• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صفوں کو سیدھا رکھنے سے متعلق احادیث

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,426
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
190
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
نماز کے لیے صفوں کو سیدھاکرنا، صفوں کے درمیان فاصلہ کم رکھنا، صف میں کندھوں کو برابر رکھنا، ٹخنے سے ٹخنا ملانا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں ملانا سنت ہے۔ صحابہ کرام اور ائمہ سلف صالحین ہمیشہ اس کےعامل رہے ہیں۔ احادیث رسول میں صف بندی کے بارے میں احکامات بڑی تاکید سے بیان ہوئے ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
(1) سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ایک حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
قَالَ : أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ قَالَ : يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اس طرح کیوں صفیں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے ہاں صفیں بناتے ہیں ؟“ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! فرشتے اپنے رب کے ہاں کیسے صفیں بناتے ہیں ؟ فرمایا : ”وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے یوں مل کر کھڑے ہوتے ہیں کہ درمیان میں کوئی فاصلہ باقی نہیں رہتا۔“
(صحیح مسلم : 180/1، ح430)

(2) سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح مناكبنا فى الصلاة ويقول: ”استووا، ولا تختلفوا، فتختلف قلوبكم“، . . . قال أبومسعود : فأنتم اليوم أشد اختلافا .
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز (کی صفوں ) میں ہمارے کندھوں کو ہاتھوں سے برابر کرتے اور فرماتے : سیدھے ہو جاؤ، ٹیڑھے نہ ہو جاؤ، ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے۔۔۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آج تم (صفوں کی درستی میں سستی کی بناء پر) سخت اختلاف کا شکار ہو۔“ (صحيح مسلم : 181/1، ح 432)

معلوم ہوا کہ صفیں ٹیڑھی ہوں تو اس کی سزا میں دل بھی ٹیڑھے ہو جاتے ہیں، مودّت ومحبت ختم ہو جاتی ہے، دشمنی اور عداوت گھر کر جاتی ہے، دلوں کو بغض، حسد اور عناد جیسی مہلک بیماریاں گھیر لیتی ہیں، بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے، دوستی رنجشوں میں بدل جاتی ہے، دلوں میں ایسی پھوٹ پڑتی ہے کہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنا گوارا نہیں ہوتا۔ آج بھی اختلاف و انتشار کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حدیث کو فیصل و حاکم مان کر اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ائمہ مساجداپنی ذمہ داری سے غافل ہیں، صفوں کی درستی پر توجہ نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ روز قیامت ضرور پوچھے گا۔
(3) سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے، بیان کرتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخلل الصف من ناحية إلى ناحية، يمسح صدورنا ومناكبنا، ويقول : ”لا تختلفوا، فتختلف قلوبكم“ . . .
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف میں داخل ہوتے اور ایک جانب سے دوسری جانب تک جاتے۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سینوں اور کندھوں کو ہاتھوں سے درست کرتے اور فرماتے : ٹیڑھے نہ ہوا کرو، ورنہ تمہارے دل ٹیڑھ کا شکار ہو جائیں گے۔“ (مسند الامام احمد : 285/4، سنن ابي داود: 664، سنن النسائي : 812، سنن ابن ماجه : 997، وسنده صحيح)

اس حدیث کو امام ابن جارود (۳۱۶) ، امام ابن خزیمہ (۱۵۵۶) اور امام ابن حبان (۲۱۶۱) نے ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔
امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۲۲۳۔ ۳۱۱ھ ) اس حدیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب التغليظ فى ترك تسوية الصفوف، تخوف لمخالفة الرب عزوجل بين القلوب .
’’صفوں کی درستی میں سستی کے بارے میں سخت وعید کا بیان کہ اللہ رب العزت کی طرف سے دلوں میں دوری ڈال دیے جانے سے ڈرنا چاہیے۔“ (صحيح ابن خزيمه : 24/3)

