• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم پر امام ابوزرعہ رازی کے اعتراضات کا جائزہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
صحیح مسلم پر امام ابوزرعہ رازی کے اعتراضات کا جائزہ

محمد خبیب احمد (ادارہ علوم اثریہ، فیصل آباد)
(یہ مضمون ہفتہ روزہ الاعتصام 1438ھ کے مختلف شماروں میں بالاقساط شائع ہوا )
اﷲ جل شانہ نے صحیح بخاری کے بعد جس رتبے سے صحیح مسلم کو نوازا ہے وہ اربابِ علم کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔ اس قبولیت کی وجہ اس کے بلندپایہ مصنف، حجۃ الاسلام، امام مسلم بن حجاج قشیری (وفات: ۲۶۱ھ) کا اﷲ سبحانہ سے انتہائی گہرا تعلق تھاجس کی بہ دولت انھیں کتاب کی حسنِ تنسیق کا اعلیٰ ذوق مرحمت فرمایا گیا۔ اس بنا پر اسے کتب ستہ میں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
ذکرِ سند ہو یا حکایتِ متن، انھوں نے ہر دو صورتوں میں انفرادیت پیدا کی۔ اسانید کا بہ نظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ عموماً کسی صحابی کی قابلِ اعتبار سبھی اسانید جو اُن کے یہاں موجود ہوتی ہیں، کو یک جا پرو دیتے ہیں۔ راویوں کو دیکھا جائے تو وہ اہلِ اتقان و ضبط کی روایت کو دوسروں سے مقدم کرتے ہیں، مشہور روایت کو غیر مشہور سے قبل ذکر کرتے ہیں، علو اور نزول کا لحاظ رکھتے ہوئے عالی سند کو نازل سند پر ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ہی شہر و قبیلے کے باشندگان کی حدیث کو پہلے ذکر کرتے ہیں۔ الفاظ اور صِیَغِ ادا کا اہتمام بہ طور خاص کرتے ہیں۔ انھیں اسی انداز سے بیان کرتے ہیں جیسے حدیث کے راوی ذکر کرتے ہیں۔ جگہ جگہ حدثنا، أخبرنااور سمعت کے مابین حد فاصل قائم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
متنِ حدیث کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ عموماً مکمل حدیث بیان کرتے ہیں۔ حدیث کی تقطیع شاذ و نادر ہی کرتے ہیں۔ روایت بالمعنیٰ سے بھی احتراز برتتے ہیں۔ الفاظ کی کمی و بیشی کا ذکر کرتے ہیں۔
اسی امتیاز کی بہ دولت اہلِ مغرب متنِ حدیث نقل کرنے میں دوسروں کی بہ نسبت صحیح مسلم پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے صراحت کی ہے۔ (النکت: ۲۸۳/۱(
اس محولہ بالا مقام پر حافظ ابن حجر کے مشار الیہ حافظ ابو محمد عبدالحق اشبیلی مغربی(وفات: ۵۸۱ھ یا ۵۸۲ھ) ہیں، انھوں نے بھی مقدمۂ کتاب میں صراحت کی ہے کہ
’’میں صحیح مسلم پر بھروسا کرتا ہوں اور اکثر و بیشتر اسی سے نقل کرتا ہوں۔‘‘ (مقدمۃ الأحکام الوسطی للإشبیلي: ۷۰/۱(
علامہ ابو مروان عبدالملک بن زیادۃ اﷲ طبنی القرطبی (وفات ۴۵۷ھ) کا بیان ہے کہ ہمارے بعض اساتذہ صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر ترجیح دیتے ہیں۔ (مقدمۃ إکمال المعلم للقاضي عیاض، ص: ۹۹،۱۰۰(
حافظ ابن حزم صحیح مسلم کو صحیح بخاری پر فوقیت دیتے تھے۔ (برنامج التجیبي القاسم بن یوسف (وفات: ۷۳۰ھ)، ص: ۹۳، النکت لابن حجر: ۲۸۲/۱(
علامہ مسلمہ بن قاسم کا بیان ہے کہ کسی نے اس جیسی کتاب نہیں دیکھی۔ (تقیید المہمل للغساني: ۶۷/۱، مقدمۃ إکمال المعلم للقاضي عیاض، ص: ۱۰۰، الفہرسۃ لابن الخیر، ص: ۸۷(
ملحوظ رہے کہ یہ فوقیت صحت کے اعتبار سے نہیں۔ صحت کے اعتبار سے صحیح بخاری صحیح مسلم پر فائق ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے بھی وضاحت کی ہے۔ (النکت: ۲۸۳/۱(
محدثین نے اپنی زمامِ توجہ اس جانب مبذول کی۔ اس کے مستخرجات درجن کے لگ بھگ لکھے گئے جو صرف اسی کتاب پر ہیں، صحیح بخاری اس میں شامل نہیں۔ اس کی شروحات اور مختصرات وجود میں آنے لگیں اور راویانِ صحیح مسلم کے تعارف کے لیے کتب مدوّن ہوئیں۔ اس سے اہل علم کے ہاں اس کی قدر معلوم ہوتی ہے۔
بعض محدثین نے اس کتاب کو ناقدانہ نگاہوں سے پرکھا، اس کی جزوی احادیث یا الفاظ کو ہدفِ تنقید ٹھہرایا اور اپنے نقطۂ نظر کے مطابق ان پر کلام کیا۔ اُن میں غالباً امام مسلم کی زندگی میں سب سے پہلے انھی کے استاد امام ابوزرعہ رازی ہیں۔
ان کا نام عبیداﷲ بن عبدالکریم مخزومی ہے جو امامِ فن، ناقد، حافظ، شیخ الاسلام، سنت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے بحر بے کنار ایسے اوصاف سے متصف تھے۔ انھیں علل الحدیث میں جو مہارت تامہ حاصل تھی اس کی شہادت العلل لابن أبي حاتم، الجرح و التعدیل لابن أبي حاتم، أجوبتہ علی سؤالات البرذعي، کتاب الضعفاء لأبي زرعہ سے بھی ملتی ہے۔ خود اُن کا اپنا بیان ہے:
’’میں نے چھ لاکھ صحیح احادیث ازبر کی ہیں۔ تفسیر اور قراء ت کی بابت چودہ ہزار احادیث اور دس ہزار جعلی احادیث میرے قرطاسِ دماغ پر نقش ہیں۔ ان سے استفسار کیا گیا کہ من گھڑت احادیث حفظ کرنے کی کیا حکمت ہے؟ جواباً فرمایا: جب ان میں سے کوئی حدیث میرے سامنے آئے گی تو میں (بلا تردد) اسے شناخت کر لوں گا۔‘‘)شرح علل الترمذي: ۴۹۴/۱(
امام ابوزرعہ کی شخصیت کا تعارف چونکہ ہمارا موضوع نہیں، اس لیے شائقین اس کے لیے ملاحظہ فرمائیں: أبوزرعۃ رازي وجہودہ في السنۃ النبویۃ للدکتور سعدي ہاشمي: ۲۱۷-۲۱۰/۱․
امام مسلم نے صحیح مسلم میں ان سے صرف ایک روایت لی ہے۔(ملاحظہ ہو صحیح مسلم، حدیث: ۲۷۳۹) اور امام ابوزرعہ امام مسلم کے شاگرد بھی ہیں۔ (سؤالات البرذعي: ۵۲۵/۲، ۵۹۱)یا پھر یہ روایۃ الأقران کی صورت ہے۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شیخین کریمین (امام بخاری و امام مسلم) کا صحیحین میں منہج یہ ہے کہ انھوں نے صحیح اور متصل اسانید سے احادیث ذکر کی ہیں، پھر ان کے بعد ایسی احادیث بھی بسا اوقات ذکر کرتے ہیں جن کے راویوں میں کلام ہوتا ہے یا راوی اور مروی عنہ کے مابین انقطاع ہوتا ہے، وغیرہ۔
اس کے بنیادی اسباب دو ہیں:
1……حفاظ کا معمول رہا ہے کہ وہ شواہد اور متابعات میں احادیث ذکر کرنے میں اصول نرم رکھتے ہیں۔ ان پر وہ ایسی کڑی شرائط عائد نہیں کرتے جو اصل کتاب میں ذکر کردہ احادیث پر لاگو کرتے ہیں کیوں کہ ان کا اعتماد در اصل صحیح احادیث پر ہوتا ہے۔ اور وہ احادیث جن پر نقد ہوتا ہے، وہ اُصول میں مذکور روایات کی تقویت کا باعث ہوتی ہیں، بہ شرط کہ وہ اس قابل ہوں۔
2…… حدیث میں اختلاف کی نشان دہی مطلوب ہوتی ہے تاکہ کوئی بعد میں ان پر استدراک نہ کرسکے کہ اس میں تو اختلاف موجود ہے۔
بنا بریں یہ سمجھنا کہ صحیح بخاری و مسلم کا ہر ہر لفظ محفوظ ہے۔ کسی لفظ، جملے یا حدیث کو استثنا حاصل نہیں، درست موقف نہیں ہے۔
ملحوظ رہے کہ صحیحین کے قابلِ اعتراض جملوں پر محدثین نقد کر چکے ہیں جن میں امام دارقطنی، حافظ ابن عمار الشہید، حافظ ابو علی غسانی الجبانی وغیرہ سرفہرست ہیں۔ اور ان کا دفاع کرنے والے بھی اپنا حق ادا کرتے رہے ہیں جن میں حافظ ابومسعوددمشقی، حافظ رشید الدین یحییٰ بن علی عطار، امام نووی اور حافظ ابن حجر پیش پیش رہے۔ لہٰذا اب اگر کوئی نیا اعتراض وارد کرے گا تو وہ لائقِ التفات نہ ہو گا، جیسا کہ محدث البانی کے بھی بعض تفردات ہیں۔
مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ صحیحین میں معلول الفاظ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’بعض اہلِ علم نے ان الفاظ کو صرف اس بنا پر صحیح باور کر لیا ہے کہ یہ صحیح بخاری میں ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں، جب کہ صحیح بخاری و مسلم میں شیخین ایسی حدیث بھی لے آئے ہیں جو مقصود کے اعتبار سے تو صحیح ہوتی ہے، یعنی من حیث المجموع، اگرچہ کوئی ٹکڑا اس کا ان کے معیارِ صحت کے مطابق نہیں ہوتا، بلکہ اس میں بعض رواۃ کا وہم ہوتا ہے۔ صحیحین کا غائر نظر سے مطالعہ کرنے والے حضرات کے لیے یہ بات نئی نہیں، اس کی وضاحت ہم نے اپنے مقالہ ’’صحتِ بخاری‘‘ میں قدرے تفصیل سے کر دی ہے۔‘‘(توضیح الکلام، ص: ۱۳۲۔ تنقیح الکلام، ص: ۳۰۸(
امام مسلم بھی صحیح مسلم میں احادیث کی ترتیب میں مختلف قرائن کو ملحوظ رکھتے ہیں جس کی تفصیل راقمِ سطور کی کتاب مقالات اثریہ (ص: ۳۳۳- ۳۴۵) میں بیان ہو چکی ہے۔
ہمارا یہ مقالہ صحیح مسلم کے دفاع اور امام مسلم کے منہج کی توضیح پر مشتمل ہے۔ اس طالب علم کی ناقص معلومات کے مطابق اتنے وسیع پیمانے پر(اردو اور عربی زبان میں) یہ پہلی کاوش ہے جس میں گفتگو موضوعِ بحث ’’امام ابوزرعہ کی آراء اور صحیح مسلم‘‘ پر مشتمل ہے۔
یہ مقالہ دو حصوں پر مشتمل ہے:
۱: صحیح مسلم کے راویوں پر نقد۔
۲:صحیح مسلم کی احادیث پر نقد۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حصہ اول :صحیح مسلم کے راویوں پر اعتراض
امام ابوزرعہ رازی نے صحیح مسلم کے جن راویوں پر شدید تنقید کی ہے وہ تین ہیں: اسباط بن نصر، قطن بن نُسیر اور احمد بن عیسیٰ مصری۔ چنانچہ امام ابوزرعہ کے شاگرد ابو عثمان سعید بن عمرو بن عمار (وفات: ۲۹۲ھ) جو برذعی کی نسبت سے معروف ہیں، کا بیان ہے:
’’میں ابوزرعہ کی مجلس میں تھا کہ صحیح مسلم کا تذکرہ چھڑ گیا، پھر فضل الصائغ(امام فضل بن عباس جو حافظ و ناقد ہیں اور فضلک الرازی کے نام سے شہرت یافتہ ہیں) کی کتاب کا ذکر ہوا تو ابوزرعہ مجھے فرمانے لگے: ان لوگوں نے قبل از وقت پیش رفت کی ہے۔ انھوں نے ایسا کام کیا ہے جس کے ذریعے سے وہ سربلند ہونا چاہتے ہیں۔ انھوں نے ایسی کتاب لکھی جو ان سے پہلے نہیں لکھی گئی تاکہ وہ قبل از وقت اپنی علمی دھاک بٹھا سکیں۔
ایک روز امام ابوزرعہ کے پاس ایک آدمی صحیح مسلم لایا۔ میں بھی وہیں موجود تھا۔ ابوزرعہ اسے دیکھنے لگے تو یکایک اسباط بن نصر کی حدیث نظر سے گزری۔ مجھے ابوزرعہ نے کہا: یہ صحیح سے کس قدر دُور ہے، اس نے اپنی کتاب میں اسباط بن نصر کو داخل کیا ہے! پھر کتاب میں قطن بن نُسیر کو دیکھا تو مجھے فرمانے لگے: یہ اس (اسباط) سے بھی زیادہ دُور ہے۔ قطن بن نُسیر احادیث کو موصول بیان کرتے ہوئے ثابت عن أنس بنا دیتے تھے۔ ابوزرعہ پھر دیکھنے لگے، کہا: مسلم، احمد بن عیسیٰ مصری کی روایت صحیح مسلم میں ذکر کرتے ہیں! مجھے ابوزرعہ نے کہا: میں نے مصریوں کو احمد بن عیسیٰ کے بارے میں شک کرتے ہوئے نہیں دیکھا (انھیں یقین تھا)۔ ابوزرعہ نے اپنے ہاتھ سے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا، گویا وہ کہنا چاہتے تھے: وہ جھوٹ بولتا ہے۔
پھر مجھے کہنے لگے: مسلم ان جیسوں سے روایت کرتے ہیں، محمد بن عجلان ایسوں کی روایت (اصول میں) ترک کرتے ہیں، انھوں نے ہمارے اوپر بدعتیوں کو سوار کر دیا ہے۔ جب ان کے خلاف کسی روایت کو بہ طورِ حجت پیش کیا جائے گا تو وہ دلیل پیش کریں گے کہ یہ حدیث کتاب الصحیح (صحیح مسلم) میں مذکور نہیں۔
میں نے ابوزرعہ کو اس کتاب کی تالیف کی مذمت اور صاحبِ کتاب کو ملامت کرتے ہوئے دیکھا۔ میں دوسری مرتبہ نیشاپور گیا۔ مسلم بن حجاج سے ابوزرعہ کے اعتراضات کا تذکرہ کیا کہ آپ نے اس کتاب میں اسباط بن نصر، قطن بن نُسیر اور احمد بن عیسیٰ کی روایت ذکر کی ہے!
امام مسلم کي وضاحت:
مجھے مسلم فرمانے لگے: میں نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اسباط، قطن اور احمد کی وہ حدیث ذکر کی ہے جسے ثقہ راوی اپنے شیوخ سے بیان کرتے ہیں۔ ہاں، بسا اوقات میرے پاس ان کی سند عالی ہوتی ہے اور ان سے اوثق راویوں کی حدیث میرے نزدیک نازل سند سے ہوتی ہے (تب ان کی انفرادی روایت عالی ہونے کی بنا پر بیان کر دیتا ہوں) میں ایسے راویان پر اکتفا کرتا ہوں۔ اصل حدیث ثقہ راویوں سے معروف ہوتی ہے۔
مسلم اس کے بعد ’’رے‘‘ گئے۔ مجھے اطلاع ملی ہے کہ وہ (ابن وارہ) ابوعبداﷲ محمد بن مسلم بن وارہ (وفات: ۲۷۰ھ) کے پاس گئے تو انھوں نے بھی امام مسلم کو سخت سست کہا اور اس کتاب کی تصنیف پر ڈانٹ پلائی اور ابوزرعہ جیسے ہی اعتراضات کیے کہ آپ نے اہلِ بدعت کو ہم پر مسلط کر دیا ہے۔امام مسلم نے ان سے معذرت کی اور کہا: میں نے یہ کتاب لکھی اور کہا ہے کہ صحیح احادیث پر مشتمل ہے، میں نے قطعاً یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اگر میں کسی حدیث کو اس کتاب میں ذکر نہ کروں تو وہ ضعیف ہو گی۔ میں نے یہ کتاب بھی صحیح حدیث سے منتخب کی ہے تاکہ میرے پاس ذخیرہ احادیث مدوّن رہے اور اس کے پاس بھی جو مجھ سے صحیح حدیث لکھنے کا خواہش مند ہے۔ ان کی صحت میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا: اس کے علاوہ احادیث ضعیف ہیں۔
اسی قسم کا عذر امام مسلم نے امام محمد بن مسلم(ابن وارہ) کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے ان کی معذرت قبول کی اور اسے روایت کیا۔‘‘ (سؤالات البرذعي أبا زرعۃ: ۶۷۷-۶۷۴/۲(​
امام برذعی کی وساطت سے یہ واقعہ دیگر اہل علم نے بھی نقل کیا ہے جن میں حافظ خطیب بغدادی، نووی، ذہبی، ابن حجر، ابن رجب وغیرہ شامل ہیں۔ بعض محدثین نے تفصیلاً بیان کیا ہے اور بعض نے مختصراً۔(سیر أعلام النبلاء: ۵۷۱/۱۲، وغیرہ)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوزرعہ نے صحیح مسلم پر دو قسم کے اعتراضات وارد کیے ہیں:
اولًا: امام مسلم نے بعض متکلم فیہ راویوں کی روایات تو ذکر کی ہیں، جب کہ بعض ثقہ راویوں کی احادیث اصالتاً بیان کرنا تو کجا متابعتاً اور شاہداً بھی بیان نہیں کیں!
