• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صراط مستقیم پر چلو !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صراط مستقیم کیا ہے؟

ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ صراط مستقیم کتاب اللہ ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے فضائل قرآن کے بارے میں پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی، حکمتوں والا ذکر اور سیدھی راہ یعنی صراط مستقیم یہی اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے۔ مسند احمد ترمذی حضرت علی کا قول بھی یہی ہے اور مرفوع حدیث کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ مشابہ ہے
واللہ اعلم۔

حضرت عبداللہ سے بھی یہی روایت ہے ابن عباس کا قول ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آیت (اھدنا الصراط مستقیم) کہئے یعنی ہمیں ہدایت والے راستہ کا الہام کر اور اس دین قیم کی سمجھ دے جس میں کوئی کجی نہیں۔ آپ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ اس سے مراد اسلام ہے۔ ابن عباس، ابن مسعود اور بہت سے صحابہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں صراط مستقیم سے مراد اسلام ہے جو ہر اس چیز سے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے زیادہ وسعت والا ہے۔

ابن حنفیہ فرماتے ہیں اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کے سوا اور دین مقبول نہیں۔

عبدالرحمن بن زید بن اسلم کا قول ہے کہ صراط مستقیم اسلام ہے۔

مسند احمد کی ایک حدیث میں بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ صراط مستقیم کے دونوں طرف دو دیواریں ہیں، ان میں کئی ایک کھلے ہوئے دروازے اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں، صراط مستقیم کے دروازے پر ایک پکارنے والا مقرر ہے، جو کہتا ہے کہ اے لوگو! تم سب کے سب اسی سیدھی راہ پر چلے جاؤ، ٹیڑھی ترچھی ادھر ادھر کی راہوں کو نہ دیکھو نہ ان پر جاؤ۔ اور اس راستے سے گزرنے والا کوئی شخص جب ان دروازوں میں سے کسی ایک کو کھولنا چاہتا ہے تو ایک پکارنے والا کہتا ہے خبردار اسے نہ کھولنا۔ اگر کھولا تو اس راہ لگ جاؤ گے اور صراط مستقیم سے ہٹ جاؤ گے۔ پس صراط مستقیم تو اسلام ہے اور دیواریں اللہ کی حدیں ہیں اور کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم ہے اور راستے کے اوپر سے پکار نے والا زندہ ضمیر ہے جو ہر ایماندار کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور واعظ کے ہوتا ہے۔
یہ حدیث ابن ابی حاتم ابن جریر ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور اس کی اسناد حسن صحیح ہیں

مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد حق ہے۔ ان کا قول سب سے زیادہ مقبول ہے اور مذکورہ اقوال کا کوئی مخالف نہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے آپ کے دونوں خلیفہ ہیں۔ ابو العالیہ اس قول کی تصدیق اور تحسین کرتے ہیں دراصل یہ سب اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے سے ملے جلے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں خلفاء صدیق و فاروق کا تابعدار حق کا تابع ہے اور حق کا تابع اسلام کا تابع ہے اور اسلام کا تابع قرآن کا مطیع ہے اور قرآن اللہ کی کتاب اس کی طرف کی مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے۔ لہذا صراط مستقیم کی تفسیر میں یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔
فالحمد للہ۔

حضرت عبداللہ فرماتے ہیں۔ صراط مستقیم وہ ہے جس پر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا۔