(4) سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُسَوِّي صُفُوفَنَا حَتَّى كَأَنَّمَا يُسَوِّي بِهَا الْقِدَاحَ، حَتَّى إذَا رَأَى أَنْا قَدْ عَقَلْنَا عَنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ يَوْمًا، فَقَامَ حَتَّى إذَا كَادَ أَنْ يُكَبِّرَ، فَرَأَى رَجُلاً بَادِياً صَدْرُهُ، فَقَالَ : ”عِبَادَ اللَّهِ , لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ“ .
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں اتنی سیدھی کرتے رہے کہ گویا ان صفوں کے ذریعے تیروں کو سیدھا کرتے ہوں، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ہم یہ بات سمجھ گئے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف لائے اور قریب تھا کہ نماز کے لیے تکبیر کہہ دیں۔ اچانک آپ کی نظر مبارک ایک ایسے شخص پر پڑی جو صف سے اپنے سینے کو باہر نکالے ہوئے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے بندو ! تم ضرور اپنی صفوں کو درست کر لو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تمارے چہروں میں اختلاف (دشمنی ) ڈال دے گا۔“
(صحيح مسلم : 182/1، ح 436)

(5) سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ . ’’تم ضرور اپنی صفوں کو سیدھا کر لو گے، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں مخالفت (عداوت ) ڈال دے گا۔“ (صحيح بخاري : ح : 717، صحيح مسلم : ح : 436)

علامہ ابن حزم (۳۸۴۔ ۴۵۶ھ ) اس وعید کے بارے میں فرماتے ہیں :
ھذا وعيد شديد، والو عيد لايكون إلا فى كبيرة من الكبائر .
’’یہ سخت وعید ہے اور وعید ہمیشہ کسی کبیرہ گناہ کے بارے میں ہوتی ہے۔“
(المحلي لابن حزم: 55/2، مسئلة: 415)

(6) سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا صليتم فأقيموا صفوفكم .
’’جب تم (باجماعت ) نماز پڑھو تو اپنی صفوں کو درست کیا کرو۔“ (صحيح مسلم : 174/1، ح 404)

(7) سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”رصوا الصفوف، لا يتخللكم مثل أولاد الحذف“، قيل يا رسول الله ! وما أولاد الحذف ؟ قال : ”غنم سود صغار، يكون باليمن“ .
’’تم صفوں کو اچھی طرح ملایا کرو، تمہارے درمیان سے
حذف کے بچوں کی طرح کی چیزیں نہ گزر سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ حذف کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چھوٹی سی بکری جو کہ یمن میں پائی جاتی ہے۔“ (مصنف ابن أبى شيبه : 351/1، مسند السراج : 758، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 217/3، وسنده صحيح)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بخاری و مسلم کی شرط پر ’’صحیح“ کہا ہے۔

(8) سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسوي يعني صفوفنا إذا قمنا للصلاة، فإذا استوينا كبر . . .
’’جب ہم نماز کے لیےکھڑے ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو سیدھا کرتے۔ جب ہم سیدھے ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تکبیر کہتے۔“ (سنن ابي داود : 665، صحيح ابي عوانة: 138، وسنده حسن)

حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو امام مسلم کی شرط پر ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔ (خلاصة الاحكام للنووي: 2470)
(9) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”أقيموا الصف فى الصلاة، فإن إقامة الصف من حسن الصلاة“ .
’’تم نماز میں صف کو قائم رکھا کرو کیونکہ صف کو قائم کرنا نماز کا حسن ہے۔“ (صحيح بخاري : ح : 722، صحيح مسلم : ح : 435)

(10) سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”سووا صفوفكم، فإن تسوية الصف من إقامة الصلاة“ .
’’تم صفوں کو درست کیا کرو کیونکہ صفوں کی درستی سے نماز قائم ہوتی ہے۔“ (صحيح بخاري : 100/1، ح : 723، صحيح مسلم : 181/1، ح : 433)

(11) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”أحسنوا إقامة الصفوف فى الصلاة“
’’نماز میں صفوں کی درستی اچھی طرح سے کیا کرو۔“ (مسند الامام احمد : 485/2، وسنده صحيح)

