رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,580
- پوائنٹ
- 384
اسلام علیکم،
صحیح بخاری::حدیث نمبر 4986 میں ہے کہ:
4986 - حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ اليَمَامَةِ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ عِنْدَهُ»، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ: إِنَّ القَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ اليَمَامَةِ بِقُرَّاءِ القُرْآنِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ القَتْلُ بِالقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ القُرْآنِ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ القُرْآنِ، قُلْتُ لِعُمَرَ: «كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟» قَالَ عُمَرُ: هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ، «فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ، وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ»، قَالَ زَيْدٌ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْهُ، «فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ»، قُلْتُ: «كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟»، قَالَ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، " فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ العُسُبِ وَاللِّخَافِ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ، حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ، {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ} [التوبة: 128] حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ، فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ "
ترجمہ: موسی بن اسماعیل، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، عبید بن سباق، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ یمامہ کی خونریزی کے زمانہ میں مجھ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلا بھیجا اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت سے قرآن پڑھنے والے شہید ہو گئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ بہت سے مقامات میں قاریوں کا قتل ہوگا تو بہت سا قرآن جاتا رہے گا اس لئے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ آپ قرآن کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم کیونکر وہ کام کرو گے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا حضرت عمر نے کہا خدا کی قسم! یہ بہتر ہے اور عمر مجھ سے بار بار اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے بھی اس میں وہی مناسب خیال کیا جو عمر نے خیال کیا زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا کہ تم ایک جوان آدمی ہو ہم تم کو متھم بھی نہیں کر سکتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وحی لکھتے تھے اس لئے قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو خدا کی قسم! اگر مجھے کسی پہاڑ کو اٹھانے کی تکلیف دیتے تو قرآن کے جمع کرنے سے جس کا انہوں نے مجھے حکم دیا تھا زیادہ وزنی نہ ہوتا میں نے کہا کہ آپ لوگ کس طرح وہ کام کریں گے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم یہ خیر ہے اور بار بار اصرار کرکے مجھ سے کہتے رہے یہاں تم کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اس کے لئے کھول دیا جس کے لئے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے کھولے تھے چنانچہ میں نے قرآن کو کھجور کے پٹھوں اور پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں (حافظہ) سے تلاش کرکے جمع کرنا شروع کیا یہاں تک کہ سورت توبہ کی آخری آیت میں نے ابوخزیمہ انصاری کے پاس پائی جو مجھے کسی کے پاس نہیں ملی اور وہ آیت یہ تھی (لَقَدْ جَا ءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) 9۔ التوبہ : 128) سورت براۃ (توبہ) کے آخر تک چنانچہ یہ صحیفے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اٹھالیا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی زندگی میں پھر حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس رہے
منکرین حدیث اور کفار کی طرف سے اس حدیث پر کچھ عقلی اعتراضات کیے گئے ہیں، ان کا جواب دینے میں مدد فرمائیں۔
1- جنگ یمامہ میں حفاظ شہید ہوئے تو قرآن چلے جائے گا، اس کا کیا مطلب ہے؟
2- یہ فکر خلیفہ وقت ابو بکر کو ہونی چاہیے تھی یا عمر کو؟
3- حضرت ابو بکر نے کہا کہ آپ ایسا کام کیسے کر سکتے ہیں جسے نبی نے نہیں کیا، تو کیا ابو بکر کو قرآن جمع کرنے کی اہمیت کا کوئی خیال نہیں تھا؟
4- قرآن تواتر لفظی اور تواتر معنوی کیسے ہوا؟ یہ تو حضرت زید بن ثابت نے اکیلے ہی ڈیڑھ سال میں جمع کیا۔
5- قرآن لوح محفوظ کی ترتیب پر ہے، لیکن اس حدیث سے تو ظاہر ہے کہ یہ ترتیب زیدیہ ہے۔
6- یہ قرآن تو حضرت زید اور دو گواہوں کی اجتہاد پر جمع ہوا ہے۔
7- حضرت زید کو گواہوں کی ضرورت کیوں پڑی؟
8- انتہاء تو یہ ہے کہ سورۃ توبہ کی آخری دو آیات ابو خزیمہ کے علاوہ کسی کو یاد نہیں تھیں
9- نبی کی زمانے میں قرآن کو کتابی صورت میں جمع کرنے کی ضرورت کیوں نہ محسوس کی گئی؟
10- الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کے بعد ذو الحج کے 21 دن، محرم اور صفر کو پورے دو مہینے، نبی حیات رہے، تو کیا یہ عرصہ جمع قرآن کے لیے کافی نہ تھا؟
11- اس حدیث میں ہے کہ قرآن کی کتاب حضرت عائشہ کے پاس رہی حضرت عثمان کے دور خلافت تک۔ تب تو 15 سال گزر چکے تھے، اسلام ایران تک پھیل چکا تھا۔ اتنا عرصہ کس قرآن کی تلاوت کی جاتی رہی، کیونکہ ماسٹر کاپی صرف ایک تھی اور وہ حضرت عائشہ کے پاس محفوظ تھی!