ثانیاً: انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’الجامع الصحیح‘‘ رکھا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ سبھی یا اکثر صحیح احادیث اس میں موجود ہوں، جب کہ امرِ واقع ایسا نہیں ہے۔ اس لیے جب بدعتیوں کی تردید میں صحیح حدیث پیش کی جائیں گی تو وہ اس پر اعتراض کرتے ہوئے چلااُٹھیں گے کہ یہ صحیح مسلم میں موجود نہیں، لہٰذا صحیح کیوں کر ہو گی؟
امام ابوزرعہ کے پہلے اعتراض کے حوالے سے گزارش ہے کہ امام مسلم نے الصحیح میں جن اُصولوں کی پاس داری کی ہے، دوسروں کی نسبت وہ خود ان سے زیادہ باخبر ہیں۔ اگر وہ اسباط، قطن اور احمد کی مرویات ذکر کرتے ہیں اور ابن عجلان کی روایت متابعت میں ذکر کرتے ہیں تو یہ کوئی نقص نہیں کیوں کہ انھوں نے اسباط وغیرہ کی وہ روایات نقل کی ہیں جو عالی سند سے ہیں یا پھر ثقات ان کے متابعین ہیں، جیسا کہ آئندہ تفصیل سے واضح ہو جائے گا، ان شاء اﷲ۔
ان کے دوسرے اعتراض کے جواب میں امام مسلم نے جو موقف بیان کیا ہے وہ بالکل واضح ہے کہ میرا یہ دعویٰ ہی نہیں ہے کہ صحیح مسلم سے خارج صحیح احادیث میرے نزدیک یا جمہور محدثین کے ہاں ضعیف ہیں۔ اس تدوین کا مقصد اپنی احادیث کی صیانت اور بعد میں نقل کرنے والوں کے لیے سہولت ہے، لہٰذا اس میں موجود متکلم فیہ راویوں کی روایت میں شک نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ ثقہ راوی ان کے متابع موجود ہیں۔ میں نے بھی ان کی روایات کی تنقیح میں خاصی احتیاط برتی ہے اور جو الفاظ معلول ہیں ان کی صراحت کر دی یا ان کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔
امام مسلم کی زندگی میں جنھوں نے ان کی کتاب پر اعتراض کیا تو صاحبِ کتاب نے ان ماہرین کی جب تشفی کرائی تو وہ بھی حقیقت اور اسلوبِ کتاب کو سمجھ گئے، مگر بعض لوگ انھی راویوں کی احادیث کو ضعیف قرار دینے کی سعی نامشکور کرتے ہیں حالانکہ وہ امام مسلم کے اسلوب ہی سے بے خبر ہیں!یہاں ہم انھی راویوں کی احادیث کے بارے میں امام مسلم کے اسلوب کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ صحیح مسلم سے قبل صحیح بخاری موجود تھی، مگر امام ابوزرعہ نے صحیح بخاری پر وہ اعتراض وارد کیوں نہ کیا جو صحیح مسلم پر کیا؟ حالانکہ احمد بن عیسیٰ کی متعدد روایات صحیح بخاری میں موجود ہیں! (تفصیل آئندہ آ رہی ہے)۔ امام ابوزرعہ نے التاریخ الکبیر للبخاري میں امام بخاری کے اوہام اور اخطاء کا تعاقب کیا، جیسا کہ ان کے شاگرد امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب ’’بیان أخطا ٔالبخاري‘‘ میں ان اوہام و اخطاء کو ذکر کیا ہے، قطع نظر اس سے کہ امام ابوزرعہ اور امام ابو حاتم کس حد تک اس تعاقب میں کامیاب رہے۔
بادی النظر میں اس کا جواب یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوزرعہ کی نگاہ میں امام بخاری صحیح بخاری مرتب کرنے کے اہل تھے، جیسا کہ ان کے متعدد توصیفی کلمات امام بخاری کی فضیلت اور علمی رسوخ پر دلالت کرتے ہیں۔ جب کہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں جو اسنادی خصائص ذکر کیے ہیں، معلوم یہ ہوتا ہے کہ امام ابوزرعہ کی نگاہ میں ایسا کارنامہ طویل ممارست، بہ کثرت علمی سفر اور وافر سماعِ حدیث کا متقاضی ہے جسے کما حقہ امام مسلم پورا نہیں کر پائے۔
اسباط، قطن اور احمد بن عیسیٰ کی روایات کی تفصیل حسب ذیل ہے:​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
پہلا راوی اسباط بن نصر:
اسباط کے بارے میں محدثین کی آراء ملاحظہ فرمائیں:
1: امام ابونعیم فضل بن دکین اسے ضعیف کہتے تھے، نیز فرماتے تھے:
’’اس کی عمومی احادیث عامی، ردّی اور الٹ پلٹ اسانید والی ہیں۔” ’’کوئی حرج نہیں، مگر وہ کم عقل ہے۔‘‘ (الجرح و التعدیل: ۳۳۲/۲․ الأجوبۃ لأبي مسعود الدمشقي، ص: ۳۳۰، ۳۳۱) ’’ہالک ہے۔‘‘(سؤالات البرذعي: ۴۶۵/۲)’’حدیث الٹ پلٹ کرتے تھے۔‘‘ (سؤالات البرذعي: ۴۶۴/۲(
2 امام ابوزرعہ:’’وہ کبھی منکر روایات بیان کرتا ہے اور کبھی مشہور روایات،فی نفسہٖ کوئی حرج نہیں۔‘‘ (سؤالات البرذعي: ۴۶۴/۲(
گویا امام ابوزرعہ نے اس کی حدیث میں کلام کیا ہے کہ وہ معروف اور منکر روایات بیان کرتا ہے، اس کی ذات پر تنقید نہیں کی۔
3 امام نسائی: لیس بالقوي․(تہذیب الکمال: ۵۲۶/۱(
4 علامہ الساجی: ’’وہ سماک بن حرب سے ایسی احادیث بیان کرتا ہے جس میں اس کی متابعت موجود نہیں۔‘‘(الإکمال للمغلطائي: ۶۴/۲(
5 امام احمد فرماتے ہیں: ’’امام وکیع اور ابو نعیم، اسباط کے سوا کوفہ کے دیگر شیوخ سے حدیث بیان کرتے تھے۔‘‘ (العلل للإمام أحمد: ۹۵/۲، فقرۃ: ۱۶۷۸(
6 امام احمد نے کہا کہ ’’میں نے اس کی کوئی حدیث کسی سے نہیں لکھی۔‘‘امام عبداﷲ بن احمد فرماتے ہیں: ’’میرا خیال ہے کہ انھوں نے اسے پہچانا نہیں۔‘‘ (العلل و معرفۃ الرجال: ۹۵/۲، رقم:۱۶۷۸(
امام احمد سے پوچھا گیا کہ اسباط جب سدی سے روایت کرے تو اس کی حدیث کیسی ہو گی؟ فرمایا: ’’میں نہیں جانتا۔‘‘ گویا انھوں نے اسے ضعیف کہا ہے۔ (الجرح و التعدیل: ۳۳۲/۲(
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ امام ابن عبدالہادی اور حافظ ذہبی نے ذکر کیا ہے کہ امام احمد نے اس میں توقف کیا ہے۔(بحر الدم، ص: ۶۳، المغنی: ۵۲۳/۶۶/۱) اس سے مترشح ہوتا ہے کہ امام احمد نے اس پر جرح نہیں کی۔ حالانکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ امام صاحب نے اس سے روایت لینے میں توقف کیا ہے، نہ کہ جرح کرنے میں، جیسا کہ الجرح و التعدیل (۳۳۲/۲) میں صراحت ہے۔
مذکورہ بالا اقوال کا حاصل یہ ہے کہ امام ابن دکین نے اسباط پر سب سے شدید تنقید کی ہے۔ علامہ ساجی نے مفسر جرح ذکر کی ہے، اس کا تعلق صحیح مسلم کی سند سے ہے جس کی وضاحت آئندہ آ رہی ہے۔ مگر اس جرح کے باوجود وہ سند متروک نہیں کیوں کہ مسند ابی عوانہ میں اسباط کے متابع امام شعبہ موجود ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر نقل کرتے ہیں:
’’عن محمد بن اللیث ثنا عبدان ثنا أبي ثنا شعبۃ سمعت سماکا نحوہ․‘‘(اتحاف المہرۃ: ۸۶/۳(
اس کے راوی ثقہ ہیں۔ محمد بن لیث کے بارے میں کوئی کلمہ توثیق نہیں مل سکا۔ حافظ خلیلی نے بھی ان کے حالات میں کوئی کلمۂ تعدیل نقل نہیں کیا۔ (الإرشاد: ۹۲۰/۳) امام ابوعوانہ نے المستخرج میں ان سے متعدد روایتیں نقل کی ہیں۔
علاوہ ازیں امام مسلم نے اسباط کی حدیث کی تائید میں حضرت انس کی حدیث بہ طور شاہد ذکر کی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۲۳۳۰(
امام ابن دکین اور حافظ ساجی کے علاوہ دیگر ائمہ کی تنقید نہایت معمولی ہے۔ اسی طرح کسی محدث کا راوی سے روایت نہ لینا بھی اس کے ترک کی قطعی دلیل نہیں بن سکتا۔
تنبیہ: محقق کتاب العلل للإمام أحمد (۴۸۵/۳، فقرۃ: ۶۰۷۸) نے متن میں مذکور اسباط کو حاشیۂ تحقیق میں اسباط بن نصر سمجھ لیا ہے، حالانکہ وہ اسباط بن محمد دوسرا راوی ہے۔ امام عقیلی نے امام احمد کا نقل کردہ قول اسباط بن محمد کے حالات میں ذکر کیا ہے۔(الضعفاء الکبیر للعقیلي: ۱۱۹/۱(
اسباط بن محمد کے مفصل حالات آئندہ ذکر کیے جائیں گے۔
تعدیل کرنے والے اہل علم:
1……امام ابن معین: انھوں نے اسباط کو ثقہ قرار دیا ہے، جیسا کہ ان کے متعدد تلامذہ نے ان سے نقل کیا ہے، مثلاً: امام عباس دُوری، ابن جنید، ابن ابی خیثمہ اور دارمی۔ (التاریخ لابن معین، الدوري: ۲۶۶/۳، فقرۃ: ۱۲۵۱․ سؤالات ابن الجنید، ص: ۲۱۸، فقرۃ: ۸۲۲․ الجرح و التعدیل: ۳۳۲/۲․ التاریخ للدارمي، ص: ۷۰، فقرۃ: ۱۴۳(
امام دُوری کی روایت سے امام ابن معین کا قول امام ابن شاہین نے بھی ذکر کیا ہے۔ (الثقات، فقرۃ: ۱۰۱(
امام ابن معین سے ایک دوسری روایت ’’لیس بشيء‘‘ بھی ہے۔ (تہذیب التہذیب: ۲۱۲/۱(
یہ کلمات عموماً جرح پر، بلکہ شدید جرح پر دلالت کرتے ہیں۔ ڈاکٹراحمد نور سیف نے اس اصطلاح کی جو تحقیق کی ہے، اس کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:​
  • اس کا اطلاق اس ضعیف راوی پر بھی ہوتا ہے جس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی۔
  • جو متروک الحدیث ہے اور اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی۔
  • بعض راویوں کی روایت ایک حالت میں مقبول ہو گی اور دوسری کیفیت میں مسترد۔
  • اس کی حدیث لکھی جائے گی۔ اس جرح کے ساتھ امام ابن معین ’’ضعیف‘‘ کی جرح بھی ذکر کرتے ہیں۔
  • ایسا راوی اپنی حدیث میں کثیر الغلط ہوتا ہے، اسے صحیح ضبط نہیں کر سکتا۔(دراسۃ التاریخ لابن معین: ۱۱۹-۱۱۶/۱(
امام ابن معین سے یہ جرح ان کے کس شاگرد نے نقل کی ہے، حافظ ابن حجر نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی۔ ممکن ہے کہ امام ابن معین کے مذکورہ بالا شاگردوں میں سے کسی نے ذکر کی ہو، یا پھر امام ابن معین کے دیگر تلامذہ؛ الدقاق، طبرانی، غلابی وغیرہ نے نقل کی ہو، واﷲ اعلم۔
آپ نے ملاحظہ کیا کہ ایک جماعت تو امام صاحب سے توثیق نقل کر رہی ہے، جب کہ کوئی نامعلوم یا غیر متعین شاگرد ’’لیس بشيء‘‘ کی جرح ذکر کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں امام ابن معین کے تلامذہ کے مابین ترجیح دینے سے قبل دیکھنا ہو گا کہ امام ابن معین کا قول کیوں مختلف ہوا؟ اگر ہم باریک بینی سے ان کے اقوال کا جاۂ لیں تو ممکن ہے کہ یہ نتیجہ نکلے کہ ان کے سبھی اقوال اپنے اپنے موقع و محل پر درست ہیں۔ اور یوں ترجیح کی نوبت نہیں آئے گی کیوں کہ مسؤل کے جواب میں سائل کا بہت اثر ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر سائل کسی ایک راوی کو مشہور ثقہ راوی کے ساتھ ملا کر سوال کرتا ہے تو امام ابن معین اس راوی کو ضعیف کہتے ہیں۔ یہاں تضعیف نسبتی ہوگی، یعنی اس راوی کے بہ نسبت کمزور ہے، مطلق طور پر ضعیف نہیں۔ اسی طرح سائل نے اسی راوی کو کسی ضعیف راوی کے ساتھ ملا کر امام ابن معین سے سوال کیا تو انھوں نے اسے ثقہ قرار دیا۔ یہاں بھی توثیق نسبتی ہے، یعنی اس راوی کے بہ نسبت مضبوط راوی ہے، مطلق طور پر نہیں۔
سائل کبھی ایسا بھی کرتا ہے کہ راوی کی موہوم (وہم شدہ) حدیث اپنے سوال میں ذکر کر کے امام ابن معین سے استفسار کرتا ہے تو وہ اس کی غلطی کی وجہ سے اسے ضعیف کہہ دیتے ہیں۔ اسی راوی کی کوئی ایسی حدیث جو محفوظ ہو، یعنی ثقات اس کی تائید کریں، اپنے سوال میں ذکر کر کے امام ناقد سے وضاحت چاہی جاتی ہے تو امام ابن معین اس کی توثیق فرما دیتے ہیں اور جب اسی راوی کے بارے میں انفرادی طور پر سوال کیا جاتا ہے تو وہ متوسط عدالت بیان کر دیتے ہیں۔
یہ سوال کی پانچوں صورتیں اور ان سے برآمد ہونے والے نتائج اپنے اپنے محل میں درست ہیں۔ امام صاحب کے کسی قول کو ترجیح دینے کی ضرورت نہیں۔ ان کے دو یا اس سے زائد اقوال کے مابین جمع و تطبیق کی صورت نکل آئے گی۔
اگر ایسا نہ ہو، یعنی تضعیف یا توثیق نسبتی نہ ہو، راوی کی موہوم (وہم شدہ) یامحفوظ روایت کا ذکر سوال میں نہ کیا گیا ہو تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ امام صاحب کے اجتہاد میں تبدیلی تو واقع نہیں ہوئی۔ اگر ان کی رائے میں تبدیلی ثابت ہوجائے تو پھر ان کے آخری موقف کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر یہ بھی معلوم نہ ہو تو تب شاگردوں کی روایات کے مابین ترجیح دی جائے گی جس کے لیے درج ذیل قرائن کو ملحوظ رکھنا ہو گا:​
  • 1 جو شاگرد اپنے استاد کی طویل مصاحبت میں رہا ہو، اُسے مقدم کیا جائے گا، جیسے امام دُوری ہیں۔
  • 2 جمہور اور احفظ کی روایت کو مقدم کیا جائے گا۔
  • 3 بغدادی شاگردوں کی روایت کو مقدم کیا جائے گا کیوں کہ وہ امام صاحب سے وابستہ رہے اور انھیں بہ خوبی جانتے تھے۔
  • 4 دو یا متعدد اقوال میں سے جو قول دیگر ناقدین کے قول کے موافق ہو، اُسے قبول کیا جائے گا۔