امام ابن حبان (۲۱۷۹) نے اس حدیث کو ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔
(12) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أقيمت الصلاة، فأقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجھ، فقال : أ ”قيموا صفوفكم وتراصوا، فإني أراكم من وراء ظھري“ .
’’ایک دن نماز کی اقامت ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رُخِ انور ہماری طرف پھیرا اور فرمایا : تم صفوں کو مکمل کرو اور خوب مل کر کھڑے ہوا کرو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔“ (صحيح بخاري : 100/1، ح : 719)

(13) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”أقيموا صفوفكم، فإني أراكم من وراء ظھري“، وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه، وقدمه بقدمه .
’’تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ پھر ہم میں سے ہر آدمی اپنے ساتھی کےکندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں چپکا لیتا تھا۔“
(صحيح بخاري : 100/1، ح : 725)

بتائیے کہ جو لوگ صرف انگلی کے ساتھ انگلی ملاتے ہیں ان کا عمل حدیث کے موافق ہے یا مخالف ؟
(14) سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”سددوا وقاربوا“ .
’’تم سیدھے اور قریب قریب ہو جاؤ۔“ (مسند الامام احمد : 282/5، مسند الدارمي : ح : 662، وسنده حسن)

امام ابن حبان رحمہ اللہ (۱۰۳۷) نے اس حدیث کو ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔
اور امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا إسناد موصول . ’’یہ سند موصول ہے۔“ (شعب الإيمان للبيھقي : 2459)

(15) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”اعتدلوا فى صفوفكم وتراصوا، فإني أراكم من وراء ظھري“، قال أنس : لقد رأيت أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه ولو ذهبت تفعل ذلك لترى أحدكم كانه بغل شموس.
’’تم صفوں میں سیدھے ہو جاؤ اور خوب مل جاؤ۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر ایک شخص اپنے ساتھ والےکےکندھےسے کندھا اور پاؤں سے پاؤں چپکا لیتا تھا۔ اگر آپ (آج ) اس طرح کرنے لگیں تو دیکھیں گےکہ لوگ (اس طرح بدکیں گے جیسے وہ ) سرکش خچر ہوں۔“
(مصنف ابن أبى شيبه : 350/1، الفوائد للمخلص :2/10/1 نقلا عن الصحيحة للالباني: 31، السنن لسعيد بن منصور نقلا عن فتح الباري لابن حجر: 211/2، وسنده صحيح)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ( ۷۷۳۔ ۸۵۲ھ ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وأفاد ھذا التصريح أن الفعل المذكور كان في زمن النبي صلي الله عليه وسلم، وبھذا يتم الاحتجاج به علي بيان المراد بإقامة الصف وتسويته .
’’اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ( صف بندی کا) مذکورہ کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا۔ صفوں کو قائم اور سیدھا کرنے سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں اسی حدیث سے مکمل دلیل ملتی ہے۔“ (فتح الباري لابن حجر : 211/2)

صاحب التعلیق المغنی کہتے ہیں :
فھذه الأحاديث فيھا دلالة واضحة على الاهتمام بتسوية الصفوف، وأنھا من تمام الصلاة، على أنه لا يتأخر بعض على بعض، ولا يتقدم بعضه على بعض، وعلي أنه يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه وركبته بركبته، لكن اليوم تركت ھذه السنة، ولو فعلت اليوم لنفر الناس كالحر الوحشية، فإنا لله وإنا إليه راجعون .
’’ان احادیث میں واضح دلالت موجود ہے کہ صفوں کی درستی کا اہتمام کرنا چاہیے، صف بندی سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے، صف میں آگے پیچھےکھڑے نہیں ہونا چاہیے، ایک شخص دوسرے کےکندھے سے کندھا، پاؤں سے پاؤں اور گھٹنے سے گھٹنا چپکا کر کھڑا ہو، لیکن آج یہ سنت ترک کر دی گئی ہے۔ اگر آپ اس پر عمل کریں تو لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بھاگیں گے۔
إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (عون المعبود : 256/2)

