• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صدقۂ فطر، روزے کا کفارہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
صدقۂ فطر، روزے کا کفارہ


* * * *فضیلۃ الشیخ محمد منیر قمر۔الخبر* * * *
رمضان المبارک اور روزے کے احکام ومسائل میں سے ایک ’’صدقۂ فطر‘‘ بھی ہے جسے زکوٰۃ الفطر،فطرانہ اور فطرہ بھی کہا جاتا ہے۔ صدقہ فطر جمہور ائمہ وفقہاء کے نزدیک فرض ہے۔احناف کے نزدیک واجب جبکہ فرض یا واجب دونوں میں صرف معمولی لفظی و اعتقادی فرق ہے ورنہ عملاً دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں۔

اس صدقہ کی مشروعیت وفرضیت قرآن و سنت سے ثابت ہے چنانچہ سورۃ الاعلیٰ کی آیت14اور 15میں ارشادِ الٰہی ہے:(قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى (15) ’’فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا اور پھر نماز پڑھی۔‘‘
اس آیت میں جو لفظ’’ تزکّٰی‘‘ ہے اس سے مرادزکوٰۃ الفطرادا کرنا ہے ،
جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺسے اس آیت کے بارے پوچھا گیاتو آپ ﷺنے فرمایا: ’’یہ آیت صدقۂ فطر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔‘‘

صدقۂ فطر کی فرضیت کی دلیل حدیث شریف میں بھی موجود ہے ،
بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے: ’’ اللہ کے رسول ﷺنے صدقۂ فطر فرض کیا ہے۔‘‘ اس صدقۂ فطر کی ادائیگی میں حکمت کیا ہے؟
اس سلسلہ میں ابوداؤد شریف میں ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے: ’’نبی اکرم ﷺ نے صدقۂ فطر فرض فرمایا تاکہ روزہ دار سے روزہ کی حالت میں جو کوئی فضول ونازیبا بات سرزد ہوگئی ہو وہ اُس سے پاک ہوجائے اور مسکینوں کو(کم از کم عید کے روز خوب اچھی طرح سے) کھانا میسر آجائے۔‘‘ زکوٰۃ الفطر کی اس حکمت پر غور فرمائیں اور اندازہ کریں کہ ہمارے رسولِ رحمتﷺکو غربا ومساکین کا کتنا خیال رہتا تھا۔
اس فطرانہ کیساتھ ہی دوسری سالانہ زکوٰۃ اور دیگر نفلی صدقات وخیرات کو ملا کر دیکھیں کہ دین اسلام نے اس صفحۂ ہستی سے غربت وافلاس کے خاتمے کے ضامن حل پیش کئے ہیں اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام وہ نظامِ حیات ہے جس نے کسی بھی موقع پر غریب کو نظر انداز نہیں کیا ۔

اگر مسلمان اسلامی نظامِ معیشت کو سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کریں تو آج بھی یہ چرخِ کہن سال وہ نظارہ دیکھ سکتا ہے جو صدیو ں پہلے چشم ِفلاک نے دیکھا کہ لوگ زکوٰۃکا مال ہاتھ میں لئے پھرتے مگر اُسے قبول کرنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا۔خوشحالی کے ضامن اِس اسلا می نظامِ معیشت کا ایک چھوٹا سا حصہ یہ صدقہ فطر بھی ہے جسکی حکمت ہی یہ بتائی گئی ہے کہ روزے دار کی کوتاہیوں سے طہارت کیساتھ ساتھ فقراء ومساکین کیلیٔ اچھے کھانے کا انتظام ہوجائے اور وہ بھی عام مسلمانوں کی عید کی خوشیوں میں شرکت کرسکیں۔ صدقۂ فطر صرف انہی لوگوں پر واجب نہیں جنہوں نے روزے رکھے ہوں بلکہ جمہورائمہ کے نزدیک یہ تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ،مرد ہو یا عورت،آزاد ہو یا غلام جیسا کہ بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے : ’’نبی ﷺ نے کھجور کا ایک صاع صدقۂ فطرکے طور پر ہر غلام وآزاد،مرد وزن اور چھوٹے بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے۔‘‘
حدیث کی دو اعلیٰ ترین کتابوں صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت ابوسعید ؓ کا ارشاد ہے: ’’ ہم ایک صاع کھانا یا ایک صاع جَو یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش(خشک انگور یا منقہ) صدقہ فطر میں دیا کرتے تھے۔‘‘ صدقۂ فطر نکالنے کا حکم چونکہ عام ہے اسلئے اسمیں تمام مسلمان برابر ہیں چاہے کوئی مالدار ہویا فقیر لہٰذا تنگدست کو بھی صدقہ نکالنا چاہئے۔ امام شعبیؒ،عطاءؒ ،ابن سیرینؒ،زہریؒ،عبداللہ بن مبارکؒ،امام مالکؒ،شافعیؒ اوراحمد بن حنبلؒ وغیرہ کا یہی مسلک ہے اور مسند امام احمد میں حضرت ابوہریرہ ؓسے بھی ایک روایت ہے کہ تنگدست بھی صدقہ دے۔مالکیہ کے نزدیک تو قرضہ لیکر بھی صدقہ دینا چاہئے اور حنبلی وشافعی فقہاء کے نزدیک اگر کسی کے پاس(عیدکے) ایک دن اور رات کی خوراک سے فاضل غلہ موجود ہو تو اسکے لئے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔

امام ابوحنیفہؒ نے اُس شخص کیلئے صدقہ ضروری قراردیا ہے جسکے پاس زکوٰۃ نکالنے کا نصاب یعنی ساڑھے52 تولے چاندی(یا اسکی موجودہ قیمت کے برابر رقم) موجود ہوالبتہ متاخرین احناف کے نزدیک بھی ساڑھے 50تولے چاندی (نصاب زکوٰۃ) کی مالیات سے زائد گھریلو سامان رکھنے والے مسلمان پر صدقہ فطر واجب ہے، چاہے اس پر زکوٰۃ فرض نہ بھی ہوئی ہو ،
لیکن دوسرے تمام ائمہ وفقہاء کے نزدیک صدقہ فطرکیلئے کسی کا صاحبِ نصاب ہونا اسلئے ضروری نہیں کہ یہ صدقہ ایک بدنی صدقہ ہے،مال کا صدقہ یعنی زکوٰۃ نہیں تو گویا مال کے صدقہ یا سالانہ زکوٰۃکیلئے تو نصاب شرط ہے مگر اس صدقہ فطرکیلئے نصاب کی شرط ضروری نہیں لہٰذا ہر کسی کیلئے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ صدقۂ فطر کے سلسلہ میں ہم نے بخاری ومسلم کی جو احادیث آپ کے سامنے رکھی ہیں اُن میں 5 اشیاء سے صدقہ نکالنے کا ذکر تھا جن میں کھانا،جَو،کھجور،پنیر اورکشمش شامل ہیں جبکہ بخاری ومسلم وغیرہ میں ہی یہ بھی مذکور ہے کہ جب حضرت امیر معاویہ ؓ کا دورِ خلافت آیا تو گندم عام ہوگئی تو انہوں نے کہا’’ مجھے لگتا ہے اِس (گندم) کا ایک مُد(دیگر اشیاء مثلاً کھجور وغیرہ کے) 2مُدوں کے برابر ہے‘‘لہٰذا گندم کیساتھ ملکر غلوں کی تعداد6 ہوگئی۔
بعض روایات میں آٹے اور ستوؤں کا ذکر بھی ملتا ہے۔بخاری ومسلم وغیرہ میں جو لفظ’’طعام ‘‘یعنی کھانا ہے اِس لفظ کے عموم کو پیش نظر رکھتے ہوئے بیشمار ائمہ وفقہاء،محدثین وعلما ء اور مفتیانِ کرام نے لکھا ہے کہ افضل تو یہی ہے کہ ان مذکورۂ اولیٰ 6 چیزوں سے ہی صدقہ نکالا جائے کیونکہ یہ نصوصِ صحیحہ سے ثابت ہیں البتہ اگر کسی علاقے کی غذاء ان چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہوتو اُس سے بھی صدقۂ فطر ادا کرسکتے ہیں لہٰذا جن علاقوں میں چاول،چنا،جوار،مکئی،باجرہ،ماش،مٹر،انجیر اور خشک توت وغیرہ بطورِ غذااستعمال ہوتے ہوں تو وہاں کے لوگ ان اشیاء سے بھی فطرانہ نکال سکتے ہیں۔

