• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صف بندی کے متعلق کچھ سوالات؟؟؟؟

شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
السلام علیکم
مجھے صف بندی کے متعلق کچھ سوالات کرنے ہیں: -

سوال نمبر 1:- اگر کوئی شخص ہماری اگلی صف میں کھڑا ہو اور وہ شخص وضو ٹوٹنے کی وجہ سے نماز توڑ کر نکل جائے. اب اس شخص کی جگہ خالی ہو گی ہیں. اب کیا ہم نماز کی حالت میں ہی اگے صف میں جاکر اسکی جگہ لے سکتے ہیں؟ (مجھے اس کا حوالہ یاد نہیں آ رہا میں نے یہ کہی پڑھا ہیں. )

سوال نمبر 2:- اگر پہلی صف پوری نا ہوی ہو اور پیچھے کی صف پوری ہو جائے لیکن ابھی بھی پہلی صف میں جگہ باقی ہو تو کیا پچھلی صف والوں کی نماز ہو جائے گی ؟اور اگر نماز ہو جائے گی تو پچھلی صف والوں کو کوئی گناہ ملےگا؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم
مجھے صف بندی کے متعلق کچھ سوالات کرنے ہیں: -
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: «لِتَرَاصَّوْا فِي الصَّفِّ، أَوْ يَتَخَلَّلُكُمْ أَوْلَادُ الْحَذَفِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصُّفُوفَ»
مصنف عبدالرزاق 2434
ترجمہ :
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
یا تو تم صف کو ملاؤ گے ،یا پھر شیطان کے بچے تمھاری صفوں میں گھس آئیں گے ، اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ان لوگوں پر رحمت نازل کرتے ہیں جو صفوں کو قائم کرتے ہیں ‘‘

اور اگر اگلی صفوں میں خلا ہو تو اسے پر کرنا چاہیئے ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (أَقِيمُوا الصُّفُوفَ ، وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ ، وَسُدُّوا الْخَلَلَ ، وَلِينُوا بِأَيْدِي إِخْوَانِكُمْ ، وَلَا تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ ، وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ) رواہ أبو داود (666) وصححه الألباني .
چنانچہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (صفیں سیدھی کرو، اپنے کندھوں کو برابر کر لو، خالی جگہ پر کرو، اور اپنے بھائیوں کیلیے نرمی اپناؤ، شیطان کیلیے خالی جگہ مت چھوڑو، صف ملانے والے کو اللہ تعالی ملاتا ہے اور صف توڑنے والے کو اللہ تعالی توڑ دیتا ہے۔) اسےابو داود: (666) نے روایت کیا ،اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔

عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ قَالَ: «رَأَيْتُ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ يَتَخَلَّلُ الصُّفُوفَ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى الْأَوَّلِ وَالثَّانِي»
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ صفوں میں گھس کر پہلی یا دوسری صف میں جا کھڑے ہوتے ‘‘
(مصنف عبدالرزاق ۲۲۵۵ )
وروى مسلم (430) عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : (أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟) فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا ؟ قَالَ : (يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ) .
صحیح مسلم : (430)میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور فرمایا: (تم ایسے صف بندی کیوں نہیں کرتے جیسے فرشتے اللہ تعالی کے ہاں صف بندی کرتے ہیں!؟) تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فرشتے اللہ تعالی کے ہاں کیسے صف بندی کرتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ پہلے اگلی صفیں مکمل کرتے ہیں اور صفوں میں خلل نہیں چھوڑتے)

وروى أبو داود (671) والنسائي (818) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (أَتِمُّوا الصَّفَّ الْمُقَدَّمَ ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ ، فَمَا كَانَ مِنْ نَقْصٍ فَلْيَكُنْ فِي الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ) وصححه الألباني في صحيح أبي داود وغيره .
اسی طرح ابو داود: (671) اور نسائی: (818) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پہلے اگلی صفیں مکمل کرو اور پھر اس کے متصل بعد والی، اگر کسی صف میں کمی ہو تو وہ آخری صف میں ہو) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود وغیرہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
قال الباجي رحمه الله :
" يَجِبُ أَنْ يَكْمُلَ الْأَوَّلُ فَالْأَوَّلُ ، فَإِنْ كَانَ نَقْصٌ فَفِي الْمُؤَخَّرِ " انتهى .
"المنتقى - شرح الموطأ" (1 /386)

