• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم (مختصر)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِيْ تَرْكِ الأُسَارَى وَ الْمَنِّ عَلَيْهِمْ
قیدیوں کے چھوڑ دینے اور ان پر احسان کرنے کے بار ے میں​

(1152) عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَيْلاً قِبَلَ نَجْدٍ فَجَائَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ ؟ فَقَالَ عِنْدِي يَا مُحَمَّدُ خَيْرٌ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَقَالَ مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ ؟ قَالَ مَا قُلْتُ لَكَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتَّى كَانَ مِنَ الْغَدِ فَقَالَ مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ فَقَالَ عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ وَ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ وَ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ يَا مُحَمَّدُ ! وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ كُلِّهَا إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ كُلِّهِ إِلَيَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلادِ كُلِّهَا إِلَيَّ وَ إِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَ أَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَمَاذَا تَرَى ؟ فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ قَالَ لَهُ قَائِلٌ أَصَبَوْتَ ؟ فَقَالَ لاَ وَ لَكِنِّي أَسْلَمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ لاَ وَاللَّهِ لاَ يَأْتِيكُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوار روانہ فرمائے، تو وہ بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو پکڑ کر لائے کہ اہل یمامہ کا سردار تھا اور اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس جا کر کہا کہ اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟ ( کہ میں تیرے ساتھ کیا کروں گا) وہ بولا کہ اے محمد! میرا خیال بہتر ہے، اگر آپ مجھے مار ڈالیں گے، تو ایسے شخص کو ماریں گے جو خون والاہے۔(یعنی اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کیونکہ میرا خون ضائع نہیں جائے گا بلکہ میرا بدلا لینے والے موجود ہیں) اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کر کے مجھے چھوڑ دیں گے، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکر گزار ہوں گا اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال و دولت چاہتے ہوں، تو وہ بھی حاضر ہے،جتنا آپ چاہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے۔ دوسرے دن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟ وہ بولا کہ میرا خیال وہی ہے جو میں عرض کر چکاکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کر کے چھوڑ دیں گے، تو میں شکر گزار ہوں گا اور اگر قتل کرو گے، تو ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کا بدلا لیا جائے گا اور اگر مال چاہیے ہوتو مانگو جو چاہوگے دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ویسا ہی بندھا رہنے دیا۔ پھر تیسرے دن پوچھا اے ثمامہ! تیرا کیا گمان ہے؟ وہ بولا کہ وہی جو میں عرض کر چکا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کر کے چھوڑ دیں گے، تو میں شکر گزار ہوں گا اور اگر قتل کرو گے، تو ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کا بدلا لیا جائے گا اور اگر مال چاہتے ہوتو مانگو جو چاہوگے دیا جائے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ثمامہ کو چھوڑ دو۔‘‘ لوگوں نے تعمیل حکم کرکے چھوڑ دیا۔ ثمامہ مسجد کے قریب ہی ایک نخلستان کی طرف گیا اور غسل کرکے مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، اے محمد! اللہ کی قسم !مجھے تمام روئے زمین پر کسی کا منہ دیکھ کر اتنا غصہ نہیں آتا تھا جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ دیکھ کر آتا تھا، اب آج کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے اور اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے زیادہ کوئی دین مجھے برا معلوم نہ ہوتا تھا اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین مجھے سب سے بھلا معلوم ہوتا ہے اور اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے برا کوئی شہر نہ تھا اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر میرے نزدیک سب شہروں سے بہتر ہو گیاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں نے مجھے گرفتار کیا، جب کہ میں عمرہ کے ارادہ سے جا رہا تھا، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مبارکباد دی اور عمرہ کرنے کی اجازت دی۔جب وہ مکہ میں آئے تو کسی نے اس سے کہا کہ کیا تم بے دین ہو گئے ہو؟ وہ بولے نہیں اللہ کی قسم! بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرماں بردار ہو گیا ہوں اور اللہ کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے اس وقت تک گندم کا ایک دانہ بھی نہ آنے پائے گا ،جب تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : إِجْلاَء الْيَهُوْدِ مِنَ الْمَدِيْنَةِ
مدینہ سے یہودیوں کا جلا وطن کرنا​