صف بندی کے بارے میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے اس فرمان پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ (م ۱۳۵۳ھ ) لکھتے ہیں :
وھكذا حال أكثر الناس في ھذا الزمان، فإنه لو فعل بھم ذلك لنفروا كأنھم حمر و حش، وصارت ھذه السنة عندھم كأنھا بدعة، عياذا بالله، فھداھم الله وأذاقھم حلاوة السنة .
’’اس دورمیں اکثر لوگوں کا یہی حال ہے۔ اگر ان کے ساتھ ایسی صف بندی کی جائے تو وہ جنگلی گدھوں کی طرح بھاگنے لگیں گے۔ اس سنت کو وہ گویا بدعت سمجھنے لگے ہیں (نعوذ باللہ ! )۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور سنت کی مٹھاس عطا فرمائے۔“ (ابكار المنن فى تنقيد آثار السنن للمباركفوري: ص :245)

شیخ رحمہ اللہ نے سچ فرمایا ہے :
اہل بدعت اور اہل تعصب کی مساجد اس سنت کے نور سے خالی ہیں، ان کے ہاں صف بندی کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ لوگ ایک بالشت بلکہ ایک فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات صف میں کھڑے دو انسانوں کے درمیان اتنا خلا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہونے کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر کوئی پاؤں سے پاؤں ملانے کی کوشش کرے تو دور بھاگتے ہیں۔ گویا اس سنت سے ان کو شدید نفرت ہے۔ یقیناً یہ لوگ امت کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ سنتوں کے دشمن اور بدعتوں کے شیدائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سنت کی مخالفت پر ان کو ضرور پوچھے گا۔
(16) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے :
إنه قدم المدينة، فقيل له: ما أنكرت منذ يوم عھدت رسول الله صلي الله عليه وسلم؟ قال؟ ما أنكرت شيئا إلا أنكم لا تقيمون الصف .
’’وہ مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو ان سے سوال ہوا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے آج تک آپ نے (اہل مدینہ کی ) کون سی بات ناپسند کی ہے؟ انہوں نے فرمایا : مجھے (اہل مدینہ ) کی کوئی بات ناپسند نہیں سوائے اس کےکہ تم صف بندی کا اہتمام نہیں کرتے۔“ (صحيح بخاري : 100/1، ح : 724)

اس روایت پر امام بخاری رحمہ اللہ (۱۹۴۔ ۲۵۶ھ ) نے یوں تبویب کی ہے :
باب إثم من لم يتم الصفوف .
’’جو لوگ صفیں مکمل نہیں کرتے، ان کے گناہ کا بیان۔“

(17) سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ اپناچشم دید واقعہ یوں بیان کرتے ہیں :
أقبل رسول الله صلي الله عليه وسلم بوجھه، فقال: أقيموا صفوفكم ثلاثا، لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم، قال: فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه .
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف اپنا رُخِ انور پھیرا اور فرمایا : اپنی صفوں کو قائم کیا کرو۔ تین مرتبہ یہی بات دہرائی، پھر فرمایا : تم ضرور اپنی صفوں کو قائم کر لو گے، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔ نعمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ (اس فرمانِ نبوی کو سننے کے بعد) ایک شخص دوسرے ساتھی کےکندھے سے کندھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا چپکاتا تھا۔“ (مسند الامام احمد : 276/4، سنن ابي داود 662، صحيح بخاري : 100/1 مختصرا معلقا، وسنده صحيح)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (۱۶۰) اور امام ابن حبان (۲۱۷۶) نے ’’صحیح“ کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو ’’حسن“ قرار دیا ہے۔ (تغليق التعليق : 302/2، 303)

حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رواه أبوداود وغيره بأسانيد حسنة .
’’اس حدیث کو امام ابوداؤد اور دیگر ائمہ نے حسن سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔“ (خلاصة الاحكام للنووي: 116/1)

