• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم کے حوالے سے شیئر کی جانے والی ایک باطل روایت

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
صحیح مسلم کے حوالہ سے یہ روایت سوشل میڈیا پر کثرت سے شیئر کی جاتی ہے کہ ”جس گھر کے دروازے رشتہ داروں کے لئے بند رہیں، جس گھر میں اذان کے وقت خاموشی نہ ہو، جس گھر یا جگہ پر مکڑی کے جالے لگے ہوں، جس گھر میں صبح کی نماز نہ پڑھی جاتی ہو، وہاں رزق کی تنگی اور بے برکتی کو کوئی نہیں روک سکتا.“
حالانکہ یہ روایت صحیح مسلم میں قطعا نہیں ہے نہ ہی حدیث کی کسی اور کتاب میں صحیح سند سے یہ روایت موجود ہے۔ بلکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے. اور یاد رکھیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے.

یہاں چند باتوں کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں:

پہلی بات: رشتہ داروں سے قطع تعلق پر سخت وعیدیں آئی ہیں. محترم شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ نے اس تعلق ایک مفصل مضمون تحریر کیا ہے (فجزاہ اللہ خیرا) جسکا مطالعہ مفید رہے گا.

دوسری بات: اذان کے وقت ضرورتا بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے. چنانچہ صحیح مسلم میں ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُغِيرُ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ الْأَذَانَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ، وَإِلَّا أَغَارَ، فَسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " عَلَى الْفِطْرَةِ ". ثُمَّ قَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ "، فَنَظَرُوا، فَإِذَا هُوَ رَاعِي مِعْزًى.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دشمن پر) طلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے، پھر اگر اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کر دیتے، (ایسا ہوا کہ) آپ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا: الله أكبر الله أكبر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فطرت (اسلام) پر ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو آگ سے نکل گیا۔‘‘ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔
(صحیح مسلم: 382)

خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی اذان کے وقت بات کرنا ثابت ہے:
عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ الْقُرَظِيِّ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُمْ كَانُوا فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يُصَلُّونَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتَّى يَخْرُجَ عُمَرُ، فَإِذَا خَرَجَ عُمَرُ، وَجَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُونَ، قَالَ ثَعْلَبَةُ : جَلَسْنَا نَتَحَدَّثُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ وَقَامَ عُمَرُ يَخْطُبُ أَنْصَتْنَا، فَلَمْ يَتَكَلَّمْ مِنَّا أَحَدٌ.
ترجمہ: ثعلبہ بن ابی مالک قرظی سے روایت ہے کہ لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کے دن نماز پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نکلتے. جب عمر نکلتے اور منبر پر بیٹھ جاتے مؤذن اذان کہتے (ثعلبہ کہتے ہیں) ہم بیٹھے باتیں کیا کرتے. جب مؤذن چپ ہو جاتے اور عمر کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگتے تو ہم خاموش ہو جاتے لہذا ہم میں سے کوئی بات نہیں کرتا.
(مؤطا امام مالک، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی الانصات یوم الجمعۃ والامام یخطب، رقم الحدیث: 274)
شیخ سلیم ہلالی کہتے ہیں کہ اسکی سند صحیح ہے. اور شیخ احمد علی سلیمان نے اس کو صحیح کہا ہے.
اس تعلق سے بھی محترم شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ نے ایک مضمون لکھا ہے. اسکا مطالعہ بھی مفید ہوگا.

تیسری بات: گھر میں مکڑی کا جالا لگا ہو تو دیکھنے میں برا محسوس ہوتا ہے لہذا اسکو صاف کر لیا جاۓ تو اچھا ہے. صفائی اچھی چیز ہے. مسلمان کے کپڑے بھی صاف ہونے چاہیے اس کا گھر بھی صاف ہونا چاہیے لیکن اگر جالا لگا ہوا ہو تو اس سے بے برکتی وغیرہ کی بات صحیح نہیں ہے.

چوتھی بات: نماز کی بہت زیادہ اہمیت ہے. خصوصی طور پر نماز فجر کی بھی اہمیت وارد ہوئی ہے. ساتھ ساتھ نماز چھوڑنے پر سخت وعیدیں بھی احادیث میں بیان ہوئی ہیں. مزید خصوصی طور پر نماز فجر کے ترک کرنے پر بھی وعیدیں آئی ہیں. لہذا ایک مسلمان کو نماز کا پابند رہنا چاہئے اور اسے یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ صبح کے وقت میں اس امت کے لئے برکت ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے لئے صبح کے وقت میں برکت کی دعا فرمائی ہے. لہذا اگر کوئی سوتا رہ جاتا ہے تو وہ واقعی برکت سے محروم ہو جاتا ہے.

خلاصہ کلام یہ کہ صحیح مسلم کے حوالے سے جو روایت کثرت سے شیئر کی جا رہی ہے اسکی کوئی اصل نہیں ہے. لہذا اسکی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے.

