اضافی حصے کی تحقیق :::::::

بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم

بِسّم اللہِ و الحَمدُ لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہُ والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاء نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہُ

اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی بات کا انداز بیان اس میں کوئی اور بات شامل کر دیتا ہے اور سننے پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ ساری ہی بات ایک ہی شخصیت ، یا ایک ہی معاملے ، یا ایک ہی مسئلے کے بارے میں ہے ،
اس قسم کے مَیل جول (مکس اپ)کی مثال صحیح بخاری کی ایک روایت ہے ، جسے سمجھنے میں کچھ غلط فہمی ہوتی ہے اور کچھ لوگ اس ساری ہی روایت کی صحت اور اس میں بیان شدہ واقعات کے بارے میں مشکوک ہو جاتے ہیں ، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسی قسم کی نا سمجھی کی بنا پر صحیح بخاری یا ساری ہی کتب احادیث کے بارے میں مشکوک ہوجاتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ تحقیق کے بغیر ہی اپنے شکوک و شبہات کو حرفء آخر سمجھ کر ان کی تشہیر کرتے ہیں،
اور کچھ ایسے بھی ہیں جو شاید تحقیق و تاکید کی کوشش کرتے ہیں اور نامکمل معلومات حاصل کر کےیہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تحقیق مکمل کر لی ، اور اس روایت یا کسی بھی اور روایت یا مسئلے کے بارے میں ایک دو محقق أئمہ رحمہما اللہ کی کچھ باتوں کو اِسی طرح نا مکمل طور پر سمجھے بغیر اُس روایت یا مسئلے کے حل کی صحت کے بارے میں ، اور پھر اس کی بنا پر صحیح بخاری یا دیگر کتب احادیث کی صحت کے بارے میں، اور أئمہ کرام کے کلام کے بارے میں مشکوک اور پریشان ہو کر اپنے شکوک اور پریشانیوں کو نشر کرتے ہیں،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ہر شر سے محفوظ رکھے ،
اِن شاء اللہ ، میں اس مضمون میں صحیح بخاری کی اُس روایت کے بارے میں پائے جانے والے اِسی قسم کے شکوک کے اِزالے کی کوشش کرنے والا ہوں ، اور اِن شاء اللہ اُن نا مکمل معلومات کی تکمیل اور وضاحت بھی کروں گا جنہیں مجھ جیسے طالب علم تحقیق و تاکید کے دوران پا کر اس روایت کے ، اور صحیح بخاری کے بارے میں کچھ شکوک کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں ،
اُس روایت کو ’’’ حدیث بدء الوحی و فترتہ ‘‘‘ بھی کہا جاتاہے ، اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر وحی کے نزول کی ابتداء اور پھر اُس کے نزول میں آ جانے والی رکاوٹ کے واقعات کا بیان ہے ،
روایت درج ذیل ہے :::
[FONT=Al_Mushaf]أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِى النَّوْمِ ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ، فَكَانَ يَأْتِى حِرَاءً فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ - وَهْوَ التَّعَبُّدُ - اللَّيَالِىَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا ، حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهْوَ فِى غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ فَقَالَ اقْرَأْ . فَقَالَ لَهُ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم -[/FONT](((((([FONT=Al_Mushaf] فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِى فَغَطَّنِى حَتَّى بَلَغَ مِنِّى الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِى . فَقَالَ اقْرَأْ . فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ . فَأَخَذَنِى فَغَطَّنِى الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّى الْجَهْدَ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِى فَقَالَ اقْرَأْ . فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ . فَغَطَّنِى الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّى الْجَهْدُ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِى فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِى خَلَقَ ، حَتَّى بَلَغَ [/FONT][FONT=Al_Mushaf]مَا لَمْ يَعْلَمْ[/FONT])))))،
[FONT=Al_Mushaf] فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ [/FONT]((((([FONT=Al_Mushaf]زَمِّلُونِى زَمِّلُونِى[/FONT])))))[FONT=Al_Mushaf] ،[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf] فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ [/FONT](((((([FONT=Al_Mushaf]يَا خَدِيجَةُ مَا لِى[/FONT])))))[FONT=Al_Mushaf]وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ وَقَالَ [/FONT]((((([FONT=Al_Mushaf]قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِى[/FONT])))))،