  • 5 قائل تک سند کو دیکھا جائے گا، جس کی سند جتنی معتبر ہو گی، اسے اسی قدر ترجیح حاصل ہو گی۔
اسباط بن نصر کی توثیق تو ایک جماعت اور اخص تلامذہ نقل کر رہے ہیں، لہٰذا ُنھی کی توثیق کو معتبر مانا جائے گا اور ’’لیس بشيء‘‘ کی جرح کو مرجوح سمجھا جائے گا۔
2……امام بخاري: انھوں نے اسباط کو صدوق کہا ہے۔ علامہ مغلطائی اور حافظ ابن حجر نے ان کا یہ قول ان کی کتاب التاریخ الأوسط سے نقل کیا ہے۔ (إکمال لمغلطائي: ۶۴/۲، تہذیب التہذیب: ۲۱۲۰/۱) مگر مطبوع التاریخ الأوسط میں یہ قول مل نہیں سکا، البتہ امام بخاری نے صحیح بخاری (حدیث: ۱۰۲۰) میں ان کی ایک معلق روایت بصیغہ جزم بیان کی ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر کی آراء مختلف ہیں،فرماتے ہیں:
’’و ہو حدیث منکر، أوضحتہ في التعلیق․‘‘ (تہذیب التہذیب: ۲۱۲/۱(
’’یہ حدیث منکر ہے۔ میں نے تغلیق التعلیق میں اس کی وضاحت کی ہے۔‘‘
انھوں نے تغلیق التعلیق (۳۹۰/۲)میں اس روایت کی تخریج تو کی ہے، مگر اسباط کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ مقدمہ فتح الباری میں بھی اس حوالے سے کچھ ارشاد نہیں فرمایا۔ (ہدي الساري، ص: ۳۱) تاہم دوسرے مقام پر صحیح بخاری کے متکلم فیہ راویوں کی معلق روایات پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’أسباط بن نصر الہمداني: امام احمد وغیرہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ کتاب الاستسقاء میں ایک جگہ ان کی معلق روایت موجود ہے۔‘‘ (ہدي الساري، ص: ۴۵۶(
جب کہ فتح الباری میں بھرپور انداز میں اسباط کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں، ان کے الفاظ ہیں:
’’و ظہر بذلک أن أسباط بن نصر لم یغلط في الزیادۃ المذکورۃ و لم ینتقل من حدیث إلی حدیث․‘‘(فتح الباری: ۵۱۲/۲(
’’اس سے معلوم ہوا کہ اسباط بن نصر نے مذکورہ زیادت کو بیان کرنے میں غلطی نہیں کی اور نہ وہ ایک حدیث سے دوسری حدیث کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔‘‘
حافظ ابن حجر کے اس انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے تغلیق التعلیق کے بعد تہذیب التہذیب لکھی، پھر اس کے بعد فتح الباری لکھی۔ بنا بریں فتح الباری والی رائے ہی ان کی آخری رائے معلوم ہوتی ہے، و اﷲ اعلم۔
تنبیہ: صحیح بخاری میں اس مقام پر موجود اسباط کو امام ابن ملقن نے اسباط بن محمد قرشی بنایا ہے۔ (التوضیح لابن الملقن: ۲۵۷/۸) حالانکہ وہ اسباط بن نصر ہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تصریح کی ہے، نیز منصور بن معتمر کے شاگردوں میں اسباط بن نصر کا نام تو موجود ہے، مگر اسباط بن محمد نہیں۔
حافط ابن حجر اسباط بن نصر کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’صدوق، کثیر الخطأ، یغرب․‘‘(التقریب: ۳۶۲(
’’صدوق، بہ کثرت غلطیاں کرنے والا اور غریب احادیث بیان کرتا ہے۔‘‘
ایک حدیث پر یوں حکم لگاتے ہیں:
’’اس کی رجال کی توثیق کی گئی ہے۔‘‘ (موافقۃ الخبر الخبر: ۲۸۶/۲، المجلس: ۱۹۱(
ان کی ایک اور حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ہذا إسناد حسن․‘‘ (المطالب العالیۃ لابن حجر: ۵۶۰/۹، رقم: ۲۰۸۵․ بذل الماعون لابن حجر، ص: ۲۳۲(
3…… امام مسلم: انھوں نے اسباط کی روایت الصحیح میں اصالتاً بیان کی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۲۳۲۹(
4……امام موسيٰ بن ہارون:’’لم یکن بہ بأس․‘‘ (تہذیب التہذیب: ۲۱۲/۱(
5……امام ابن شاہین: انھوں نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔ (تاریخ أسماء الثقات، ص: ۴۳، فقرۃ: ۱۰۱(
6…… امام ابن حبان: انھوں نے بھی الثقات میں ذکر کیا ہے۔ (الثقات لابن حبان: ۸۵/۶(
7…… امام حاکم: انھوں نے ان کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (المستدرک: ۲۶۰/۲ وغیرہ(
8…… امام ابوعوانہ: انھوں نے ان کی روایت مسند میں بیان کی ہے۔ (اتحاف المہرۃ: ۸۶/۳، الإکمال لمغلطائي: ۶۴/۲(
9…… امام ابن خلفون: الثقات میں ذکر کیا ہے۔(إکمال لمغلطائي: ۶۵/۲(
10…… حافظ ذہبي: انھوں نے انھیں اپنی کتاب ’’من تکلم فیہ و ہو موثق‘‘ (ص: ۵۳، رقم: ۲۷) میں ذکر کیا ہے۔ اس کے مقدمے میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ ایسے راویوں کی احادیث مرتبۂ حسن سے نہیں گرتیں، سوائے ان کی منکر روایات کے۔
مولانا ارشاد الحق اثری رقم طراز ہیں:
’’وہ شواہد اور متابعات میں لا بأس بہ ہے۔‘‘(تعلیق معجم أسامی الرواۃ: ۱۶۹/۱(​
ان اقوال سے مترشح ہوتا ہے کہ اکثر ائمہ کے نزدیک اس کی حدیث درجۂ حسن یا رُتبۂ جید میں ہوتی ہے، بہ شرط کہ وہ کسی ثقہ راوی یا جماعت کی مخالفت نہ کرے، اس کی روایت پر نقد نہ کیا گیا ہو اور حدیث میں غرابت (اجنبیت) نہ ہو، و اﷲ اعلم۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حدیثِ اسباط:
امام مسلم فرماتے ہیں:
’’حدثنا عمرو بن حماد بن طلحۃ القناد، حدثنا أسباط-و ہو ابن نصر الہمداني-عن سماک عن جابر بن سمرۃ، قال: صلیت مع رسول اللّٰہﷺ صلاۃ الأولی، ثم خرج إلی أہلہ و خرجت معہ، فاستقبلہ ولدان فجعل یمسح خدي أحدہم واحدا واحدا․ قال: وأما أنا فمسح خدي․ قال: فوجدت لیدہ بردا أو ریحا کأنما أخرجہا من جؤنۃ عطار․‘‘ (صحیح مسلم، رقم: ۲۳۲۹(
متنِ روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نماز ظہر کے بعد اپنے گھر تشریف لے جانے لگے تو چند بچے آپ کے سامنے آئے۔ آپ نے ہربچے کے رخسار پر ہاتھ پھیرا، میرے رخسار پر بھی ہاتھ پھیرا۔ میں نے آپ کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور خوش بو محسوس کی گویا عطار کے ڈبے سے آپ نے ہاتھ نکالا ہو۔
اسباط امام مسلم کے دادا اُستاد ہیں۔ ان کی صرف ایک روایت صحیح مسلم میں ہے، جیسا کہ حافظ ابو مسعود دمشقی نے صراحت کی ہے۔(کتاب الأجوبۃ، ص: ۳۳۱(
اور یہ روایت اصالتاً ہے۔ اس روایت کو اصحابِ ستہ میں سے تنہا امام مسلم بیان کرتے ہیں۔ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹/۲(
امام مسلم کی ذکر کردہ سند میں چار واسطے ہیں۔ امام مسلم کی طرح اس رباعی سند کو امام ابن ابی شیبہ اور امام ابوالفضل عباس بن محمد الدوری بھی بیان کرتے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۴۹۳/۱۶، حدیث: ۳۲۴۲۴۔ التاریخ لابن معین روایۃ الدوري: ۹۱/۳، فقرہ: ۳۸۲(
امام ابن ابی شیبہ امام مسلم کے استاد ہیں۔ وہ صحیح مسلم میں ان سے بہ کثرت روایات ذکر کرتے ہیں۔ اس روایت کو عمرو بن حماد القناد سے روایت کرنے میں امام مسلم اور امام ابن ابی شیبہ ایک دوسرے کے متابع ہیں۔
امام مسلم نے اس حدیث کے معاً بعد حضرت انس کی حدیث بہ طورِ شاہد پیش کی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۲۳۳۰)انھوں نے اس کی تین سندیں ذکر کی ہیں؛ پہلی سند رباعی، دوسری اور تیسری خماسی ہیں۔
حضرت انس کی یہی حدیث امام بخاری نے بھی بیان کی ہے۔(صحیح بخاری، حدیث: ۱۹۷۳، ۳۵۶۱) ان کے ہاں یہ دونوں سندیں رباعی ہیں۔ حافظ ابومسعود فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معنی کی متعدد احادیث منقول ہیں۔ (الأجوبۃ، ص: ۳۳۳ )​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دوسرا راوی قطن بن نُسیر:
امام مسلم نے اس کی حدیث دو مقامات پر ذکر کی ہے، ایک جگہ متابعتاً دوسری جگہ مقروناً، جیسا کہ آئندہ آ رہا ہے۔ گویا ایسا راوی صحیح مسلم کی شرط پر نہیں۔ حافظ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات (۲۲/۹) میں ذکر کیا ہے۔ امام مسلم نے ان سے براہِ راست روایت لی ہے اور یہ بات ان کے ہاں اس کے قابلِ اعتماد ہونے کی دلیل ہے۔ اس کے علاوہ قطن کی اور تعدیل نہیں مل سکی۔
جب کہ اس کی تضعیف کرنے والوں کے اقوال درج ذیل ہیں:
1 امام ابوزرعہ: جب ان سے قطن کی بابت دریافت کیا گیا تو وہ قطن پر برس پڑے اور کہا: اس نے جعفر بن سلیمان عن ثابت عن أنس کی سند سے ایک منکر حدیث بیان کی ہے۔ جیسا کہ امام برذعی اور امام ابو حاتم نے امام ابوزرعہ سے نقل کیا ہے۔(سؤالات البرذعي: ۵۳۷/۲، الجرح و التعدیل: ۱۳۸/۷، رقم: ۷۷۷(
امام ابوزرعہ نے ان کی دیگر منکر روایات کا بھی ذکر کیا ہے۔)سؤالات البرذعي: ۵۳۷/۲(
آپ پہلے پڑھ آئے ہیں کہ امام ابوزرعہ نے صحیح مسلم پر اس وجہ سے بھی اعتراض کیا ہے۔
2 امام ابن عدي: ’’وہ حدیث چوری کر کے اسے موصول بیان کر دیتا تھا۔‘‘ (الکامل: ۲۰۷۵/۶(
ازاں بعد اس کی مجروح حدیث بیان کی اور علامہ قواریری سے اس کا باطل ہونا نقل کیا ہے۔ (الکامل: ۲۰۷۶/۶) حالانکہ حافظ ابن عدی کا شمار جرح و تعدیل کے معتدل علماء میں ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود اُنھوں نے نہایت سخت جرح کی ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
’’صدوق یخطيء․‘‘ (التقریب، رقم: ۶۲۳۹(
اصحابِ تحریر فرماتے ہیں:
’’وہ ضعیف ہے، متابعات اور شواہد میں معتبر ہے۔‘‘ (تحریر تقریب التہذیب: ۶۳۷/۲، رقم: ۵۵۵۶(
محدث البانی فرماتے ہیں کہ امام مسلم نے ان سے احتجاج کیا ہے۔ (إرواء الغلیل: ۲۴۱/۶) یہاں علامہ البانی سے سہو ہوگیا ہے کیوں کہ امام مسلم نے احتجاجاً (اُصولاً) نہیں، بلکہ متابعاً اور مقروناً ان سے روایت لی ہے۔
قطن کی متابعتاً روایت:
امام مسلم نے پہلے یوں سند بیان کی:
’’حدثنا أبوبکر بن أبي شیبۃ، حدثنا الحسن بن موسی، حدثنا حماد بن سلمۃ عن ثابت البنانی عن أنس بن مالک مرفوعًا․‘‘
)صحیح مسلم، رقم: ۳۱۴․ دارالسلام(
پھر دوسری سند یوں بیان کی:
’’وحدثنا قطن بن نُسیر، حدثنا جعفر بن سلیمان، حدثنا ثابت عن أنس بن مالک……إلخ.”)صحیح مسلم، رقم: ۳۱۵․ دار السلام(
پھر مزید دو اور سندیں بیان کیں۔ (حدیث: ۳۱۶، ۳۱۷۔ مطبوعہ دار السلام(
حضرت انس کی مذکورہ بالا حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’ایمان دارو! تم اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔‘‘(الحجرات: ۲) تو حضرت ثابت بن قیس گھر بیٹھ گئے اورکہنے لگے: میں تو جہنمی ہو چکا ہوں۔ رسول اﷲﷺ نے حضرت سعد بن معاذ کی وساطت سے پیغام بھجوایا کہ ’’بلکہ وہ جنتی ہے۔‘‘(صحیح مسلم، حدیث: ۱۱۹(
امام مسلم نے حضرت انس کی اس حدیث کی چار سندیں ذکر کی ہیں جن میں سے تین اسانید خماسی ہیں اور ایک رباعی ہے جو قطن بن نُسیر سے امام مسلم بیان کرتے ہیں۔ یہ سند عالی ہے۔ نیز قطن کے تین متابع؛ابوبکر بن ابی شیبہ، احمد بن سعید بن صخر دارمی، ہریم بن عبدالاعلیٰ اسدی موجود ہیں۔
حضرت انس کی یہی حدیث امام بخاری نے بھی ذکر کی ہے۔(صحیح بخاری، حدیث: ۳۶۱۳، ۴۸۴۶) دونوں مقامات پر سند یکساں ہے اور وہ خماسی ہے۔ گویا ان دونوں ائمہ نے پانچ اسانید بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک سند (قطن والی) رباعی ہے اور باقی چار خماسی ہیں۔ اس اعتبار سے صحیح مسلم کی یہ سند صحیح بخاری کی سند سے عالی ہے اور اسی سبب کی وجہ سے امام مسلم نے اسے ذکر کیا ہے جس سے صحیح مسلم کی صحیح بخاری پر جزوی فوقیت ظاہر ہوتی ہے۔
ثانیاً: یہ حدیث صحیح بخاری میں ایک ہی سند سے منقول ہے، جب کہ امام مسلم نے اسے حضرت انس کے مشہور شاگرد ثابت البنانی سے روایت کیا ہے اور ثابت سے ان کے تین شاگردوں؛ حماد، جعفر اور سلیمان نے بیان کیا ہے۔ (حوالہ جات بالترتیب ملاحظہ ہوں: صحیح مسلم، حدیث: ۳۱۴، ۳۱۵، ۳۱۶، ۳۱۷۔ دار السلام(
قطن کی مقروناً روایت:
حافظ ابومسعود دمشقی، امام مزی، حافظ ابن حجر اور علامہ البانی فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم میں قطن کی یہ ایک (مقروناً) روایت مذکور ہے۔ (الأجوبۃ لأبي مسعود الدمشقي، ص: ۳۳۶․ تہذیب الکمال: ۲۸۹/۱۵․ تہذیب التہذیب: ۵۵۸/۴․ السلسلۃ الضعیفۃ: ۵۳۸/۳) حالانکہ ابھی آپ پڑھ آئے ہیں کہ قطن کی روایت متابعاً بھی ہے!