مشہور مالکی فقیہ علامہ الباجی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"پہلے اگلی صفوں کو مکمل کرنا واجب ہے، چنانچہ نقص صرف آخری صفوں میں ہونا چاہیے" انتہی
"المنتقى - شرح الموطأ" (1 /386)
وجاء في "الموسوعة الفقهية" (27/36) :
" وَمِنْ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ إِكْمَال الصَّفِّ الأوَّل فَالأَْوَّل ، وَأَنْ لاَ يُشْرَعَ فِي إِنْشَاءِ الصَّفِّ الثَّانِي إِلاَّ بَعْدَ كَمَال الأوَّل ، وَهَكَذَا . وَهَذَا مَوْضِعُ اتِّفَاقِ الْفُقَهَاءِ .
وَعَلَيْهِ ، فَلاَ يَقِفُ فِي صَفٍّ وَأَمَامَهُ صَفٌّ آخَرُ نَاقِصٌ أَوْ فِيهِ فُرْجَةٌ ، بَل يَشُقُّ الصُّفُوفَ لِسَدِّ الْخَلَل أَوِ الْفُرْجَةِ الْمَوْجُودَةِ فِي الصُّفُوفِ الَّتِي أَمَامَهُ " انتهى .

اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (27/36) میں ہے کہ:
"صفیں سیدھی اور برابر کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ پہلے اگلی صفوں کو مکمل کیا جائے اور دوسری صف اسی وقت شروع کی جائے جب پہلی صف مکمل ہو جائے، اس پر تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے۔
چنانچہ اس بنا پر اگر سامنے والی صفوں میں خالی جگہ موجود ہے تو نئی صف نہ بنائے یا پچھلی صف میں بھی کھڑا نہ ہو، بلکہ صفوں کو چیرتے ہوئے خالی جگہ تک پہنچے اور اسے پر کرے۔" انتہی
اور شیخ عبدالعزیز بن باز کا فتوی ہے کہ :
إذا نقص الصف في صلاة التراويح أو القيام بسبب خروج بعض المصلين ، فهل يطلب الإمام من الذين في الصف الثاني إكمال الصف الأول ؟
فأجاب : " الواجب على المأمومين في الفرض والنفل أن يكملوا الصف الأول فالأول ؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بذلك وحث عليه ؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : (سووا صفوفكم ، وسدوا الفرج) وقوله صلى الله عليه وسلم : (ألا تصفون كما تصف الملائكة عند ربها ؟ قالوا : يا رسول الله وكيف تصف الملائكة عند ربها ؟ فقال عليه الصلاة والسلام : يتمون الصفوف الأول ويتراصون) " انتهى .

"مجموع فتاوى ابن باز" (30 /124-125)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"اگر نماز تراویح یا قیام اللیل میں نمازیوں کے چلے جانے کی وجہ سے صفوں میں خلل پیدا ہو جائے تو کیا امام دوسری صف میں موجود لوگوں کو پہلی صف میں آنے کا کہہ سکتا ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"نماز با جماعت فرض ہو یا نفل پہلے اگلی صفوں کو مکمل کرنا واجب ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اگلی صفوں کو پہلے مکمل کرنے کا حکم بھی دیا ہے اور ترغیب بھی دلائی ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم ایسے صف بندی کیوں نہیں کرتے جیسے فرشتے اللہ تعالی کے ہاں صف بندی کرتے ہیں!؟) تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! فرشتے اللہ تعالی کے ہاں کیسے صف بندی کرتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ پہلے اگلی صفیں مکمل کرتے ہیں اور صفوں میں خلل نہیں چھوڑتے)" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (30 /124-125)
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
جزاکم اللہ خیرا

معذرت کے ساتھ

شیخ محترم معاف کیجیے گا پر مجھے ان دونوں سوالات کے جوابات نہیں ملے جو میں نے اوپر کئے تھے. (معاف کیجیے گا اپ سے مؤدبانہ التماس ہے کہ آپ ان سوالات پر اپنی انیات فرمائے) ۔
جزاکم اللہ خیرا

محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
شیخ محترم معاف کیجیے گا پر مجھے ان دونوں سوالات کے جوابات نہیں ملے جو میں نے اوپر کئے تھے.
جی واقعی ابھی آپ کے سوال کا جواب دیکھ رہا ہوں ، ان شاء اللہ جلد بتاتا ہوں۔
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
شیخ محترم کچھ ہوا ان سوالات کا ؟؟؟؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سوال نمبر 1:- اگر کوئی شخص ہماری اگلی صف میں کھڑا ہو اور وہ شخص وضو ٹوٹنے کی وجہ سے نماز توڑ کر نکل جائے. اب اس شخص کی جگہ خالی ہو گی ہیں. اب کیا ہم نماز کی حالت میں ہی اگے صف میں جاکر اسکی جگہ لے سکتے ہیں؟
اگلی صف میں جگہ خالی ہو تو دوران نماز چل کر آگے صف میں شامل ہونا چاہئے ،
کیونکہ نماز کی صف کو ملانا ، جوڑنا ، خلاء کو پُر کرنا افضل عمل ہے ،حدیث رسول ﷺ اور علماء کا فتوی یہی ہے ۔
حكم المشي في الصلاة لسد فرجة
س رأيت فُرجة في الصف الذي أمامي، فهل يجوز لي أن أتحرك لأكمل الصف،
علماً بأنني كنت قد كبرت تكبيرة الإحرام؟
ج يجوز أن تتقدم إلى الصف الذي يليك لسد فرجة، فذلك من صِلة الصف، ومَن
وصل صفًاّ وصله الله، ولو دعا ذلك إلى مشي خطوة أو خطوتين، فهي حركة
يسيرة مغتفرة، والله أعلم.
الشيخ ابن جبرين
(فتاوى إسلامية)

سوال :خالی جگہ پر کرنے کے لئے نماز میں چلنا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
جواب؛
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اپنے سامنے پہلی صف میں خالی جگہ دیکھی تو کیا میرے لئے یہ جائز ہے کہ میں آگے بڑھ کر اس جگہ کو پر کردوں جب کہ میں خود بھی تکبیر تحریمہ کہہ چکا ہوں ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خالی جگہ کو پر کرنے کے لئے اگلی صف کی طرف بڑھنا جائز ہے کیونکہ یہ صف ملانے کے قبیل سے ہے اور جو صف کو ملائے اسے اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ ملالیتا ہے خواہ اس کے لئے ایک یادو قدم اٹھانا پڑیں۔یہ قابل معافی
معمولی حرکت ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
إذا رأى المصلي أمامه فرجة فماذا يفعل؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السؤال: إذا رأى المصلي فرجة أمامه وهو في فريضة أو نافلة هل الأفضل أن يتقدم لسد هذه الفرجة؟ وإذا لم تكن أمامه تماماً فهل يجوز إبعاد من أمامه لسد تلك الفرجة ومن ثم يحل محله، وهل ينافي هذا الطمأنينة في الصلاة؟

سوال :
اگر فرض نماز پڑھنے والا نمازی اپنے آگے اگلی صف میں خالی جگہ دیکھے تو کیا یہ افضل ہے کہ وہ چل کر آگے جا کر اس جگہ کھڑا ہوجائے ؟
اور اگر وہ خالی جگہ اس کے سامنے نہ ہو تو دوسرے کو آگے کر کے خود اس کی جگہ کھڑا ہوجائے ، اور کیا یہ عمل طمانیت نماز کے منافی تو نہیں ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الإجابة:
إذا رأى المصلي فرجة أمامه فالأفضل أن يتقدم إليها ليسدها، سواء كان في فريضة أو نافلة؛ لأن هذا عمل يسير لحصول شيء مأمور به لمصلحة الصلاة، وقد ثبت أن ابن عباس رضي الله عنهما صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم فوقف عن يساره فأخذ النبي صلى الله عليه وسلم برأسه من ورائه فجعلهعن يمينه، وهذا عمل من الطرفين لمصلحة الصلاة، لكن إن حصل فرجة ثانية أمامك ثم ثالثة وهكذا فهنا قد يكون العمل كثيراً فلا تتقدم لكل الفرج التي أمامك؛
لأن العمل الكثير المتوالي يبطل الصلاة إلا إذا كان بين ظهور الفرجتين زمن يقطع الموالاة في المشي فلا بأس في التقدم.
وإذا كانت الفرجة بحذاء جارك فلا بأس أن تزحزح من أمامك إذا كنت تزحزحه إلى مكان أفضل من مكانه مثل أن تكون في يمين الصف فتزحزحه عن اليسارإلى اليمين، وكل هذه الأعمال اليسيرة التي هي من مكملات المصافة لا تنافي
الطمأنينة في الصلاة.
مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد الثالث عشر - كتاب
أحكام الصفوف.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
نمازی فرض نماز پڑھ رہا ہو یا نفل اگر اپنے سامنے صف میں خلاء دیکھے تو افضل یہی ہے کہ وہ آگے جا کر اس خالی جگہ کھڑا ہوجائے ، کیونکہ یہ مختصر سا عمل ہے جو نماز کی مصلحت ہی کیلئے کیا گیا ہے ۔