زکریا بن ابی زائدہ نے سنن دارقطنی (۲۸۲/۱) اور صحیح ابن خزیمہ وغیرہ میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔
ناصرالسنۃ علامہ البانی رحمہ اللہ (۱۳۳۲۔ ۱۴۲۰ھ ) حدیث انس اور حدیث نعمان بن بشیر کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وفي هذين الحديثين فوائد هامة: الأولى: وجوب إقامة الصفوف وتسويتها والتراص فيها , للأمر بذلك , والأصل فيه الوجوب , إلا لقرينة , كما هو مقرر في الأصول , والقرينة هنا تؤكد الوجوب , وهو قوله صلى الله عليه وسلم ”أو ليخالفن الله بين قلوبكم“ , فإن مثل هذا التهديد لا يقال فيما ليس بواجب , كما لا يخفى. الثانية: أن التسوية المذكورة إنما تكون بلصق المنكب بالمنكب، وحافة القدم بالقدم، لأن هذا هو الذي فعله الصحابة رضي الله عنهم حين أمروا بإقامة الصفوف، والتراص فيها , ولهذا قال الحافظ في (الفتح) بعد أن ساق الزيادة التي أوردتها في الحديث الأول من قول أنس: ”وأفاد هذا التصريح أن الفعل المذكور كان في زمن النبي صلى الله عليه وسلم , وبهذا يتم الاحتجاج به على بيان المراد بإقامة الصف وتسويته“ . ومن المؤسف أن هذه السنة من التسوية قد تهاون بها المسلمون , بل أضاعوها , إلا القليل منهم , فإني لم أرها عند طائفة منهم إلا أهل الحديث، فإني رأيتهم في مكة سنة (1368هـ) حريصين على التمسك بها كغيرها من سنن المصطفى عليه الصلاة والسلام، بخلاف غيرهم من أتباع المذاهب الأربعة، لا أستثني منهم حتى الحنابلة، فقد صارت هذه السنة عندهم نسيا منسيا، بل إنهم تتابعوا على هجرها والإعراض عنها , ذلك لأن أكثر مذاهبهم نصت على أن السنة في القيام التفريج بين القدمين بقدر أربع أصابع، فإن زاد كره , كما جاء مفصلا في الفقه على المذاهب الأربعة (207/1) ، والتقدير المذكور لا أصل له في السنة، وإنما هو مجرد رأي، ولو صح لوجب تقييده بالإمام والمنفرد حتى لا يعارض به هذه السنة الصحيحة، كما تقتضيه القواعد الأصولية. وخلاصة القول: إنني أهيب بالمسلمين – وبخاصة أئمة المساجد – الحريصين على اتباعه صلى الله عليه وسلم، واكتساب فضلية إحياء سنته صلى الله عليه وسلم، أن يعملوا بهذه السنة، ويحرصوا عليها، ويدعوا الناس إليها، حتى يجتمعوا عليها جميعا، وبذلك ينجون من تهديد: ”أو ليخالفن الله بين قلوبكم“ .
’’ان دونوں حدیثوں میں بہت سے اہم فوائد ہیں۔ پہلا یہ کہ صفوں کو قائم کرنا، ان کو سیدھا کرنا اور ان کو اچھی طرح ملانا واجب ہے کیونکہ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاحکم موجود ہے۔ حکم میں اصل وجوب ہی ہوتا ہے سوائے اس صورت کے کہ اس (وجوب کے خلاف ) کوئی دلیل آ جائے۔ یہ بات اصول کی کتب میں مسلم طور پر لکھی ہوئی ہے۔ یہاں دلیل وجوب ہی کو مزید پختہ کرتی ہے۔ وہ دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کر دے گا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی دھمکی کسی واجب کام کے بارے میں ہی دی جا سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ صفوں کو برابر کرنے سے مراد یہی ہے کہ کندھے سے کندھا اور پورے پاؤں کے ساتھ پورا پاؤں اچھی طرح ملا لیا جائے کیونکہ صحابہ کرام کو جب صفوں کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اسی وجہ سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے وہی زائد الفاظ جو میں نے بیان کیے ہیں، ذکر کرنے کے بعد فرمایا : اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ( صف بندی کا) مذکورہ کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا۔ صفوں کو قائم اور سیدھاکرنے سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں اسی حدیث سے مکمل دلیل ملتی ہے۔۔۔ افسوس کی بات ہے کہ صفوں کی درستی والی سنت کو اکثر مسلمانوں نے اہمیت نہیں دی بلکہ انہوں نے اسے ضائع کر دیا ہے۔ میں نے یہ سنت مسلمانوں کے صرف ایک گروہ اہل حدیث کے پاس دیکھی ہے۔ میں نے ان کو مکہ مکرمہ میں ۱۳۶۸ھ کو دیکھا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری سنتوں کی طرح اس سنت کے بھی شیدائی تھے۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ مثلاً مذاہب اربعہ کے پیروکار حتی کہ میں ان میں سے حنبلی لوگوں کو بھی مستثنیٰ نہیں کرتا۔ ان لوگوں نے اس سنت کو بالکل بھلا دیا ہے۔ انہوں نے مسلسل اس سنت کو چھوڑا ہوا ہے اور اس سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مذاہب کی اکثر کتابوں میں لکھا ہے کہ دو اشخاص کے پاؤں میں چار انگلیوں کے برابر فاصلہ رکھنا سنت ہے۔ اگر اس سے زیادہ فاصلہ ہو گا تو مکروہ ہو گا، اس کی تفصیل الفقہ علی المذاھب الاربعۃ میں موجود ہے۔ اس مقرر کردہ فاصلے کی سنت رسول میں کوئی دلیل موجود نہیں۔ یہ محض اپنی رائے ہے۔ اگر اسے صحیح مانا جائے تو ضروری ہے کہ اسے امام اور منفرد کے لیےخاص کیا جائے (جماعت کی صورت میں مقتدیوں کے درمیان یہ فاصلہ نہ کیا جائے)تاکہ صحیح سنت کے خلاف نہ ہو۔ اصولی قواعد کا یہی تقاضا ہے۔ خلاصہ یہ کہ وہ مسلمان خصوصاً مساجد کے ائمہ کرام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے شیدائی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرنے کی فضیلت حاصل کرنا چاہتے ہیں، میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس سنت پر خود بھی عمل کریں، اس کے شیدائی بنیں اور لوگوں کو اس کی دعوت بھی دیں حتی کہ سب لوگ اس پر عمل شروع کر دیں۔ اسی طرح مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید سے محفوظ رہ سکیں گے کہ :
أو ليخالفن الله بين قلوبكم (صفوں کو درست کرو)ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔“ (سلسلة الاحاديث الصحيحة للالباني:40/1، 41، تحت الحديث : 23)