(1153) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَاهُمْ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَنَادَاهُمْ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَقَالُوا قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ ! فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ذَلِكَ أُرِيدُ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَقَالُوا قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ ! فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ذَلِكَ أُرِيدُ فَقَالَ لَهُمُ الثَّالِثَةَ فَقَالَ اعْلَمُوا أَنَّمَا الأَرْضُ لِلَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ أَنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الأَرْضِ فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ وَ إِلاَّ فَاعْلَمُوا أَنَّ الأَرْضَ لِلَّهِ وَ رَسُولِهِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا:’’یہودیوں کے پاس چلو۔‘‘ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے، یہاں تک کہ یہود کے پاس پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ان کو پکارا اور فرمایا:’’ اے یہود کے لوگو! مسلمان ہو جاؤ،محفوظ ہو جاؤ گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اے ابوالقاسم! آپ نے (اللہ تعالیٰ کا) پیغام پہنچا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں یہی چاہتا ہوں۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے یہود !مسلمان ہو جاؤ، محفوظ ہو جاؤ گے۔ وہ کہنے لگے کہ اے ابوالقاسم ! آپ نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں یہی چاہتاہوں (کہ تم اللہ تعالیٰ کے پیغام کے پہنچ جانے کا اقرار کرو)۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار یہی کہا اور فرمایا:’’ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم کو اس ملک سے باہر نکال دوں، تو جو شخص اپنے مال کو بیچ سکے ، وہ بیچ ڈالے اور نہیں تو یہ سمجھ لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ ‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : إِخْرَاجُ الْيَهُوْدِ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيْرَةِ الْعَرَبِ
یہود و نصاریٰ کا جزیرۃ العرب سے نکالنا​

(1154) عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لاَ أَدَعَ إِلاَّ مُسْلِمًا
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ فرماتے تھے:’’ البتہ میں یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دوں گا ،یہاں تک کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی کو نہیں رہنے دوں گا۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : الْحُكْمُ فِيْمَنْ حَارَبَ وَ نَقَضَ الْعَهْدَ
حربی کافر اور عہد توڑنے والے کے متعلق حکم​

(1155) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أُصِيبَ سَعْدٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْعَرِقَةِ رَمَاهُ فِي الأَكْحَلِ فَضَرَبَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ يَعُودُهُ مِنْ قَرِيبٍ فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْخَنْدَقِ وَضَعَ السِّلاَحَ فَاغْتَسَلَ فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ وَ هُوَ يَنْفُضُ رَأْسَهُ مِنَ الْغُبَارِ فَقَالَ وَضَعْتَ السِّلاَحَ ؟ وَاللَّهِ مَا وَ ضَعْنَاهُ اخْرُجْ إِلَيْهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَأَيْنَ ؟ فَأَشَارَ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ فَقَاتَلَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَنَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْحُكْمَ فِيهِمْ إِلَى سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَإِنِّي أَحْكُمُ فِيهِمْ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ وَ أَنْ تُسْبَى الذُّرِّيَّةُ وَ النِّسَاء وَ تُقْسَمَ أَمْوَالُهُمْ
قَالَ هِشَامٌ قَالَ أَبِي فَأُخْبِرْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
وَ فِيْ رِوَايَةٍ : حَكَمْتَ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ـ وَ قَالَ مَرَّةً : لَقَدْ حَكَمْتَ بِحُكْمِ الْمَلِكِ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو خندق کے دن قریش کے ایک شخص نے جو ابن العرقہ میں سے تھا (عرقہ اس کی ماں کا نام ہے) ،تیر مارا جو ان کی اکحل (ایک رگ) میں لگا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا (اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونا اور بیمار کا رہنا درست ہے) تاکہ نزدیک سے ان کو پوچھ لیا کریں۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے لوٹے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا ،تو جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا سر غبار سے جھاڑتے ہوئے آئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اتار ڈالے ؟ ہم نے تو اللہ کی قسم ہتھیار نہیں رکھے، چلو ان کی طرف۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :’’ کدھر؟‘‘ انہوں نے بنی قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے لڑے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو کر قلعہ سے نیچے اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا فیصلہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ پر رکھا (کیونکہ وہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے حلیف تھے) سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں جو لڑنے والے ہیں ،وہ تو قتل کر دیے جائیں اور بچے اور عورتیں قیدی بنائے جائیں اور ان کے مال تقسیم کر لیے جائیں۔ ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’ تو نے بنی قریظہ کے بارے میں وہ حکم دیا جو اللہ عزوجل کا حکم تھا۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تو نے اللہ کے حکم پر فیصلہ کیا۔‘‘ اور ایک دفعہ یوں فرمایا:’’بادشاہ کے حکم پر فیصلہ کیا۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کِتَابُ الْھِجْرَۃِ وَالْمَغَازِی