قطن کی مقروناً روایت مندرجہ ذیل ہے:
’’حدثنا یحیی بن یحیی و قطن بن نُسیر-و اللفظ لیحیی-أخبرنا جعفر بن سلیمان عن سعید بن إیاس الجریري عن أبي عثمان النہدي عن حنظلۃ الأسیدي ……إلخ․‘‘)صحیح مسلم، رقم: ۲۷۵۰(
اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت حنظلہ نے حضرت ابوبکر صدیق سے عرض کیا: حنظلہ منافق ہو گیا ہے! کیوں کہ رسول اﷲﷺ کی مجلس میں جنت اور جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کررہے ہیں، مگر جب ہم گھر بار کی طرف پلٹتے ہیں تو ہمارا ایمان پہلے جیسا نہیں رہتا، ہمیں کافی چیزیں بھول جاتی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا: میری بھی ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے۔ ان دونوں نے جا کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کیفیت کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا: اگر تمھاری یہی کیفیت برقرار رہے تو فرشتے تمھارے بستروں اور تمھارے راستوں پر تم سے مصافحہ کریں۔ لیکن اے حنظلہ! ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔
امام مسلم نے اس حدیث کی تین سندیں ذکر کی ہیں جن میں سے پہلی سند خماسی، جب کہ باقی سداسی ہیں۔ یہ خماسی سند قطن والی ہے۔ اسی علو کی بنا پر انھوں نے اسے اولاً بیان کیا ہے۔
انھوں نے یہاں قطن کی روایت مقروناً بیان کی ہے۔ حدیث کے الفاظ قطن کے نقل نہیں کیے، بلکہ ان کے ساتھی یحییٰ بن یحییٰ کے ذکر کیے ہیں، جیسا کہ خود انھوں نے صراحت بھی کی ہے۔​
اس روایت کو شیخین میں سے تنہا امام مسلم بیان کرتے ہیں۔)تحفۃ الاشراف: ۵۸/۳)
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تیسرا راوی أحمد بن عیسی:
ان کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
1 امام ابن معین نے حلفاً کہا ہے کہ وہ کذاب ہے۔ (سؤالات الآجري أبا داود: ۲۸۳/۲، رقم: ۱۸۵۷(
2 امام ابوزرعہ کی جرح اسی مضمون کی ابتدا میں گزر چکی ہے۔
3 امام ابو حاتم:
’’مجھے بتلایا گیا کہ وہ مصر گیا، وہاں سے ابن وہب اور مفضل بن فضالہ کی کتب خریدیں۔ پھر میں بغداد آیا، پوچھا: کیا احمد، مفضل سے بیان کرتا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ میں نے اس پر نکیر کی کیوں کہ ابن وہب اور مفضل کی روایت برابر نہیں ہو سکتی۔ لوگوں نے اس پر تنقید کی ہے۔‘‘(الجرح و التعدیل: ۶۴/۲(
مُعدّلین:
1، 2 احمد بن عیسی امام بخاری و مسلم کے استاد ہیں۔ (المعجم المشتمل لابن عساکر، ص: ۵۷)صحیح بخاری میں ان کی متعدد روایات موجود ہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث: ۱۵۱۴، ۱۶۴۱، ۱۷۹۶، ۴۸۲۸…… دیکھیے ہدی الساری، ص: ۳۸۷(
امام مسلم نے ان سے ایک روایت اصالتاً لی ہے۔ )صحیح مسلم، حدیث: ۱۷۰۸(
باقی تفصیل آئندہ آ رہی ہے۔
3 امام نسائی نے انھیں ان جملہ شیوخ میں ذکر کیا ہے جن سے وہ واقف تھے۔ انھوں نے کہا ہے: ’’لیس بہ بأس․‘‘
)تاریخ بغداد: ۲۷۵/۴(
4 امام ابن حبان:
’’و کان متقنا․‘‘ ’’وہ متقن تھے۔‘‘ (الثقات: ۱۵/۸(
امام ابن حبان کا ایسے الفاظ سے توثیق کرنا اس راوی کی زبردست ثقاہت پر دلالت کرتا ہے، جیسا کہ ذہبیِ دوراں علامہ معلمی نے صراحت کی ہے۔ (نیز ملاحظہ ہو بذل الإحسان في تحریر توثیق ابن حبان مقدمۃ ري الظمآن بتراجم شیوخ ابن حبان للشیخ أبي إدریس شریف بن صالح المصري: ۱۹۵-۱۴۲/۱(
5خطیب بغدادی نے فرمایا ہے کہ جنھوں نے احمد بن عیسیٰ پر تنقید کی ہے مجھے ان سے ایسی دلیل دستیاب نہیں ہوئی جس سے اس کی حدیث سے ترکِ احتجاج لازم آئے۔ (تاریخ بغداد: ۲۷۵/۴(
6ابن خلفون نے الثقات میں علامہ ابو جعفر النحات سے ’’کان أحد الثقات‘‘ نقل کیا ہے۔ (الإکمال لمغلطائي: ۹۷/۱(
7حافظ ذہبی: انھوں نے ان کے ترجمے کے شروع میں ’’صح‘‘ کا رمز ذکر کیا ہے جو اِشارہ ہے کہ اس کی توثیق راجح اور روایت صحیح ہے،۔ نیز فرمایا:
’’اس کی توثیق کی گئی ہے۔ اربابِ صحاح نے اس سے احتجاج کیا ہے۔ مجھے اس کی کوئی منکر حدیث نہیں ملی جسے میں یہاں درج کروں۔‘‘ (میزان الاعتدال: ۱۲۵/۱، ۱۲۶(
نیز فرمایا:
……’’الإمام المحدث الصدوق․‘‘)سیر أعلام النبلاء: ۷۰/۱۲(
……’’العمل علی الاحتجاج بہ، فأین ما انفرد بہ حتی نلینہ بہ․‘‘(السیر: ۷۱/۱۲(
’’اس سے احتجاج کرنا معمول ہے۔ وہ کس روایت میں منفرد ہے کہ ہم اس وجہ سے اس کی تلیین (تضعیف) کریں؟‘‘
……’’اس پر بلاوجہ تنقید کی گئی ہے۔‘‘ (الکاشف: ۶۷/۱(
……’’ثقہ اور حجت ہے۔ شیخین نے اس سے احتجاج کیا ہے۔ میں اس میں کوئی کمزوری نہیں دیکھتا۔ اس کے بارے میں یحییٰ بن معین کا قول ’’کذاب‘‘، اسی طرح ابوزرعہ کا انھیں مطعون ٹھہرانا لائقِ التفات نہیں ہے۔‘‘(الرواۃ الثقات، ص: ۵۳(
8حافظ ابن حجر:
’’صدوق تکلم في بعض سماعاتہ، قال الخطیب: بلاحجۃ․‘‘(التقریب، رقم: ۱۰۰(
’’صدوق ہے۔ اس کے بعض سماعات کے بارے میں تنقید کی گئی ہے۔ خطیب بغدادی فرماتے ہیں: بغیر کسی دلیل کے۔‘‘
دوسرے مقام پر ان کی ایک روایت کے بارے میں فرمایا:
’’رجالہ ثقات․‘‘ (المطالب العالیۃ: ۲۵۰/۳، رقم: ۲۸۸(
صحیح مسلم میں احمد کی مرویات:
صحیح مسلم میں احمد کی مرویات حسب ذیل ۳۲ ہیں:
۲۱، ۲۴۰، ۲۸۳، ۲۹۵، ۳۰۳، ۳۵۵، ۳۵۸، ۵۳۳، ۵۶۶، ۶۱۵، ۶۲۴، ۸۴۷، ۸۵۳، ۹۸۲، ۱۱۴۷، ۱۱۸۸، ۱۱۹۸، ۱۲۱۱)۳۲۲۳(، ۱۲۳۷، ۱۳۴۸، ۱۴۴۸، ۱۵۳۶)۳۹۲۵(، ۱۵۸۵، ۱۶۲۲، ۱۶۴۵، ۱۶۸۴، ۱۷۰۸، ۲۱۱۸، ۲۲۰۴، ۲۲۵۴، ۲۶۵۸، ۵۳۳)۷۴۷۰(
ان مرویات پر چند معروضات نہایت اختصار سے پیشِ خدمت ہیں: ان روایات میں سے ایک روایت (حدیث: ۱۷۰۸) اصالتاً، ایک روایت (حدیث: ۷۹۳/۳۵۵) متابعتاً، ایک روایت (حدیث: ۲۱۱۸) شاہداً، جب کہ باقی انتیس مرویات مقروناً ہیں۔
مقروناً روایات میں سے ایک روای کے ساتھ مقرون روایات کی تعداد چودہ، دو راویوں کے ساتھ مقرون روایات کی تعداد بھی چودہ، جب کہ تین راویوں کے ساتھ مقرون روایت ایک ہے۔
إصالتاً روایت:
امام مسلم رقم طراز ہیں:
’’حدثنا أحمد بن عیسی، حدثنا ابن وہب، أخبرني عمرو بن بکیر بن الأشج قال: بینا نحن عند سلیمان بن یسار إذ جاء ہ عبدالرحمان بن جابر فحدثہ، فأقبل علینا سلیمان فقال: حدثني عبد الرحمان بن جابر عن أبیہ عن أبي بردۃ الأنصاري أنہ سمع رسول اللّٰہﷺ یقول: ((لا یجلد أحد فوق عشرۃ أسواط إلا في حد من حدود اللّٰہ․)) (صحیح مسلم، رقم: ۱۷۰۸․ دار السلام ترقیم: ۴۴۶۰(
یہ ثمانی سند ہے۔ اس روایت کو بیان کرنے میں احمد بن عیسیٰ منفرد نہیں، بلکہ ایک جماعت ان کی متابعت کرتی ہے جو حسبِ ذیل ہے:
1 یحییٰ بن سلیمان جعفی۔ (صحیح بخاری، حدیث: ۶۸۵۰(
صحیح بخاری کی یہ حدیث بھی ثمانی ہے، یعنی صحیح مسلم کی طرح آٹھ واسطوں والی سند ہے۔
2سریج بن نعمان جوہری۔ (مسند احمد: ۴۵/۴۔الموسوعہ: ۱۷/۲۷(
3 معاویہ بن عمرو بن مہلب ابن کرمانی۔ (مسند احمد: ۴۵/۴، حدیث: ۱۶۴۸۷۔ الموسوعہ: ۱۶/۲۷(
4 حرملۃ بن یحي التجیبي المصري․ (التقاسیم و الأنواع: ۴۱۵/۳، حدیث: ۲۶۷۲۔ تہذیب الکمال: ۲۴/۱۷(
5یونس بن عبدالاعلیٰ الصدفی ابو موسیٰ المصری۔ (دارقطني، ۱۳۱/۳، حدیث: ۳۴۲۴ طبع جدید۔ المخلصیات: ۳۳۴/۳، حدیث: ۲۶۵۰(
6ربیع بن سلیمان الجیزي الأزدي۔ (المستدرک للحاکم: ۳۶۹/۴،۳۷۰(
7 امام ابن ابی عاصم۔ (الاحاد و المثانی: ۴۶۶/۳، حدیث: ۱۹۲۴(
8 خالد بن خداش الازدی المہلبي․(التاریخ الکبیر لابن أبي خیثمۃ: ۹۷۱/۲، رقم: ۴۱۶۷، السفر الثاني(
9 عمرو بن سعد ابوثور۔ (المخلصیات، ۳۳۴/۳، ۳۳۵، رقم: ۲۶۵۱(
0احمد بن عبدالرحمان بن وہب۔ (مسند ابی عوانہ: ۳۸۹/۱۳، حدیث: ۶۷۸۳۔ شرح مشکل الآثار: ۲۳۳/۶، حدیث: ۲۴۴۶(
نیز اس حدیث دو مزید اسانید امام بخاری نے ذکر کی ہیں۔ (صحیح بخاری، حدیث: ۶۸۴۸، ۶۸۴۹(
صحیح بخاری میں اس محولہ دوسرے مقام پر صحابی کا نام حضرت ابوبردہ کے بجائے عمن سمع النبيﷺ ہے جو حضرت ابوبردہ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ حافظ مزی نے ان اسانید کو حضرت ابوبردہ کی مسند میں ذکر کیا ہے۔ (تحفۃ الاشراف: ۶۵/۹(
مُصحّحین:
احمد بن عیسیٰ کی روایت کو درج ذیل محدثین نے صحیح کہا ہے۔
1امام مسلم: (صحیح مسلم، حدیث: ۱۷۰۸(
2 امام عبدالحق اشبیلی نے صحیح مسلم کی حدیث الأحکام الوسطی (۱۰۴/۴) میں ذکر کی ہے اور اس سے کوئی تعرض نہیں کیا۔
3 امام ذہبی: احمد بن عیسیٰ کی روایت السنن الکبری للبیہقي (۳۲۷/۸) میں ہے جسے حافظ ذہبی نے المہذب في اختصار السنن الکبیر (۳۴۷۴/۷، حدیث: ۱۳۷۱۰) میں ذکر کیا ہے اور عمرو تک پچھلی سند کو حذف کر دیا جس میں احمد بن عیسیٰ بھی ہیں۔ گویا ان کے نزدیک عمرو تک سند صحیح ہے، جیسا کہ انھوں نے مقدمۂ کتاب میں صراحت کی ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’و ما حذفت من السند إلا ما صح إلی المذکور․‘‘ (تہذیب السنن: ۵/۱(
گویا انھوں نے احمد بن عیسیٰ کے بارے میں ناقدین کے نقد کی پروا نہیں کی۔
اب اس روایت کی عمومی تصحیح کرنے والوں کے نام ملاحظہ ہوں:
4 امام بخاری: (صحیح بخاری، حدیث:۶۸۴۸، ۶۸۴۹، ۶۸۵۰(
5 امام ابو عوانہ: (المستخرج علی صحیح مسلم: ۳۸۹/۱۳، حدیث: ۶۷۸۳(
6 امام ابن حبان: (التقاسیم و الأنواع: ۴۱۵/۳، حدیث: ۲۶۲(
7 امام ترمذی: ’’حسن غریب․‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: ۱۴۶۳(
8 امام ابن جارود۔ (المنتقی: ۱۴۶/۳،۱۴۷، حدیث: ۸۵۰، غوث المکدود(
9 امام حاکم: ’’ہذا حدیث صحیح الإسناد علی شرط الشیخین و لم یخرجاہ!‘‘ (المستدرک: ۳۶۹/۴،۳۷۰(
0 امام بیہقی:
……’’ہم نے کتاب الحدود میں (حضرت) ابوبردہ بن نیار سے مرفوع ثابت حدیث بیان کی ہے۔‘‘
)السنن الکبریٰ: ۱۴۲/۱۰(
…… ’’یہ حدیث ثابت ہے۔‘‘ (معرفۃ السنن والآثار: ۴۷۰/۶، ۴۷۱، رقم: ۵۲۶۲، ۵۲۶۳(
!امام ابن ملقن: ’’ہذا الحدیث صحیح․‘‘ (البدر المنیر: ۷۲۸/۸․ الإعلام: ۲۳۲-۲۳۰/۹(
* محدث البانی: ’’صحیح․‘‘ (إرواء الغلیل: ۹۷/۷، حدیث: ۲۰۳۲۔ ۲۳۹/۷، حدیث: ۲۱۸۰۔ ۵۵/۸، حدیث: ۲۳۹۶(
* محدث ابواسحاق الحوینی: ’’صحیح․‘‘ (مستدرک أبي إسحاق الحویني علی الحاکم: ۱۴۱/۴، حدیث: ۶۲۰، ۶۲۱(
تنبیہ: بعض اہل علم کا اس روایت پر کلام کرنا لائقِ التفات نہیں ہے۔(التوضیح لابن الملقن: ۲۷۴/۳۱۔ الضعیفۃ، رقم: ۶۹۵۹(
متابعتاً روایت:
یہ حدیث(صحیح مسلم، حدیث: ۳۵۵) حضرت عمرو بن امیہ ضمری سے مرفوعاً مروی ہے۔ اس کی دو اسانید مروی ہیں، دوسری سند احمد بن عیسیٰ کی ہے۔ گویا امام مسلم نے اصح روایت کو مقدم کیا ہے۔
یہ حدیث صحیح بخاری میں چھ مقامات پر موجود ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث: ۲۰۸، ۶۷۵، ۲۹۲۳، ۵۴۰۸، ۵۴۲۲، ۵۴۶۲(
یعنی احمد بن عیسیٰ کے متعدد متابع موجود ہیں۔
شاہداً روایت:
یہ حدیث(صحیح مسلم، حدیث: ۲۱۱۸) حضرت عبداﷲ بن عباس سے مروی ہے۔ کتبِ ستہ میں سے یہ روایت صحیح مسلم میں ہے۔)تحفۃ الاشراف: ۲۵۵/۵(
امام مسلم نے اس حدیث سے قبل حضرت جابر کی روایت کو اَساس قرار دیا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۲۱۱۶، ۲۱۱۷(
مقروناً روایات:
امام مسلم نے احمد بن عیسیٰ کے ساتھ اپنے دیگر شیوخ کی روایات بھی ذکر کی ہیں، جن میں ہارون بن سعید الایلی، ابوطاہر بن سرح مصری، حرملہ بن یحییٰ التجیبي، ابوخیثمہ زہیر بن حرب، عمرو بن سواد عامری، یونس بن عبدالاعلی صدفی، محمد بن سلمہ مرادی، علی بن خشرم مروزی، ہارون بن معروف شامل ہیں۔ ان کی تعداد نو ہے۔
مقروناً براو واحد:
احمد بن عیسیٰ کی وہ مرویات جن میں ان کی روایت دوسرے راوی سے مقرون ہے، وہ راوی اور ان کی روایات حسبِ ذیل ہیں:
1 ہارون بن سعید الایلی۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۳۰۳(۶۹۷)، ۵۳۳، ۵۶۶، ۸۴۷، ۱۱۴۷، ۱۱۹۸، ۱۲۳۷، ۱۳۴۸، ۱۴۴۸، ۱۶۲۲ (۴۱۷۳)، ۵۳۳(۷۴۷۰((
2 ابوطاہر۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۱۵۳۶(۳۹۲۵)، ۲۶۵۸ (۶۷۵۷((
3 حرملہ بن یحییٰ۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۱۱۸۸(
مقروناً براویین:
1 ہارون بن سعید الایلی اورابو طاہر۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۲۴۰، ۲۸۳، ۲۹۵، ۹۸۲(۲۲۷۶)، ۱۵۸۵، ۱۶۸۴( ۴۴۰۱)، ۲۲۵۴(
2 حرمہ بن یحییٰ اور ابو طاہر۔ (صحیح مسلم، حدیث:۲۱، ۱۲۱۱(۳۲۲۳((
3 حرملہ بن یحییٰ اورزہیر بن حرب۔ (صحیح مسلم: ۳۵۸(۷۹۹((
4 ہارون بن سعید الایلی اورعمرو بن سواد۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۶۱۵(۱۳۹۷((
5 ہارون بن سعید اور یونس بن عبدالاعلی۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۱۶۴۵(
6 ہارون بن معروف اور ابوطاہر۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۲۲۰۴(
7 عمرو بن سواد عامری اور محمد بن سلمہ مرادی۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۶۲۴(
مقرونا بثلاثۃ رواۃ:
ابوطاہر،علی بن خشرم اورہارون بن سعید الایلی۔)صحیح مسلم، حدیث: ۸۵۳(
ان معروضات کا حاصل یہ ہے کہ امام مسلم نے ان تینوں راویوں کی وہی احادیث ذکر کی ہیں جن میں ثقات ان کے موافق ہیں یا امام صاحب کے نزدیک ان کی سند عالی ہے۔
امام ابوزرعہ کے اعتراض سے مترشح ہوتا ہے کہ ایسی مرویات زیادہ تعداد میں ہیں، حالانکہ ایسا نہیں۔ اسباط کی ایک، قطن کی دو اور احمد کی بتیس روایات ہیں۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حصہ دوم :صحیح مسلم کی احادیث پر نقد

ان راویان کے علاوہ امام ابوزرعہ رازی نے صحیح مسلم کی متعدد روایات پر نقد و تبصرہ کیا ہے۔ ان کی کل تعداد نو ہے۔ جن میں اُصول میں مذکور روایات کی تعداد پانچ، متابعات میں ذکر کردہ روایات تین، جب کہ بہ طور شاہد ایک روایت ہے۔ اس حوالے سے راقم الحروف نے کتاب العلل لابن أبي حاتم، کتاب الضعفاء لأبي زرعۃ الرازي اور سؤالات البرذعي کو پیش نظر رکھا ہے۔ موخرالذکر کتا ب میں صحیح مسلم کے متعلق کوئی روایت نہیں ملی، جب کہ مشار الیہ نو(۹) روایات کتاب العلل میں موجود ہیں۔
پہلی حدیث:
امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں:
’’سألت أبا زرعۃ عن حدیث خالد بن سلمۃ عن البہي عن عروۃ عن عائشۃ قالت: کان النبيﷺ یذکر اللّٰہ علی کل أحیانہ․ فقال: لیس بذاک․ ہو حدیث لا یروی إلا من ذي الوجہ․ فذکرت قول أبي زرعۃ لأبي فقال: الذي أری أن یذکر اللّٰہ علی کل حال، علی الکنیف وغیرہ علی ہذا الحدیث․‘‘(العلل: ۱۲۴(
’’میں (ابن ابی حاتم) نے امام ابوزرعہ سے اس حدیث کی بابت دریافت کیا: خالد بن سلمۃ عن البہي……إلخ․ فرمایا: وہ لیس بذاک (ضعیف) ہے۔ یہ حدیث صرف اسی سند سے مروی ہے۔ میں نے ابوزرعہ کا قول اپنے والد محترم سے ذکر کیا تو فرمانے لگے: اس حدیث کے تناظر میں میرا خیال ہے کہ ہر حالت میں اﷲ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، خواہ واش روم میں ہوں!‘‘
ان دونوں بزرگوں کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ البانی رقم طراز ہیں:
’’اس حدیث کی بابت امام ابوزرعہ اور امام ابوحاتم نے اختلاف کیا ہے۔ اول الذکر نے تضعیف کی ہے اور موخرالذکر نے تصحیح کی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے او رابوزرعہ کے قول کی موافقت نہیں کی۔‘‘ (الصحیحۃ، رقم: ۴۰۶(
نہایت ادب سے عرض ہے کہ ہمیں علامہ البانی کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیوں کہ ہماری رائے میں امام ابوزرعہ اور امام ابوحاتم کی آراء یکساں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امام ابوزرعہ نے بالصراحت اسے ضعیف کہا ہے اور امام ابوحاتم نے تلمیح کی ہے کہ اس کی تصحیح کا معنی ہو گا کہ رسول اﷲﷺ قضائے حاجت کے وقت بھی ذکرِالٰہی میں مشغول رہتے تھے، نتیجہ برآمد ہوگا کہ واش روم میں بھی ذکر کیا جا سکتا ہے!
