• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح بخاری کی ایک روایت کے متعلق سوال

صہیب منصور

مبتدی
شمولیت
جون 20، 2017
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
29
صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ایک طویل واقعہ بیان ہوا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام، جب کہ وہ شیر خوار تھے، اور ہاجرہ علیہا السلام کو مکہ کے ریگستان میں تنہا چھوڑ کر واپسی اختیار کی اور پھر پانی کی تلاش میں ہاجرہ علیہ السلام صفا و مروہ کے درمیان سات مرتبہ چکر لگاتی ہیں،،
اس واقعہ کے بابت دعوۃ القرآن تفسیر کے مفسر شمس پیرزادہ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ قرآن سے مطابقت رکھتا ہے نہ قرین قیاس ہے اور پیرزادہ صاحب نے اسے '' عجیب و غریب قصہ،، سے تعبیر کیا ہے، پھر انھوں نے آگے چل کر ابن کثیر رحمہ اللہ کی کتاب بدایہ و النہایہ کا حوالہ بھی اپنے حق میں دینے کی کوشش کی ہے کہ ابن کثیر نے بھی اس واقعے کے متعلق لکھا ہے کہ اسے ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اسرائیلیات سے لیا ہے -
اسی طرح انھوں نے سلمان ندوی صاحب کی کتاب ارض القرآن کا بھی حوالہ دیا ہے کہ یہ واقعہ من گھڑت ہے
سوال یہ ہے کہ اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے اور سندا یہ روایت کس درجہ کی ہے؟
جزاکم اللہ خیرا
خضر حیات بھائی
ابن داؤد بھائی
اسحاق سلفی بھائی

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اس واقعہ کے بابت دعوۃ القرآن تفسیر کے مفسر شمس پیرزادہ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ قرآن سے مطابقت رکھتا ہے نہ قرین قیاس ہے
پیرزادہ صاحب نے اپنی تفسیر کے کس مقام پر اس واقعہ کے متعلق لکھا ہے ، یعنی کس سورت اور آیت کی تفسیر میں لکھا ہے
تاکہ ان کا اصل کلام دیکھ کر جواب دیا جاسکے ۔شکریہ
 

صہیب منصور

مبتدی
شمولیت
جون 20، 2017
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
29
پیرزادہ صاحب نے اپنی تفسیر کے کس مقام پر اس واقعہ کے متعلق لکھا ہے ، یعنی کس سورت اور آیت کی تفسیر میں لکھا ہے
تاکہ ان کا اصل کلام دیکھ کر جواب دیا جاسکے ۔شکریہ
سورہ ابراہیم آیت 37 کے ذیل میں!!

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صحیح بخاری(3364 ) میں سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور جناب اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ
امام بخاریؒ فرماتے ہیں :