ہجرت اور غزوات کے بیان میں

بَابٌ : فِيْ هِجْرَةِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ آيَاتِهِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیوں کے بیان میں​

(1156) عَنْ أَبِيْ إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَائَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُول جَائَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى أَبِي فِي مَنْزِلِهِ فَاشْتَرَى مِنْهُ رَحْلاً فَقَالَ لِعَازِبٍ ابْعَثْ مَعِيَ ابْنَكَ يَحْمِلْهُ مَعِيَ إِلَى مَنْزِلِي فَقَالَ لِي أَبِي احْمِلْهُ فَحَمَلْتُهُ وَ خَرَجَ أَبِي مَعَهُ يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ فَقَالَ لَهُ أَبِي يَا أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدِّثْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا لَيْلَةَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَ نَعَمْ أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا كُلَّهَا حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَ خَلاَ الطَّرِيقُ فَلاَ يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ حَتَّى رُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ بَعْدُ فَنَزَلْنَا عِنْدَهَا فَأَتَيْتُ الصَّخْرَةَ فَسَوَّيْتُ بِيَدِي مَكَانًا يَنَامُ فِيهِ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم فِي ظِلِّهَا ثُمَّ بَسَطْتُ عَلَيْهِ فَرْوَةً ثُمَّ قُلْتُ نَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَ أَنَا أَنْفُضُ لَكَ مَا حَوْلَكَ فَنَامَ وَ خَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَى الصَّخْرَةِ يُرِيدُ مِنْهَا الَّذِي أَرَدْنَا فَلَقِيتُهُ فَقُلْتُ لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلامُ ؟ فَقَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قُلْتُ أَفِي غَنَمِكَ لَبَنٌ ؟ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ أَفَتَحْلُبُ لِي قَالَ نَعَمْ فَأَخَذَ شَاةً فَقُلْتُ لَهُ انْفُضِ الضَّرْعَ مِنَ الشَّعَرِ وَ التُّرَابِ وَالْقَذَى قَالَ فَرَأَيْتُ الْبَرَائَ ؟ يَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَى الأُخْرَى يَنْفُضُ فَحَلَبَ لِي فِي قَعْبٍ مَعَهُ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ قَالَ وَ مَعِي إِدَاوَةٌ أَرْتَوِي فِيهَا لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِيَشْرَبَ مِنْهَا وَ يَتَوَضَّأَ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَ كَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ مِنْ نَوْمِهِ فَوَافَقْتُهُ اسْتَيْقَظَ فَصَبَبْتُ عَلَى اللَّبَنِ مِنَ الْمَائِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! اشْرَبْ مِنْ هَذَا اللَّبَنِ قَالَ فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ ثُمَّ قَالَ أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيلِ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَارْتَحَلْنَا بَعْدَمَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ وَ نَحْنُ فِي جَلَدٍ مِنَ الأَرْضِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أُتِينَا فَقَالَ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَارْتَطَمَتْ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا أُرَى فَقَالَ إِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَيَّ فَادْعُوَا لِي فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ فَدَعَا اللَّهَ فَنَجَا فَرَجَعَ لاَ يَلْقَى أَحَدًا إِلاَّ قَالَ قَدْ كَفَيْتُكُمْ مَا هَاهُنَا فَلا يَلْقَى أَحَدًا إِلاَّ رَدَّهُ قَالَ وَ وَفَى لَنَا
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ، وہ کہتے تھے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے باپ (عازب) کے مکان پر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا اور بولے کہ تم اپنے بیٹے سے کہو کہ یہ کجاوہ اٹھاکر میرے ساتھ میرے مکان تک لے چلے۔ میرے باپ نے مجھ سے کہا کہ کجاوہ اٹھا لے۔ میں نے اٹھا لیا اور میرے باپ بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کی قیمت لینے کو نکلے ۔میرے باپ نے کہا کہ اے ابوبکر ! تم نے اس رات کو کیا کیا جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر نکلے (یعنی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی غرض سے چلے) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ساری رات چلتے رہے، یہاں تک کہ دن ہو گیا اور ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا کہ راہ میں کوئی چلنے والا نہ رہا۔ ہ میں سامنے ایک بڑی چٹان دکھائی دی جس کا سایہ زمین پر تھا اور وہاں دھوپ نہ آئی تھی، ہم اس کے پاس اترے۔ میں پتھر کے پاس گیا اور اپنے ہاتھ سے جگہ برابر کی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سایہ میں آرام فرمائیں، پھر میں نے وہاں کملی (چادر) بچھائی اور اس کے بعد عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آپ سو جایے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد سب طرف دشمن کا کھوج لیتا ہوں (کہ کوئی ہماری تلاش میں تو نہیں آیا)۔ پھر میں نے بکریوں کا ایک چرواہا دیکھا جو اپنی بکریاں لیے ہوئے اسی پتھر کی طرف اس ارادے سے جس ارادے سے ہم آئے تھے (یعنی اس کے سایہ میں ٹھہرنا اور آرام کرنا)، آ رہا تھا۔ میں اس سے ملا اور پوچھا کہ اے لڑکے! تو کس کا غلام ہے؟ وہ بولا کہ میں مدینہ (شہر) والوں میں سے ایک شخص کا غلام ہوں (مدینہ سے مراد شہر ہے یعنی مکہ والوں میں سے)۔ میں نے کہا کہ تیری بکریاں دودھ والی ہیں؟ وہ بولا ہاں۔ میں نے کہا کہ تو ہ میں دودھ دے گا؟ وہ بولا ہاں۔ پھر وہ ایک بکری کو لایا تو میں نے کہا کہ اس کے تھن بالوں، مٹی اور گرد و غبار سے صاف کر لے تاکہ یہ چیزیں دودھ میں نہ پڑیں (راوی نے کہا کہ) میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتے اور جھاڑتے تھے۔ خیر اس لڑکے نے لکڑی کے ایک پیالہ میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک ڈول تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے اور وضو کے لیے پانی تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیندسے جگانا برا معلوم ہوا ، لیکن میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بخود جاگ اٹھے تھے۔ میں نے دودھ میں پانی ڈالا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، پھر میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! یہ دودھ پیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا کوچ کا وقت نہیں آیا؟‘‘ میں نے کہا کہ آ گیا۔ پھر ہم زوال آفتاب کے بعد چلے اور سراقہ بن مالک نے ہمارا پیچھا کیا (اور وہ اس وقت کافر تھا) اور ہم سخت زمین پر تھے۔ میں نے کہا کہ یارسول اللہ! ہم کو تو کافروں نے پا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مت فکر کر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ پر بددعا کی تو اس کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا (حالانکہ وہاں کی ز میں سخت تھی) وہ بولا کہ میں جانتا ہوں کہ تم دونوں نے میرے لیے بددعا کی ہے، اب میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں تم دونوں کی تلاش میں جو آئے گا اس کو پھیر دوں گا تم میرے لیے دعا کرو (کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس عذاب سے چھڑا دے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تو وہ چھوٹ گیا اور لوٹ گیا۔ جو کوئی کافر اس کو ملتا تو وہ کہہ دیتا کہ ادھر میں سب دیکھ آیا ہوں۔ غرض جو کوئی ملتا تو سراقہ اس کو واپس لوٹا دیتا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سراقہ نے اپنی بات پوری کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِيْ غَزْوَةِ بَدْرٍ
غزوۂ بدر کے متعلق​

(1157) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم شَاوَرَ حِينَ بَلَغَهُ إِقْبَالُ أَبِي سُفْيَانَ قَالَ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ تَكَلَّمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ إِيَّانَا تُرِيدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ لَأَ خَضْنَاهَا وَ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا قَالَ فَنَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم النَّاسَ فَانْطَلَقُوا حَتَّى نَزَلُوا بَدْرًا وَ وَرَدَتْ عَلَيْهِمْ رَوَايَا قُرَيْشٍ وَ فِيهِمْ غُلامٌ أَسْوَدُ لِبَنِي الْحَجَّاجِ فَأَخَذُوهُ فَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَسْأَلُونَهُ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ وَ أَصْحَابِهِ فَيَقُولُ مَا لِي عِلْمٌ بِأَبِي سُفْيَانَ وَ لَكِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ وَ عُتْبَةُ وَ شَيْبَةُ وَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ فَإِذَا قَالَ ذَلِكَ ضَرَبُوهُ فَقَالَ نَعَمْ أَنَا أُخْبِرُكُمْ هَذَا أَبُو سُفْيَانَ فَإِذَا تَرَكُوهُ فَسَأَلُوهُ فَقَالَ مَا لِي بِأَبِي سُفْيَانَ عِلْمٌ وَ لَكِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ وَ عُتْبَةُ وَ شَيْبَةُ وَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ فِي النَّاسِ فَإِذَا قَالَ هَذَا أَيْضًا ضَرَبُوهُ وَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَائِمٌ يُصَلِّي فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ انْصَرَفَ قَالَ وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَضْرِبُوهُ إِذَا صَدَقَكُمْ وَ تَتْرُكُوهُ إِذَا كَذَبَكُمْ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم هَذَا مَصْرَعُ فُلانٍ قَالَ وَ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى الأَرْضِ هَاهُنَا وَ هَاهُنَا قَالَ فَمَا مَاطَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قافلہ ابوسفیان کے آنے کی خبر پہنچی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تب بھی مخاطب نہ ہوئے۔ آخر سیدنا سعد بن عبادہ (انصار کے رئیس) اٹھے اور انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ! آپ ہم (یعنی انصار) سے پوچھتے ہیں؟ تو قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آپ ہم کو حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں، تو ہم ضرور ڈال دیں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو برک الغماد تک بھگا دیں، (جو کہ مکہ سے بہت دور ایک مقام ہے) تو البتہ ہم ضرور بھگا دیں گے (یعنی ہم ہر طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع ہیں گوہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد نہ کیا ہو۔ آفرین ہے انصار کی جانثاری پر) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا اور وہ چلے یہاں تک کہ بدر میں اترے۔ وہاں قریش کے پانی پلانے والے ملے۔ ان میں بنی حجاج کا ایک کالا غلام بھی تھا، صحابہ نے اس کو پکڑا اور اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق پوچھنے لگے۔ وہ کہتا تھا کہ مجھے ابوسفیان کا تو علم نہیں البتہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف تو یہ موجود ہیں۔ جب وہ یہ کہتا، تو اس کو مارتے اور جب وہ یہ کہتا کہ اچھا اچھا میں ابوسفیان کا حال بتاتا ہوں تو اس کو چھوڑ دیتے۔ پھر اس سے پوچھتے تو وہ یہی کہتا کہ میں ابوسفیان کا حال نہیں جانتا البتہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف تو لوگوں میں موجود ہیں۔ پھر اس کو مارتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا:’’ ’’قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جب وہ تم سے سچ بولتا ہے تو تم اس کو مارتے ہو اور جب وہ جھوٹ بولتاہے توچھوڑ دیتے ہو۔‘‘ (یہ ایک معجزہ ہوا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ فلاں کافر کے مرنے کی جگہ ہے اور ہاتھ زمین پر رکھ کر نشان دہی کی اور یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے۔‘‘ راوی نے کہا کہ پھر جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ رکھا تھا، اس سے ذرا بھی فرق نہ ہوا اور ہر کافر اسی جگہ گرا، (یہ دوسرا معجزہ ہوا)۔
(1158) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم بُسَيْسَةَ عَيْنًا يَنْظُرُ مَا صَنَعَتْ عِيرُ أَبِي سُفْيَانَ فَجَائَ وَ مَا فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ غَيْرِي وَ غَيْرُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لاَ أَدْرِي مَا اسْتَثْنَى بَعْضَ نِسَائِهِ قَالَ فَحَدَّثَهُ الْحَدِيثَ قَالَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَكَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ لَنَا طَلِبَةً فَمَنْ كَانَ ظَهْرُهُ حَاضِرًا فَلْيَرْكَبْ مَعَنَا فَجَعَلَ رِجَالٌ يَسْتَأْذِنُونَهُ فِي ظُهْرَانِهِمْ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ لاَ إِلاَّ مَنْ كَانَ ظَهْرُهُ حَاضِرًا فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَصْحَابُهُ حَتَّى سَبَقُوا الْمُشْرِكِينَ إِلَى بَدْرٍ وَ جَائَ الْمُشْرِكُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ يُقَدِّمَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَى شَيْئٍ حَتَّى أَكُونَ أَنَا دُونَهُ فَدَنَا الْمُشْرِكُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ قَالَ يَقُولُ عُمَيْرُ بْنُ الْحُمَامِ الأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ بَخٍ بَخٍ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا يَحْمِلُكَ عَلَى قَوْلِكَ بَخٍ بَخٍ قَالَ لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِلاَّ رَجَائَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِهَا قَالَ فَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِهَا فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرَنِهِ فَجَعَلَ يَأْكُلُ مِنْهُنَّ ثُمَّ قَالَ لَئِنْ أَنَا حَيِيتُ حَتَّى آكُلَ تَمَرَاتِي هَذِهِ إِنَّهَا لَحَيَاةٌ طَوِيلَةٌ قَالَ فَرَمَى بِمَا كَانَ مَعَهُ مِنَ التَّمْرِ ثُمَّ قَاتَلَهُمْ حَتَّى قُتِلَ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسیسہ (ایک شخص کا نام ہے) کو جاسوس بنا کر بھیجا کہ وہ ابوسفیان کے قافلہ کی خبر لائے۔ وہ لوٹ کر آیا اور اس وقت گھر میں میرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ راوی نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ کی کس بیوی کو انس رضی اللہ عنہ نے مستثنیٰ کیا پھر حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور فرمایا:’’ إِنَّ لَنَا طَلِبَةً فَمَنْ كَانَ ظَهْرُهُ حَاضِرًا فَلْيَرْكَبْ مَعَنَا ‘‘ یہ سن کر چند آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سواریوں کی طرف جانے کی اجازت مانگنے لگے جو مدینہ منورہ کی بلندی میں تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں صرف وہ لوگ جائیں جن کی سواریاں موجود ہوں۔‘‘ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ چلے، یہاں تک کہ مشرکین سے پہلے بدر میں پہنچے اور مشرک بھی آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے کوئی کسی چیز کی طرف نہ بڑھے جب تک میں اس کے آگے نہ ہوں۔‘‘ پھر مشرک قریب پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اٹھو !جنت میں جانے کے لیے جس کی چوڑائی تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔‘‘ عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ ! جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ہاں!‘‘ اس نے کہا !واہ سبحان اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ایسا کیوں کہتا ہے؟‘‘ وہ بولا کچھ نہیں یا رسول اللہ ! میں نے اس امید پر کہا کہ میں بھی اہل جنت سے ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تو جنتی ہے۔‘‘ یہ سن کر چند کھجوریں اپنے ترکش سے نکال کر کھانے لگا۔ پھر بولا کہ اگر میں اپنی کھجوریں کھانے تک زندہ رہوں تو بڑی لمبی زندگی ہو گی اور جتنی کھجوریں باقی تھیں وہ پھینک دیں اور کافروں سے لڑتاہوا شہید ہو گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي الإِمْدَادِ بِالْمَلائِكَةِ وَ فِدَائِ الأُسَارَى وَ تَحْلِيْلِ الْغَنِيْمَةِ