(18) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب، وسدوا الخلل، ولينوا بأيدي إخوانكم، ولا تذروا مزجات للشيطان، ومن وصل صفا وصله الله ومن قطع صفا قطعه الله . . .
’’تم صفوں کو درست کرو، کندھوں کو برابر کرو، خالی جگہ کو پر کرو، اپنے بھائیوں (ائمہ مساجد) کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہیں نہ چھوڑو۔ جو شخص صف کو ملائے گا، اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت کے ساتھ ) ملائے گا، اور جو شخص صف کو کاٹے گا، اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے ) کاٹ دے گا۔“
(مسند الامام احمد : 98/2، سنن ابي داود 666، سنن النسائي : 820، مختصرا، وسنده صحيح، )

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۱۵۴۹) نے ’’صحیح“ کہا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ (۲۱۳/۱) نے اسے امام مسلم کی شرط پر ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ ( ۸۴۹۔ ۹۱۱ھ ) اس کی سند کو ’’صحیح“ قرار دینے کے بعد فرماتے ہیں :
ومعني قطعه الله، أي من الخير والفضيلة والأجر الجزيل .
’’ صف توڑنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ کاٹ دے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بھلائی، فضیلت اور اجر عظیم سے محروم کر دے گا۔“ (الحاوي للفتاوي للسيوطي: 52/1، )

محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فالحق أن سد الفرجة واجب ما أمكن .
’’حق بات یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو خالی جگہ کو پر کرنا فرض ہے۔“ (سلسلة الاحاديث الضعيفة للالباني:323/3)