ہمارے اس موقف کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام ابوحاتم نے اس حدیث کے راوی ابو محمد عبداﷲ بن یسار البہي کے بارے میں بہ ایں الفاظ جرح کی ہے:
’’لا یحتج بحدیثہ، و ہو مضطرب الحدیث․‘‘
(العلل: ۲۰۶)
’’اس کی حدیث سے استدلال نہیں کیا جائے گا، وہ مضطرب الحدیث ہے۔‘‘
اس لیے اما ابو حاتم کو اس حدیث کے مصحّحین میں شامل کرنا درست نہ ہوگا۔
عبداﷲ البہي کو ابن حبان نے الثقات(۴۷/۵) میں ذکر کیا ہے، حافظ ذہبی نے اس بنا پر ’’وثق‘‘ کہاہے۔ (الکاشف: ۱۴۶/۲)
مصحّحین حدیث:
1 امام مسلم: امام صاحب نے مذکورۃ الصدر سند سے یہ حدیث بیان کی ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث:۳۷۳۔ ترقیم دار السلام: ۸۲۶) یہ حدیث صحیح مسلم میں اصالتاً بیان ہوئی ہے، بلکہ اس باب میں یہی ایک حدیث وارد ہے۔
2امام بخاری:
’’ہو حدیث صحیح․‘‘(العلل الکبیر للترمذي: ۹۰۴/۲)
امام صاحب نے یہ حدیث صحیح بخاری میں دو مقامات پر ترجمۃ الباب میں بہ صیغۂ جزم تعلیقاً بیان کی ہے۔ (صحیح بخاری، قبل حدیث: ۳۰۵، ۶۳۴)
3 امام ترمذی:
’’ہذا حدیث حسن غریب لا نعرفہ إلا من حدیث یحیی بن زکریا بن أبي زائدۃ․‘‘
(ترمذي، رقم: ۳۳۸۴)
’’یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کی سند سے پہچانتے ہیں۔‘‘
جب کہ صحیح یہ ہے کہ یحییٰ بن زکریا اس روایت کو بیان کرنے میں منفرد نہیں، بلکہ ولید بن قاسم بن ولید ہمدانی اس کا متابع موجود ہے۔(مسند أحمد: ۲۷۸/۶، الموسوعۃ الحدیثیۃ، رقم: ۲۶۳۷۶)
ہمدانی صدوق و حسن الحدیث ہے جب وہ مخالفت نہ کرے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
صدوق یخطيء․ (التقریب، رقم: ۸۳۸۷)
اسحاق الارزق بھی یحییٰ کا متابع ہے۔ (مسند ابی یعلی: ۳۵۵/۸، حدیث: ۴۹۳۷۔ اس کی سند صحیح ہے)
اسی طرح عبدالحمید بن عبدالرحمان حمانی الکوفی نے بھی یحییٰ بن زکریا کی متابعت کی ہے،چنانچہ امام ابونعیم فرماتے ہیں:
’’و حدثنا جعفر بن محمد بن عمرو ثنا أبوحصین ثنا یحیی بن عبدالحمید ثنا أبي ویحیی بن زکریا بن أبي زائدۃ عن زکریا……إلخ․‘‘
(المسند المستخرج: ۴۰۶/۱، رقم: ۸۱۹)
اس سند میں ’’أبي‘‘ سے مراد عبدالحمید بن عبدالرحمان ہیں۔ ان کی یہ روایت مقروناً بیان ہوئی ہے۔ اس سند کے چند راویان پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے:
1أبي: عبد الحمید الحماني أبو یحیی بَشمین․ ’’صدوق یخطیٔ، و رمي بالإرجاء․‘‘(التقریب، رقم: ۴۱۹۶)
2یحیی بن عبد الحمید الحماني الکوفي بَشمین: حافظ إلا أنہم اتہموہ بسرقۃ الحدیث․(التقریب، رقم: ۸۵۵۵)
3أبو حصین محمد بن الحسین بن حبیب الوادعي القاضي الکوفي: وثقہ الدارقطني و مسلمۃ بن القاسم․ (تاریخ بغداد: ۲۲۹/۲․ الثقات للقطلوبغا: ۲۵۴/۸، رقم: ۹۶۶۱)
و قال إبراہیم بن إسحاق الصواف: صدوق، معروف بالطلب، ثقۃ․
(التاریخ بغداد: ۲۲۹/۲)
4جعفر بن محمد بن عمرو بن سعید أبوالقاسم: اس کا ترجمہ نہیں مل سکا۔
لہٰذا یہ سند جعفر کے عدمِ ترجمہ اور یحییٰ بن عبدالحمید پر جرح کی وجہ سے ضعیف ہے۔
4امام ابو عوانہنے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
(مسند أبي عوانۃ: ۲۱۷/۱)
6 امام ابو نعیم: (المسند المستخرج: ۴۰۶/۱)
7 امام ابن خزیمہ: (صحیح ابن خزیمۃ: ۱۰۴/۱، رقم: ۲۰۷)
8حافظ ابن حبان: (الإحسان:۸۶/۲، رقم: ۷۹۹)
9 حافظ ابن حجر: حدیث صحیح․
(مقدمۃ فتح الباري، ص: ۱۷)
0 محدث البانی: فالحدیث قوي․
(الصحیحۃ، رقم: ۴۰۶)
علامہ البانی کے شاگرد الشیخ طارق بن عوض اﷲ اپنے استاد گرامی کے دفاع میں رقم طراز ہیں کہ انھوں نے صحیحین کا دفاع بھی کیا ہے اور جنھوں نے اس پر نقد کیا ہے ان کی تردید بھی کی ہے۔ چنانچہ وہ مذکورہ بالا حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’اسے امام ابوزرعہ رازی نے ضعیف کہا ہے اور اس کے بعض راویوں پر امام ابوحاتم رازی نے کلام کیا ہے، مگر الشیخ نے اس حدیث کو الصحیحۃ(رقم: ۴۰۶) میں درج کیا ہے اور اس کی تضعیف پر کوئی توجہ نہیں دی، بلکہ یوں دفاع کیا ہے کہ حق یہ ہے کہ حدیث قوی ہے۔ اس پر (امام) ابوحاتم کے علاوہ کسی نے نقد نہیں کیا۔ اس حدیث کو (امام) مسلم نے صحیح کہا ہے۔‘‘ (ردع الجاني المتعدي علی الألباني، ص: ۵۴)
الشیخ طارق مزید لکھتے ہیں:
’’اس حدیث میں دوائمہ نے اختلاف کیا ہے، حالانکہ وہ صحیح مسلم میں ہے!‘‘ (ردع الجاني، ص: ۱۱۱)
اس حدیث کی تصحیح کی صورت میں مفہومِ حدیث یہ ہو گا کہ جن جن حالات میں ذکرِ الٰہی مناسب ہوتا تو نبی کریمﷺ ان اوقات میں اس کا اہتمام کرتے تھے۔
امام ابن قیم الجوزیہ نے اس حدیث کی شرح میں نہایت عمدہ گفتگو کی ہے، انھوں نے لکھا:
’’حضرت عائشہ نے کسی حالت کو مستثنیٰ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲﷺ حالتِ طہارت و جنابت میں رب العالمین کا ذکر کرتے تھے۔ رہا بیت الخلاء کا معاملہ تو کسی نے ان کا مشاہدہ نہیں کیا جو بیان کرے، اگرچہ آپ نے قضائے حاجت سے پہلے اور بعد میں امت کے لیے اذکار مشروع قرار دیے ہیں جس سے ذکر کے مزید اِہتمام کی راہنمائی ملتی ہے۔ یقینا وہ قضائے حاجت کے وقت اور بعد میں بھی اس میں تعطل نہ لاتے تھے۔
اسی طرح اُمت کے لیے جماع کے وقت ذکر کو مشروع کیا اور کہا کہ یہ دعا پڑھیں:
((بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَ جَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا․))
’’اﷲ تعالیٰ کے نام کے ساتھ (میں جماع کرتا ہوں)۔ اے اﷲ! ہمیں شیطان سے بچا اور جو تُو ہمیں رزق (اولاد) عطا فرما اُس کو بھی شیطان سے محفوظ رکھ۔‘‘
رہا قضائے حاجت اور بیوی سے جماع کے عین موقع پر ذکر تو بلاشبہ آپ نے اسے دل سے ناپسندیدہ نہیں جانا کیوں کہ ان کے لیے قلبی ذکر ضروری ہے اور آپ کے لیے اپنے دل کو ذکر سے ہٹا کر اس سے زیادہ کسی محبوب چیز کی طرف لوٹانا بھی ممکن نہیں۔اگر دل کو نسیان کا پابند کر دیا جائے تو یہ مشکل چیز کی پابندی ہے، جیسا کہ شاعر کا قول ہے ؂
یراد من القلب نسیانکم
و تأبی الطباع علی الناقل
’’دل سے تمھیں بھلانے کا اِرادہ کیا جاتا ہے۔ طبیعتیں ناقل پر بغاوت کرتی ہیں۔‘‘​
رہا ایسی کیفیت میں ذکرِ لسانی تو رسول اﷲﷺ نے اسے ہمارے لیے مشروع قرار نہیں دیا اور نہ اس کی طرف دعوت دی ہے اور نہ صحابہ سے کچھ منقول ہے، رضي اللّٰہ عنہم․‘‘(الوابل الصیب، ص: ۷۵۵، ۷۵۶ ضمن: مجموعۃ الحدیث)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دوسری حدیث:
امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں:
’’و سألت أبا زرعۃ عن حدیث رواہ جماعۃ عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي ہریرۃ عن النبيﷺ: ((من نفس عن مؤمن کربۃ ……إلخ․))‘‘ قال أبوزرعۃ: منہم من یقول: الأعمش عن رجل عن أبي ہریرۃ عن النبيﷺ․و الصحیح عن رجل عن أبي ہریرۃ عن النبيﷺ․‘‘ (العلل، رقم: ۱۹۷۹)
یعنی اس حدیث کو اعمش سے بیان کرنے میں اختلاف ہوا ہے۔ ایک جماعت کی روایت کے مطابق اعمش اور حضرت ابوہریرہ کے مابین ابوصالح کا واسطہ ہے، جب کہ بعض راویوں کی روایت کے مطابق ابوصالح ذکوان کے بجائے کسی مجہول راوی کا واسطہ ہے جسے انھوں نے ’’رجل‘‘ یا ’’عمن حدثہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
اس روایت کو امام ابوزرعہ کے علاوہ امام ابن عمار، امام ترمذی اور ابن رجب نے ضعیف کہا ہے۔
الأعمش عن صالح کی سند صحیح مسلم (۲۶۹۹(۶۸۵۳) دارالسلام) میں ہے جسے صاحبِ کتاب نے اصول میں بیان کیا ہے۔ ازاں بعد امام مسلم نے أبوأسامۃ عن الأعمش حدثنا أبوصالح……إلخ کی سند ذکر کی ہے۔(صحیح مسلم، حدیث: ۶۸۵۴ دار السلام) امام مسلم نے اس سند میں اعمش کی تصریحِ سماع ذکر کی ہے تاکہ تدلیس و اِنقطاع کا شائبہ نہ رہے۔
اس سند پر دیگر محدثین کی آراء ملاحظہ ہوں:
مصحّحین حدیث:
1۔امام مسلم: انھوں نے اس حدیث کو صحیح مسلم میں بہ طور اصل بیان کیا ہے۔ غالباً ان کی نگاہ میں رجل کے واسطے سے امام ابوزرعہ وغیرہ کی ذکر کردہ علت موجود تھی، تبھی انھوں نے پہلی حدیث سے متصل ہی دوسری سند ذکر کی جس میں اعمش نے اپنے استاد ابوصالح السمان سے سماع کی تصریح کی ہے۔ اس اعتبار سے اس حدیث میں اعمش کے دو شیوخ ہوئے: ۱: ابو صالح۔ ۲: رجل۔
امام اعمش سے اسباط بن محمد قرشی نے یوں حدیث بیان کی:
’’الأعمش قال: حدثت عن أبي صالح عن أبي ہریرۃ․ مرفوعا․‘‘ (ترمذي، رقم: ۱۴۲۵، ۱۹۳۰․ أبو داود، رقم: ۴۹۴۶․ السنن الکبری للنسائي: ۴۶۷/۶، رقم: ۷۲۵۰)
اس سند میں اعمش اور حضرت ابوہریرہ کے مابین دو واسطے ہیں۔
2۔امام حاکم:
’’ھذا حدیث علی شرط الشیخین و لم یخرجاہ!‘‘
(المستدرک: ۸۹/۱)
حالانکہ صحیح مسلم میں حدیث موجود ہے، نیز انھوں نے وہیب ثنا سہیل عن أبیہ مرفوعاً مگر مختصراً حدیث ذکر کی۔ اس کی تصحیح کے بعد فرمایا:
’’و ھذا یصحح حدیث الأعمش عن أبي صالح عن أبي ہریرۃ مرفوعا……و ذاک أن أسباط بن محمد القرشي رواہ عن الأعمش عن بعض أصحابہ عن أبي صالح․ و رواہ حماد بن زید عن محمد بن واسع عن رجل عن أبي صالح․‘‘
(المستدرک: ۴/ ۳۸۴)
اس کا خلاصہ ہے کہ سہیل بن أبي صالح عن أبیہ کی حدیث الأعمش عن أبي صالح کی حدیث کی تصحیح کرتی ہے، یعنی ابو صالح سے براہِ راست بیان کرنے میں سہیل نے اعمش کی متابعت کی ہے، اگرچہ اسباط بن محمد نے اعمش سے اور حماد بن زید نے محمد بن واسع سے بیان کرتے ہوئے مجہول واسطہ ذکر کیا ہے۔
حماد کی روایت السنن الکبری للنسائي(۶/ ۴۶۶، حدیث: ۷۲۴۶) میں ہے۔
3۔امام ابو موسیٰ مدینی: آپ کا نام و نسب محمد بن عمر بن احمد بن عمر اصبہانی شافعی ہے۔ پیدائش ۵۰۱ھ کی ہے اور وفات ۵۸۱ھ میں ہوئی۔ اپنے زمانے کے حافظِ مشرق تھے۔ وہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ھذا حدیث محفوظ من حدیث الأعمش․‘‘
(اللطائف من دقائق المعارف، رقم: ۵۶)
4۔حافظ ابن حجر: امام ترمذی کی جرح(جو آئندہ آرہی ہے) کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صحیح مسلم میں أبوأسامۃ عن الأعمش حدثنا أبو صالح ہے، لہٰذا تدلیس کی تہمت ختم ہوگئی۔(فتح الباري: ۱/ ۱۶۰․ النکت علی صحیح البخاري لابن حجر: ۱۰۷/۲جمع السخاوي)
5۔حافظ ابن حبان: انھوں نے الأعمش عن أبي صالح کی حدیث الصحیح میں ذکر کی ہے۔ (صحیح ابن حبان: ۱/ ۳۷۴، حدیث: ۵۳۵)
6۔امام ابن قیم: ’’فالحدیث محفوظ، و لہ أصل․‘‘
(مفتاح دار السعادۃ: ۱۹۵/۱)
7۔امام ابن جارود نے یہ حدیث المنتقی(رقم: ۸۹۲) میں ذکر کی ہے جو اُن کی طرف سے تحسین کی دلیل ہے۔
8۔محدث البانی:’’صحیح․‘‘ (صحیح الترغیب والترہیب: ۱/ ۵۴۲، رقم: ۹۰۸)
9۔علامہ ابو اسحاق حوینی: انھوں نے اس حدیث کا بھر پور دفاع کیا ہے اور اس پر وارد شدہ اعتراضات کے جواب دیے ہیں۔(المنیحۃ بسلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۲/ ۲۶۴-۲۵۷، رقم: ۷۲۶ انتقاء أبي عمرو أحمد بن عطیۃ الوکیل)
10۔شیخ علی بن حسن حلبی:
’’امام مسلم کی رویت صحیح اور ثابت ہے، اس میں کوئی دھبہ نہیں۔‘‘ (تحقیق العلل لابن عمار، ص: ۱۳۹)
11۔ڈاکٹر خالد بن منصور الدریس: (الحدیث الحسن لذاتہ و لغیرہ: ۳/ ۱۲۸۴)
12۔شیخ یاسر بن فتحی مصری:
’’امام مسلم کا اس حدیث کو ذکر کرنا ابوعوانہ کی روایت کو ترجیح دینا ہے۔‘‘ (الذکر و الدعاء و العلاج بالرقی من الکتاب و السنۃ للقحطاني و تخریج للشیخ یاسر: ۳۹/۱)
13۔حافظ ابن ملقن فرماتے ہیں:
’’ان الفاظ سے اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ یہ حدیث عظیم ہے۔ متعدد علوم، قواعد اور آداب کی جامع ہے۔‘‘(المعین علی تفہم الأربعین لابن الملقن، ص: ۴۰۶، رقم: ۳۶)
مضعّفین:
1۔ امام ابوزرعہ: ان کی جرح آپ پڑھ آئے ہیں۔
2۔ امام ابن عمار الشہید (وفات: ۳۱۷ھ):
’’راوی اس حدیث کو أعمش عن أبي صالح کی سند سے بیان کرتے ہیں۔ اس سند میں ابو اسامہ کے علاوہ کسی نے خبر (صراحتِ سماع) کا ذکر نہیں کیا۔ انھوں نے کہا: عن الأعمش قال: حدثنا أبو صالح․ اسے اسباط بن محمد یوں بیان کرتے ہیں: الأعمش عن بعض أصحابہ عن أبي صالح عن أبي ہریرۃ․اعمش مدلس ہیں۔ کبھی کبھار وہ غیر ثقات سے بھی روایت لیتے ہیں۔‘‘ (علل الأحادیث في الصحیح لابن عمار، رقم: ۳۵)