صحیح بخاری::حدیث نمبر 4986 میں ہے کہ:
4986 - حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ اليَمَامَةِ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ عِنْدَهُ»، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ: إِنَّ القَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ اليَمَامَةِ بِقُرَّاءِ القُرْآنِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ القَتْلُ بِالقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ القُرْآنِ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ القُرْآنِ، قُلْتُ لِعُمَرَ: «كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟» قَالَ عُمَرُ: هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ، «فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِذَلِكَ، وَرَأَيْتُ فِي ذَلِكَ الَّذِي رَأَى عُمَرُ»، قَالَ زَيْدٌ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْهُ، «فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ القُرْآنِ»، قُلْتُ: «كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟»، قَالَ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، " فَلَمْ يَزَلْ أَبُو بَكْرٍ يُرَاجِعُنِي حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَتَتَبَّعْتُ القُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ العُسُبِ وَاللِّخَافِ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ، حَتَّى وَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ التَّوْبَةِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ، {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ} [التوبة: 128] حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ، فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاتَهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ "
ترجمہ: موسی بن اسماعیل، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، عبید بن سباق، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ یمامہ کی خونریزی کے زمانہ میں مجھ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلا بھیجا اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت سے قرآن پڑھنے والے شہید ہو گئے ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ بہت سے مقامات میں قاریوں کا قتل ہوگا تو بہت سا قرآن جاتا رہے گا اس لئے میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ آپ قرآن کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم کیونکر وہ کام کرو گے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا حضرت عمر نے کہا خدا کی قسم! یہ بہتر ہے اور عمر مجھ سے بار بار اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے میرا سینہ کھول دیا اور میں نے بھی اس میں وہی مناسب خیال کیا جو عمر نے خیال کیا زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا کہ تم ایک جوان آدمی ہو ہم تم کو متھم بھی نہیں کر سکتے اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وحی لکھتے تھے اس لئے قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو خدا کی قسم! اگر مجھے کسی پہاڑ کو اٹھانے کی تکلیف دیتے تو قرآن کے جمع کرنے سے جس کا انہوں نے مجھے حکم دیا تھا زیادہ وزنی نہ ہوتا میں نے کہا کہ آپ لوگ کس طرح وہ کام کریں گے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم یہ خیر ہے اور بار بار اصرار کرکے مجھ سے کہتے رہے یہاں تم کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اس کے لئے کھول دیا جس کے لئے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے کھولے تھے چنانچہ میں نے قرآن کو کھجور کے پٹھوں اور پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں (حافظہ) سے تلاش کرکے جمع کرنا شروع کیا یہاں تک کہ سورت توبہ کی آخری آیت میں نے ابوخزیمہ انصاری کے پاس پائی جو مجھے کسی کے پاس نہیں ملی اور وہ آیت یہ تھی (لَقَدْ جَا ءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) 9۔ التوبہ : 128) سورت براۃ (توبہ) کے آخر تک چنانچہ یہ صحیفے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اٹھالیا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کی زندگی میں پھر حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس رہے
منکرین حدیث اور کفار کی طرف سے اس حدیث پر کچھ عقلی اعتراضات کیے گئے ہیں، ان کا جواب دینے میں مدد فرمائیں۔
اعتراضات:
1- جنگ یمامہ میں حفاظ شہید ہوئے تو قرآن چلے جائے گا، اس کا کیا مطلب ہے؟
2- یہ فکر خلیفہ وقت ابو بکر کو ہونی چاہیے تھی یا عمر کو؟
3- حضرت ابو بکر نے کہا کہ آپ ایسا کام کیسے کر سکتے ہیں جسے نبی نے نہیں کیا، تو کیا ابو بکر کو قرآن جمع کرنے کی اہمیت کا کوئی خیال نہیں تھا؟
4- قرآن تواتر لفظی اور تواتر معنوی کیسے ہوا؟ یہ تو حضرت زید بن ثابت نے اکیلے ہی ڈیڑھ سال میں جمع کیا۔
5- قرآن لوح محفوظ کی ترتیب پر ہے، لیکن اس حدیث سے تو ظاہر ہے کہ یہ ترتیب زیدیہ ہے۔
6- یہ قرآن تو حضرت زید اور دو گواہوں کی اجتہاد پر جمع ہوا ہے۔
7- حضرت زید کو گواہوں کی ضرورت کیوں پڑی؟
8- انتہاء تو یہ ہے کہ سورۃ توبہ کی آخری دو آیات ابو خزیمہ کے علاوہ کسی کو یاد نہیں تھیں
9- نبی کی زمانے میں قرآن کو کتابی صورت میں جمع کرنے کی ضرورت کیوں نہ محسوس کی گئی؟
10- الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ کے بعد ذو الحج کے 21 دن، محرم اور صفر کو پورے دو مہینے، نبی حیات رہے، تو کیا یہ عرصہ جمع قرآن کے لیے کافی نہ تھا؟
11- اس حدیث میں ہے کہ قرآن کی کتاب حضرت عائشہ کے پاس رہی حضرت عثمان کے دور خلافت تک۔ تب تو 15 سال گزر چکے تھے، اسلام ایران تک پھیل چکا تھا۔ اتنا عرصہ کس قرآن کی تلاوت کی جاتی رہی، کیونکہ ماسٹر کاپی صرف ایک تھی اور وہ حضرت عائشہ کے پاس محفوظ تھی!