بخاری ومسلم کی جو احادیث ہم نے بیان کی ہیں اُن میں ذکر ہے کہ فطرانہ تمام چھوٹے بڑے، مذکر ومؤنث اور آزاد وغلام مسلمان پر فرض ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلام اپنا صدقہ خود نکالے مگر مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے: ’’(مالک پر) اپنے غلام کی زکوٰۃ نکالنا ضروری نہیں سوائے صدقہ فطر کے۔‘‘ اس سے معلوم ہوگیا کہ غلام کا صدقۂ فطر اُسکا مالک نکالے گا اور جمہور اہل ِ علم کا یہی مسلک ہے اور اُنہی احادیث میں’’من المسلمین‘‘کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ صدقہ صرف مسلمانوں پر ہے۔ اگر کسی کا غلام یا بیوی اہلِ کتاب کافر ہوتو اُن کی طرف سے صدقہ نہیں دیا جائیگا اور اس پر تمام مذاہب ِ اہلِ سنت کا اتفاق ہے البتہ اگر کوئی شخص وجوب کے نظریہ سے نہیںمحض نفلی طور پر غیر مسلم بیوی یا خادم کی طرف سے صدقہ فطرنکال دے تو کوئی مانع نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے خادموں کودیا کرتے تھے اور یہی حکم ان خادموں کا بھی ہے جو گھروں میں کام کرنے والے ہیں کہ اُن کی طرف سے گھر والا صدقہ ادا کرے گا۔وہ مسلمان ہے تو واجب ہے اور اگر غیر مسلم ہے تو مالک کو اختیار ہے۔ وہ بچہ جو عید کی رات پیدا ہوجائے جسے چاندرات بھی کہا جاتا ہے، اُسکے بارے میں ائمہ کے2فریق ہیں۔امام ثوریؒ، احمدؒ، اسحاق ؒ، قولِ جدید میں امام شافعیؒ اور ایک روایت میں امام مالک ؒکے نزدیک اُس بچے کا فطرانہ ادا کرنا واجب نہیں جبکہ اما م ابوحنیفہؒ،لیثؒ،قولِ قدیم میں امام شافعیؒ اور ایک روایت میں امام مالکؒکے نزدیک اُس بچے کا فطرانہ ادا کرنا بھی واجب ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ فریقِ اول کے نزدیک فطرانے کے وجوب کا وقت رمضان کے آخری دن کا غروبِ آفتاب ہے جبکہ فریقِ ثانی کے نزدیک وقتِ وجوب یومِ عید کا طلوعِ فجر ہے۔بہر حال اگر کسی کے یہاں ایسی صورتِ حال پیدا ہوجائے تو فطرانہ ادا کردینے میں ہی احتیاط ہے۔
وجوباً نہ سہی نفلی ہی ہو جائے گا اور ا ختلاف سے بھی نکل جائے گا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ فطرانے کی مقدار کتنی ہے؟ تو اس سلسلہ میں بخاری ومسلم کی احادیث میں ایک صاع کا ذکر ہے اور گندم کے بارے میں نبی ﷺ سے کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں البتہ بعض مرسل روایات اور صحابہ کرام ؓکے ارشادات سے باقی اشیاء کی نسبت گندم کا نصف صاع ہونا ملتا ہے لیکن امام مالکؒ،شافعیؒ،احمدؒ،اسحاقؒ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک بخاری ومسلم میں مذکور لفظ’’ طعام‘‘ میں ہی گندم بھی آجاتی ہے اور طعام سے ایک صاع فطرانہ صحیح احادیث میں ثابت ہے لہٰذا گندم کا بھی ایک صاع ہی نکالنا ضروری ہے البتہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک گندم کانصف صاع بھی کافی ہے اور اُن کا استدلال جن روایات سے ہے محدثین نے انکی اسناد پر تنقید کی ہے لہٰذا دیگر ائمہ انہیں قابلِ حجت نہیں مانتے۔بہرحال یہ ائمہ اور اہلِ علم کا ایک علمی اختلاف ہے اور ہمارے لئے اِس اختلاف سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زیادہ مقدار کو لے لیں جس سے یقینااجروثواب میں بھی اضافہ ہوگا اور کم مقدار اُس میں آہی جائیگی۔