3۔ امام ترمذی: یہ روایت انھوں نے چار مقامات پر ذکر کی ہے۔ تین مقامات پر راویوں کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے اور دو جگہوں پر روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل ملاحظہ ہو:
۱: أبو عوانۃ عن الأعمش عن أبي صالح کی سند سے حدیث بیان کی، پھر کہا:
’’اسباط بن محمد نے یوں حدیث بیان کی: الأعمش قال: حدثت عن أبي صالح عن أبي ہریرۃ مرفوعا․ گویا یہ (حدثت کے واسطے والی حدیث) پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔‘‘ (ترمذي، رقم: ۱۴۲۵)
۲: أسباط بن محمد القرشي عن الأعمش قال حدثت عن أبي صالح کی سند سے حدیث بیان کی، پھر فرمایا:
’’ہذا حدیث حسن‘‘ ابو عوانہ وغیرہ یہ حدیث اسی طرح أعمش عن أبي صالح عن أبي ہریرۃ مرفوعا بیان کرتے ہیں۔ وہ حدثت عن أبي صالح ذکر نہیں کرتے۔‘‘ (ترمذي، رقم: ۱۹۳۰)
۳: أبو أسامۃ عن الأعمش عن أبي صالح کی سند سے مختصر حدیث نبوی بیان کی، پھر کہا:
’’ہذا حدیث حسن․‘‘ (ترمذي، رقم: ۲۶۴۶)
۴: أبو أسامۃ عن الأعمش عن أبي صالح کی سند سے مفصل حدیث بیان کی، پھر راویوں کا اختلاف ذکر کیا۔
(ترمذي، رقم: ۲۹۴۵)
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام ترمذی نے ’’حدثت‘‘ والی سند کو أصح قرار دیا ہے، یعنی ان کے نزدیک یہ سند مجہول راوی کی وجہ سے ضعیف ہے اور یہی ان کی حتمی رائے معلوم ہوتی ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے ’’حدثت‘‘ والی اور اعمش کی معنعن حدیث کو کیوں حسن قرار دیا؟
اس سوال کے پہلے جز کا جواب یہ ہے کہ امام ترمذی نے دوسری سند کے پیشِ نظر اس کی تحسین کی ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
’’لاحتمال أن یکون سبب تحسینہ لہما کونہما جاء ا من وجہ آخر․‘‘
(النکت لابن حجر: ۴۰۳/۱)
’’ان کی تحسین میں یہ احتمال ہے کہ وہ دونوں احادیث دوسری سند سے مروی ہیں۔‘‘
سوال کے دوسرے جز کا جواب یہ ہے کہ امام ترمذی مدلس کے عنعنہ پر بھی حسن کا اطلاق کر دیتے ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
’’(۱) امام ترمذی کا حسن کہنا مستور راوی کی روایت پر موقوف نہیں۔ (۲) بلکہ اس کے ساتھ وہ ضعیف بھی شامل ہے جس کی کمزوری کا سبب خراب حافظہ ہو۔ (۳) جسے غلطی یا خطا سے موصوف کیا جائے۔ (۴) مختلط کے اختلاط کے بعد کی حدیث۔ (۵) مدلس جب عنعنہ کرے۔ (۶) سند میں معمولی انقطاع ہو۔
یہ سب کچھ ان کے نزدیک حسن کی قبیل سے ہے۔ ان میں تین شرائط کو ملحوظ رکھا جائے گا:
(۱) ان میں کسی راوی پر جھوٹ کی تہمت نہ ہو۔ (۲) سند شاذ نہ ہو۔(۳) وہ یا اس جیسی حدیث دوسری سند یا متعدد اسانید سے مروی ہو۔وہ سب احادیث رتبے میں ایک درجے کی نہ ہوں، بلکہ بعض زیادہ مضبوط ہوں۔‘‘(النکت: ۳۸۷/۱)
اس لیے ’’حدثت‘‘ والی سند اور معنعن سند کو حسن قرار دینا کوئی تعارض نہیں۔
ڈاکٹر خالد بن منصور الدریس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حدیث کی بابت امام ترمذی کا اجتہاد اضطراب کا شکار ہے، ان کی رائے اس حوالے سے مختلف ہے، چنانچہ وہ کبھی ’’حدثت‘‘ والی سند کو راجح قرار دیتے ہیں اور کبھی اسے حسن قرار دیتے ہیں۔ (الحدیث الحسن لذاتہ و لغیرہ: ۱۱۶۴/۳، ۱۲۸۴)
ان کا یہ دعویٰ محلِ نظر ہے جس کی توضیح ابھی گزری ہے۔
کیا ترمذی نے اس کی صحت کا انکار کیا؟
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
’’و قال في کتاب العلم بعدہ أن أخرج حدیثا في فضل العلم: ہذا حدیث حسن․ قال: وإنما لم نقل لہذا الحدیث ’’صحیح‘‘ لأنہ یقال: إن الأعمش دلس فیہ فرواہ بعضہم عنہ قال: حدثت عن أبي صالح عن أبي ہریرۃ- -․انتہی․‘‘(النکت علی ابن الصلاح: ۴۰۳/۱․ النکت علی البخاري: ۱۰۷/۲جمع السخاوي)
’’امام ترمذی کتاب العلم، باب فضل العلم میں ایک حدیث بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ فرمایا: ہم نے اس حدیث کو صحیح نہیں کہا کیوں کہ منقول ہے کہ اعمش نے اس حدیث میں تدلیس کی ہے۔ اعمش سے بعض راوی اس طرح بیان کرتے ہیں: حدثت عن أبي صالح عن أبي ہریرۃ- -․ان کا کلام ختم ہوا۔‘‘
سوال یہ ہے کہ حافظ ابن حجر کے ذکر کردہ کلام میں دوسرے ’’قال‘‘ کا قائل کون ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ’’قال: و إنما لم نقل لہذا……إلخ‘‘ کے قائل امام ترمذی ہیں، جیسا کہ ’’لم نقل‘‘ (صیغہ متکلم) اس پر دلالت کر رہا ہے۔
ثانیاً: کلام کے اختتام پر ’’انتہی‘‘ کا کلمہ بھی اس کا مُشعِر ہے۔
ثالثاً:حافظ ابن حجر نے اس سے استدلال کیا ہے کہ
’’امام ترمذی نے اس میں تردّد کی وجہ سے حسن کا حکم لگایا ہے اور اس پر صحیح کا حکم لگانے سے اجتناب کیا ہے۔‘‘
(النکت: ۴۰۳/۱)
مگر ہمارے نزدیک امام ترمذی کا کلام صرف ’’ہذا حدیث حسن‘‘ تک ہے جس کے قرائن درج ذیل ہیں:
(۱)……فتح الباری (۱۶۰/۱) میں یوں الفاظ ہیں:
’’و أخرجہ الترمذي و قال: حسن․ قال: و لم یقل لہ صحیح……إلخ․‘‘
ازاں بعد حافظ ابن حجر نے ’’قلت‘‘ سے اعمش کی تدلیس کا جواب دیا ہے۔ اس مقام پر ’’لم یقل‘‘ ہے، یعنی صیغہ غائب جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ امام ترمذی کا اپنا قول نہیں ہے، بلکہ کوئی ان کے موقف کی ترجمانی کر رہا ہے۔
(۲)…… امیر صنعانی نے توضیح الافکار (۱۶۴/۱) میں النکت علی ابن الصلاح سے نقل کرتے ہوئے ’’لم یقل‘‘ کا صیغہ نقل کیا ہے، جب کہ مطبوع النکت میں ’’لم نقل‘‘ ہے!!
(۳)…… ڈاکٹر ربیع مدخلی کو یہ قول ترمذی کے متعدد نسخوں میں، ڈاکٹر خالد الدریس کو ترمذی کے مخطوط (نسخۃ الکروخي)، مطبوع ترمذی اور العلل الکبیر للترمذي میں نہیں مل سکا، تاہم ان کا کہنا ہے کہ حافظ ابن حجر اپنی نقل میں حجت ہیں۔ (النکت لابن حجر: ۴۰۳/۱ تحقیق المدخلي․ الحدیث الحسن: ۱۱۶۴/۳)
ڈاکٹر حمزہ ملیباري اور ڈاکٹر خالد الدریس نے النکت سے نقل کرتے ہوئے ’’لم نقل‘‘ ذکر کیا ہے۔ (الموازنۃ بین المتقدمین و المتأخرین، ص: ۱۱۰․ الحدیث الحسن: ۱۱۶۴/۳، ۱۵۴۶)
ڈاکٹر خالد الدریس نے بھی سارے کلام کو امام ترمذی کا قول سمجھا ہے اور حافظ ابن حجر کی تائید کی ہے۔ (الحدیث الحسن: ۱۱۶۴/۳،۱۱۶۵)
(۴)…… حافظ ابن قیم نے یوں لکھا ہے:
’’قال الترمذي: ہذا حدیث حسن․ قال بعضہم: و لم یقل في ہذا الحدیث……إلخ․‘‘
(مفتاح دار السعادۃ: ۱۹۴/۱)
اس میں وضاحت ہے کہ دوسرے ’’قال‘‘ کے قائل امام ترمذی نہیں، بلکہ کسی اور محدث نے ان کے موقف کی ترجمانی کی ہے۔
اس لیے امام ترمذی کے اپنے قول کی روشنی میں حافظ ابن حجر کا یہ فیصلہ دینا کہ انھوں نے تردّد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے اور صحیح کا حکم نہیں لگایا، محل نظر ہے کیوں کہ وہ صحیح یا حسن کہنے میں متردّد نہیں، انھوں نے اسے حسن ہی کہا ہے۔
(۵)…… علامہ قسطلانی نے یوں لکھا ہے:
’’و الترمذي و قال: حسن․ و إنما لم یقل: صحیح……إلخ․‘‘ (إرشاد الساري: ۱۳۷/۱)
(۶)…… حافظ ابن رجب:
’’اس حدیث کی تخریج میں کئی حفاظ نے اس پر اعتراض کیا ہے جن میں ابو الفضل الہروی (امام ابن عمار الشہید) اور دارقطنی شامل ہیں۔ اسباط بن محمد اسے یوں بیان کرتے ہیں: الأعمش قال: حدثت عن أبي صالح․ جس سے واضح ہوا کہ اعمش نے یہ حدیث ابوصالح سے نہیں سنی، انھوں نے اس راوی کا نام بھی نہیں لیا جس نے ابو صالح سے حدیث بیان کی ہے۔ ترمذی وغیرہ نے اس ’’حدثت‘‘ والی روایت کو ترجیح دی ہے۔‘‘ (جامع العلوم و الحکم، ص: ۶۹۰، حدیث: ۳۶)
ہمارے نزدیک اس روایت کے مضعّفین میں امام دارقطنی کو شامل کرنا محلِ نظر ہے۔ بلاشبہ انھوں نے راویوں کا اختلاف ذکر کیا ہے، مگر کسی کو ترجح نہیں دی، سوائے اس کہ وہ حدیث اعمش سے محفوظ ہے۔ (علل الدارقطني: ۱۸۲/۱۰)
اگر ان کے نزدیک یہ حدیث معلول ہوتی تو وہ اسے ’’الإلزامات و التتبع‘‘ میں ضرور ذکر کرتے کیوں کہ یہ روایت صحیح مسلم میں ہے اور مذکورہ کتاب صحیحین کی احادیث کے متعلق ہے۔
ثوری کا اعمش سے اختصاص:
ان مصحّحین اور مضعّفین میں سے کس کی رائے اقرب الی الصواب ہے، ہمار تحقیق میں اس روایت کا صحیح ہونا راجح ہے کیوں کہ اعمش سے اس روایت کو بیان کرنے والی ایک جماعت عن أبي صالح عن أبي ہریرۃ بیان کرتی ہے جن میں امام سفیان بن سعید ثوری بھی شامل ہیں۔ ان کی روایت التدوین في أخبار قزوین (۴۳/۲) میں ہے۔
امام ثوری کے بارے میں اہل فن کا اتفاق ہے کہ اعمش کی حدیث کے سب سے بڑے عالم اور ان سے روایت کرنے میں نہایت مضبوط ہیں، ملاحظہ ہو:
1۔امام ابن معین:
1۔ان سے سوال کیا گیا کہ اعمش سے روایت کرنے میں آپ کو سفیان محبوب ہیں یا شعبہ؟فرمایا: مجھے سفیان زیادہ محبوب ہیں۔(تاریخ الدارمي، ص: ۵۱، فقرۃ: ۴۷)
2۔’’وہ اعمش سے روایت کرنے میں أثبت الناس ہیں۔‘‘(سؤالات ابن الجنید، ص: ۱۰۲، رقم: ۱۸۸)
3۔’’اعمش وغیرہ کی حدیث کو جاننے والے سب سے بڑے عالم ہیں۔‘‘ (سؤالات ابن الجنید، ص: ۱۳۶، فقرۃ: ۳۶۵)
4۔’’اعمش، ابو اسحاق (سبیعی) اور منصور کی حدیث کو جاننے والا ثوری سے بڑا عالم کوئی نہیں۔‘‘ (تقدمۃ الجرح و التعدیل، ص: ۶۴․ الجرح و التعدیل: ۲۲۵/۴․ الجعدیات، ص: ۲۸۱، فقرۃ: ۱۸۸۰․ تاریخ بغداد: ۱۶۷/۹ روایۃ ابن أبي خیثمۃ)
5۔’’سفیان ثوری کی مخالفت کوئی نہیں کرتا، مگر اس میں صحیح قول ثوری ہی کا ہو گا۔ میں (الدوری) نے کہا: اگر شعبہ مخالفت کرے، تب بھی؟ فرمایا: تب بھی!‘‘ (التاریخ لابن معین: ۳۶۴/۳، رقم: ۱۷۷۱)
2۔ امام احمد: ان سے پوچھا گیا کہ اعمش کے شاگردوں میں سے کون سا شاگرد أثبت ہے؟ فرمایا: ان میں سے سفیان ثوری مجھے زیادہ محبوب ہے۔میں (عبداﷲ) نے پوچھا: پھر کون؟فرمایا، ابومعاویہ بہ کثرت روایات اور علم میں (زیادہ ہیں)، یعنی اعمش کو جاننے والے ہیں۔(العلل لعبداللّٰہ: ۳۴۸/۲، فقرۃ: ۲۵۴۳․ نیز دیکھیے: تقدمۃ الجرح و التعدیل، ص: ۶۳،۶۴، الجرح و التعدیل: ۲۲۵/۴)
امام خلال کا بیان ہے کہ جو اعمش کی حدیث میں ابو معاویہ (محمد بن خازم الضریر) کی مخالفت کرے، امام احمد اس کی کوئی پروا نہ کرتے تھے، سوائے ثوری کے۔ (شرح علل الترمذي لابن رجب: ۷۱۸/۲)
3۔ إمام العلل یحییٰ بن سعید القطان:
1 ’’اعمش کی حدیث کو اعمش سے زیادہ سفیان (ثوری) جانتے ہیں۔‘‘ (المعرفۃ و التاریخ للفسوي: ۱۲/۳، تاریخ بغداد: ۱۶۷/۹)
2’’جو میں نے سفیان کی وساطت سے اعمش کی احادیث سنی ہیں وہ مجھے زیادہ محبوب ہیں ان احادیث سے جو میں نے براہِ راست سنی ہیں کیوں کہ جتنی اہمیت وہ سفیان کو دیتے تھے مجھے نہ دیتے تھے۔‘‘ (تقدمۃ الجرح و التعدیل، ص: ۸۴، منتخب العلل للخلال لابن قدامۃ، ص: ۳۲۳، فقرۃ: ۲۳۲)
4۔ امام عبدالرحمان بن مہدی:
’’میں نے سفیان کی کوئی ایسی حدیث نہیں دیکھی جو اعمش کی حدیث سے زیادہ حفظ ہو۔‘‘ یعنی اعمش کی احادیث انھیں زیادہ یاد تھیں۔ (تقدمۃ الجرح و التعدیل، ص: ۶۳)
5۔ امام ابو حاتم:
’’اعمش کے شاگردوں میں سے سب سے بڑے حافظ اور مضبوط ثوری ہیں۔‘‘ (تقدمۃ الجرح و التعدیل، ص: ۶۴، الجرح و التعدیل: ۲۲۵/۴)
’’سفیان (شعبہ اور جریر سے) بڑے حافظ ہیں۔ میں بہ اعتبار حفظ ان جیسے راویوں میں سے کسی کو سفیان پر مقدم نہیں کرتا۔‘‘ (العلل، رقم: ۲۶۳۲)
6۔ امام ابن سعید:
’’وہ اعمش کی حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے۔ کبھی کبھار اعمش غلطی کرتے تو سفیان ان کی تردید کرتے۔‘‘
(الطبقات: ۳۴۳/۲)
7۔امام یعقوب بن شیبہ:
’’اعمش کے سب شاگردوں میں سے سفیان ثوری اور ابومعاویہ مقدم ہیں۔‘‘ (شرح علل الترمذی لابن رجب: ۷۱۶/۲)
8۔ امام دارقطنی:
’’اعمش سے بیان کرنے والے سب سے بڑے راوی ثوری، ابو معاویہ، وکیع اور یحییٰ القطان ہیں۔ ابن فضیل نے ان سے بیان کرنے میں کچھ غلطی کی ہے۔‘‘ (سؤالات ابن بکیر، ص: ۴۶،۴۷)