[FONT=Al_Mushaf]فَقَالَتْ لَهُ كَلاَّ أَبْشِرْ ، فَوَاللَّهِ لاَ يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَقْرِى الضَّيْفَ ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ،[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf] ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَىٍّ - وَهْوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخُو أَبِيهَا ، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِى الْجَاهِلِيَّةِ ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِىَّ فَيَكْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِىَ ،[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf] فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَىِ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ . فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِى مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - مَا رَأَى فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِى أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى ، يَا لَيْتَنِى فِيهَا جَذَعًا أَكُونُ حَيًّا ، حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ ،[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf] فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - [/FONT]((((([FONT=Al_Mushaf]أَوَمُخْرِجِىَّ هُمْ[/FONT])))))[FONT=Al_Mushaf] ،[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf] فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِىَ ، وَإِنْ يُدْرِكْنِى يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا . ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّىَ ، وَفَتَرَ الْوَحْىُ فَتْرَةً، [/FONT]
[FONT=Al_Mushaf] حَتَّى حَزِنَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم ، [/FONT][FONT=Al_Mushaf]فِيمَا بَلَغَنَا[/FONT][FONT=Al_Mushaf] حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَىْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَىْ يُلْقِىَ مِنْهُ نَفْسَهُ ، تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا . فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ ، فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْىِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ ، فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ ،[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf] قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ( فَالِقُ الإِصْبَاحِ ) ضَوْءُ الشَّمْسِ بِالنَّهَارِ ، وَضَوْءُ الْقَمَرِ بِاللَّيْلِ[/FONT]
یہ واقعات صحیح بخاری میں تین مقامات پر منقول ہیں ،
::::::: (1) ::::::: صحیح البخاری حدیث رقم 3 ، کتاب بد الوحی ، باب 3 ،
یہاں اِس کی سند درج ذیل ہے :::
[FONT=Al_Mushaf]حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ۔رضی اللہ عنھا ۔ أَنَّهَا قَالَتْ[/FONT]
اور روایت یہاں تک ہے کہ :::
[FONT=Al_Mushaf]فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم [/FONT]((((([FONT=Al_Mushaf]أَوَمُخْرِجِىَّ هُمْ [/FONT])))))[FONT=Al_Mushaf] فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ ،لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِىَ ، وَإِنْ يُدْرِكْنِى يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا . ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّىَ وَفَتَرَ الْوَحْىُ .[/FONT]
::::::: (2) ::::::: صحیح البخاری حدیث رقم 4953 ، کتاب التفسیر ، میں سے (تفسیر ) - 96[FONT=Al_Mushaf]سورة اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِى خَلَقَ[/FONT]،،، میں سے پہلا باب بعنوان ، [FONT=Al_Mushaf]و قال قتیبہ[/FONT] ،
اس روایت کو امام بخاری رحمہُ اللہ نے دو اسناد کے ساتھ ذِکر کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں :::
[FONT=Al_Mushaf]حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ،[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf] حَدَّثَنِى سَعِيدُ بْنُ مَرْوَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِى رِزْمَةَ أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ سَلْمَوَيْهِ قَالَ حَدَّثَنِى عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ أَخْبَرَنِى ابْنُ شِهَابٍ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَتْ[/FONT]
اور یہ روایت بھی تقریباً پہلے ذِکر کردہ روایت والے ہی الفاظ پر ختم ہو جاتی ہے کہ :::
[FONT=Al_Mushaf]فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم [/FONT]((((([FONT=Al_Mushaf]أَوَمُخْرِجِىَّ هُمْ [/FONT])))))[FONT=Al_Mushaf] فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِىَ ، وَإِنْ يُدْرِكْنِى يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا . ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ [/FONT][FONT=Al_Mushaf]وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّىَ ، وَفَتَرَ الْوَحْىُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم[/FONT]