امام محمد بن علی شوکانیؒ نے نیل الاوطار میں اور برصغیر کے معروف محدّث علامہ عبدالرحمن مبارکپوریؒ نے تحفہ الاحوذی شرح ترمذی میں ایک صاع کو ہی راجح اور زیادہ قرین احتیاط قراردیا ہے۔ غلے کی تمام اقسام سے صدقۂ فطرادا کیا جاسکتا ہے اور جائز ہے لیکن کس چیز کا صدقہ نکالنا افضل ہے؟ اس سلسلہ میں ائمہ کرام ؒ کی مختلف آراء ہیں۔امام ابوحنیفہ ؒکے نزدیک ہر اُس چیز سے صدقہ نکالنا افضل ہے جو سب سے قیمتی اور مہنگی ہو۔امام شافعی ؒکے نزدیک گندم سے صدقہ فطر نکالنا افضل ہے(چاہے وہ دوسری اشیاء سے مہنگی ہویا سستی)اور امام مالکؒ وامام احمد ؒکے نزدیک کھجور کا صدقہ نکالنا سب سے افضل ہے۔یہ اختلافِ رائے صرف فضیلت میں ہے ،جو از وعدمِ جواز میں نہیں بلکہ تمام ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جس چیز سے بھی صدقۂ فطر نکالنا چاہے نکال سکتا ہے۔

صدقۂ فطر کی ادائیگی کب کی جائے؟
اس سلسلہ میں بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے: ’’(نبی ﷺنے صدقہ فطر کے بارے میں)حکم فرمایا کہ لوگوں کے نمازِ عید کی طرف نکلنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے۔‘‘ ابوداؤد،ابن ماجہ اور دارقطنی میں ہے: ’’جس نے عید کی نماز سے قبل فطرانہ ادا کیا تو یہ قبول ہونے والی زکوٰۃ ہے اور جس نے یہ صدقہ نماز کے بعد ادا کیا تو وہ محض صدقوں میںسے ایک صدقہ ہے۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ فطرانہ نماز سے پہلے ہی ادا کرنا ضروری ہے ۔
اور ائمہ اربعہ سمیت جمہور کے نزدیک عید کے بعد فطرانہ ادا کرنا اگرچہ صحیح ہے لیکن مکروہ ہے اور علامہ ابن حزم ؒکے نزدیک فطرانہ عید سے قبل ادا کرنا واجب اوربعد میں ادا کرنا حرام ہے اور امام شوکانی ؒنے بھی اِسی مسلک کی تائید کی ہے۔ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے: ’’صحابہ کرامؓ عیدالفطر سے ایک یا 2دن قبل ہی صدقہ فطر ادا کردیا کرتے تھے۔‘‘

امام بخاری ؒ کے نزدیک عید سے ایک2 دن قبل صدقہ جمع کرنا جائز ہے، فقراء کو دینا جائز نہیں اور حضرت ابنِ عمر ؓ کی روایت میں جو الفاظ ہیں کہ صحابہ کرام ؓ عید سے 2 ایک دن پہلے صدقہ دیدیا کرتے تھے اسکے بارے میں انکا کہنا ہے کہ لوگ پیشگی صدقہ جمع کروادیا کرتے تھے، فقراء کو نہیں دیتے تھے۔ایسا ہی ابنِ عمر ؓ کی مؤطا امام مالک والی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صدقۂ فطر اجتماعی طور پر ادا کرکے ایک جگہ جمع کرنا ہی مسنون طریقہ ہے اور زیادہ مفیدمطلب بھی ہے تاکہ جمع شدہ کل فطرانے سے مستحقین کو انکے حسبِ ضرورت دیا جاسکے اور انفرادی طور پر صدقہ نکالنے میں اس بات کا احتمال وامکان بھی رہتا ہے کہ کسی محتاج کے پاس تو بہت سارا صدقہ جمع ہوجائے اور کوئی بالکل ہی محروم رہ جائے۔ بہترین طریقہ فطرانہ کی اجتماعی ادائیگی ہے اور ایک جگہ جمع شدہ غلے اور نقدی کومتعلقہ افراد پہلے تو ان مستحقین میں تقسیم کردیں جو مقامی ہیں اور اگر مقامی فقراء سے کچھ بچ جائے تو وہ دیگر مصارف کیلئے بھی بھیجا جاسکتا ہے جیسے غریب ممالک کے دینی مدارس،غریب افراد یا دیگرمحتاجین ہیںکیونکہ ضرورت کی شکل میں مقامی فقراء کو صدقۂ فطر وزکوٰۃ دینے کی افضلیت مسلّم ہونے کیساتھ ساتھ تمام ائمہ وفقہا اور اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر اہلِ بلد اموالِ زکوٰۃ وصدقات سے مستغنی ہوجائیں تو پھر دوسرے علاقوں یا ملکوں میں بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ اجتماعی شکل میں زکوٰۃ وصدقات ادا کردینے پر،ادا کرنے والے فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہوگئے۔ اب اُن افراد کی ذمہ داری ہے کہ حقیقی مستحق افراد کو تلاش کرکے وہ اموال صرف کردیں اور انفرادی ادائیگی کی شکل میں ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ فطرانہ کی ادائیگی میں فقراء ومساکین کو تلاش کرے اور مستحق لوگوں تک پہنچائے، محض آسانی کی خاطر عادی اور پیشہ ور قسم کے گداگروں کو صدقہ تھما دینا مناسب نہیں کیونکہ دانہ گلِ گلزار تبھی بنتا ہے جب اُسے خاک میں پھینکا جائے اور اگر پتھریلی وبنجر زمین میں ڈال کر کونپلوں کا انتظار کیا جائے تو یہ ایک حماقت تو ہوسکتی ہے دانشمندی نہیں۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
فطرانہ ،احکام و مسائل