فرشتوں کی امداد ، قیدیوں کے فدیہ اور مال غنیمت کے حلال ہونے کے متعلق​

(1159) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَ هُمْ أَلْفٌ وَ أَصْحَابُهُ ثَلاثُ مِائَةٍ وَ تِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلاً فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ لاَ تُعْبَدْ فِي الأَرْضِ فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْكِبَيْهِ فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخَذَ رِدَائَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ وَ قَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ! كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ { إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ } (الأنفال: 9) فَأَمَدَّهُ اللَّهُ بِالْمَلائِكَةِ قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ فَحَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِي أَثَرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَمَامَهُ إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ فَوْقَهُ وَ صَوْتَ الْفَارِسِ يَقُولُ أَقْدِمْ حَيْزُومُ فَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِ أَمَامَهُ فَخَرَّ مُسْتَلْقِيًا فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ وَ شُقَّ وَجْهُهُ كَضَرْبَةِ السَّوْطِ فَاخْضَرَّ ذَلِكَ أَجْمَعُ فَجَائَ الأَنْصَارِيُّ فَحَدَّثَ بِذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ صَدَقْتَ ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَائِ الثَّالِثَةِ فَقَتَلُوا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ وَ أَسَرُوا سَبْعِينَ قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمَّا أَسَرُوا الأُسَارَى قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِأَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ مَا تَرَوْنَ فِي هَؤُلائِ الأُسَارَى فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ! هُمْ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةِ أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ فِدْيَةً فَتَكُونُ لَنَا قُوَّةً عَلَى الْكُفَّارِ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ لِلإِسْلامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مَا أَرَى الَّذِي رَأَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ لَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَّا فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ فَتُمَكِّنَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ عَقِيلٍ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَ تُمَكِّنِّي مِنْ فُلانٍ نَسِيبًا لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَإِنَّ هَؤُلائِ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَ صَنَادِيدُهَا فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ لَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَاعِدَيْنِ يَبْكِيَانِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مِنْ أَيِّ شَيْئٍ تَبْكِي أَنْتَ وَ صَاحِبُكَ ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَائً بَكَيْتُ وَ إِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَائً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَبْكِي لِلَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ أَخْذِهِمُ الْفِدَائَ لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُهُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ شَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ { مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ } إِلَى قَوْلِهِ {فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَيِّبًا } (الأنفال: 67-69) فَأَحَلَّ اللَّهُ الْغَنِيمَةَ لَهُمْ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا کہ وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تین سو انیس تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ پھیلائے اور اپنے پروردگار سے پکار کر دعا کرنے لگے (اس حدیث سے یہ نکلاکہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے) :’’یا اللہ! تو نے جو وعدہ مجھ سے کیا اس کو پورا کر، اے اللہ! تو مجھے دیدے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا، اے اللہ ! اگر تو مسلمانوں کی اس جماعت کو تباہ کردے گا توپھر زمین میں تیری عبادت کوئی نہ کرے گا۔