• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صدقے کا اونٹ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!
ایک بھائی کا سوال:
اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض اتارنے کے لیے صدقے کا اونٹ استعمال کیا.

1318- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بَكْرًا. فَجَاءَتْهُ إِبِلٌ مِنْ الصَّدَقَةِ. قَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ أَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَهُ. فَقُلْتُ: لاَ أَجِدُ فِي الإِبِلِ إِلاَّ جَمَلاً خِيَارًا رَبَاعِيًا. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَعْطِهِ إِيَّاهُ. فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَائً". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المساقاۃ ۲۲ (البیوع ۴۳) (۱۶۰۰)، د/البیو ع ۱۱ (۳۳۴۶)، ن/البیوع ۶۴ (۴۶۲۱)، ق/التجارات ۶۲ (۲۲۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۲۵)، وط/البیوع ۴۳ (۸۹)، وحم (۶/۳۹۰)، ودي/البیوع ۳۱ (۲۵۰۷) (صحیح)
۱۳۱۸- ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے ایک جوان اونٹ قرض لیا ، پھر آپ کے پاس صدقے کا اونٹ آیاتو آپﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اس آدمی کا اونٹ اداکردوں، میں نے آپ سے عرض کیا: مجھے چار دانتوں والے ایک عمدہ اونٹ کے علاوہ کوئی اوراونٹ نہیں مل رہا ہے، تو آپ نے فرمایا:'' اُسے اسی کو دے دو، کیونکہ لوگوں میں سب سے اچھے وہ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں سب سے اچھے ہوں'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقروض اگرخود بخود اپنی رضامندی سے ادائیگی قرض کے وقت واجب الاداقرض سے مقدارمیں زیادہ یابہتراورعمدہ اداکرے تو یہ جائزہے، اوراگرقرض خواہ قرض دیتے وقت یہ شرط کرلے تو یہ سود ہوگاجوبہرصورت حرام ہے۔
(سنن الترمذی)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
لسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک بھائی کا سوال:
اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض اتارنے کے لیے صدقے کا اونٹ استعمال کیا.
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
اس کا جواب شارح صحیح مسلم علامہ أبو زكريا محيي الدين النووي (المتوفى: 676 ھ) اور شارح سنن الترمذی علامہ محمد عبد الرحمن المباركفورىؒ (المتوفى: 1353هـ)
اپنی شرح میں دے چکے ہیں :کہ

’’ قال النووي هذا مما يستشكل فيقال كيف قضى من إبل الصدقة أجود من الذي يستحقه الغريم مع أن الناظر في الصدقات لا يجوز تبرعه منها
والجواب أنه صلى الله عليه وسلم اقترض لنفسه فلما جاءت إبل الصدقة اشترى منها بعيرا رباعيا ممن استحقه فملكه النبي صلى الله عليه وسلم بثمنه وأوفاه متبرعا بالزيادة من ماله ويدل على ما ذكرناه رواية أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال اشتروا له سنا
فهذا هو الجواب المعتمد وقد قيل في أجوبته غيره منها أن المقترض كان بعض المحتاجين اقترض لنفسه فأعطاه من الصدقة حين جاءت وأمره بالقضاء انتهى
( تحفة الاحوذي )

کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض اتارنے کے لیے صدقے کا اونٹ استعمال کیا.جبکہ صدقات کا نگران اس کا مجاز نہیں کہ صدقات میں سے کسی کو عطیہ دے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ :
نبی اکرم ﷺ نے اپنی ذات کیلئے قرض لیا تھا ، جب صدقے کے اونٹ آئے تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ قرض میں لئے گئے اونٹ سے قیمتی خرید لیا ،
یعنی اس کی قیمت ادا کرکے اس کے مالک بن گئے ،اور پھر وہ اونٹ قرض خواہ کو دے دیا ۔
اس حدیث سے پیدا ہونے والے سوال کا قابل اعتماد جواب یہی ہے۔
اور اس بات پر صحیح مسلم کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے
«عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ، فَأَغْلَظَ لَهُ، فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا»، فَقَالَ لَهُمْ: «اشْتَرُوا لَهُ سِنًّا، فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ»، فَقَالُوا: إِنَّا لَا نَجِدُ إِلَّا سِنًّا هُوَ خَيْرٌ مِنْ سِنِّهِ، قَالَ: «فَاشْتَرُوهُ، فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، فَإِنَّ مِنْ خَيْرِكُمْ، أَوْ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً»
’’ ایک آدمی جس آپ ﷺ سے قرض لینا تھا ،اور وہ سخت زبانی پر اتر آیا تو آپ نے فرمایا : اس کو ادائیگی کیلئے ایک اونٹ خریدو ، اور اسے دے دو ، ہم نے ( اس کے قرض کے برابر اونٹ تلاش کیا لیکن بالکل ایسا نہ ملا ) تو ہم نے عرض کیا کہ اس کے مطلوبہ اونٹ سے قیمتی اونٹ ہی دستیاب ہے ، فرمایا : وہی زیادہ قیمت والا اونٹ خرید لو ،اور اسے دے دو ،کیونکہ تم (میں سے قرض ادا کرنے والا ) بہتر آدمی وہی ہے جو قرض کی ادائیگی اچھی طرح کرے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
شیخ صاحب!
یہ حدیث بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے..؟

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلاً تَقَاضَى رَسُولَ اللهِ ﷺ فَأَغْلَظَ لَهُ، فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "دَعُوهُ، فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالاً". ثُمَّ قَالَ: "اشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا"، فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ. فَطَلَبُوهُ فَلَمْ يَجِدُوا إِلا سِنَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ. فَقَالَ: "اشْتَرُوهُ فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَائً".
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
1317/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج : انظر حدیث رقم ۱۳۱۶


۱۳۱۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے (قرض کا) تقاضہ کیا اور سختی کی، صحابہ نے اسے دفع کرنے کا قصدکیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اسے چھوڑ دو ،کیونکہ حق دار کو کہنے کا حق ہے''، پھر آپ نے فرمایا: ''اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو''، لوگوں نے تلاش کیا تو انہیں ایسا ہی اونٹ ملا جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، آپ نے فرمایا: ''اسی کو خرید کر دے دو، کیونکہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں''۔
مولف نے محمد بن بشار کی سند سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
یہ حدیث بھی اسی بات کی تائید کرتی ہے..؟
جی محترم یہ وہی حدیث ہے جس کا صحیح مسلم کے حوالے سے میں ذکر کیا ۔اسی حدیث سے علامہ النووی نے پہلی حدیث سے پیدا اشکال کا جواب دیا ہے ،
اور فی الواقع یہ حدیث اصل صورت حال کو واضح کرتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور۔۔ عبر الھاتف ۔۔ رابطہ کرنے پر آپ کا بہت شکر گزار ہوں ۔جزاکم اللہ تعالی احسن الجزاء
و بارک اللہ لکم
 
Top