اس مذکورہ بالا دوسری روایت میں آخر میں سرخ رنگ سے ظاہر کیے گئے الفاظ کا اضافہ ہے ، جو کہ پہلی روایت سے کسی اختلاف والا مفہوم نہیں رکھتا ، بلکہ محض ایک اضافی خبر ہے ،
::::::: (3) ::::::: صحیح البخاری حدیث رقم 6982 ، کتاب التعبیر ، پہلا باب ،
یہی وہ روایت ہے جس کے سمجھنے میں مشکل کا اور جس میں بیان کردہ واقعے کے آخری حصے کے بارے میں شبہات کا اظہار ہوتا ہے ،
اس روایت کو بھی امام بخاری رحمہُ اللہ نے دو اسناد کے ساتھ ذِکر کیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں :::
[FONT=Al_Mushaf]حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ .[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]وَحَدَّثَنِى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِىُّ فَأَخْبَرَنِى عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ - رضى الله عنها -[/FONT]
یہ روایت بھی پہلے ذِکر کردہ دونوں روایات کی طرح ایک ہی واقعہ کا بیان لیے ہوئے ہے اور یہ تیسری روایت بھی دوسری روایت کے اختتام تک ، پہلی اور دوسری روایت کے جیسی ہی ہے ، کہ اِس میں کوئی اضافہ یا اختلاف نہیں ، یعنی تینوں ہی روایات یہاں تک تقریباً ایک ہی جیسی ہیں کہ :::
[FONT=Al_Mushaf]فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم [/FONT]((((([FONT=Al_Mushaf]أَوَمُخْرِجِىَّ هُمْ [/FONT])))))[FONT=Al_Mushaf] فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِىَ ، وَإِنْ يُدْرِكْنِى يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا . ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ [/FONT][FONT=Al_Mushaf]تُوُفِّىَ ، وَفَتَرَ الْوَحْىُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم[/FONT]
اِس کے بعد اِس تیسری روایت میں ایک اور خبر داخل ہے جو کہ اُس روایت کو غیر مناسب بناتی ہے ، اور سمجھنے والوں کے لیے مشکل کا سبب بنتی ہے ، وہ خبر روایت میں مذکور الفاظ کے مطابق درج ذیل ہے :::
[FONT=Al_Mushaf]فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَىْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَىْ يُلْقِىَ مِنْهُ نَفْسَهُ ، تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا . فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ ، فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْىِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ ، فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ . قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ ( فَالِقُ الإِصْبَاحِ ) ضَوْءُ الشَّمْسِ بِالنَّهَارِ ، وَضَوءُالْقَمَرِ بِاللَّيْلِ .[/FONT]
ان تینوں روایات کا مرکزی راوی امام ابن شہاب الزُھری رحمہُ اللہ ہیں ، آپ تینوں روایات کی اسناد کو دیکھیے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ امام ابن شہاب الزُھری رحمہُ اللہ سے یہ روایت تین مختلف راویوں نے کی ہے ،
(1) عقیل (بن خالد )رحمہُ اللہ ،
(2) یُونس بن یزید رحمہُ اللہ ،
(3) مُعمر (بن راشد الازدی) رحمہُ اللہ ،
اور تیسری روایت میں مذکور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والے حصے کا اضافہ صِرف اُس روایت میں ہے جو معمر رحمہُ اللہ نے بیان کی ہے ،
اس تیسری روایت کو امام بخاری رحمہ ُ اللہ نے دو اسناد کے ساتھ پیش کیا ہے ،
ایک سند تو عقیل کا ابن شھاب کے ذریعے بیان کرنا ہے ،
اور دوسری سند عبدالرزاق کا معمر کے ذریعے ، اور معمر کا ابن شھاب کے ذریعے بیان کرنا ہے ،
اور پہلی سند یعنی عقیل کا ابن شہاب کے ذریعے بیان کرنےوالی سند کے ذریعے امام بخاری رحمہُ اللہ نے یہ واقعہ اپنی صحیح میں دیگر دو روایات سے پہلے ‘‘‘ کتاب بد الوحی ، باب 3’’’میں روایت کیا ہے ، جس کا ذِکر میں نے اس مضمون میں بھی سب سے پہلی روایت کے طور پر کیا ہے،
اور اس پہلی روایت میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والے قصے کا کوئی ذِکر نہیں ، جِس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ یہ قصہ عقیل رحمہ ُ اللہ کی روایات میں سے نہیں ،
اس نکتے کی وضاحت امام ابن حجر العسقلانی رحمہ ُ اللہ نے کی ،
لہذاپہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والا یہ قصہ معمر رحمہُ اللہ کے بیانات میں سے ہے ،