وحدثني عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن أيوب السختياني، وكثير بن كثير بن المطلب بن أبي وداعة، يزيد أحدهما على الآخر، عن سعيد بن جبير، قال ابن عباس: أول ما اتخذ النساء المنطق من قبل أم إسماعيل، اتخذت منطقا لتعفي أثرها على سارة، ثم جاء بها إبراهيم وبابنها إسماعيل وهي ترضعه، حتى وضعهما عند البيت عند دوحة، فوق زمزم في أعلى المسجد، وليس بمكة يومئذ أحد، وليس بها ماء، فوضعهما هنالك، ووضع عندهما جرابا فيه تمر، وسقاء فيه ماء، ثم قفى إبراهيم منطلقا، فتبعته أم إسماعيل فقالت: يا إبراهيم، أين تذهب وتتركنا بهذا الوادي، الذي ليس فيه إنس ولا شيء؟ فقالت له ذلك مرارا، وجعل لا يلتفت إليها، فقالت له: آلله الذي أمرك بهذا؟ قال نعم، قالت: إذن لا يضيعنا، ثم رجعت، فانطلق إبراهيم حتى إذا كان عند الثنية حيث لا يرونه، استقبل بوجهه البيت، ثم دعا بهؤلاء الكلمات، ورفع يديه فقال: رب {إني أسكنت من ذريتي بواد غير ذي زرع عند بيتك المحرم} [إبراهيم: 37]- حتى بلغ - {يشكرون} [إبراهيم: 37] " وجعلت أم إسماعيل ترضع إسماعيل وتشرب من ذلك الماء، حتى إذا نفد ما في السقاء عطشت وعطش ابنها، وجعلت تنظر إليه يتلوى، أو قال يتلبط، فانطلقت كراهية أن تنظر إليه، فوجدت الصفا أقرب جبل في الأرض يليها، فقامت عليه، ثم استقبلت الوادي تنظر هل ترى أحدا فلم تر أحدا، فهبطت من الصفا حتى إذا بلغت الوادي رفعت طرف درعها، ثم سعت سعي الإنسان المجهود حتى جاوزت الوادي، ثم أتت المروة فقامت عليها ونظرت هل ترى أحدا فلم تر أحدا [ص:143]، ففعلت ذلك سبع مرات، قال ابن عباس: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «فذلك سعي الناس بينهما» فلما أشرفت على المروة سمعت صوتا، فقالت صه - تريد نفسها -، ثم تسمعت، فسمعت أيضا، فقالت: قد أسمعت إن كان عندك غواث، فإذا هي بالملك عند موضع زمزم، فبحث بعقبه، أو قال بجناحه، حتى ظهر الماء، فجعلت تحوضه وتقول بيدها هكذا، وجعلت تغرف من الماء في سقائها وهو يفور بعد ما تغرف. قال ابن عباس: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " يرحم الله أم إسماعيل، لو تركت زمزم - أو قال: لو لم تغرف من الماء -، لكانت زمزم عينا معينا " قال: فشربت وأرضعت ولدها، فقال لها الملك: لا تخافوا الضيعة، فإن ها هنا بيت الله، يبني هذا الغلام وأبوه، وإن الله لا يضيع أهله، وكان البيت مرتفعا من الأرض كالرابية، تأتيه السيول، فتأخذ عن يمينه وشماله، فكانت كذلك حتى مرت بهم رفقة من جرهم، أو أهل بيت من جرهم، مقبلين من طريق كداء، فنزلوا في أسفل مكة فرأوا طائرا عائفا، فقالوا: إن هذا الطائر ليدور على ماء، لعهدنا بهذا الوادي وما فيه ماء، فأرسلوا جريا أو جريين فإذا هم بالماء، فرجعوا فأخبروهم بالماء فأقبلوا، قال: وأم إسماعيل عند الماء، فقالوا: أتأذنين لنا أن ننزل عندك؟ فقالت: نعم، ولكن لا حق لكم في الماء، قالوا: نعم، قال ابن عباس: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «فألفى ذلك أم إسماعيل وهي تحب الإنس» فنزلوا وأرسلوا إلى أهليهم فنزلوا معهم، حتى إذا كان بها أهل أبيات منهم، وشب الغلام وتعلم العربية منهم، وأنفسهم وأعجبهم حين شب، فلما أدرك زوجوه امرأة منهم، وماتت أم إسماعيل، فجاء إبراهيم بعدما تزوج إسماعيل يطالع تركته، فلم يجد إسماعيل، فسأل امرأته عنه فقالت: خرج يبتغي لنا، ثم سألها عن عيشهم وهيئتهم، فقالت نحن بشر، نحن في ضيق وشدة، فشكت إليه، قال: فإذا جاء زوجك فاقرئي عليه السلام، وقولي له يغير عتبة بابه، فلما جاء إسماعيل كأنه آنس شيئا، فقال: هل جاءكم من أحد؟ قالت: نعم، جاءنا شيخ كذا وكذا، فسألنا عنك فأخبرته، وسألني كيف عيشنا، فأخبرته أنا في جهد وشدة، قال: فهل أوصاك بشيء؟ قالت: نعم، أمرني أن أقرأ عليك السلام، ويقول غير عتبة بابك، قال: ذاك أبي، وقد أمرني أن أفارقك، الحقي بأهلك، فطلقها، وتزوج منهم أخرى، فلبث عنهم إبراهيم ما شاء الله، ثم أتاهم بعد فلم يجده، فدخل على [ص:144] امرأته فسألها عنه، فقالت: خرج يبتغي لنا، قال: كيف أنتم؟ وسألها عن عيشهم وهيئتهم، فقالت: نحن بخير وسعة، وأثنت على الله، فقال: ما طعامكم؟ قالت اللحم، قال فما شرابكم؟ قالت الماء. قال: اللهم بارك لهم في اللحم والماء، قال النبي صلى الله عليه وسلم: «ولم يكن لهم يومئذ حب، ولو كان لهم دعا لهم فيه» . قال: فهما لا يخلو عليهما أحد بغير مكة إلا لم يوافقاه، قال: فإذا جاء زوجك فاقرئي عليه السلام، ومريه يثبت عتبة بابه، فلما جاء إسماعيل قال: هل أتاكم من أحد؟ قالت: نعم، أتانا شيخ حسن الهيئة، وأثنت عليه، فسألني عنك فأخبرته، فسألني كيف عيشنا فأخبرته أنا بخير، قال: فأوصاك بشيء، قالت: نعم، هو يقرأ عليك السلام، ويأمرك أن تثبت عتبة بابك، قال: ذاك أبي وأنت العتبة، أمرني أن أمسكك، ثم لبث عنهم ما شاء الله، ثم جاء بعد ذلك، وإسماعيل يبري نبلا له تحت دوحة قريبا من زمزم، فلما رآه قام إليه، فصنعا كما يصنع الوالد بالولد والولد بالوالد، ثم قال يا إسماعيل، إن الله أمرني بأمر، قال: فاصنع ما أمرك ربك، قال: وتعينني؟ قال: وأعينك، قال: فإن الله أمرني أن أبني ها هنا بيتا، وأشار إلى أكمة مرتفعة على ما حولها، قال: فعند ذلك رفعا القواعد من البيت، فجعل إسماعيل يأتي بالحجارة وإبراهيم يبني، حتى إذا ارتفع البناء، جاء بهذا الحجر فوضعه له فقام عليه، وهو يبني وإسماعيل يناوله الحجارة، وهما يقولان: {ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم} [البقرة: 127] ، قال: فجعلا يبنيان حتى يدورا حول البيت وهما يقولان: {ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم} [البقرة: 127]
ترجمہ :
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ایوب سختیانی اور کثیر بن کثیر بن مطلب بن ابی وداعہ نے۔ یہ دونوں کچھ زیادہ اور کمی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ دونوں سعید بن جبیر سے کہ :سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، عورتوں میں کمر پٹہ باندھنے کا رواج اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) سے چلا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر پٹہ اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ علیہا السلام ان کا سراغ نہ پائیں (وہ جلد بھاگ جائیں) پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم (علیہما السلام) ساتھ لے کر مکہ میں آئے، اس وقت ابھی وہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے۔ مسجد کی بلند جانب میں۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام (اپنے گھر کے لیے) روانہ ہوئے۔ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے۔ آخر ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر ہاجرہ علیہا السلام بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم علیہ السلام روانہ ہو گئے۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا، جہاں اب کعبہ ہے (جہاں پر ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر آئے تھے) پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے میرے رب! میں نے اپنی اولاد کو اس بےآب و دانہ میدان میں تیری حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے (سورۃ ابراہیم)
«يشكرون‏» تک۔ ادھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا (پیاس کی شدت سے) پیچ و تاب کھا رہا ہے یا (کہا کہ) زمین پر لوٹ رہا ہے۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بے چین ہوتا تھا۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی۔ وہ (پانی کی تلاش میں) اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا (تاکہ دوڑتے وقت نہ الجھیں) اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (صفا اور مروہ کے درمیان) لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا۔ (ساتویں مرتبہ) جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی، انہوں نے کہا، خاموش! یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دئیے۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں اب زمزم (کا کنواں) ہے، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا، یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے، جس سے وہاں پانی ابل آیا۔ ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا (تاکہ پانی بہنے نہ پائے) اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ! ام اسماعیل پر رحم کرے، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ علیہ السلام نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہو گا، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا، اب جہاں بیت اللہ ہے، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء (مکہ کا بالائی حصہ) کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاؤ کیا (قریب ہی) انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دیں گی۔ ہاجرہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے۔ انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے اور بچہ (اسماعیل علیہ السلام جرہم کے بچوں میں) جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی۔ جوانی میں اسماعیل علیہ السلام ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) کا انتقال ہو گیا)۔ اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد ابراہیم علیہ السلام یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے۔ اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے انہیں بتایا (کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں نہیں آئے۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے، بڑی فراخی ہے، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو؟ بتایا کہ پانی! ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے دعا کی، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا۔ ابراہیم علیہ السلام نے (جاتے ہوئے) اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا (کہ کہاں ہیں؟) اور میں نے بتا دیا، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی؟ انہوں نے کہا جی ہاں، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، کے بعد ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں (جہاں ابراہیم انہیں چھوڑ گئے تھے) اپنے تیر بنا رہے ہیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف! کہا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے تھے۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ پتھر لائے اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے اسے رکھ دیا۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے تھے اور یہ دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے۔ ہمارے رب! ہماری یہ خدمت تو قبول کر بیشک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ فرمایا کہ یہ دونوں تعمیر کرتے رہے اور بیت اللہ کے چاروں طرف گھوم گھوم کر یہ دعا پڑھتے رہے۔ ”اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول فرما۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے۔"
ـــــــــــ
شمس پیرزادہ اس واقعہ کے متعلق سورہ ابراہیم کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ 37)
ترجمہ :اے ہمارے رب ! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض ٤٩* کو ایک ایسی وادی میں جہاں کاشت نہیں ہوتی ٥٠* تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے ٥١* اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ ٥٢* لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے ٥٣* اور پھلوں سے ان کو رزق بہم پہنچا ٥٤* تاکہ وہ شکر گزار بنیں۔ "