ابو معاویہ محمد بن خازم فرماتے ہیں کہ میں نے اعمش کی حدیث کا ثوری سے بڑا حافظ و عالم نہیں دیکھا۔ (تقدمۃ الجرح و التعدیل، ص: ۶۴، تاریخ بغداد: ۱۶۷/۹)
9۔ امام نسائی نے انھیں اعمش کے شاگردوں میں سے طبقہ اول میں ذکر کیا ہے۔ (الطبقات للنسائی، ص: ۱۴)
10۔ امام علی بن مدینی:
’’کوفہ کی سند کا مدار اعمش ہیں اور ان سے بیان کرنے والے مصنف امام ثوری ہیں۔‘‘ (العلل و معرفۃ الرجال لابن المدینی، ص: ۵۷، ۵۸، ۶۱، فقرۃ: ۱، ۸، ۱۸)
ان پر مستزاد یہ کہ امام اعمش کسی روایت میں غلطی کرتے تو امام ثوری اس کی تصحیح فرما دیتے، جیسا کہ امام ابن سعد کا قول گزر چکا ہے، نیز دیکھیے: المعرفۃ و التاریخ، للفسوي: ۱۱/۳، تقدمۃ الجرح و التعدیل، ص: ۷۱، العلل و معرفۃ الرجال عن الإمام أحمد، ص: ۱۹۷ ہامشہ روایۃ المروزی وغیرہ، المنتخب من العلل للخلال، ص: ۳۲۲، انتخاب ابن قدامۃ المقدسي․
ابو معاویہ کا اعمش سے اختصاص:
محمد بن خازم الضریر، ابومعاویہ کی اعمش سے معنعن روایت صحیح مسلم (رقم: ۲۶۹۹(۶۸۵۳) دار السلام)، منتقی ابن الجارود (۱۰۶/۳، رقم: ۸۰۲)، صحیح ابن حبان (الاحسان: ۱۵۰/۱، رقم: ۸۴) میں ہے۔ان تینوں ائمہ کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔
امام ثوری کے بعد اعمش کے اگر کوئی خاص شاگرد ہیں تو وہ ابومعاویہ الضریر ہیں، بلکہ بعض ائمہ نے تو مطلقاً انھیں أعلم اور أثبت قرار دیا ہے:
1۔ امام ابوزرعہ الدمشقی (وفات:۲۸۱ھ) امام ابو نعیم فضل بن دکین (وفات: ۲۱۸ھ یا ۲۱۹ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ ابو معاویہ کی اعمش سے بیس سال رفاقت رہی۔ (تاریخ أبي زرعۃ الدمشقي، ص: ۱۲۳، فقرۃ: ۵۴۴)
اپنے شیخ سے طویل رفاقت اسبابِ ترجیح میں سے ایک وجہ ترجیح ہے۔
2۔ امام احمد أبو معاویۃ عن الأعمش کی مخالفت میں کسی کی پروا نہ کرتے تھے، بہ استثنائے امام ثوری۔ (شرح علل الترمذي: ۷۱۸/۲)(دیگر اقوال کے لیے دیکھیے: العلل: ۵۸۱/۱، فقرۃ: ۱۲۸۱، ۳۴۸/۲، فقرۃ: ۲۵۴۳ روایۃ عبداللّٰہ․ المنتخب من العلل للخلال، ص: ۳۲۳)
3۔امام یعقوب بن شیبہ (وفات: ۲۶۲ھ) نے اعمش کے شاگردوں میں ثوری اور ابو معاویہ کو مقدم کیا ہے۔(شرح علل الترمذی: ۷۱۶/۲)
4۔ امام شعبہ بن حجاج: شبابہ بن سوار فزاری مدائنی کا بیان ہے کہ ہم شعبہ کی مجلس میں تھے، ابو معاویہ آئے، انھوں نے فرمایا: ابو معاویہ! اس بابت اعمش کی حدیث کیسی ہے؟ انھوں نے حدیث بیان کی، پھر انھوں نے دوسری کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے حدیث بیان کی۔ امام شعبہ فرمانے لگے: یہ اعمش کے (خاص) شاگرد ہیں، انھیں پہچان لو۔ (الجرح و التعدیل: ۲۴۷/۷ إسنادہ صحیح)
بلکہ امام شعبہ، اعمش کی حدیث بیان کرنے کے بعد ابومعاویہ سے اس کی تصدیق چاہتے تھے۔ (الجرح و التعدیل: ۲۴۷/۷)
5۔امام وکیع فرماتے ہیں: ’’ہمیں اعمش کی احادیث کو جاننے والا ابو معاویہ سے بڑا کوئی عالم نہیں ملا۔‘‘ (تاریخ بغداد: ۲۴۶/۵)
6۔امام ابن معین: ۱۔ ابو معاویہ، اعمش سے روایت کرنے میں جریر سے أثبت ہیں۔ (التاریخ لابن معین: ۵۳۷/۳ الدوری)
۲۔ ’’اعمش سے رویات کرنے میں عیسیٰ بن یونس، حفظ بن غیاث اور ابومعاویہ میں سے ابو معاویہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل: ۲۴۸/۷ روایۃ ابن أبي خیثمۃ)
۳۔ اعمش سے روایت کرنے میں ابومعاویہ اور وکیع میں سے ابومعاویہ زیادہ بڑے عالم ہیں، وکیع ثقہ ہیں۔ (تاریخ الدارمي، ص: ۵۱ فقرۃ: ۴۹)
7۔ امام نسائی نے تلامذۂ اعمش میں سے تیسرے طبقے میں ان کا ذکر کیا ہے۔ (الطبقات للنسائي، ص: ۱۶)
آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ ابومعاویہ نے دو دہائیاں امام اعمش کی شاگردی میں گزاریں، اس دورانیے میں انھوں نے اعمش سے دو ہزار احادیث سنیں، پھر بیمار ہو گئے تو چھ سو احادیث بھول گئیں۔(تاریخ الثقات و الضعفاء للعجلي: ہ/۲۳۶، فقرۃ: ۱۵۸۹)
یعنی امام عجلی کے مطابق ان کی چودہ سو احادیث محفوظ رہ گئیں۔
امام ابن معین نے ابو معاویہ کا بیان نقل کیا ہے کہ میں نے اعمش سے سولہ سو احادیث حفظ کی ہیں۔ میں بیمار ہو گیا تو چار سو احادیث بھول گئیں۔ابومعاویہ کے پاس بارہ سو احادیث تھیں۔ (التاریخ لابن معین: ۳۷۶/۳، فقرۃ: ۱۸۲۷ الدوري)
امام علی بن مدینی نے أبومعاویۃ عن الأعمش کی پندرہ سو احادیث لکھی ہیں۔ (تاریخ بغداد: ۲۴۵/۵)
امام وکیع فرماتے ہیں: وہ اعمش کی زندگی میں سترہ سو احادیث ہمیں گن کر بتلایا کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد: ۲۴۶/۵)
جریر عن الأعمش:
امام ابن معین سے پوچھا گیا کہ آپ کو جریر پسندیدہ ہیں یا ابن نمیر؟ فرمایا: دونوں ہی۔ (تاریخ عثمان بن سعید الدارمي، ص: ۵۱، فقرۃ: ۵۰)یعنی اعمش سے روایت کرنے میں۔
اس سوال سے پیشتر امام ثوری اور شعبہ، زہیر اور زائدہ، ابومعاویہ اور وکیع کے بارے میں سوال کیا گیا، گویا امام دارمی کا چوتھا سوال جریر بن عبدالحمید الضبي الرازی کے بارے میں تھا۔
امام نسائی نے انھیں اصحاب اعمش کے طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔(الطبقات للنسائي، ص: ۱۶)
امام علی بن مدینی نے فرمایا: جریر کے پاس اعمش کی بارہ سو احادیث ہیں۔ (تاریخ بغداد: ۲۴۶/۵) نیز فرماتے ہیں:
’’اعمش سے روایت کرنے میں اور انھیں سب سے زیادہ جاننے والے سفیان ثوری ہیں۔ ان سے سب سے زیادہ روایت کرنے والے ابومعاویہ ہیں۔ ابو معاویہ کے پاس اعمش کی تقریباً سترہ سو احادیث تھیں۔ حفص بن غیاث کی کتاب صحیح ہے۔ ان کے پاس اعمش کی تقریباً ایک ہزار احادیث ہیں۔ جریر (بن عبدالحمید الضبي) الرازی اعمش سے روایات بیان کرتے ہیں جو تعداد میں ابومعاویہ کی احادیث سے بہت کم ہیں۔ جریر کے پاس اعمش کی ایسی روایات (جو ابومعاویہ کے پاس نہیں) کی تعداد ساڑھے چار سو کے لگ بھگ ہے۔ وکیع بن جراح، اعمش سے حسن السماع ہیں۔ ان کے پاس تقریباً سات سو احادیث ہیں۔ جعفر بن عون لیس بہ بأس ہے۔ وہ اعمش سے روایت کرتے ہیں۔‘‘ (التاریخ و أسماء المحدثین و کناہم للشیخ محمد بن أحمد المقدمي البصري (متوفي: ۳۰۱ھ)، ص: ۵۷۹-۵۷۷ طبع بغداد)
جریر کی اعمش سے روایت کتاب العلم لابن أبي خیثمۃ (رقم: ۲۵) اور أخلاق أہل القرآن للآجري (ص: ۶۹، رقم: ۱۹) میں ہے۔
زائدۃ بن قدامۃ عن الأعمش:
ان کی روایت سنن ابی داود (حدیث: ۳۶۴۳) وغیرہ میں ہے۔ زائدہ کا شمار بھی اعمش کے خاص شاگردوں میں ہوتا ہے۔ امام یحییٰ بن معین سے سوال کیا گیا کہ ’’زہیر اور زائدہ میں سے کون آپ کو زیادہ پسندیدہ ہیں؟فرمایا: دونوں ثبت ہیں۔ (تاریخ الدارمی، ص: ۵۱، رقم: ۴۸)یعنی انھیں ثوری اور شعبہ کے بعد ذکر کیا گیا۔
امام نسائی نے انھیں طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا ہے۔(الطبقات، ص: ۱۶)
امام احمد کا بیان ہے: ’’زائدہ اعمش سے بیان کرنے میں أصح الناس ہیں، سوائے ثوری کے۔‘‘ (شرح علل الترمذي: ۷۱۷/۲،۷۱۸ روایۃ حرب عن أحمد)
أبو عوانۃ عن الأعمش:
ابوعوانہ وضاح بن عبداﷲ یشکری کو امام نسائی نے اعمش کے تلامذہ کے طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔ (الطبقات، ص: ۱۶)
امام ابن معین نے انھیں ابن ادریس اور ابن نمیر کے بعد ذکر کیا ہے۔ (تاریخ عثمان الدارمی، ص: ۵۲، رقم: ۵۲)
ان کی روایت مسند احمد (۴۰۷/۲)، الموسوعہ (۱۰۷/۱۹۰) میں ہے۔
قارئین کرام! یہ اعمش کے پانچ ثقہ، اثبت اور اعلم راوی ہیں جنھوں نے مذکورۃ الصدر حدیث کو اعمش سے معنعن بیان کیا ہے اور کوئی واسطہ بھی ذکر نہیں کیا۔ ان کی مخالفت اسباط بن محمد نے کی ہے۔ ان پانچ کے علاوہ حافظ دارقطنی نے دیگر راوی بھی ذکر کیے ہیں جو کافی زیادہ ہیں۔ (علل الدارقطني: ۱۸۳/۱۰)
اس حدیث کی مفصل تخریج کے لیے ملاحظہ ہو تحقیق المجالسۃ و جواہر العلم للدینوري: ۳۴-۳۲/۶ أبو عبیدۃ مشہور بن حسن آل سلمان․
اسباط بن محمد:
ابو محمد اسباط بن محمد بن میسرہ کتب ستہ کے راوی ہیں۔ جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے، تاہم ان کے بعض اوہام کی وجہ سے اہلِ فن نے انھیں صدوق قرار دیا ہے۔ محدثین کی آراء ملاحظہ ہوں:
1۔امام ابن معین: ’’ثقۃ․‘‘ (التاریخ لابن معین: ۲۷۱/۳، فقرۃ: ۱۲۸۴ روایۃ الدوري․ الجرح و التعدیل لابن أبي حاتم: ۳۳۳/۲، رقم: ۱۲۶۳ روایۃ ابن أبي خیثمۃ․ سؤالات ابن الجنید عن ابن معین، ص: ۲۱۹، رقم: ۸۲۳)
……’’لیس بہ بأس․‘‘ (تاریخ عثمان الدارمي عن ابن معین، ص: ۷۰، رقم: ۱۶۹)
……’’لیس بہ بأس، و کان یخطيء عن سفیان․‘‘(التاریخ لابن معین: ۴۹/۴، فقرۃ: ۳۰۸۵ الدوري)
……ثقۃ․کوفی انھیں ضعیف کہتے تھے۔ (تاریخ بغداد: ۴۶/۷ روایۃ مفضل بن غسان الغلابي)
……’’کوفی اس کی تضعیف کرتے ہیں۔ وہ ہمارے نزدیک مطرف اور شیبانی سے روایت کرنے میں ثبت ہے۔ یہ میں نے ان (امام ابن معین) سے سنا ہے۔‘‘ (إکمال تہذیب الکمال: ۶۲/۲․ تہذیب التہذیب: ۲۱۱/۱․ التعدیل و التجریح للباجي: ۴۰۷/۱․ فتح الباري: ۲۴۶/۸)
یہ روایت ابوبکر احمد بن عبداﷲ بن عبدالرحیم برقی مصری کی ہے، مگر اس میں یہ اشکال ہے کہ یہاں امام ابن معین اسباط کو الشیباني کی روایت میں ثبت کہہ رہے ہیں، جب کہ دوسری روایت میں انھوں نے أسباط عن الشیباني کی دو اسانید کی نشان دہی کی جن میں اسباط نے غلطی کی ہے۔ نیز فرمایا: اسباط حدیث بیان کرتے ہوئے غلطی کرجاتا ہے۔ (التاریخ لابن معین: ۴۹/۴،۵۰، فقرۃ: ۳۰۹۰ الدوري)
جب کہ أسباط عن الشیباني (سلیمان بن فیروز) کی روایت صحیح بخاری (رقم: ۴۵۷۹، ۶۹۴۸) میں بھی ہے۔
امام ابن معین اسباط سے کتابت کرتے تھے۔ (التاریخ لابن معین: ۳۴۱/۳ روایۃ الدوري)
2۔ امام ابوحاتم: ’’صالح․‘‘ (الجرح و التعدیل: ۳۳۳/۲ رقم: ۱۲۶۳)
3۔ امام ابن سعد: ’’وہ ثقہ و صدوق ہیں، مگر ان میں کچھ ضعف ہے۔ محدثین نے ان سے بیان کیا ہے۔‘‘ (الطبقات الکبری: ۳۹۳/۶)
4۔امام نسائی: ’’لا بأس بہ․‘‘ (التعدیل و التجریح للباجي: ۴۰۷/۱، رقم: ۱۲۳)
5۔امام ابن مبارک: انھوں نے اسباط اور محمد بن فضیل کے بارے میں فرمایا:
’’ہمارے اصحاب انھیں پسند نہیں کرتے تھے۔‘‘ (العلل للإمام أحمد: ۴۸۵/۳، فقرۃ: ۶۰۷۸․ الضعفاء الکبیر للعقیلي: ۱۱۹/۱ إسنادہ صحیح)
6۔حافظ ابن حبان: ذکرہ في الثقات(۸۵/۶)․
7۔امام ابوداود: ’’ثقۃ․‘‘ (سؤالات الآجري: ۳۰۳/۱، فقرۃ: ۴۹۵)
8۔امام یعقوب بن شیبہ: ’’ثقۃ صدوق․‘‘ (تاریخ بغداد: ۴۶/۷ سندہ جید)
9۔حافظ عجلی: ’’لا بأس بہ․‘‘ (معرفۃ الثقات و الضعفاء: ۲۱۷/۱، فقرۃ: ۶۳ نقلا عن تہذیب التہذیب)
’’جائز الحدیث․‘‘ (إکمال لمغلطائي: ۶۳/۲)
10۔حافظ دارقطنی نے انھیں اور دیگر رواۃ کو ’’وہم أثبات‘‘ کہا ہے۔ (سنن الدارقطني: ۴۷۴/۱، رقم: ۸۰۷ طبع جدید)
11۔عثمان بن ابی شیبہ: ’’مجھے امید ہے کہ وہ صدوق ہے۔‘‘(الثقات لابن شاہین، ص: ۴۳، رقم: ۱۰۲)
12۔امام ابن شاہین نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔ (الثقات، رقم: ۱۰۲)
13۔حافظ عقیلی: ’’وہ کسی چیز میں کبھی کبھار وہم کا شکار ہوتا ہے۔‘‘(الضعفاء الکبیر: ۱۱۹/۱)
14۔ابن سمعانی: ’’من ثقات أہل الکوفۃ․‘‘(إکمال لمغلطائي: ۶۳/۲)
15۔حافظ ذہبی: صدوق ہے۔ اور ’’صح‘‘ کی علامت ذکر کی ہے۔ (میزان الاعتدال: ۱۷۵/۱، رقم: ۷۱۱)
16۔ابن وضاح: ’’لا بأس بہ․‘‘ (إکمال لمغلطائي: ۶۳/۲ نقلا عن کتاب الثقات لابن خلفون)
17۔امام ابن خلفون نے بھی انھیں الثقات میں ذکر کیا ہے۔(إکمال لمغلطائي: ۶۳/۲)
18۔مسلمہ بن قاسم نے بھی ثقہ کہا ہے۔ (إکمال لمغلطائي: ۶۳/۲)
19۔حافظ ابن حجر: ’’ثقۃ، ضعف في الثوري․‘‘ (تقریب التہذیب)اصحاب تحریر نے لکھا ہے کہ’’ثقۃ یخطیٔ عن الثوري‘‘ کہنا چاہیے تھا۔ (۷۵/۱)
حافظ ابن حجر نے مزید لکھا ہے کہ صحیح بخاری میں ان کی ایک روایت موجود ہے۔ (فتح الباري: ۲۴۶/۸) جو صحیح بخاری (رقم: ۴۵۷۹، ۶۹۴۸) میں ہے۔
20۔حافظ ابن جوزی نے اسباط کو الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔(فتح الباري: ۲۴۶/۸) اسباط کا ترجمہ مطبوعہ نسخے میں موجود نہیں۔