امام ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے ‘‘‘‘‘ فتح الباری شرح صحیح البخاری / کتاب التعبیر کے پہلے باب(مجلد 12کے صفحہ رقم 450) ’’’’’ میں اِس قصے والی روایت کی شرح میں اِس قصے کی بڑی باریک بین تحقیق پیش کی ہے ، جس میں مذکورہ بالا نکتہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ‘‘‘‘‘[FONT=Al_Mushaf]وقوله هنا فترة حتى حزن النبي صلى الله عليه و سلم فيما بلغنا هذا وما بعده من زيادة معمر على رواية عقيل ويونس وصنيع المؤلف يوهم انه داخل في رواية عقيل[/FONT]::: اور یہاں راوی (امام الزہری رحمہُ اللہ )کا یہ کہنا کہ، وحی رک گئی یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم غمگین ہوئے ، اور جو کچھ (بات)ہم تک پہنچی ہے (اُس میں یہ خبر بھی ہے کہ)،،، اور اس کے بعد جو کچھ کہا ہے ، یہ سب باتیں معمر کی روایت میں سے عقیل اور یونس کی روایات پر اضافہ ہیں ، اور مؤلف (امام بخاری رحمہُ اللہ )کی طرف سے اس اضافی بات کو(روایت کے ساتھ ) یوں بیان کرنے سے (بظاہر عام نظر سے پڑھنےو الے قاری کو )یہ وھم ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں عقیل کی روایت میں (بھی )شامل ہیں’’’’’ ،
اور یہ بھی لکھا ہے کہ ‘‘‘‘‘ اس ثبوت سے زیادہ قوی ثبوت یہ ہے کہ ابتدائے وحی کے واقعہ والی یہ روایت امام ابو نعیم نے اپنی مستخرج میں بھی امام بخاری رحمہُ اللہ کے شیخ یحی بن بکیر رحمہُ اللہ کے ذریعے براستہ عقیل براستہ الزُہری روایت کی ہے ، اور اس میں بھی یہ اضافی قصہ نہیں ہے ’’’’’،
اور مزید بھی ایسے کئی نکات پیش کیے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ، یہ اضافی قصہ صرف معمر بواسطہ الزہری والی روایت میں ہی ہے اور اس قصہ کی کوئی سند اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا تک میسر نہیں ، اور نہ ہی عبداللہ ابن عناس رضی اللہ عنہما کی روایت کے طور پر ثابت ہوتا ہے ،
اِس لیے ، اِس روایت میں سے صِرف یہ قصہ بطور حدیث ثابت نہیں ہوتا ،
امام الالبانی رحمہُ اللہ نے اپنی ‘‘‘ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ /حدیث رقم 1052، اور حدیث رقم 4858 ’’’ میں سابقہ أئمہ محدثین رحمہم اللہ کی تحقیق کو مد نظر رکھتے ہوئے اِس روایت کے آخری اضافی حصے کی روایات اور ان کی اسناد کی مزید تحقیق پیش کی ہے ،
جِس میں اُس روایت کی بھی تحقیق ہے جو عبدا للہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی کی گئی ہے ، کہ وہ روایت بھی کمزور ہے ، میں یہاں اُس روایت کا ، اور اس کی تحقیق کا ذِکر کر کے مضمون کو مزید بوجھل نہیں بنانا چاہتا ، لہذا اِن شاء اللہ ، بات کو صرف صحیح بخاری کی اس کتاب التعبیر والی روایت کے بارے میں ہی بات تک ہی محدود رکھوں گا ،
اِن أئمہ کرام رحمہما اللہ کی تحقیق کا حاصل کلام یہ ہے کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والے اضافی قصے کا بیان معمر رحمہُ اللہ کا اپنا نہیں ہے ، بلکہ اِمام الزُہری رحمہ ُ اللہ کا ہے ، جو کہ معمر رحمہُ اللہ نے امام الزُہری رحمہُ اللہ سے سنا ، اور اِمام الزُہری نے بھی کسی سے سُنا ہے لیکن اُس کی سند ذِکر نہیں کی ، اس لیے یہ قصہ صرف اسی روایت میں درج ہوا جو روایت معمر رحمہُ اللہ کی امام الزُہری کے ذریعے بیان شدہ ہے،
اور یہ قصہ امام الزُہری رحمہُ اللہ نے بھی کسی سے سُنا ، جس کا اظاہر انہوں نے ‘‘‘[FONT=Al_Mushaf]فیما بلغنا[/FONT]::: جو کچھ (بات)ہم تک پہنچی ہے اُس میں (یہ خبر بھی ہے کہ ) ’’’ کہہ کر کیا، اور اِس مجہول انداز میں اُس قصے کو نقل کیا ، کسی راوی کا نام ذِکر نہیں فرمایا ،
محترم قارئین کرام ، یہ بات تو اسلامی علوم کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ قران کریم کے علاوہ اللہ تعالیٰ ، اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور ان کے بعد میں آنے والے أئمہ اور علماء کرام سے منسوب ایسی کسی بات، ایسے کسی فعل کی درستگی تسلیم نہیں کی جا سکتی جس کی کوئی سند ہی منقول نہ ہو ،
سند موجود ہونے ، اور پھر اُس کی درستگی کے بعد ہی متن کی درستگی کی پرکھ کا کوئی اور سلسلہ شروع ہونے کا امکان ہوتا ہے ، کیونکہ اگر کوئی ایسا متن سنداً ہی ثابت نہیں ہوتا تو پھر اس کی درستگی اور نا درستگی کے بارے میں بات کرنا اپنا اور دوسروں کے وقت کا ضیاع ہی ہے ،اور ایسی کسی غیر ثابت شدہ بات کی شرح اور تفسیر کرنے کروانے میں بھی وقت لگانا کچھ فائدہ مند نہیں ،
پس ، اِس صحیح بخاری کی اس روایت میں مذکور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والے واقعہ کا بیان ایسا ہے جو کہ امام الزھری نے بلا سند بیان کیا ہے ،لہذا یہ قصہ إمام الزُہری رحمہُ اللہ کے مراسیل میں سے ہوا ، اور تابعی بالخصوص بعد کے زمانے والے (صغار التابعین)کی مرسل روایات کمزور مانی جاتی ہیں ، پس قصہ صحیح ثابت شدہ نہیں ،اور اس قصہ کی کوئی صحیح ثابت شدہ گواہی بھی نہیں ملتی ،
لہذا یہ قصہ درست نہیں ، اور صحیح بخاری کی اس روایت میں یہ قصہ‘‘‘ مدرجہ ’’’ ہے ، یعنی راوی کی طرف سے حدیث کے متن میں ایسا اضافہ ہے جو بذات خود اُس حدیث کا حصہ نہیں ہے ،
یہاں تک یہ بات تو واضح ہوئی کہ یہ واقعہ درست نہیں ، لیکن صحیح بخاری ، امام بخاری رحمہُ اللہ اور ان کے راویوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے ، یہ سوال جوں کےتُوں ہی رہے کہ :::
:::::: امام ابن شہاب الزُہری رحمہُ اللہ نے یہ واقعہ اِس انداز میں کیوں ذِکر کیا ؟؟؟
:::::: اور امام بخاری رحمہ ُ اللہ نے ایسا بلا سند واقعہ کیوں اپنی ‘‘‘صحیح ’’’ میں روایت کیا ؟؟؟