٥١۔۔۔۔۔ محترم گھر سے مراد خانۂ کعبہ ہے جو نہایت مقدس اور نہایت قابل احترام ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد میں سے اسماعیل (علیہ السلام) کو مکہ میں بسایا اور اسحاق (علیہ السلام) کو فلسطین میں۔ اسماعیل (علیہ السلام) سے جو نسل چلی وہ بنی اسماعیل کہلائی قریش ان ہی کی نسل سے ہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ہی میں مبعوث ہوئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا سے ایک بات تو یہ واضح ہوئی کہ یہ دعا انہوں نے خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بعد کی تھی اور دوسری یہ کہ انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اس وقت مکہ میں بسایا جبکہ خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی۔ قرآن نے دوسری جگہ واضح کیا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اسماعیل (علیہ السلام) بھی شریک تھے۔ رہ گئیں وہ روایتیں جن میں اسماعیل کو جبکہ وہ ابھی شیر خوار بچہ تھے ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے ریگستان میں تنہا چھوڑ کر جانے کا عجیب و غریب قصہ بیان ہوا ہے تو یہ روایتیں نہ قرآن کے اس بیان سے مطابقت رکھتی ہیں اور نہ قرین قیاس ہیں نیز ان روایتوں کی نسبت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف صحیح نہیں جیسا کہ علامہ سید سلیمان ندوی نے ارض القرآن میں لکھا ہے :
" اس سے (یعنی سورة ابراہیم کی آیت ٣٩) سے ثابت ہوتا ہے کہ اسماعیل کے مکہ آنے کے وقت اسحاق پیدا ہوچکے تھے۔ تورات سے ثابت ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) سے تیرہ برس بڑے تھے، بخاری کی کتاب الرؤیا اور کتاب الانبیاء (حدیث 3364 )میں حضرت ابن عباس کی جو حدیث اسماعیل (علیہ السلام) کی شیر خوارگی کے متعلق ہے وہ مرفوع نہیں ہے یعنی اس کا سلسلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک نہیں پہنچتا (بجز چند خاص ضمنی فقروں کے) اس لیے وہ حضرت ابن عباس کے اسرائیلیات میں سے ہے اور اس کا ثبوت آج بھی موجود ہے۔ بخاری میں اس کے متعلق جو طویل حدیث ہے وہ بجز جزہم اور مکہ کے ذکر کے مدارش اور تالمود میں بعینہ حرف بہ حرف مذکور ہے۔ " (ارض القرآن ج ٢ ص ٤٤٠)

اور علامہ ابن کثیر (رح) نے اس طویل حدیث کو جس میں اسماعیل کی شیر خوارگی کی حالت میں مکہ میں چھوڑنے کا ذکر ہے نقل کر کے لکھا ہے :
" یہ حدیث ابن عباس کا کلام ہے البتہ اس کا ایک حصہ مرفوع ہے (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مروی ہے) اور اس کے ایک حصہ میں غرابت (عجیب باتیں) ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس نے اس کو اسرائیلیات سے لیا ہے اور اس میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس وقت اسماعیل شیر خوار بچہ تھے۔ " (البدایۃ و النہایۃ ج ١ ص ١٥٦) انتہی کلام شمس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا جواب :
اور علامہ ابن کثیرؒ کا مذکورہ کلام اس طویل حدیث کے ضمن میں جس میں اسماعیل کی شیر خوارگی کی حالت میں مکہ میں چھوڑنے کا ذکر ہے نقل کر کے لکھا ہے :
وهذا الحديث من كلام ابن عباس وموشح برفع بعضه وفي بعضه غرابة وكأنه مما تلقاه ابن عباس عن الإسرائيليات * وفيه أن اسمعيل كان رضيعا إذ ذاك *
" یہ حدیث ابن عباس کا کلام ہے البتہ اس کا ایک حصہ مرفوع ہے (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مروی ہے) اور اس کے ایک حصہ میں غرابت (عجیب باتیں) ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس نے اس کو اسرائیلیات سے لیا ہے اور اس میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس وقت اسماعیل شیر خوار بچہ تھے۔ " (البدایۃ و النہایۃ ج ١ ص ١٥٦) انتہی )