تحریر:غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

فطرانہ ادا کرنا فرض ہے، جیسا کہ سید نا عبد اللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں : رسولﷺ نے (رمضان المبارک) مسلمانوں کے غلام، آزاد، مرد عورت ، چھوٹے اوربڑے پر ایک صاع کھجور یا جوفطرانہ فرض قرار دیا ہے۔” (صحیح بخاری۱۵۰۳، صحیح مسلم ۹۸۳).

ثابت ہوا کہ مسلمان غلام پر فطرانہ فرض ہے، نہ کہ کافر پر، اگر کوئی کہے کہ سید نا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرما یا :
لیس فی العبد صد قۃ الَا صدقۃ الفطر.
“غلام پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، مگر صدقہ فطر(واجب) ہے۔” ۔” (صحیح مسلم ۹۸۲).

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث عام ہے اور مذکورہ بالا حدیثِ ابنِ عمر خاص ہے، خاص کو عام پر مقدم کیا جاتا ہے۔

فائدہ: ۱ حجازی صاع دو سیر چار چھٹا نک کا ہوتا ہے اس کا اعشاری وزن 2.099 بنتا ہے۔

۲۔ سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ ؓ بیان کرتے ہیں :

أمرنا رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسّلم بصد قۃ الفطر قبل أ ن تنزل الزّکاۃ، فلمّا نزلت الزّ کاۃ لم یأ مر نا ولم ینھنا، ونحن نفعلہ۔

زکوۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا ، جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوگیا تو آپ ﷺ نے نہ ہمیں حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایا، البتہ ہم اس ادا کرتے تھے۔” (مسند الامام احمد :۶/۶، سنن النسائی : ۲۵۰۹، سنن ابن ماحہ :۱۸۲۸، السنن الکبرٰی للبھیقی: ، ۱۰۹/۴وسندۂ صحیح)۔

اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ (۲۳۹۴) اور امام حاکم (۴۱۰/۱) نے ” صحیح” کہا ہے ، حافظ ذہبی ؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔

حافظ خطابی ؒ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

وھذا الا یدلّ علی زوال وجوبھا ، وذلک أنّ الزّیادۃ فی جنس العباد ۃ لا یو جب نسخ الأ صل المزید علیہ ، غیر أنّ محلّ الزّکوات الأ موال ومحلّ زکاہ زکاۃ الفطر الرّقاب۔

” یہ حدیث صدقۂ فطر کے وجوب کے ختم ہونے پر دلالت نہیں کرتی، کیونکہ عبادت کی جنس میں زیادت اصل کے نسوخ ہونے کو واجب نہیں کرتی، نیز( ایک فرق یہ بھی ہے کہ) زکوٰۃ مالوں پر فرض ہوتی ہے اور صدقۂ فطر جانوں پر۔”معالم السنن: ۲۱۴/۲)

۳۔ خوراک کی جو جنس استعمال میں آتی ہے، مثلاََ گندم، جو، کھجور، پنیر ، کشمش وغیرہ بہتر تو یہ ہے کہ اس میں سے فی کس ایک صاؑ فطرانہ ادا کیا جائے ، ہاں!یاد رہے کہ روپے پیسے یا چاندی وگیرہ کی صورت میں بھی فطرانہ ادا کیا جاسکتاہے۔