امام ابو جعفر بن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ہے کہ میرے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں سب سے اولیٰ یہ ہے کہ ہم کو توفیق دی جائے اس کی جو اللہ کی مرضی کی ہو اور جس پر چلنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے راضی ہوا ہو اور ان پر انعام کیا ہو، صراط مستقیم یہی ہے۔ اس لئے کہ جس شخص کو اس کی توفیق مل جائے جس کی توفیق اللہ کے نیک بندوں کو تھی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا تھا جو نبی، صدیق، شہید اور صالح لوگ تھے انہوں نے اسلام کی اور رسولوں کی تصدیق کی، کتاب اللہ کو مضبوط تھام رکھا، اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے۔ اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چاروں خلیفوں اور تمام نیک بندوں کی راہ کی توفیق مل جائے گی تو یہی صراط مستقیم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مومن کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت حاصل ہو چکی ہے پھر نماز اور غیر نماز میں ہدایت مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مراد اس سے ہدایت پر ثابت قدمی اور رسوخ اور بینائی اور ہمیشہ کی طلب ہے اس لئے کہ بندہ ہر ساعت اور ہر حالت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا محتاج ہے وہ خود اپنی جان کے نفع نقصان کا مالک نہیں بلکہ دن رات اپنے اللہ کا محتاج ہے اسی لئے اسے سکھایا کہ ہر وقت وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتا رہے اور ثابت قدمی اور توفیق چاہتا رہے۔ بھلا اور نیک بخث انسان وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے در کا بھکاری بنا لے وہ اللہ ہر پکارنے والے کی پکار کے قبول کرنے کا کفیل ہے۔ بالخصوص بےقرار محتاج اور اس کے سامنے اپنی حاجت دن رات پیش کرنے والے کی ہر پکار کو قبول کرنے کا وہ ضامن ہے۔ اور جگہ قرآن کریم میں ہے۔

آیت :
(يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ) 4۔ النسآء:136)

اے ایمان والو اللہ پر، اس کے رسولوں پر اس کی اس کتاب پر، جو اس نے اپنے رسول کی طرف نازل فرمائی اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل ہوئیں، سب پر ایمان لاؤ۔

اس آیت میں ایمان والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا اور ہدایت والوں کو ایمان لانے کا حکم دینا ایسا ہی ہے جیسے یہاں ہدایت والوں کو ہدایت کی طلب کرنے کا حکم دینا۔ مراد دونوں جگہ ثابت قدمی اور اور استمرار ہے اور ایسے اعمال پر ہمیشگی کرنا جو اس مقصد کے حاصل کرنے میں مدد پہنچائیں۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو بھی نہیں سکتا کہ یہ حاصل شدہ چیز کا حاصل کرنا ہے۔

اور دیکھئے اللہ رب العزت نے اپنے ایمان دار بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کہیں

آیت :

(رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَيْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَھَّابُ) 3۔آل عمران:8)

یعنی اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما تو بہت بڑا دینے والا اور عطا کرنے والا ہے۔
یہ بھی وارد ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز مغرب کی تیسری رکعت سورۃ فاتحہ کے بعد اس آیت کو پوشیدگی سے پڑھا کرتے تھے پس آیت (اھدنا الصراط المستقیم) کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ اور اس سے ہمیں نہ ہٹا۔

تفسیر
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ
ابن کثیر
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
::: صراط مستقیم پر چلنے والی جماعت کی صفات :::


طائفہ منصورہ اھل سنت والجماعت کی صفات

اس جماعت کی شروط کیا ہیں جس کی شرعی طور پر اتباع مسلمان پر واجب ہے ؟

الحمد للہ:

مسلمان پر یہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ طائفہ منصورہ اھل سنت والجماعت میں شامل ہوکر سلف صالحین کی اتباع کرتے ہوۓ حق پر چلے اور عمل کرے ، ان سے محبت کرے چاہے وہ اس کے ملک میں ہو ں یا کہ کسی اور جگہ اور ان سے نیکی اور بھلائ اور تقوں میں تعاون کرتا رہے اور ان کے ساتھ مل کر اللہ تعالی کے دین کی مدد و نصرت کرے ۔

ذیل میں ہم اس کامیاب اور طائفہ منصورہ کی صفات ذکر کرتے ہیں :

ان صفات کے متعلق بہت سی احادیث صحیحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں :

امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :
( میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرتا رہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے یا انکی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالی کا حکم ( قیامت ) آ جاۓ کا اور وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے )

اور عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ہمیشہ ہی میری امت میں سے ایک گروہ حق پر قائم رہے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی )

اور مغیرۃ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :

( میری امت میں ایک قوم لوگوں پر غالب رہیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی )
اور عمران بن حصین رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتےہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا ، حتی ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائ کرگا )

ان مندرجہ بالا احادیث سے چند ایک امور اخذ کیۓ جا سکتے ہیں :

پہلا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ( میری امت میں سے ہمیشہ ہی ) میں اس بات کی دلیل ہے کہ امت میں سے ایک گروہ ہے نہ کہ ساری کی ساری امت ، اور اس میں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ اس کے علاوہ بھی گروہ اور فرقے ہوں گے ۔

دوسرا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ( جو ان کی مخالفت کرے گا وہ انہیں کوئ نقصان نہیں دے سکے گا ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طائفہ منصورہ کے علاوہ اور بھی فرقے ہوں گے جو کہ دینی معاملات میں اس کی مخالفت کريں گے ۔

اور اسی طرح یہ اس حدیث افتراق کے مدلول کے موافق ہے کہ بہترفرقے فرقہ ناجیہ کے حق پر ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کریں گے ۔

تیسرا :
دونوں حدییثوں میں اھل حق کے لۓ خوشخبری ہے ، طائفہ منصورہ والی حديث انہیں دنیا میں مدد اور کامیابی کی خوشخبری دیتی ہے ۔

چوتھا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ( حتی کہ اللہ تعالی کا امر آجاۓ ) سے مراد یہ ہے کہ وہ ہوا آجاۓ جو کہ ہر مومن مرد وعورت کی روح کو قبض کر لے ، تو اس سے اس حدیث ( میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ ہی حق پر قائم رہے گا حتی کا قیامت آجاۓ ) کی نفی نہی ہوتی کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہی حق پر قائم رہیں گے حتی کہ یہ ہوا قرب قیامت اور قیامت کی نشانیوں کے ظہور کے وقت ان کی روحیں قبض کرلے گی ۔

طائفہ منصورہ کی صفات :

اوپر بیان کی گئ احادیث اور دوسری روایات سے طائفہ منصورہ کی مندرجہ ذیل صفات اخذ کی جاسکتی ہیں :

1 – کہ یہ گروہ حق پر ہے ۔تو حديث میں یہ وارد ہے کہ وہ حق پر ہیں ۔
اور یہ گروہ اللہ تعالی کے امر پر ہے ۔
اور یہ گروہ اس امر پر ہے ۔
اور یہ گروہ اس دین پر ہے ۔
تو یہ سب الفاظ اس بات اور دلالت پر مجتمع ہیں کہ یہی لوگ دین صحیح اوراستقامت پر ہیں جس دین کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رسول بنا کر بھیجے گۓ ہیں ۔

2 – یہ گروہ اللہ تعالی کے امر کو قائم کۓ ہوۓ ہے ۔
اور ان کا اللہ تعالی کے امر کو قائم کرنے کا معنی یہ ہے کہ :
ا – وہ دعوت الی اللہ کے حامل ہونے کی بنا پر سب لوگوں میں متمیز ہیں ۔
ب – اور یہ کہ وہ اس اہم کام ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ) کو قائم رکھے ہوۓ ہیں ۔

3 - کہ یہ گروہ قیامت تک ظاہر رہیں گے :
احادیث میں اس گروہ کو اس وصف سے نوازا گیا ہے کہ ( وہ ہمیشہ ہی ظاہررہیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی اور وہ ظا ہر ہوں گے )
اور (ان کا حق پر ظاہر ہونا )
یا ( قیامت تک ظاہر ہوں گے )
یا ( جو ان سے دشمنی کرے گا اس پر ظاہر ہوں گۓ )

یہ ظہور اس پر مشتمل ہے کہ :

وضوح اور بیان کے معنی میں ہے تووہ جانے پہچانے اور ظاہر ہیں ۔

اس معنی میں کہ وہ حق پر ثابت اور دین میں استقامت اور اللہ تعالی کے امرکو قائم کيۓ ہو ۓ اور اللہ تعالی کے دشمنوں سے جھاد جاری رکھے ہوۓ ہيں۔
اور ظہور غلبہ کے معنی میں ہے ۔