لیکن مسند احمد کی تحقیق (ج3 ص 388 ) میں علامہ احمد شاکرؒ لکھتے ہیں :

وتعقبه الشيخ أحمد شاكر فقال: وهذا عجب منه، فما كان ابن عباس ممن يتلقى الإسرائيليات؟ ثم سياق الحديث يفهم منه ضمنا أنه مرفوع كله، ثم لو سلمنا أن أكثره موقوف، ما كان هناك دليل أو شبه دليل على أنه من الإسرائيليات، بل يكون الأقرب أنه مما عرفته قريش، وتداولته على مر السنين، من تاريخ جديهم إبراهيم وإسماعيل، فقد يكون بعضه خطأ، وبعضه صوابا، ولكن الظاهر عندي أنه مرفوع كله في المعنى، والله أعلم.
علامہ احمد شاکر لکھتے ہیں کہ : امام ابن کثیرؒ کا سیدنا ابن عباس کے قول کو اسرائیلیات میں سے کہنا بہت عجیب ہے ، جبکہ اس حدیث کا سیاق بتاتا ہے کہ یہ مکمل مرفوع حدیث ہے ، اور اگر ہم اسے محض موقوف بھی تسلیم کریں تب بھی اس کے اسرائیلی روایت ہونے کی کوئی دلیل نہیں ،
اور علامہ احمد شاکرؒ کا یہی کلام شیخ شعیب ارناؤط نےمسند احمد کی تعلیق (جلد5 صفحہ 300 ) میں نقل کیا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سیدنا عبداللہ بن عباس کی روایت اسرائیلی نہیں اس پر آپ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس کا واضح ارشاد بغور دیکھئے کہ :
ان ابن عباس رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ "كيف تسالون اهل الكتاب عن شيء وكتابكم الذي انزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم احدث تقرءونه محضا لم يشب؟ وقد حدثكم ان اهل الكتاب بدلوا كتاب الله وغيروه وكتبوا بايديهم الكتاب، ‏‏‏‏‏‏وقالوا هو من عند الله ليشتروا به ثمنا قليلا سورة البقرة آية 79 الا ينهاكم ما جاءكم من العلم عن مسالتهم؟ لا والله ما راينا منهم رجلا يسالكم عن الذي انزل عليكم"(صحیح بخاری 7363)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :کہ تم اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں کیوں پوچھتے ہو جب کہ تمہاری کتاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ تازہ بھی ہے اور محفوظ بھی اور تمہیں اس نے بتا بھی دیا کہ اہل کتاب نے اپنا دین بدل ڈالا اور اللہ کی کتاب میں تبدیلی کر دی اور اسے اپنے ہاتھ سے از خود بنا کر لکھا اور کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کا تھوڑا سا مال کما لیں۔ تمہارے پاس (قرآن و حدیث کا) جو علم ہے وہ تمہیں ان سے پوچھنے سے منع کرتا ہے۔ واللہ! میں تو نہیں دیکھتا کہ اہل کتاب میں سے کوئی تم سے اس کے بارے میں پوچھتا ہو جو تم پر نازل کیا گیا ہو۔

اور صحیح بخاری میں اس تعلق سے دوسری روایت یہ ہے :

أن عبد الله بن عباس، قال: " يا معشر المسلمين، كيف تسألون أهل الكتاب عن شيء، وكتابكم الذي أنزل الله على نبيكم صلى الله عليه وسلم أحدث الأخبار بالله، محضا لم يشب، وقد حدثكم الله: أن أهل الكتاب قد بدلوا من كتب الله وغيروا، فكتبوا بأيديهم الكتب، قالوا: هو من عند الله ليشتروا بذلك ثمنا قليلا، أولا ينهاكم ما جاءكم من العلم عن مسألتهم؟ فلا والله، ما رأينا رجلا منهم يسألكم عن الذي أنزل عليكم " **رواهما البخاري في كتاب الاعتصام 7363 والتوحيد 7522-7523 وفي كتاب خلق أفعال العباد 302 وانظر مصنف ابن أبي شيبة رقم 26423 ومصنف عبد الرزاق 11/110 وجامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر 2/42 والبيهقي كبرى 8/249 والشعب 1/199.
وهذا النص من ابن عباس نفسه قاطع في رده للإسرائيليات وعدم تعويله عليها ..
سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ( اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ میں کیوں پوچھتے ہو۔ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے وہ اللہ کے یہاں سے بالکل تازہ آئی ہے، خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو بدل ڈالا۔ وہ ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے اور دعویٰ کرتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی پونچی حاصل کریں، تم کو جو اللہ نے قرآن و حدیث کا علم دیا ہے کیا وہ تم کو اس سے منع نہیں کرتا کہ تم دین کی باتیں اہل کتاب سے پوچھو۔ اللہ کی قسم! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے کہ جو کچھ تمہارے اوپر نازل ہوا ہے اس کے متعلق وہ تم سے پوچھتے ہوں۔ صحیح بخاری 7523 )