اور صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نماز میں نبی اکرم ﷺ کے بائیں طرف کھڑے ہوگئے ، تو آپ ﷺ نے دوران نماز ہی ان کو پکڑ کر اپنی دائیں جانب کرلیا ۔
اور یہ عمل دونوں ہی کی طرف سے تھا ، جو نماز ہی کی مصلحت سے تھا
لیکن اگر (ایسا کرنے سے ) دوسرا ،تیسرا خلاء پیدا ہو ، تو پھر کسی خلاء کو پُر کرنے کیلئے اپنی جگہ چھوڑ کر نہ جانا چاہیئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مطلب یہ کہ اگر سامنے والے خلاء کو پر کرنے اپنی صف سے نکل آگے جائے تو اس کی اپنی جگہ خالی ہوجائے گی ، یعنی اس کے آگے جانے اس کی صف ٹوٹ جائے گی ،
اور ارشاد نبوی یہ ہے کہ :
’’ مَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ» (سنن ابی داود )
جو صف کو ملائے ، جوڑے اللہ تعالی اس کو جوڑے
اور جو صف کو توڑے اللہ اسے توڑے ‘‘
تو ایک صف کو ملا کر دوسری توڑنا جائز نہیں ، ہاں اگر آگے صف ملانے کیلئے جانے والا خود صف کے کسی داہنے یا بائیں سرے پر تھا تو اس کا آگے جانا جائز ہوسکتا ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جس صف میں خلاء ہو اسی صف کے نمازی تھوڑا سرک کر آپس میں ایک دوسرے سے مل جائیں ،
اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو خلاء کے باوجود نماز ہوجائے گی ، تاہم خلاء کا سبب بننے والے گنہگار ہوں،
اور اگر صف ملانا ، جوڑنا ممکن تھا اور اس کے باوجود خلاء چھوڑا گیا تو پوری صف کی نماز خراب ہوگی
واللہ تعالے اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
محترم @اسحاق سلفی صاحب
امام کے پیچھے دو صفیں تھیں۔ پہلی صف کے درمیان میں سے کسی کا وضوء ٹوٹ گیا۔
جس کا وضوء ٹوٹا وہ کس طرح نکلے؟
اس کی جگہ کو کیسے پر کیا جائے؟
قرآن و حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے دلائل سے جواب دیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام کے پیچھے دو صفیں تھیں۔ پہلی صف کے درمیان میں سے کسی کا وضوء ٹوٹ گیا۔
جس کا وضوء ٹوٹا وہ کس طرح نکلے؟
جہاں سے اسے آسانی ہو، مگر امام اور سترے کے درمیان سے نہ گذرے، کیونکہ امام کا سترہ ہی مقتدیوں کا سترہ ہے!
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ العِيدِ أَمَرَ بِالحَرْبَةِ، فَتُوضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَيُصَلِّي إِلَيْهَا وَالنَّاسُ وَرَاءَهُ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ»، فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَهَا الْأُمَرَاءُ.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عمر نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا۔ انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن ( مدینہ سے ) باہر تشریف لے جاتے تو چھوٹے نیزہ ( برچھا ) کو گاڑنے کا حکم دیتے وہ جب آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوتے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی کیا کرتے تھے۔ ( مسلمانوں کے ) خلفاء نے اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت بنا لی ہے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ سُتْرَةُ الإِمَامِ سُتْرَةُ مَنْ خَلْفَهُ)
صحیح بخاری: کتاب: نماز کے احکام و مسائل (باب: امام کا سترہ مقتدیوں کو کفایت کرتا ہے)