‘‘ (بلکہ شجر و حجر کی عبادت کی جائے گی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے برابر دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کندھوں سے اتر گئی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کندھوں پر ڈال دی پھر پیچھے سے لپٹ گئے اور کہا کہ اے اللہ کے نبی ! بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی دعا کافی ہے، اب اللہ تعالیٰ اپنا وہ وعدہ پورا کرے گا جو اس نے آپ سے کیا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ’’جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور فرمایا:’’ میں تمہاری مدد ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے کروں گا۔‘‘ (الانفال: ۹) پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرشتوں سے کی۔ ابوزمیل (راوئ حدیث) نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے حدیث بیان کی کہ اس روز ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو کہ اس کے آگے تھا، اتنے میں اوپر سے کوڑے کی آواز سنائی دی، وہ کہتا تھا :’’ بڑھ اے حیزوم۔‘‘ (حیزوم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام تھا) پھر جو دیکھا تو وہ کافر اس مسلمان کے سامنے چت گر پڑا۔ مسلمان نے جب اس کو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان تھا اور اس کا منہ پھٹ گیا تھا، جیسے کسی نے کوڑا مارا ہو اور وہ (کوڑے کی وجہ سے) سبز ہو گیا تھا۔ پھر مسلمان انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور قصہ بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تو سچ کہتا ہے ،یہ تیسرے آسمان سے آئی ہوئی مدد تھی۔‘‘ آخر مسلمانوں نے اس دن ستر کافروں کو مارا اور ستر کو قید کیا۔ ابوزمیل نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا کہ جب قیدی گرفتار ہو کر آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکراور سیدنا عمر رضی اللہ عنھما سے کہا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ !یہ ہماری برادری کے لوگ ہیں اور کنبے والے ہیں، میں یہ سمجھتاہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کچھ مال لے کر چھوڑ دیجیے جس سے مسلمانوں کو کافروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی ہو اور شاید اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام کی ہدایت کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابن خطاب ! تمہاری کیا رائے ہے؟ (عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ! میری رائے وہ نہیں ہے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کر دیں تاکہ ہم ان کو قتل کریں۔ عقیل کو علی ( رضی اللہ عنہ ) کے حوالے کیجیے، وہ ان کی گردن ماریں اور مجھے میرا فلاں عزیز دیجیے کہ میں اس کی گردن ماروں، کیونکہ یہ لوگ ’’کفر کے امام‘‘ ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے پسند آئی اور میری رائے پسند نہیں آئی اور جب دوسرا دن ہوا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (تو دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے کہا کہ یارسول اللہ!مجھے بھی بتائیے کہ آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر مجھے بھی رونا آئے گا تو روؤں گا ورنہ آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بناؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں اس وجہ سے روتا ہوں کہ جو تمہارے ساتھیوں کو فدیہ لینے کی وجہ سے میرے سامنے ان کا عذاب لایا گیا اس درخت سے بھی زیادہ نزدیک آگیاتھا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک درخت تھا، اس کی طرف اشارہ کیا) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ’’نبی کو یہ درست نہیں کہ وہ قیدی رکھے جب تک زمین میں کافروں کا زور نہ توڑ دے … تو جو مال غنیمت تمہیں ملا ہے اسے کھاؤ (کہ وہ تمہارے لئے) حلال طیب (ہے) اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ‘‘ (الانفال: ۶۷۔۶۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : كَلاَمُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِقَتْلَى بَدْرٍ بَعْدَ مَوْتِهِمْ
جنگ بدر کے مردار کافروں سے ان کے مرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے متعلق​

(1160) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلاَثًا ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ ،يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ ، يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ ، يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا فَسَمِعَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَوْلَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! كَيْفَ يَسْمَعُوا وَ أَنَّى يُجِيبُوا وَ قَدْ جَيَّفُوا قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَ لَكِنَّهُمْ لاَ يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا:’’ اے ابوجہل بن ہشام، اے امیہ ابن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچا پا لیا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پا لیا۔‘‘سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا سنا، تو عرض کی کہ یا رسول اللہ ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ (یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ وہ مردود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن رہے تھے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں کھینچ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِيْ غَزْوَةِ اُحُدٍ