(19) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
راصوا صفوفكم، وقاربوا بينها وحاذوا بالأعناق، فوالذي نفس محمد بيده إني لأري الشياطين تدخل من خلل الصف كأنها الحذف
’’اپنی صفوں کو ایسے ملایا کرو جیسے عمارت کی اینٹیں ملی ہوتی ہیں، ان کو قریب قریب کیا کرو اور اپنی گردنوں کو برابر رکھا کرو۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! میں شیطانوں کو صف کی خالی جگہوں میں سے داخل ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں، جیسے وہ بکری کے بچے ہوں۔“
(سنن ابي داود : 667، السنن الكبريٰ للبيھقي : 100/3، وسنده صحيح)

امام ابن خزیمہ (۱۵۴۵) اور امام ابن حبان (۲۱۶۶) رحمها اللہ نے اس حدیث کو ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔ سنن النسائی میں قتادہ بن دعامہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی وامی و روحی و نفسی صف بندی کے بارے میں کس قدر تاکید فرما رہے ہیں کہ صفوں کے درمیان خلا کو پر کیا کرو، لیکن اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور کہلانے والے غور ہی نہیں کرتے ! بلکہ احادیث کا مذاق اڑاتے ہیں کہ کیا ٹانگوں کے درمیان سے گزر کر شیطان صف میں نہیں گھس سکتا؟ (العیاذباللہ ! )

حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قال الشراح : المراد بأقيموا، اعتدلوا، وتراصوا، تلاصقوا بلا خلل .
’’شارحین کا کہنا ہے کہ صفوں کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سیدھے ہو کر کھڑے ہو جاؤ اور صفوں کا اچھی طرح ملانے سے مراد یہ ہے کہ خلل چھوڑے بغیر مل کر کھڑے ہو جاؤ۔“(الحاوي للفتاوي للسيوطي: 52/1)

(20) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
سووا صفوفكم فإن الشيطان يتخللها كالحذف، أو كأو لاد الحذف .
صفوں کو درست کرو کیونکہ شیطان ان میں بکری یا بکری کے بچوں کی طرح داخل ہو جاتا ہے۔‘‘ (المعجم الكبير للطبراني : 275/9، ح : 9376، وسنده صحيح )

نیز فرماتے ہیں :
لقد رأيتنا، وما تقام الصلاة حتي تكامل بنا الصفوف .
’’مجھے یاد ہے کہ اس وقت تک نماز کھڑی نہیں کی جاتی تھی جب تک ہمارے ساتھ صفیں مکمل نہ ہو جاتیں۔‘‘ (مسند الامام احمد : 419/1، وسنده صحيح)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتےہیں :
ورجاله رجال الصحيح .
’’اس روایت کے راوی صحیح بخاری والے راوی ہیں۔‘‘
(مجمع الزوائد : 90/2)

حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو’’صحیح ‘‘قرار دیا ہے۔ (الحاوي للفتاوي : 53/1)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے:
سووا صفوفكم . ’’اپنی صفوں کو سیدھا کیا کرو۔‘‘ (مصنف ابن أبى شيبه : 351/1، وسنده صحيح)

(21) سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإذا قمتم إلى الصلوة فاعدلوا صفوفكم، وأقيموها، وسدوا الخلل، فإني أراكم من وراء ظهري .
’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنی صفوں کو سیدھا و درست کرو اور خالی جگہیں پر کرو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے (بھی ) دیکھتا ہوں۔‘‘ (صحيح ابن خزيمه : 1548، صحيح ابن حبان: 401، واللفظ له، وسنده صحيح)

سعودی عرب کے مفتئ اعظم، عظیم فقیہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والمشروع لمن رأى ذلك أن ينصح إخوانه ويأمرهم بسد الفرج، وعلى الأئمة أن يأمروا الجماعة بذلك تأسياً بالنبي صلى الله عليه وسلم وتنفيذاً لأمره صلى الله عليه وسلم بذلك .
’’جو شخص یہ ( صف بندی میں سستی ) دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کو نصیحت کرے اور انہیں خالی جگہیں ختم کرنے کا حکم دے۔ ائمہ مساجد کا فرض ہے کہ وہ جماعت کو اس کا حکم دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نافذ کریں۔‘‘ (مجموع الفتاوٰي ابن باز: 203/12)