اور اسی لئے امام ابن تیمیہؒ ( بیان تلبیس الجہمیہ ۔ج6، ص450) میں ایک حدیث کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں :
Eولا يجوز أن يكون مستند ابن عباس أخبار أهل الكتاب الذي هو أحد الناهين لنا عن سؤالهم ومع نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن تصديقهم أو تكذيبهم فعلم أن ابن عباس إنما قاله توقيفاً من النبي صلى الله عليه وسلم ففي صحيح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں وہی بخاری شریف کی حدیث نقل کی ۔۔۔۔ آگے فرماتے ہیں : vفمعلوم مع هذا أن ابن عباس لا يكون مستنداً فيما يذكره من صفات الرب أنه يأخذ ذلك عن أهل الكتاب فلم يبق إلا أن يكون أخذ من الصحابة الذين أخذوه من النبي صلى الله عليه وسلم ))
یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دلیل اور استناد اہل کتاب کی روایات ہو ہی نہیں سکتیں ،کیونکہ وہ تو خود اسرائیلی روایات سے منع کرتے تھے ،اور اس کے ساتھ نبی مکرم ﷺ نے بھی اسرائیلی روایات کی تصدیق و تکذیب سے واضح منع فرمایا تھا ، (جسے سیدنا ابن عباس نے بھی روایت کیا ) تو کیسے ممکن ہے کہ وہ خود اہل کتاب کی روایات سے استدلال کریں ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

صہیب منصور

مبتدی
شمولیت
جون 20، 2017
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
29
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صحیح بخاری(3364 ) میں سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور جناب اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ
امام بخاریؒ فرماتے ہیں :