غزوۂ احد کا بیان​

(1161) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أُفْرِدَ يَوْمَ أُحُدٍ فِي سَبْعَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ فَلَمَّا رَهِقُوهُ قَالَ مَنْ يَرُدُّهُمْ عَنَّا وَ لَهُ الْجَنَّةُ أَوْ هُوَ رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ ؟ فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ ثُمَّ رَهِقُوهُ أَيْضًا فَقَالَ مَنْ يَرُدُّهُمْ عَنَّا وَ لَهُ الْجَنَّةُ أَوْ هُوَ رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ ؟ فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى قُتِلَ السَّبْعَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِصَاحِبَيْهِ مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن (جب کافروں کا غلبہ ہوا اور مسلمان مغلوب ہو گئے) اکیلے رہ گئے۔ سات آدمی انصار کے اور دو قریش کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ان کو کون پھیرتا ہے؟ اس کو جنت ملے گی یا جنت میں میرا ساتھی ہوگا۔‘‘ ایک انصاری آگے بڑھا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ (کفار نے) پھر چڑھائی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کون ان کو لوٹاتا ہے؟ اس کو جنت ملے گی یا وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا۔‘‘ ایک اور انصاری آگے بڑھا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ پھر یہی حال رہا یہاں تک کہ ساتوں انصاری شہید ہوگئے۔ (سبحان اللہ !انصار کی جانثاری اور وفاداری کیسی تھی، یہاں سے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ اور مرتبہ سمجھ لینا چاہیے) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ہم نے اپنے اصحاب کے ساتھ انصاف نہ کیا (یا ہمارے اصحاب نے ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا)۔ ‘‘ (پہلی صورت میں یہ مطلب ہو گا کہ انصاف نہ کیا یعنی قریش بیٹھے رہے اور انصار شہید ہو گئے قریش کو بھی نکلنا تھا۔ دوسری صورت میں یہ معنی ہوں گے ہمارے اصحاب جو جان بچا کر بھاگ گئے انہوں نے انصاف نہ کیا کہ ان کے بھائی شہید ہوئے اور وہ اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں رہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : جُرْحُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَ أُحُدٍ
احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کا بیان​

(1162) عَنْ أَبِي حَازِمٍ أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِىَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْأَلُ عَنْ جُرْحِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمَ أُحُدٍ ؟ فَقَالَ جُرِحَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ كُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَ هُشِمَتِ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ فَكَانَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَغْسِلُ الدَّمَ وَ كَانَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْكُبُ عَلَيْهَا بِالْمِجَنِّ فَلَمَّا رَأَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ الْمَائَ لاَ يَزِيدُ الدَّمَ إِلاَّ كَثْرَةً أَخَذَتْ قِطْعَةَ حَصِيرٍ فَأَحْرَقَتْهُ حَتَّى صَارَ رَمَادًا ثُمَّ أَلْصَقَتْهُ بِالْجُرْحِ فَاسْتَمْسَكَ الدَّمُ
ابوحازم سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے سنا، جب ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احد کے دن زخمی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا،تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت ٹوٹ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود ٹوٹا (تو سر کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا خون دھوتی تھیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس پر سے پانی ڈالتے تھے۔ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا نے دیکھاکہ پانی سے خون اور زیادہ نکلتا ہے، تو انہوں نے بوریے کا ایک ٹکڑا جلا کر راکھ زخم میں بھر دی، تب خون بند ہوا۔

(1163) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم كُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَ شُجَّ فِي رَأْسِهِ فَجَعَلَ يَسْلُتُ الدَّمَ عَنْهُ وَ يَقُولُ كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا نَبِيَّهُمْ وَ كَسَرُوا رَبَاعِيَتَهُ وَ هُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى { لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْئٌ } (آلِ عمران: 128)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دانت احد کے دن ٹوٹا اور سر پر زخم لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون کو صاف کرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے:’’ اس قوم کی فلاح کیسے ہو گی جس نے اپنے پیغمبر کو زخمی کیا اور اس کا دانت توڑا ،حالانکہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا تھا۔‘‘ اس وقت یہ آیت اتری :’’تمہارا کچھ اختیار نہیں اللہ تعالیٰ چاہے ان کو معاف کرے اورچاہے عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔‘‘ (آل عمران : ۱۲۸)
 
Top