امام یحییٰ بن معین ؒ فرماتے ہیں :

لیس بہ بأ س أن یعطی زکاۃ رمضان فضۃ۔

صدقۂ فطر چاندی کی صورت میں ادا کرنے میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔” (تاریخ ابن معین: ۲۷۶۵،۲۳۲۶)

۴۔ صدقۂ فطر نمازِ عید سے پہلے ادا کیا جائے ، سید نا ابنِ عباس ؓ سےروایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فطرانہ روزہ دار کی لغویا ت اور فحش گوئی سے روزہ کو پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے فرض کیا ہے، جو اسے نمازِ عید سے پہلے ادا کردے، اس کی طرف سے قبول ہوگا اور جو نماز ِ عید کے بعد ادا کرے گا، وہ عام صدقات میں سے ایک عام صد قہ ہے”

(سنن ابی داؤد: ۱۶۰۹، سنن ابن ماجہ:۱۸۲۸ ، وسند ۂ حسن)

اس حدیث کو امام حاکم (۴۰۹/۱)نے ” صحیح” کہا ہے، حافظ زہبی ؒ نے ان کی موافقت کی ہے۔

۵۔ صدقۂ فطر عید سے ایک دو دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ امام ایوب سختیانیؒ بیان کرتے ہیں ، میں نے نافع سے پوچھا کہ سید نا ابنِ عمرؓکب صاؑ ادا کرتے تھے تو نافع ؒنے کہا، جب عامل(صدقہ وصول کرنے والا) بیٹھ جاتا ، میں نے کہا، وہ کب بیٹھتا تھا؟نافع ؒ نے فرما یا، عید الفطر سے ایک دو دن پہلے بیٹھتا تھا۔ “(صحیح ابن خزیمۃ: ۲۳۹۷، وسندۂ صحیح)

۶۔ خوب یادر ہے کہ فطر انہ صرف مساکین کا حق ہے۔

(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:س۷۱/۲۵ ـ ۷۸، زاد المعاد لابن القیم : ۴۴/۲)

یہ سلفی العقیدہ متشرع اور نمازی مسلمانوں کا حق ہے، اہل حق کے دینی مدارس پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے، بد قسمتی سے ہمارے ہاں مسلمانوں کا قیمتی مال دین کے نام پر”سرکاری” تنظیمیں ، تحریکیں کھا جاتی ہیں ، مستحقین محروم رہ جاتے ہیں ۔