وحدثني عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن أيوب السختياني، وكثير بن كثير بن المطلب بن أبي وداعة، يزيد أحدهما على الآخر، عن سعيد بن جبير، قال ابن عباس: أول ما اتخذ النساء المنطق من قبل أم إسماعيل، اتخذت منطقا لتعفي أثرها على سارة، ثم جاء بها إبراهيم وبابنها إسماعيل وهي ترضعه، حتى وضعهما عند البيت عند دوحة، فوق زمزم في أعلى المسجد، وليس بمكة يومئذ أحد، وليس بها ماء، فوضعهما هنالك، ووضع عندهما جرابا فيه تمر، وسقاء فيه ماء، ثم قفى إبراهيم منطلقا، فتبعته أم إسماعيل فقالت: يا إبراهيم، أين تذهب وتتركنا بهذا الوادي، الذي ليس فيه إنس ولا شيء؟ فقالت له ذلك مرارا، وجعل لا يلتفت إليها، فقالت له: آلله الذي أمرك بهذا؟ قال نعم، قالت: إذن لا يضيعنا، ثم رجعت، فانطلق إبراهيم حتى إذا كان عند الثنية حيث لا يرونه، استقبل بوجهه البيت، ثم دعا بهؤلاء الكلمات، ورفع يديه فقال: رب {إني أسكنت من ذريتي بواد غير ذي زرع عند بيتك المحرم} [إبراهيم: 37]- حتى بلغ - {يشكرون} [إبراهيم: 37] " وجعلت أم إسماعيل ترضع إسماعيل وتشرب من ذلك الماء، حتى إذا نفد ما في السقاء عطشت وعطش ابنها، وجعلت تنظر إليه يتلوى، أو قال يتلبط، فانطلقت كراهية أن تنظر إليه، فوجدت الصفا أقرب جبل في الأرض يليها، فقامت عليه، ثم استقبلت الوادي تنظر هل ترى أحدا فلم تر أحدا، فهبطت من الصفا حتى إذا بلغت الوادي رفعت طرف درعها، ثم سعت سعي الإنسان المجهود حتى جاوزت الوادي، ثم أتت المروة فقامت عليها ونظرت هل ترى أحدا فلم تر أحدا [ص:143]، ففعلت ذلك سبع مرات، قال ابن عباس: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «فذلك سعي الناس بينهما» فلما أشرفت على المروة سمعت صوتا، فقالت صه - تريد نفسها -، ثم تسمعت، فسمعت أيضا، فقالت: قد أسمعت إن كان عندك غواث، فإذا هي بالملك عند موضع زمزم، فبحث بعقبه، أو قال بجناحه، حتى ظهر الماء، فجعلت تحوضه وتقول بيدها هكذا، وجعلت تغرف من الماء في سقائها وهو يفور بعد ما تغرف. قال ابن عباس: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " يرحم الله أم إسماعيل، لو تركت زمزم - أو قال: لو لم تغرف من الماء -، لكانت زمزم عينا معينا " قال: فشربت وأرضعت ولدها، فقال لها الملك: لا تخافوا الضيعة، فإن ها هنا بيت الله، يبني هذا الغلام وأبوه، وإن الله لا يضيع أهله، وكان البيت مرتفعا من الأرض كالرابية، تأتيه السيول، فتأخذ عن يمينه وشماله، فكانت كذلك حتى مرت بهم رفقة من جرهم، أو أهل بيت من جرهم، مقبلين من طريق كداء، فنزلوا في أسفل مكة فرأوا طائرا عائفا، فقالوا: إن هذا الطائر ليدور على ماء، لعهدنا بهذا الوادي وما فيه ماء، فأرسلوا جريا أو جريين فإذا هم بالماء، فرجعوا فأخبروهم بالماء فأقبلوا، قال: وأم إسماعيل عند الماء، فقالوا: أتأذنين لنا أن ننزل عندك؟ فقالت: نعم، ولكن لا حق لكم في الماء، قالوا: نعم، قال ابن عباس: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «فألفى ذلك أم إسماعيل وهي تحب الإنس» فنزلوا وأرسلوا إلى أهليهم فنزلوا معهم، حتى إذا كان بها أهل أبيات منهم، وشب الغلام وتعلم العربية منهم، وأنفسهم وأعجبهم حين شب، فلما أدرك زوجوه امرأة منهم، وماتت أم إسماعيل، فجاء إبراهيم بعدما تزوج إسماعيل يطالع تركته، فلم يجد إسماعيل، فسأل امرأته عنه فقالت: خرج يبتغي لنا، ثم سألها عن عيشهم وهيئتهم، فقالت نحن بشر، نحن في ضيق وشدة، فشكت إليه، قال: فإذا جاء زوجك فاقرئي عليه السلام، وقولي له يغير عتبة بابه، فلما جاء إسماعيل كأنه آنس شيئا، فقال: هل جاءكم من أحد؟ قالت: نعم، جاءنا شيخ كذا وكذا، فسألنا عنك فأخبرته، وسألني كيف عيشنا، فأخبرته أنا في جهد وشدة، قال: فهل أوصاك بشيء؟ قالت: نعم، أمرني أن أقرأ عليك السلام، ويقول غير عتبة بابك، قال: ذاك أبي، وقد أمرني أن أفارقك، الحقي بأهلك، فطلقها، وتزوج منهم أخرى، فلبث عنهم إبراهيم ما شاء الله، ثم أتاهم بعد فلم يجده، فدخل على [ص:144] امرأته فسألها عنه، فقالت: خرج يبتغي لنا، قال: كيف أنتم؟ وسألها عن عيشهم وهيئتهم، فقالت: نحن بخير وسعة، وأثنت على الله، فقال: ما طعامكم؟ قالت اللحم، قال فما شرابكم؟ قالت الماء. قال: اللهم بارك لهم في اللحم والماء، قال النبي صلى الله عليه وسلم: «ولم يكن لهم يومئذ حب، ولو كان لهم دعا لهم فيه» . قال: فهما لا يخلو عليهما أحد بغير مكة إلا لم يوافقاه، قال: فإذا جاء زوجك فاقرئي عليه السلام، ومريه يثبت عتبة بابه، فلما جاء إسماعيل قال: هل أتاكم من أحد؟ قالت: نعم، أتانا شيخ حسن الهيئة، وأثنت عليه، فسألني عنك فأخبرته، فسألني كيف عيشنا فأخبرته أنا بخير، قال: فأوصاك بشيء، قالت: نعم، هو يقرأ عليك السلام، ويأمرك أن تثبت عتبة بابك، قال: ذاك أبي وأنت العتبة، أمرني أن أمسكك، ثم لبث عنهم ما شاء الله، ثم جاء بعد ذلك، وإسماعيل يبري نبلا له تحت دوحة قريبا من زمزم، فلما رآه قام إليه، فصنعا كما يصنع الوالد بالولد والولد بالوالد، ثم قال يا إسماعيل، إن الله أمرني بأمر، قال: فاصنع ما أمرك ربك، قال: وتعينني؟ قال: وأعينك، قال: فإن الله أمرني أن أبني ها هنا بيتا، وأشار إلى أكمة مرتفعة على ما حولها، قال: فعند ذلك رفعا القواعد من البيت، فجعل إسماعيل يأتي بالحجارة وإبراهيم يبني، حتى إذا ارتفع البناء، جاء بهذا الحجر فوضعه له فقام عليه، وهو يبني وإسماعيل يناوله الحجارة، وهما يقولان: {ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم} [البقرة: 127] ، قال: فجعلا يبنيان حتى يدورا حول البيت وهما يقولان: {ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم} [البقرة: 127]
ترجمہ :
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ایوب سختیانی اور کثیر بن کثیر بن مطلب بن ابی وداعہ نے۔ یہ دونوں کچھ زیادہ اور کمی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ دونوں سعید بن جبیر سے کہ :سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، عورتوں میں کمر پٹہ باندھنے کا رواج اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) سے چلا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر پٹہ اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ علیہا السلام ان کا سراغ نہ پائیں (وہ جلد بھاگ جائیں) پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم (علیہما السلام) ساتھ لے کر مکہ میں آئے، اس وقت ابھی وہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے۔ مسجد کی بلند جانب میں۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام (اپنے گھر کے لیے) روانہ ہوئے۔ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے۔ آخر ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر ہاجرہ علیہا السلام بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم علیہ السلام روانہ ہو گئے۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا، جہاں اب کعبہ ہے (جہاں پر ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر آئے تھے) پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے میرے رب! میں نے اپنی اولاد کو اس بےآب و دانہ میدان میں تیری حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے (سورۃ ابراہیم)
«يشكرون‏» تک۔ ادھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا (پیاس کی شدت سے) پیچ و تاب کھا رہا ہے یا (کہا کہ) زمین پر لوٹ رہا ہے۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بے چین ہوتا تھا۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی۔ وہ (پانی کی تلاش میں) اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا (تاکہ دوڑتے وقت نہ الجھیں) اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (صفا اور مروہ کے درمیان) لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا۔ (ساتویں مرتبہ) جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی، انہوں نے کہا، خاموش! یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دئیے۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں اب زمزم (کا کنواں) ہے، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا، یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے، جس سے وہاں پانی ابل آیا۔ ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا (تاکہ پانی بہنے نہ پائے) اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ! ام اسماعیل پر رحم کرے، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ علیہ السلام نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہو گا، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا، اب جہاں بیت اللہ ہے، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء (مکہ کا بالائی حصہ) کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاؤ کیا (قریب ہی) انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دیں گی۔ ہاجرہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے۔ انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے اور بچہ (اسماعیل علیہ السلام جرہم کے بچوں میں) جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی۔ جوانی میں اسماعیل علیہ السلام ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) کا انتقال ہو گیا)۔ اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد ابراہیم علیہ السلام یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے۔ اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے انہیں بتایا (کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں نہیں آئے۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے، بڑی فراخی ہے، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو؟ بتایا کہ پانی! ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے دعا کی، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا۔ ابراہیم علیہ السلام نے (جاتے ہوئے) اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا (کہ کہاں ہیں؟) اور میں نے بتا دیا، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی؟ انہوں نے کہا جی ہاں، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، کے بعد ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں (جہاں ابراہیم انہیں چھوڑ گئے تھے) اپنے تیر بنا رہے ہیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف! کہا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے تھے۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ پتھر لائے اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے اسے رکھ دیا۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے تھے اور یہ دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے۔ ہمارے رب! ہماری یہ خدمت تو قبول کر بیشک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ فرمایا کہ یہ دونوں تعمیر کرتے رہے اور بیت اللہ کے چاروں طرف گھوم گھوم کر یہ دعا پڑھتے رہے۔ ”اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول فرما۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے۔"
ـــــــــــ
شمس پیرزادہ اس واقعہ کے متعلق سورہ ابراہیم کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ 37)
ترجمہ :اے ہمارے رب ! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض ٤٩* کو ایک ایسی وادی میں جہاں کاشت نہیں ہوتی ٥٠* تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے ٥١* اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ ٥٢* لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے ٥٣* اور پھلوں سے ان کو رزق بہم پہنچا ٥٤* تاکہ وہ شکر گزار بنیں۔ "