4 - یہ گروہ صبر و تحمل کا مالک اور اس میں سب پر غالب ہے ۔
ابو ثعلبہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تمہار پیچھے صبر والے ایام آرہے ہیں ، اس میں ایسا صبر ہو جس طرح کہ انگارہ پکڑ کر صبر کیا جاۓ )

طائفہ منصورہ والے کون لوگ ہیں ؟

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ : وہ اہل علم ہیں ۔

اور بہت سارے علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ طائفہ منصورہ سے مراد اھل حدیث ہیں ۔

اور امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ گروہ مومن لوگوں کی انواع میں پیھلا ہوا ہے : ان میں سے کچھ تو بہادری کے ساتھ لڑنے والے ہیں ، اور ان میں سے فقھاء بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں محدثین بھی ہیں ، اور ان میں عابدوزاھد لوگ بھی ہیں ، اور ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں اور بھی انواع ہیں ۔

اور ان کا یہ بھی قول ہے کہ : یہ جائز ہے کہ یہ طائفہ اور گروہ مومنوں کی متعدد انواع میں ہو ، ان میں قتال وحرب کے ماہر اور فقیہ اور محدث اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے والے ، اور زاھد اور عابد شامل ہيں۔

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : ( انہوں نے اس مسئلہ میں تفصیل بیان کرتے ہوۓ کہا ہے ) یہ لازم نہیں کہ وہ کسی ایک ملک میں ہی جمع ہوں بلکہ یہ جائز ہے کہ وہ دنیا کے کسی ایک خطہ میں جمع ہوں جائيں ، اور دنیا کے مختلف خطوں میں بھی ہو سکتے ہیں ، اور یہ بھی ہے کہ وہ کسی ایک ملک میں بھی جمع ہوجائيں ، اور یا پھر مختلف ممالک میں ، اور یہ بھی ہے کہ ساری زمیں ہی ان سے خالی ہوجاۓ اور صرف ایک ہی گروہ ایک ہی ملک میں رہ جاۓ تو جب یہ بھی ختم ہوجاۓ تو اللہ تعالی کا حکم آجاۓ گا ۔

تو علماء کرام کی کلام کا ماحاصل یہ ہے کہ یہ کسی ایک گروپ کے ساتھ معین نہیں اور نہ ہی کسی ایک ملک کے ساتھ محدد ہے ، اگرچہ ان کی آخری جگہ شام ہوگی جہاں پر دجال سے لڑيں گے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔

اور اس میں کوئ شک و شبہ نہیں جو لوگ علم شریعت کے میں عقیدہ اور فقہ اور حدیث و تفسیر کی تعلیم و تعلم اور اس پر عمل کرنے اوراس کی دعوت دینے ميں مشغول ہیں یہ لوگ بدرجہ اولی طائفہ منصورہ کی صفات کے مستحق ہیں اور یہ ہی دعوت و جھاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اہل بدعات کے رد میں اولی اور آگے ہیں ، تو ان سب میں یہ ضروری ہے کہ وہ علم صحیح جو کہ وحی سے ماخوذ ہے لیا جاۓ ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے کرے ، اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرماۓ آمین ۔

واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
::: صراط مستقیم کو تلاش کرنے والوں کو ایک بہترین نصیحت :::
1422492_667030113354994_1707911782_n.png
اھل علم اس موضوع پر ضرور روشنی ڈالے - جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے

(سورة النساء : 115)
1981953_598354720232801_1610118268_n.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
10372211_396820103789590_8007188172032724285_n.jpg
Siraat-e-Mustaqeem:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ( يَوْماً خَطًّا ثُمَّ قَالَ « هَذَاسَبِيلُ اللَّهِ » . ثُمَّ خَطَّ خُطُوطاً عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ « هَذِهِ سُبُلٌ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ » . ثُمَّ تَلاَ ( وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِى مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ )
(سنن الدارمی:208)
 
Top