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ هَبَطْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثَنِيَّةِ أَذَاخِرَ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ يَعْنِي فَصَلَّى إِلَى جِدَارٍ فَاتَّخَذَهُ قِبْلَةً وَنَحْنُ خَلْفَهُ فَجَاءَتْ بَهْمَةٌ تَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ فَمَا زَالَ يُدَارِئُهَا حَتَّى لَصَقَ بَطْنَهُ بِالْجِدَارِ وَمَرَّتْ مِنْ وَرَائِهِ أَوْ كَمَا قَالَ مُسَدَّدٌ.
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد ( شعیب ) سے ، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام ” ثنیہ اذاخر “ میں پڑاؤ کیا ۔ نماز کا وقت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیوار کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے ۔ بکری کا ایک بچہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزرنے لگا ، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے روکتے رہے ، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ دیوار سے جا لگا اور وہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے گزر گیا ۔ مسدد کے الفاظ یہی تھے یا اسی طرح کے قریب ۔
سنن أبي داؤد: کِتَابُ تَفْرِيعِ مَا یَقطَعُ الصَلَاۃ وَمَا لَا یَقطَعُهَا (بَابٌ سُتْرَةُ الْإِمَامِ سُتْرَةُ مَنْ خَلْفَهُ)
سنن ابو داؤد: کتاب: ان چیزوں کی تفصیل جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور جن سے نماز نہیں ٹوٹتی (باب: امام کا سترہ اس کے پیچھے والوں کا بھی سترہ ہوتا ہے)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَهَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِي مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ طَلْحَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَقَالُوا سُتْرَةُ الْإِمَامِ سُتْرَةٌ لِمَنْ خَلْفَهُ.
طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'جب تم سے کوئی اپنے آگے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز رکھ لے تو صلاۃ پڑھے اور اس کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے آگے سے کون گزراہے'۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- طلحہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، سہل بن ابی حثمہ، ابن عمر، سبرہ بن معبد جہنی، ابوجحیفہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي سُتْرَةِ الْمُصَلِّي)
جامع ترمذی: كتاب: نماز کے احکام ومسائل (باب: مصلی کے سترے کا بیان )
اس کی جگہ کو کیسے پر کیا جائے؟
قرآن و حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے دلائل سے جواب دیں۔
قد ثبت أن ابن عباس رضي الله عنهما صلى مع النبي صلى الله عليه وسلم فوقف عن يساره فأخذ النبي صلى الله عليه وسلم برأسه من ورائه فجعلهعن يمينه،
صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نماز میں نبی اکرم ﷺ کے بائیں طرف کھڑے ہوگئے ، تو آپ ﷺ نے دوران نماز ہی ان کو پکڑ کر اپنی دائیں جانب کرلیا ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: نِمْتُ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ «فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ عَلَى يَسَارِهِ، فَأَخَذَنِي، فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ نَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ، ثُمَّ أَتَاهُ المُؤَذِّنُ، فَخَرَجَ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ» قَالَ عَمْرٌو: فَحَدَّثْتُ بِهِ بُكَيْرًا، فَقَالَ: حَدَّثَنِي كُرَيْبٌ بِذَلِكَ.
ہم سے حماد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن حارث مصری نے عبد ربہ بن سعید سے بیان کیا، انہوں نے مخرمہ بن سلیمان سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔ آپ نے بتلایا کہ میں ایک رات ام المؤمنین میمونہ کے یہاں سو گیا۔ اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وہیں سونے کی باری تھی۔ آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اس لیے آپ نے مجھے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا۔ پھر تیرہ رکعت ( وتر سمیت ) نماز پڑھی اور سو گئے۔ یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر مؤذن آیا تو آپ باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے اس کے بعد ( فجر کی ) نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ عمرو نے بیان کیا میں نے یہ حدیث بکیر بن عبداللہ کے سامنے بیان کی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھ سے کریب نے بھی بیان کی تھی۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بَابٌ إِذَا قَامَ الرَّجُلُ عَنْ يَسَارِ الإِمَامِ، فَحَوَّلَهُ الإِمَامُ إِلَى يَمِينِهِ، لَمْ تَفْسُدْ صَلاَتُهُمَا)
صحیح بخاری: کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں (باب: اگر کوئی امام کی بائیں طرف کھڑا ہوا)
یعنی صف بندی کا عمل صلاة کے منافی نہیں! کیونکہ دوران نماز بھی صف کی تصحیح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
 
Top