[JUSTIFY]
اللہ تعالی کے بارے میں جو بات قرآن اور سنت سے ثابت ہوتی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ، اس کا اعتقاد رکھتے اور اس کے مطابق عمل کرتے تھے ، اور جو بات اللہ تعالی کی کتاب اور اللہ کے رسول (ﷺ)کی سنت سے ثابت نہیں ہوتی اس کی اللہ تعالی سے نفی کرتے اور قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے درمیان عقیدے کے معاملہ میں کوئی اختلاف نہیں تھا ، بلکہ ان سب کا عقیدہ ایک تھا اوران سب کی جماعت بھی ایک ہی تھی ، کیونکہ اللہ تعالی نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ جو اللہ تعالی کی کتاب اور نبی (ﷺ)کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے ان کا کلمہ مجتمع رہے گا ، اعتقاد درست ہوگا اور منہج میں یگانگت ہوگی ، ارشاد باری تعالی ہے :
اور ویسا ہی ہوا جیسا کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا ، لہذا جب بعض لوگوں نے اپنا عقیدہ کتاب اور سنت کے مخالف طریقوں پر قائم کیا ، مثلاً علم الکلام ، یونانی فلسفہ اور علم المنطق ، تو عقیدہ میں انحراف اور تفرقہ پیدا ہوا اور اس کے نتیجہ میں یکجہتی ختم ہوگئی ، اور اسلامی معاشرہ کی عمارت میں دراڑ پڑ گئی ۔
[/JUSTIFY]
صحیح عقیدہ کے ماخذ اور سلف صالحین کا ان سے عقیدہ اخذ کرنے کا منہج
عقیدہ توقیفی ہوتا ہے یعنی یہ شارع (شریعت نازل کرنے والے) کی دلیل سے ہی ثابت ہوسکتا ہے ، جس میں اپنی رائے اور اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ لہذا عقیدہ کے مآخذ ومصادر صرف کتاب اور سنت سے ثابت شدہ دلائل پر موقوف ہوتے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی سے زیادہ کوئی علم نہیں رکھتا کہ کیا بات اللہ تعالی کے شایان شان ہے اور کیا نہیں ، اور اللہ تعالی کے بعد اللہ تعالی کے بارے میں اللہ کے رسول (ﷺ)سے زیادہ کوئی علم نہیں رکھتا ۔ چناچہ سلف صالحین اور ان کی پیروی کرنے والوں کا عقیدہ اپنانے کے بارے میں یہی منہج رہا ہے کہ وہ اس بارے میں محض قرآن اور سنت پر ہی اقتصار کرتے تھے۔ اللہ تعالی کے بارے میں جو بات قرآن اور سنت سے ثابت ہوتی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ، اس کا اعتقاد رکھتے اور اس کے مطابق عمل کرتے تھے ، اور جو بات اللہ تعالی کی کتاب اور اللہ کے رسول (ﷺ)کی سنت سے ثابت نہیں ہوتی اس کی اللہ تعالی سے نفی کرتے اور قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے درمیان عقیدے کے معاملہ میں کوئی اختلاف نہیں تھا ، بلکہ ان سب کا عقیدہ ایک تھا اوران سب کی جماعت بھی ایک ہی تھی ، کیونکہ اللہ تعالی نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ جو اللہ تعالی کی کتاب اور نبی (ﷺ)کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں گے ان کا کلمہ مجتمع رہے گا ، اعتقاد درست ہوگا اور منہج میں یگانگت ہوگی ، ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ ﴾ (آل عمران: 103)
﴿ اللہ تعالی کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو ﴾
اور ارشاد باری تعالی ہے :
﴿ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى﴾ (طہ: 123)
﴿ اب تمہارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا﴾
اسی لیے اس فرقہ کو فرقۂ ناجیہ (نجات پانے والا فرقہ) کہا گیا ، کیونکہ نبی(ﷺ) نے جب یہ فرمایا کہ یہ امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہوگی تو اس فرقہ کی نجات کی گواہی دی اور فرمایا کہ تمام فرقہ آگ میں ہوں گے سوائے ایک کے ، جب پوچھا گیا کہ نجات پانے والا وہ ایک فرقہ کون سا ہے ، فرمایا : ’’ھي من کان علی مثل ماانا علیہ الیوم واصحابی‘‘ (وہ جواس طریقہ پر ہوگا جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں )
اور ویسا ہی ہوا جیسا کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا ، لہذا جب بعض لوگوں نے اپنا عقیدہ کتاب اور سنت کے مخالف طریقوں پر قائم کیا ، مثلاً علم الکلام ، یونانی فلسفہ اور علم المنطق ، تو عقیدہ میں انحراف اور تفرقہ پیدا ہوا اور اس کے نتیجہ میں یکجہتی ختم ہوگئی ، اور اسلامی معاشرہ کی عمارت میں دراڑ پڑ گئی ۔
[/JUSTIFY]