علامہ مغلطائی نے دیگر اہل علم سے بھی ان کی توثیق نقل کی ہے، نیز امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ بھی ان سے حدیث بیان کرتے ہیں۔ امام احمد نے صراحتِ سماع میں ان کی ایک غلطی کا تذکرہ بھی کیا ہے، جیسا کہ امام ابوزرعہ نے ان سے نقل کیا ہے۔(سؤالات البرذعي: ۷۶۸/۲)
قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام ابن معین (بعض روایات کے مطابق)، امام ابن مبارک، حافظ عقیلی، حافظ ابن جوزی وغیرہم نے اس پر معمولی جرح کی ہے، لہٰذا ایسا راوی ایک بڑی تعداد کے مقابلے میں کیوں کر قبول کیا جا سکتا ہے! بالخصوص جب اس میں اثبت، اعلم اور اخص تلامذہ بھی موجود ہوں اور جو ثقاہت میں بھی اس سے زیادہ مضبوط ہوں۔ بلکہ اسباط کا شمار ان رواۃ میں ہوتا ہی نہیں جن میں باہم اختلاف کی صورت میں کسی کو ترجیح دی جا سکے۔ بنابریں کسی محدث نے اعمش کے خصوصی شاگردوں میں ان کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ شاگرد نے اپنے استاد سے ان کی روایت کے بارے میں استفسار کیا کیوں کہ وہ جماعت کی مخالفت ایک سے زائد احادیث میں کرتے ہیں۔ پہلی تو زیر بحث ہے، جب کہ دوسری حدیث پیشِ خدمت ہے:
اسباط کی دوسری معلول روایت:
’’أسباط بن محمد عن الأعمش عن زید بن وہب قال: قیل لعبد اللّٰہ: ہل لک في الولید بن عقبۃ تقطر لحیتہ خمرا، فقال: إن رسول اللّٰہﷺ نہانا عن التجسس و إن یظہر لنا شيء نغیرہ․‘‘ (البحر الزخار: ۱۷۴/۵، رقم: ۱۷۶۹)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ زید بن وہب کا بیان ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود سے پوچھا گیا کہ ولید بن عقبہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، ان کی ڈاڑھی سے شراب ٹپک رہی تھی۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود نے فرمایا کہ رسول اﷲﷺ ہمیں جاسوسی سے منع کیا کرتے تھے۔ اگر (بدون جاسوسی) کوئی چیز ہمارے سامنے آ جاتی ہے تو ہم اس کا مواخذہ کریں گے۔
اسباط نے یہ حدیث مرفوعاً بیان کی ہے، جب کہ ان کے برعکس امام اعمش کے دو شاگرد اسے حضرت عبداﷲ بن مسعود کی ذاتی رائے بتلاتے ہیں۔ ان دو میں سے ایک ابومعاویہ محمد بن خازم الضریر اور دوسرے امام سفیان بن عیینہ ہیں۔ ان کی روایات بالترتیب سنن ابی داود (حدیث:۴۸۹۰) اور مصنف عبدالرزاق (۲۳۲/۱۰، حدیث: ۱۸۹۴۵) میں ہے۔
محدثین نے اسباط کی اس مرفوع حدیث کو ان کی غلطی قرار دیا ہے۔ ان کی آراء ملاحظہ ہوں:
1۔امام ابوزرعہ الرازی:
’’اس (مرفوع) بیان کرنے میں اسباط نے غلطی کی ہے۔ (صحیح) یوں ہے: ’’إن اللّٰہ نہانا‘‘ (اﷲ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا ہے،یعنی انھوں نے قرآن مجید کے حوالے سے بیان کیا ہے)۔ اسے ابومعاویہ وغیرہ ’’إن اللّٰہ نہانا‘‘ کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔‘‘
(العلل لابن أبي حاتم: ۲۵۳۴)
2۔ امام بخاری: امام ترمذی نے ان سے اس حدیث کی بابت سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: اسباط کی روایت غلط ہے۔ صحیح یوں ہے: عن الأعمش عن زید بن وہب عن عبداللّٰہ: نہینا عن التجسس․‘‘ (ترتیب العلل الکبیر: ۸۹۸/۲)
اس کتاب کے مرتب نے بہ طور فائدہ اس حدیث کے بعد یہ بات بھی لکھی ہے کہ امام ترمذی نے یہ حدیث الجامع الترمذي میں ذکر نہیں کی۔
3۔ امام بزار:
’’ہماری معلومات کے مطابق اس حدیث کو اسباط کے علاوہ کسی نے مرفوع بیان نہیں کیا۔ اسے اسباط کے علاوہ یوں بیان کرتے ہیں: عن الأعمش عن زید بن وہب عن عبداللّٰہ أنہ قال: إن اللّٰہ نہانا عن التجسس․‘‘ (البحر الزخار: ۱۷۴/۵)
4۔ حافظ دارقطنی:
’’اسے اعمش زید بن وہب سے بیان کرتے ہیں۔ ان سے اسباط بن محمد مرفوع بیان کرتے ہیں اور دیگر موقوف ذکر کرتے ہیں۔ صحیح ابن مسعود کا قول (موقوف) ہے۔‘‘
(علل الدارقطني: ۷۵/۵)
ان ائمہ علل کے برعکس امام حاکم اس حدیث کی تصحیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہذا حدیث صحیح الإسناد و لم یخرجاہ․‘‘ (المستدرک: ۴۱۸/۴)
متابعت کا جائزہ:
اسباط بن محمد کی پہلی روایت ((من نفس عن مؤمن کربۃ……إلخ)) میں عبیدہ بن اسود نے ان کی متابعت کی ہے۔ وہ أعمش عمن حدثہ عن أبي صالح کی سند بیان کرتے ہیں۔(علل الدارقطني: ۱۸۵/۱۰)
گویا اسباط اور عبیدہ دونوں اعمش اور ابوصالح کے مابین مجہول واسطے کا ذکر کرتے ہیں۔عبیدہ صدوق ربما دلس ہے۔(التقریب، رقم:۴۹۷۲)
امام اعمش کے شاگرد ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان کوفی نے عمن حدثہ کی جگہ حکم بن عتیبہ کا نام لیا ہے۔ (المعجم الأوسط: ۱۱۱/۱۰، ۱۱۲، رقم: ۹۲۳۷)
یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد امام طبرانی فرماتے ہیں:
’’اس حدیث کو جنھوں نے اعمش سے روایت کیا ہے انھوں نے اعمش اور ابوصالح کے درمیان حکم کا واسطہ بیان نہیں کیا، سوائے ابوشیبہ کے۔ ابوشیبہ سے یہ روایت قاسم بن یحییٰ کے علاوہ کوئی نہیں بیان کرتا۔ اسے مقدم بن محمد بیان کرنے میں منفرد ہے۔‘‘
ابوشیبہ متروک الحدیث ہے۔ (التقریب، رقم: ۲۴۱) مگر اس کی متابعت حکم بن فَصِیل نے کی ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني: ۱۹۷/۲، رقم: ۱۳۵۴)
اس نسخے میں حکم بن نفیل ہے جو غلط ہے۔ اسی طرح متعدد کتب رجال میں حکم بن فضیل ہے جو تصحیف ہے۔ صحیح حکم بن فَصِیل ہے۔ فصیل بروزن بعیر ہے۔ (المؤتلف و المختلف للدارقطني: ۱۸۱۵/۴، و ہامشہ الإکمال لابن ماکولا: ۶۶/۷،۶۷) یہ راوی بھی ضعیف ہے۔
تنبیہ: حافظ الدنیا امام طبرانی نے المعجم الأوسط میں پہلی جگہ فرمایا ہے کہ ابوشیبہ حکم بن عتیبہ کندی کوفی (ثقۃ ثبت فقیہ، إلا أنہ ربما دلس․ التقریب، رقم: ۱۵۸۸) کا واسطہ ذکر کرنے میں منفرد ہے۔ دوسرے مقام پر خود ہی اس کی متابعت ذکر کردی! سبحان اللّٰہ من لا ینسی!
ابواُسامہ کے تصریح سماع کا دفاع:
رہا امام ابن عمار شہید کا ابواُسامہ پر اعتراص کرنا کہ انھوں نے اعمش سے بیان کرتے ہوئے ابوصالح سے سماع کی صراحت کی ہے، لہٰذا یہ صراحتِ سماع ابواُسامہ کی غلطی ہے۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ ابواُسامہ بلاشبہ اس تصریح سماع کو ذکر کرنے میں منفرد ہیں، مگر وہ اس درجے میں ہیں کہ ان کی منفرد روایت قبول کی جائے، برعکس اسباط بن محمد کے۔ابواُسامہ حماد بن اسامہ کے بارے میں محدثین کی آراء ملاحظہ ہوں:
1۔ امام احمد بن حنبل:
’’وہ ثبت ہیں۔ وہ غلطی کے قریب نہیں پھٹکتے۔ وہ کتنے ثبت ہیں!‘‘ (العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبداللّٰہ: ۳۸۳/۱، رقم: ۷۴۵)
ان سے ابواُسامہ اور ابوعاصم ضحاک بن مخلد النبیل کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا:
’’ابواُسامہ ابوعاصم جیسے سو راویوں سے اثبت ہے۔ ابواُسامہ ثبت اور صحیح الکتاب ہیں۔‘‘ (العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبداللّٰہ: ۳۹۰/۱، فقرۃ: ۷۷۲)
’’ضابط الحدیث اور کیّس تھے۔‘‘(العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبداللّٰہ: ۲۰۷/۳، ۴۶۴ فقرۃ: ۴۸۹۱، ۵۹۸۱)
الجرح و التعدیل (۱۳۳/۲) میں ’’صدوقا‘‘ بھی ہے۔
’’ابواُسامہ ابوعاصم جیسے سو راویوں سے اثبت ہے۔‘‘(العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبداللّٰہ: ۴۶۴/۳، فقرۃ: ۵۹۸۰)
امام ابن معین سے امام عثمان بن سعید الدارمی نے سوال کیا کہ ابواُسامہ آپ کو زیادہ پسند ہیں یا عبدۃ بن سلیمان؟ فرمایا: ان دونوں میں سے ہر ایک ثقہ ہے۔ (تاریخ عثمان بن سعید الدارمي عن ابن معین، فقرۃ: ۲۴۲)
امام ابن معین نے عاصم بن ضحاک کو بھی ثقہ قرار دیا ہے۔(تاریخ الدارمي، فقرۃ: ۴۴۴، ۶۵۴)
ابواُسامہ کی توثیق محدثین نے بھی کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے انھیں ثقہ ثبت قرار دیا ہے۔ (التقریب، رقم: ۱۴۸۷)
ضحاک بن مخلد کو بھی ثقہ ثبت قرار دیا ہے۔(التقریب، رقم: ۲۹۷۷)
ثانیا: یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابواُسامہ پر کتنی جرح ہے کہ امام ابن عمار شہید نے ان پر شذوذ کا اعتراض کیا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ان پر تین قسم کی جرحیں ہیں: 1 راوی کے نام میں غلطی کرنا، 2 حدیث چوری کا الزام اور 3 تدلیس۔
پہلی جرح کی تفصیل یہ ہے کہ ابواُسامہ اپنے استاد کا نام عبدالرحمان بن یزید بن جابر ذکر کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے شاگرد نہیں۔ وہ عبدالرحمان بن یزید بن تمیم کے شاگرد ہیں، یعنی ابن تمیم کو انھوں نے جابر بنا دیا۔ ابن تمیم ضعیف ہے، جب کہ ابن جابر ثقہ ہیں۔ یہ دونوں شامی ہیں، جب کہ ابواُسامہ کوفی ہیں۔
ابو اُسامہ کی اس غلطی کی نشان دہی مندرجہ ذیل محدثین نے کی ہے:
1۔ امام بخاری: (التاریخ الکبیر: ۳۶۵/۵، ترجمہ: ۱۱۵۶)۔ 2 امام ابوحاتم: (الجرح و التعدیل: ۳۰۰/۵۔ العلل، رقم: ۵۶۵)۔ 3،4 امام محمد بن عبداﷲ بن نمیر اور امام ابویوسف یعقوب الفسوی: (المعرفۃ و التاریخ للفسوي: ۸۰۱/۲،۸۰۲، تہذیب ابن حجر: ۲۹۵/۶،۲۹۶)۔5 امام ابوداود: (سؤالات الآجري: ۲۴۲/۱، فقرۃ: ۳۲۷)۔ 6خطیب بغدادی: (تاریخ بغداد: ۲۱۲/۱۰)۔ 7 امام موسی بن ہارون الحمال: (تاریخ بغداد: ۲۱۲/۱۰)۔ 8 امام دارقطنی: (الضعفاء و المتروکون، ص: ۲۷۳، رقم: ۳۳۶)۔ 9امام ابوبکر بن ابی داود: (تہذیب التہذیب: ۲۹۶/۶)
دوسری جرح حدیث چوری کی ہے۔ یہ جرح علامہ ازدی نے کی ہے اور حافظ ذہبی نے اسے باطل قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال: ۵۸۸/۱) اس پر مستزاد ازدی خود مجروح ہے۔
تیسری جرح تدلیس کی ہے۔ امام ابن سعد فرماتے ہیں:
’’ثقہ، مامون، کثیر الحدیث، مدلس ہیں۔ ان کی تدلیس واضح تھی۔‘‘ (الطبقات الکبری: ۳۹۵/۶)
یہاں امام ابن سعد نے خود صراحت کر دی ہے کہ ان کی تدلیس واضح تھی۔ علاوہ ازیں وہ قلیل التدلیس مدلس ہیں جن کی معنعن روایت مقبول ہوتی ہے۔ (معجم المدلسین، ص: ۱۶۶،۱۶۷)
قارئین کرام! ابواُسامہ پر جرح کی کُل تفصیل آپ نے ملاحظہ کی ہے۔ اس سند میں راوی کے نام میں انھوں نے غلطی نہیں کی۔ ویسے بھی یہ کوئی جرح نہیں۔ امیر المومنین فی الحدیث امام شعبہ سے بھی ایسی اغلاط ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ روایت ابن تمیم سے بھی نہیں، اس لیے اسے باعثِ طعن بنانا بہر نوع غلط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نے بھی ابن تمیم کی وجہ سے کلام نہیں کیا۔
جماعت کی معنعن روایت کو بنیاد بنا کر امام ابن عمار کا ان کی تحدیثِ سماع پر اعتراض کرنا درست نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اعمش نے یہ روایت ابوصالح سے براہِ راست سنی ہے، ویسے بھی وہ ابوصالح کے خاص شاگرد ہیں جن کی ان سے معنعن روایت غالباً سماع پر محمول ہوتی ہے، جیسا کہ حافظ ذہبی نے ذکر کیا ہے۔ (میزان الاعتدال: ۲۲۴/۲)
خلاصہ:
1۔ اعمش کے شاگردوں کی ایک جماعت أعمش عن أبي صالح بیان کرتی ہے، یعنی ان دونوں کے درمیان کسی واسطے کا ذکر نہیں کرتی جن میں ان کے کبار اور خاص تلامذہ بھی موجود ہیں۔
2۔ اسباط کا شمار اعمش کے خاص شاگردوں میں نہیں ہوتا کہ ان کے مابین باہم اختلاف کی صورت میں کسی امام سے ترجیح دینے کے لیے استفسار کیا جائے۔
3۔ اسباط اعلیٰ درجے کا ثقہ راوی نہیں کہ اس کی منفرد روایت قبول نہ کی جائے بلکہ اس پر معمولی جرح بھی ہے۔ بہ ایں صورت جمہور کی روایت کے برعکس روایت قابل اعتبار نہ ہو گی۔ اس کے متابع کی روایت بھی مقبول نہ ہو گی۔
4۔ صحیح مسلم کی شان و شوکت اور مصطلح الحدیث کے تناظر میں امام مسلم اور ان کے مؤیدین کا موقف زیادہ وزنی معلوم ہوتا ہے۔
5۔ امام مسلم نے قرائن کے پیش نظر اعمش کی روایت کو دیگر روایات سے پہلے ذکر کیا ہے جواُن کی دقیق نظری پر دلالت کرتا ہے۔​
6۔ اعمش نے ابوصالح سے سماع کی صراحت کی ہے۔ اسے وہم کہنا درست نہیں کیوں کہ امام مسلم نے معنعن روایت ذکر کرنے کے بعد سماع کی صراحت کی ہے، گویا وہ اس کا دفاع کر رہے ہیں۔
 
Top