٥١۔۔۔۔۔ محترم گھر سے مراد خانۂ کعبہ ہے جو نہایت مقدس اور نہایت قابل احترام ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد میں سے اسماعیل (علیہ السلام) کو مکہ میں بسایا اور اسحاق (علیہ السلام) کو فلسطین میں۔ اسماعیل (علیہ السلام) سے جو نسل چلی وہ بنی اسماعیل کہلائی قریش ان ہی کی نسل سے ہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ہی میں مبعوث ہوئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا سے ایک بات تو یہ واضح ہوئی کہ یہ دعا انہوں نے خانۂ کعبہ کی تعمیر کے بعد کی تھی اور دوسری یہ کہ انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اس وقت مکہ میں بسایا جبکہ خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی۔ قرآن نے دوسری جگہ واضح کیا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اسماعیل (علیہ السلام) بھی شریک تھے۔ رہ گئیں وہ روایتیں جن میں اسماعیل کو جبکہ وہ ابھی شیر خوار بچہ تھے ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے ریگستان میں تنہا چھوڑ کر جانے کا عجیب و غریب قصہ بیان ہوا ہے تو یہ روایتیں نہ قرآن کے اس بیان سے مطابقت رکھتی ہیں اور نہ قرین قیاس ہیں نیز ان روایتوں کی نسبت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف صحیح نہیں جیسا کہ علامہ سید سلیمان ندوی نے ارض القرآن میں لکھا ہے :
" اس سے (یعنی سورة ابراہیم کی آیت ٣٩) سے ثابت ہوتا ہے کہ اسماعیل کے مکہ آنے کے وقت اسحاق پیدا ہوچکے تھے۔ تورات سے ثابت ہے کہ اسماعیل (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) سے تیرہ برس بڑے تھے، بخاری کی کتاب الرؤیا اور کتاب الانبیاء (حدیث 3364 )میں حضرت ابن عباس کی جو حدیث اسماعیل (علیہ السلام) کی شیر خوارگی کے متعلق ہے وہ مرفوع نہیں ہے یعنی اس کا سلسلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک نہیں پہنچتا (بجز چند خاص ضمنی فقروں کے) اس لیے وہ حضرت ابن عباس کے اسرائیلیات میں سے ہے اور اس کا ثبوت آج بھی موجود ہے۔ بخاری میں اس کے متعلق جو طویل حدیث ہے وہ بجز جزہم اور مکہ کے ذکر کے مدارش اور تالمود میں بعینہ حرف بہ حرف مذکور ہے۔ " (ارض القرآن ج ٢ ص ٤٤٠)

اور علامہ ابن کثیر (رح) نے اس طویل حدیث کو جس میں اسماعیل کی شیر خوارگی کی حالت میں مکہ میں چھوڑنے کا ذکر ہے نقل کر کے لکھا ہے :
" یہ حدیث ابن عباس کا کلام ہے البتہ اس کا ایک حصہ مرفوع ہے (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مروی ہے) اور اس کے ایک حصہ میں غرابت (عجیب باتیں) ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس نے اس کو اسرائیلیات سے لیا ہے اور اس میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس وقت اسماعیل شیر خوار بچہ تھے۔ " (البدایۃ و النہایۃ ج ١ ص ١٥٦) انتہی کلام شمس )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا جواب :
اور علامہ ابن کثیرؒ کا مذکورہ کلام اس طویل حدیث کے ضمن میں جس میں اسماعیل کی شیر خوارگی کی حالت میں مکہ میں چھوڑنے کا ذکر ہے نقل کر کے لکھا ہے :
وهذا الحديث من كلام ابن عباس وموشح برفع بعضه وفي بعضه غرابة وكأنه مما تلقاه ابن عباس عن الإسرائيليات * وفيه أن اسمعيل كان رضيعا إذ ذاك *
" یہ حدیث ابن عباس کا کلام ہے البتہ اس کا ایک حصہ مرفوع ہے (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مروی ہے) اور اس کے ایک حصہ میں غرابت (عجیب باتیں) ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس نے اس کو اسرائیلیات سے لیا ہے اور اس میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس وقت اسماعیل شیر خوار بچہ تھے۔ " (البدایۃ و النہایۃ ج ١ ص ١٥٦) انتہی )

لیکن مسند احمد کی تحقیق (ج3 ص 388 ) میں علامہ احمد شاکرؒ لکھتے ہیں :