ابوعثمان نہدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كنت فيمن يقيم عمر بن الخطاب قدامه لإقامة الصف .
’’میں ان لوگوں میں سے تھا جنہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ صفیں سیدھی کرانے کے لیے اپنے آگے کھڑا کرتے تھے۔‘‘ (مصنف ابن أبى شيبه : 351/1، وسنده صحيح )

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے:
لم يكن يكبر بالصلاة للناس حتي تعدل الصفوف، ويؤكل بذلك رجالا .
’’آپ اس وقت تک لوگوں کو نماز پڑھانا شروع نہ کرتے جب تک ان کی صفیں درست نہ ہو جاتیں۔ اس کام کے لیے آپ نےکئی آدمیوں کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی۔‘‘ (جزء ابي الجھم: 21، وسنده صحيح )

(22) سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
استووا، وحاذوا بين المناكب، فإن من تمام الصلاة إقامة الصف، قال مالك بن أبى عام : وكان لا يكبر حتي يأتيه رجال قد و كلهم بإقامة الصفوف .
’’سیدھے ہو جاؤ، کندھوں کو برابر کر لو کیونکہ صف کو سیدھا کرنے سے نماز مکمل ہو گی۔ مالک بن ابی عامر بیان کرتے ہیں کہ آپ اس وقت تک تکبیر تحریمہ نہ کہتے جب تک وہ لوگ آپ کے پاس نہ آ جاتے جنہیں آپ نے صفوں کو درست کرنے کے لیے مقرر کیا ہوا تھا۔‘‘ (مصنف ابن أبى شيبه : 351/1، وسنده صحيح )

(23) سوید بن غفلہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كان بلال رضى الله عنه يسوي مناكبنا، ويضرب أقدامنا لإقامة الصف .
’’بلال رضی اللہ عنہ ہمارے کندھوں کو برابر کرتے اور صف کو درست کرنے کے لیے ہمارے پاؤں پر مارتے تھے۔‘‘ (المطالب العالية لابن حجر: 428، وسنده صحيح )

قارئین کرام ! صفوں کو مکمل کرنا، ان کو سیدھا کرنا، ان کے درمیان خالی جگہوں کو پر کرنا اور صفوں میں مل کر کھڑے ہونا ضروری ہے۔ اس بارے میں ہم نے صحیح احادیث کا مجموعہ پیش کر دیا ہے۔ خود اندازہ کریں کہ امت ان احادیث کو کس طرح نظر انداز کر رہی ہے۔ مسلمانوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ صف کے درمیان خالی جگہ چھوڑنا انتہائی مکروہ فعل ہے۔
اس پر شدید وعید آئی ہے۔ اس سے جماعت کی فضیلت ضائع ہو جاتی ہے۔ بلکہ اگر صف میں لوگ مل کر کھڑے نہ ہوں اور درمیان میں خالی جگہ ہو تو وہ صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے حکم میں ہیں۔ یاد رکھیں کہ صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز نہیں ہوتی۔ ایسے شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز دوبارہ پڑھنےکا حکم دیا ہے۔
(24) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله وملائكته يصلون على الذين يصلون الصفوف .
’’جو لوگ صفوں کو ملاتے ہیں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کرتا ہے اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘ (صحيح ابن خزيمه : 1550، وسنده حسن، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 214/1، وقال : صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذھبي واقره المنذري: 174/1)

صفوں کو ملانے والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا بھی کی ہے کہ :
من وصل صفا وصله الله .
’’جو شخص صف کو ملائے گا، اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت کے ساتھ ) جوڑے۔‘‘ (مسند الامام احمد : 98/2، سنن ابي داود 666، سنن النسائي : 820، وسنده صحيح )

فائدہ :
مشہور مفسر امام اسماعیل بن عبدالرحمٰن سدی رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالیٰ : ﴿وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ﴾ (37-الصافات:165) کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
للصلاة ’’یعنی ہم نماز کے لیے صفیں بنانے والے ہیں۔‘‘ ( تفسير الطبري : 135/23، وسنده حسن)

السنہ جہلم شمارہ ۳۶، ص ۳۴۔۴۹
 
Top