• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صلاۃ التراويح شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ

شمولیت
جنوری 22، 2012
پیغامات
1,129
ری ایکشن اسکور
1,053
پوائنٹ
234
صلاة التراويح


مجدد عصر امام محمد ناصر الدین البانی رحمة اللہ علیہ
(1914-1999ء)

ترجمانی:
ابوصادق عاشق على اثری
(جنرل سکریٹری ابوالکلام آزاد اسلامک او یکیننگ سنٹر ، نئی دہلی)

نظر ثانی و تقدیم:
مولانا عبد الحمید رحمانی رحمہ اللہ
(صدرعموی ابوالکلام آزاد اسلامک او یکینگ سینٹر، دہلی)
خلاصہ رسالہ:
اس رسالہ کے مباحث ہمارے تصور سے زیادہ طویل ہو گئے لیکن یہ ایسی چیز تھی جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا، کیونکہ تحقیق کے معاملہ میں منہج کا یہی تقاضا ہوتا ہے، اس لئے اخیر میں ہم نے مناسب سمجھا کہ محترم قارئین کی خدمت میں اس کا خلاصہ پیش کر دیں ، تا کہ یہ باتیں ان کے ذہن نشین ہو جائیں ، اور ان کے لئے ان پر عمل پیرا ہونا آسان ہو جائے ، ان شاء اللہ۔

خلاصہ درج ذیل ہے:
صلاة تراویح میں جماعت سنت ہے، بدعت نہیں ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے چند راتوں میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھائی، البتہ اس کو اس خوف سے ترک کر دیا کہ آپ کی مداومت سے آپ کا کوئی امتی اسے فرض نہ سمجھ لے، اور آپ کا یہ اندیشہ شریعت کی تکمیل کے ساتھ آپ کی وفات پر ختم ہو گیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح گیارہ رکعت پڑھی، جس روایت میں 20 رکعت پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے وہ سخت ضعیف ہے۔

گیارہ رکعت سے زیادہ تراویح پڑھنا جائز نہیں ہے، کیونکہ گیارہ رکعت سے زیادہ پڑھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو باطل کرنا اور آپ کے فرمان *صلوا كما رأيتموني أصلی* کو معطل کرنا لازم آتا ہے۔اسی وجہ سے فجر وغیرہ کی سنتوں میں زیادتی ناجائز ہے۔

گیارہ رکعت سے زیادہ پڑ ھنے والوں کو ہم بدعتی اور گمراہ نہیں کہتے ہیں، بشرطیکہ ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واضح نہ ہوئی ہو اور وہ ایسا خواہشات نفس کی پیروی میں نہ کر رہے ہوں۔

اگر گیارہ رکعت سے زیادہ کے جواز کا فتوی دیا جائے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شده تعداد کے افضل ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ کیونکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے *خير الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم* بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔

عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کے سلسلہ میں کوئی نئی چیز نہیں ایجاد کی تھی، بلکہ انہوں نے صرف سنت جماعت کا احیاء کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شده تعداد پرمحافظت اور مداومت کی تھی ، اور جن روایتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے اس تعداد کو زیادہ کر کے اسے 20 رکعت کر دیا تھا، ان میں سے کوئی سند صحیح نہیں ہے، نیز ان میں سے کوئی سند دوسری کو تقویت نہیں پہنچاتی ہے، اور امام شافعی اور امام ترمذی رحمہما اللہ نے ان سب کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، اور بعض طرق کو امام نووی اور حافظ زیلعی رحمہما اللہ وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔

یہ زیادتی اگر ثابت بھی مانی جائے تو بھی آج کل اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ وہ خاص علت کی بنا پر تھی جو زائل اور ختم ہوگئی ، اور اس تعداد پر اصرار نے لوگوں کو عموماصلاة میں جلدی کرنے اور اس کے خشوع کو اور بسا اوقات اس کی صحت کو ختم کرنے تک پہنچا دیا ہے۔

ہمارا گیارہ رکعت سے زیادہ کوقبول نہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے شرعی کورٹوں کے ججوں کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دینے کے سلسلہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو
نہ قبول کرنا ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ ہماری دلیل ان کی دلیل سے مقلدین کی نظر میں بھی بہتر ہے۔

کسی بھی صحابی سے بیس رکعت تراویح پڑھنے کا ثبوت نہیں ہے، بلکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا.

اس تعداد (20رکعت) پراجماع نہیں ہے۔

عدد مسنون ( گیارہ رکعت) کا التزام واجب ہے، کیونکہ رسول ﷺ اور عمر رضی اللہ عنہ سے یہی ثابت ہے، اور ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔

اس تعداد ( گیارہ رکعت ) سے زائد کو امام مالک اور ابن العربی وغیرہ علماء نے منکر قرار دیا ہے۔

اس زیادتی کے انکار سے ان ائمہ مجتہدین کا انکار لازم نہیں آتا ہے جنہوں نے
اسے قبول کیا ہے، اسی طرح ان کی مخالفت سے ان کے علم و فہم میں طعنہ زنی یا علم و فہم میں ان کی مخالف کی برتری لازم نہیں آتی ہے۔

اگر چہ گیارہ رکعت سے زائد جائز نہیں ہے لیکن اس سے کم جائز ہے، یہاں تک کہ ایک رکعت پر اکتفاء کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ سنت سے اس کا ثبوت ہے اور سلف نے ایسا کیا ہے۔

جن کیفیات اور طریقوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ وتر پڑھی ہے وہ سب جائز ہیں اور ان میں افضل اور اکثر ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا ہے۔

صلاة تراویح کے سلسلہ میں یہ آخری بات ہے جسے اللہ تعالی نے مجھے جمع کرنے کی توفیق بخشی ہے، اگر اس میں آپ کو صواب نظر آئے تو یہ اللہ تبارک و تعالی کا فضل و کرم ہے، اور وہی فضل واحسان والا ہے، اور اگر کوئی غلطی اور کمی ملے تو کسی غلطی پر واقف ہونے والے ہر شخص سے میری گزارش ہے کہ وہ مجھے اس کی نشاندہی کرائے ، اللہ تبارک وتعالی اسے اس کا اچھا بدلہ دے گا۔
وسبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك. وصلى الله على محمد النبي الأمي وعلى آله و صحبه وسلم.
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين.
 
Top