وتعقبه الشيخ أحمد شاكر فقال: وهذا عجب منه، فما كان ابن عباس ممن يتلقى الإسرائيليات؟ ثم سياق الحديث يفهم منه ضمنا أنه مرفوع كله، ثم لو سلمنا أن أكثره موقوف، ما كان هناك دليل أو شبه دليل على أنه من الإسرائيليات، بل يكون الأقرب أنه مما عرفته قريش، وتداولته على مر السنين، من تاريخ جديهم إبراهيم وإسماعيل، فقد يكون بعضه خطأ، وبعضه صوابا، ولكن الظاهر عندي أنه مرفوع كله في المعنى، والله أعلم.
علامہ احمد شاکر لکھتے ہیں کہ : امام ابن کثیرؒ کا سیدنا ابن عباس کے قول کو اسرائیلیات میں سے کہنا بہت عجیب ہے ، جبکہ اس حدیث کا سیاق بتاتا ہے کہ یہ مکمل مرفوع حدیث ہے ، اور اگر ہم اسے محض موقوف بھی تسلیم کریں تب بھی اس کے اسرائیلی روایت ہونے کی کوئی دلیل نہیں ،
اور علامہ احمد شاکرؒ کا یہی کلام شیخ شعیب ارناؤط نےمسند احمد کی تعلیق (جلد5 صفحہ 300 ) میں نقل کیا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سیدنا عبداللہ بن عباس کی روایت اسرائیلی نہیں اس پر آپ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس کا واضح ارشاد بغور دیکھئے کہ :
ان ابن عباس رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ "كيف تسالون اهل الكتاب عن شيء وكتابكم الذي انزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم احدث تقرءونه محضا لم يشب؟ وقد حدثكم ان اهل الكتاب بدلوا كتاب الله وغيروه وكتبوا بايديهم الكتاب، ‏‏‏‏‏‏وقالوا هو من عند الله ليشتروا به ثمنا قليلا سورة البقرة آية 79 الا ينهاكم ما جاءكم من العلم عن مسالتهم؟ لا والله ما راينا منهم رجلا يسالكم عن الذي انزل عليكم"(صحیح بخاری 7363)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا :کہ تم اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں کیوں پوچھتے ہو جب کہ تمہاری کتاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ تازہ بھی ہے اور محفوظ بھی اور تمہیں اس نے بتا بھی دیا کہ اہل کتاب نے اپنا دین بدل ڈالا اور اللہ کی کتاب میں تبدیلی کر دی اور اسے اپنے ہاتھ سے از خود بنا کر لکھا اور کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کا تھوڑا سا مال کما لیں۔ تمہارے پاس (قرآن و حدیث کا) جو علم ہے وہ تمہیں ان سے پوچھنے سے منع کرتا ہے۔ واللہ! میں تو نہیں دیکھتا کہ اہل کتاب میں سے کوئی تم سے اس کے بارے میں پوچھتا ہو جو تم پر نازل کیا گیا ہو۔

اور صحیح بخاری میں اس تعلق سے دوسری روایت یہ ہے :

أن عبد الله بن عباس، قال: " يا معشر المسلمين، كيف تسألون أهل الكتاب عن شيء، وكتابكم الذي أنزل الله على نبيكم صلى الله عليه وسلم أحدث الأخبار بالله، محضا لم يشب، وقد حدثكم الله: أن أهل الكتاب قد بدلوا من كتب الله وغيروا، فكتبوا بأيديهم الكتب، قالوا: هو من عند الله ليشتروا بذلك ثمنا قليلا، أولا ينهاكم ما جاءكم من العلم عن مسألتهم؟ فلا والله، ما رأينا رجلا منهم يسألكم عن الذي أنزل عليكم " **رواهما البخاري في كتاب الاعتصام 7363 والتوحيد 7522-7523 وفي كتاب خلق أفعال العباد 302 وانظر مصنف ابن أبي شيبة رقم 26423 ومصنف عبد الرزاق 11/110 وجامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر 2/42 والبيهقي كبرى 8/249 والشعب 1/199.
وهذا النص من ابن عباس نفسه قاطع في رده للإسرائيليات وعدم تعويله عليها ..
سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ( اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ میں کیوں پوچھتے ہو۔ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے وہ اللہ کے یہاں سے بالکل تازہ آئی ہے، خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو بدل ڈالا۔ وہ ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے اور دعویٰ کرتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی پونچی حاصل کریں، تم کو جو اللہ نے قرآن و حدیث کا علم دیا ہے کیا وہ تم کو اس سے منع نہیں کرتا کہ تم دین کی باتیں اہل کتاب سے پوچھو۔ اللہ کی قسم! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے کہ جو کچھ تمہارے اوپر نازل ہوا ہے اس کے متعلق وہ تم سے پوچھتے ہوں۔ صحیح بخاری 7523 )


اور اسی لئے امام ابن تیمیہؒ ( بیان تلبیس الجہمیہ ۔ج6، ص450) میں ایک حدیث کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں :
Eولا يجوز أن يكون مستند ابن عباس أخبار أهل الكتاب الذي هو أحد الناهين لنا عن سؤالهم ومع نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن تصديقهم أو تكذيبهم فعلم أن ابن عباس إنما قاله توقيفاً من النبي صلى الله عليه وسلم ففي صحيح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں وہی بخاری شریف کی حدیث نقل کی ۔۔۔۔ آگے فرماتے ہیں : vفمعلوم مع هذا أن ابن عباس لا يكون مستنداً فيما يذكره من صفات الرب أنه يأخذ ذلك عن أهل الكتاب فلم يبق إلا أن يكون أخذ من الصحابة الذين أخذوه من النبي صلى الله عليه وسلم ))
یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی دلیل اور استناد اہل کتاب کی روایات ہو ہی نہیں سکتیں ،کیونکہ وہ تو خود اسرائیلی روایات سے منع کرتے تھے ،اور اس کے ساتھ نبی مکرم ﷺ نے بھی اسرائیلی روایات کی تصدیق و تکذیب سے واضح منع فرمایا تھا ، (جسے سیدنا ابن عباس نے بھی روایت کیا ) تو کیسے ممکن ہے کہ وہ خود اہل کتاب کی روایات سے استدلال کریں ؛
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم الشیخ اسحاق سلفی صاحب اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے، اور آپ اسی طرح طالبین کے سوالات کے مدلل جوابات دے کر کتاب و سنت کے نور کو پھیلاتے رہیں - آمین ثم آمین

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محترم الشیخ اسحاق سلفی صاحب اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے، اور آپ اسی طرح طالبین کے سوالات کے مدلل جوابات دے کر کتاب و سنت کے نور کو پھیلاتے رہیں - آمین ثم آمین

Sent from my Redmi Note 4 using Tapatalk
آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بارک اللہ لکم وجزاکم اللہ خیراً
 
Top