کتبہ: عمر اثری
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
صحیح مسلم کے حوالہ سے یہ روایت سوشل میڈیا پر کثرت سے شیئر کی جاتی ہے کہ ”جس گھر کے دروازے رشتہ داروں کے لئے بند رہیں، جس گھر میں اذان کے وقت خاموشی نہ ہو، جس گھر یا جگہ پر مکڑی کے جالے لگے ہوں، جس گھر میں صبح کی نماز نہ پڑھی جاتی ہو، وہاں رزق کی تنگی اور بے برکتی کو کوئی نہیں روک سکتا.“
حالانکہ یہ روایت صحیح مسلم میں قطعا نہیں ہے نہ ہی حدیث کی کسی اور کتاب میں صحیح سند سے یہ روایت موجود ہے۔ بلکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے. اور یاد رکھیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے.

یہاں چند باتوں کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں:

پہلی بات: رشتہ داروں سے قطع تعلق پر سخت وعیدیں آئی ہیں. محترم شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ نے اس تعلق ایک مفصل مضمون تحریر کیا ہے (فجزاہ اللہ خیرا) جسکا مطالعہ مفید رہے گا.

دوسری بات: اذان کے وقت ضرورتا بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے. چنانچہ صحیح مسلم میں ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُغِيرُ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَكَانَ يَسْتَمِعُ الْأَذَانَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ، وَإِلَّا أَغَارَ، فَسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " عَلَى الْفِطْرَةِ ". ثُمَّ قَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَرَجْتَ مِنَ النَّارِ "، فَنَظَرُوا، فَإِذَا هُوَ رَاعِي مِعْزًى.
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دشمن پر) طلوع فجر کے وقت حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے، پھر اگر اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کر دیتے، (ایسا ہوا کہ) آپ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا: الله أكبر الله أكبر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فطرت (اسلام) پر ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا: أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو آگ سے نکل گیا۔‘‘ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔
(صحیح مسلم: 382)

خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی اذان کے وقت بات کرنا ثابت ہے:
عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ الْقُرَظِيِّ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُمْ كَانُوا فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يُصَلُّونَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتَّى يَخْرُجَ عُمَرُ، فَإِذَا خَرَجَ عُمَرُ، وَجَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنُونَ، قَالَ ثَعْلَبَةُ : جَلَسْنَا نَتَحَدَّثُ، فَإِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُونَ وَقَامَ عُمَرُ يَخْطُبُ أَنْصَتْنَا، فَلَمْ يَتَكَلَّمْ مِنَّا أَحَدٌ.
ترجمہ: ثعلبہ بن ابی مالک قرظی سے روایت ہے کہ لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کے دن نماز پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نکلتے. جب عمر نکلتے اور منبر پر بیٹھ جاتے مؤذن اذان کہتے (ثعلبہ کہتے ہیں) ہم بیٹھے باتیں کیا کرتے. جب مؤذن چپ ہو جاتے اور عمر کھڑے ہو کر خطبہ دینے لگتے تو ہم خاموش ہو جاتے لہذا ہم میں سے کوئی بات نہیں کرتا.
(مؤطا امام مالک، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی الانصات یوم الجمعۃ والامام یخطب، رقم الحدیث: 274)
شیخ سلیم ہلالی کہتے ہیں کہ اسکی سند صحیح ہے. اور شیخ احمد علی سلیمان نے اس کو صحیح کہا ہے.
اس تعلق سے بھی محترم شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ نے ایک مضمون لکھا ہے. اسکا مطالعہ بھی مفید ہوگا.

تیسری بات: گھر میں مکڑی کا جالا لگا ہو تو دیکھنے میں برا محسوس ہوتا ہے لہذا اسکو صاف کر لیا جاۓ تو اچھا ہے. صفائی اچھی چیز ہے. مسلمان کے کپڑے بھی صاف ہونے چاہیے اس کا گھر بھی صاف ہونا چاہیے لیکن اگر جالا لگا ہوا ہو تو اس سے بے برکتی وغیرہ کی بات صحیح نہیں ہے.

چوتھی بات: نماز کی بہت زیادہ اہمیت ہے. خصوصی طور پر نماز فجر کی بھی اہمیت وارد ہوئی ہے. ساتھ ساتھ نماز چھوڑنے پر سخت وعیدیں بھی احادیث میں بیان ہوئی ہیں. مزید خصوصی طور پر نماز فجر کے ترک کرنے پر بھی وعیدیں آئی ہیں. لہذا ایک مسلمان کو نماز کا پابند رہنا چاہئے اور اسے یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ صبح کے وقت میں اس امت کے لئے برکت ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے لئے صبح کے وقت میں برکت کی دعا فرمائی ہے. لہذا اگر کوئی سوتا رہ جاتا ہے تو وہ واقعی برکت سے محروم ہو جاتا ہے.

خلاصہ کلام یہ کہ صحیح مسلم کے حوالے سے جو روایت کثرت سے شیئر کی جا رہی ہے اسکی کوئی اصل نہیں ہے. لہذا اسکی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے.

کتبہ: عمر اثری
جزاك الله خير عمر اثری صاحب رہنمائی کے لیے
 
Top