۷۔ فطرانہ کا مقصد دواران ِ روزہ ہونے والی کمی وکوتاہی کی معافی، بے فائدہ اور فحش کلامی کی تطہیر اور عید کے دن باوقار طریقے سے مساکین کو در بد ر ٹھوکریں کھانے سے بچانا ہے، فطرانہ شکرانہ کی بہترین اور بے مثال صورت ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کا باعث ہے، گھر میں خیرو برکت اور امن وسکون کا باعث ہے، ہر قسم کی برائی اور شر سے بچنے کا محفوظ راستہ ہے، اس سے باہمی مودّت ورحمت جنمی لیتی ہے، نفرتوں اور کدورتوں کا قلع قمع ہوتا ہے، انسانی ہمدردی کا شاندار مظاہر ہ ہوتا ہے اور باوقار معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف کرکے ہمیں اپنے صالحین بندوں میں شامل فرمالے۔ آمین!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
صدقۂ فطر :
صوم کی حالت میں انسان سے جو غلطیاں اور لغزشیں سرزد ہو جاتی ہیں اور زبان سے بے ہودہ اور لغو باتیں نکل جاتی ہیں، اس سے صوم میں ایک طرح کا عیب اور نقص پیدا ہو جاتاہے، اس نقص کی تلافی کے لیے شریعت نے ایک خاص قسم کا صدقہ دینے کی تاکید فرمائی ہے، جس کو شرعی اصطلاح میں صدقۃ الفطر کہا جاتا ہے۔ صدقۂ فطر دیگر فرائض کی طرح ایک فریضہ ہے جو امیر، غریب، غلام، آزاد، مرد، عورت، بالغ، نابالغ سب پر فرض ہے ایک روایت میں ہے :
صوم شهر رمضان معلق بين السماء و الأرض و لايرفع إلابزكاة الفطر [الترغيب : كتاب الصوم باب الترغيب فى صدقة الفطر ]
’’ رمضان کے صیام آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتے ہیں جب تک صدقۂ فطر ادا نہ کر دیا جائے وہ بارگاہ الٰہی تک نہیں پہنچتے۔ “
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكوٰة الفطر [ابن ماجه كتاب الزكوٰة باب صدقة الفطر ]
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کو واجب قرار دیا ہے “۔
صدقۂ فطر کے لیے صاحب نصاب ہونا شرط نہیں ہے، بلکہ امیر و غریب سب پر یکساں فرض ہے۔ ابن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكوة الفطر من رمضان صاعامن تمر أو صاعامن شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثي من المسلمين [ابوداؤد : كتاب الزكوٰة، باب زكوٰة الفطر ]
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کو ہر مسلم آزاد و غلام اور مرد و عورت پر واجب قرار دیا ہے جس کی مقدار کھجور یا جو کا ایک صاع ہے “۔
صدقۂ فطر صلاۃ عید سے پہلے ادا کر دینا چاہئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بزكوٰة الفطر قبل خروج الناس إلى الصلوٰة [صحيح البخاري : كتاب الزكوٰة باب 76 ]
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے صلاۃ عید کے لئے نکلنے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کر دینے کا حکم دیا ہے “۔
اگر صدقۂ فطر صلاۃ العید کے بعد ادا کیا گیا تو ادا نہیں ہو گا، بلکہ وہ مطلق صدقہ و خیرات کے حکم میں ہو گا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
فمن أداهاقبل الصلوٰة فهي زكوٰة مقبولة و من أداهابعد الصلوٰة فهي صدقة من الصدقات . [أبوداؤد : كتاب الزكوٰة، باب زكاة الفطر ]

175۔ مقدار صدقۂ فطر :
صدقۂ فطر اگر جو یا کھجور یا پنیر یا خشک انگور سے دینا ہو تو اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس کی مقدار ایک صاع ہے۔ گیہوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح مرفوع روایت ثابت نہیں، لیکن دور نبوی میں بلاتفریق و امتیاز ہر جنس سے ایک صاع ہی اداکیا جاتا تھا۔ اس لیے گیہوں سے بھی ایک صاع (تقریباً اڑھائی کلو) ہی دینا چاہئے۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
فطرانہ:
ہر مسلمان مرد وعورت، بچے بوڑھے پر فرض ہے۔
اور یہ اپنے علاقے کے مستحق اور غریب و مسکین لوگوں کو دیا جائے گا۔
روزہ مرہ غذا کے لیے استعمال ہونے والی اجناس میں سے کوئی بھی چیز بطور فطرانہ دی جاسکتی ہے۔
جس کی مقدار وزن نہیں بلکہ پیمائش کے حساب سے ایک صاع (تقریبا 3200 ml) ہے۔
ویسے کسی بھی جنس کی پیمائش کا آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ دونوں ہاتھ جوڑ کر چار دفعہ وہ جنس ڈالنے سے ایک صاع بن جاتا ہے۔
صاع کی مقدار کے برابر گندم اور چاول میں ایک صاع کا وزن دو کلو اور سات سو گرام کے قریب ہوگا۔
اس مقدار کی چیز کی قیمت یعنی نقدی بھی بطور فطرانہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ( اور نقدی اگر گندم کے حساب سے ہو تو تقریبا 100 روپیہ بنتا ہے۔ علاقے کے حساب سے کم زیادہ بھی ہوسکتا ہے)
مثلا اگر گھر کے 9 افراد ہیں تو آپ نقدی 900 روپیہ، اور اگر گندم وچاول تو وہ پیمائش کرکے 29 لیٹر ادا کریں گے۔ كيلو کے حساب سے گندم اور چاول 24 کلو بنیں گے۔
فطرانہ عید الفطر کے دو تین دن پہلے سے لیکر عید نماز ادا کرنے تک کسی بھی وقت دیا جاسکتا ہے، بس اس میں مستحقین کی مصلحت و فائدے کو پیش نظر رکھنا چاہیے.
صاحب استطاعت لوگوں کو فطرانہ کے ساتھ ساتھ غریب و مساکین کے گھروں میں خوشیاں لانے کے لیے ویسے بھی صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔
 
Last edited:
Top