:::::: پہلے سوال کا جواب میں کچھ معمولی سے تفصیل کے ذریعے حافظ راوی کی مرسل روایت کے اسباب جاننے کی ضرورت ہے ،
میں نے ابھی ابھی کہا ہے کہ تابعین رحمہم اللہ اور بالخصوص صغار التابعین یعنی بعد کے زمانے والے تابعین رحمہم اللہ کی مرسل روایات قابل قبول نہیں ہوتیں ، اور خاص طور پر ایسے راوی کی جس کا حافظہ مضبوط رہا ہو ، اب ہمارے سمجھنے کی بات جو کہ ہمارے مذکورہ بالا سوالات میں سے پہلے سوال کا جواب ہے ، وہ یہ ہے کہ تابعین رحمہم اللہ کی طرف سے مرسل روایات کے اسباب کیا ہوتے تھے؟
امام یحی بن سعید القطان رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ ‘‘‘‘‘[FONT=Al_Mushaf]مُرسل الزهري شرٌّ من مرسل غيره ؛ لأنه حافظ، وكلما قدر أن يُسَمِّيَ سَمَّى، وإنما يترك من لا يحسن أو يستجيز أن يُسَمِّيَه[/FONT] ::: ز ُہری کی مُرسل روایت کسی اور کی نسبت زیادہ غیر مناسب ہے کیونکہ ز ُہری حافظ تھے ، اور جب بھی اُنہوں نے (کسی راوی کا)نام لینا چاہا نام لیا ، ز ُہری صرف کسی ایسے ہی راوی کا نام نہیں لیتے تھے جِس راوی (کے حفظ )کو وہ مضبوط نہ سمجھتے تھے ، یا کسی اور سبب سے اُس کا نام ظاہر کرنا مناسب نہ سمجھتے تھے’’’’’، تاریخ مدینہ دمشق ، للابن ھبۃ اللہ ،
اسی قسم کی وضاحت امام ابن رجب رحمہُ اللہ نے بھی، امام یحی بن سعید القطان رحمہُ اللہ کے اقوال کی شرح کرتے ہوئے کی ہے کہ ‘‘‘‘‘[FONT=Al_Mushaf]أن الحافظ إذا روى عن ثقة لا يكاد يترك اسمه ، بل يسميه ، فإذا ترك اسم الراوي دل إبهامه على أنه غير مرضي ، وقد كان يفعل ذلك الثوري وغيره كثيراً ، يكنون عن الضعيف ولا يسمونه ، بل يقولون : عن رجل )) . وهذا معن قول القطان : (( لو كان فيه إسناد لصاح به )) . يعني لو كان أخذه عن ثقة لسماه وأعلن باسمه[/FONT]:::جب کوئی حافظ راوی کسی با اعتماد راوی کی روایت بیان کرتاہے تو اُس کا نام بتانا ترک نہیں کرتا ، بلکہ اُس کا نام بتاتا ہے ، اور اگر کوئی حافظ راوی (روایت بیان کرتے ہوئے اُس کے ) راوی کا نام نہ بتائے تو اس حافظ راوی کا یہ مبہم انداز اِس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ (جس راوی کا نام یہ حافظ بتا نہیں رہا ) وہ روای (اس حافظ کے مطابق ) قابل اعتماد نہیں ، اور (امام سفیان )الثوری ، اور دیگر کئی (حافظ راوی )اس طرح (بھی روایات بیان) کیا کرتے تھے ، کہ کسی کمزور راوی کا نام لینے کی بجائے اشارۃ ً ذِکر کرتے ، جیسا کہ ‘کسی شخص نے بتایا ’ وغیرہ کہہ دیتے ،
اور یہ ہی معنی ہے (امام یحی بن) القطان کی اس بات کا کہ‘‘‘ اگر کسی مُرسل بات کے لیے (اچھی صالح) سند ہوتی تو وہ (حافظ راوی)اُس سند کو بآواز بلند ذِکر کرتے ’’’ ، یعنی اگر مُرسل روایت بیان کرنے والے حافظ راوی نے وہ روایت کسی با اعتماد راوی سے سنی ہوتی تو ضرو ر اُس راوی کا نام لیتا ، اور (بلکہ) اُس راوی کے نام کا اعلان کرتا’’’’’، شرح علل الترمذی ، اِمام عبدالرحمٰن بن احمد ابن رجب ،
پس ، کسی سچے ، با اعتماد راوی کی طرف سے، کسی موضوع سے متعلق کوئی خبر بغیر سند کے سنانا عموماً اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اِس موضوع سے متعلق یہ خبر بھی ہے ، لیکن اس کی درستگی اُن کے پاس اچھی طرح سے ثابت نہیں ہے ، اسی لیے وہ کسی راوی کا نام نہ لیتے ، اور خبر اس لیے سناتے اگر کہیں بعد میں اس خبر کی درستگی یا نا درستگی کا پتہ کیے جانے پر کام کیا جائے تو میری یہ بات میں مددگار ہو سکے ،
اور یہی سبب ہے کہ اِمام الزہری رحمہ ُ اللہ نے ، پہاڑوں کی چوٹیوں پر جانے والا قصہ جو اِس طرح مجھول انداز میں ذِکر کیا ہے تو یہ اُن کی طرف سے اِس قصے کی نا درستگی کی طرف اشارہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:::::: دوسرے سوال کا جواب دو حصوں میں جانیے ،
:::::: پہلا حصہ تو یہ مذکورہ بالا پہلے سوال کا جواب ہی ہے ،
:::::: اور دوسرے حصے میں بالخصوص امام بخاری رحمہُ اللہ کے علمی اور اخلاقی منھج بارے مطابق یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ امام بخاری رحمہ ُ اللہ کی بہترین اور عمیق فقہ کے حِکمت والا اندازء رَد رہا ہے کہ وہ کسی روایت کے بعد میں کسی ایسی بات کا ذِکر کرتے ہیں جو کہ اُس صحیح روایت کے خلاف ہوتا ہے ، یعنی ، اُس صحیح روایت کو دلیل بنا کر وہ اُس بات کو غلط ثابت کرتے ہیں ،
اِس کی ایک مثال تو ‘‘‘‘‘صحیح البخاری کی پہلی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ، الحمد للہ یہ حدیث شریف قران حکیم کے عین مطابق ہے’’’’’میں پیش کر چکا ہوں ،
اُمید ہے کہ اِن شاء اللہ یہ سب مذکورہ بالا معلومات یہ جاننے، اور سمجھنے کے لیے کافی ہوں گی ، کہ اس مضمون میں زیر مطالعہ لائی گئی صحیح بخاری کی وحی کی ابتداء اور پھر وحی کے نزول میں رکاوٹ کے زمانے کے واقعات سے متعلق یہ روایت جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا دکھ کی وجہ سے پہاڑوں کی چوٹیوں پر تشریف لے جانے کےقصے کا ذِکر ہے ، یہ روایت ، اِس قصے کے ذِکر کے علاوہ امام بخاری رحمہ ُ اللہ کی شرائط ، اور امام مسلم رحمہُ اللہ شرائط کے مطابق بالکل صحیح ثابت شدہ ہے ،و للہ الحمد ،
