محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
صرف 5 گھنٹے میں نیویارک سے اسلام آباد پہنچنے والا مسافر بردار طیارہ
آواز کی دُگنی رفتار پر سفر کرنے والے مسافر طیارے کو امریکی کمپنی تیار کررہی ہے۔ فوٹو؛ فائل
اس طیارے کے پروٹوٹائپ میں جسے ’’ایکس بی ون‘‘ (XB-1) کا نام دیا گیا ہے، صرف 2 افراد کی گنجائش ہے لیکن بوم ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ اس کا تجارتی ورژن (جو 2023 میں متوقع ہے) جسامت میں اس سے 3 گنا بڑا ہوگا جب کہ اس میں 45 سے 55 مسافر سفر کرسکیں گے۔
دنیا کے پہلے مسافر بردار سپرسونک طیارے ’’کنکارڈ‘‘ (Concord) کو ریٹائر ہوئے آج 10 سال سے زیادہ ہوچکے ہیں اور اس عرصے کے دوران ایسے کئی تجارتی طیاروں کے منصوبے سامنے آچکے ہیں جو نہ صرف کنکارڈ سے زیادہ بڑے ہوں گے بلکہ ان کی رفتار اور مسافروں کی گنجائش بھی کنکارڈ سے کہیں زیادہ ہوگی لیکن اب تک یہ تمام منصوبے تجرباتی یا آزمائشی مراحل ہی پر ہیں۔ ایکس بی ون کا معاملہ بھی ان سے کچھ مختلف نہیں۔
اسے ماک 2.2 کی زبردست رفتار پر پہنچانے کے لیے اس میں جنرل الیکٹرک کمپنی کے تیار کردہ 3 عدد جدید ترین ٹربوفین جیٹ انجن نصب کیے جائیں گے۔ یہ جیٹ انجن آج کل کے نئے تربیتی لڑاکا طیاروں میں نصب کیے جارہے ہیں جنہیں کمرشل طیارے میں نصب کرنے کے لیے ضروری تبدیلیوں سے گزارا جائے گا۔
http://www.express.pk/story/655306/
ٹویٹ
ویب ڈیسک جمعرات 17 نومبر 2016شیئر
ڈینور، کولوراڈو: امریکا کی نجی کمپنی ’’بوم ٹیکنالوجی‘‘ نے آواز سے دُگنی رفتار پر سفر کرنے والے مسافر بردار طیارے کا پروٹوٹائپ بنالیا ہے جس کی پرواز آئندہ سال یعنی 2017 کے اختتام تک متوقع ہے۔
یہ کمرشل سپرسونک طیارہ آواز کے مقابلے میں 2.2 گنا زیادہ (ماک 2.2) یعنی 2334 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکے گا۔ اس وقت مسافر بردار طیارے میں نیویارک سے اسلام آباد تک پہنچنے میں کم از کم 20 گھنٹے لگتے ہیں لیکن مستقبل کے اس مسافر بردار طیارے میں یہی فاصلہ صرف 4 گھنٹے 45 منٹ میں طے کرلیا جائے گا۔
اب تک یہ ہوائی سرنگ (وِنڈ ٹنل) میں 1000 گھنٹے سے زیادہ کی آزمائشیں پوری کرچکا ہے جس کے دوران اس میں فلائٹ کنٹرول اور ایویانکس ہی کو حتمی شکل دی جاسکی ہے جب کہ اس کا ایئرفریم (ڈھانچہ) ابھی تک تیاری کے مراحل میں ہے۔
ایکس بی ون پروٹوٹائپ دیکھنے میں کسی لڑاکا طیارے ہی کی طرح نظر آتا ہے لیکن اس کا حتمی ڈیزائن (جو فی الحال صرف ڈرائنگ بورڈ پر ہے) خاصا بڑا اور مسافر بردار طیارے جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔
امریکی میڈیا اسے ’’مکمل نجی‘‘ منصوبہ ضرور قرار دے رہا ہے لیکن اس میں ناسا، پریٹ اینڈ وٹنی، لاک ہیڈ مارٹن، بوئنگ، نارتھروپ گرومین، اسپیس ایکس اور اسکیلڈ کمپوزٹس جیسے اداروں کے ماہرین بھی شریک ہیں جو کسی نہ کسی صورت امریکا میں ہوابازی کے سرکاری شعبے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
اس کی تیز رفتاری اور دوسری خوبیاں اپنی جگہ، لیکن یہ کہنا ابھی مشکل ہے کہ یہ بروقت مکمل ہوسکے گا یا نہیں اور یہ کہ اسے ویسی ہی کامیانی حاصل بھی ہوگی کہ جس کی اس سے توقع کی جارہی ہے۔http://www.express.pk/story/655306/