اور اس طرح یہ شک بھی دُور ہو جاتا ہے کہ اِمام بخاری رحمہُ اللہ نے اپنی صحیح میں کوئی ضعیف روایت بھی بطور صحیح روایت لکھی ہے ، اور یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایسی چند ایک روایات جو صحیح بخاری میں تو ہیں لیکن امام بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح نہیں ہیں ، وہ روایات اِمام بخاری نے اُن روایات پر رد کرتے ہوئے ذِکر کی ہیں ۔ و الحمد للہ ، الذی لا تتم الصالحات الا بعونہ ،
آخر میں ، اس ضروری نکتے کی طرف آپ سب کی مکمل توجہ مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سب تحقیقات اس معاملے کی واضح گواہی ہیں کہ ہمارے محدثین کرام رحمہم اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے منسوب روایات کو یُوں ہی جمع نہیں کر چھوڑا ، بلکہ انتہائی باریک بینی اور جانفشانی سے ان روایات کو پرکھا ہے حتیٰ کہ ان کے اجزاء تک کو بھی پرکھا ہے ، لہذا خوب یاد رکھیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے آخری دِین ، آخری شریعت کے دوسرے مصدر ، سُنّتء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پرکھ ، صفائی اور حفاظت کے لیے بہت عظیم الشان کام لیا ہے ، اور لے رہا ہے ،
اگر کوئی اپنی جہالت ، نالائقی یا ضد اور تعصب کی وجہ سے محدثین کرام رحمہم اللہ کی محنتوں کو سمجھتا نہ ہو ، یا سمجھ کر بھی نا سمجھ بنتا ہو تو وہ اُس شخص میں کمی اور نقص کی علامات میں سے ہے ، بلکہ اگر اسی حال میں مر جائے تو آخرت کی زندگی میں اُس کی بد بختی کی علامات میں سے ہے ،
کسی شخص کی جہالت ، نالائقی ، ضد ، تعصب ، خودپرستی ،وغیرہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے کام میں کمی یا نقص کی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی روایات حدیث کو بالکلیہ رد کردینے کی کوئی دلیل ہے ، اور نہ ہی صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ پر اعتراضات وارد کرنے یا اُن کا انکار کرنے کی کوئی سبب ہے ،
اللہ جلّ و علا ، ہم سب کو ، اور ہمارے ہر مسلمان بھائی اور بہن کو اُس کا دِین اُسی طرح سمجھنے ، اپنانے اور اُس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے جِس طرح اللہ نے یہ دِین اپنے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک پر نازل فرمایا ، اور اُن کی ذات مبارک کے اقوال ، افعال اور تقاریر کے ذریعے اُس کی شرح ، تفسیر اور تکمیل فرمائی ، اور اسی کے عین مطابق عمل پیرائی کی حالت میں موت نصیب فرمائے ، والسلام علیکم۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جزاکم اللہ خیرا۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کئی کتب میں مذکورہ اضافی حصہ کو غلط قراردیاہے ، میں نے بہت پہلے درج ذیل لنک پر علامہ البانی رحمہ اللہ کے حوالے سے تفصیل پیش کی تھی :
http://www.kitabosunnat.com/forum/دفاع-حدیث-503/نبی-کریم-ﷺ-کا-خود-کشی-کا-ارادہ-اور-منکرین-حدیث-7126/index2.html#post46037

یاد رہے کہ جب یہ اضافی حصہ غیرثابت ہے توخاص اس کا حوالہ دیتے ہوئے علی الاطلاق یہ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ ’’اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے‘‘۔
ہاں بقیہ روایت کے لئے اس طرح کہنا درست ہوگا۔
کیونکہ کسی روایت سے متعلق جب علی الاطلاق یہ جملہ بولا جائے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ امام بخاری نے متعلقہ روایت کو اپنی صحیح میں مسندا روایت کیا ہے۔
اورچونکہ مذکورہ اضافی حصہ کو امام بخاری نے مسندا روایت نہیں کیا ہے لہٰذا اس کے لئے علی الاطلاق ’’رواہ البخاری‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔

ایک صاحب نے اسی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا:
قال ( ١ / ٥٥) : ( وجزع النبي صلى الله عليه وسلم بسبب ذلك جزعا عظيما حتى أنه كان يحاول - كما يروي الإمام البخاري - أن يتردى من شواهق الجبال ) [دفاع عن الحديث النبوي ص: 40]
تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کا رد کرتے ہوئے کہا:
قلت : هذا العزو للبخاري خطأ فاحش ذلك لأنه يوهم أن قصة التردي هذه صحيحة على شرط البخاري وليس كذلك وبيانه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[دفاع عن الحديث النبوي ص: 40]۔

تفصیل کے لئے اوپردیا گیا لنک دیکھئے۔
بارک اللہ فیکم۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
جزاکم اللہ خیرا۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کئی کتب میں مذکورہ اضافی حصہ کو غلط قراردیاہے ، میں نے بہت پہلے درج ذیل لنک پر علامہ البانی رحمہ اللہ کے حوالے سے تفصیل پیش کی تھی :
http://www.kitabosunnat.com/forum/دفاع-حدیث-503/نبی-کریم-ﷺ-کا-خود-کشی-کا-ارادہ-اور-منکرین-حدیث-7126/index2.html#post46037

یاد رہے کہ جب یہ اضافی حصہ غیرثابت ہے توخاص اس کا حوالہ دیتے ہوئے علی الاطلاق یہ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے کہ ’’اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے‘‘۔
ہاں بقیہ روایت کے لئے اس طرح کہنا درست ہوگا۔
کیونکہ کسی روایت سے متعلق جب علی الاطلاق یہ جملہ بولا جائے تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ امام بخاری نے متعلقہ روایت کو اپنی صحیح میں مسندا روایت کیا ہے۔
اورچونکہ مذکورہ اضافی حصہ کو امام بخاری نے مسندا روایت نہیں کیا ہے لہٰذا اس کے لئے علی الاطلاق ’’رواہ البخاری‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔

ایک صاحب نے اسی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا:


تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کا رد کرتے ہوئے کہا:
قلت : هذا العزو للبخاري خطأ فاحش ذلك لأنه يوهم أن قصة التردي هذه صحيحة على شرط البخاري وليس كذلك وبيانه ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[دفاع عن الحديث النبوي ص: 40]۔

تفصیل کے لئے اوپردیا گیا لنک دیکھئے۔
بارک اللہ فیکم۔
[FONT=&amp]السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ، [/FONT]
[FONT=&amp]جزاک اللہ خیرا، محترم بھائی کفایت اللہ صاحب ، [/FONT]
[FONT=&amp]آپ کی نصیحت دُرست ہے ، یقیناً ہمیں کوئی بھی بات کسی سے بھی منسوب کرنے سے پہلے اُس کے بارے میں اچھی طرح سے چھان بین کرنا ہی چاہیے ، [/FONT]
[FONT=&amp]میں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا کر خود کشی کی کوشش کرنے والے قصے کے بارے میں جو یہ لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہُ اللہ نے اسے روایت کیا ہے تو اس لیے کہ واقعتاً ایسا ہی تو ہے ، [/FONT]
[FONT=&amp]اور اس لیے کہ اس قصے کی روایت کو امام بخاری سے منسوب کرنے سے پہلے اس کی ساری حقیقت بھی بیان کی ہے ، پس وہ سب کچھ پڑھنے کے بعد کسی قاری کے ذہن میں وہ شک پیدا نہیں ہونا چاہیے جِس شک کی بنا پر امام الالبانی رحمہُ اللہ نے ، داکٹر محمد سعید البوطی کی کتاب فقہ السیرہ میں اُس ڈاکٹر کی طرف سے لکھی گئی غلط باتوں میں سے ایک بات کے رد میں لکھا :::[/FONT]
[FONT=&amp][[[[[[/FONT][FONT=Al_Mushaf]قلت : هذا العزو للبخاري خطأ فاحش ذلكَ لأنَّهُ يُوهَم أنَّ قصةَ التردي هذهِ صحيحةٌ علىٰ شرطِ البُخاري وليس كذلك وبيانهُ أنَّ البُخاريُ أخرجَها[/FONT][FONT=Al_Mushaf]في آخر حديث عائشة في بدء الوحي الذي ساقه الدكتور ( 1 / 51 - 53 ) وهو عند البخاري في أول ( التعبير )[/FONT][FONT=&amp] ]]]]][/FONT]
[FONT=&amp]اور دوسری بات یہ کہ امام الالبانی رحمہُ اللہ کی اسی عبارت میں اس قصے کو امام بخاری رحمہُ اللہ کی روایت کے طور پر اُن سے منسوب کرنے کو غلطی کہنے کا سبب بھی تو مذکور ہے کہ:::[/FONT]
[FONT=&amp][[[[[[/FONT][FONT=Al_Mushaf]ذلكَ لأنَّهُ يُوهَم أنَّ قصةَ التردي هذهِ صحيحةٌ علىٰ شرطِ البُخاري[/FONT][FONT=&amp] ]]]]][/FONT]
[FONT=&amp]اور پھر اسی عبارت میں امام الالبانی رحمہُ اللہ نے اس نا درست قصے کی وضاحت کی بات شروع کرتے ہوئے خود بھی اس قصے کو امام بخاری سے ہی منسوب کیا ہے [[[[[[/FONT][FONT=Al_Mushaf]وبيانهُ أنَّ البُخاريُ أخرجَها[/FONT][FONT=&amp] ]]]]][/FONT]
[FONT=&amp]پس امام الالبانی رحمہ ُ اللہ کی اس عبارت میں سے ہی یہ سبق ملتا ہے کہ اس قسم کی روایت کی حقیقت کے بیان کے لیے اِس کو اُس محدث سے ہی منسوب کیا جائے گا جس نے اس کا اخراج کیا ، یا جس کی روایت کا مطالعہ ہو رہا ہے ، [/FONT]
[FONT=&amp]دیکھیے تو امام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے اُس قصے کی حقیقت بیان کرنے سے پہلے ہی اُسے امام بخاری سے ہی منسوب کیا ہے ،[/FONT]
[FONT=&amp]اور اسی کے مطابق امام الالبانی رحمہُ اللہ نے اسی قصے کا ذِکر کرتے ہوئے اسے مزیدصراحت کے ساتھ امام بخاری رحمہُ اللہ کا اپنی صحیح میں روایت کرنے کا ذِکر فرمایا ہے :::[/FONT]
[FONT=&amp][[[[[[/FONT][FONT=Al_Mushaf]وهَكذا أَخرجهُ البُخاريُ في أولِ [/FONT][FONT=Al_Mushaf]’’’[/FONT][FONT=Al_Mushaf] التعبير[/FONT][FONT=Al_Mushaf]‘‘‘[/FONT][FONT=Al_Mushaf] مِن [/FONT][FONT=Al_Mushaf]’’’[/FONT][FONT=Al_Mushaf]صَحيحهِ [/FONT][FONT=Al_Mushaf] ‘‘‘ [/FONT][FONT=&amp]]]]]][/FONT]
[FONT=&amp]([/FONT][FONT=Al_Mushaf]سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة،حدیث [/FONT][FONT=&amp]1052[/FONT][FONT=&amp])[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]و قال :::[/FONT]
[FONT=&amp][[[[[[/FONT][FONT=Al_Mushaf]واعلم أن هذه القصة الباطلة قد وقعت في حديث عائشة في حكايتها رضي الله عنها قصة بدء نزول الوحي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ، مدرجة فيه عند بعض مخرجيه ، [/FONT][FONT=Al_Mushaf]و وقعت في [/FONT][FONT=Al_Mushaf]’’’[/FONT][FONT=Al_Mushaf]صحيح البخاري[/FONT][FONT=Al_Mushaf]‘[/FONT][FONT=Al_Mushaf]‘[/FONT][FONT=Al_Mushaf]‘[/FONT][FONT=Al_Mushaf] عن الزهري بلاغاً ؛ فقد أخرجه[/FONT][FONT=Al_Mushaf]، من طريق عقيل ومعمر عن ابن شهاب الزهري عن عروة عنها ؛ وجاء في آخر الحديث :[/FONT]
[FONT=&amp]‘‘‘[/FONT][FONT=Al_Mushaf]وفتر الوحي فترة ؛ حتى حزن النبي - صلى الله عليه وسلم - - فيما بلغنا - حزناً غدا منه مراراً كي يتردى من رؤوس شواهق الجبال ...[/FONT][FONT=&amp]’’’[/FONT][FONT=Al_Mushaf] الحديث نحو رواية الواقدي .[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]وظاهر سياق الحديث في [/FONT][FONT=&amp]‘‘‘[/FONT][FONT=Al_Mushaf]البخاري[/FONT][FONT=&amp]’’’[/FONT][FONT=Al_Mushaf] أن هذه الزيادة من رواية عقيل ومعمر كليهما ! لكن حقق الحافظ أنها خاصة برواية معمر ؛ بدليل أن البخاري قد ساق في أول [/FONT][FONT=&amp]‘‘‘[/FONT][FONT=Al_Mushaf]الصحيح[/FONT][FONT=&amp]’’’[/FONT][FONT=Al_Mushaf] رواية عقيل ، وليس فيها هذه الزيادة[/FONT][FONT=&amp]]]]]][/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]فبین لنا من کلام الامام الالبانی رحمہُ اللہ و مِن صنیعہ أن العزو ھذہ الروایۃ الی الامام البخاری لیس بخطاء بشرط ان یکون بیانہ معہ، وللہ الحمد ، فاننی ما أتیتُ بشی ء من عندی و لم اُخالف علماءنا رحمھم اللہ و حفظھم جمعیاً ، [/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]یا اخی الکریم انی أشکرک و أدعو لک لما قدمت لی من النصیحۃ و ھل جزاء الاحسان الا الاحسان، فانصحک أن لا تفتح مثل ھذہ المناقشات أمام الجماھیر ، إلا بعد أن تبین علیک أنَّ الذی قدمت لہُ النصیحۃ لا یقبل نصیحتک و یصرّ علی خطاءہ ، إن کان مخطئاً ، [/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]و قد قال الشاعر الحکیم الامامٌ علیم محمد بن إدریس الشافعی رحمہُ اللہ :::[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]تَعَمَّدني بِنُصْحِكَ في انْفِرَادِي [/FONT][FONT=&amp]:::[/FONT][FONT=Al_Mushaf] وجنِّني النصيحةَ في الجماعه[/FONT][FONT=Al_Mushaf]
[/FONT][FONT=Al_Mushaf]فَإِنَّ النُّصْحَ بَيْنَ النَّاسِ نَوْعٌ [/FONT][FONT=&amp]:::[/FONT][FONT=Al_Mushaf] من التوبيخِ لا أرضى استماعه[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]وَإن خَالَفتنِي وَعَصَيتَ قَولی [/FONT][FONT=&amp]::: [/FONT][FONT=Al_Mushaf] فَلاَ تَجْزَع إذَا لَم تُعطَ طَاعَه[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]و رویَ عنہُ ایضاً انہ قال [/FONT][FONT=&amp]:::[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]‘‘‘مَن وعظَ أخاهُ سِرّاً فقد نَصحهُ وزانهُ، ومَن وعظَهُ عَلانية ًفقد فضحَهُ وشانَه ’’’[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]و روی ان الامام یحیی بن معین قال [/FONT][FONT=&amp]:::[/FONT]
[FONT=&amp]‘‘‘[/FONT][FONT=Al_Mushaf]ما رأيتُ على رجلٍ خطأً إلا سترته ، وأحببتُ أن أزين أمره ، وما استقبلتُ رجلاً في وجهه بأمر يكرهه،ولكن أبين له خطأه فيما بيني وبينه، فإن قبل ذلك وإلاَّ تركته ’’’[/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]و کلام السلف رحمہم اللہ فی امر النصیحۃ کثیر و کثیر جِداً الذی یدل علی ان النصیحۃ إمام الناس فضیحۃ ، [/FONT]
[FONT=Al_Mushaf]و أسواء من ھذہ کلھا ، أن النصیحۃ کمثل ھذہ النصیحۃ لا تکون فضیحۃ لاحدنا فقط ،،، بل ھی تفضحنا جمعیاً عند الذین یخالفوننا حیث توفر لھم الفرصۃ لیقولون عنا ان کلمتنا لا تجمع، و لا حول و لا قوۃ الا باللہ ، [/FONT]
[FONT=Al_Mushaf] و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔[/FONT]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
وایاکم جزی اللہ خیرا۔
عادل بھائی غالبا آپ کو ایسا لگا کہ میں نے بالا مراسلہ آپ کے مضمون کے کسی حصہ پر تعاقب کیا ہے ، جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے ، بالا مراسلہ لکھتے وقت میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ میں آپ کی تحریر کے کسی حصہ پر تعاقب کررہا ہوں ، میرا عام طور پر اصول ہے کہ مضمون کے کسی خاص حصہ پر مناقشہ مقصود ہوتا ہے تو میں متعلقہ حصہ مقتبس کرکے اپنی بات رکھتاہوں ، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سابقہ مراسلہ میں میں نے کوئی اقتباس نہیں لیا ہے۔
دراصل میں نے عمومی طور بطور فائدہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک بات رکھی ہے ، اوریہ بتانا چاہا ہے کہ بخاری میں مذکورہ روایت کے اضافی حصہ کے لئے علی الاطلاق یہ نہ کہا جائے کہ اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے ، بس یہ کہنا مقصود تھا ، اور روئے سخن آپ کی طرف بالکل نہ تھا ، کیونکہ آپ کی تحریر تو پورا ایک مضمون ہے جس میں پوری تفصیل موجود ہے یہاں پر تو غلط فہمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اصل پیچیدگی تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی بغیر تفصیل کے مختصرا یہ کہہ دے کہ اسے بخاری نے روایت کیا ہے ، اسی چیز پر تنبیہ مقصود تھی ۔

بارک اللہ فیکم۔
 
Top